Monday, July 15, 2013

وہ بھولا بسرا شخص! نقش خیال…عرفان صدیقی






وہ بھولا بسرا شخص! نقش خیال…عرفان صدیقی

ریمنڈ ڈیوس کے سفارتی استثنیٰ کا قضیہ کھڑا ہونے سے کوئی دس سال پہلے کی بات ہے۔ یہاں میرے شہر اسلام آباد میں ایک سفیر رہتا تھا۔ اس کا نام ملا عبدالسلام ضعیف تھا۔ ایک آزاد وخود مختار ملک کا سفیر ہونے کے ناتے اسے بین الاقوامی قوانین، ضابطوں اور معاہدوں کے مطابق مکمل استثنیٰ حاصل تھا۔ اس پر کیا بیتی؟ ہم بھول گئے ہیں۔ آئیے! آج بحث مباحثوں ، تجزیوں اور تبصروں سے ہٹ کر بھولے بسرے عبدالسلام ضعیف کی آپ بیتی کا ایک ورق، خود اس کی زبانی سنتے ہیں۔

”جنوری 2002ء کی دو تاریخ تھی۔ صبح کو میں اپنے گھر کے اندر گھرانے کے دیگر افراد سے معمول کی گپ شپ میں مصروف تھا۔ یہ کوئی صبح آٹھ بجے کا وقت تھا۔ میرے گھر کی سیکورٹی پر مامور افراد نے خبر دی کہ چند پاکستانی افراد، جو خود کو حکومتی اہلکار بتاتے ہیں، مجھے ملنے آئے ہیں۔ میں فوراً مہمان خانے میں آیا جہاں تین پاکستانی افراد بیٹھے تھے۔ ان میں سے ایک ، جس کی ظاہری شکل سے ہی نفرت اور تعصب کا اظہار ہورہا تھا اور وہ انتہائی بدشکل بھی تھا کہنے لگا۔“

Excellency! You are no more excellency
”عزت مآب ! اب آپ عزت مآب نہیں رہے“ اس نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔“ آپ جانتے ہیں کہ امریکہ اس وقت ایک سپرپاور ہے۔ پاکستان جیسا کمزور ملک اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا اور نہ ہی اس کی بات ماننے سے انکار کرسکتا ہے۔ اس سپر پاور کو آپ کی ضرورت ہے تاکہ وہ آپ سے کچھ تحقیقات کرسکے“۔ میں نے جواب میں اس سے کہا ”آپ کی یہ بات درست ہے امریکہ ایک سپر پاور ہے لیکن اس کے باوجود دنیا کے معاملات چلانے کیلئے کچھ مسلمہ قوانین اور اصول موجود ہیں۔ آپ کن اسلامی ، غیراسلامی یا بین الاقوامی اصولوں کے تحت یہ سلوک کررہے ہیں؟ کن قوانین کے تحت آپ مجھے امریکہ کے حوالے کرنے پر مجبور ہیں؟ آپ صرف یہ حق رکھتے ہیں کہ مقررہ وقت کے اندر مجھے پاکستان چھوڑنے کا کہہ دیں۔“


12بجے تک مجھے گھر ہی میں رہنے کا حکم دیا گیا۔ چاروں طرف سے میرے گھر کا محاصرہ کرلیا گیا۔ باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہ تھا۔ میں نے پاکستانی وزارت خارجہ کو فون کیا لیکن وہاں کے ذمہ داروں نے کوئی جواب دینے سے گریز بہتر سمجھا۔ گھر سے کہیں اور منتقل کرنے سے پہلے ان اہلکاروں نے بتایا ”ہم آپ کو پشاور منتقل کررہے ہیں، وہاں آپ ہمارے ساتھ رہیں گے۔ صرف امریکی آپ سے تحقیقات کریں گے۔“ یاد رہے کہ اس وقت میرے پاس دس مہینے کا پاکستانی ویزا موجود تھا اور خارجہ امور کا وہ رسمی خط بھی جس میں مذکور تھا کہ اس خط کا حامل اس وقت تک پاکستان میں رہ سکتا ہے جب تک افغانستان میں امن قائم نہیں ہوجاتا۔ اس کے علاوہ اقوام متحدہ کا یہ خط بھی موجود تھا کہ یہ ایک اہم شخصیت ہے جس کے ساتھ احترام کا سلوک کیا جائے۔

