Monday, July 15, 2013

وہ بھولا بسرا شخص! نقش خیال…عرفان صدیقی






وہ بھولا بسرا شخص! نقش خیال…عرفان صدیقی

ریمنڈ ڈیوس کے سفارتی استثنیٰ کا قضیہ کھڑا ہونے سے کوئی دس سال پہلے کی بات ہے۔ یہاں میرے شہر اسلام آباد میں ایک سفیر رہتا تھا۔ اس کا نام ملا عبدالسلام ضعیف تھا۔ ایک آزاد وخود مختار ملک کا سفیر ہونے کے ناتے اسے بین الاقوامی قوانین، ضابطوں اور معاہدوں کے مطابق مکمل استثنیٰ حاصل تھا۔ اس پر کیا بیتی؟ ہم بھول گئے ہیں۔ آئیے! آج بحث مباحثوں ، تجزیوں اور تبصروں سے ہٹ کر بھولے بسرے عبدالسلام ضعیف کی آپ بیتی کا ایک ورق، خود اس کی زبانی سنتے ہیں۔

”جنوری 2002ء کی دو تاریخ تھی۔ صبح کو میں اپنے گھر کے اندر گھرانے کے دیگر افراد سے معمول کی گپ شپ میں مصروف تھا۔ یہ کوئی صبح آٹھ بجے کا وقت تھا۔ میرے گھر کی سیکورٹی پر مامور افراد نے خبر دی کہ چند پاکستانی افراد، جو خود کو حکومتی اہلکار بتاتے ہیں، مجھے ملنے آئے ہیں۔ میں فوراً مہمان خانے میں آیا جہاں تین پاکستانی افراد بیٹھے تھے۔ ان میں سے ایک ، جس کی ظاہری شکل سے ہی نفرت اور تعصب کا اظہار ہورہا تھا اور وہ انتہائی بدشکل بھی تھا کہنے لگا۔“

Excellency! You are no more excellency
”عزت مآب ! اب آپ عزت مآب نہیں رہے“ اس نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔“ آپ جانتے ہیں کہ امریکہ اس وقت ایک سپرپاور ہے۔ پاکستان جیسا کمزور ملک اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا اور نہ ہی اس کی بات ماننے سے انکار کرسکتا ہے۔ اس سپر پاور کو آپ کی ضرورت ہے تاکہ وہ آپ سے کچھ تحقیقات کرسکے“۔ میں نے جواب میں اس سے کہا ”آپ کی یہ بات درست ہے امریکہ ایک سپر پاور ہے لیکن اس کے باوجود دنیا کے معاملات چلانے کیلئے کچھ مسلمہ قوانین اور اصول موجود ہیں۔ آپ کن اسلامی ، غیراسلامی یا بین الاقوامی اصولوں کے تحت یہ سلوک کررہے ہیں؟ کن قوانین کے تحت آپ مجھے امریکہ کے حوالے کرنے پر مجبور ہیں؟ آپ صرف یہ حق رکھتے ہیں کہ مقررہ وقت کے اندر مجھے پاکستان چھوڑنے کا کہہ دیں۔“


12بجے تک مجھے گھر ہی میں رہنے کا حکم دیا گیا۔ چاروں طرف سے میرے گھر کا محاصرہ کرلیا گیا۔ باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہ تھا۔ میں نے پاکستانی وزارت خارجہ کو فون کیا لیکن وہاں کے ذمہ داروں نے کوئی جواب دینے سے گریز بہتر سمجھا۔ گھر سے کہیں اور منتقل کرنے سے پہلے ان اہلکاروں نے بتایا ”ہم آپ کو پشاور منتقل کررہے ہیں، وہاں آپ ہمارے ساتھ رہیں گے۔ صرف امریکی آپ سے تحقیقات کریں گے۔“ یاد رہے کہ اس وقت میرے پاس دس مہینے کا پاکستانی ویزا موجود تھا اور خارجہ امور کا وہ رسمی خط بھی جس میں مذکور تھا کہ اس خط کا حامل اس وقت تک پاکستان میں رہ سکتا ہے جب تک افغانستان میں امن قائم نہیں ہوجاتا۔ اس کے علاوہ اقوام متحدہ کا یہ خط بھی موجود تھا کہ یہ ایک اہم شخصیت ہے جس کے ساتھ احترام کا سلوک کیا جائے۔

سوا بارہ بجے تین گاڑیاں میری رہائش گاہ کے سامنے آکر رکیں ۔ تمام راستے بند کردیئے گئے۔ کسی صحافی کو بھی قریب نہ آنے دیا گیا تاکہ وہ پاکستانی حکومت کے اس شرمناک عمل کے مناظر فلما کر دنیا کو ، خاص کر مسلمانوں کو دکھا نہ سکیں۔ میں اس حال میں گھر سے نکلا کہ میرے بچے چیخیں مار مار کر رو رہے تھے۔ انسانی حقوق ، بین الاقوامی ضابطے، جمہوری اقدار اور میرے سفارتی حقوق ، سب کچھ پاؤں تلے روندا جارہا تھا۔ میں ان کے ساتھ گھر سے نکل کر، شدید احساس بے بسی کے ساتھ ان پاکستانی بھائیوں کی گاڑی میں بیٹھ گیا جو اپنے آپ کو خالص مسلمان اور ہمارے بھائی باور کرارہے تھے۔ سیکورٹی والی ایک گاڑی آگے اور ایک ہمارے پیچھے آرہی تھی۔ سیاہ شیشوں والی گاڑی سے باہر مجھے کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔ کچھ اہلکار بھی میرے ساتھ بیٹھے تھے۔ تمام راستے گاڑی میں لگے ٹیپ ریکارڈر سے اردو گانے بجائے جارہے تھے۔ نماز قضا ہورہی تھی۔ میں نے بار بار تقاضا کیا لیکن اجازت نہ ملی۔

پشاور پہنچ کر ایک دفتر میں داخل ہوئے۔ مجھے ایک سائیڈ والے کمرے میں لے جایا گیا جس پر پاکستانی پرچم لہرا رہا تھا۔ دیوار پر قائداعظم کی تصویر ٹنگی ہوئی تھی۔ دو راتیں اس کمرے میں گزریں۔ تیسری رات تقریباً گیارہ بجے میں سونے کا ارادہ کرہی رہا تھا کہ اچانک دروازہ کھلا۔ ایک آدمی اندر داخل ہوا۔ میرا حال احوال پوچھنے کے بعد کہنے لگا۔ ”کیا آپ کو علم ہے کہ کیا ہونے والا ہے؟“ میں نے کہا ”نہیں“ ۔ وہ بولا۔ ”کیا آپ کو کسی نے کچھ نہیں بتایا؟“ میں نے پھر کہا ”نہیں“ اس پر وہ کہنے لگا۔ ”ہم آپ کو اسی وقت کسی اور جگہ منتقل کررہے ہیں۔ آپ کے پاس صرف پانچ منٹ ہیں۔ واش روم جانا چاہیں تو ہو آئیں۔“ تقریباً دس منٹ بعد مجھے اس کمرے سے نکالا گیا۔ باہر سادہ کپڑوں میں کچھ اہلکار کھڑے تھے۔ مجھے ہتھکڑیاں لگائی گئیں۔ آنکھوں پر کالی پٹی باندھ دی گئی۔ تلاشی لے کر قرآن کریم کا ایک نسخہ ، چھوٹی سی انگلش ڈکشنری اور جیب میں پڑی رقم انہوں نے چھین لی۔ گھڑی اتارلی۔ مجھے دھکے دے کر ایک گاڑی میں ڈال دیا گیا۔

