Saturday, December 13, 2014
Thursday, December 11, 2014
جانتے ہو یہ کون شخص یہ ؟
جانتے ہو یہ کون شخص یہ ؟
یہ کیچڑ میں لتھڑے ہوئے کپڑے یہ پھٹے بوٹ اتارتا ہوا انسان کون ہے ؟
کیا یہ کوئی غریب و مفلوک الحال بندہ ہے ؟
نہیں میں بتاتا ہوں یہ کون ہے ،
یہ شخص وہ ہیرو ہے کہ ایک وقت تھا کہ ہندوستان اور پاکستان کی خوبصورت سے خوبصورت ترین ہیروئینز اس پر جان چھڑکتی تھیں ،
آسٹریلیا سے لے کر برطانیہ تک گوریاں اسکی عاشق تھیں ،
جیسے ہی دلکش انسان پویلین سے گراونڈ میں داخل ہوتا لاکھوں دل دھک دھک کرتے تھے ،
دنیا کے منگے ترین برانڈ اسکو اپنی کمرشل میں لینے کے لئے پیچھے پیچھے پھرتے تھے ،
جہاں جاتا تھا لوگ اسکے پاؤں تلے اپنی پلکیں بچھاتے تھے ،
اور جانتے ہو آج یہ شخص اس حالت میں کیوں ہے ؟
صرف اس قوم کے بچوں کے مستقبل کے لئے اس عظیم انسان نے اپنے مستقبل کو داؤ پر لگا دیا ہے ،
یہ چاہتا ہے کہ اس ملک کے ہر بچے کو اسکا حق ملے ،
یہ چاہتا ہے کہ اس ملک کے ہر غریب اور امیر کے لئے ایک ہی قانون ہو ،
امیر اور غریب سبھی کو برابر انصاف ملے ،
مگر بدقسمتی سے اس ملک میں موجود چند بیمار سوچ اور مفلوج ذہن رکھنے والے غلام لوگ ہیں جن کو آزادی سے نفرت اور غلامی سے پیار ہے
وہ اس عظیم انسان کے خلاف اپنی غلیظ زبان استعمال کر رہے ہیں ،
ان کو یہ سمجھ نہیں آرہی کہ جسے وہ آزادی سمجھ رہے ہیں وہ ظلم اور ناانصافی کا بوسیدہ اور فرسودہ نظام ہے ،
انکو کھانے کے لئے چند قیمے والے نان اور بریانی کی پلیٹ مل جاتی ہے چند گھنٹے نعرے لگانے کے عوض انکے لئے بس یہی کچھ من و سلوی کی حیثیت رکھتا ہے ،
یہ کنوئیں کے مینڈک سمجھتے ہیں کہ بس یہی دنیا ہے اور اسی میں ہمیں رہنا ہے ،
مگر یاد رکھو جب عمران خان ہمارے ساتھ نہیں ہوگا تب تم پچھتاؤ گے جب نورا اور زرداری تمھارے بچوں کا راتوں رات سودا کر دیں گے اور تمھارے پاس رونے کو بھی آنسو نہیں ہونگے ،
اس انسان کی قدر کرو اور اپنے اور اس ملک و قوم کے بچوں کے مستقبل کی خاطر ،
Wednesday, December 10, 2014
کیپٹن احسان ملک اور بھارتی فوج کے سابق فیلڈمارشل اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل مانک شا
کیپٹن احسان ملک
-------------------------- -------------------------- ------------------
28 جولائی 1999ء کو بھارتی فوج کے فیلڈمارشل مانک شا کو ایک ٹی۔وی انٹرویو کے لیے بلایا گیا۔ سقوط ڈھاکہ کے وقت مانک شا چیف آف آرمی سٹاف تھا وہ اس جنگ کے دو برس بعد 1973ء میں سبک دوش ہوا۔
کرن تھاپر نے ایک ایسا سوال مانک شا سے کردیا جس کے جواب نے ان کروڑوں لوگوں کو ششدر کردیا جو اس وقت ٹی۔وی پر ان کا انٹرویو دیکھ رہے تھے۔ کرن تھاپر نے پوچھا کہ فیلڈمارشل صاحب آپ کو یہ جنگ جیتنے کا کتنا کریڈٹ جاتا ہے کیونکہ پاکستانی فوج نے وہ بہادری نہیں دکھائی جس کی ان سے توقع کی جارہی تھی۔
فیلڈمارشل مانک شا ایک لمحے میں ایسے پیشہ ور فوجی بن گئے جو اپنے دشمن کی تعریف کرنے میں بغض سے کام نہیں لیتے۔ مانک شا نے کہا، یہ بات غلط تھی۔ پاکستانی فوج بڑی بہادری سے ڈھاکا میں لڑی تھی لیکن ان کے جیتنے کا کوئی امکان نہیں تھا۔ وہ اپنے مرکز سے ہزاروں میل دور جنگ لڑ رہے تھے جبکہ میں نے اپنی ساری جنگی تیاریاں آٹھ سے نو میل کے علاقے میں کرنا تھیں۔ ایک پاکستانی فوجی کے مقابلے میں میرے پاس پندرہ بھارتی فوجی تھے لہٰذا اپنی تمام تر بہادری کے باوجود پاکستانی فوج یہ جنگ نہیں جیت سکتی تھی۔