سوا بارہ بجے تین گاڑیاں میری رہائش گاہ کے سامنے آکر رکیں ۔ تمام راستے بند کردیئے گئے۔ کسی صحافی کو بھی قریب نہ آنے دیا گیا تاکہ وہ پاکستانی حکومت کے اس شرمناک عمل کے مناظر فلما کر دنیا کو ، خاص کر مسلمانوں کو دکھا نہ سکیں۔ میں اس حال میں گھر سے نکلا کہ میرے بچے چیخیں مار مار کر رو رہے تھے۔ انسانی حقوق ، بین الاقوامی ضابطے، جمہوری اقدار اور میرے سفارتی حقوق ، سب کچھ پاؤں تلے روندا جارہا تھا۔ میں ان کے ساتھ گھر سے نکل کر، شدید احساس بے بسی کے ساتھ ان پاکستانی بھائیوں کی گاڑی میں بیٹھ گیا جو اپنے آپ کو خالص مسلمان اور ہمارے بھائی باور کرارہے تھے۔ سیکورٹی والی ایک گاڑی آگے اور ایک ہمارے پیچھے آرہی تھی۔ سیاہ شیشوں والی گاڑی سے باہر مجھے کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔ کچھ اہلکار بھی میرے ساتھ بیٹھے تھے۔ تمام راستے گاڑی میں لگے ٹیپ ریکارڈر سے اردو گانے بجائے جارہے تھے۔ نماز قضا ہورہی تھی۔ میں نے بار بار تقاضا کیا لیکن اجازت نہ ملی۔

پشاور پہنچ کر ایک دفتر میں داخل ہوئے۔ مجھے ایک سائیڈ والے کمرے میں لے جایا گیا جس پر پاکستانی پرچم لہرا رہا تھا۔ دیوار پر قائداعظم کی تصویر ٹنگی ہوئی تھی۔ دو راتیں اس کمرے میں گزریں۔ تیسری رات تقریباً گیارہ بجے میں سونے کا ارادہ کرہی رہا تھا کہ اچانک دروازہ کھلا۔ ایک آدمی اندر داخل ہوا۔ میرا حال احوال پوچھنے کے بعد کہنے لگا۔ ”کیا آپ کو علم ہے کہ کیا ہونے والا ہے؟“ میں نے کہا ”نہیں“ ۔ وہ بولا۔ ”کیا آپ کو کسی نے کچھ نہیں بتایا؟“ میں نے پھر کہا ”نہیں“ اس پر وہ کہنے لگا۔ ”ہم آپ کو اسی وقت کسی اور جگہ منتقل کررہے ہیں۔ آپ کے پاس صرف پانچ منٹ ہیں۔ واش روم جانا چاہیں تو ہو آئیں۔“ تقریباً دس منٹ بعد مجھے اس کمرے سے نکالا گیا۔ باہر سادہ کپڑوں میں کچھ اہلکار کھڑے تھے۔ مجھے ہتھکڑیاں لگائی گئیں۔ آنکھوں پر کالی پٹی باندھ دی گئی۔ تلاشی لے کر قرآن کریم کا ایک نسخہ ، چھوٹی سی انگلش ڈکشنری اور جیب میں پڑی رقم انہوں نے چھین لی۔ گھڑی اتارلی۔ مجھے دھکے دے کر ایک گاڑی میں ڈال دیا گیا۔

تقریباً ایک گھنٹہ سفر کے بعد ہیلی کاپٹر کی آواز میری سماعت سے ٹکرائی۔ مجھے اندازہ ہوگیا کہ ضرور یہ امریکی ہیلی کاپٹر ہوگا۔ دو بندوں نے مجھے پکڑ کر گاڑی سے اتارا اور حکم دیا کہ چند قدم آگے چل کر کھڑے ہوجاؤ۔ پھر سرگوشی سی ہوئی ”خدا حافظ“ ۔ مجھے اندازہ ہوگیا کہ امریکیوں کے حوالے کیا جارہا ہے۔ کئی افراد نے یک بارگی مجھ پر حملہ کر دیا جیسے کوئی میمنا بھیڑیوں کے نرغے میں آگیا ہو۔ مجھ پر لاتوں ، گونسوں ، تھپڑوں اور مکوں کی بارش ہونے لگی۔ مجھے زمین پر پٹخ دیا گیا۔ چاقوؤں سے میرا لباس تار تار کردیا گیا۔ فحش گالیاں دی جانے لگیں۔ میرے انگ انگ سے درد کی شدید ٹیسیں اٹھنے لگیں۔ میرا پورا لباس چیتھڑے بن کر میرے جسم سے الگ ہوچکا تھا۔ میں بالکل ننگا فرش پر پڑا ہوا تھا۔ بے بسی اور بے توقیری کی اس گھڑی میری آنکھوں سے وہ پٹی سرک گئی جو میری آنکھ اور ننگے جسم کے درمیان حائل تھی۔ میں نے دیکھا کہ چاروں طرف پاکستانی فوجی اہلکار فوجی انداز میں صف بستہ کھڑے ہیں۔ چند امریکی فوجی بھی منظم انداز سے کھڑے تھے۔

