Thursday, June 25, 2015

آپریشن بیدار: ونگز اوور چاغی



آپریشن بیدار: ونگز اوور چاغی
==========================

سات جون 1981 میں بغداد کے جنوب میں موجود فرانس کے تعاون سے بننے والے عراقی نیوکلئیر ری ایکٹر سائٹ "تموز 1" پر ہونے والے اسرائیلی فضائی حملے کے بعد پاکستان کو یہ احساس ہو گیا تھا کہ اسرائیل کے اگلے ایڈونچر کا نشانہ پاکستان ہی ہو گا۔
کہوٹہ پر حملے کا منصوبہ عراقی ری ایکٹر پر حملے کے منصوبے کا ہی ایک حصہ تھا اور پلان کے مطابق اگر عراقی ری ایکٹر پر حملہ کامیاب رہتا تو اسرائیل پاکستانی ری ایکٹر پر بھی حملہ کرنے کے منصوبے کو آگے بڑھاتا۔ عراقی تنصبات پر ہونے والا حملہ کامیاب رہا تو اسرائیل نے منصوبے کو حتمی شکل دینی شروع کر دی۔ حملے کے لیے اسرائیل کے پاس دو آپشنز تھے۔ پہلا یہ کہ اسرائیلی طیارے انڈیا میں آتے اور وہاں سے فیول لینے کے بعد اڑ کر پاکستان پر حملہ کرتے۔ دوسرا آپشن یہ تھا کہ اسرائیلی طیاروں کے ساتھ ہوا میں ہی ایندھن بھرنے والا طیارہ ساتھ آتا اور جہاں ایندھن ختم ہوتا وہاں اسرائیلی طیاروں کو ایندھن بھر دیتا۔ پلان کے مطابق حملے کے وقت اسرائیل کے اواکس طیارے کو پاکستانی کے ریڈار جام کرنا تھے تاکہ پاکستانی ائیرفورس ان کی راہ میں رکاوٹ نہ بنتی۔
اس دوران انڈیا نے اپنی طرف سے اسرائیل کو بہت منانے کی کوشش کی اسرائیل پاکستانی ایٹمی تنصیبات پر حملہ کرے لیکن اسرائیل کا اصرار تھا کہ ان کے طیارے پہلے انڈیا کے اڈے پر اتریں گے اور فیول لینے کے بعد حملہ کریں گے جبکہ انڈیا اس پر تیار نہیں تھا کیونکہ اس طرح انڈیا اس حملے میں حصے دار بن جاتا اور پاکستان کے ساتھ جنگ شروع ہو سکتی تھی۔
آسٹریلین انسٹیٹوٹ آف اسٹریٹیجک اسٹڈیز کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی حملے کا منصوبہ بھارت کی وجہ سے 1982 میں مکمل نہ ہو سکا کیونکہ بھارت یہ تو ضرور چاہتا تھا کہ کہوٹہ تباہ کر دیا جائے لیکن وہ اس حملے کی ذمہ داری اور اس کے بعد پاکستان کے جوابی حملے کا سامنا کرنے کو تیار نہیں تھا۔ جبکہ اسرائیل چاہتا تھا کہ اس حملے کا الزام اسرائیل اور انڈیا مل کر اٹھائیں۔ دوسری جانب امریکی صدر رونالڈ ریگن کی حکومت بھی ایسے کسی حملے کی مخالف تھی۔ کیونکہ تب پاکستان افغانستان میں روسی فوجوں کے خلاف لڑ رہا تھا اس دوران اگر پاکستان پر اسرائیلی حملہ ہو جاتا تو یقیناً پاکستان روس کو چھوڑ کر انڈیا اور اسرائیل سے الجھ پڑتا جس سے افغانستان میں روس کے قدم جم جاتے۔
