Thursday, March 21, 2013

500 روپے



باپ رات کو دیر سے گھر لوٹ آیا۔ مسلسل کام کرنے کی وجہ سے تھکاوٹ اور چڑچڑاپن محسوس کر رہا تھا۔ اس کا کم سن بیٹا اس کے انتظار میں دروازے کے قریب بیٹھا ہوا تھا۔باپ کے بیٹھتے ہی بیٹے نے کہا ابو! کیا میں آپ سے ایک سوال پوچھ سکتا ہوں؟ہاں بیٹا! کیوں نہیں، پوچھو۔ابو آپ ایک گھنٹے میں کتنا کماتے ہو؟باپ نےغصے سے کہا یہ سوچنا تمہارا کام نہیں۔ اس طرح کا سوال تمہارے ذہن میں آیا کیسے؟بیٹا بولا بس یوں ہی، میں جاننا چاہتا ہوں کہ آپ ایک گھنٹے میں کتنا کما لیتے ہو؟باپ: اگر تم ضروری جاننا چاہتے ہو تو ٹھیک ہے۔ (سوچتے ہوئے) 500 روپے۔بیٹا: او ہو۔۔۔ ۔ (کہتے ہوئے مایوسی سے اپنا سر جھکا لیا پھر اچانک اس کے ذہن میں کوئی بات آئی تو اس نے سر اٹھا کر کہا ابو! کیا آپ مجھے 250 روپے قرض دو گے؟باپ کا پارا ایک دم چڑھ گیا۔ "کیا تم مجھ سے صرف اس وجہ سے پوچھ رہے تھے کہ کسی گھٹیا کھلونے یا اس طرح کی دوسری چیزیں خریدنے کے لیے مجھ سے قرض مانگ سکو تو بہتر یہی ہے کہ جاؤ اپنے کمرے میں اور بستر پر سو جاؤ۔ اس طرح کی چھچھوری حرکت کرتے ہوئے تمہیں ذرا بھی احساس نہیں ہے کہ تمہارا باپ ایک گھنٹے میں اتنے پیسے کتنی مشکل اور خون پسینہ بہا کر حاصل کرتا ہے۔"بیٹا خاموشی سے مڑا اور اپنے کمرے میں داخل ہو کر دروازہ بند کر دیا۔باپ صوفے پر بیٹھ گیا۔ ابھی تک غصے سے بیٹے کے اس حرکت کے متعلق سوچ رہا تھا کہ کیوں اسے مجھ سے اتنے پیسے مانگنے کی ضرورت پڑ گئی؟ گھنٹے بھر بعد جب اس کا غصہ تھوڑا ٹھنڈا پڑ گیا تو دوبارہ سوچنے لگا۔ہو سکتا ہے کہ اسے کسی بہت ضروری چیز خریدنا ہے جو کہ مہنگا ہوگا اس لیے مجھ سے اتنے پیسے مانگ رہا تھا۔ ویسے تو اس نے کبھی مجھ سے اتنے پیسے نہیں مانگے ہیں۔ یہ سوچتے ہوئے وہ بیٹے کے کمرے کی طرف بڑھا اور دروازہ کھولا اور پوچھا کیا تم سو گئے بیٹا؟بیٹا اٹھ کر بیٹھ بیٹھا اور کہا نہیں ابو! جاگ رہا ہوں۔باپ: مجھے لگتا ہے کہ میں نے تم سے کافی سختی سے پیش آیا۔ دراصل آج میں نے بہت سخت اور تھکا دینے والا دن گزارا ہے۔ اس لیے تم پر ناراض ہو گیا۔ یہ لو 250 روپے۔بیٹا (خوشی سے مسکراتے ہوئے): بہت بہت شکریہ ابو! واؤ۔ایک ہاتھ میں پیسے لے کر دوسرے ہاتھ کو اپنے تکیے کی طرف بڑھایا اور جب اپنا ہاتھ تکیے کے نیچے سے نکالا تو اس کی مٹھی میں چند مڑے تڑے نوٹ دبے ہوئے تھے۔ دونوں پیسے باہم ملا کر گننا شروع کیا۔ گننے کے بعد باپ کی طرف دیکھا۔باپ نے جب دیکھا کہ بیٹے کے پاس پہلے سے بھی پیسے ہیں تو اس کا غصہ دوبارہ چڑھنا شروع ہو گیا۔باپ: جب تمہارے پاس پہلے ہی سے اتنے پیسے ہیں تو تمہیں مزید پیسے مانگنے کی کیوں ضرورت پڑ رہی ہے؟بیٹا: دراصل میرے پیسے کم پڑ رہے تھے لیکن اب پورے ہیں۔ اب میرے پاس پورے 500 روپے ہیں۔ (پیسے باپ کی طرف بڑھاتے ہوئے) ابو! میں آپ سے آپ کا ایک گھنٹہ خریدنا چاہتا ہوں۔ پلیز کل آپ ایک گھنٹہ پہلے آ جائیے گا تاکہ میں آپ کے ساتھ کھانا کھا سکوں۔باپ سکتے میں آ گیا۔ بانہیں پھیلا کر بیٹے کو آغوش میں لے لیا اور گلوگیر آواز سے اس سے اپنے رویہ کی معافی مانگنے لگا۔