تقریباً ایک گھنٹہ سفر کے بعد ہیلی کاپٹر کی آواز میری سماعت سے ٹکرائی۔ مجھے اندازہ ہوگیا کہ ضرور یہ امریکی ہیلی کاپٹر ہوگا۔ دو بندوں نے مجھے پکڑ کر گاڑی سے اتارا اور حکم دیا کہ چند قدم آگے چل کر کھڑے ہوجاؤ۔ پھر سرگوشی سی ہوئی ”خدا حافظ“ ۔ مجھے اندازہ ہوگیا کہ امریکیوں کے حوالے کیا جارہا ہے۔ کئی افراد نے یک بارگی مجھ پر حملہ کر دیا جیسے کوئی میمنا بھیڑیوں کے نرغے میں آگیا ہو۔ مجھ پر لاتوں ، گونسوں ، تھپڑوں اور مکوں کی بارش ہونے لگی۔ مجھے زمین پر پٹخ دیا گیا۔ چاقوؤں سے میرا لباس تار تار کردیا گیا۔ فحش گالیاں دی جانے لگیں۔ میرے انگ انگ سے درد کی شدید ٹیسیں اٹھنے لگیں۔ میرا پورا لباس چیتھڑے بن کر میرے جسم سے الگ ہوچکا تھا۔ میں بالکل ننگا فرش پر پڑا ہوا تھا۔ بے بسی اور بے توقیری کی اس گھڑی میری آنکھوں سے وہ پٹی سرک گئی جو میری آنکھ اور ننگے جسم کے درمیان حائل تھی۔ میں نے دیکھا کہ چاروں طرف پاکستانی فوجی اہلکار فوجی انداز میں صف بستہ کھڑے ہیں۔ چند امریکی فوجی بھی منظم انداز سے کھڑے تھے۔

امریکی وحشی جانوروں نے ٹھڈے اور مکے مارتے ہوئے اسی حالت میں اٹھا کر ہیلی کاپٹر میں پٹخ دیا۔ میرے بدن پر ستر ڈھانپنے کو ایک چیتھڑا تک نہ تھا۔ میرے ہاتھ پاؤں زنجیروں سے جکڑ دیئے گئے۔ آنکھوں پر سیاہ پٹی باندھ دی گئی۔ منہ پر سیاہ کپڑے کا ایک تھیلا چڑھا دیا گیا۔ پھر ہیلی کاپٹر کے درمیان میں ایک تختے کے ساتھ باندھ کرلٹا دیا گیا۔ ایک مقام پر ہیلی کاپٹر نیچے آیا۔ مجھے ٹھڈے مارکر زمین پر گرادیا گیا۔ چار پانچ امریکی فوجی میرے اوپر بیٹھ گئے… میں بے بسی کے اس عالم میں سوچ رہا تھا کہ پاکستانی ارباب اختیار نے مجھ سے یہ شرمناک سلوک کیوں کیا؟ کوئی دو گھنٹے بعد مجھے ایک اور ہیلی کاپٹر میں پھینک دیا گیا۔ بڑی دیر بعد ہیلی کاپٹر اترا۔ ایک ترجمان کی وساطت سے مجھے کہا گیا کہ احتیاط سے سیڑھیاں اترو۔ میرا تھیلا ہٹا لیا گیا۔ پٹی کھول دی گئی۔ میں نے دیکھا کہ کئی امریکی فوجی میرے دائیں بائیں کھڑے ہیں۔ میرے ہاتھ پاؤں کھول دیئے گئے۔ ایک خاص وردی پہننے کو دی گئی۔ پھر مجھے ایک میڑ چوڑے اور دو میٹر لمبے کمرے میں ڈال دیا گیا جس کے ایک کونے میں کموڈ رکھا تھا۔ مجھے بعد میں پتہ چلا کہ یہ وہ سمندری جنگی جہاز ہے جو امریکہ نے بحرہند میں کھڑا کررکھا ہے۔“


ریمنڈ ڈیوس کا رنگ گورا ہے اور وہ امریکی ہے۔ یہ کہانی بیان کرنے والے کا نام ملا عبدالسلام ضعیف ہے۔ اس کا رنگ سانولا ہے، چہرے پہ داڑھی ہے اور اس کا تعلق بے نواؤں کی سرزمین افغانستان سے ہے.