کرن تھاپر کو کوئی خیال آیا اور اس نے پوچھا کہ فیلڈمارشل ہم نے کوئی کہانی سنی ہے کہ پاکستانی فوج کا ایک کیپٹن احسان ملک تھا جس نے کومان پل کے محاذ پر بھارتی فوجیوں کے خلاف اتنی ناقابلِ یقین بہادری دکھائی کہ آپ نے جنگ کے بعد بھارتی فوج کا چیف آف آرمی سٹاف ہوتے ہوئے اسے ایک خط لکھا جس میں اس کی بہادری اور اپنے ملک کے لیے اتنے ناقابل یقین انداز میں لڑنے پر اسے خراجِ تحسین پیش کیا گیا تھا۔
مانک شا نے کہا کہ یہ بات بالکل سچ ہے۔ بھارتی افواج ڈھاکا کی طرف پیش قدمی کررہی تھیں اور یہ پاکستانی کیپٹن ہماری فوج کے آگے دیوار بن کر کھڑا ہوگیا۔ اس اکیلے نے محاذ پر موجود بھارتی فوج کومشکلات میں مبتلا کرنا شروع کیا۔ ایک زوردار حملہ کیا گیا جو اس نے اپنی حکمت عملی کی بدولت پسپا کیا۔ بھارتی فوج نے دوسری دفعہ باقاعدہ منصوبہ بندی کرکے اس محاذ پر پہلے سے بھی بڑا حملہ کیا لیکن کیپٹن احسان ملک نے انھیں ایک انچ بھی آگے نہیں آنے دیا۔ بھارتی فوج نے آخر اس محاذ پر تیسرا حملہ کیا تو تب کہیں جاکر انھیں کامیابی ہوئی۔ مانک شا بڑا حیران تھا کہ آخر اتنی بڑی بھارتی فوج کے حملے کے سامنے کون تھا جو شکست ماننے کو تیار نہیں تھا۔ انھیں بتایا گیا کہ یہ ایک کیپٹن احسان ملک تھا جس نے ان کی تمام کوششوں اور حکمتِ عملی کو ناکام بنا دیا تھا۔ معلوم نہیں وہ زندہ بچا یا لڑتا ہوا مارا گیا۔
جنگ ختم ہوگئی۔ مانک شا ایک فاتح جنرل کی طرح بھارت واپس آیا۔ اپنے دفتر جاکر جو اس نے پہلا کام کیا وہ یہ تھا کہ کاغذ قلم اٹھا کر کیپٹن احسان ملک کے نام ایک ذاتی خط لکھا اور اسے اپنے ملک کے لیے اتنی بہادری اور بے جگری سے لڑنے پر خراج تحسین پیش کیا۔ خصوصًا ان حالات میں کہ جب پاکستانی فوج کے پاس بھارت کے سامنے لڑنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔ یہ خط اس نے پاکستان کی فوج کو بھیجا کہ یہ اس بہادر کیپٹن کو دیا جائے۔
1971ء کی جنگ کو آج 43 برس گزر گئے ہیں۔ آپ، میں اور ہماری نسلیں کیپٹن احسان ملک کے نام سے واقف تک نہیں۔ ایک ایسا کیپٹن جس کی بہادری نے فیلڈمارشل مانک شا کو اتنا متاثر کیا تھا کہ جنگ کے تیس برس بعد بھی 1999ء میں کرن تھاپر کو دئیے انٹرویو میں اس کا نام تک یاد تھا۔ جب کہ اس بہادر کیپٹن کا نام ہم نے اپنی کسی تاریخ کی کتاب میں نہیں پڑھا اور نہ ہی ہمارے بچے پڑھیں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہم نے ان لوگوں کو ہیرو کا درجہ دے رکھا ہے جو اپنی ساری زندگی اس وطن کی دولت باہر کے ملکوں میں منتقل کرنے میں گزار دیتے ہیں۔ جو جیتے ہیں تو دولت کی خاطر اور مرتے ہیں تو دولت کی خاطر۔ جو امیر سے امیر تر ہوتے جاتے ہیں اور عوام غریب سے غریب تر۔ اور جب وہ اقتدار کی ہوس میں لڑتے ہوئے ”شہید“ ہو جاتے ہیں تو ان کا نام تاریخ کی کتابوں میں سنہرے حروف میں لکھا جاتا ہے۔ جبکہ کیپٹن احسان جیسے سپاہیوں کی حب الوطنی اور بہادری کے قصے ہم دشمنوں کی زبان سے سنتے ہیں۔
Subscribe to:
Posts (Atom)