اسرائیلی حملے کے منصوبے پر آخری مہر پاکستان کی حکومت نے تب لگا دی جب پاکستانی میراج طیاروں نے اسرائیل کی صحرائے نجف میں موجود دیمونہ نیوکلئیر تنصیبات تک پہنچ جانے کی ایک کامیاب کوشش کرتے ہوئے اسرائیل کو ایک واضح پیغام دیا جو کہ سفارتی ذرائع سے بھی اسرائیلی حکومت تک پہنچا دیا گیا کہ اگر کہوٹہ پر حملہ ہوا تو پاکستان اسرائیل کی دیمونہ ایٹمی تنصیبات کو مٹی کا ڈھیر بنا دے گا۔
لیکن پاکستان کوئی چانس نہیں لے سکتا تھا اس لیے 1981 میں عراقی ایٹمی ری ایکٹر پر حملے کے بعد پاکستان کے صدر ضیا الحق نے پاکستان ائیرفورس کے ہیڈکوارٹرز کو اسرائیلی حملے کو ذہن میں رکھتے ہوئے پلانز بنانے کی ہدائت کی۔ جس کے بعد پاکستان کے ائیر چیف نے ائیر ٹاسکنگ آرڈرز جاری کرتے ہوئے ائیرڈیفنس چیف کو کہوٹہ کی حفاظت کے لیے پلانز بنانے کا حکم جاری کیا اور ساتھ ہی اسرائیلی دیمونہ ری ایکٹر پر حملے کا پلان بنانے کا بھی حکم دیا۔ جس کے بعد ائیر ہیڈکوارٹرز چکلالہ اسلام آباد میں ایک خاص آپریشنز روم بنا دیا گیا جس میں ائیرڈیفنس کی ساری صورتحال کو مانیٹر کیا جاتا تھا۔ 10 جولائی 1982 کو پاکستان ائیرفورس نے اسرائیل کی دیمونہ ایٹمی تنصیبات پر میراج طیاروں کی مدد سے حملے کی صلاحیت کا مظاہرہ کیا اور 1983 میں ایف 16 طیاروں کی آمد کے بعد انہیں بھی اس اسپیشل اسٹرائیک فورس میں شامل کر لیا گیا۔
اس سارے پس منظر میں 13 مئی 1998 کو انڈیا کے ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان کو بہت سخت خدشہ تھا کہ اسرائیل اور انڈیا اپنے سابقہ پلان کے تحت پاکستانی ایٹمی تنصیبات پر حملہ کر سکتے ہیں۔ لہٰذا پاکستان ائیرفورس انتہائی زیادہ الرٹ حالت میں تھی۔ سفارتی سطح پر ٹینشن اس قدر زیادہ تھی کہ بلوچستان میں راس کوہ ٹیسٹ سائٹ پر اڑتے ہوئے ایک پاکستانی ایف 16 طیارے کو گہرے بادلوں کی وجہ سے زمینی دستوں نے اسرائیلی طیارہ سمجھ لیا اور اس سے پہلے کہ اس چیز کو پاکستان ائیرفورس کنفرم کرتی یہ خبر امریکہ میں پاکستانی سفیر تک پہنچ چکی تھی جس نے خفیہ طور پر اسرائیلی سفارت خانے کو انتہائی سخت پیغام بھیجا جس پر امریکہ میں اسرائیلی سفیر کو پبلک میں وضاحت کرنا پڑی کہ ہمارا پاکستان پر حملے کا کوئی پلان نہیں ہے۔
اسی دن اقوام متحدہ میں پاکستان کے سفیر احمد کمال نے سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں مصدقہ اطلاعات ہیں کہ بھارت اور اسرائیل پاکستان کی ایٹمی تنصیبات پر حملے کی خواہش رکھتے ہیں اور اگر ایسا ہوا تو پاکستان کا جواب انتہائی سخت اور عالمی امن کے لئے انتہائی نقصان دہ ہو گا۔
اس کے بعد جیسے ہی پاکستان نے اپنے جوابی ایٹمی دھماکوں کا فیصلہ کیا تو پاکستان ائیرفورس کو چاغی کے ساتھ ساتھ کہوٹہ خوشاب فتح جنگ نیلور چشمہ اور کراچی کی ایٹمی تنصیبات کی فضائی نگرانی کی بھی اضافی ذمہ داری دے دی گئی۔