تین شرطیں


ایک نیک شخص کے گھر کی دیوار اچانک گر گئی ۔ اسے بڑی پریشانی لاحق ہوئی اور وہ اسے دوبارہ بنوانے کے لئے کسی مزدور کی تلاش میں گھر سے نکلا اور چوراہے پر جا پہنچا ۔ وہاں اس نے مختلف مزدوروں کو دیکھا جو کام کے انتظار میں بیٹھے تھے ۔ان میں ایک نوجوان بھی تھا جو سب سے الگ تھلگ کھڑا تھا، اس کے ایک ہاتھ میں تھیلا اور دوسرے ہاتھ میں تیشہ تھا ۔
اس شخص کا کہنا ہے کہ، ''میں نے اس نوجوان سے پوچھا، ''کیا تم مزدوری کرو گے؟ ''نوجوان نے جواب دیا،''ہاں!'' میں نے کہا،''گارے کا کام کرنا ہوگا۔'' نوجوان کہنے لگا،''ٹھیک ہے! لیکن میری تین شرطیں ہیں اگر تمہیں منظور ہوں تو میں کام کرنے کے لئے تیار ہوں،
پہلی شرط یہ ہے کہ تم میری مزدوری پوری ادا کرو گے،
دوسری شرط یہ ہے کہ مجھ سے میر ی طاقت اور صحت کے مطابق کام لو گے،
تیسر ی شرط یہ ہے کہ نماز کے وقت مجھے نماز ادا کرنے سے نہیں روکو گے ۔''
میں نے یہ تینوں شرطیں قبول کر لیں اور اسے ساتھ لے کر گھر آگیا، جہاں میں نے اسے کام بتایا اور کسی ضروری کام سے باہر چلا گیا ۔جب میں شام کے وقت واپس آیا تو دیکھا کہ اس نے عام مزدوروں سے دوگنا کام کیا تھا ۔میں نے چُھپ کر دیکھا تو دیکھا کہ وہ صرف گارا ڈالتا ھے اور اینٹیں خود اُڑ اُڑ کر لگتی چلی جاتی ھیں ۔۔ میں نے بخوشی اس کی اجرت ادا کی اور وہ چلا گیا ۔
دوسرے دن میں اس نوجوان کی تلاش میں دوبارہ اس چوراہے پر گیا لیکن وہ مجھے نظر نہیں آیا ۔ میں نے دوسرے مزدوروں سے اس کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ وہ ہفتے میں صرف ایک دن مزدوری کرتا ہے ۔ یہ سن کر میں سمجھ گیا کہ وہ عام مزدور نہیں بلکہ کوئی بڑا آدمی ہے۔ میں نے ان سے اس کا پتہ معلوم کیا اور اس جگہ پہنچا تو دیکھا کہ وہ نوجوان زمین پر لیٹا ہوا تھا اور اسے سخت بخار تھا۔ میں نے اس سے کہا، ''میرے بھائی! تُو یہاں اجنبی ہے، تنہا ہے اور پھر بیمار بھی ہے، اگر پسند کرو تو میرے ساتھ میر ے گھر چلو اور مجھے اپنی خدمت کا موقع دو ۔'' اس نے انکار کر دیا لیکن میرے مسلسل اصرار پر مان گیا لیکن ایک شرط رکھی کہ وہ مجھ سے کھانے کی کوئی شے نہیں لے گا، میں نے اس کی یہ شرط منظور کر لی اور اسے اپنے گھر لے آیا۔
وہ تین دن میرے گھر قیام پذیر رہا لیکن اس نے نہ تو کسی چیز کا مطالبہ کیا اور نہ ہی کوئی چیز لے کر کھائی۔ چوتھے روز اس کے بخار میں شدت آگئی تو اس نے مجھے اپنے پاس بلایا اور کہنے لگا، ''میرے بھائی! لگتا ہے کہ اب میرا آخری وقت قریب آگیا ہے لہذا جب میں مر جاؤں تو میری اس وصیت پر عمل کرنا کہ، ''جب میری روح جسم سے نکل جائے تو میرے گلے میں رسی ڈالنا اور گھسیٹتے ہوئے باہر لے جانا اور اپنے گھر کے ارد گرد چکر لگوانا اور یہ صدا دینا کہ لوگو! دیکھ لو اپنے رب تعالیٰ کی نافرمانی کرنے والوں کا یہ حشر ہوتا ہے ۔''شاید اس طرح میرا رب عزوجل مجھے معاف کر دے ۔ جب تم مجھے غسل دے چکو تو مجھے انہی کپڑوں میں دفن کر دینا، پھر بغداد میں خلیفہ ہارون رشید کے پاس جانا اور یہ قرآن مجید اور انگوٹھی انہیں دینا اور میرا یہ پیغام بھی دینا کہ،''اللہ عزوجل سے ڈرو! کہیں ایسا نہ ہو کہ غفلت اور نشے کی حالت میں موت آجائے اور بعد میں پچھتانا پڑے، لیکن پھر اس سے کچھ حاصل نہ ہوگا ۔ ''
وہ نوجوان مجھے یہ وصیت کرنے کے بعد انتقال کر گیا ۔ میں اس کی موت کے بعد کافی دیر تک آنسو بہاتا رہا اور غمزدہ رہا ۔ پھر (نہ چاہتے ہوئے بھی) میں نے اس کی وصیت پوری کرنے کے لئے ایک رسی لی اور اس کی گردن میں ڈالنے کا قصد کیا تو کمرے کے ایک کونے سے ندا آئی کہ، ''اس کے گلے میں رسی مت ڈالنا، کیا اللہ عزوجل کے اولیاء سے ایسا سلوک کیا جاتا ہے؟ '' یہ آواز سن کر میرے بدن پر کپکپی طاری ہوگئی ۔ یہ سننے کے بعد میں نے اس کے پاؤں کو بوسہ دیا اور اس کے کفن و دفن کا انتظام کرنے چلا گیا ۔
اس کی تدفین سے فارغ ہونے کے بعد میں اس کا قرآن پاک اور انگوٹھی لے کر خلیفہ کے محل کی جانب روانہ ہو گیا۔ وہاں جا کر میں نے اس نوجوان کا واقعہ ایک کاغذ پر لکھا اور محل کے داروغہ سے اس سلسلے میں بات کرنا چاہی تو اس نے مجھے جھڑک دیا اور اندر جانے کی اجازت دینے کی بجائے اپنے پاس بٹھا لیا۔ آخرِ کار !خلیفہ نے مجھے اپنے دربار میں طلب کیا اور کہنے لگا،
''کیا میں اتنا ظالم ہوں کہ مجھ سے براہ راست بات کرنے کی بجائے رقعے کا سہارا لیا ؟'' میں نے عرض کی،''اللہ تعالیٰ آپ کا اقبال بلند کرے، میں کسی ظلم کی فریاد لے کر نہیں آیا بلکہ ایک پیغام لے کر حاضر ہوا ہوں ۔'' خلیفہ نے اس پیغام کے بارے میں دریافت کیا تو میں نے وہ قرآن مجید اور انگوٹھی نکال کر اس کے سامنے رکھ دی۔ خلیفہ نے ان چیزوں کو دیکھتے ہی کہا،''
یہ چیزیں تجھے کس نے دی ہیں؟
''میں نے عرض کی،''ایک گارا بنانے والے مزدور نے ۔۔۔۔۔۔۔''
خلیفہ نے ان الفاظ کو تین بار دہرایا،''گارا بنانے والا،،، گارا بنانے والا،،، گارا بنانے والا،،،''اور رو پڑا۔
کافی دیر رونے کے بعد مجھ سے پوچھا، ''وہ گارا بنانے والا اب کہاں ہے؟ ''میں نے جواب دیا،''وہ مزدور فوت ہو چکا ہے۔ ''یہ سن کر خلیفہ بے ہوش ہو کر گر گیا اوربہت دیر تک بے ہوش رہا۔ میں اس دوران حیران و پریشان وہیں موجود رہا۔ پھر جب خلیفہ کو کچھ افاقہ ہوا تو مجھ سے دریافت کیا، ''اس کی وفات کے وقت تم اس کے پاس تھے؟ ''میں نے اثبات میں سر ہلا دیا تو کہنے لگا،''اس نے تجھے کوئی وصیت بھی کی تھی؟ ''میں نے اسے نوجوان کی وصیت بتائی اور وہ پیغام بھی دے دیا جو اس نوجوان نے خلیفہ کے لئے چھوڑا تھا ۔
جب خلیفہ نے یہ ساری باتیں سنیں تو مزید غمگین ہو گیا اور کہنے لگا،''اے مجھے نصیحت کرنے والے ! اے میرے زاہد و پارسا! اے میرے شفیق !۔۔۔۔۔۔'' اس طرح کے بہت سے القابات خلیفہ نے اس مرنے والے نوجوان کو دئيے اور مسلسل آنسو بھی بہاتا رہا ۔
یہ سارا معاملہ دیکھ کر میری حیرانی اور پریشانی میں مزید اضافہ ہوگیا کہ خلیفہ ایک عام سے مزدور کے لئے اس قدرغم زدہ کیوں ہے؟ جب رات ہوئی تو خلیفہ نے مجھ سے اس کی قبر پر لے جانے کی خواہش ظاہر کی تو میں اس کے ساتھ ہولیا ۔ خلیفہ چادر میں منہ چھپائے میرے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔ جب ہم قبرستان میں پہنچے تو میں نے ایک قبر کی طرف اشار ہ کر کے کہا، ''عالی جاہ! یہ اس نوجوان کی قبر ہے ۔''
خلیفہ اس کی قبر سے لپٹ کر رونے لگا ۔ پھر کچھ دیر رونے کے بعد اس کی قبر کے سرہانے کھڑا ہو گیا اور مجھ سے کہنے لگا، ''یہ نوجوان میرا بیٹا تھا، میری آنکھوں کی ٹھنڈک اور میرے جگر کا ٹکڑا تھا، ایک دن یہ رقص وسُرور کی محفل میں گم تھا کہ مکتب میں کسی بچے نے یہ آیت کریمہ تلاوت کی،
''أَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا أَن تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ اللَّهِ وَمَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ وَلَا يَكُونُوا كَالَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلُ فَطَالَ عَلَيْهِمُ الْأَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوبُهُمْ ۖ وَكَثِيرٌ مِّنْهُمْ فَاسِقُونَ (پ۲۷، الحدید 16)
کیا اب تک ایمان والوں کے لئے وقت نہیں آیا کہ ان کے دل ذکر الٰہی سے اور جو حق اتر چکا ہے اس سے نرم ہوجائیں اور ان کی طرح نہ ہوجائیں جنہیں ان سے پہلے کتاب دی گئی تھی پھر جب زمانہ دراز گزر گیا تو ان کے دل سخت ہوگئے اور ان میں بہت سے فاسق ہیں۔ (پ۲۷، الحدید۱۶)
جب اس نے یہ آیت سنی تو اللہ تعالیٰ کے خوف سے تھر تھر کانپنے لگا اور اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی اور یہ پکار پکار کر کہنے لگا،''کیوں نہیں؟ کیوں نہیں؟ '' اور یہ کہتے ہوئے محل کے دروازے سے باہر نکل گیا ۔ اس دن سے ہمیں اس کے بارے میں کوئی خبر نہ ملی یہاں تک کہ آج تم نے اس کی وفات کی خبر دی ۔''

