Thursday, June 7, 2012

بلوچستان میں ہنگلاج کا مندر۔ یہاں ہر سال انسانی قربانی ہوتی ہے


رات کا وقت تھا اور بجلی گئی ہوئی تھی، گجر نالے کے اندر قائم موسیٰ کالونی میں ہم موبائل ٹارچ کے سہارے کشور کا مکان ڈھونڈتے پھر رہے تھے۔ یہ ایک ایسی کچی آبادی ہے جہاں کی ٹیڑی میڑی گلیوں اور ان میں پھیلی غلاظت میں دن کے وقت بھی کسی کا مکان تلاش مشکل ہوتا ہے، پھر گرمیوں کی راتوں میں جب بجلی جاتی ہے تو لوگ اپنے بچوں سمیت یہاں وہاں پھرتے رہتے ہیں، انہیں بچانا راہگیروں کی ہی ذمہ داری ہوتی ہے۔ موسیٰ کالونی میں آپ کو ہر قومیت اور ہر مذہب کے لوگ مل جائیں گے، انہی میں سے ایک ہندو مت کا پیروکار کشور بھی ہے، کشور کا کام خواہش مند لوگوں کو بلوچستان کے ویران پہاڑی سلسلے ہنگلاج میں قائم مندروں کے کمپلیکس تک لے جانا ہے۔ ان پر اسرار غاروں میں کتنے استھان قائم ہیں اور کون کون سی پوجا ہوتی ہے، کسی کو نہیں معلوم؟ البتہ پاکستان کے علاوہ بھارت، بنگلادیش اور دیگر ممالک سے آنے والے ماتاکالی کے پیروکاروں کی یہ پسندیدہ ترین جگہ ہیں۔ ہندؤوں میں ’’نانی کے مندر‘‘ کے نام سے مشہور اس مندر کے بارے میں یہ بات عام ہے کہ مندر ہر سال انسانی بھینٹ لیتا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ بھینٹ مندر نہیں لیتا بلکہ فیصل آباد کے ندیم موچی، میر پور خاص کے تیکم داس، شریمتی پاؤی اور لانڈھی کے پیر بابا جیسے انسانی روپ میں موجود شیطان اس مندر میں اور اس کے نام پر انسانی بلی چڑھاتے ہیں۔

 اس رپورٹ کی تیاری کے دوران ہم کیس اسٹڈیز کے لئے ایسے متاثرین کی تلاش کرتے پھر رہے تھے جن کے پیارے ’’نانی کے مندر‘‘ کا شکار ہوئے ہوں یا وہاں سے ان کی لاشیں واپس آئی ہوں، اسی تلاش کے دوران کڑی سے کڑی ملاتے ہم کشور تک پہنچے، زرد آنکھوں اور منحنی سے جسم والا کشور مختلف دفاتر میں جھاڑو لگا کر پیٹ پالنے کا دعویٰ کرتا ہے، مگر اسے چھوٹا موٹا ٹور آپریٹر یا گائڈ بھی کہا جاسکتا ہے، جو لوگوں کو بلوچستان کے پہاڑوں میں ماتا ہنگلاج کے مندر تک لے کرجاتا ہے، کراچی میں ہمیں ایسے تین افراد کا پتہ چلا، کشور کا ذکر ہم کر چکے ہیں، دوسرا سندرداس ہے جو کینٹ اسٹیشن کے قریب سول لین میں رہتا ہے، تیسرا ویرامال تھا جو ایم اے جناح روڈ پر سوامی نارائن نامی ہندو محلے میں رہتا تھا، مگر اب وہ بھارت کے گجرات میں ہے، کم از کم اس کے گھر والوں نے ہمیں یہی بتایا کہ وہ ہنگلاج کا داس بن کر بھارت شفٹ ہو گیا ہے۔ یوں دو افراد سے ہماری ملاقات ہوئی، بھارتی گجرات میں ہنگلاج کا دوسرا مندر قائم ہے۔ ہندو بھگتوں کے مطابق کسی بھی منت کے سلسلے میں یہ ضروری ہے کہ پہلے بلوچستان کے ہنگلاج مندر پر حاضری اور چڑھاوا دیا جائے اور اس کے بعد بھارتی گجرات کے مندر پر حاضری دی جائے۔ بھارت اور پاکستان، دونوں جگہوں پر ہنگلاج کے مندر انسانی قربان گاہوں، کالا جادو کرنے والوں اور لالچ کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنا سب کچھ لٹانے کے لئے تیار ہو جانے والوں کے مرکز کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ عام طور پر بلوچستان میں ہنگلاج کے مندر ویران رہتے ہیں یا پھر یہاں ’’تانترکوں‘‘ کا بسیرا رہتا ہے، البتہ ہر سال اپریل میں ایک بار کراچی سے ہندو یاتریوں کا قافلہ ہنگلاج جاتا ہے، ان یاتریوں میں بھارت، بنگلہ دیش اور نیپال سے آئے ہوئے یاتری شامل ہوتے ہیں۔ کشور سے ہماری ملاقات کا اصل مقصد تو یہ تھا کہ ان افراد کا پتہ چل سکے جو کسی منت کو پورا کرنے کے سلسلے میں اس کے ساتھ ہنگلاج گئے ہوں، مگر ہم نے اسے اعتماد میں لینے کے لیے پہلے یہ کہا کہ وہ ہمارا گائڈ بن کر ہنگلاج کے پہاڑوں تک ہمیں لے چلے۔ شروع میں تو اس نے یہ ماننے سے ہی انکار کر دیا کہ وہ لوگوں کو ہنگلاج کے مندر تک لے جاتا ہے یا اسے اس بارے میں کچھ معلومات ہیں، مگر بعد میں وہ ہمیں اپنے ساتھ لے جانے پر تیار ہوگیا۔