امریکی وحشی جانوروں نے ٹھڈے اور مکے مارتے ہوئے اسی حالت میں اٹھا کر ہیلی کاپٹر میں پٹخ دیا۔ میرے بدن پر ستر ڈھانپنے کو ایک چیتھڑا تک نہ تھا۔ میرے ہاتھ پاؤں زنجیروں سے جکڑ دیئے گئے۔ آنکھوں پر سیاہ پٹی باندھ دی گئی۔ منہ پر سیاہ کپڑے کا ایک تھیلا چڑھا دیا گیا۔ پھر ہیلی کاپٹر کے درمیان میں ایک تختے کے ساتھ باندھ کرلٹا دیا گیا۔ ایک مقام پر ہیلی کاپٹر نیچے آیا۔ مجھے ٹھڈے مارکر زمین پر گرادیا گیا۔ چار پانچ امریکی فوجی میرے اوپر بیٹھ گئے… میں بے بسی کے اس عالم میں سوچ رہا تھا کہ پاکستانی ارباب اختیار نے مجھ سے یہ شرمناک سلوک کیوں کیا؟ کوئی دو گھنٹے بعد مجھے ایک اور ہیلی کاپٹر میں پھینک دیا گیا۔ بڑی دیر بعد ہیلی کاپٹر اترا۔ ایک ترجمان کی وساطت سے مجھے کہا گیا کہ احتیاط سے سیڑھیاں اترو۔ میرا تھیلا ہٹا لیا گیا۔ پٹی کھول دی گئی۔ میں نے دیکھا کہ کئی امریکی فوجی میرے دائیں بائیں کھڑے ہیں۔ میرے ہاتھ پاؤں کھول دیئے گئے۔ ایک خاص وردی پہننے کو دی گئی۔ پھر مجھے ایک میڑ چوڑے اور دو میٹر لمبے کمرے میں ڈال دیا گیا جس کے ایک کونے میں کموڈ رکھا تھا۔ مجھے بعد میں پتہ چلا کہ یہ وہ سمندری جنگی جہاز ہے جو امریکہ نے بحرہند میں کھڑا کررکھا ہے۔“


ریمنڈ ڈیوس کا رنگ گورا ہے اور وہ امریکی ہے۔ یہ کہانی بیان کرنے والے کا نام ملا عبدالسلام ضعیف ہے۔ اس کا رنگ سانولا ہے، چہرے پہ داڑھی ہے اور اس کا تعلق بے نواؤں کی سرزمین افغانستان سے ہے.