اگر آپ کسی شیعہ کو حضرت عمر(رضی اللہ عنہ) کو گالی دیتےہوئے سنیں تو اس سے پوچھیں


اگر آپ کسی شیعہ کو حضرت عمر(رضی اللہ عنہ) کو گالی دیتےہوئے سنیں تو اس سے پوچھیں:
کہ آپ کی مراد کس عمر سے ہے
عمر بن علي بن ابي طالب ؟
یا عمر بن الحسن بن علي ؟
یا عمر بن الحسين بن علي ؟
یا عمر بن علي زين العابدين بن الحسين ؟
یا عمر بن موسى الكاظم ؟
اور اگر ان میں سے کسی کو حضرت أبو بكر(رضی اللہ عنہ) کوگالی دیتے ہوئے سنیں تو اس سے یہ سوال ضرور کریں:
کہ آپ کی مراد کس أبو بكر سے ہے
أبو بكر بن علي بن أبي طالب ؟
یا أبو بكر بن الحسن بن علي ؟
یا أبو بكر بن الحسين بن علي ؟
یا أبو بكر بن موسى الكاظم ؟
اور اگر ان میں سے کسی کو نعوذباللہ "عائشة في النار ..یعنی.. عائشة جہنمی ہے " کے نعرے لگاتے ہوئے سنیں تو اس سے سوال کریں:
کہ آپ کی مراد کس عائشة سے ہے
عائشة بنت جعفر الصادق ؟
یا عائشة بنت موسى الكاظم ؟
یا عائشة بنت علي الرضا ؟
یا عائشة بنت علي الهادي ؟
اور پھر اسکے بعد آپ انہیں سمجھاتے ہوئے کہیں کہ ان لوگوں نے ( شیعہ جنہیں اپنا امام مانتے ہیں) اپنے بچوں کا نام "ابو بکر" . "عمر" اور "عایشہ" رکھا،،،،،،کیوں..........؟؟؟؟؟
........کیونکہ وہ مذکورہ صحابہ کرم سے بیحد عقیدت رکھتے تھے اور چاہتے تھے کہ انکےگھروں میں بوبکر و عمر اور عایشہ نامی ستارے چمکتے دمکتے رہیں.

پاکستان کے ایٹمی اثاثے (اب تو آنکھیں کھل جانی چاہیں!)


اب تو آنکھیں کھل جانی چاہیں!

