اگر دعاؤں سے فرصت ملے تو۔۔۔
تین روز قبل اسرائیل کے بقول سیکنڈ لیفٹننٹ ہادار گولڈن کو حماس کے چھاپہ مار 72 گھنٹے کی جنگ بندی شروع ہونے کے فوراً بعد اغوا کر کے لے گئے۔ لہٰذا اسرائیل کو جنگ بندی کے صرف چار گھنٹے بعد مجبوراً پھر سے بمباری کرنی پڑی اور 100 کے لگ بھگ مزید فلسطینی بادلِ نخواستہ ہلاک ہوگئے۔باقی دنیا نے حماس کی جانب سے اغوا کی پرزور تردید کے باوجود ہادار گولڈن کے دن دہاڑے اغوا کے اسرائیلی دعوے پر آمنا و صدقنا کہتے ہوئے کہا کہ یہ واردات اس بات کا ثبوت ہے کہ حماس کو جنگ بندی سے کوئی دلچسپی نہیں۔
اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل بانکی مون، امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری اور صدر اوباما نے ہادار گولڈن کی غیر مشروط فوری رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ایسی گھٹیا حرکتوں سے غزہ میں جنگ بندی کے امکانات کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔غزہ کے عام شہریوں کی ہلاکتیں بھی افسوسناک ہیں لیکن لیفٹننٹ ہادار گولڈن کا اغوا ایک بہیمانہ فعل ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ہائے بے چارہ ہادار گولڈن !! ابھی23 برس کا ہی تو سن تھا۔چند ہی ہفتے بعد اس کی شادی ہونے والی تھی۔اس کے دادا اور دادی نازیوں کے گیس چیمبر میں دھکیلے جانے سے بال بال بچے اور پھر دونوں نے بطور شکرانہ فلسطین میں آ کر اسرائیل کی جنگِ آزادی میں بھرپور حصہ لیا۔لیفٹننٹ ہادار گولڈن کے والد سمبا اور والدہ ہیڈوا کیمبرج یونیورسٹی میں پڑھاتے رہے اور اب پروفیسر سمبا تل ابیب یونیورسٹی میں تاریخ ِ یہود کے استاد ہیں۔ہادار کا جڑواں بھائی زور اسرائیلی فوج میں خدمات انجام دے رہا ہے۔ جبکہ ایک بھائی مینہم اور بہن ایلات زیرِ تعلیم ہیں۔ایسے پڑھے لکھے محبِ وطن امن پسند خاندان کے لیے اپنے جگر گوشے کے اغوا اور پھر اس کی ہلاکت دونوں کی نیتن یاہو حکومت کی جانب سے تصدیق کسی قیامت سے کم نہیں۔چنانچہ جس طرح اسرائیل کی بری و فضائی افواج نے ہادار کے مبینہ اغوا کے غم میں جنگ بندی کی بے فکری میں ضروریاتِ زندگی خریدنے والے اہلِ غزہ کو نشانہ بنایا اسی طرح ہادار کی ہلاکت کی تصدیق کے سوگ میں ایک اور اسکول پر حملہ کردیا جس میں اقوامِ متحدہ کے تحفظ میں بہت سے فلسطینی پناہ لیے ہوئے تھے۔اب آپ کہیں گے کہ مجھے 1700 کے لگ بھگ فلسطینیوں کی لاشیں اور 9000 زخمی اور پانچ لاکھ دربدر اہلِ غزہ اور اقوامِ متحدہ کے جھنڈے والےدفاتر اور سکولوں میں پناہ گزین ڈیڑھ لاکھ لوگ اور ان عمارتوں پر ہونے والی بمباری کیوں نظر نہیں آتی۔ مجھے غزہ کی مسلسل کئی برس کی بحری ، فضائی اور بری ناکہ بندی کیوں دکھائی نہیں دیتی۔میں صرف لیفٹننٹ ہادار گولڈن کے دکھ میں کیوں مرا جا رہا ہوں۔مجھے ٹی وی چینلز پر اقوامِ متحدہ کا پھوٹ پھوٹ کر رونے والا اہل کار کرس گنیس کیوں نظر نہیں آتا۔میں ان چار بچوں کا ذکر کیوں نہیں کرتا جو ساحل پر کھیلتے ہوئے کسی اسرائیلی جنگی کشتی کے گولے کا نشانہ بن گئے۔میں کریم ابو زید کی بات کیوں نہیں کرتا جو غزہ کی موجودہ جنگ شروع ہونے سے سولہ روز پہلے پیدا ہوا ۔تئیس روز نہ سمجھ میں آنے والے دھماکوں سے ڈر کر ماں کی چھاتی سے چمٹا رہا اور اب سے تین روز پہلے اپنی عمر کے 40 دن پورے کرکے جسم یہیں پے چھوڑ گیا۔ایسے سوالات مجھ سے نہیں ان تین 395 امریکی سینیٹروں سے پوچھئے جو پانچ ہفتے کی چھٹی پر جانے سے پہلے اسرائیل کے ’راکٹ روک‘ آئرن ڈوم سسٹم کی مزید ترقی کے لیے دو 225 ملین ڈالر کا بجٹ منظور کرگئے۔خادمِ حرمین و شریفین شاہ عبداللہ سے پوچھئے جنھیں تین ہفتے بعد پتہ چلا کہ غزہ میں کچھ لوگ مرگئے ہیں ۔مصر کے جنرل عبدالفتح السسی اور امیرِ قطر حماد الخلیفہ الثانی سے پوچھئے جو جارح حماس اور بے چارے اسرائیل کے درمیان بروکری کی غیر مشروط کوشش کررہے ہیں۔اردن کے بادشاہ سے پوچھئے جو اب تک اعلانِ مذمت کے لیے موزوں الفاظ کی تلاش میں ہیں۔اور محمود عباس سے پوچھئے جو ہر راہگیر کے سامنے روہانسے ہوئے جا رہے ہیں کہ ’بھائی صاحب میں مانگنے والا نہیں ہوں بس ایک منٹ میری بات سن لیں۔‘مسلمان دنیا کے لیے اچھی خبر یہ ہے کہ 11000 کلو میٹر پرے جنوبی امریکہ کے ملک وینزویلا نے غزہ کے یتیم اور زخمی فلسطینی بچوں کو گود لینے کی پیش کش کی ہے۔ بھری مساجد میں رقت آمیز دعاؤں سے فرصت ملے تو وینزویلا کو اسلامی کانفرنس کی صدارت پیش کرنے پر غور کیجئے گا۔وسعت اللہ خان
No comments:
Post a Comment