Sunday, January 27, 2013
Saturday, January 26, 2013
پاکستان کا ایٹمی پروگرام اور اسرائیلی جاسوس
پاکستان کا ایٹمی پروگرام اور اسرائیلی جاسوس
************************** ************************** *******
جوناتھن پولارڈ نامی ایک اسرائیلی جاسوس کو یہ ذمے داری دی گئی تھی کہ وہ پاکستان کی ایٹمی پروگرام کے بارے میں معلومات حاصل کرے۔ اس بات کا انکشاف اس ہفتے ریلیز ہونے والی دستاویز میں کیا گیا ہے۔
1984 سے 1985 تک پولارڈ نے اسلام آباد کے قریب واقع ایک نیوکلیئر ری پروسیسنگ پلانٹ کی معلومات کے کئی سیٹس اسرائیلی حکام کے حوالے کئے اور یہ آفیشل امریکی ڈاکیومنٹ تھے۔
پولارڈ، اگرچہ امریکی شہری ہیں لیکن امریکی بحریہ سے وابستہ رہتے ہوئے انہوں نے اسرائیل کے لئے جاسوسی کی۔ 1987 انہیں اسی بنیاد پر عمر قید کی سزا دی گئی لیکن انہیں 21 نومبر 1987 میں پے رول پر رہا بھی کیا جاسکتا ہے۔
14 دسمبر، 2012 کو سی آئی اے نے ایک خفیہ دستاویز جاری کی جس کا نام ‘ جوناتھن جے پولارڈ جاسوسی کیس، نقصان کا اندازہ’ ہے اور یہ رپورٹ 30 اکتوبر 1987 کو تیار کی گئی تھی۔
یہ دستاویز، جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے نیشنل سیکیورٹی آرکائیو پروجیکٹ کی اپیل پر جاری کی گئی ہے جس میں پولارڈ کے جاسوسی مشن پر معلومات موجود ہیں۔ یہ ایک غیر منافع بخش ادارہ ہے جس کا مقصد امریکہ میں خفیہ اور در پردہ معلومات کو کم سے کم کرکے اس کی لوگوں تک رسائی فراہم کرنا ہے۔
پولارڈ کیخلاف عدالتی کارروائی میں سابق امریکی وزیرِ دفاع کیسپر وائنبرگر نے بتایا تھا کہ پولارڈ کو جو خفیہ دستاویز دی گئیں ان سے چھ فٹ چوڑا، اتنے ہی فٹ لمبا اور دس فٹ اونچا کمرہ بھرا جاسکتا ہے۔
سی آئی اے کی تفصیلات سے معلوم ہوا ہے کہ پولارڈ کو عرب ( اور پاکستانی ) نیوکلیئر پروگرام، عرب ممالک کی جانب سے باہر سے خریدے گئے ہتھیاروں اور کیمیائی اسلحے، سوویت جنگی ہوائی جہاز، سوویت ایئر ڈیفینس سسٹم، فضا سے فضا تک مارکرنےوالے میزائلوں اور عرب افواج کی تیاریوں میں خصوصی دلچسپی تھی۔
دستاویز میں بڑا حصہ وہاں سے سینسر کیا گیا ہے جس میں پولارڈ کی جاسوسی کا اسرائیلی فائدے پر بحث کی گئی ہے۔ صفحہ 58 پر لکھا ہے کہ پولارڈ نے اسرائیل کےلئے مٹیریل بھی چُرایا اور کافی فوائد ۔۔۔ ( سینسر)۔
پھرصفحہ 59 پر لکھا ہے ( سینسر) پولارڈ نے تیونس میں پی ایل او ہیڈ کوارٹر سے متعلق معلومات بھی دیں۔ ساتھ ہی تیونس اور لیبیا کے ایئر ڈیفینس کے بارے میں معلومات فراہم کی اور اسلام آباد کے قریب پاکستان کے نیوکلیئر ری پروسیسنگ پلانٹ پر بھی دستاویز فراہم کی تھیں۔
اکتوبر 1985 میں اسرائیل نے ان معلومات کی بنا پر تیونس میں واقع پی ایل اور کے صدر دفاتر پر حمہ کیا تھا۔
ٓرکائیو کی ویب سائٹ پر پوسٹ کی گئی دستاویز میں تقریباً دس جگہ پاکستان اور اس کی ایٹمی تنصیبات کا ذکر ہے جسے مٹایا گیا ہے۔ بعض ڈاکیومینٹس میں افغان جنگ اور اس میں پاکستان کے کردار پر بھی بات کی گئی ہے۔
اگرچہ سی آئی اے کی دستاویزات سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ امریکی پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں کتنا کچھ جانتے تھے لیکن اسی ویب سائٹ پر پوسٹ کردہ دوسری دستاویز میں ایسا نہیں ہے۔
ریکارڈ سے ظاہر ہے کہ 1980 کے عشرے میں امریکی یہ جانتے تھے کہ پاکستان ایٹمی میدان میں خاصی پیش رفت کررہا ہے لیکن افغانستان میں جاری سوویت جنگ میں اسلام آباد کی حمایت کے بدلے پاکستان کیخلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ پھر جولائی 1982 میں ریگن حکومت نے سی آئی اے کے سابق نائب سربراہ جنرل ورنن والٹرز کو جنرل ضیاء الحق کے پاس روانہ کیا تاکہ انہیں ایٹمی پروگرام میں پاکستانی کی خفیہ اور تیز رفتار پیش رفت پر واشنگٹن کی تشویش سے آگاہ کیا جاسکے۔
پھر 1986 میں آرمز کنٹرول اور ڈس آرمامنٹ ایجنسی کے ڈائریکٹر، کینتھ ایڈلمان نے بھی وائٹ ہاوس کو خبردار کیا کہ پاکستان ایٹمی پروگرام آگے بڑھا رہا ہے۔
ایک دستاویز سے تو یہ دلچسپ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ریگن انتظامیہ یہاں تک چاہتی تھی کہ پاکستان اپنے خفیہ راز انہیں نہ بتائے کیونکہ اس صورت میں سچ سامنے آجانے پر کانگریس کے سامنے یہ ثابت کرنا مشکل ہوجاتا کہ پاکستان ایٹمی پروگرام پر کام نہیں کررہا ۔ اس سے افغان مزاحمت کو نقصان پہنچنے کا بھی اندیشہ تھا۔
ریکارڈ کے مطابق اس وقت بھی پاکستان اور امریکہ کے درمیان اعتماد اور بھروسے کی کمی تھی اور آج بھی ہے۔
1981 کے موسمِ سرما میں امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے انٹیلی جنس کی بنا پر اندازہ لگایا کہ ‘ اس وقت پاکستان ایک کار آمد بم بنانے کے قابل ہوچکا ہے،’ تاہم کہوٹہ پلانٹ سے حاصل شدہ افزودہ (اینرچڈ) یورینیم سے 1983سے قبل ایسا کرنا ممکن نہ تھا۔ اس بارے میں وزیرِ خارجہ جارج شلٹز نے صدر ریگن کو خبردار بھی کیا تھا۔
اس کے بعد 1987 میں سینیئر اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ آفیشلز نے لکھا کہ جنرل ضیا ایٹمی پروگرام کے بارے میں اپنی حد سے تجاوز کررہے ہیں۔