ذرا سوچئے! کہیں ایسا تو نہیں کہ زندگی کی روزمرہ کی بھاگ دوڑ میں آپ بھی اپنے بچے یا دوسرے گھر والوں کو وقت نہ دے پا رہے ہوں؟


Tuesday, March 12, 2013

حضرت عمر بن عبدالعزیز




تاریخِ اسلام میں خلفاے راشدین کے بعد جس خلیفہ کا نام انتہائی عزت و احترام سے لیا جاتا ہے وہ حضرت عمر بن عبدالعزیز ہیں جو بنواُمیہ کے ساتویں خلیفہ تھے۔ آپ کی مدت خلافت اگرچہ تین برس سے بھی کم ہے مگر اس مختصر عرصے میں آپ نے جو اصلاحات کیں اس سے نہ صرف پورا ملک مستفید ہوا بلکہ بعد میں بھی اس کے نہایت دُوررس نتائج برآمد ہوئے۔ خاص طور پر ملک کی اقتصادی اور معاشی پالیسی آپ نے جس نہج پر
بنائی اس کی مثالیں آج بھی دی جاتی ہیں۔ آپ نے پہلی بار اُموی خلفا کے برعکس بیت المال کو عوام کی امانت قرار دیا۔ آپ سے قبل جن خلفا اور حاکموں نے اختیارات کا ناجائز فائدہ اُٹھا کر لوگوں کی زمینوں اور املاک بزور ظلم و زیادتی قبضہ کیا ہوا تھا یا سرکاری املاک کو اپنی جاگیریں قرار دیا تھا، آپ نے ان سب کو ضبط کرلیا۔ اکثر اپنے اصل مالکوں کو لوٹا دیں جو باقی بچا اس کو سرکاری املاک قرار دے دیا۔
آپ نے ہر صوبے کی آمدن کو اس صوبے پر خرچ کرنے کی پالیسی بنائی۔ اس کے باوجود اگر رقم بچ جاتی تو وہ دارالخلافہ بھیجی جاتی تھی جہاں اس کو ضرورت کے مطابق خرچ کیا جاتا تھا۔ اس معاشی پالیسی کا نتیجہ یہ نکلا کہ بعض صوبے اس قدر آسودہ حال ہوگئے کہ صدقے کی رقم بھی مرکزی بیت المال کو بھیجی جانے لگی، جب کہ مرکز میں اخراجات میں انتہائی احتیاط برتی جاتی تھی۔ بے جا اخراجات پر سخت کنٹرول تھا جس کے سبب اخراجات خصوصاً شاہی اخراجات نہ ہونے کے برابر رہ گئے۔ اس کا اندازہ اس امر سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ خود حضرت عمر بن عبدالعزیز کے اہل و عیال کے کھانے پینے کا یومیہ خرچہ صرف دو درہم تھا، حالانکہ خلیفہ بننے سے قبل آپ نے انتہائی پُرتعیش زندگی گزاری تھی مگر خلیفہ بننے کے بعد آپ نے سب کچھ ترک کر دیا اور رعایا کی خدمت کو اللہ تعالیٰ کی رضا قرار دیا۔
معاشی اصلاحات کے بعد آپ کا دوسرا سب سے اہم کارنامہ انصاف کی فراہمی تھا۔ انصاف کی فراہمی میں آپ نے کسی کی پروا نہ کی اور نہ کسی کو خاطر میں لائے۔ قانون کی نظر میں سب برابر تھے۔ کسی قسم کا معاشی یا خاندانی مقام و مرتبہ انصاف کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکتا تھا۔ جس کی وجہ سے قانون شکنی کا رجحان ختم ہوا۔ کوئی بھی غیرقانونی کام کرنے سے پہلے ہر شخص کو سو بار سوچنا پڑتا تھا، اس لیے بہت جلد ملک بھر میں محاورتاً نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں انصاف کا بول بالا ہوگیا۔ فراہمی عدل کے سلسلے میں آپ حضرت عمرفاروق اور حضرت ابوبکر صدیق کے نقشِ قدم پر چلے اور تاریخ میں اَن مٹ نقوش چھوڑ گئے۔ آپ کے ان ہی اقدامات کی وجہ سے آپ کو خلفاے راشدین کے بعد پانچویں خلیفۂ راشد قرار دیا جاتا ہے۔