آپریشن بیدار 98:
پاکستان کے ایٹمی دھماکوں سے پہلے پاکستانی ہوائی حدود کی مسلسل نگرانی کو آپریشن بیدار کا نام دیا گیا۔ جس میں چاروں جانب نگرانی کے لیے چار سیکٹرز تشکیل دئیے گئے جنہیں اسلام آباد پشاور سرگودھا کوئٹہ اور کراچی سے کنٹرول کیا جا رہا تھا۔
نمبر 6 سکواڈرن جو کہ سی 130 طیاروں سے لیس تھا جس کا کام سامان پہنچانا تھا اس نے اس مشن کے دوران 71 مختلف فلائٹس میں 12،66،615 پاؤنڈ سامان چاغی پہنچایا۔
نمبر 7 ٹیکٹیکل اٹیک سکواڈرن جو کہ میراج طیاروں سے لیس تھا اسے مسرور ائیر بیس کراچی سے شہباز ائیر بیس جیکب آباد بلوچستان منتقل کر دیا گیا تاکہ وہ چاغی کے ایریا میں چوبیس گھنٹے ائیر ڈیفنس ڈیوٹی دے سکے۔
نمبر 9 ملٹی رول سکواڈرن جو کہ ایف 16 طیاروں سے لیس تھا اسے سرگودھا سے ہٹا کر سمنگلی ائیر بیس کوئٹہ بھیج دیا گیا تاکہ بلوچستان کے ایریا کو کوور کیا جا سکے اور رات کو ان علاقوں میں پہرہ دیا جا سکے۔

نمبر 11 سکواڈرن جو کہ ایف 16 طیاروں سے لیس تھا اسے 24 مئی کو سرگودھا سے ہٹا کر جیکب آباد بلوچستان بھیج دیا گیا۔
نمبر 14 سکواڈرن کے ایف 7 طیاروں کو چکلالہ ائیر بیس بھیج کر کہوٹہ کے علاقے کی حفاظت کا مشن دیا گیا۔
نمبر 17 سکواڈرن کے ایف 6 طیاروں کو پاکستان کے بارڈرز کے ساتھ ساتھ ہوائی پہرے داری اور گشت لگانے کی ذمہ داری دی گئی۔
اسی کے ساتھ پاکستان ائیرفورس کے پاس موجود تمام ریڈار یونٹس کو اس طرح پھیلایا گیا کہ ایٹمی تنصیبات اور ایٹمی دھماکوں کی ٹیسٹ سائٹ کے آس پاس ایک مکمل گھیرا بن گیا۔
اس سارے مشن کے دوران دالبندین ائیر پورٹ نے بہت شہرت حاصل کی جو کہ چاغی سائٹ سے صرف 30 کلو میٹر دور تھا اور تمام سامان اسی چھوٹے سے ائیرپورٹ پر اتارا جاتا تھا