لیکن صدر جمی کارٹر کے دنوں میں امریکہ نے دوسری اقوام پر زبردست دباو ڈالا کہ وہ پاکستان کو کسی بھی طرح حساس ایٹمی ٹیکنالوجی فراہم نہیں کریں۔ ان کا خیال تھا کہ اس طرح سے وہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو نہ صرف تاخیر سے دوچار کرسکتے ہیں بلکہ اسے پیچھے بھی لے جایا جاسکتا ہے۔
اسی سلسلے میں 1987 امریکہ میں کسٹم حکام نے ایک پاکستانی ارشد پرویز کو گرفتار کیا جو کہوٹہ پلانٹ کے لئے خاص قسم کا فولاد اسمگل کرنے کی کوشش رہے تھے لیکن اس موقع پر بھی ریگن انتظامیہ نے کہا کہ پاکستان ( اب بھی) ایٹمی ہتھیار نہیں رکھتا ۔
Sunday, January 20, 2013
Thursday, January 17, 2013
بوڑھا درخت
عرصہ پہلے ایک جگہ سیب کا ایک بہت بڑا درخت تھا اور روزانہ ایک بچہ وہاں آکر اُس درخت کے اِرد گِرد کھیلا کرتا تھا وہ
بچہ اس درخت کی ٹہنیوں سے چمٹ چمٹ کر اس کی چوٹی پر چڑھتا اس کے سیب کھاتا اور تھک کر اس کے سایے کے نیچے لیٹ کر مزے سے اونگھتا وہ بچہ اس درخت سے محبت کرتا تھا اوروہ درخت بھی اس سے محبت کرتا تھا اور اس کے ساتھ کھیلنا پسند کرتا تھا۔ وقت گذرا اور بچہ بڑا ہو گیا
اور پھر بچہ ہر روز درخت کے ارد گِرد نہیں کھیلتا تھا ایک دن بچہ واپس آ گیا لیکن وہ دُکھی تھا
درخت نے کہا آؤ میرے ساتھ کھیلو
بچے نے جواب دیا میں اب اتنا چھوٹا نہیں رہا کہ درختوں کے اِرد گِرد کھیلوں مجھے کھلونے چاہیں ، اور کھلونے خریدنے کے لیے مجھے پیسے چاہیں
درخت نے کہا """ میرے پاس تو پیسے نہیں ہیں """
لیکن یہ ہو سکتا ہے کہ تُم میرے سارے کے سارے سیب لے لو اور انہیں بیچ دو تاکہ تُمہیں پیسے مل جائیں
بچہ بہت ہی خوش ہو گیا بچہ درخت پر چڑھا اور سارے سیب توڑ لیے اورخوشی خوشی وہاں سے چلا گیادرخت نے اپنے سارے پھل کھو دیے لیکن اُس کی خُوشی سے بہت ہی کم تھا وہ خُوشی جو اُسے بچے کی خُوشی دیکھ کر ہوئی لیکن درخت کی خوشی کچھ زیادہ دیر تک نہ رہ سکی کیونکہ ، بچہ سیب لے جانے کے بعد واپس نہیں آیالہذا درخت دُکھی ہو گیا
پھر ایک دن اچانک وہ بچہ واپس آ گیا لیکن اب وہ ایک مرد بن چکا تھا درخت اُس کے آنے پر بہت ہی زیادہ خوش ہوا اور
اس سے کہا آؤ میرے ساتھ کھیلو
بچے نے جواب دیا میرے پاس کھیل کے لیے وقت نہیں کیونکہ مجھے اپنے بیوی بچوں کے لیے کام کرنا ہے میں ایک گھر چاہیے جو ہمیں تحفظ دے سکےکیا تُم میری مدد کر سکتے ہو؟
مجھے افسوس ہےمیرے پاس تو کوئی گھر نہیں لیکن تُم اپنا گھر بنانے کے لیے میری ٹہنیاں اور شاخیں کاٹ سکتے ہو
اُس آدمی نے درخت کی ساری ہی ٹہنیاں اور شاخیں لے لیں اورپھر خوشی خوشی سے چلا گیا جس طرح وہ پہلے اس کے پھل لے کر چلا گیا تھا درخت اس کو خوش دیکھ کر پھر سے بہت خُوش ہوا اور وہ ایک دفعہ پھر غائب ہو گیا اور درخت کے پاس واپس نہ آیا درخت ایک دفعہ پھر اکیلا ہو گیا ، دُکھی ہو گیا
پھر ایک لمبے عرصے کے بعد ، گرمیوں کے ایک گرم دِن میں وہ آدمی واپس آیا اوردرخت ایک دفعہ پھر خُوشی کی انتہاء کو چُھونے لگا اب ہی شاید یہ میرے ساتھ کھیلے
آؤ میرے ساتھ کھیلو درخت نے کہا
آدمی نے درخت سے کہا میں اب بوڑھا ہو گیا ہوں اور چاہتا ہوں کہ کسی دریا میں کشتی رانی کرتے ہوئے کسی پرسکون جگہ میں جا پہنچوں آدمی نے درخت سے کہا کیا تُم مجھے ایک کشتی دے سکتے ہو؟
درخت نے کہا تُم میرا تنا لے کر اس کی کشتی بنا لو اس طرح تُم اس کے ذریعے دور تک جا سکتے ہو اور خوش ہو سکتے ہو
تو اُس آدمی نے درخت کا تنا کاٹ لیا اور اس کی کشتی بنا لی اور پھر آدمی کشتی میں سوار ہو کر چلا گیا اور ایک لمبی مدت تک واپس نہ آیا آخر کار دیر تک غائب رہنے کے بعد وہ آدمی واپس آیا اُسے دیکھ کر درخت نے دُکھ سے کہا
مجھے افسوس ہے میرے بیٹے کہ اب میرے پاس تُمہیں دینے کے لیے اور کچھ نہیں اور کہا تُمارے لیے اب اور سیب بھی نہیں ہیں
آدمی نے کہا کوئی بات نہیں اب میرے دانت بھی نہیں جن سے میں سیب کو کاٹ سکتا
تُمارے کودنے پھاندنے کے لیے اب میرا تنا بھی نہیں
تو آدمی نے کہا میں اب بوڑھا ہو گیا ہوں ایسا کام نہیں کر سکتا
درخت نے کہا
میرے بیٹے اب میرے پاس واقعتا کچھ بھی نہیں جو میں تمہیں دے سکوں اب صرف میری مرتی ہوئی جڑیں ہی بچی ہیں درخت نے روتے ہوئے آنسوؤں سے لبریز آواز میں کہا
آدمی نے کہا
اب مجھے صرف کوئی ایسی جگہ چاہیے جہاں میں سُکون سے آرام کر سکوں
بہت اچھی بات ہے بوڑھے درخت کی بوڑہی جڑیں تُمارے آرام کرنے کے لیے بہت اچھی جگہ ہیں
درخت نے کہا
آؤ میرے ساتھ بیٹھو تا کہ تُم سُکون پاؤ ،،،آ جاؤ
آدمی درخت کے پاس آ بیٹھا درخت پھر سے خُوش ہو گیا مسکرایا اور اُس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھری ہوئی تِھیں
کیا آپ جانتے ہیں یہ درخت کون ہے ؟؟؟
یہ درخت آپ کے والدین ہیں،،،،
جنہوں نے آپ کی خوشیوں کی خاطر آپ کے آرام کی خاطر آپ کی خواہشوں کو پوری کرنے کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کر دیا
اپنے والدین کی قربانیوں کی قدر کیجئے ، آپ ان کا حق تو کبھی بھی ادا نہیں کر سکتے مگر انکی خوب خدمت اور فرمانبرداری کیجئے تا کہ آپ کی دنیا اور آخرت سنور جائے ان شاء الله !
