وہ بھولا بسرا شخص! نقش خیال…عرفان صدیقی
ریمنڈ ڈیوس کے سفارتی استثنیٰ کا قضیہ کھڑا ہونے سے کوئی دس سال پہلے کی بات ہے۔ یہاں میرے شہر اسلام آباد میں ایک سفیر رہتا تھا۔ اس کا نام ملا عبدالسلام ضعیف تھا۔ ایک آزاد وخود مختار ملک کا سفیر ہونے کے ناتے اسے بین الاقوامی قوانین، ضابطوں اور معاہدوں کے مطابق مکمل استثنیٰ حاصل تھا۔ اس پر کیا بیتی؟ ہم بھول گئے ہیں۔ آئیے! آج بحث مباحثوں ، تجزیوں اور تبصروں سے ہٹ کر بھولے بسرے عبدالسلام ضعیف کی آپ بیتی کا ایک ورق، خود اس کی زبانی سنتے ہیں۔
”جنوری 2002ء کی دو تاریخ تھی۔ صبح کو میں اپنے گھر کے اندر گھرانے کے دیگر افراد سے معمول کی گپ شپ میں مصروف تھا۔ یہ کوئی صبح آٹھ بجے کا وقت تھا۔ میرے گھر کی سیکورٹی پر مامور افراد نے خبر دی کہ چند پاکستانی افراد، جو خود کو حکومتی اہلکار بتاتے ہیں، مجھے ملنے آئے ہیں۔ میں فوراً مہمان خانے میں آیا جہاں تین پاکستانی افراد بیٹھے تھے۔ ان میں سے ایک ، جس کی ظاہری شکل سے ہی نفرت اور تعصب کا اظہار ہورہا تھا اور وہ انتہائی بدشکل بھی تھا کہنے لگا۔“
Excellency! You are no more excellency
”عزت مآب ! اب آپ عزت مآب نہیں رہے“ اس نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔“ آپ جانتے ہیں کہ امریکہ اس وقت ایک سپرپاور ہے۔ پاکستان جیسا کمزور ملک اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا اور نہ ہی اس کی بات ماننے سے انکار کرسکتا ہے۔ اس سپر پاور کو آپ کی ضرورت ہے تاکہ وہ آپ سے کچھ تحقیقات کرسکے“۔ میں نے جواب میں اس سے کہا ”آپ کی یہ بات درست ہے امریکہ ایک سپر پاور ہے لیکن اس کے باوجود دنیا کے معاملات چلانے کیلئے کچھ مسلمہ قوانین اور اصول موجود ہیں۔ آپ کن اسلامی ، غیراسلامی یا بین الاقوامی اصولوں کے تحت یہ سلوک کررہے ہیں؟ کن قوانین کے تحت آپ مجھے امریکہ کے حوالے کرنے پر مجبور ہیں؟ آپ صرف یہ حق رکھتے ہیں کہ مقررہ وقت کے اندر مجھے پاکستان چھوڑنے کا کہہ دیں۔“
12بجے تک مجھے گھر ہی میں رہنے کا حکم دیا گیا۔ چاروں طرف سے میرے گھر کا محاصرہ کرلیا گیا۔ باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہ تھا۔ میں نے پاکستانی وزارت خارجہ کو فون کیا لیکن وہاں کے ذمہ داروں نے کوئی جواب دینے سے گریز بہتر سمجھا۔ گھر سے کہیں اور منتقل کرنے سے پہلے ان اہلکاروں نے بتایا ”ہم آپ کو پشاور منتقل کررہے ہیں، وہاں آپ ہمارے ساتھ رہیں گے۔ صرف امریکی آپ سے تحقیقات کریں گے۔“ یاد رہے کہ اس وقت میرے پاس دس مہینے کا پاکستانی ویزا موجود تھا اور خارجہ امور کا وہ رسمی خط بھی جس میں مذکور تھا کہ اس خط کا حامل اس وقت تک پاکستان میں رہ سکتا ہے جب تک افغانستان میں امن قائم نہیں ہوجاتا۔ اس کے علاوہ اقوام متحدہ کا یہ خط بھی موجود تھا کہ یہ ایک اہم شخصیت ہے جس کے ساتھ احترام کا سلوک کیا جائے۔
