Thursday, December 11, 2014

جانتے ہو یہ کون شخص یہ ؟






جانتے ہو یہ کون شخص یہ ؟
یہ کیچڑ میں لتھڑے ہوئے کپڑے یہ پھٹے بوٹ اتارتا ہوا انسان کون ہے ؟
کیا یہ کوئی غریب و مفلوک الحال بندہ ہے ؟
نہیں میں بتاتا ہوں یہ کون ہے ،
یہ شخص وہ ہیرو ہے کہ ایک وقت تھا کہ ہندوستان اور پاکستان کی خوبصورت سے خوبصورت ترین ہیروئینز اس پر جان چھڑکتی تھیں ،
آسٹریلیا سے لے کر برطانیہ تک گوریاں اسکی عاشق تھیں ،
جیسے ہی دلکش انسان پویلین سے گراونڈ میں داخل ہوتا لاکھوں دل دھک دھک کرتے تھے ،
دنیا کے منگے ترین برانڈ اسکو اپنی کمرشل میں لینے کے لئے پیچھے پیچھے پھرتے تھے ،
جہاں جاتا تھا لوگ اسکے پاؤں تلے اپنی پلکیں بچھاتے تھے ،
اور جانتے ہو آج یہ شخص اس حالت میں کیوں ہے ؟
صرف اس قوم کے بچوں کے مستقبل کے لئے اس عظیم انسان نے اپنے مستقبل کو داؤ پر لگا دیا ہے ،
یہ چاہتا ہے کہ اس ملک کے ہر بچے کو اسکا حق ملے ،
یہ چاہتا ہے کہ اس ملک کے ہر غریب اور امیر کے لئے ایک ہی قانون ہو ،
امیر اور غریب سبھی کو برابر انصاف ملے ،
مگر بدقسمتی سے اس ملک میں موجود چند بیمار سوچ اور مفلوج ذہن رکھنے والے غلام لوگ ہیں جن کو آزادی سے نفرت اور غلامی سے پیار ہے 
وہ اس عظیم انسان کے خلاف اپنی غلیظ زبان استعمال کر رہے ہیں ،
ان کو یہ سمجھ نہیں آرہی کہ جسے وہ آزادی سمجھ رہے ہیں وہ ظلم اور ناانصافی کا بوسیدہ اور فرسودہ نظام ہے ،
انکو کھانے کے لئے چند قیمے والے نان اور بریانی کی پلیٹ مل جاتی ہے چند گھنٹے نعرے لگانے کے عوض انکے لئے بس یہی کچھ من و سلوی کی حیثیت رکھتا ہے ،
یہ کنوئیں کے مینڈک سمجھتے ہیں کہ بس یہی دنیا ہے اور اسی میں ہمیں رہنا ہے ،
مگر یاد رکھو جب عمران خان ہمارے ساتھ نہیں ہوگا تب تم پچھتاؤ گے جب نورا اور زرداری تمھارے بچوں کا راتوں رات سودا کر دیں گے اور تمھارے پاس رونے کو بھی آنسو نہیں ہونگے ،
اس انسان کی قدر کرو اور اپنے اور اس ملک و قوم کے بچوں کے مستقبل کی خاطر ،

Wednesday, December 10, 2014

کیپٹن احسان ملک اور بھارتی فوج کے سابق فیلڈمارشل اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل مانک شا