Thursday, January 10, 2013
A Straight warning to India and Israel
Wednesday, January 9, 2013
ایک بہت ہی عجیب واقعہ
ایک بہت ہی عجیب واقعہ حافظ ابن عساکر نے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے۔ ایک صاحب فرماتے ہیں کہ میں ایک خچر پر لوگوں کو دمشق سے زیدانی لے جایا کرتا تھا اور اسی کرایہ پر میری گذر بسر تھی ۔ ایک مرتبہ ایک شخص نے خچر مجھ سے کرایہ پر لیا۔ میں نے اسے سوار کیا اور چلا ایک جگہ جہاں دو راستے تھے جب وہاں پہنچے تو اس نے کہا اس راہ پر چلو ۔ میں نے کہا میں اس سے واقف نہیں ہوں۔ سیدھی راہ یہی ہے۔
اس نے کہا نہیں میں پوری طرح واقف ہوں، یہ بہت نزدیک راستہ ہے۔ میں اس کے کہنے پر اسی راہ پر چلا تھوڑی دیر کے بعد میں نے دیکھا کہ ایک لق ودق بیابان میں ہم پہنچ گئے ہیں جہاں کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔ نہایت خطرناک جنگل ہے ہر طرف لاشیں پڑی ہوئی ہیں۔ میں سہم گیا۔ وہ مجھ سے کہنے لگا ذرا لگام تھام لو مجھے یہاں اترنا ہے میں نے لگام تھام لی وہ اترا اور اپنا تہبند اونچا کرکے کپڑے ٹھیک کرکے چھری نکال کر مجھ پر حملہ کیا۔ میں وہاں سے سرپٹ بھاگا لیکن اس نے میرا تعاقب کیا اور مجھے پکڑلیا میں اسے قسمیں دینے لگا لیکن اس نے خیال بھی نہ کیا۔
میں نے کہا اچھا یہ خچر اور کل سامان جو میرے پاس ہے تو لے لے اور مجھے چھوڑ دے اس نے کہا یہ تو میرا ہو ہی چکا لیکن میں تجھے زندہ نہیں چھوڑنا چاہتا میں نے اسے اللہ کا خوف دلایا آخرت کے عذابوں کا ذکر کیا لیکن اس چیز نے بھی اس پر کوئی اثر نہ کیا اور وہ میرے قتل پر تلا رہا۔ اب میں مایوس ہوگیا اور مرنے کے لئے تیار ہوگیا۔ اور اس سے منت سماجت کی کہ تم مجھے دو رکعت نماز ادا کرلینے دو۔ اس نے کہا اچھا جلدی پڑھ لے ۔ میں نے نماز شروع کی لیکن اللہ کی قسم میری زبان سے قرآن کا ایک حرف نہیں نکلتا تھا ۔ میں یونہی ہاتھ باندھے دہشت زدہ کھڑا تھا اور وہ جلدی مچا رہا تھا اسی وقت اتفاق سے یہ آیت میری زبان پر آگئی ۔
أَمَّن يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْضِ ۗ أَإِلَٰهٌ مَّعَ اللَّهِ ۚ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ
النمل:62
ترجمہ: بھلا کون بیقرار کی التجا قبول کرتا ہے۔ جب وہ اس سے دعا کرتا ہے اور (کون اس کی) تکلیف کو دور کرتا ہے اور (کون) تم کو زمین میں (اگلوں کا) جانشین بناتا ہے (یہ سب کچھ خدا کرتا ہے) تو کیا خدا کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے (ہرگز نہیں مگر) تم بہت کم غور کرتے ہو
پس اس آیت کا زبان سے جاری ہونا تھا جو میں نے دیکھا کہ بیچوں بیچ جنگل میں سے ایک گھڑ سوار تیزی سے اپنا گھوڑا بھگائے نیزہ تانے ہماری طرف چلا آرہا ہے اور بغیر کچھ کہے اس ڈاکو کے پیٹ میں اس نے اپنا نیزہ گھونپ دیا جو اس کے جگر کے آر پار ہوگیا اور وہ اسی وقت بےجان ہو کر گر پڑا۔ سوار نے باگ موڑی اور جانا چاہا لیکن میں اس کے قدموں سے لپٹ گیا اور بہ الحاح کہنے لگا اللہ کے لئے یہ بتاؤ تم کون ہو؟ اس نے کہا میں اس کا بھیجا ہوا ہوں جو مجبوروں بےکسوں اور بےبسوں کی دعا قبول فرماتا ہے اور مصیبت اور آفت کو ٹال دیتا ہے۔ میں نے اللہ کا شکر کیا اور اپنا سامان اور خچر لے کر صحیح سالم واپس لوٹا۔
Tuesday, January 8, 2013
انڈیا کو پسندیدہ ملک قرار نہ دینے پر حنا ربانی پریشان کیوں؟
انڈیا کو پسندیدہ ملک قرار نہ دینے پر حنا ربانی پریشان کیوں؟