پاکستان کا ایٹم بم مختلف حصوں کی شکل میں دو سی 130 طیاروں کے ذریعے دالبندین پہنچا تھا۔ ان سی 130 طیاروں کو پاکستانی حدود کے اندر بھی پاکستان کے ایف 16 طیاروں نے اپنے حفاظتی حصار میں لے رکھا تھا جو فضا سے فضا میں مار کرنے والے میزائیلوں سے لیس تھے جبکہ اس دوران پاکستان انڈیا بارڈر کے ساتھ ساتھ ایف 7 طیارے میزائیلوں سے لیس چوبیس گھنٹے گشت لگاتے رہے تھے تاکہ کوئی بھی بیرونی طیارہ ہماری حدود میں داخل نہ ہونے پائے۔
یہ مشن اس قدر سیکرٹ تھا کہ یہ تک سوچا گیا کہ اگر ایٹم بم لے جانے والا طیارہ اغوا ہو گیا تو کیا ہو گا۔ جس پر ایف 16 کے پائلٹوں کو ایک خفیہ آرڈر جاری کیا گیا کہ اگر ایٹم بم والا سی 130 ہائی جیک ہو جائے یا پاکستانی حدود سے باہر جانے کی کوشش کرے تو بنا کچھ سوچے اسے ہوا میں ہی تباہ کر دیں۔ اور اس دوران ایف 16 طیاروں کے ریڈیو آف کروا دئیے گئے تاکہ مشن کے دوران انہیں کوئی بھی کسی بھی قسم کا حکم نہ دے سکے۔ پائلٹوں کو یہ بھی کہہ دیا گیا تھا کہ ان کے آرڈرز فائنل ہیں۔ اگر مشن کے دوران انہیں ائیر چیف بھی آرڈرز بدلنے کا حکم دے تو اسے انکار کر دیں۔
جب 30 مئی 1998 کو پاکستان کے چھٹے ایٹمی دھماکے سے زمین کانپی تو آپریشن بیدار 98 بھی کامیابی کے ساتھ اپنے اختتام کو پہنچا۔
اس آپریشن کو کامیاب بنانے کے لیئے پاک فضائیہ کے شاہینوں نے اہم کردار ادا کیا جہاں ایک طرف انہوں نے سارا سازوسامان سائیٹ تک پہنچایا وہیں سرحدوں کی نگرانی میں بھی ہمہ وقت ،صروف رہے۔
ایسے تمام لوگوں کو آج مل کر سلام کرتے ہیں جن کی بدولت آج ہمارا دفاع ناقابلِ تسخیر ہے۔۔۔