کیپٹن احسان ملک
----------------------------------------------------------------------
28 جولائی 1999ء کو بھارتی فوج کے فیلڈمارشل مانک شا کو ایک ٹی۔وی انٹرویو کے لیے بلایا گیا۔ سقوط ڈھاکہ کے وقت مانک شا چیف آف آرمی سٹاف تھا وہ اس جنگ کے دو برس بعد 1973ء میں سبک دوش ہوا۔
کرن تھاپر نے ایک ایسا سوال مانک شا سے کردیا جس کے جواب نے ان کروڑوں لوگوں کو ششدر کردیا جو اس وقت ٹی۔وی پر ان کا انٹرویو دیکھ رہے تھے۔ کرن تھاپر نے پوچھا کہ فیلڈمارشل صاحب آپ کو یہ جنگ جیتنے کا کتنا کریڈٹ جاتا ہے کیونکہ پاکستانی فوج نے وہ بہادری نہیں دکھائی جس کی ان سے توقع کی جارہی تھی۔
فیلڈمارشل مانک شا ایک لمحے میں ایسے پیشہ ور فوجی بن گئے جو اپنے دشمن کی تعریف کرنے میں بغض سے کام نہیں لیتے۔ مانک شا نے کہا، یہ بات غلط تھی۔ پاکستانی فوج بڑی بہادری سے ڈھاکا میں لڑی تھی لیکن ان کے جیتنے کا کوئی امکان نہیں تھا۔ وہ اپنے مرکز سے ہزاروں میل دور جنگ لڑ رہے تھے جبکہ میں نے اپنی ساری جنگی تیاریاں آٹھ سے نو میل کے علاقے میں کرنا تھیں۔ ایک پاکستانی فوجی کے مقابلے میں میرے پاس پندرہ بھارتی فوجی تھے لہٰذا اپنی تمام تر بہادری کے باوجود پاکستانی فوج یہ جنگ نہیں جیت سکتی تھی۔
کرن تھاپر کو کوئی خیال آیا اور اس نے پوچھا کہ فیلڈمارشل ہم نے کوئی کہانی سنی ہے کہ پاکستانی فوج کا ایک کیپٹن احسان ملک تھا جس نے کومان پل کے محاذ پر بھارتی فوجیوں کے خلاف اتنی ناقابلِ یقین بہادری دکھائی کہ آپ نے جنگ کے بعد بھارتی فوج کا چیف آف آرمی سٹاف ہوتے ہوئے اسے ایک خط لکھا جس میں اس کی بہادری اور اپنے ملک کے لیے اتنے ناقابل یقین انداز میں لڑنے پر اسے خراجِ تحسین پیش کیا گیا تھا۔
مانک شا نے کہا کہ یہ بات بالکل سچ ہے۔ بھارتی افواج ڈھاکا کی طرف پیش قدمی کررہی تھیں اور یہ پاکستانی کیپٹن ہماری فوج کے آگے دیوار بن کر کھڑا ہوگیا۔ اس اکیلے نے محاذ پر موجود بھارتی فوج کومشکلات میں مبتلا کرنا شروع کیا۔ ایک زوردار حملہ کیا گیا جو اس نے اپنی حکمت عملی کی بدولت پسپا کیا۔ بھارتی فوج نے دوسری دفعہ باقاعدہ منصوبہ بندی کرکے اس محاذ پر پہلے سے بھی بڑا حملہ کیا لیکن کیپٹن احسان ملک نے انھیں ایک انچ بھی آگے نہیں آنے دیا۔ بھارتی فوج نے آخر اس محاذ پر تیسرا حملہ کیا تو تب کہیں جاکر انھیں کامیابی ہوئی۔ مانک شا بڑا حیران تھا کہ آخر اتنی بڑی بھارتی فوج کے حملے کے سامنے کون تھا جو شکست ماننے کو تیار نہیں تھا۔ انھیں بتایا گیا کہ یہ ایک کیپٹن احسان ملک تھا جس نے ان کی تمام کوششوں اور حکمتِ عملی کو ناکام بنا دیا تھا۔ معلوم نہیں وہ زندہ بچا یا لڑتا ہوا مارا گیا۔
جنگ ختم ہوگئی۔ مانک شا ایک فاتح جنرل کی طرح بھارت واپس آیا۔ اپنے دفتر جاکر جو اس نے پہلا کام کیا وہ یہ تھا کہ کاغذ قلم اٹھا کر کیپٹن احسان ملک کے نام ایک ذاتی خط لکھا اور اسے اپنے ملک کے لیے اتنی بہادری اور بے جگری سے لڑنے پر خراج تحسین پیش کیا۔ خصوصًا ان حالات میں کہ جب پاکستانی فوج کے پاس بھارت کے سامنے لڑنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔ یہ خط اس نے پاکستان کی فوج کو بھیجا کہ یہ اس بہادر کیپٹن کو دیا جائے۔
1971ء کی جنگ کو آج 43 برس گزر گئے ہیں۔ آپ، میں اور ہماری نسلیں کیپٹن احسان ملک کے نام سے واقف تک نہیں۔ ایک ایسا کیپٹن جس کی بہادری نے فیلڈمارشل مانک شا کو اتنا متاثر کیا تھا کہ جنگ کے تیس برس بعد بھی 1999ء میں کرن تھاپر کو دئیے انٹرویو میں اس کا نام تک یاد تھا۔ جب کہ اس بہادر کیپٹن کا نام ہم نے اپنی کسی تاریخ کی کتاب میں نہیں پڑھا اور نہ ہی ہمارے بچے پڑھیں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہم نے ان لوگوں کو ہیرو کا درجہ دے رکھا ہے جو اپنی ساری زندگی اس وطن کی دولت باہر کے ملکوں میں منتقل کرنے میں گزار دیتے ہیں۔ جو جیتے ہیں تو دولت کی خاطر اور مرتے ہیں تو دولت کی خاطر۔ جو امیر سے امیر تر ہوتے جاتے ہیں اور عوام غریب سے غریب تر۔ اور جب وہ اقتدار کی ہوس میں لڑتے ہوئے ”شہید“ ہو جاتے ہیں تو ان کا نام تاریخ کی کتابوں میں سنہرے حروف میں لکھا جاتا ہے۔ جبکہ کیپٹن احسان جیسے سپاہیوں کی حب الوطنی اور بہادری کے قصے ہم دشمنوں کی زبان سے سنتے ہیں۔


Saturday, November 29, 2014

جب نبی کریم ﷺ 57 سال کے بعد اپنی والدہ کی قبر پر گئے تو وہاں کیسے اپنی والدہ کی یاد میں کیسے تڑپ تڑپ کر روئے

جب نبی کریم ﷺ  57سال کے بعد اپنی والدہ کی قبر پر گئے تو وہاں کیسے اپنی والدہ کی یاد میں کیسے تڑپ تڑپ کر 
روئے