آپ کی اصلاحات مقتدر طبقے کو اور پھر خاص کر شاہی خاندان کے افراد کو بہت ناگوار گزر رہی تھیں۔ وہ اس روک ٹوک کے بھلا کہاں عادی تھے۔ اس لیے پسِ پردہ سازشوں کا تانا بانا بُننے لگے بالآخر آپ کے ایک غلام کو ورغلانے میں کامیاب ہوگئے جس نے آپ کے کھانے میں زہر ملا دیا۔ آپ کا سالِ وفات ۷۲۰ عیسوی ہے۔ یہاں ہم اس عظیم خلیفہ کے دسترخوان کا حال بیان کرتے ہیں جس کا تذکرہ تاریخ کی مختلف کتابوں میں جگہ جگہ ہوا ہے۔
خلافت سے قبل آپ کا طعام بھی آپ کے لباس کی طرح اچھا خاصا پُرتکلف ہوا کرتا تھا مگر خلیفہ بننے کے بعد آپ نے زہد و قناعت اختیار کی۔ تعیشات اور تکلفات کو یک سر موقوف کر دیا۔ کھانا انتہائی سادہ اور ایک سالن پر مبنی ہوتا تھا۔ آپ کا معمول تھا کہ جب آپ کا کھانا تیار ہوجاتا تو کسی برتن میں ڈھک کر رکھ دیا جاتا۔ جب آپ کو کاروبارِ خلافت سے ذرا فرصت ملتی تو خود ہی اُٹھاکر اسے تناول فرماتے تھے۔
خاندانِ بنی اُمیہ میں مسلمہ بن عبدالملک سب سے زیادہ مال دار، ناز ونعمت کا دل دادہ اور کھانے پینے کے معاملے میں انتہائی فضول خرچ تھا۔ آپ کو جب اس کے کھانے پینے کے بارے میں انتہائی اسراف کا حال معلوم ہوا تو اسے صبح سویرے طلب کیا اور ظہرانے پر مدعو کیا۔ اس کے ساتھ باورچی کو ہدایت کی کہ میرا کھانا حسبِ معمول ہوگا، جب کہ ظہرانے میں مہمان کا کھانا انتہائی پُرتکلف اور متنوع ہونا چاہیے مگر اسے تاخیر سے پیش کیا جائے۔
مسلمہ بن عبدالملک صبح سے لے کردوپہر تک کاروبارِ خلافت دیکھتے رہے۔ یہاں تک کہ ان کی بھوک چمک اُٹھی مگر کھانا ابھی تیار نہ تھا۔ تاہم اس دوران حضرت عمر بن عبدالعزیز نے عمداً اپنا کھانا منگوایا جو صرف مسور کی دال پر مشتمل تھا۔ آپ نے ان سے فرمایا: ’’آپ کے کھانے میں ذرا دیر ہے، تاہم اگر آپ میرے ساتھ شریکِ طعام ہونا چاہیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں‘‘۔ چونکہ وہ اس وقت بھوک سے بے تاب تھے اس لیے خلیفہ کے ساتھ دسترخوان پر بیٹھ گئے اور خوب جی بھر کر کھایا۔ اسی وقت آپ کے اشارے پر خدام نے خصوصی کھانا لگایا تو آپ نے مسلمہ بن عبدالملک سے فرمایا کہ آپ کا کھانا تیار ہے، تناول فرمائیں۔ اس نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ میں سیر ہوچکا ہوں۔ اب بالکل گنجایش نہیں۔ یہ سن کر آپ مسکرائے اور فرمایا: اے مسلمہ! جب بھوک کے لیے صرف مسور کی دال کافی ہوسکتی ہے تو پھر اس کے لیے اتنا بے جا اسراف اور تکلفات کیوں؟ مسلمہ ذہین اور دانا آدمی تھے، فوراً بات سمجھ گئے اور انھوں نے اپنی اصلاح کرلی۔
ایک مرتبہ آپ کی پھوپھی کچھ نجی مسائل پر آپ سے صلاح مشورے کے لیے تشریف لائیں۔ اس وقت آپ دسترخوان پر بیٹھے رات کا کھانا تناول فرما رہے تھے۔ پھوپھی نے دیکھا کہ دسترخوان پر چند ایک چھوٹی چھوٹی روٹیاں، کچھ نمک اور ذرا سا زیتون کا تیل رکھا ہوا ہے۔ یہ دیکھ کر اس نے کہا: امیرالمومنین! میں تو اپنی ایک ضرورت کے تحت آپ سے مشورہ لینے آئی تھی، مگر آپ کو دیکھ کر مجھے احساس ہوا کہ اپنی ضرورت سے قبل مجھے آپ کو ایک مشورہ دینا چاہیے۔ آپ نے کہا: پھوپھی جان! فرمایئے۔ انھوں نے کہا: آپ ذرا نرم اور بہتر کھانا کھایا کریں۔ یہ سن کر آپ نے کہا: یقیناًآپ کا فرمانا بجا ہے، مجھے چاہیے کہ میں ایسا ہی کروں، مگر اس کا کیا کیجیے کہ مجھے بیت المال سے سالانہ ۲۰۰ دینار کا وظیفہ ملتا ہے اور اس میں اتنی گنجایش نہیں ہوتی کہ نرم اور بہتر کھانا کھا سکوں، جب کہ پیٹ کی خاطر مقروض ہونا مجھے گوارا نہیں۔