Saturday, May 2, 2015

،،،،، ﻣﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﺍ ﺭﺏ ،،،،،

،،،،، ﻣﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﺍ ﺭﺏ ،،،،،
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ : ﺗﮭﮏ ﭼﮑﺎ ﮨﻮﮞ .
ﺟﻮﺍﺏ ﺁﯾﺎ :
ﺧﺪﺍ ﮐﯽ ﺭﺣﻤﺖ ﺳﮯ ﻧﺎﺍﻣﯿﺪ ﻧﮧ ﮨﻮﮞ ( ﺳﻮﺭﮦ ﺯﻣﺮ / ﺁﯾﺖ 53 )
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ : ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮭﯽ ﻣﯿﺮﮮ ﺩﻝ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﻧﺘﺎ .
ﺟﻮﺍﺏ ﺁﯾﺎ :
ﺧﺪﺍ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻗﻠﺐ ﮐﮯ ﺑﯿﭻ ﺣﺎﺋﻞ ﮨﮯ ( ﺳﻮﺭﮦ ﺍﻧﻔﺎﻝ / ﺁﯾﺖ 24 )
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ : ﺗﯿﺮﮮ ﺳﻮﺍ ﻣﯿﺮﺍ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮩﯿﮟ .
ﺟﻮﺍﺏ ﺁﯾﺎ :
ﮨﻢ ﮔﺮﺩﻥ ﮐﯽ ﺭﮔﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﺗﺮ ﮨﯿﮟ ـ ( ﺳﻮﺭﮦ ﻕ / ﺁﯾﺖ 16 )
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ : ﻟﯿﮑﻦ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﮭﻮﻝ ﮨﯽ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ۔
ﺟﻮﺍﺏ ﺁﯾﺎ :
ﻣﺠﮭﮯ ﯾﺎﺩ ﮐﺮﺗﮯ ﺭﮨﻮ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﯾﺎﺩ ﺭﮐﮭﻮﮞ ﮔﺎ ـ ( ﺳﻮﺭﮦ ﺑﻘﺮﮦ / ﺁﯾﺖ 152 )
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ : ﮐﺐ ﺗﮏ ﺻﺒﺮ ﮐﺮﻧﺎ ﭘﮍﮮ ﮔﺎ ﻣﺠﮭﮯ۔
ﺟﻮﺍﺏ ﺁﯾﺎ :
ﺗﻢ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﻧﻮ ﺷﺎﯾﺪ ﻭﻋﺪﮮ ﮐﺎ ﻭﻗﺖ ﻗﺮﯾﺐ ﮨﯽ ﮨﻮـ ( ﺳﻮﺭﮦ ﺍﺣﺰﺍﺏ / ﺁﯾﺖ 63 )
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ : ﺗﻮ ﺑﮩﺖ ﺑﮍﺍ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺗﯿﺮﯼ ﻗﺮﺑﺖ ﻣﺠﮫ ﻧﮩﺎﯾﺖ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺑﮩﺖ ﮨﯽ ﺩﻭﺭ ﮨﮯ، ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺗﮏ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﻭﮞ۔
ﺟﻮﺍﺏ ﺁﯾﺎ :
ﺗﻢ ﻭﮨﯽ ﮐﺮﻭ ﺟﻮ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﺘﺎ ﮨﻮ ﺍﻭﺭ ﺻﺒﺮ ﮐﺮﻭ ﺗﺎ ﮐﮧ ﺧﺪﺍ ﺧﻮﺩ ﮨﯽ ﺣﮑﻢ ﺟﺎﺭﯼ ﮐﺮﺩﮮـ ( ﺳﻮﺭﮦ ﯾﻮﻧﺲ / ﺁﯾﺖ 109 )