Friday, November 28, 2014

میزائل ٹیکنالوجی کا بانی ٹیپو سلطان تھا




 آج مغربی دنیا مسلمانوں کو پسماندہ قوم قرار دے رہی ہے لیکن ایک وقت تھا کہ جدید سائنس کی بنیاد مسلمان محققین رکھ رہے تھے اور خصوصاً طب، کیمسٹری اور فزکس جیسے تجرباتی مضامین کیلئے تو ان کی خدمات بے پناہ ہیں جنہیں دیانتدار تاریخ دان آج بھی سلام پیش کرتے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جدید دور کی جنگوں میں استعمال ہونے والے اہم ترین ہتھیار راکٹ اور میزائل کی ایجاد بھی ایک نامور مسلمان جرنیل نے کی جس کا اب عالمی سطح پر اعتراف کیا جارہا ہے۔شیر میسور ٹیپو سلطان کا نام بہادری اور جرات کی مثال کے طور پر مشہور رہے لیکن ان کا ایک اور تعارف یہ بھی ہے کہ ان کی فوج نے دنیا کی تاریخ میں پہلی دفعہ بارود سے چلنے والا راکٹ استعمال کیا جس نے انگریز فوج کے چھکے چھڑا دئیے۔

ان راکٹوں کی بنیاد ٹیپو سلطان کے والد حیدر علی کے دور اقتدار میں رکھی گئی لیکن ٹیپو سلطان نے انہیں دنیا کا خطرناک ترین ہتھیار بنادیا۔
اٹھارہویں صدی میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی افواج ہندوستان کو روندتی چلی جارہی تھیں لیکن جب ان کا مقابلہ ریاست میسور کی افواج سے ہوا تو ان کے ہوش ٹھکانے آگئے۔
ریاست میسور اور برطانوی افواج میں ہونے والی دوسری جنگ میں کرنل ولیم بیلی کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اس کی فوج پر آسمان سے کیا قیامت برس رہی ہے۔ تاریخ دان کہتے ہیں کہ میسوری فوج کے راکٹوں نے انگریزی فوج کے اسلحہ خانوں کو اڑا کر رکھ دیا اور جنگ میں ڈھیروں وسائل اور کثیر تعداد کے باوجود ریاست برطانیہ کو شرمناک شکست ہوئی۔ اس کے بعد میسور کی تیسری جنگ میں بھی ان راکٹوں کا شاندار استعمال کیا گیا۔ یہ وہ دور تھا جب برطانیہ اور یورپ میں ہلکے پھلکے راکٹ بنائے جاتے تھے جن کا خول گتے یا لکڑی کا ہوتا تھا جس کی وجہ سے یہ بہت کم طاقت کے حامل تھے۔ اس کے برعکس ٹیپو سلطان کے راکٹوں کا خول لوہے سے بنایا جاتا تھا اور ان میں زیادہ بارود بھرا جاتا تھا۔ ان کے ساتھ تلواروں جیسے تیز دھار بلیڈ بھی لگائے جاتے تھے اور ان کی سب سے اہم خوبی یہ تھی کہ یہ دو کلومیٹر کے فیصلے تک عین نشانے پر لگتے تھے۔ انہیں چلانے کیلئے فوجیوں کو خصوصی تربیت دی جاتی تھی اور علیحدہ سے راکٹ بریگیڈ قائم کی گئی تھی جس کے پاس پہیوں والے راکٹ لانچر بھی ہوتے تھے۔ یہ لانچر بیک وقت درجن بھر راکٹ چلاتے تھے جو دشمن کی افواج پر گرتے وقت گھومنا شروع کردیتے تھے اور یوں درجنوں فوجیوں کو لمحوں میں کاٹ کر رکھ دیتے تھے۔ فوجی راکٹ چلانے سے پہلے اس کے وزن اور ٹارگٹ کے فاصلے کی بنیاد پر اسے چھوڑنے کے زاویے کا یقین کرتے تھے اور ان کی تربیت اتنی اعلیٰ تھی کہ راکٹ عین نشانے پر گرتے تھے ٹیپو سلطان کے راکٹوں کی عالمی سطح پر پذیرائی کے بعد اب بھارتی ریاست کرناٹکا میں واقع ان کے سرنگا پٹم قلعے کو راکٹ میوزیم میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس میں دنیا کے پہلے راکٹوں سے لے کر آج کے جدید میزائل تک کی جنگی ٹیکنالوجی کو رکھا جائے گا تاکہ عظیم مسلمان جرنیل کو ان کے شایان شان خراج تحسین پیش کیا جاسکے۔
جب انگریز فوج نے 4مئی 1799ءکو میسور پر قبضہ کیا تو وہ ٹیپو سلطان کی فوج کا بارود خانہ دیکھ کر حیران رہ گئے کیونکہ انہوں نے اس طرح کے راکٹ پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے۔ انگریز جرنیل ڈیوک آف ویلنگٹن ولزلی نے فوراً سے پہلے یہ راکٹ برطانیہ پہنچائے جہاں ان پر مزید تحقیق کی گئی اور برطانوی افواج کو جدید راکٹ ملے ۔ یہ بات بھی لائق تحسین ہے کہ جدید میزائل ٹیکنالوجی بھی اسی راکٹ کے مرہون منت ممکن ہوئی۔