ایک دفعہ زیان بن عبدالعزیز آپ کے پاس آئے۔ کچھ دیر تک بات چیت ہوئی۔ دورانِ گفتگو آپ نے کہا: کل رات مجھ پر بہت گراں گزری۔ رات بھر کروٹیں بدلتا رہا، نیند بھی بہت کم آئی۔ میرا خیال ہے اس کا سبب وہ کھانا تھا جو رات کو میں نے کھایا تھا۔ زیان نے پوچھا: رات کو کیا کھایا تھا؟ آپ نے جواب دیا: مسور کی دال اور پیاز۔ اس پر زیان نے کہا: اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہت کچھ دے رکھا ہے مگر آپ نے خود ہی اپنے اُوپر پابندیاں لگا رکھی ہیں۔ اتنی سخت پابندیاں بھی کچھ اچھی نہیں۔ آپ کو اچھا اور عمدہ کھانا لینا چاہیے۔ اس پر آپ نے تاسف بھرے لہجے میں کہا: میں نے تجھے بھائی سمجھ کر اپنا بھید تجھ پر کھولا مگر افسوس کہ میں نے تجھے اپنا خیرخواہ نہیں پایا، آیندہ محتاط رہوں گا۔

ابواسلم کہتے ہیں کہ ایک دن آپ کا ایک مہمان آیا ہوا تھا۔ آپ نے غلام کو کھانا لانے کو کہا۔ غلام کھانا لے آیا جو چند چھوٹی چھوٹی روٹیوں پر مشتمل تھا، جن پر نرم کرنے کے لیے پانی چھڑکا ہوا تھا اور ان کو روغنی بنانے کے لیے نمک اور زیتون کا تیل لگایا گیا تھا۔ رات کو جو کھانا پیش ہوا وہ دال اور کٹی ہوئی پیاز پر مشتمل تھا۔ غلام نے مہمان کو وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ اگر امیرالمومنین کے ہاں اس کے علاوہ کوئی اور کھانا ہوتا تو وہ بھی ضرور آپ کی مہمان نوازی کے لیے دسترخوان کی زینت بنتا، مگر آج گھر میں صرف یہی کھانا پکا ہے۔ امیرالمومنین نے بھی اس کھانے سے روزہ افطار فرمایا ہے۔

آپ کا معمول تھا کہ نمازِ عشاء کے بعداپنی صاحب زادیوں کے پاس تشریف لے جاتے تھے اور ان کی مزاج پُرسی فرماتے۔ ایک رات جب آپ بیٹی کے پاس تشریف لے گئے تو صاحب زادی نے منہ پر ہاتھ رکھا اور ذرا فاصلے پر کھڑی ہوگئیں۔ آپ کو تردّد ہوا تو خادمہ نے عرض کیا: حضور بچیوں نے ابھی کھانے میں مسور کی دال اور کچی پیاز کھائی ہے، بچی کو گوارا نہ ہوا کہ آپ کو اس کی بو محسوس ہو۔ یہ سن کر آپ رو پڑے اور فرمایا: بیٹی! تمھیں کیا یہ منظور ہوگا کہ تم انواع و اقسام کے لذیذ اور عمدہ کھانے کھاؤ اور اس کے بدلے میں تمھارے والد کو دوزخ ملے۔ بیٹی یہ سن کر سسک پڑی اور آپ کے گلے لگ گئی۔
مسلمہ بن عبدالملک کہتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نمازِ فجر کے بعد حضرت عمر بن عبدالعزیز کے خلوت خانے پر حاضر ہوا جہاں کسی اور کو آنے کی اجازت نہ تھی۔ اس وقت ایک لونڈی صیحانی کھجور کا تھال لائی جو آپ کو بہت پسند تھیں اور اسے رغبت سے کھاتے تھے۔ آپ نے دونوں ہاتھوں سے کچھ کھجوریں اُٹھائیں اور پوچھا: مسلمہ! اگر کوئی اتنی کھجوریں کھاکر اس پر پانی پی لے تو کیا خیال ہے یہ رات تک اس کے لیے کافی ہوگا؟ میں نے عرض کیا: مجھے صحیح اندازہ نہیں، میں قطعی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ کھجوریں کم تھیں۔ اس پر آپ نے کھجوروں سے اوک بھرا اور پوچھا: اب کیا خیال ہے؟ اب چونکہ مقدار زیادہ تھی اس لیے میں نے کہا: امیرالمومنین! اس سے کچھ کم مقدار بھی کافی ہوسکتی ہے۔