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ : ﺗﻮ ﺑﮩﺖ ﮨﯽ ﭘﺮﺳﮑﻮﻥ ﮨﮯ ! ﺗﻮ ﺧﺪﺍ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺗﯿﺮﺍ ﺻﺒﺮ ﻭ ﺗﺤﻤﻞ ﺑﮭﯽ ﺧﺪﺍﺋﯽ ﮨﮯ ﺟﺒﮑﮧ ﻣﯿﮟ ﺗﯿﺮﺍ ﺑﻨﺪﮦ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﮮ ﺻﺒﺮ ﮐﺎ ﻇﺮﻑ ﺑﮩﺖ ﮨﯽ ﭼﮭﻮﭨﺎ ﮨﮯ . ﺗﻮ ﺍﯾﮏ ﺍﺷﺎﺭﮦ ﮐﺮﺩﮮ ﮐﺎﻡ ﺗﻤﺎﻡ ﮨﮯ .
ﺟﻮﺍﺏ ﺁﯾﺎ :
ﺷﺎﯾﺪ ﺗﻢ ﮐﺴﯽ ﭼﯿﺰ ﮐﻮ ﭘﺴﻨﺪ ﮐﺮﻭ ﺍﻭﺭ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﻣﺼﻠﺤﺖ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﻧﮧ ﮨﻮ ـ ( ﺳﻮﺭﮦ ﺑﻘﺮﮦ / ﺁﯾﺖ 216 )
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ : ﻣﯿﮟ ﺗﯿﺮﺍ ﮐﻤﺰﻭﺭ ﺍﻭﺭ ﺫﻟﯿﻞ ﺑﻨﺪﮦ ﮨﻮﮞ؛ - ﺗﻮ ﮐﯿﻮﻧﮑﺮ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﺱ ﺣﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﭼﮭﻮﮌ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ۔
ﺟﻮﺍﺏ ﺁﯾﺎ :
ﺧﺪﺍ ﺍﻧﺴﺎﻧﻮﻥ ﭘﺮ ﺑﮩﺖ ﮨﯽ ﻣﮩﺮﺑﺎﻥ ﺍﻭﺭ ﺭﺣﻢ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﮨﮯـ ( ﺳﻮﺭﮦ ﺑﻘﺮﮦ / ﺁﯾﺖ 143 )
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ : ﮔﮭﭩﻦ ﮐﺎ ﺷﮑﺎﺭ ﮨﻮﮞ
ﺟﻮﺍﺏ ﺁﯾﺎ :
ﻟﻮﮒ ﮐﻦ ﭼﯿﺰﻭﮞ ﭘﺮ ﺩﻝ ﺧﻮﺵ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻥ ﺳﮯ ﮐﮩﮧ ﺩﻭ ﮐﮧ ﺧﺪﺍ ﮐﮯ ﻓﻀﻞ ﻭ ﺭﺣﻤﺖ ﭘﺮ ﺧﻮﺵ ﺭﮨﺎ ﮐﺮﯾﮟ . ( ﺳﻮﺭﮦ ﯾﻮﻧﺲ – ﺁﯾﺖ 58 )
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ : ﭼﻠﺌﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﺰﯾﺪ ﭘﺮﻭﺍ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ ﺍﻥ ﻣﺴﺎﺋﻞ ﮐﯽ ! ﺗﻮﮐﻠﺖُ ﻋﻠﯽ ﺍﻟﻠﻪ .
ﺟﻮﺍﺏ ﺁﯾﺎ :
ﺧﺪﺍ ﺗﻮﮐﻞ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ . ( ﺳﻮﺭﮦ ﺁﻝ ﻋﻤﺮﺍﻥ / ﺁﯾﺖ 159 )
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ : ﺑﻨﺪﮮ ﮨﯿﮟ ﺗﯿﺮﮮ ﺍﮮ ﻣﺎﻟﮏ !
ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺱ ﺑﺎﺭ ﺟﻮﺍﺏ ﺁﯾﺎ ﮐﮧ : ﺧﯿﺎﻝ ﺭﮐﮭﻨﺎ۔
ﺑﻌﺾ ﻟﻮﮒ ﺻﺮﻑ ﺯﺑﺎﻥ ﺳﮯ ﺧﺪﺍ ﮐﯽ ﺑﻨﺪﮔﯽ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ، ﺍﮔﺮ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺧﯿﺮ ﭘﮩﻨﭽﮯ ﺗﻮ ﺍﻣﻦ ﻭ ﺳﮑﻮﻥ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﺁﺯﻣﺎﺋﺶ ﻣﯿﮟ ﻣﺒﺘﻼ ﮐﺌﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺗﻮ ﺭﻭﮔﺮﺩﺍﻥ ﮨﻮﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ . ( ﺳﻮﺭﮦ ﺣﺞ ﺁﯾﺖ
۱۱