Wednesday, November 19, 2014

خوفناک انکشافاتخوفناک انکشافات









خوفناک انکشافات۔۔۔کتنی کتابیں ہوں گی جنہوں نے آپ کے رونگٹے کھڑے کر دیے ہوں گے۔ یہ ویسی ہی ایک کتاب ہے جو میرے دوست ارشاد بھٹی نے مجھے تحفتاً بھیجی۔ میں نے ورق گردانی شروع کی اور پھر کتاب نیچے نہ رکھ سکا۔ صبح کے چار بجے تک پڑھ ڈالی لیکن اس کے بعد مجھے نیند نہ آ ئی ۔ یہ کتاب صدرالدین ہاشوانی کی آپ بیتی ہے۔ میرا خیال تھا ایک روایتی کامیاب بزنس مین‘ جس نے ہوٹل انڈسٹری میں نام پیدا کیا‘ اپنی تعریفوں کے پل باندھے گا، لیکن اس کتاب میں چھپے سینکڑوں رازوں نے مجھے سونے نہ دیا۔ یہ ہاشوانی سے زیادہ اس ملک کے حکمرانوں کی کہانی ہے۔ بھٹو، زرداری، نواز شریف، جنرل ضیاء، بینظیر بھٹو تک سب کی سننی خیز کہانیاں موجود ہیں۔ یہ پتہ چلتا ہے کہ کون کیا کر رہا تھا اور اس ملک کی بربادی میں کس کا کتنا حصہ ہے۔ کتاب میں سابق صدر زرداری اور ہاشوانی کے درمیان جاری ایک خوفناک لڑائی کی تفصیلات بھی بتائی گئی ہیں جو اس کتاب کا 'مین تھیم‘ ہے۔ یہ لڑائی اس وقت شروع ہوئی جب صدرالدین ہاشوانی کے کراچی ہوٹل میں 1983ء میں نوجوان آصف زرداری کی ہوٹل ڈسکو میں چند نوجوانوں سے لڑائی ہوئی‘ جس کے بعد ہوٹل کے گارڈز نے انہیں ہوٹل سے باہر پھینک دیا تھا، اس پر وہ ہاشوانی کے دشمن بن گئے۔ ہاشوانی لکھتے ہیں، جنرل ضیاء کا خیال تھا کہ وہ بینظیر بھٹو کی پارٹی کو فنڈز دیتے ہیں کیونکہ وہ پیپلز پارٹی کے لیڈر جی اے الانہ کے والد کے بنائے ہوئے ٹرسٹ کے سرپرست تھے۔ یہ بات اتنی مشہور ہو گئی کہ نہ صرف جنرل ضیاء نے ان کا جینا حرام کر دیا بلکہ بینظیر بھٹو نے بھی ایک دن کہا کہ وہ میرے پیسے کہاں ہیں‘ جو تم جی الانہ کو دیتے ہو۔ ان کا مطلب تھا کہ آئندہ انہیں براہ راست پیش کیے جائیں۔ بعد میں جنرل ضیا سے ان کی جان پیر پگاڑا نے چھڑائی جب ان کا نام ای سی ایل پر ڈال دیا گیا اور انہیں چالیس دن اپنے ملک میں مفرور رہنا پڑا۔ کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ جنرل ضیاء کو مری میں آٹھ اگست کو اس دن قتل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا‘ جس دن انہوں نے ہوٹل کا سنگ بنیاد رکھنا تھا۔ وہ مری نہ جا سکے اس لیے یہ منصونہ منسوخ کر دیا گیا۔ ہاشوانی دعویٰ کرتے ہیں کہ انہیں پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت کے دور میں کراچی میں قتل کرنے کا منصوبہ بن چکا تھا اور اگر ان کے دوست کور کمانڈر آصف نواز جنجوعہ ان کی مدد نہ کرتے تو وہ ان کرائے کے قاتلوں کا نشانہ بن چکے ہوتے جنہیں خاص طور پر جیل سے رہا کیا گیا تھا۔ جنرل جنجوعہ نے وزیر اعلیٰ پنجاب نواز شریف سے بات کرکے ان کے لیے لاہور میں محفوظ پناہ گاہ کا بندوبست کیا تھا۔ 1990ء میں پیپلز پارٹی دور میں ہاشوانی کی گاڑی کا تعاقب شروع ہو گیا۔ ایک شام دوست نے بتایا کہ کیسے کچھ لوگ ان کے شیئرز کے پیچھے پڑ گئے ہیں، وہ ان کے کاروبار پر قبضہ کرنا چاہتے تھے۔ ان کا خیال تھا ان تمام واقعات کے پیچھے کہیں نہ کہیں آصف زرداری کا ہاتھ ہے۔ لیکن وزیر اعظم کے شوہر سے کون پنگا لے؟ خوفزدہ ہاشوانی نے کور کمانڈر جنرل جنجوعہ کو فون کیا۔ جنرل نے انہیں کہا کہ وہ اپنا روٹ بدل لیں اور سکیورٹی بڑھا لیں؛ تاہم ان کے اندر ڈر بیٹھ گیا تھا کہ کچھ نہ کچھ ہونے والا ہے۔ تیرہ جنوری کی شام انہوں نے فیملی سے کہا کہ سامان پیک کریں‘ وہ لندن جا رہے ہیں۔ اس اثناء میں کور کمانڈر جنرل جنجوعہ کا فون آیا کہ فوراً میرے دفتر پہنچو۔ ان کی آواز میں پریشانی تھی۔ بولے عام راستے سے نہ آنا، کوئی نیا راستہ لینا۔ پچیس منٹ کے بعد جنرل نے دوبارہ فون کیا کہ کہاں پہنچے ہو؟ وہ ابھی گھر میں تھے، جنرل پریشان ہو گیا، اس نے پھر کہا سب کچھ چھوڑو اور میرے پاس پہنچو۔ جب ہاشوانی کور کمانڈر ہائوس پہنچے تو وہاں انہیں ایک خط دکھایا گیا جو مہران فورس نے سندھ حکومت کو لکھا تھا کہ ہاشوانی کی جان کو خطرہ ہے لہٰذا انہیں سکیورٹی دی جائے۔ جن کرائے کے دو قاتلوں کو رہا کیا گیا تھا‘ ان کے بارے میں سندھ پیپلز پارٹی کے وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا انہیں علم نہ تھا کیونکہ انہیں اسلام آباد سے براہ راست احکامات پر رہا کیا گیا۔ فوج نے اپنی انٹیلی جنس کے ذریعے پتا چلایا کہ ان کرائے کے دو قاتلوں کو ہاشوانی کو قتل کرنے کا ٹاسک دیا گیا ہے۔ منصوبہ یہ تھا کہ انیس جنوری کو جب وہ باتھ آئی لینڈ سے چلتے، ان کی گاڑی کو بلاک کرکے ڈرائیور کو گولی مار دی جاتی اور انہیں اغوا کرکے زبردستی تمام جائیداد اور ہوٹل کے کاغذات پر دستخط کرا کے قتل کر دیا جاتا اور لاش سمندر میں پھینک دی جاتی۔ جنرل جنجوعہ بولے، ان کی وزیر اعلیٰ نواز شریف سے بات ہو گئی ہے، وہ آپ کو پناہ دیں گے، آپ جائیں، ہم کچھ نہیں کہہ سکتے آصف زرداری آپ کے ساتھ کیا کچھ کر گزرے؛ تاہم ہاشوانی نے لندن جانے کا فیصلہ کیا۔ فوج کا ایک دستہ ان کے ساتھ ایئرپورٹ بھیجا گیا۔ برسوں بعد جب بینظیر بھٹو نواز شریف دور میں اپوزیشن لیڈر بنیں‘ تو وہ ہاشوانی کے اسلام آباد گھر چائے پر گئیں۔ ہاشوانی کو سمجھ نہ آئی کہ وہ ان کے گھر کیوں آئی ہیں۔ ان کا خیال تھا شاید وہ جانتی تھیں کہ ان کا شوہر انہیں اغوا کر کے قتل کروانا چاہتا تھا، لہٰذا وہ چاہتی تھیں کہ وہ بھول جائیں کہ کیا ہوا تھا۔ یوں ان کے تعلقات کچھ بہتر ہونا شروع ہو گئے۔ ایک دن بینظیر بھٹو نے انہیں پیشکش کی وہ ان کے سینیٹر بن جائیں یا ایڈوائزر؛ تاہم انہوں نے معذرت کر لی‘ لیکن زرداری نے اب تک ان پر آنکھ رکھی ہوئی تھی اور وہ کسی وقت کے انتظار میں تھے۔ کراچی میں ایک فائیو سٹار ہوٹل کے لیے حکومت نے زمین کی پیشکش اخبار میں دی۔ ہاشوانی کے بقول انہوں نے بھی بولی میں حصہ لیا۔ کچھ دن بعد آصف زرداری نے فون کرکے کہا کہ ان کے کراچی کے ایک کاروباری دوست کو وہ پلاٹ چاہیے۔ وہ مطلب سمجھ گئے اور اپنی بولی واپس لے لی۔ انہوں نے بینظیر بھٹو سے شکایت نہ کی کیونکہ یہ ممکن نہ تھا کہ انہیں اپنے شوہر کی سرگرمیوں کا علم نہ ہو۔ ایک دن ہاشوانی کی زرداری سے ملاقات ہو گئی، وہ بینظیرکے ساتھ چند ملکوں کی سیر کر کے لوٹے تھے۔ ہاشوانی نے پوچھ لیا کہ انہوں نے ان ممالک کے لیڈروں کو کیسا پایا۔ ہاشوانی کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا جب زرداری نے کہا کہ وہ بیوقوف قسم کے لیڈر ہیں‘ درمیانے درجے سے بھی کم ذہنیت کے مالک‘ انہیں زمینی حقائق کا علم تک نہیں ہے۔ کتاب کا اہم باب وہ ہے جب میریٹ ہوٹل کو ایک ٹرک میں بھرے بارود سے اڑایا گیا تھا۔ ہاشوانی لکھتے ہیں کہ انہیں اس بات پر حیرت ہے کہ کیسے ایک بارود سے بھرا ٹرک اس دن شہر میں پھرتا رہا جبکہ ایک کلومیٹر سے بھی کم فاصلے پر وزیر اعظم ہائوس میں صدر زرداری، آرمی چیف جنرل کیانی اور دیگر ٹاپ کے لوگ موجود تھے اور اس دن آصف زرداری نے قومی اسمبلی میں صدر بننے کے بعد پہلا خطاب کیا تھا۔ میریٹ میں بربادی جاری تھی کہ اوپر سے فون آیا، اگر آپ سے کوئی صحافی سوال کرے تو آپ بتائیں اس شام صدر زرداری نے میریٹ ہوٹل آنا تھا۔ مطلب یہ تھا کہ دنیا کو بتایا جائے کہ میریٹ پر حملہ اس وجہ سے ہوا کہ صدر زرداری کو دہشت گرد قتل کرنا چاہتے تھے۔ ہاشوانی نے صاف انکار کر دیا، ایسا کوئی پلان نہیں تھا، پھر وہ یہ بات کیوں کہیں؛ تاہم انہیں پھر بھی کہا گیا کہ وہ میڈیا کو بتائیں کہ اس حملے کا نشانہ صدر زرداری تھے۔ میڈیا کو ہاشوانی نے بتایا صدر زرداری کا اس شام ہوٹل میں آنے کا منصوبہ نہیں تھا اور اس حملے کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ زرداری دراصل امریکہ جانے سے پہلے یہ تاثر دینا چاہتے تھے کہ انہیں دہشت گردوں سے سخت خطرات لاحق ہیں۔ اس طرح امریکیوں سے ہمدردی لینی تھی کہ وہ اس خطے میں ان کے لیے لڑ سکتے ہیں۔ اسی رات رحمٰن ملک نے انہیں چائے پر بلایا اور کہا، ان کے ہوٹل پر حملہ بیت اللہ محسود نے کرایا ہے۔ ہاشوانی حیران رہ گئے کہ اتنی جلدی کیسے پتہ چل گیا۔ ہاشوانی یہ ماننے کو تیار نہیں ہیں کہ ان کے ہوٹل پر حملہ طالبان نے کرایا تھا۔ وہ لکھتے ہیں، ہوٹل پر حملے کے بعد بھی ان پر قاتلانہ حملوں کا پلان بنایا گیا اور یہ کہ ان منصوبوں کے پیچھے طالبان نہیں بلکہ ''سیاسی کردار‘‘ تھے جو انہیں مارنا چاہتے تھے۔ ہاشوانی نے اس کے بعد پاکستان چھوڑ دیا اور اس دن پاکستان لوٹے جب زرداری پانچ برس بعد اپنے عہدے سے سبکدوش ہو گئے۔ ہاشوانی نے ہوٹل پر حملے کے بارے میں خدشات کا اظہارکرتے ہوئے لکھا کہ دراصل طالبان کا تو صرف نام استعمال کیا گیا، حملہ کچھ اور لوگوں نے کرایا تھا۔ کہانی کچھ اور تھی۔ ہاشوانی کے بقول یہ سیاسی کھیل تھا جو ان کے کاروبار اور ہوٹلوں پر قبضہ جمانے کے لیے رچایا گیا تھا اور کھیل میں اس خونی شام درجنوں بے گناہ انسان مارے گئے تھے! نوٹ:- یہ کالم جناب صدرالدین ہاشوانی کی کتاب میں سے لئے گئے واقعات پر مشتمل ہے۔ ان کی اشاعت کی ذمہ داری کالم نویس اور کتاب کے مصنف پر عائد ہوتی ہے۔ ادارہ ''دنیا‘‘ اس کا ذمہ دار نہیں۔ کوئی کردار وضاحت کرنا چاہے تو ان کی تحریر شکریہ کے ساتھ شائع کی جائے گی۔(یہ نہ سوچیں کہ صرف زرداری ہی ایسا ہے ،،،میاں نواز اور شہباز ان سے بھی دو دو ہاتھ آگے ہیں ،،ہمدرد