 ہنگلاج مندر تک جاتا کتنا خطرناک ہے؟ اس کا اندازہ یوں لگا لیں کہ ہندو بھی اس جگہ تنہا جانے کے بجائے سال میں ایک بار گروپ کی شکل میں جاتے ہیں، جنگلی جانوروں یا دیگر عناصر سے زیادہ خطرہ اس ویرانے میں ان افراد سے ہوتا ہے جو یہاں چلے کے لیے مناسب موقع کے انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں، ایسے تین افراد کے کیس ہم نے اسٹڈی کیے جو منت پوری کرنے ہنگلاج گئے اور سادھوں یا جادوگروں کا نشانہ بن کر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ان کا ذکر ہم آگے چل کر تفصیل سے کریں گے۔ ہنگلاج کے پہاڑوں میں بلی دینے یا چلہ کاٹنے والے افراد کسی گروپ کے ساتھ جانے کے بجائے تنہا ہی جاتے ہیں مگر مندر ویران پہاڑوں میں واقع ہونے کے سبب اپنے ساتھ کوئی نہ کوئی گائیڈ ضرور لیکر جاتے ہیں، لہٰذا ایسے افراد کے بارے میں معلومات یا تو ان پیروں اور عاملوں سے مل سکتی ہیں جو پریشان یا لالچی لوگوں کو عمل کے کسی حصے کے دوران وہاں بھیجتے ہیں یا پھر ایسے لوگ جو گائیڈ کے طور پر ان افراد کو ہنگلاج تک لے جاتے ہیں۔ عاملوں تک رسائی مشکل ہونے کے باعث ہم نے کشور جیسے گائیڈوں سے رابطہ کیا، جس سے ہمارا کام آسان ہو گیا۔