تین شرطیں


ایک نیک شخص کے گھر کی دیوار اچانک گر گئی ۔ اسے بڑی پریشانی لاحق ہوئی اور وہ اسے دوبارہ بنوانے کے لئے کسی مزدور کی تلاش میں گھر سے نکلا اور چوراہے پر جا پہنچا ۔ وہاں اس نے مختلف مزدوروں کو دیکھا جو کام کے انتظار میں بیٹھے تھے ۔ان میں ایک نوجوان بھی تھا جو سب سے الگ تھلگ کھڑا تھا، اس کے ایک ہاتھ میں تھیلا اور دوسرے ہاتھ میں تیشہ تھا ۔
اس شخص کا کہنا ہے کہ، ''میں نے اس نوجوان سے پوچھا، ''کیا تم مزدوری کرو گے؟ ''نوجوان نے جواب دیا،''ہاں!'' میں نے کہا،''گارے کا کام کرنا ہوگا۔'' نوجوان کہنے لگا،''ٹھیک ہے! لیکن میری تین شرطیں ہیں اگر تمہیں منظور ہوں تو میں کام کرنے کے لئے تیار ہوں،
پہلی شرط یہ ہے کہ تم میری مزدوری پوری ادا کرو گے،
دوسری شرط یہ ہے کہ مجھ سے میر ی طاقت اور صحت کے مطابق کام لو گے،
تیسر ی شرط یہ ہے کہ نماز کے وقت مجھے نماز ادا کرنے سے نہیں روکو گے ۔''
میں نے یہ تینوں شرطیں قبول کر لیں اور اسے ساتھ لے کر گھر آگیا، جہاں میں نے اسے کام بتایا اور کسی ضروری کام سے باہر چلا گیا ۔جب میں شام کے وقت واپس آیا تو دیکھا کہ اس نے عام مزدوروں سے دوگنا کام کیا تھا ۔میں نے چُھپ کر دیکھا تو دیکھا کہ وہ صرف گارا ڈالتا ھے اور اینٹیں خود اُڑ اُڑ کر لگتی چلی جاتی ھیں ۔۔ میں نے بخوشی اس کی اجرت ادا کی اور وہ چلا گیا ۔
دوسرے دن میں اس نوجوان کی تلاش میں دوبارہ اس چوراہے پر گیا لیکن وہ مجھے نظر نہیں آیا ۔ میں نے دوسرے مزدوروں سے اس کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ وہ ہفتے میں صرف ایک دن مزدوری کرتا ہے ۔ یہ سن کر میں سمجھ گیا کہ وہ عام مزدور نہیں بلکہ کوئی بڑا آدمی ہے۔ میں نے ان سے اس کا پتہ معلوم کیا اور اس جگہ پہنچا تو دیکھا کہ وہ نوجوان زمین پر لیٹا ہوا تھا اور اسے سخت بخار تھا۔ میں نے اس سے کہا، ''میرے بھائی! تُو یہاں اجنبی ہے، تنہا ہے اور پھر بیمار بھی ہے، اگر پسند کرو تو میرے ساتھ میر ے گھر چلو اور مجھے اپنی خدمت کا موقع دو ۔'' اس نے انکار کر دیا لیکن میرے مسلسل اصرار پر مان گیا لیکن ایک شرط رکھی کہ وہ مجھ سے کھانے کی کوئی شے نہیں لے گا، میں نے اس کی یہ شرط منظور کر لی اور اسے اپنے گھر لے آیا۔
وہ تین دن میرے گھر قیام پذیر رہا لیکن اس نے نہ تو کسی چیز کا مطالبہ کیا اور نہ ہی کوئی چیز لے کر کھائی۔ چوتھے روز اس کے بخار میں شدت آگئی تو اس نے مجھے اپنے پاس بلایا اور کہنے لگا، ''میرے بھائی! لگتا ہے کہ اب میرا آخری وقت قریب آگیا ہے لہذا جب میں مر جاؤں تو میری اس وصیت پر عمل کرنا کہ، ''جب میری روح جسم سے نکل جائے تو میرے گلے میں رسی ڈالنا اور گھسیٹتے ہوئے باہر لے جانا اور اپنے گھر کے ارد گرد چکر لگوانا اور یہ صدا دینا کہ لوگو! دیکھ لو اپنے رب تعالیٰ کی نافرمانی کرنے والوں کا یہ حشر ہوتا ہے ۔''شاید اس طرح میرا رب عزوجل مجھے معاف کر دے ۔ جب تم مجھے غسل دے چکو تو مجھے انہی کپڑوں میں دفن کر دینا، پھر بغداد میں خلیفہ ہارون رشید کے پاس جانا اور یہ قرآن مجید اور انگوٹھی انہیں دینا اور میرا یہ پیغام بھی دینا کہ،''اللہ عزوجل سے ڈرو! کہیں ایسا نہ ہو کہ غفلت اور نشے کی حالت میں موت آجائے اور بعد میں پچھتانا پڑے، لیکن پھر اس سے کچھ حاصل نہ ہوگا ۔ ''
وہ نوجوان مجھے یہ وصیت کرنے کے بعد انتقال کر گیا ۔ میں اس کی موت کے بعد کافی دیر تک آنسو بہاتا رہا اور غمزدہ رہا ۔ پھر (نہ چاہتے ہوئے بھی) میں نے اس کی وصیت پوری کرنے کے لئے ایک رسی لی اور اس کی گردن میں ڈالنے کا قصد کیا تو کمرے کے ایک کونے سے ندا آئی کہ، ''اس کے گلے میں رسی مت ڈالنا، کیا اللہ عزوجل کے اولیاء سے ایسا سلوک کیا جاتا ہے؟ '' یہ آواز سن کر میرے بدن پر کپکپی طاری ہوگئی ۔ یہ سننے کے بعد میں نے اس کے پاؤں کو بوسہ دیا اور اس کے کفن و دفن کا انتظام کرنے چلا گیا ۔