The Biography of Prophet Muhammad (PBUH)



The Biography of Prophet Muhammad (PBUH) 


1. When was the Prophet Muhammad ( p.b.u.h.) born? 
He was born on Monday, 9th Rabi Al Awwal, April 22nd, 571 AC. 

2. Where was the Prophet Muhammad (p.b.u.h.) born? 
In Makkah 

3. What is the name of the Prophet's father? 
Abdullah Ibn Abdul Muttalib. 

4. What is the name of the Prophet's mother? 
Aminah Bint Wahhab Ibn Abd Manaf Ibn Zahrah. 

5. When and where did his (prophet's) father die? 
He died in Makkah before Muhammad ( p.b.u.h.) was born. 

6. What is the name of the Prophet's grandfather? 
Abdul Muttalib. 

7. What was his granfather's position? 
He was the chief of his clan Bani Hashim. 

8. What is the Prophet's ( p.b.u.h.) lineage up to his fifth ancestor? 
He is Muhammad Ibn Abdullah Ibn Abdul Muttalib Ibn Hashim Ibn Abd Manaf Ibn Qusai Ibn Kilab. 

9. Who suckled the Prophet Muhammad (p.b.u.h.)? 
First Thuyeba, the freed slave girl of his uncle Abdul Uzza known as Abu Lahab, then Haleema Bint Abu Dhuaib, best known as Haleema Al Sadiyah. 