سیاسی گرما گرمی کے سے سبب جمہوری نظام کو در پیش خطرات کے بعد میڈیا جن خدشات کا سب سے زیادہ اظہار کر رہا ہے ان میں ملکی سلامتی خصوصاً ایٹمی اثاثوں کی بیرونی جاسوسی اور نگرانی سرفہرست ہے۔ ویسے تو پاکستان اپنے قیام کے دن ہی سے دشمن قوتوں خصوصاً صیہونی طاقتوں کی آنکھ میں بری طرح کھٹک رہا ہے لیکن جب سے پاکستان نے اپنے ایٹمی قوت ہونے کا باقاعدہ اعلان کیاہے ارض وطن کیخلاف یہودو نصاریٰ کی سازشوں میں بھی انتہائی تیزی آگئی ہے اور وہ نعوذ باللہ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کو تباہ کرنے کی نت نئی سازشوں اور منصوبہ بندیوں میں مصروف رہتے ہیں۔ اگرچہ ان طاقتوں میں اسرائیل اور بھارت کے نام سر فہرست ہیں لیکن یہ دونوں ممالک از خود اتنی جرات نہیں رکھتے کہ پاکستان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکیں لہٰذا اپنے مذموم مقاصد کے لیے انہوں نے امریکی گود میں پناہ لے رکھی ہے۔ امریکہ گو کہ خود کو ہمارا دوست اور دہشت گردی کیخلاف جنگ میں ہمارا اتحادی گردانتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسے ہماری دوستی سے زیادہ اپنی ضرورتیں اور مفادات عزیز ہیں اور وہ ان کے حصول کے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے جس کی ایک مثال مختلف اوقات میں امریکہ کی جانب سے پاکستان کے ایٹمی اثاثوں پر تشویش کا اظہار اور بارہا ان پر قبضے کے حوالے سی کی جانیوالی کوششوں کی وہ خبریں ہیں جو آئے روز میڈیا کی زینت بنتی رہتی ہیں جبکہ اس مقصد کے لیے امریکہ نے بعض اطلاعات کے مطابق جاسوسی کا باقاعدہ نظام بھی وضح کر رکھا ہے، جو بھارتی ایجنسی راء اور اسرائیلی ایجنسی موساد کی مدد سے جاری ہے جس کی تصدیق ایران کے صدر محمود احمدی نژاد نے بھی کردی ہے۔
ٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓ
پاکستان کے ایٹمی طاقت بننے کی ایک طویل داستان ہے جس کے حصول میں بڑے نشیب و فراز سے گزرنا پڑا۔ دشمنوں نے ہمارے ایٹمی پروگرام کو سبوتاڑ کرنے کی کئی بار کوششیں اور سازشیں کیں جو کہ تاحال جاری ہیں جس کی ایک مثال گزشتہ دنوں امریکی ایلچی رچرڈ ہالبروک کی جانب سے سامنے آنے والا وہ بیان ہے جس میں الزام لگایا گیا ہے کہ القاعدہ اب پاکستان سے ایٹمی ہتھیار حاصل کرنا چاہتی ہے اور اس کے پاکستانی سائنسدانوں سے بھی رابطے ہیں۔ حالانکہ اگر حقائق پر نظر دوڑائیں تو خود امریکہ ایک عرصہ سے ہمارے اثاثوں کی جاسوسی کی سر توڑ کوششوں کے باوجود اپنے مذموم مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکا جو کہ اس بات کی ٹھوس دلیل ہے کہ پاکستان کے اثاثے نہ صرف محفوظ ترین ہیں بلکہ دنیا کی ان تک رسائی بھی ناممکن ہے اور یہی دلیل ہالبروک کے الزامات کی تردید بھی ہے۔ پاکستان کے ایٹمی اثاثے کتنے محفوظ ہیں یا ان کا کمانڈ اینڈ کنڑول سسٹم کس قدر مؤثر ہے اس کا اندازہ ان اثاثوں کی جاسوسی کے ناکام واقعات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ کوئی تین عشرے قبل امریکہ نے ہمارے کچھ انجینئر اور سائنسدانوں کو خرید کر نیوکلیئر تنصیبات کو تکنیکی طور پر تباہ کرنے کا ناپاک منصوبہ بنایا۔
ٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓ
قصہ کچھ یوں تھا کہ کراچی یونیورسٹی میں ایم اے انگلش لٹریچر کی ایک طالبہ کو ایک لڑکے رفیق منشی سے عشق ہو گیا۔ یونیورسٹی چھوڑنے کے بعد وہ آپس میں ملتے رہے۔ شادی کے وعدے وعید بھی ہوئے۔ وہ کراچی کے ایک کالج کی لیکچرر تعینات ہو گئی اور رفیق منشی کینوپ میں ملازم ہو گیا۔ ایک دن رفیق منشی اچانک غائب ہو گیا۔ چار سال بعد رفیق منشی پھر کراچی میں نمودار ہوا۔ ماضی کے برعکس اب وہ مالدار تھا اور ایک خوبصورت امریکن لڑکی اس کی دوست بن چکی تھی لیکن وہ اس کے پاس آتا رہا۔ گو اس کے دل میں رفیق منشی کی دوسری دوست کھٹکتی تھی مگر عشق چلتا رہا اور انتقام کی آگ بھی سلگتی رہی۔ ایک دن رفیق منشی دفتر جاتے ہوئے اپنی الماری بند کرنا بھول گیا۔ اس نے دیکھا کہ اس الماری میں بہت سے ڈالر اور کاغذات پڑے ہیں۔ ان کاغذات میں بہت اہم ملکی راز تھے جنہیں وہ افشاء کرنے سے ڈرتی تھی مگر وہ اس کے ذہن پر سوار ہوگئے۔ان دنوں لیفٹنٹ کرنل امتیاز آئی ایس آئی سندھ کے سربراہ تھے۔ بات ان تک پہنچی اور پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام کو تباہ کرنے کی بہت بڑی سازش قبل از وقت ناکام ہو گئی۔ لیفٹنٹ کرنل امتیاز کو تمغہ بصالت دیا گیا۔ رفیق منشی امریکی خفیہ ایجنسی کے ہاتھوں میں کھیل رہا تھا۔ امریکی خفیہ ایجنسی نے دو خوبصورت لڑکیوں سمیت پانچ امریکیوں کو پاکستان کا نیوکلیئر پروگرام تباہ کرنے کا کام سونپا تھا۔ ان دو لڑکیوں میں سے ایک رفیق منشی کی محبوبہ بنی ہوئی تھی۔ یہ امریکی ایجنٹ پاکستان کے مختلف شہروں میں کام کر رہے تھے اور پاکستان کی مختلف نیوکلیئر انسٹالیشنز کے رفیق منشی سمیت 12 ملازمین کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہو چکے تھے۔ آئی ایس آئی کے کاؤنٹر سیبوٹاج کے نتیجہ میں پانچوں امریکی اور 12پاکستانی گرفتار کر لئے گئے۔ امریکیوں کو ملک سے نکال دیا گیا۔ صدر ضیاء الحق نے ٹیلیفون کر کے امریکہ کے صدر سے احتجاج کیا جس کے نتیجہ میں امریکہ نے آئندہ ایسا نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی مگر وعدہ لے لیا کہ یہ خبر ذرائع ابلاغ کو نہیں دی جائے گی۔
ٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓ
یقین دہانی اور وعدے کے باوجود امریکہ باز نہ آیا اور اس کی ایک اور بڑی سازش اس وقت بے نقاب ہوئی جب کہوٹہ ایٹمی پلانٹ کی حدود میں ایک چرواہے کی نظر کچھ بڑے پتھروں پر پڑی جن میں جاسوسی کے حساس آلات اور کیمرے نصب تھے جن کے ذریعے وہاں کی نقل و حرکت پر نظر رکھی جارہی تھی۔ اسی سلسلے کا ایک واقعہ ناظرین کی دلچسپی کا باعث ہوگا کہ جب ضیاء4 الحق اپنے دور صدارت میں امریکہ کے دورے پر گئے تو وہاں وائٹ ہاؤس میں ایک میٹنگ میں انہوں نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ ہمارا ایٹمی پروگرام منجمد ہے۔ اس پر وہاں موجود سی آئی اے کے سربراہ نے ایک فلم دکھائی جس سے ظاہر ہو رہا تھا کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام منجمد نہیں بلکہ جاری ہے۔ شاید یہ فلم بھی مذکورہ پتھروں میں نصب شدہ کیمروں کی مدد سے بنائی گئی تھی۔
ضیاء الحق دور ہی میں بھی بھارت، امریکہ اور اسرائیل کی طرف سے مشترکہ طور پر پاکستان کی ایٹمی تنصیبات کو تباہ کرنے کا منصوبہ بنایا لیکن مؤثر ترین سکیورٹی کے سبب نہ صرف یہ ناپاک جسارت ناکام ہوئی بلکہ تینوں ممالک کو لینے کے دینے پڑ گئے۔ امریکی شہہ پر اسرائیل اور بھارت نے مشترکہ طور پر 1980ء میں عراق کے ایٹمی پلانٹ کو ایف سولہ طیاروں کے ذریعے تباہ کرنے کی طرز کی کارروائی ہی سے پاکستان کے اثاثوں کو ختم کرنے کا منصوبہ بنایا گیا لیکن پاکستانی حکام خبر ہونے پر پاکستان نے اپنے اس وقت کے وزیر خارجہ کو اس پیغام کے ساتھ دہلی بھیجا گیا کہ اگر پاکستان کی نیوکلیئر تنصیبات پر کوئی بھی حملہ ہوا تو پاکستان بھارت ہی کو اس کا ذمہ دار ٹھہرائے گا اور بھرپور جوابی حملہ بھی کرے گا۔ اسی دوران امریکی سیٹلائیٹ سے لی گئی تصاویر سے جب منصوبہ سازوں کو معلوم ہوا کہ پاک فضائیہ نہ صرف حرکت میں آچکی ہے بلکہ نیوکلیئر وارہیڈ سے لیس ایف 16طیاروں کے ایک اسکوارڈن کو بھارتی نیوکلیئر تنصیبات ٹروم بے،ٹرینکو میلی اور دوسرے مقامات پر حملے کرنے کے لیے ریڈ الرٹ کر دیا گیا تو دہلی، واشنگٹن اور تل ابیب میں کھلبلی مچ گئی اور دشمن کو ہماری نیوکلیئر تنصیبات پر حملے جرآت نہ ہوئی۔
ٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓ
ایسا ہی ایک واقعہ نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں بھی پیش آیا، یہ ان دنوں کی بات ہے جب بریگیڈیئر امتیاز نواز شریف کے پہلے دور حکومت میں ڈی جی آئی بی بنائے گئے۔ بریگیڈیئر امیتاز کو ایک شخص جو کہ اسلام آباد میں موجود ایک یورپی سفیر سے رابطے میں تھا اور ایک تیسرے ملک کی جانب سے سی آئی اے کے لیے بھی کام کر رہا تھا کو امریکہ کی جانب سے امریکہ اور بھارتی فنانسنگ کے ذریعے پاکستان کے اہم ایٹمی پروگرام کے سکیورٹی نقائص اور ایٹمی ہتھیاروں کی اصل پوزیشن کا پتہ چلانے کا ہدف ملا تھا کی موجودگی کی اطلاع ملی، ’’سٹار‘‘ کوڈ کے نام سے کام کرنے والے اس شخص کو پاکستانی حکام نے ڈبل ایجنٹ کا کردار ادا کرنے پر راضی کیا اور ڈی بریفنگ کے ذریعے جو راز اگلوائے ان کے مطابق اسے نہ صرف ایٹمی تنصیبات کا ٹاسک سونپا گیا تھا بلکہ اس کے ذمہ یہ کام بھی لگایا گیا تھا کہ وہ کشمیر کے معاملے پر پالیسی فیصلوں کو امریکی خواہشات کے مطابق کرانے کے لیے اقتدار کی دہلیز پر موجود لوگوں سے رابطہ کرے اور سرائیکی منصوبے پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے علاقائیت کو فروغ دے۔ اس مقصد کے لیے اسے ایک این جی او بنانا تھی جس کا ہیڈ کوارٹر اسلام آباد اور شاخیں بہاولپور، اور سندھ میں قائم کی جانی تھیں لیکن یہاں بھی ارض وطن کے تحفظ کے ذمہ داروں نے دشمن کی چال کو ناکامی سے دوچار کر دیا۔
ٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓ
1998ء میں جب پاکستان نے اپنے ایٹمی قوت ہونے کا باقاعدہ اعلان کیا تو امریکہ سمیت ہمارے روایتی دشمنوں کو ایک بار پھر سانپ سونگھ گیا اور وہ پھر سے سازشوں میں مصروف ہوگئے اور یوں ’’آپریشن بلیو تلسی‘‘ جس پر ایک عرصہ سے کام جاری تھا زور پکڑ گیا۔ اس آپریشن کے ذریعے جہاں پاکستان میں ’’را‘‘ سی آئی اے اور موساد نے پاکستان میں حالات کی خرابی اپنا مشترکہ ہدف قرار دی وہیں پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کو (نعوذ باللہ) نیست و بابود کرنے کا بھی عہد کیا۔ ارض پاک پر دہشت گردی اور لسانیت کے ذریعے اس آپریشن کے ایک حصے میں خاصی کامیابی کے بعد اب دوسرے حصے کی تکمیل کے لیے منصوبہ بندی پر عمل جاری ہے اور رچرڈ ہالبروک کا اوپر بیان کردہ الزام بھی اسی سلسلہ ہی کی ایک کڑی ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آج بھی دشمن عملی طور پر ناکام ہونے کے بعد ایک اور چال چل رہا ہے اور اس کے تمام پروپیگنڈے کا مقصد ہمارے ایٹمی اثاثوں پر قبضے کے سوا کچھ نہیں، ایرانی صدر کی جانب سے امریکہ کی جانب سے ہمارے جوہری اثاثوں پر قبضے کی کوششوں کے ثبوت ہونے کے دعوے کے بعد بھی اگر ہماری آنکھیں نہیں کھلتی تو اسے بدقسمتی کے سوا کیا جہا جاسکتا ہے؟ —