اس کی تدفین سے فارغ ہونے کے بعد میں اس کا قرآن پاک اور انگوٹھی لے کر خلیفہ کے محل کی جانب روانہ ہو گیا۔ وہاں جا کر میں نے اس نوجوان کا واقعہ ایک کاغذ پر لکھا اور محل کے داروغہ سے اس سلسلے میں بات کرنا چاہی تو اس نے مجھے جھڑک دیا اور اندر جانے کی اجازت دینے کی بجائے اپنے پاس بٹھا لیا۔ آخرِ کار !خلیفہ نے مجھے اپنے دربار میں طلب کیا اور کہنے لگا،
''کیا میں اتنا ظالم ہوں کہ مجھ سے براہ راست بات کرنے کی بجائے رقعے کا سہارا لیا ؟'' میں نے عرض کی،''اللہ تعالیٰ آپ کا اقبال بلند کرے، میں کسی ظلم کی فریاد لے کر نہیں آیا بلکہ ایک پیغام لے کر حاضر ہوا ہوں ۔'' خلیفہ نے اس پیغام کے بارے میں دریافت کیا تو میں نے وہ قرآن مجید اور انگوٹھی نکال کر اس کے سامنے رکھ دی۔ خلیفہ نے ان چیزوں کو دیکھتے ہی کہا،''
یہ چیزیں تجھے کس نے دی ہیں؟
''میں نے عرض کی،''ایک گارا بنانے والے مزدور نے ۔۔۔۔۔۔۔''
خلیفہ نے ان الفاظ کو تین بار دہرایا،''گارا بنانے والا،،، گارا بنانے والا،،، گارا بنانے والا،،،''اور رو پڑا۔
کافی دیر رونے کے بعد مجھ سے پوچھا، ''وہ گارا بنانے والا اب کہاں ہے؟ ''میں نے جواب دیا،''وہ مزدور فوت ہو چکا ہے۔ ''یہ سن کر خلیفہ بے ہوش ہو کر گر گیا اوربہت دیر تک بے ہوش رہا۔ میں اس دوران حیران و پریشان وہیں موجود رہا۔ پھر جب خلیفہ کو کچھ افاقہ ہوا تو مجھ سے دریافت کیا، ''اس کی وفات کے وقت تم اس کے پاس تھے؟ ''میں نے اثبات میں سر ہلا دیا تو کہنے لگا،''اس نے تجھے کوئی وصیت بھی کی تھی؟ ''میں نے اسے نوجوان کی وصیت بتائی اور وہ پیغام بھی دے دیا جو اس نوجوان نے خلیفہ کے لئے چھوڑا تھا ۔
جب خلیفہ نے یہ ساری باتیں سنیں تو مزید غمگین ہو گیا اور کہنے لگا،''اے مجھے نصیحت کرنے والے ! اے میرے زاہد و پارسا! اے میرے شفیق !۔۔۔۔۔۔'' اس طرح کے بہت سے القابات خلیفہ نے اس مرنے والے نوجوان کو دئيے اور مسلسل آنسو بھی بہاتا رہا ۔
یہ سارا معاملہ دیکھ کر میری حیرانی اور پریشانی میں مزید اضافہ ہوگیا کہ خلیفہ ایک عام سے مزدور کے لئے اس قدرغم زدہ کیوں ہے؟ جب رات ہوئی تو خلیفہ نے مجھ سے اس کی قبر پر لے جانے کی خواہش ظاہر کی تو میں اس کے ساتھ ہولیا ۔ خلیفہ چادر میں منہ چھپائے میرے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔ جب ہم قبرستان میں پہنچے تو میں نے ایک قبر کی طرف اشار ہ کر کے کہا، ''عالی جاہ! یہ اس نوجوان کی قبر ہے ۔''
خلیفہ اس کی قبر سے لپٹ کر رونے لگا ۔ پھر کچھ دیر رونے کے بعد اس کی قبر کے سرہانے کھڑا ہو گیا اور مجھ سے کہنے لگا، ''یہ نوجوان میرا بیٹا تھا، میری آنکھوں کی ٹھنڈک اور میرے جگر کا ٹکڑا تھا، ایک دن یہ رقص وسُرور کی محفل میں گم تھا کہ مکتب میں کسی بچے نے یہ آیت کریمہ تلاوت کی،
''أَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا أَن تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ اللَّهِ وَمَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ وَلَا يَكُونُوا كَالَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلُ فَطَالَ عَلَيْهِمُ الْأَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوبُهُمْ ۖ وَكَثِيرٌ مِّنْهُمْ فَاسِقُونَ (پ۲۷، الحدید 16)
کیا اب تک ایمان والوں کے لئے وقت نہیں آیا کہ ان کے دل ذکر الٰہی سے اور جو حق اتر چکا ہے اس سے نرم ہوجائیں اور ان کی طرح نہ ہوجائیں جنہیں ان سے پہلے کتاب دی گئی تھی پھر جب زمانہ دراز گزر گیا تو ان کے دل سخت ہوگئے اور ان میں بہت سے فاسق ہیں۔ (پ۲۷، الحدید۱۶)
جب اس نے یہ آیت سنی تو اللہ تعالیٰ کے خوف سے تھر تھر کانپنے لگا اور اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی اور یہ پکار پکار کر کہنے لگا،''کیوں نہیں؟ کیوں نہیں؟ '' اور یہ کہتے ہوئے محل کے دروازے سے باہر نکل گیا ۔ اس دن سے ہمیں اس کے بارے میں کوئی خبر نہ ملی یہاں تک کہ آج تم نے اس کی وفات کی خبر دی ۔''