***********************
گزشتہ ہفتے کا سب سے حیرت انگیز اور پاکستانیوں کیلئے خوش کن واقعہ یہ ہے کہ وفاقی کابینہ کی منظوری کے باوجود وفاقی وزیر تجارت مخدوم امین فہیم نے بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے سے انکار کر دیا جس پر وفاقی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر انتہائی برہم رہی۔ انہوں نے شدید تنقید کی ہے کہ جب وفاقی کابینہ نے منظوری دیدی تھی کہ انڈیا کو یکم جنوری 2013ءتک پسندیدہ ملک قرار دے دیا جائے گا تو پھر مخدوم امین فہیم کی وزارت تجارت نے درمیان میں رختہ کیوں ڈالا۔ ادھر مخدوم امین فہیم کا کہنا ہے کہ اس اہم مسئلہ پر پاکستانی بزنس کمیونٹی کے شکوک و شہبات کو ختم کئے بغیر پاکستان انڈیا کو پسندیدہ ملک کا درجہ قرار نہیں دے سکتا حیرت ہے حنا ربانی کھر کو نجانے انڈیا کی حکومت نے کیا خواب دکھائے ہیں کہ انہوں نے انڈیا کو پسندیدہ ملک قرار نہ دینے کو اپنی انا کا مسئلہ بنا لیا ہے اور حقائق کا ادراک کئے بغیر کہ اگر انڈیا کو پسندیدہ ملک کا درجہ دے دیا جاتا ہے تو پاکستان کی معیشت پر اس کے کتنے گہرے منفی اثرات مرتب ہوں گے یہی نہیں بلکہ سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی پر پاکستان نے عالمی عدالت سے بھی رجوع کیا ہوا ہے انڈیا کو حکومتی سطح پر پسندیدہ ملک قرار دینے سے پاکستان سندھ طاس معاہدہ کے حوالے سے اپنا کیس جیتنے سے پہلے ہی ہار جائے گا کیونکہ پوری دنیا پاکستان کی نیک نیتی پر شک کرے گی کہ ایک طرف تو انڈیا کو پسندیدہ ملک کا سرکاری درجہ دیا جا رہا ہے اور دوسری طرف اس ملک کے خلاف عالمی عدالت انصاف سے رجوع کیا جا رہا ہے صرف یہی ایک نکتہ نہیں بلکہ انٹرنیشنل انٹلکچوائل رائٹس کے بھی متعدد مقدمات دائر ہیں جن میں پاکستان نے ان دعوﺅں کی نفی کی ہے جس کے مطابق بہت سی پاکستانی اور جن کی مصنوعات کو انڈیا نے اپنا قرار دیکر اس کے مکمل انٹرنیشنل انٹلکچوئل رائٹس حاصل کرنے کے لئے دعویٰ کیا ہوا ہے انڈیا کو پسندید ملک قرار دینے سے کشمیر کا مسئلہ بھی دنیا کی نظر میں اہم نہیں رہے گا کیونکہ بھارت دنیا کو بتائے گا کہ اب اس مسئلہ پر عالمی برادری بشمول اقوام متحدہ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اب پاکستان کی طرف سے پسندیدہ ملک قرار دیئے جانے کے بعد ہم پاکستان سے اپنے مسائل آپس میں بیٹھ کر حل کر لیں گے۔ اور دوسری طرف پاکستانی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کی آنکھیںآزاد کشمیر میں انڈین فوج کی گولہ باری اور دراندازی سے بھی کھل جانی چاہئیں اب یہ معلوم نہیں کہ انڈین فوج نے روایتی گولہ باری پر اکتفا کیوں نہیں کیا کیونکہ پاکستان انڈیا کے بارڈرز پر چاند ماری تو معمول کاقصہ ہے لیکن اس مرتبہ شائد کرکٹ کے میدان میں پاکستان سے شکست نے انڈین فوجیوں کو جارحانہ پیش قدمی پر مجبور کر دیا اب یہ الگ بات ہے کہ جب پاک فوج نے جوابی کارروائی کی تو انڈین فوجی حسب روایت میدان چھوڑ کر بھاگ گئے اور اپنے علاقے میں آکر سکھ کا سانس لیا۔ ویسے حنا ربانی کھر کو موجودہ کرکٹ سیریز سے بھی بہت کچھ سیکھنے کو مل سکتا ہے کہ پاکستان نے انڈیا کو شدید ہذیمت سے بچانے کیلئے انڈیا کو تیسرا ون ڈے میچ مفاہمت کی پالیسی کے تحت جیتنے کا موقع دیا لیکن بھارتی میڈیا اور عوام کے غیض و غضب سے مستقبل میں بچنے کے لئے انڈیا نے صاف اعلان کر دیا ہے کہ وہ آئندہ پاکستان کا دورہ بھی اتنی دیر تک نہیں کرے گا جب تک وہ یہ نہ سمجھے کہ پاکستان میں ان کی سکیورٹی کے انتظامات ان کی فہم کے مطابق ہیں اور یہ سمجھ نہیں آیا کہ کسی نیوٹرل مقام پر کھیلنے سے کیوں انکار کر دیا ہے۔ پاکستان کی وزارت خارجہ اپنی خارجہ پالیسی کو متوازن بنائے ہمارے لئے انڈیا اور افغانستان کی سب سے زیادہ اہمیت یہی ہے اسلامی ممالک کے بعد یورپی یونین جاپان اور دوسرے ممالک سے بھی تعلقات مزید خوشگوار بنانے کی ضرورت ہے چین سے مزید اپنے تجارتی تعلقات بڑھانے کی ضرورت ہے۔
*************************
کالم نگار | محمد مصدق
*************************
Monday, January 7, 2013
عورت کےپیچھے سےصحبت کرناحرام ہے
**عورت کےپیچھے سےصحبت کرناحرام ہے**
حدیث:
عورتوں کےپچھلےحصے (دبرمیں) صحبت نہ کرو، اللہ حق بات کہنےسے حیاء نہیں فرماتا
(ترمذی، حدیث # 1163، ابواب الرضاع، راوی: علی بن طلق رضی اللہ عنہ)
حدیث:
"جوشخص اپنی بیوی کےدبر میں مباشرت کرتاہےوہ لعنتی ہے".