Thursday, March 21, 2013

500 روپے



باپ رات کو دیر سے گھر لوٹ آیا۔ مسلسل کام کرنے کی وجہ سے تھکاوٹ اور چڑچڑاپن محسوس کر رہا تھا۔ اس کا کم سن بیٹا اس کے انتظار میں دروازے کے قریب بیٹھا ہوا تھا۔باپ کے بیٹھتے ہی بیٹے نے کہا ابو! کیا میں آپ سے ایک سوال پوچھ سکتا ہوں؟ہاں بیٹا! کیوں نہیں، پوچھو۔ابو آپ ایک گھنٹے میں کتنا کماتے ہو؟باپ نےغصے سے کہا یہ سوچنا تمہارا کام نہیں۔ اس طرح کا سوال تمہارے ذہن میں آیا کیسے؟بیٹا بولا بس یوں ہی، میں جاننا چاہتا ہوں کہ آپ ایک گھنٹے میں کتنا کما لیتے ہو؟باپ: اگر تم ضروری جاننا چاہتے ہو تو ٹھیک ہے۔ (سوچتے ہوئے) 500 روپے۔بیٹا: او ہو۔۔۔ ۔ (کہتے ہوئے مایوسی سے اپنا سر جھکا لیا پھر اچانک اس کے ذہن میں کوئی بات آئی تو اس نے سر اٹھا کر کہا ابو! کیا آپ مجھے 250 روپے قرض دو گے؟باپ کا پارا ایک دم چڑھ گیا۔ "کیا تم مجھ سے صرف اس وجہ سے پوچھ رہے تھے کہ کسی گھٹیا کھلونے یا اس طرح کی دوسری چیزیں خریدنے کے لیے مجھ سے قرض مانگ سکو تو بہتر یہی ہے کہ جاؤ اپنے کمرے میں اور بستر پر سو جاؤ۔ اس طرح کی چھچھوری حرکت کرتے ہوئے تمہیں ذرا بھی احساس نہیں ہے کہ تمہارا باپ ایک گھنٹے میں اتنے پیسے کتنی مشکل اور خون پسینہ بہا کر حاصل کرتا ہے۔"بیٹا خاموشی سے مڑا اور اپنے کمرے میں داخل ہو کر دروازہ بند کر دیا۔باپ صوفے پر بیٹھ گیا۔ ابھی تک غصے سے بیٹے کے اس حرکت کے متعلق سوچ رہا تھا کہ کیوں اسے مجھ سے اتنے پیسے مانگنے کی ضرورت پڑ گئی؟ گھنٹے بھر بعد جب اس کا غصہ تھوڑا ٹھنڈا پڑ گیا تو دوبارہ سوچنے لگا۔ہو سکتا ہے کہ اسے کسی بہت ضروری چیز خریدنا ہے جو کہ مہنگا ہوگا اس لیے مجھ سے اتنے پیسے مانگ رہا تھا۔ ویسے تو اس نے کبھی مجھ سے اتنے پیسے نہیں مانگے ہیں۔ یہ سوچتے ہوئے وہ بیٹے کے کمرے کی طرف بڑھا اور دروازہ کھولا اور پوچھا کیا تم سو گئے بیٹا؟بیٹا اٹھ کر بیٹھ بیٹھا اور کہا نہیں ابو! جاگ رہا ہوں۔باپ: مجھے لگتا ہے کہ میں نے تم سے کافی سختی سے پیش آیا۔ دراصل آج میں نے بہت سخت اور تھکا دینے والا دن گزارا ہے۔ اس لیے تم پر ناراض ہو گیا۔ یہ لو 250 روپے۔بیٹا (خوشی سے مسکراتے ہوئے): بہت بہت شکریہ ابو! واؤ۔ایک ہاتھ میں پیسے لے کر دوسرے ہاتھ کو اپنے تکیے کی طرف بڑھایا اور جب اپنا ہاتھ تکیے کے نیچے سے نکالا تو اس کی مٹھی میں چند مڑے تڑے نوٹ دبے ہوئے تھے۔ دونوں پیسے باہم ملا کر گننا شروع کیا۔ گننے کے بعد باپ کی طرف دیکھا۔باپ نے جب دیکھا کہ بیٹے کے پاس پہلے سے بھی پیسے ہیں تو اس کا غصہ دوبارہ چڑھنا شروع ہو گیا۔باپ: جب تمہارے پاس پہلے ہی سے اتنے پیسے ہیں تو تمہیں مزید پیسے مانگنے کی کیوں ضرورت پڑ رہی ہے؟بیٹا: دراصل میرے پیسے کم پڑ رہے تھے لیکن اب پورے ہیں۔ اب میرے پاس پورے 500 روپے ہیں۔ (پیسے باپ کی طرف بڑھاتے ہوئے) ابو! میں آپ سے آپ کا ایک گھنٹہ خریدنا چاہتا ہوں۔ پلیز کل آپ ایک گھنٹہ پہلے آ جائیے گا تاکہ میں آپ کے ساتھ کھانا کھا سکوں۔باپ سکتے میں آ گیا۔ بانہیں پھیلا کر بیٹے کو آغوش میں لے لیا اور گلوگیر آواز سے اس سے اپنے رویہ کی معافی مانگنے لگا۔