کچھ دیر توقف کے بعد آپ نے کہا: اگر اس قدر کھجوریں کافی ہیں تو پھر انسان اسراف کرکے اپنا پیٹ کیوں نارِ جہنم سے بھرتاہے۔ یہ سن کر میں کانپ اُٹھا اور بعد میں کھانے پینے کے معاملے میں نہایت کفایت شعاری سے کام لینے لگا۔
جب آپ کا وقت وصال آیا توآپ نے اپنے بیٹوں کو طلب کیا اور ان سے فرمایا: بچّو! میں جا رہا ہوں، میرے پاس کوئی دنیاوی مال و متاع نہیں کہ تم کو دے سکوں لیکن تمھارے لیے خیرکثیر چھوڑے جا رہا ہوں۔ تم جب کسی مسلمان یا ذمّی کے پاس سے گزرو گے، اپنے لیے عزت و احترام ہی پاؤگے۔ وہ تمھارا حق پہچانے گا کہ یہ اس خلیفۂ عادل کی اولاد ہے جس نے اپنی رعایا کو سب کچھ دیا مگر اپنی اولاد کو کچھ لینے نہیں دیا۔ اللہ تمھارا حامی و نگہبان ہو۔ اللہ تعالیٰ تمھیں رزق دے گا اور خوب دے گا۔
حضرت عبدالرحمن بن قاسم بن محمد ابی بکر فرماتے ہیں: جب حضرت عمر بن عبدالعزیز کا انتقال ہوا تو ان کے گیارہ وارث تھے اور ترکہ میں کل ۱۷ دینار تھے۔ پانچ دینار کفن پر خرچ ہوئے، دو دینار میں قبر کے لیے جگہ خریدی گئی، باقی اولاد پر تقسیم ہوئے تو ہر لڑکے کے حصے میں فی کس ۱۹ درہم آئے اور جب ہشام بن عبدالملک کا انتقال ہوا اور اس کا ترکہ اس کی اولاد میں تقسیم ہوا تو ایک ایک بیٹے کے حصے میں دس دس لاکھ دینار آئے۔ بعد میں، میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کی اولاد میں سے ایک نے جہاد کے لیے ایک دن میں ۱۰۰ گھوڑوں کا عطیہ دیا، جب کہ ہشام بن عبدالملک کی اولاد میں سے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ اس قدر تنگ دست ہوچکا تھا کہ لوگ اس بے چارے کو صدقہ و خیرات دیا کرتے تھے۔


Tuesday, March 5, 2013

ابابیلوں کا لشکر پاکستان ؟؟؟


ابابیلوں کا لشکر پاکستان ؟؟؟

*=*=*=*=*=*=*=*=*=*=*=*=**=*==*

میرا الله ہر فیصلے پر قادر ہے وہ فیصلے کرنے کا اختیار رکھتا ہے .اسے آنے والے حالات اور واقعات کا علم ہے وہ علم الغیب ہے .اور دشمنوں کی چالوں سے بخوبی واقف .جب سے انسان اس دنیا میں اترا ہے اس معاشرے کی اصلاح حفاظت کا ذمہ بھی الله نے لے رکھا ہے .کام وہی کرتا ہے مگر اپنے کام کی تکمیل کے لیے وہ اپنی مخلوقات ہی میں سے اپنے پسندیدہ برگزیدہ بندوں کو چنتا ہے جو اس کے مشن کو اس کی منشا کے مطابق مکمل کرتے ہیں .اور یہ سلسلہ نبیوں تک محدود نہیں الله ہر صدی اور دور میں مصیبت میں پھنسی انسانیت کو نکالنے اس کی تکلیفوں کو کم کرنے کے لیے کسی نہ کسی بندے کو قوم کو حتہ کے باقی پیدا کی ہوئی مخلوقات چرند پرند کو بھی چن لیتا ہے جو اس کے دشمنوں پر قہر بن کر ٹوٹتی ہیں .انہی مخلوقات میں ابابیلوں کا لشکر بھی شامل ہے .جو نا جانے کتنے برسوں سے آنے والے وقت میں مشن کی تکمیل کے لیے تیار ہوتی رہیں .جن پر الله کی جانب سے اپنے کام کے لیے انتخاب نظر ٹھرا .