(ابوداؤد، کتاب النکاح، درجہ: حسن، حدیث #2162، باب: نکاح کےمختلف مسائل، راوی: ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ)
ہمارے بچے روتے ہیں تو کھلونوں کیلیےُ۔۔ لیکن جوقوم بیدار ہوجاےُ تو ان کے بچے روتے ہیں انقلاب کیلیےُ۔۔ جی ہاں۔۔ اک سچا مگر انتہایُ جذباتی واقعہ جسے دیکھ کر آپ بھی داد دیں ایسے بچی کو جو ہاتھ میں پرچی لیکر اپنے لیڈر کے پاس پہنچنے کی ضد کر رہی ہے۔ —
بین الاقوامی, حالات ِ حاضرہ
Dec 16 2012
بین الاقوامی, حالات ِ حاضرہ
سنتے ہیں کہ امریکہ میں بیس سال سے کم عمر کی اسی فیصد لڑکیاں کنواری ہی نہیں رہتیں جبکہ ہر سال ایک ملین سے زائد بچیاں ناجائز طور پرحاملہ ہوجاتی ہیں۔ مانع حمل ادویات کا استعمال معمول ہے۔ پیٹ میں پلنے والی گناہ کی نشانیوں پر مانع حمل ادویات کے ڈرون حملوں کی مد میں سالانہ سات بلین ڈالر خرچ کئے جاتے ہیں۔ ناجائز بچے پیدا کرنے والی چھپن فیصد کنواری مائیں زیادہ شراب نوشی، سگریٹ نوشی اور دیگر نشہ آور اشیا کے استعمال کی وجہ سے نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی طور پر بھی لاغر ہوجاتی ہیں جس کی وجہ سے ان کے بچے جو پہلے ہی نامعلوم باپ کی وجہ سے محرومی کا شکار ہوتے ہیں۔ ماں کی طرف سے بھی توجہ نہ حاصل کرنے کی وجہ سے بے راہ روی کا شکار ہوکر معاشرے میں بگاڑ اور خرابیوں کا سبب بن جاتے ہیں، تعلیمی ناکامی کا سامنا کرنے پر ذہنی اورغیر ہموار اقتصادی صورتحال انہیں مزید ذہنی مفلوج بنا دیتی ہے۔ اور پھر وہی ہوتا ہے جوامریکی ریاست کنیٹی کٹ میں ایک ذہنی مریض نے پہلے اپنی ماں اور پھر سکول کے معصوم بچوں کیساتھ کیا۔ اپنی زندگی کا خاتمہ کرنے سے پہلےاس نوجوان نے بیس بچوں سمیت چھبیس افراد کی زندگیوں کے چراغ گل کردئے۔ ہیروشیما اور ناگی ساکی سے لیکر ویتنام اور پھرعراق و لیبیا سے لیکرافغانستان تک امن گردی کے نام نہاد علمبردار بھیڑیوں کے صاف ستھرے اور تعلیم یافتہ معاشرے کے گورے لوگ اب کالی کرتوتوں اور بربریت کی اس حد تک پہنچ چکے ہیں جس کے بعد خدا کی بے آواز لاٹھی بھی برسنے سے نہیں رکتی۔ جنگوں میں درندگی و سفاکی اور جارحیت کی توجیع تو پیش کی جاسکتی ہے کہ مقتول ہمارے جانی دشمن تھے۔ ڈرون حملوں میں مارے جانے والےاسلامی دہشت گردوںکو امریکہ کی سلامتی کیلیے خطرہ یا معصوم بچوں کو مستقبل کے ممکنہ دہشت گرد قرار دیکر جان چھڑائی جا سکتی ہے۔ لیکن کنیٹی کٹ کےاس پرائمری سکول کے ہموطن بچے نہ تو جاپانی تھے نہ عراقی اور افغانی۔ وہ نہ تو اسرائیل کے وجود کیلئے خطرہ سمجھے جانے والے فلسطینی تھےاور نہ ہی پشتو، عربی، ازبک یا تاجک زبان بولنے والےاسلامی شدت پسند تھے تو پھران معصوموں کو کس جرم میں قتل کردیا گیا۔ فائرنگ کرنے والے امریکی شخص ایڈم لینزا نے حیران کن طور پر کسی تربیت یافتہ کمانڈو جنگجو کی طرح سیاہ کپڑوں کے ساتھ بلٹ پروف جیکٹ بھی پہن رکھی تھی اور وہ بہت سارے ہتھیاروں سے لیس تھا مگر یہ واضح نہیں ہےکہ اس ” امریکی طالبان” نے ایک گن کے علاوہ باقی ہتھیار استعمال بھی کیے یا نہیں۔ پنٹاگون کو کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ سکول کے بچوں کا قاتل نہ تو پاکستانی ہے نہ مسلمان اور نہ ہی اس نے دہشت گردی کی تربیت سوات یا وزیرستان سے حاصل کی ہے۔ باخدا قاتل کے پاس نہ تو حسن نصراللہ کا مہیا کردہ کوئی راکٹ لانچر تھا اور نہ ہی اس سے کشمیر لبریشن فرنٹ سے ملی ہوئی کوئی خودکار بندوق برامد ہوئی۔ یہ بھی طے ہے کہ نہ تو وہ اجمل قصاب کا رشتے دار تھا اور نہ ہی اسامہ بن لادن کے خاندان کا چشم و چراغ لیکن پھر بھی اس نے کسی ماہر ترین دہشت گرد کی طرح صرف دس پندرہ منٹ میں ستائیس افرادکوانتہائی سفاکی سے موت کے گھاٹ اتار دیا۔
اب ذرا سوچیے کہ جیو کی محبوب تعلیم یافتہ قوم کے اس گورے سپوت کو کس عالیشان امریکی یونیورسٹی سے انسانیت اور انسانی حقوق کی ایسی اعلی تعلیم ملی اور کون سے روشن خیال اساتذہ نے اسے اس اخلاقیات کا اعلی درس دیا تھا؟ احباب یاد کیجیے کہ امریکی اور ان کے سب اسلام دشمن حواریوں، پاکستان مخالف چیلوں نے ملالہ ڈرامہ رچائے جانے کے بعد کیا کیا کھیل تماشے دکھائے۔ میڈونا سے لے کر انجلینا جولی اور الطاف حسین سے لیکرعاصمہ جہانگیرتک انسانیت کے سب دوستوں نے کتنے ہوش ربا رقص پروگرام کیے کتنے چراغ جلائے، کتنے اشک بہائےاور مسلمان دہشت گردوں کو کتنے کوسنے سنائے لیکن ذرا سوچیے کہ ان امن گرد تعلیم یافتہ”نیک پاک” لوگوں میں ایسا قاتل طالبان کہاں سے گھس آیا؟ شاید وہیں سے جہاں سے قوم لوط پر پتھروں کی بارش برسی اور فرعون کی غرقابی کیلئے نیل کی خونی لہریں نازل ہوئیں تھیں۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے دو ہزار سات میں بھی ایسا ہی ایک طالبان کوہ قاف سے اتر کر امریکہ میں داخل ہوا تھا جس کے ہاتھوں ورجینیا ٹیک میں ہونے والی فائرنگ کے نتیجے میں بتیس افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ اس ہولناک المیہ پر امریکہ کے امن پسند صدر اوباما نے اپنی مظلوم قوم کی ڈھارس بندھانے اور تسلی دینے کیلئے لڑکھڑاتی آواز اور آنسوؤں کا نذرانہ پیش کیا ہے۔ اس سانحے پر ہر ہر درد مند انسان افسردہ ہے سو ہم بھی مغموم ہیں ہیں کہ بچے تو معصوم ہوتے ہیں۔ اسی حوالے سے آج ایک کالم میں پڑھا تو چند ماہ قبل افغانستان میں ایک جنونی امریکی فوجی کے ہاتھوں بربریت کا نشانہ بننے والے سترہ بچوں اورعورتوں کی موت کا غم پھر سے تازہ ہو گیا۔ رابرٹ بیلز نامی اس امریکی فوجی کی اس ہولناک امن گردی پر امریکہ نے اسے ریمنڈ ڈیوس جیسا انعام دیا یا کچھ اور یہ ابھی تک معلوم نہیں ہوسکا۔ لیکن ہاں ریمنڈ ڈیوس، رابرٹ بیلز کے ہاتھوں یا ڈرون حملوں سے مرنے والے معصوم اور بیگناہوں کے پیارےابھی تک آسمانوں کی طرف مونہہ اٹھائے نوحہ خوانی ضرور کرتے ہیں۔ آج بھی وزیرستان میں امریکی ڈرون حملوں میں مرنے والے معصوم دہشت گردوں بچوں کے جلے ہوئے افسردہ کھلونے تباہ شدہ گھروں کے ملبے تلے دبے رو رہے ہوں گے لیکن ملالہ جی کی کتاب پر سج سجا کر بٹھایا ہوا کیوٹ ٹیڈی بیئر ہمیشہ مسکراتا رہتا ہے۔ گویا خاموشی کی زبان میں کہہ رہا ہو کہ زمانہء جدید کے سفاک امریکی فرعونوں کے مکافات عمل کا شکار ہونے کا آغاز ہو چکا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ فاروق درویش
KARACHI: Hydrolic Turbine is being used to produce electricity from sea-water waves.