10. Who named the Prophet Muhammad (p.b.u.h.)? 
Abdul Muttalib. 

11. What did Muhammad's (p.b.u.h.) mother name him? 
Ahmad. 

12. Why did she (the Prophet's mother) choose this name? 
Because she saw an angel in a dream calling the new-born baby Ahmad. 

13. How old was Muhammad (p.b.u.h.) when his mother died? 
Six years old. 

14. Where did his mother take him? 
She took him to Yathrib (Madinah) to visit her relatives. 

15. Where did his mother die? 
On her way back to Makkah, she died at Abwa and was buried there.

16. Who brought Muhammad (p.b.u.h.) back to Makkah? 
His father's slave girl, Umm Aiman (May Allah be pleased with her). 

17. Who took the charge of his care? 
His grandfather Abdul Muttalib.

18. How long did The Prophet's grandfather take care of the Prophet Muhammad? 
For two years. 

19. How was his (Abdul Muttalib's) behavior with Muhammad ( p.b.u.h.)? 
He loved him very much and preferred him to his own sons. 

20. What did Abdul Muttalib foretell about his grandson? 
That he would hold a prestigious position.
 
21. Who took care of the Prophet (p.b.u.h.) after the death of Abdul Muttalib? 
His uncle Abu Talib.

22. How old was Muhammad (p.b.u.h.) when his grandfather Abdul Muttalib died? 
About eight years old
 
23. When did Muhammad (p.b.u.h.) travel to Syria and with whom?
He went to Syria with his uncle Abu Talib when he was twelve years old.

24. Who was Khadijah (May Allah be pleased with her)? 
She was a wealthy merchant of Makkah.

25. Why did she (Khadijah) want to marry Muhammad ( p.b.u.h.)? 
Because of his truthfulness and good conduct. 

26. When did she (Khadijah) marry Muhammad (p.b.u.h.)? 
When she was 40 years old. 

27. How old was Muhammad (p.b.u.h.) at the time of the marriage?
He was 25. 

28. What did he (the Prophet) give her (Khadijah) as Mahr (dowry)? 
Twenty camels. 

29. Was Khadijah (May Allah be pleased with her) a widow? 
Yes. The Prophet (p.b.u.h.) was her third husband.

30. How was Muhammad (p.b.u.h.) known in the society? 
He was known as Al Ameen (trustworthy) and Al Sadiq (truthful).

31. Did he get any sort of education?
No, he didnt get any formal education from the society, rather he was taught by Almighty Allah. 

32. What should one say when the Prophet's (p.b.u.h.) name is 
mentioned? 
One should say Õáì Çááå Úáíå æÓáã (May the peace and blessings of 
Allah be upon him). 

33. How many times is the name of Muhammad mentioned in the Holy Quran? 
Four times.

34. What are the names of the Prophet's (p.b.u.h.) uncles? 
They are: Harith, Zubair, Abu Talib, Hamzah (May Allah be pleased with him), Abu Lahab, Ghidaq, Maqwam, Safar and Abbas (May Allah be pleased with him). 

35. Did his uncle Abu Talib accept Islam? 
No, he died a polytheist. 

36. In the New Testament by what name was the Prophet (p.b.u.h.) mentioned? 
By the name of Paraclete. 

37. What is Kabah? 
It is the oldest house of worship on the earth.

38. Who built it? 
The Prophet Ibrahim and his son Ismael (May Allah be pleased with them).

39. How did Quraish arrange rebuilding of Kabah? 
They divided the work among various tribes. Each tribe was responsible for rebuilding a part of it.

40. Who laid the stones? 
A Byzantine mason called Baqum
 
41. Where did the Prophet (p.b.u.h.) go into seclusion? 
To the Cave of Hira . 

42. What was the fist stage of the revelation? 
True dreams.

43. When did the first revelation come down to him? 
On Monday, 21st of Ramadan, at night (August 10th, 610 AC). He was forty years then.

44. Who brought it? 
Jibrael.

45. Who were the first to embrace Islam? 
Four persons: Khadijah his wife, Zaid Ibn Haritha his freed slave, Ali Ibn Abi Talib his cousin and Abu Bakr his friend (May Allah be pleased with them). 

46. Who accepted Islam at the instance of Abu Bakr (May Allah be 
pleased with him)? 
Uthman Ibn Affan, Zubair Ibn Awwam, Abdur Rahman Ibn Awf, Sad Ibn Abi Waqqaas, Talha Ibn Ubaidullah and Saeed Ibn Zaid (Umar's son-in-law) (May Allah be pleased with them). 

47. Who were the ladies to accept Islam at first? 
Abbas's wife Ummaul Fadl, Abu Bakr's wife Asma Bint Umais, his 
daughter Asma Bint Abi Bakr and Fatimah Bint Al Khattab Umar's sister (May Allah be pleased with them). 

48. How was the Dawah done in the beginning? 
It was done in secret. 

49. How many people embraced Islam in the early stage? 
About forty. 

50. How many years did the call in secret continue? 
For three years.

51. During this period, where would the Muslims gather secretly? 
They would gather secretly in the house of a Muslim called Arqam to learn about Islam and the revelations sent down to the Prophet 
(p.b.u.h.). 