بے شک کام الله ہی کرتا ہے حرم کی زمداری الله ہی نے لے رکھی ہے .مگر سبب کے لیے یوں ہی کسی نہ کسی مخلوق کو چن لیتا ہے .اس کی چال دشمن کے مقابلے میں ان سے بہتر ہے 
تاریخ سے ثابت ہے کہ ابرہہ نامی ایک عیسائی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش سے تقریباً دو ماہ پہلے خانہ کعبہ کو ڈھانے کے لیئے حملہ آور ہوا تھا لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ نے اُسکے مقابلے کے لیئے ابابلیوں (پرندوں) کی فوج بھیج دی جنہوں نے ابرہہ اور اُسکے لشکر پر سنگ باری کرکے اُسے رہتی دنیا کے لیئے نشان عبرت بنا دیا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ ابرہہ نے یمن کے دارالسلطنت صنعاءمیں ایک بہت شاندار اور عالی شان گرجا گھر بنا رکھا تھا اور چاہتا تھا کہ عرب کے لوگ خانہ کعبہ کی بجائے اُسکے گرجا گھر کو اپنی عبادت کا مرکز بنائیں۔ جب یہ ممکن نہ ہو سکا ابرہہ کو پتا چلا تو سخت برہم ہوا اور ساٹھ (60) ہزار کا لشکر جرار لے کر کعبہ کو ڈھانے کے لیے نکل کھڑا ہوا۔ اس نے اپنے لیے ایک زبردست ہاتھی بھی منتخب کیا۔ لشکر میں کل 9 یا 13 ہاتھی تھے۔ تو اس نے نعوذ باللہ خانہ کعبہ کو تباہ کرنے کی ٹھان لی اور ہاتھیوں کی فوج لے کر تکبر کا مظاہرہ کرنے لگا 
عبدل المطلب کو اطلاح ملی .لوگ پرشانی اور ناامید کا اظہار کرنے لگے کہ اب اس طاقتور ترین لشکر سے کوئی نہیں بچا سکے گا مگر عبدل مطلب مسکراے فرمایا وہی حفاظت کرے گا جس کا گھر ہے 
تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے پرندوں کے ہول در ہول بھیج دیئے جنہوں نے ایسی کنکریاں برسائیں کہ ابرہہ اپنے لشکر سمیت نیست و نابود ہو گیا۔یہاں تک کہ ابرہہ سمیت اس کی فوج کا ایک آدمی بھی زندہ نہ بچ سکا اور ہاتھیوں سمیت اِن کے جسموں کی بوٹیاں ٹکڑے ٹکڑے ہو کر زمین پر بکھر گئیں۔
یہ چڑیاں ابابیل اور قمری جیسی تھیں۔ ہر چڑیا کے پاس تین تین کنکریاں تھیں۔ ایک چونچ میں اور دو پنجوں میں۔ کنکریاں چنے جیسی تھیں مگر جس کسی کو لگ جاتی تھیں ، اس کے اعضاء کٹنا شروع ہو جاتے تھے اور وہ مر جاتا تھا۔
یہ کنکریاں ہر آدمی کو نہیں لگتی تھیں لیکن لشکر میں ایسی بھگدڑ مچی کہ ہر شخص دوسرے کو روندتا ، کچلتا گر پڑتا اور بھاگ جاتا۔ پھر بھاگنے والے ہر راہ پر گر رہے تھے اور ہر چشمے میں مر رہے تھے۔
ادھر ابرہہ پر اللہ تعالیٰ نے ایسی آفت بھیجی کہ اس کی انگلیوں کے پور جھڑ گئے اور صنعاء پہنچتے پہنچتے وہ چوزے جیسا ہو گیا ، پھر اس کا سینہ پھٹ گیا ، دل باہر نکل آیا اور وہ مر گیا۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ابرہہ نے خانہ کعبہ کو ڈھانے کا ناپاک ارادہ صرف مذہبی جنون میں ہی نہیں کیا تھا بلکہ اس کی پشت پر کھڑی اس وقت کی عیسائی دنیا کو بحر احمر کی بحری گزرگاہ پر مکمل تسلط درکار تھا کیوں کہ اس زمانے میں جس قوت کے ہاتھ میں بحری گزرگاہیں ہوتی تھیں وہی عالمی اقتصادیات کی حکمرانی کرتی تھی۔ 
صدیاں گزر گیں . اس واقعے کو پھر کسی کو جرت نہیں ہوئی .مگر الله کی آنے والے وقت پر بھی نظر ہے وہ جانتا ہے .شیطان کے پجاری کیا سوچ رکھتے ہیں .اور کون سی نئی چال چل کر اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کر رہے ہیں