سوا بارہ بجے تین گاڑیاں میری رہائش گاہ کے سامنے آکر رکیں ۔ تمام راستے بند کردیئے گئے۔ کسی صحافی کو بھی قریب نہ آنے دیا گیا تاکہ وہ پاکستانی حکومت کے اس شرمناک عمل کے مناظر فلما کر دنیا کو ، خاص کر مسلمانوں کو دکھا نہ سکیں۔ میں اس حال میں گھر سے نکلا کہ میرے بچے چیخیں مار مار کر رو رہے تھے۔ انسانی حقوق ، بین الاقوامی ضابطے، جمہوری اقدار اور میرے سفارتی حقوق ، سب کچھ پاؤں تلے روندا جارہا تھا۔ میں ان کے ساتھ گھر سے نکل کر، شدید احساس بے بسی کے ساتھ ان پاکستانی بھائیوں کی گاڑی میں بیٹھ گیا جو اپنے آپ کو خالص مسلمان اور ہمارے بھائی باور کرارہے تھے۔ سیکورٹی والی ایک گاڑی آگے اور ایک ہمارے پیچھے آرہی تھی۔ سیاہ شیشوں والی گاڑی سے باہر مجھے کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔ کچھ اہلکار بھی میرے ساتھ بیٹھے تھے۔ تمام راستے گاڑی میں لگے ٹیپ ریکارڈر سے اردو گانے بجائے جارہے تھے۔ نماز قضا ہورہی تھی۔ میں نے بار بار تقاضا کیا لیکن اجازت نہ ملی۔
پشاور پہنچ کر ایک دفتر میں داخل ہوئے۔ مجھے ایک سائیڈ والے کمرے میں لے جایا گیا جس پر پاکستانی پرچم لہرا رہا تھا۔ دیوار پر قائداعظم کی تصویر ٹنگی ہوئی تھی۔ دو راتیں اس کمرے میں گزریں۔ تیسری رات تقریباً گیارہ بجے میں سونے کا ارادہ کرہی رہا تھا کہ اچانک دروازہ کھلا۔ ایک آدمی اندر داخل ہوا۔ میرا حال احوال پوچھنے کے بعد کہنے لگا۔ ”کیا آپ کو علم ہے کہ کیا ہونے والا ہے؟“ میں نے کہا ”نہیں“ ۔ وہ بولا۔ ”کیا آپ کو کسی نے کچھ نہیں بتایا؟“ میں نے پھر کہا ”نہیں“ اس پر وہ کہنے لگا۔ ”ہم آپ کو اسی وقت کسی اور جگہ منتقل کررہے ہیں۔ آپ کے پاس صرف پانچ منٹ ہیں۔ واش روم جانا چاہیں تو ہو آئیں۔“ تقریباً دس منٹ بعد مجھے اس کمرے سے نکالا گیا۔ باہر سادہ کپڑوں میں کچھ اہلکار کھڑے تھے۔ مجھے ہتھکڑیاں لگائی گئیں۔ آنکھوں پر کالی پٹی باندھ دی گئی۔ تلاشی لے کر قرآن کریم کا ایک نسخہ ، چھوٹی سی انگلش ڈکشنری اور جیب میں پڑی رقم انہوں نے چھین لی۔ گھڑی اتارلی۔ مجھے دھکے دے کر ایک گاڑی میں ڈال دیا گیا۔