Tuesday, January 6, 2015

1400 چودہ سو سال پہلے مدینہ منورہ کیسا تها حضور کا اور صحابہ کرام کے گهر کیسے تهے ؟



1400 چودہ سو سال پہلے مدینہ منورہ کیسا تها حضور کا اور صحابہ کرام کے گهر کیسے تهے ائی آپ کو چودہ سو سال پیچهے لے کر چلتے ہیں اور آپ کو مدینے کے گلی کوچوں کی سیر کرواتے ہیں. ..




Friday, January 2, 2015

صحرا تھر کی حسینہ


صحرا تھر کی حسینہ ۔۔ یقینا ایسے لوگ ہی ایک مثال ہیں اور ان کو دیکھ کر ہی لوگو ں کو ہمت اور جرت ملتی ہے ۔۔ اس حسینہ کی حوصلہ افزائی کریں اور اس ویڈیو کو زیادہ سے زیادہ شیئر کریں تاکہ اس کی ہمت اور حوصلے کی بات زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچ سکے

وہ ایک دلچسپ کردار تھے.



وہ ایک دلچسپ کردار تھے..

وہ جوانی میں لکھ پتی سے ککھ پتی ھوئے.. محل سے فٹ پاتھ پر آئے اور دفتر کی ھر چیز بک گئی اور نوبت فاقوں تک آگئی مگر انہوں نے پھر اٹھارہ ھزار روپے سے دوبارہ سٹارٹ لیا اور وہ ملک کے بڑے کاروباری بن گئے.. میں ان سے وہ فارمولا معلوم کرنا چاھتا تھا جس نے انہیں اٹھارہ ھزار سے 18 کروڑ اور پھر 18 ارب تک پہنچا دیا اور مجھے انہوں نے یہ کہانی سنا دی..

میں اب وہ راز جاننا چاھتا تھا مگر ان پر رقت طاری تھی.. وہ آنکھیں صاف کرتے' ھاتھ ملتے اور لمبے لمبے سانس لیتے تھے.. وہ بڑی دیر تک اس کیفیت میں رھے اور پھر اچانک سر اٹھا کر بولے..

" میں بھی دراصل اپنے برے وقت میں وھی غلطی کر رھا تھا جو دنیا کے زیادہ تر لوگ کرتے ھیں.. میں اپنے دوستوں عزیزوں' رشتے داروں' جاننے والوں اور مخیر حضرات کے پاس جاتا تھا' ان سے مدد مانگتا تھا.. میرے کچھ دوستوں نے میری مدد کی بھی مگر برے وقت میں ھر مدد برائی ثابت ھوتی ھے..

میرا وہ سرمایہ بھی ڈوب گیا.. یہاں تک کہ میرے جاننے والوں نے مجھ سے منہ موڑ لیا.. یہ مجھے دیکھ کر راستہ بدل لیتے تھے یا پھر مجھے پہچاننے سے انکار کر دیتے تھے.. میں ان کے رویے پر کڑھتا تھا مگر میں پھر ایک دن قدرت کے راز تک پہنچ گیا.. میں اپنا مسئلہ سمجھ گیا..

مجھے محسوس ھوا یہ مصیبت اللہ کی طرف سے بھیجی گئی ھے اور میں جب اس کے حل کے لئے لوگوں کے پاس جاتا ھوں تو اللہ تعالیٰ "مائنڈ" کر جاتا ھے..

اللہ کہتا ھے کہ یہ کس قدر بے وقوف انسان ھے.. یہ آج بھی میرے پاس آنے کی بجائے' یہ مجھ سے مدد مانگنے کی بجائے لوگوں کے دروازوں' لوگوں کی دھلیزوں پر جا رھا ھے چناچہ اللہ تعالیٰ میری سختی میں اضافہ کر دیتا ھے..

مجھے معلوم ھوا میں جب تک اللہ کے سامنے نہیں گڑگڑاؤں گا' میں جب تک اس سے مدد نہیں مانگوں گا' میری سختی ختم نہیں ھوگی.. چناچہ میں نے وضو کیا اور اللہ تعالیٰ کے در پر ماتھا ٹیک دیا اور اللہ تعالیٰ نے میرے سر سے مصیبتوں کی دھوپ ھٹا دی.. اس نے میرے راستے کھول دیے..

حاجی صاحب نے لمبی آہ بھری اور بولے.. "آپ مصیبت میں جب بھی کبھی کسی انسان کی طرف دیکھتے ھیں تو اللہ "مائنڈ" کر جاتا ھے اور آپ کی مصیبت میں اضافہ ھوجاتا ھے..

لہٰذا میری نصیحت پلے باندھ لو.. برے وقت میں کبھی کسی انسان کے دروازے پر دستک نہ دو.. صرف اور صرف اللہ سے رجوع کرو.. تمہاری مصیبت ختم ھو جائے گی..

یہ قدرت کا بڑا راز تھا اور اللہ تعالیٰ نے مجھ پر کرم کیا اور یہ راز مجھ پر کھول دیا..!!"

وہ چلے گئے لیکن جاتے جاتے مجھے بھی ارشمیدس بنا گئے..