اگر آپ کسی شیعہ کو حضرت عمر(رضی اللہ عنہ) کو گالی دیتےہوئے سنیں تو اس سے پوچھیں


اگر آپ کسی شیعہ کو حضرت عمر(رضی اللہ عنہ) کو گالی دیتےہوئے سنیں تو اس سے پوچھیں:
کہ آپ کی مراد کس عمر سے ہے
عمر بن علي بن ابي طالب ؟
یا عمر بن الحسن بن علي ؟
یا عمر بن الحسين بن علي ؟
یا عمر بن علي زين العابدين بن الحسين ؟
یا عمر بن موسى الكاظم ؟
اور اگر ان میں سے کسی کو حضرت أبو بكر(رضی اللہ عنہ) کوگالی دیتے ہوئے سنیں تو اس سے یہ سوال ضرور کریں:
کہ آپ کی مراد کس أبو بكر سے ہے
أبو بكر بن علي بن أبي طالب ؟
یا أبو بكر بن الحسن بن علي ؟
یا أبو بكر بن الحسين بن علي ؟
یا أبو بكر بن موسى الكاظم ؟
اور اگر ان میں سے کسی کو نعوذباللہ "عائشة في النار ..یعنی.. عائشة جہنمی ہے " کے نعرے لگاتے ہوئے سنیں تو اس سے سوال کریں:
کہ آپ کی مراد کس عائشة سے ہے
عائشة بنت جعفر الصادق ؟
یا عائشة بنت موسى الكاظم ؟
یا عائشة بنت علي الرضا ؟
یا عائشة بنت علي الهادي ؟
اور پھر اسکے بعد آپ انہیں سمجھاتے ہوئے کہیں کہ ان لوگوں نے ( شیعہ جنہیں اپنا امام مانتے ہیں) اپنے بچوں کا نام "ابو بکر" . "عمر" اور "عایشہ" رکھا،،،،،،کیوں..........؟؟؟؟؟
........کیونکہ وہ مذکورہ صحابہ کرم سے بیحد عقیدت رکھتے تھے اور چاہتے تھے کہ انکےگھروں میں بوبکر و عمر اور عایشہ نامی ستارے چمکتے دمکتے رہیں.