KARACHI: Hydrolic Turbine is being used to produce electricity from sea-water waves.
پاکستان نیوی انجینئرنگ کالج کے طلبا نے سمندر کی منہ زور لہروں سے بجلی پیدا کرنے کا کارنامہ انجام دیا ہے، ویو انرجی کو استعمال کرتے ہوئے ہائیڈرولک ٹربائن چلانے کا تجربہ کامیاب ہوگیا ہے،
سمندر کی لہروں سے زیادہ ایڈوانس طریقے سے ہائیڈرولک پریشر بناکر ٹربائن چلانے کا کامیاب تجربہ کیا گیا ہے یہ طریقہ لہروں کی آمد میں وقفے کے باوجود ایک accumulator میں جمع شدہ پریشر کے ذریعے مسلسل بجلی فراہم کرتا ہے، انھوں نے بتایا کہ پاکستانی سمندری حدود میں ہر ایک میٹر کی لہر سے 15 کلو واٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے عموماً کراچی کے ساحل پر ڈیڑھ منٹ بعد دوسری بڑی لہر آتی ہے۔
نام محمّد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم
اورنگ زیب عالمگیر بڑا مشہور مغل شہنشاہ گزرا ہے اس نے ہندوستان پر تقریباً 50سال حکومت کی تھی۔ ایک دفعہ ایک ایرانی شہزادہ اسے ملنے کے لئے آیا۔ بادشاہ نے اسے رات کو سلانے کا بندوبست اس کمرے میں کرایا جو اس کی اپنی خوابگاہ سے منسلک تھا۔
ان دونوں کمروں کے باہر بادشاہ کا ایک بہت مقرب حبشی خدمت گزار ڈیوٹی پر تھا۔ اس کا نام محمد حسن تھا۔ اور بادشاہ اسے ہمیشہ محمد حسن ہی کہا کرتاتھا
اس رات نصف شب کے بعد ب...ادشاہ نے آواز دی’’حسن! ‘‘۔ نوکر نے لبیک کہا اور ایک لوٹا پانی سے بھرکر بادشاہ کے پاس رکھا اور خود واپس باہر آگیا۔ ایرانی شہزادہ بادشاہ کی آواز سن کر بیدار ہوگیا تھا اور اس نے نوکر کو پانی کا لوٹا لیے ہوئے بادشاہ کے کمرے میں جاتے دیکھا اور یہ بھی دیکھا کہ نوکر لوٹا اندر رکھ کر باہر واپس آگیا ہے۔ اسے کچھ فکر لاحق ہوگئی کہ بادشاہ نے تو نوکر کو صرف آواز دی تھی اور نوکر پانی کا لوٹا اس کے پاس رکھ کر واپس چلا گیا ہے۔ یہ کیا بات ہے؟
صبح ہوئی شہزادے نے محمد حسن سے پوچھا کہ رات والا کیا معاملہ ہے؟ مجھے تو خطرہ تھا کہ بادشاہ دن نکلنے پر تمہیں قتل کرادے گا کیونکہ تم نے بادشاہ کے کسی حکم کا انتظار کرنے کی بجائے لوٹا پانی سے بھر کر رکھ دیا اور خود چلے گئے۔
نوکر نے کہا:’’عالی جاہ !ہمارے بادشاہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسم گرامی بغیر وضو نہیں لیتے۔ جب انہوں نے مجھے حسن کہہ کر پکارا تو میں سمجھ گیا کہ ان کا وضو نہیں ہے ورنہ یہ مجھے ’’محمد حسن‘‘ کہہ کر پکارتے
اس لیے میں نے پانی کا لوٹا رکھ دیا تاکہ وہ وضوکرلیں۔
پاکستانی پرچم کی سربلندی
سمندر پار پاکستانی بھی پاکستانی پرچم کی سربلندی کےلئے سرگرم اٹلی میں مقیم پاکستانی نے سمندر کی 75 فٹ گہرائی میں قومی پرچم لہرادیا۔ قمر الزمان کا کہنا ہے کہ 100 فٹ کی گہرائی میں پاکستانی پرچم لہرانا چاہتا ہوں۔ مواقع فراہم کئے جائیں تو پاکستانی ہر شعبے میں نام پیدا کرسکتے ہیں۔ مقامی سوئمنگ سکول سے غوطہ خوری کی باقاعدہ تربیت حاصل کرنےوالے قمر الزمان نے نجی ٹی وی کو بتایا کہ وہ اب 100 فٹ گہرائی میں جاکر پرچم لہرانے کی کوشش کریں گے۔
Sunday, January 6, 2013
بغداد کا پہلوان
کسی زمانے میں بغداد میں جنید نامی ایک پہلوان رہا کرتا تھا۔ پورے بغداد میں اس پہلوان کے مقابلے کا کوئی نہ تھا۔ بڑے سے بڑا پہلوان بھی اس کے سامنے زیر تھا۔ کیا مجال کہ کوئی اس کے سامنے نظر ملا سکے۔ یہی وجہ تھی کہ شاہی دربار میں اس کو بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور بادشاہ کی نظر میں اس کا خاص مقام تھا۔
ا...یک دن جنید پہلوان بادشاہ کے دربار میں اراکین سلطنت کے ہمراہ بیٹھا ہوا تھا کہ شاہی محل کے صدر دروازے پر کسی نے دستک دی۔ خادم نے آکر بادشاہ کو بتایا کہ ایک کمزور و ناتواں شخص دروازے پر کھڑا ہے جس کا بوسیدہ لباس ہے۔ کمزوری کا یہ
عالم