ذرا سوچئے! کہیں ایسا تو نہیں کہ زندگی کی روزمرہ کی بھاگ دوڑ میں آپ بھی اپنے بچے یا دوسرے گھر والوں کو وقت نہ دے پا رہے ہوں؟


Tuesday, March 12, 2013

حضرت عمر بن عبدالعزیز




تاریخِ اسلام میں خلفاے راشدین کے بعد جس خلیفہ کا نام انتہائی عزت و احترام سے لیا جاتا ہے وہ حضرت عمر بن عبدالعزیز ہیں جو بنواُمیہ کے ساتویں خلیفہ تھے۔ آپ کی مدت خلافت اگرچہ تین برس سے بھی کم ہے مگر اس مختصر عرصے میں آپ نے جو اصلاحات کیں اس سے نہ صرف پورا ملک مستفید ہوا بلکہ بعد میں بھی اس کے نہایت دُوررس نتائج برآمد ہوئے۔ خاص طور پر ملک کی اقتصادی اور معاشی پالیسی آپ نے جس نہج پر
بنائی اس کی مثالیں آج بھی دی جاتی ہیں۔ آپ نے پہلی بار اُموی خلفا کے برعکس بیت المال کو عوام کی امانت قرار دیا۔ آپ سے قبل جن خلفا اور حاکموں نے اختیارات کا ناجائز فائدہ اُٹھا کر لوگوں کی زمینوں اور املاک بزور ظلم و زیادتی قبضہ کیا ہوا تھا یا سرکاری املاک کو اپنی جاگیریں قرار دیا تھا، آپ نے ان سب کو ضبط کرلیا۔ اکثر اپنے اصل مالکوں کو لوٹا دیں جو باقی بچا اس کو سرکاری املاک قرار دے دیا۔
آپ نے ہر صوبے کی آمدن کو اس صوبے پر خرچ کرنے کی پالیسی بنائی۔ اس کے باوجود اگر رقم بچ جاتی تو وہ دارالخلافہ بھیجی جاتی تھی جہاں اس کو ضرورت کے مطابق خرچ کیا جاتا تھا۔ اس معاشی پالیسی کا نتیجہ یہ نکلا کہ بعض صوبے اس قدر آسودہ حال ہوگئے کہ صدقے کی رقم بھی مرکزی بیت المال کو بھیجی جانے لگی، جب کہ مرکز میں اخراجات میں انتہائی احتیاط برتی جاتی تھی۔ بے جا اخراجات پر سخت کنٹرول تھا جس کے سبب اخراجات خصوصاً شاہی اخراجات نہ ہونے کے برابر رہ گئے۔ اس کا اندازہ اس امر سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ خود حضرت عمر بن عبدالعزیز کے اہل و عیال کے کھانے پینے کا یومیہ خرچہ صرف دو درہم تھا، حالانکہ خلیفہ بننے سے قبل آپ نے انتہائی پُرتعیش زندگی گزاری تھی مگر خلیفہ بننے کے بعد آپ نے سب کچھ ترک کر دیا اور رعایا کی خدمت کو اللہ تعالیٰ کی رضا قرار دیا۔
معاشی اصلاحات کے بعد آپ کا دوسرا سب سے اہم کارنامہ انصاف کی فراہمی تھا۔ انصاف کی فراہمی میں آپ نے کسی کی پروا نہ کی اور نہ کسی کو خاطر میں لائے۔ قانون کی نظر میں سب برابر تھے۔ کسی قسم کا معاشی یا خاندانی مقام و مرتبہ انصاف کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکتا تھا۔ جس کی وجہ سے قانون شکنی کا رجحان ختم ہوا۔ کوئی بھی غیرقانونی کام کرنے سے پہلے ہر شخص کو سو بار سوچنا پڑتا تھا، اس لیے بہت جلد ملک بھر میں محاورتاً نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں انصاف کا بول بالا ہوگیا۔ فراہمی عدل کے سلسلے میں آپ حضرت عمرفاروق اور حضرت ابوبکر صدیق کے نقشِ قدم پر چلے اور تاریخ میں اَن مٹ نقوش چھوڑ گئے۔ آپ کے ان ہی اقدامات کی وجہ سے آپ کو خلفاے راشدین کے بعد پانچویں خلیفۂ راشد قرار دیا جاتا ہے۔
آپ کی اصلاحات مقتدر طبقے کو اور پھر خاص کر شاہی خاندان کے افراد کو بہت ناگوار گزر رہی تھیں۔ وہ اس روک ٹوک کے بھلا کہاں عادی تھے۔ اس لیے پسِ پردہ سازشوں کا تانا بانا بُننے لگے بالآخر آپ کے ایک غلام کو ورغلانے میں کامیاب ہوگئے جس نے آپ کے کھانے میں زہر ملا دیا۔ آپ کا سالِ وفات ۷۲۰ عیسوی ہے۔ یہاں ہم اس عظیم خلیفہ کے دسترخوان کا حال بیان کرتے ہیں جس کا تذکرہ تاریخ کی مختلف کتابوں میں جگہ جگہ ہوا ہے۔
خلافت سے قبل آپ کا طعام بھی آپ کے لباس کی طرح اچھا خاصا پُرتکلف ہوا کرتا تھا مگر خلیفہ بننے کے بعد آپ نے زہد و قناعت اختیار کی۔ تعیشات اور تکلفات کو یک سر موقوف کر دیا۔ کھانا انتہائی سادہ اور ایک سالن پر مبنی ہوتا تھا۔ آپ کا معمول تھا کہ جب آپ کا کھانا تیار ہوجاتا تو کسی برتن میں ڈھک کر رکھ دیا جاتا۔ جب آپ کو کاروبارِ خلافت سے ذرا فرصت ملتی تو خود ہی اُٹھاکر اسے تناول فرماتے تھے۔
خاندانِ بنی اُمیہ میں مسلمہ بن عبدالملک سب سے زیادہ مال دار، ناز ونعمت کا دل دادہ اور کھانے پینے کے معاملے میں انتہائی فضول خرچ تھا۔ آپ کو جب اس کے کھانے پینے کے بارے میں انتہائی اسراف کا حال معلوم ہوا تو اسے صبح سویرے طلب کیا اور ظہرانے پر مدعو کیا۔ اس کے ساتھ باورچی کو ہدایت کی کہ میرا کھانا حسبِ معمول ہوگا، جب کہ ظہرانے میں مہمان کا کھانا انتہائی پُرتکلف اور متنوع ہونا چاہیے مگر اسے تاخیر سے پیش کیا جائے۔
مسلمہ بن عبدالملک صبح سے لے کردوپہر تک کاروبارِ خلافت دیکھتے رہے۔ یہاں تک کہ ان کی بھوک چمک اُٹھی مگر کھانا ابھی تیار نہ تھا۔ تاہم اس دوران حضرت عمر بن عبدالعزیز نے عمداً اپنا کھانا منگوایا جو صرف مسور کی دال پر مشتمل تھا۔ آپ نے ان سے فرمایا: ’’آپ کے کھانے میں ذرا دیر ہے، تاہم اگر آپ میرے ساتھ شریکِ طعام ہونا چاہیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں‘‘۔ چونکہ وہ اس وقت بھوک سے بے تاب تھے اس لیے خلیفہ کے ساتھ دسترخوان پر بیٹھ گئے اور خوب جی بھر کر کھایا۔ اسی وقت آپ کے اشارے پر خدام نے خصوصی کھانا لگایا تو آپ نے مسلمہ بن عبدالملک سے فرمایا کہ آپ کا کھانا تیار ہے، تناول فرمائیں۔ اس نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ میں سیر ہوچکا ہوں۔ اب بالکل گنجایش نہیں۔ یہ سن کر آپ مسکرائے اور فرمایا: اے مسلمہ! جب بھوک کے لیے صرف مسور کی دال کافی ہوسکتی ہے تو پھر اس کے لیے اتنا بے جا اسراف اور تکلفات کیوں؟ مسلمہ ذہین اور دانا آدمی تھے، فوراً بات سمجھ گئے اور انھوں نے اپنی اصلاح کرلی۔
ایک مرتبہ آپ کی پھوپھی کچھ نجی مسائل پر آپ سے صلاح مشورے کے لیے تشریف لائیں۔ اس وقت آپ دسترخوان پر بیٹھے رات کا کھانا تناول فرما رہے تھے۔ پھوپھی نے دیکھا کہ دسترخوان پر چند ایک چھوٹی چھوٹی روٹیاں، کچھ نمک اور ذرا سا زیتون کا تیل رکھا ہوا ہے۔ یہ دیکھ کر اس نے کہا: امیرالمومنین! میں تو اپنی ایک ضرورت کے تحت آپ سے مشورہ لینے آئی تھی، مگر آپ کو دیکھ کر مجھے احساس ہوا کہ اپنی ضرورت سے قبل مجھے آپ کو ایک مشورہ دینا چاہیے۔ آپ نے کہا: پھوپھی جان! فرمایئے۔ انھوں نے کہا: آپ ذرا نرم اور بہتر کھانا کھایا کریں۔ یہ سن کر آپ نے کہا: یقیناًآپ کا فرمانا بجا ہے، مجھے چاہیے کہ میں ایسا ہی کروں، مگر اس کا کیا کیجیے کہ مجھے بیت المال سے سالانہ ۲۰۰ دینار کا وظیفہ ملتا ہے اور اس میں اتنی گنجایش نہیں ہوتی کہ نرم اور بہتر کھانا کھا سکوں، جب کہ پیٹ کی خاطر مقروض ہونا مجھے گوارا نہیں۔
ایک دفعہ زیان بن عبدالعزیز آپ کے پاس آئے۔ کچھ دیر تک بات چیت ہوئی۔ دورانِ گفتگو آپ نے کہا: کل رات مجھ پر بہت گراں گزری۔ رات بھر کروٹیں بدلتا رہا، نیند بھی بہت کم آئی۔ میرا خیال ہے اس کا سبب وہ کھانا تھا جو رات کو میں نے کھایا تھا۔ زیان نے پوچھا: رات کو کیا کھایا تھا؟ آپ نے جواب دیا: مسور کی دال اور پیاز۔ اس پر زیان نے کہا: اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہت کچھ دے رکھا ہے مگر آپ نے خود ہی اپنے اُوپر پابندیاں لگا رکھی ہیں۔ اتنی سخت پابندیاں بھی کچھ اچھی نہیں۔ آپ کو اچھا اور عمدہ کھانا لینا چاہیے۔ اس پر آپ نے تاسف بھرے لہجے میں کہا: میں نے تجھے بھائی سمجھ کر اپنا بھید تجھ پر کھولا مگر افسوس کہ میں نے تجھے اپنا خیرخواہ نہیں پایا، آیندہ محتاط رہوں گا۔