قرآن اہلِ ایمان کو مخاطب کرتے ہوئے واضح کہتا ہے کہ یہود و نصاریٰ تمہارے دوست نہیں ہو سکتے بلکہ کھلے دشمن ہیں۔ اسلام چونکہ اس وقت دنیا میں تیزی سے پھیلتا ہوا مذہب بن چکا ہے اس لیئے یہود و نصاری اسے مٹانے کی ناپاک سازشوں میں مصروف ہیں۔ دُنیا کے مقدس ترین شہروں مکہ اور مدینہ پر حملوں اور خانہ کعبہ کو مٹانے کی سازش ابرہہ بھی کر چکا ہے اور آج بھی ہو رہی ہیں ۔ اسرائیل اس منصوبے پر عمل پیرا ہے کہ کسی طرح بحرِ احمر اُسکے ہاتھوں آ کر بحرِ یہودی یا بحرِ اسرائیل کہلائے چونکہ بحرِ احمر کے مشرقی کنارے پر اسلام کے دونوں مراکز مکہ اور مدینہ منورہ واقع ہیں اس لیئے یہود و نصاریٰ ایک بار پھر ابرہہ کی تاریخ دھرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔یہودی لابی ایک منظم سازش کے تحت حرمین شریفین کے گرد اپنے اڈے قائم کر چکی ہے اور اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لیئے مزید کوشاں ہے۔ جس کا مقصد گریٹر اسرائیل کی تیاری ہے .اور اس کے ساتھ امریکا ،انڈیا اس کا بازو بنے ہوے ہیں 
مجھے یہاں ہندو مذہبی انتہا پسندوں کے بیان یاد آ جاتا ہے جس میں وہ مشرکین مکہ سے اپنا دینی رشتہ جوڑتے ہوے اس بات کا عزم کرتے ہیں کہ کعبہ ان کا معاز الله بت کا گھر ہے .مکہ اور مدینہ ان کا ہے اور وہ مسلمانوں سے یہ مقامات چھین کر رہیں گے 
مگر میرا الله ان کی چالوں سے خوب واقف ہے .چنانچہ برسوں پہلے ہی ان کی چالوں کو سمجھتے ہوے الله نے آنے والے وقت کے رازوں سے اپنے پیارے نبی اکرم (ص) کو اگاہ فرما دیا .چنانچہ نبی اکرم ص نے ان دجالی چیلوں کی چالوں سے خبردار کرتے ہوے مشرق کی جانب رخ کر کے فرما دیا 
مجھے ہند سے ٹھنڈی ہوائیاں آ رہی ہیں .برسوں تک تاریخ اس بات کو ڈھونڈنے میں لگی رہی آخر ہند میں کون سا ایسا خطہ ہے جہاں سے سردار کائنات ص کو ٹھنڈی ہوا آئی
اس کا راز اس وقت کھلا جب ١٩٣٠ کے اندر ایک درویش صفت الله کے ولی نے الآباد کے مقام پر کھڑے ہو کر اپنے خطبے میں آنے والے وقت کی پیشن گوئی کرتے ہوے ایک اسلامی خطے کے قائم ہونے کی خوشخبری سناتے ہوے فرما دیا 
وحدت کی لے سنی تھی جس مقام سے 
میر عرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے 
میرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے 
آج ابرہہ نمرود ،فرعون ،کی ساری نسلیں یکجا ہو کر ایک دجالی نظام تشکیل دے چکی ہیں .اس دفعہ ان کا داؤ بھی ماضی کی نسبت بہت خطرناک ہے .چنانچہ نیو ورلڈ آرڈر کے حکم نامے جاری کیے جا رہے ہیں .جبکہ اس دنیا سے الله کے تشکیل کردہ مراکز کو تباہ کرنے کی سازش بھی عروج پر ہے.مگر میرا الله بہت خاموشی سے چپکے چپکے ابابیلوں کا ایک اور لشکر تشکیل دے رہا ہے .جس کی بنیاد ١٩٤٧ میں رکھی گئی .جس کو تباہ کرنے کے لیے دشمن نہ جانے کتنی جدوجہد میں مصروف ہے .کبھی سیکولرازم کے لبادے لپیٹ کر تو کبھی فرقہ وارانہ سرگرمیوں میں الجھا کر اس لشکر کو تباہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ..کبھی اس خطے کو دلخت کر کے مگر 
جوں جوں اس کو تباہ کرنے کی سازشیں عروج پر آتی ہیں .الله اس کو اور مظبوط سے مظبوط کرتا چلا جاتا ہے 
حتہ کہ امریکی تجزیہ نگار اس بات کی پیشن گوئی دینے پر مجبور ہو چکے ہیں کہ آیندہ ٧ سالوں تک پاکستان ان کے ہاتھوں سے نکل جائے گا .