 پاکستان میں انسانی قربانی دینا انتہائی مشکل کام ہے، لہٰذا ایسے واقعات بھی سال میں کبھی کبھار ہی ہوتے ہیں، مگر اب یہ سلسلہ بڑھ رہا ہے۔ رواں برس صرف تین ماہ میں اب تک چھ ایسے قتل منظر عام پر آچکے ہیں، جو انسانی قربانی کے لیے کئے گئے، ہم صرف پولیس میں رجسٹرڈ ہونے والے کیسوں کی بات کر رہے ہیں، جن کی ایف آئی آر میں وجہ انسانی قربانی لکھا ہے۔ یہ بھی بتاتے چلیں کہ صرف ایک انسانی بلی دینے سے کوئی عمل پورا نہیں ہوتا، بلکہ کسی ایک مقصد کو حاصل کرنے کے لیے کئی انسانی جانوں کی بھینٹ چڑھانی پڑتی ہے۔ انسانی قربانی کیلئے مشہور ہندو کتاب ’’انتھراویداس‘‘ کے مطابق جنسی کمزوری دور کرنے سے لے کر کالے جادو کے اعلیٰ رتبے ’’کھنڈال‘‘ تک پہنچنے کیلئے انسانی بلی دی جاتی ہے۔ جن تانترکوں سے ہماری بات ہوئی، ان کا کہنا تھا کہ ہر مقصد کیلئے انسانی قربانی کا طریقہ بھی الگ ہے، عام طور پر یہ مشہور ہے کہ ماتا کالی کیلئے انسانی قربانی دینے کا طریقہ یہ ہے کہ انسان کو اس کے قدموں میں لٹا کر ذبح کر دیا جائے، حالانکہ یہ بات غلط ہے، مثلاً جنسی کمزوری دور کرنے کیلئے جو بلی دی جاتی ہے، اس میں ’’بلیدان‘‘ کو مندر تک لانا لازم نہیں ہوتا بلکہ کسی بھی اماوس کی رات ’’بلیدان‘‘ کو سر پر بھاری پتھر مار کر ہلاک کر دیا جاتا ہے، پھر اس لاش کے سرہانے کھڑے ہو کر ’’تنتر‘‘ پڑھا جاتا ہے۔ یہ عمل نو ماہ میں پورا ہوتا ہے، اس طرح نوافراد کی بلی دینا پڑتی ہے۔ اگر اس حقیقت کو مد نظر رکھا جائے تو پھر انسانی قربانیوں کے بہت سی وارداتیں ایسی ہوں گی، جنہیں قتل کی عام واردات قرار دے کر داخل دفتر کر دیا گیا ہوگا۔ ہندومت کے سینئر افراد اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان بھر میں جہاں کہیں بھی انسانی بھینٹ ہوگی، اس کا ایک سرا لازما ہنگلاج کے پہاڑوں میں ہوگا یا تو بلی انہی پہاڑوں میں دی جائے یا پھر بلی دینے سے قبل ان پہاڑوں میں ایک چلہ ضرور کاٹا جائے گا۔ یہ پہاڑ ’’تنترک‘‘ اور ’’منترک‘‘ دونوں کیلئے ایک جیسی اہمیت رکھتے ہیں۔ ہندومت میں اچھے مقاصد کیلئے عملیات ’’منتر‘‘ اور کرنے والوں کو مانترک کہتے ہیں، عام طور پر یہ لوگ بھگت بھی کہلاتے ہیں۔ جب کہ برے کاموں کیلئے چلے کاٹنے اور کالے جادو کو تنتر کہتے ہیں، جب کہ ایسے لوگ تانترک کہلاتے ہیں۔ ہنگلاج میں اچھے ہندؤوں کیلئے ماتا ہنگلاج کا مندر ہے، ہندؤوں کا کہنا ہے کہ ماتا ہنگلاج دراصل سانپوں کے زہر کی دیوی ہے، لہٰذا اگر تانترک بھی یہاں اپنے غلط مقاصد کیلئے بھینٹ چڑھا کر چلہ کاٹیں تو ان کے مقاصد پورے ہو سکتے ہیں، اسی لئے اردگرد کے پہاڑوں میں ’’تانترکوں‘‘ نے ماتا کالی کی مورتیاں رکھ کر درجنوں چھوٹے چھوٹے استھان قائم کر لئے ہیں، جہاں اکثر گوشت جلنے کی بو پھیلی رہتی ہے، قانونی طور پر ہندوئوں کو یہاں جانوروں کی بھینٹ دینے اور انہیں جلانے کی اجازت ہے، جب کہ کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ویرانہ ہونے کی وجہ سے یہاں ایک قانونی شمشان گھاٹ بھی ہے، جہاں بیلہ اور دیگر قریبی علاقوں سے ہندو اپنے مردے کبھی کبھار لے آتے ہیں۔ اس علاقے میں ہمیں بھی گوشت جلنے کی ناگوار بو محسوس ہوئی، مگر شمشان گھاٹ ہمیں نظر نہیں آیا۔ گوشت جلانے والوں میں وہ افراد بھی شامل ہیں، جو یہاں چلے وغیرہ کاٹنے آتے ہیں۔ ان افراد میں مسلمان، عیسائی، ہندو سبھی شامل ہیں۔