ہے کہ زمین پر کھڑا ہونا مشکل ہو رہا ہے۔ اس نے یہ پیغام بھیجا ہے کہ جنید کو میرا پیغام پہنچا دو کہ وہ کشتی میں میرا چیلنج قبول کرے۔ بادشاہ نے حکم جاری کیا کہ اسے دربار میں پیش کرو۔ اجنبی ڈگمگاتے پیروں سے دربار میں حاضر ہوا۔ وزیر نے اجنبی سے پوچھا تم کیا چاہتے ہو۔ اجنبی نے جواب دیا میں جنید پہلوان سے کشتی لڑنا چاہتا ہوں۔ وزیر نے کہا چھوٹا منہ بڑی بات نہ کرو۔ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ جنید کا نام سن کر بڑے بڑے پہلوانوں کو پسینہ آ جاتا ہے۔ پورے شہر میں اس کے مقابلے کا کوئی نہیں اور تم جیسے کمزور شخص کا جنید سے کشتی لڑنا تمہاری ہلاکت کا سبب بھی ہو سکتا ہے۔ اجنبی نے کہا کہ جنید پہلوان کی شہرت ہی مجھے کھینچ کر لائی ہے اور میں آپ پر یہ ثابت کرکے دکھاؤں گا کہ جنید کو شکست دینا ممکن ہے۔ میں اپنا انجام جانتا ہوں آپ اس بحث میں نہ پڑیں بلکہ میرے چیلنج کو قبول کیا جائے۔ یہ تو آنے والا وقت بتائے گا کہ شکست کس کا مقدر ہوتی ہے۔
جنید پہلوان بڑی حیرت سے آنے والے اجنبی کی باتیں سن رہا تھا۔ بادشاہ نے کہا اگر سمجھانے کے باوجود یہ بضد ہے تو اپنے انجام کا یہ خود ذمہ دار ہے۔ لٰہذا اس کا چیلنج قبول کر لیا جائے۔ بادشاہ کا حکم ہوا اور کچھ ہی دیر کے بعد تاریخ اور جگہ کا اعلان کر دیا گیا اور پورے بغداد میں اس چیلنج کا تہلکہ مچ گیا۔ ہر شخص کی یہ خواہش تھی کہ اس مقابلے کو دیکھے۔ تاریخ جوں جوں قریب آتی گئی لوگوں کا اشتیاق بڑھتا گیا۔ ان کا اشتیاق اس وجہ سے تھا کہ آج تک انہوں نے تنکے اور پہاڑ کا مقابلہ نہیں دیکھا تھا۔ دور دراز ملکوں سے بھی سیاح یہ مقابلے دیکھنے کے لئے آنے لگے۔ جنید کے لئے یہ مقابلہ بہت پراسرار تھا اور اس پر ایک انجانی سی ہیبت طاری ہونے لگی۔ انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر شہر بغداد میں امنڈ آیا تھا۔
جنید پہلوان کی ملک گیر شہرت کسی تعارف کی محتاج نہ تھی۔ اپنے وقت کا مانا ہوا پہلوان آج ایک کمزور اور ناتواں انسان سے مقابلے کے لئے میدان میں اتر رہا تھا۔ اکھاڑے کے اطراف لاکھوں انسانوں کا ہجوم اس مقابلے کو دیکھنے آیا ہوا تھا۔ بادشاہ وقت اپنے سلطنت کے اراکین کے ہمراہ اپنی کرسیوں پر بیٹھ چکے تھے۔ جنید پہلوان بھی بادشاہ کے ہمراہ آ گیا تھا۔
سب
لوگوں کی نگاہیں اس پراسرار شخص پر لگی ہوئی تھیں۔ جس نے جنید جیسے نامور پہلوان کو چیلنج دے کر پوری سلطنت میں تہلکہ مچا دیا تھا۔ مجمع کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ اجنبی مقابلے کے لئے آئے گا پھر بھی لوگ شدت سے اس کا انتظار کرنے لگے۔ جنید پہلوان میدان میں اتر چکا تھا۔ اس کے حامی لمحہ بہ لمحہ نعرے لگا کر حوصلہ بلند کر رہے تھے۔
کہ اچانک وہ اجنبی لوگوں کی صفوں کو چیرتا ہوا اکھاڑے میں پہنچ گیا۔ ہر شخص اس کمزور اور ناتواں شخص کو دیکھ کر محو حیرت میں پڑ گیا کہ جو شخص جنید کی ایک پھونک سے اڑ جائے اس سے مقابلہ کرنا دانشمندی نہیں۔ لیکن اس کے باوجود سارا مجمع دھڑکتے دل کے ساتھ اس کشتی کو دیکھنے لگا۔ کشتی کا آغاز ہوا دونوں آمنے سامنے ہوئے۔ ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے گئے۔ پنجہ آزمائی شروع ہوئی اس سے پہلے کہ جنید کوئی داؤ لگا کر اجنبی کو زیر کرتے اجنبی نے آہستہ سے جنید سے کہا اے جنید ! ذرا اپنے کام میرے قریب لاؤ۔ میں آپ سے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔
اجنبی
کی باتیں سن کر جنید قریب ہوا اور کہا کیا کہنا چاہتے ہو۔
اجنبی بولا اے جنید ! میں کوئی پہلوان نہیں ہوں۔ زمانے کا ستایا ہوا ہوں۔ میں آل رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہوں۔ سید گھرانے سے میرا تعلق ہے میرا ایک چھوٹا سا کنبہ کئی ہفتوں سے فاقوں میں مبتلا جنگل میں پڑا ہوا ہے۔ چھوٹے چھوٹے بچے شدت بھوک سے بے جان ہو چکے ہیں۔ خاندانی غیرت کسی سے دست سوال نہیں کرنے دیتی۔ سید زادیوں کے جسم پر کپڑے پھٹے ہوئے ہیں۔ بڑی مشکل سے یہاں تک پہنچا ہوں۔ میں نے اس امید پر تمہیں کشتی کا چیلنج دیا ہے کہ تمہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھرانے سے عقیدت ہے۔ آج خاندان نبوت کی لاج رکھ لیجئے۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ آج اگر تم نے میری لاج رکھی تو کل میدان محشر میں اپنے نانا جان سے عرض کرکے فتح و کامرانی کا تاج تمہارے سر پر رکھواؤں گا۔ تمہاری ملک گیر شہرت اور اعزاز کی ایک قربانی خاندان نبوت کے سوکھے ہوئے چہروں کی شادابی کے لئے کافی ہوگی۔ تمہاری یہ قربانی کبھی بھی ضائع نہیں ہونے دی جائے گی۔
اجنبی شخص کے یہ چند جملے جنید پہلوان کے جگر میں اتر گئے۔ اس کا دل گھائل اور آنکھیں اشک بار ہو گئیں۔ سیدزادے کی اس پیش کش کو فوراً قبول کرلیا اور اپنی عالمگیر شہرت، عزت و عظمت آل سول صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان کرنے میں ایک لمحے کی