اب تو حالت یہ ہے یہ ابابیلوں کا لشکر سعودی عرب کے اندر بھی اپنا اثر رسوخ قائم کر چکا ہے .مجھے اچھی طرح یاد ہے یہاں ایک پاکستانی سے ملاقات کے دوران ایک سعودی نے پاکستانی کا ہاتھ چومتے ہوے اس بات کا اظہار کیا تھا کہ پاکستان اس وقت اس مشکل کی گھڑی میں حرم کی حفاظت کے لیے ان کے ساتھ کھڑا ہے 
یہی نہیں ایک ٹیکسی ڈرائیور سے ملاقات کے دوران بھی اس بات کا انکشاف ہوا کہ یہاں پاکستان آرمی کا ہر سولجر سعودی آرمی کے لیے قابل احترام ہے .اور یہاں سعودی آرمی کا ہر افسر پاکستان آرمی سے تعلق رکھتا ہے حالانکہ ان عربوں کی قوم اپنے آپ پر بہت ناز کرتی ہیں 
مجھے یہاں نبی اکرم ص کی ایک احدیث یاد آتی ہے 
ابو ہریرہ بیان فرماتے ہیں حضور نے فرمایا کے جب بڑی بڑی لڑیاں ہوں گئیں تو الله عجمیوں سے ایک لشکر اٹھاےُ گا .جو عرب سے بڑھ کر شاہ سوار اور ان سے بہتر ہتھیار والے ہوں گے ...الله ان کے زریعے دین کی مدد فرماے گا.(سنن ابن ماجہ )
ایک اور جگہ فرمایا حضرت امم المومنین (حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا )روایت کرتی ہیں -کہ رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمایا - زمانہ قریب میں مکہ کے اندر ایک قوم پناہ گزین ہو گی جو شوکت و حشمت اور افرادی ہتھیار کی طاقت سے تہی دست ہو گی - اس سے جنگ کے لیے ایک لشکر چلے گا - یہاں تک کہ یہ لشکر جب ایک چٹیل میدان میں پہنچے گا تو اسی جگہ زمین میں دھنسا دیا جائے گا (صحیح مسلم )
تو وہ تکبر کا ایک لشکر افغاستان کے اندر دھنس رہا ہے تجزیہ نگار اس بات کا اظہار کر رہے ہیں کہ افغانستان ایک دلدل ہے 
مجھے ایک دن ایک دانہ شخص سے ملاقات کا اتفاق ہوا .خراسان کی احدیث کا ذکر چھڑا بولے خراسان کے کالے جھنڈے کے بارے میں جانتے ہو میں نے کہا ہاں وہ جن کے جھنڈے کالے ہوں گے .کہنے لگے نہیں .اس سے مراد وہ لوگ ہوں گے جو انتہائی خاموش سے کام کریں گے .دنیا کو بتاے بغیر دنیا ان کے اصل منصوبے جاننے کی کوشش کرے گی مگر جان نہ پاے گی .شور کرتے لوگوں کی باتوں سے اتنا خوف زدہ نہیں ہوں گے جتنی کے ان کی خاموشی سے 
شاہد اقبال نے اسی وقت کے لیے اور انہی پرسرار بندوں کے لیے فرمایا تھا
**************************** 
شور دریا سے یہ کہہ رہا ہے سمندر کا سکوت 
جس میں جتنا ظرف ہے اتنا ہی وہ خاموش ہے 
************************** 
دوستو ......اس وقت مشرق وسطیٰ کی کنجی پاکستان کے ہاتھ میں آ رہی ہے..جب پاکستان بن رہا تھا تو اس وقت بھی اسرائیل کے پہلے وزیراعظم کا پہلا بیان جو کہ آج بھی ریکارڈ پر ہے، یہ دیا کہ ”دنیا میں ہمارا کوئی دشمن نہیں سوائے پاکستان کے.
اب پاکستان اچھا ہے برا ہے....غریب ہے یا بدحال اس الله اور نبی کے قلعے اس ابابیلوں کے لشکر کی حفاظت کرو......اس وجہ سے کیوں کے یہ اس وقت اس دجال کے چیلوں کے گلے میں ہڈی بن کر پھنسا ہوا ہے نہ نگل سکتے ہیں نہ اگل ....پچھلے ١٢ سال سے ایٹم بمبوں کے پیچھے افغانستان کے اندر کتوں کی طرح ذلیل ہو رہے ہیں مگر کامیابی نہیں ملی .........اگر یہ پتھر بیچ میں سے نکل گیا تو اس کے بعد دشمن اپنے ناپاک عزائم کی خاطر ہر وہ خطرناک ہتھیار استمال کرے گا.جو اس نے جمع کر رکھے ہیں
اور آخر میں یہ بات پھر سے ذہن میں رکھنا دین کی حرم کی حفاظت الله نے ہی کرنی ہے مگر،مشن کی تکمیل کے لیے وہ یہ اعزاز اور سبب اسی طرح قوموں کو ابابیلوں کی طرح بناتا ہے 
**********************************