پاکستان کے ایٹمی اثاثے (اب تو آنکھیں کھل جانی چاہیں!)


اب تو آنکھیں کھل جانی چاہیں!

سیاسی گرما گرمی کے سے سبب جمہوری نظام کو در پیش خطرات کے بعد میڈیا جن خدشات کا سب سے زیادہ اظہار کر رہا ہے ان میں ملکی سلامتی خصوصاً ایٹمی اثاثوں کی بیرونی جاسوسی اور نگرانی سرفہرست ہے۔ ویسے تو پاکستان اپنے قیام کے دن ہی سے دشمن قوتوں خصوصاً صیہونی طاقتوں کی آنکھ میں بری طرح کھٹک رہا ہے لیکن جب سے پاکستان نے اپنے ایٹمی قوت ہونے کا باقاعدہ اعلان کیاہے ارض وطن کیخلاف یہودو نصاریٰ کی سازشوں میں بھی انتہائی تیزی آگئی ہے اور وہ نعوذ باللہ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کو تباہ کرنے کی نت نئی سازشوں اور منصوبہ بندیوں میں مصروف رہتے ہیں۔ اگرچہ ان طاقتوں میں اسرائیل اور بھارت کے نام سر فہرست ہیں لیکن یہ دونوں ممالک از خود اتنی جرات نہیں رکھتے کہ پاکستان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکیں لہٰذا اپنے مذموم مقاصد کے لیے انہوں نے امریکی گود میں پناہ لے رکھی ہے۔ امریکہ گو کہ خود کو ہمارا دوست اور دہشت گردی کیخلاف جنگ میں ہمارا اتحادی گردانتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسے ہماری دوستی سے زیادہ اپنی ضرورتیں اور مفادات عزیز ہیں اور وہ ان کے حصول کے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے جس کی ایک مثال مختلف اوقات میں امریکہ کی جانب سے پاکستان کے ایٹمی اثاثوں پر تشویش کا اظہار اور بارہا ان پر قبضے کے حوالے سی کی جانیوالی کوششوں کی وہ خبریں ہیں جو آئے روز میڈیا کی زینت بنتی رہتی ہیں جبکہ اس مقصد کے لیے امریکہ نے بعض اطلاعات کے مطابق جاسوسی کا باقاعدہ نظام بھی وضح کر رکھا ہے، جو بھارتی ایجنسی راء اور اسرائیلی ایجنسی موساد کی مدد سے جاری ہے جس کی تصدیق ایران کے صدر محمود احمدی نژاد نے بھی کردی ہے۔
ٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓ
پاکستان کے ایٹمی طاقت بننے کی ایک طویل داستان ہے جس کے حصول میں بڑے نشیب و فراز سے گزرنا پڑا۔ دشمنوں نے ہمارے ایٹمی پروگرام کو سبوتاڑ کرنے کی کئی بار کوششیں اور سازشیں کیں جو کہ تاحال جاری ہیں جس کی ایک مثال گزشتہ دنوں امریکی ایلچی رچرڈ ہالبروک کی جانب سے سامنے آنے والا وہ بیان ہے جس میں الزام لگایا گیا ہے کہ القاعدہ اب پاکستان سے ایٹمی ہتھیار حاصل کرنا چاہتی ہے اور اس کے پاکستانی سائنسدانوں سے بھی رابطے ہیں۔ حالانکہ اگر حقائق پر نظر دوڑائیں تو خود امریکہ ایک عرصہ سے ہمارے اثاثوں کی جاسوسی کی سر توڑ کوششوں کے باوجود اپنے مذموم مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکا جو کہ اس بات کی ٹھوس دلیل ہے کہ پاکستان کے اثاثے نہ صرف محفوظ ترین ہیں بلکہ دنیا کی ان تک رسائی بھی ناممکن ہے اور یہی دلیل ہالبروک کے الزامات کی تردید بھی ہے۔ پاکستان کے ایٹمی اثاثے کتنے محفوظ ہیں یا ان کا کمانڈ اینڈ کنڑول سسٹم کس قدر مؤثر ہے اس کا اندازہ ان اثاثوں کی جاسوسی کے ناکام واقعات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ کوئی تین عشرے قبل امریکہ نے ہمارے کچھ انجینئر اور سائنسدانوں کو خرید کر نیوکلیئر تنصیبات کو تکنیکی طور پر تباہ کرنے کا ناپاک منصوبہ بنایا۔
ٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓ
قصہ کچھ یوں تھا کہ کراچی یونیورسٹی میں ایم اے انگلش لٹریچر کی ایک طالبہ کو ایک لڑکے رفیق منشی سے عشق ہو گیا۔ یونیورسٹی چھوڑنے کے بعد وہ آپس میں ملتے رہے۔ شادی کے وعدے وعید بھی ہوئے۔ وہ کراچی کے ایک کالج کی لیکچرر تعینات ہو گئی اور رفیق منشی کینوپ میں ملازم ہو گیا۔ ایک دن رفیق منشی اچانک غائب ہو گیا۔ چار سال بعد رفیق منشی پھر کراچی میں نمودار ہوا۔ ماضی کے برعکس اب وہ مالدار تھا اور ایک خوبصورت امریکن لڑکی اس کی دوست بن چکی تھی لیکن وہ اس کے پاس آتا رہا۔ گو اس کے دل میں رفیق منشی کی دوسری دوست کھٹکتی تھی مگر عشق چلتا رہا اور انتقام کی آگ بھی سلگتی رہی۔ ایک دن رفیق منشی دفتر جاتے ہوئے اپنی الماری بند کرنا بھول گیا۔ اس نے دیکھا کہ اس الماری میں بہت سے ڈالر اور کاغذات پڑے ہیں۔ ان کاغذات میں بہت اہم ملکی راز تھے جنہیں وہ افشاء کرنے سے ڈرتی تھی مگر وہ اس کے ذہن پر سوار ہوگئے۔ان دنوں لیفٹنٹ کرنل امتیاز آئی ایس آئی سندھ کے سربراہ تھے۔ بات ان تک پہنچی اور پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام کو تباہ کرنے کی بہت بڑی سازش قبل از وقت ناکام ہو گئی۔ لیفٹنٹ کرنل امتیاز کو تمغہ بصالت دیا گیا۔ رفیق منشی امریکی خفیہ ایجنسی کے ہاتھوں میں کھیل رہا تھا۔ امریکی خفیہ ایجنسی نے دو خوبصورت لڑکیوں سمیت پانچ امریکیوں کو پاکستان کا نیوکلیئر پروگرام تباہ کرنے کا کام سونپا تھا۔ ان دو لڑکیوں میں سے ایک رفیق منشی کی محبوبہ بنی ہوئی تھی۔ یہ امریکی ایجنٹ پاکستان کے مختلف شہروں میں کام کر رہے تھے اور پاکستان کی مختلف نیوکلیئر انسٹالیشنز کے رفیق منشی سمیت 12 ملازمین کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہو چکے تھے۔ آئی ایس آئی کے کاؤنٹر سیبوٹاج کے نتیجہ میں پانچوں امریکی اور 12پاکستانی گرفتار کر لئے گئے۔ امریکیوں کو ملک سے نکال دیا گیا۔ صدر ضیاء الحق نے ٹیلیفون کر کے امریکہ کے صدر سے احتجاج کیا جس کے نتیجہ میں امریکہ نے آئندہ ایسا نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی مگر وعدہ لے لیا کہ یہ خبر ذرائع ابلاغ کو نہیں دی جائے گی۔
ٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓ
یقین دہانی اور وعدے کے باوجود امریکہ باز نہ آیا اور اس کی ایک اور بڑی سازش اس وقت بے نقاب ہوئی جب کہوٹہ ایٹمی پلانٹ کی حدود میں ایک چرواہے کی نظر کچھ بڑے پتھروں پر پڑی جن میں جاسوسی کے حساس آلات اور کیمرے نصب تھے جن کے ذریعے وہاں کی نقل و حرکت پر نظر رکھی جارہی تھی۔ اسی سلسلے کا ایک واقعہ ناظرین کی دلچسپی کا باعث ہوگا کہ جب ضیاء4 الحق اپنے دور صدارت میں امریکہ کے دورے پر گئے تو وہاں وائٹ ہاؤس میں ایک میٹنگ میں انہوں نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ ہمارا ایٹمی پروگرام منجمد ہے۔ اس پر وہاں موجود سی آئی اے کے سربراہ نے ایک فلم دکھائی جس سے ظاہر ہو رہا تھا کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام منجمد نہیں بلکہ جاری ہے۔ شاید یہ فلم بھی مذکورہ پتھروں میں نصب شدہ کیمروں کی مدد سے بنائی گئی تھی۔
ضیاء الحق دور ہی میں بھی بھارت، امریکہ اور اسرائیل کی طرف سے مشترکہ طور پر پاکستان کی ایٹمی تنصیبات کو تباہ کرنے کا منصوبہ بنایا لیکن مؤثر ترین سکیورٹی کے سبب نہ صرف یہ ناپاک جسارت ناکام ہوئی بلکہ تینوں ممالک کو لینے کے دینے پڑ گئے۔ امریکی شہہ پر اسرائیل اور بھارت نے مشترکہ طور پر 1980ء میں عراق کے ایٹمی پلانٹ کو ایف سولہ طیاروں کے ذریعے تباہ کرنے کی طرز کی کارروائی ہی سے پاکستان کے اثاثوں کو ختم کرنے کا منصوبہ بنایا گیا لیکن پاکستانی حکام خبر ہونے پر پاکستان نے اپنے اس وقت کے وزیر خارجہ کو اس پیغام کے ساتھ دہلی بھیجا گیا کہ اگر پاکستان کی نیوکلیئر تنصیبات پر کوئی بھی حملہ ہوا تو پاکستان بھارت ہی کو اس کا ذمہ دار ٹھہرائے گا اور بھرپور جوابی حملہ بھی کرے گا۔ اسی دوران امریکی سیٹلائیٹ سے لی گئی تصاویر سے جب منصوبہ سازوں کو معلوم ہوا کہ پاک فضائیہ نہ صرف حرکت میں آچکی ہے بلکہ نیوکلیئر وارہیڈ سے لیس ایف 16طیاروں کے ایک اسکوارڈن کو بھارتی نیوکلیئر تنصیبات ٹروم بے،ٹرینکو میلی اور دوسرے مقامات پر حملے کرنے کے لیے ریڈ الرٹ کر دیا گیا تو دہلی، واشنگٹن اور تل ابیب میں کھلبلی مچ گئی اور دشمن کو ہماری نیوکلیئر تنصیبات پر حملے جرآت نہ ہوئی۔
ٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓ
ایسا ہی ایک واقعہ نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں بھی پیش آیا، یہ ان دنوں کی بات ہے جب بریگیڈیئر امتیاز نواز شریف کے پہلے دور حکومت میں ڈی جی آئی بی بنائے گئے۔ بریگیڈیئر امیتاز کو ایک شخص جو کہ اسلام آباد میں موجود ایک یورپی سفیر سے رابطے میں تھا اور ایک تیسرے ملک کی جانب سے سی آئی اے کے لیے بھی کام کر رہا تھا کو امریکہ کی جانب سے امریکہ اور بھارتی فنانسنگ کے ذریعے پاکستان کے اہم ایٹمی پروگرام کے سکیورٹی نقائص اور ایٹمی ہتھیاروں کی اصل پوزیشن کا پتہ چلانے کا ہدف ملا تھا کی موجودگی کی اطلاع ملی، ’’سٹار‘‘ کوڈ کے نام سے کام کرنے والے اس شخص کو پاکستانی حکام نے ڈبل ایجنٹ کا کردار ادا کرنے پر راضی کیا اور ڈی بریفنگ کے ذریعے جو راز اگلوائے ان کے مطابق اسے نہ صرف ایٹمی تنصیبات کا ٹاسک سونپا گیا تھا بلکہ اس کے ذمہ یہ کام بھی لگایا گیا تھا کہ وہ کشمیر کے معاملے پر پالیسی فیصلوں کو امریکی خواہشات کے مطابق کرانے کے لیے اقتدار کی دہلیز پر موجود لوگوں سے رابطہ کرے اور سرائیکی منصوبے پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے علاقائیت کو فروغ دے۔ اس مقصد کے لیے اسے ایک این جی او بنانا تھی جس کا ہیڈ کوارٹر اسلام آباد اور شاخیں بہاولپور، اور سندھ میں قائم کی جانی تھیں لیکن یہاں بھی ارض وطن کے تحفظ کے ذمہ داروں نے دشمن کی چال کو ناکامی سے دوچار کر دیا۔
ٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓ
1998ء میں جب پاکستان نے اپنے ایٹمی قوت ہونے کا باقاعدہ اعلان کیا تو امریکہ سمیت ہمارے روایتی دشمنوں کو ایک بار پھر سانپ سونگھ گیا اور وہ پھر سے سازشوں میں مصروف ہوگئے اور یوں ’’آپریشن بلیو تلسی‘‘ جس پر ایک عرصہ سے کام جاری تھا زور پکڑ گیا۔ اس آپریشن کے ذریعے جہاں پاکستان میں ’’را‘‘ سی آئی اے اور موساد نے پاکستان میں حالات کی خرابی اپنا مشترکہ ہدف قرار دی وہیں پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کو (نعوذ باللہ) نیست و بابود کرنے کا بھی عہد کیا۔ ارض پاک پر دہشت گردی اور لسانیت کے ذریعے اس آپریشن کے ایک حصے میں خاصی کامیابی کے بعد اب دوسرے حصے کی تکمیل کے لیے منصوبہ بندی پر عمل جاری ہے اور رچرڈ ہالبروک کا اوپر بیان کردہ الزام بھی اسی سلسلہ ہی کی ایک کڑی ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آج بھی دشمن عملی طور پر ناکام ہونے کے بعد ایک اور چال چل رہا ہے اور اس کے تمام پروپیگنڈے کا مقصد ہمارے ایٹمی اثاثوں پر قبضے کے سوا کچھ نہیں، ایرانی صدر کی جانب سے امریکہ کی جانب سے ہمارے جوہری اثاثوں پر قبضے کی کوششوں کے ثبوت ہونے کے دعوے کے بعد بھی اگر ہماری آنکھیں نہیں کھلتی تو اسے بدقسمتی کے سوا کیا جہا جاسکتا ہے؟ —