تاخیر
نہ کی۔ فوراً فیصلہ کر لیا کہ اس سے بڑھ کر میری عزت و ناموس کا اور کونسا موقع ہو سکتا ہے کہ دنیا کی اس محدود عزت کو خاندان نبوت کی اڑتی ہوئی خاک پر قربان کردوں۔ اگر سید گھرانے کی مرجھائی ہوئی کلیوں کی شادابی کے لئے میرے جسم کا خون کام آ سکتا ہے تو جسم کا ایک ایک قطرہ تمہاری خوشحالی کے لئے دینے کے لئے تیار ہوں۔ جنید فیصلہ دے چکا۔ اس کے جسم کی توانائی اب سلب ہو چکی تھی۔ اجنبی شخص سے پنجہ آزمائی کا ظاہری مظاہرہ شروع کر دیا۔
کشتی لڑنے کا انداز جاری تھا۔ پینترے بدلے جا رہے تھے۔ کہ اچانک جنید نے ایک داؤ لگایا۔ پورا مجمع جنید کے حق میں نعرے لگاتا رہا جوش و خروش بڑھتا گیا جنید داؤ کے جوہر دکھاتا تو مجمع نعروں سے گونج اٹھا۔ دونوں باہم گتھم گتھا ہو گئے یکایک لوگوں کی پلکیں جھپکیں، دھڑکتے دل کے ساتھ آنکھیں کھلیں تو ایک ناقابل یقین منظر آنکھوں کے سامنے آ گیا۔ جنید چاروں شانے چت پڑا تھا اور خاندان نبوت کا شہزادہ سینے پر بیٹھے فتح کا پرچم بلند کر رہا تھا۔ پورے مجمع پر سکتہ طاری ہو چکا تھا۔ حیرت کا طلسم ٹوٹا اور پورے مجمعے نے سیدزادے کو گود میں اٹھا لیا۔ میدان کا فاتح لوگوں کے سروں پر سے گزر رہا تھا۔ ہر طرف انعام و اکرام کی بارش ہونے لگی۔ خاندان نبوت کا یہ شہزادہ بیش بہا قیمتی انعامات لے کر اپنی پناہ گاہ کی طرف چل دیا۔
اس شکست سے جنید کا وقار لوگوں کے دلوں سے ختم ہو چکا تھا۔ ہر شخص انہیں حقارت سے دیکھتا گزر رہا تھا۔ زندگی بھر لوگوں کے دلوں پر سکہ جمانے والا آج انہی لوگوں کے طعنوں کو سن رہا تھا۔ رات ہو چکی تھی۔ لوگ اپنے اپنے گھروں کو جا چکے تھے۔ عشاء کی نماز سے فارغ ہوکر جنید اپنے بستر پر لیٹا اس کے کانوں میں سیدزادے کے وہ الفاظ بار بار گونجتے رہے۔ “آج میں وعدہ کرتا ہوں اگر تم نے میری لاج رکھی تو کل میدان محشر میں اپنے نانا جان سے عرض کرکے فتح و کامرانی کا تاج تمہارے سر پر رکھواؤں گا
جنید سوچتا کیا واقعی ایسا ہوگا کیا مجھے یہ شرف حاصل ہوگا کہ حضور سرور کونین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں سے یہ تاج میں پہنوں ؟ نہیں نہیں میں اس قابل نہیں، لیکن خاندان نبوت کے شہزادے نے مجھ سے وعدہ کیا ہے۔ آل رسول کا وعدہ غلط نہیں ہو سکتا یہ سوچتے سوچتے جنید نیند کی آغوش میں پہنچ چکا تھا نیند میں پہنچتے ہی دنیا کے حجابات نگاہوں کے سامنے سے اٹھ چکے تھے ایک حسین خواب نگاہوں کے سامنے تھا اور گنبد خضراء کا سبز گنبد نگاہوں کے سامنے جلوہ گر ہوا، جس سے ہر سمت روشنی بکھرنے لگی، ایک نورانی ہستی جلوہ فرما ہوئی، جن کے حسن و جمال سے جنید کی آنکھیں خیرہ ہو گئیں، دل کیف سرور میں ڈوب گیا در و دیوار سے آوازیں آنے لگیں الصلوۃ والسلام علیک یارسول اللہ۔
جنید سمجھ گئے یہ تو میرے آقا ہیں جن کا میں کلمہ پڑھتا ہوں۔ فوراً قدموں سے لپٹ گئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے جنید اٹھو قیامت سے
پہلے
اپنی قسمت کی سرفرازی کا نظارہ کرو۔ نبی ذادوں کے ناموس کے لئے شکست کی ذلتوں کا انعام قیامت تک قرض رکھا نہیں جائے گا۔ سر اٹھاؤ تمہارے لئے فتح و کرامت کی دستار لے کر آیا ہوں۔ آج سے تمہیں عرفان و تقرب کے سب سے اونچے مقام پر فائز کیا جاتا ہے۔ تمہیں اولیاء کرام کی سروری کا اعزاز مبارک ہو۔
ان کلمات کے بعد حضور سرور کونین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جنید پہلوان کو سینے سے لگایا اور اس موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حالت خواب میں جنید کو کیا کچھ عطا کیا اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ اتنا اندازہ ضرور لگایا جا سکتا ہے کہ جب
جنید
نیند سے بیدار ہوئے تو ساری کائنات چمکتے ہوئے آئینے کی طرح ان کی نگاہوں میں آ گئی تھی ہر ایک کے دل جنید کے قدموں پر نثار ہو چکے تھے۔ بادشاہ وقت نے اپنا قیمتی تاج سر سے اتار کر ان کے قدموں میں رکھ دیا تھا۔ بغداد کا یہ پہلوان آج سید الطائفہ سیدنا حضرت جنید بغدادی کے نام سے سارے عالم میں مشہور ہو چکا تھا۔ ساری کائنات کے دل ان کے لئے جھک گئے تھے۔
Subscribe to:
Posts (Atom)