 یہ بتا دیں کہ نانی کا مندر کراچی سے تقریباً ساڑے تین سو کلومیٹر کے فاصلے پر بلوچستان کی تحصیل لیاری میں دریائے ہنکول کے کنارے واقع ہے، یہاں سے سمندر کا فاصلہ بھی زیادہ نہیں، دریائے ہنکول عموماً خشت رہتا ہے، اس کے ایک کنارے کھیر تھر کا پہاڑی سلسلہ ہے۔ کراچی سے گوادر کی طرف جانے والی کوسٹل ہائی وے پر سفر کریں تو ’’نانی مندر‘‘ کا بورڈ لگا نظر آئے گا، یہاں سے ایک کچا پکڈنڈی نما راستہ پہاڑی بھول بھلیوں میں گم ہوتا نظر آتا ہے، اس راستے پر تقریباً ایک گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد پہاڑی غاروں میں قائم ہندوئوں کے ان قدیم مندروں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، جہاں گم، ہلاک اور قتل ہونے والے افراد کی ہر سال بڑھتی ہوئی تعداد بلوچستان، لیاری تھانے کے رجسٹر میں ریکارڈ بن رہی ہے۔ ہنگلاج جاتے ہوئے ہم نے احتیاطاً اپنے ساتھ بیلہ کے ایک مقامی بلوچ سردار اور ان کے چند ساتھیوں کو بھی لے لیا تھا۔ اس پہاڑی سلسلے میں ہم نے مختلف غاروں، چٹانوں اور پہاڑی درزوں میں درجن بھر مندر دیکھے، جن میں زیادہ تر ماتا کالی کے تھے۔ مندر کیا تھے بس کسی غار میں سرخ زبان اور ایک ہاتھ میں کٹا انسانی سر اور دوسرے میں تلوار والی مورتی رکھ دی گئی تھی۔ ماتا کالی کے الگ الگ مندروں کی وجہ یہ ہے کہ ہر مندر الگ گروہ کی شناخت رکھتا ہے اور صرف اسی کے چیلے اس مندر میں چلہ کاٹ یا بھینٹ چڑھا سکتے ہیں، ہندومت کے بعض بھگتوں کا کہنا ہے کہ سنسان جگہ میں لا کر رات کے وقت کسی انسان کو ذبح کرنا خاصا مشکل کام ہے، پھر اس سارے عمل کے دوران گرو کا بھی چیلے کے قریب رہنا ضروری ہوتا ہے، لہٰذا انسانی بلی والے چلے کے لئے اب ایسی کوئی بھی جگہ منتخب کرلی جاتی ہے جہاں آسانی ہو۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہنگلاج مندر سے مٹی لاکر منتخب جگہ پر ہی مندر بنا لیا جائے۔ مثلاً جس طرح فیصل آباد کے موچی ندیم نے کیا۔ ندیم موچی نے امیر ہونے کے لئے پاکستان بھر کی خاک چھانی، مگر کامیابی اس کے آگے آگے بھاگتی رہی۔ آخر کار وہ لالچ کے ہاتھوں ’’ہنگلاج‘‘ کا راستہ تلاش کرنے میں کامیاب ہو گیا، مگر پھر بھی کامیابی اس کے قریب نہیں آئی۔ ندیم موچی کی کہانی ان افراد کے لیے ایک عبرت ناک داستاں ہے جو دولت کی لالچ میں انسانی قربانی تک جاپہنچتے ہیں، مگر پھر بھی کامیابی ان کا مقدر نہیں بنتی۔

No comments:

Post a Comment