52. When did the Prophet (p.b.u.h.) start to preach Islam openly? 
After three years when he received the revelation to that effect. 

53. What was the impact of his public preaching? 
The people accepted Islam increasingly.

54. What was the main miracle of the Prophet (p.b.u.h.)? 
The Holy Quran.

55. Did the Prophet (p.b.u.h.) perform other miracles? 
Yes, the splitting of the moon was one of them. 

56. Who was Abu Jahl? 
One of the Prophet's (p.b.u.h.) uncles. 

57. Name some of the disbelievers of Makkah who supported the Prophet (p.b.u.h.), but did not embrace Islam until the end. 
Abu Talib, Mutim Ibn Adi and Abul Bukhtari. 

58. How long did Abu Talib protect the Prophet (p.b.u.h)? 
For 42 years - from the Prophet's childhood until he himself died. 

59. Who was Mutim Ibn Adi? 
A chief of Makkah. 

60. When did he (Mutim Ibn Adi) give protection to the Prophet 
(p.b.u.h.)? 
When the Prophet (p.b.u.h.) returned from Taif and wanted to enter Makkah.

 
61. When did he (Mutim Ibn Adi) die? 
He was killed in the Battle of Badr. 

62. Who was Abul Bukhtari? 
He was a poet. 

63. How did he (Abul Bukhtari) support the Prophet Muhammad (p.b.u.h.)? 
He spoke out against the social boycott. 

64. What lead the Muslims to emigrate to Abyssinia ? 
Their growing persecution at the hands of Quraish. 

65. Which Surah lead to this emigration? 
Surah Az Zumar. 

66. When was Abul Bukhtari killed? 
In the battle of Badr. 

67. Who was then the King of Abyssinia ? 
The King of Abyssinia, known as Najjashi (the Negus), during the time of the Prophet ( p.b.u.h.) was As'hama. 

68. When did the first group of Muslims leave for Abyssinia ? 
In Rajab, in the fifth year of Prophethood. 

69. How many persons were there in the group? 
12 men and 4 women. 

70. How were the emigrants received in Abyssinia ? 
They were received warmly and hospitably. 

71. When did the second group of emigrants leave for Abyssinia ? 
In the fifth year of Prophethood.

72. How many people formed the group? 
83 men and 18 women. 

73. Name a prominent companion included in this group. 
Ja'far Ibn Abi Talib (May Allah be pleased with him). 

74. What did Quraish do? 
They despatched two envoys to Abyssinia to demand the extradition of the emigrants.

75. How did the King respond? 
He refused to extradite the Muslims and assured them of his full 
protection. 

76. When did Umar (May Allah be pleased with him) accept Islam? At the age of 27. 

77. Who was Bilal Ibn Rabah (May Allah be pleased with him)? 
He was a slave of Umayyah Ibn Khalaf.

78. What was his (Bilal Ibn Rabah's) origin? 
He was of Abyssinian decent. 

79. What was the name of Bilal's mother? 
Hamama. 

80. Who was Yaser (May Allah be pleased with him)? 
He was a slave of Abu Jahl.

 
81. Who was Sumayyah (May Allah be pleased with her)? 
She was Yaser's (a slave of Abu Jahl) wife. 

82. Who was Ammar (May Allah be pleased with him)? 
He was Yaser and Sumayyah's only son. 

83. How did Summaya (May Allah be pleased) die? 
Abu Jahl murderded her with a bayonet. 

84. Who was Zaid Ibn Haritha (May Allah be pleased with him)? 
He was a slave.

 
85. Who purchased him (Zaid Ibn Haritha)? 
Khadijah's nephew Hakim Ibn Hizam purchased him and presented him to her. 

86. What did Khadijah do with Zaid Bin Haritha? 
She presented him to the Prophet who set him free. 

87. Did Zaid Bin Haritha want to go to his parents? 
No, he preferred to live with the Prophet (p.b.u.h .). 

88. To whom was Zaid Bin Haritha married? 
To Umma Aiman (May Allah be pleased with her). 

89. Who was Ja'far? 
He was the elder brother of Ali Ibn Talib (May Allah be pleased with him). 

90. Where did he (Ja'far) emigrate? 
To Abyssinia . 

91. Who was Ali (May Allah be pleased with him)? 
He was the son of Abu Talib and cousin of the Prophet (p.b.u.h.). 

92. When did Ali (May Allah be pleased with him) accept Islam? 
When he was 19. 

93. What was he (Ali) called for his bravery? 
The "Lion of Allah". 

94. Whom did Ali first marry? 
He first married the Prophet's (p.b.u.h.) daughter Fatimah (may Allah be pleased with her). 

95. How many sons did Ali have from her? 
Two sons: Hasan and Husain (May Allah be pleased with them).

96. When did Sa'd bn Abi Waqqas (May Allah be pleased with him) become a Muslim? 
When he was 19. 

97. Where did Sa'd (May Allah be pleased with him) die? 
He died in Al Madinah.

98. What was Sa'd's advice to Muslims? 
To stand united. 

99. Who was Abu Bakr's father (May Allah be pleased with him) and did he accept Islam? 
He was Uthman (May Allah be pleased with him) (Abu Quhafah). Yes, he accepted Islam during the Conquest of Makkah.