تقریباً ایک گھنٹہ سفر کے بعد ہیلی کاپٹر کی آواز میری سماعت سے ٹکرائی۔ مجھے اندازہ ہوگیا کہ ضرور یہ امریکی ہیلی کاپٹر ہوگا۔ دو بندوں نے مجھے پکڑ کر گاڑی سے اتارا اور حکم دیا کہ چند قدم آگے چل کر کھڑے ہوجاؤ۔ پھر سرگوشی سی ہوئی ”خدا حافظ“ ۔ مجھے اندازہ ہوگیا کہ امریکیوں کے حوالے کیا جارہا ہے۔ کئی افراد نے یک بارگی مجھ پر حملہ کر دیا جیسے کوئی میمنا بھیڑیوں کے نرغے میں آگیا ہو۔ مجھ پر لاتوں ، گونسوں ، تھپڑوں اور مکوں کی بارش ہونے لگی۔ مجھے زمین پر پٹخ دیا گیا۔ چاقوؤں سے میرا لباس تار تار کردیا گیا۔ فحش گالیاں دی جانے لگیں۔ میرے انگ انگ سے درد کی شدید ٹیسیں اٹھنے لگیں۔ میرا پورا لباس چیتھڑے بن کر میرے جسم سے الگ ہوچکا تھا۔ میں بالکل ننگا فرش پر پڑا ہوا تھا۔ بے بسی اور بے توقیری کی اس گھڑی میری آنکھوں سے وہ پٹی سرک گئی جو میری آنکھ اور ننگے جسم کے درمیان حائل تھی۔ میں نے دیکھا کہ چاروں طرف پاکستانی فوجی اہلکار فوجی انداز میں صف بستہ کھڑے ہیں۔ چند امریکی فوجی بھی منظم انداز سے کھڑے تھے۔
امریکی وحشی جانوروں نے ٹھڈے اور مکے مارتے ہوئے اسی حالت میں اٹھا کر ہیلی کاپٹر میں پٹخ دیا۔ میرے بدن پر ستر ڈھانپنے کو ایک چیتھڑا تک نہ تھا۔ میرے ہاتھ پاؤں زنجیروں سے جکڑ دیئے گئے۔ آنکھوں پر سیاہ پٹی باندھ دی گئی۔ منہ پر سیاہ کپڑے کا ایک تھیلا چڑھا دیا گیا۔ پھر ہیلی کاپٹر کے درمیان میں ایک تختے کے ساتھ باندھ کرلٹا دیا گیا۔ ایک مقام پر ہیلی کاپٹر نیچے آیا۔ مجھے ٹھڈے مارکر زمین پر گرادیا گیا۔ چار پانچ امریکی فوجی میرے اوپر بیٹھ گئے… میں بے بسی کے اس عالم میں سوچ رہا تھا کہ پاکستانی ارباب اختیار نے مجھ سے یہ شرمناک سلوک کیوں کیا؟ کوئی دو گھنٹے بعد مجھے ایک اور ہیلی کاپٹر میں پھینک دیا گیا۔ بڑی دیر بعد ہیلی کاپٹر اترا۔ ایک ترجمان کی وساطت سے مجھے کہا گیا کہ احتیاط سے سیڑھیاں اترو۔ میرا تھیلا ہٹا لیا گیا۔ پٹی کھول دی گئی۔ میں نے دیکھا کہ کئی امریکی فوجی میرے دائیں بائیں کھڑے ہیں۔ میرے ہاتھ پاؤں کھول دیئے گئے۔ ایک خاص وردی پہننے کو دی گئی۔ پھر مجھے ایک میڑ چوڑے اور دو میٹر لمبے کمرے میں ڈال دیا گیا جس کے ایک کونے میں کموڈ رکھا تھا۔ مجھے بعد میں پتہ چلا کہ یہ وہ سمندری جنگی جہاز ہے جو امریکہ نے بحرہند میں کھڑا کررکھا ہے۔“
ریمنڈ ڈیوس کا رنگ گورا ہے اور وہ امریکی ہے۔ یہ کہانی بیان کرنے والے کا نام ملا عبدالسلام ضعیف ہے۔ اس کا رنگ سانولا ہے، چہرے پہ داڑھی ہے اور اس کا تعلق بے نواؤں کی سرزمین افغانستان سے ہے.
No comments:
Post a Comment