ابواسلم کہتے ہیں کہ ایک دن آپ کا ایک مہمان آیا ہوا تھا۔ آپ نے غلام کو کھانا لانے کو کہا۔ غلام کھانا لے آیا جو چند چھوٹی چھوٹی روٹیوں پر مشتمل تھا، جن پر نرم کرنے کے لیے پانی چھڑکا ہوا تھا اور ان کو روغنی بنانے کے لیے نمک اور زیتون کا تیل لگایا گیا تھا۔ رات کو جو کھانا پیش ہوا وہ دال اور کٹی ہوئی پیاز پر مشتمل تھا۔ غلام نے مہمان کو وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ اگر امیرالمومنین کے ہاں اس کے علاوہ کوئی اور کھانا ہوتا تو وہ بھی ضرور آپ کی مہمان نوازی کے لیے دسترخوان کی زینت بنتا، مگر آج گھر میں صرف یہی کھانا پکا ہے۔ امیرالمومنین نے بھی اس کھانے سے روزہ افطار فرمایا ہے۔

آپ کا معمول تھا کہ نمازِ عشاء کے بعداپنی صاحب زادیوں کے پاس تشریف لے جاتے تھے اور ان کی مزاج پُرسی فرماتے۔ ایک رات جب آپ بیٹی کے پاس تشریف لے گئے تو صاحب زادی نے منہ پر ہاتھ رکھا اور ذرا فاصلے پر کھڑی ہوگئیں۔ آپ کو تردّد ہوا تو خادمہ نے عرض کیا: حضور بچیوں نے ابھی کھانے میں مسور کی دال اور کچی پیاز کھائی ہے، بچی کو گوارا نہ ہوا کہ آپ کو اس کی بو محسوس ہو۔ یہ سن کر آپ رو پڑے اور فرمایا: بیٹی! تمھیں کیا یہ منظور ہوگا کہ تم انواع و اقسام کے لذیذ اور عمدہ کھانے کھاؤ اور اس کے بدلے میں تمھارے والد کو دوزخ ملے۔ بیٹی یہ سن کر سسک پڑی اور آپ کے گلے لگ گئی۔
مسلمہ بن عبدالملک کہتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نمازِ فجر کے بعد حضرت عمر بن عبدالعزیز کے خلوت خانے پر حاضر ہوا جہاں کسی اور کو آنے کی اجازت نہ تھی۔ اس وقت ایک لونڈی صیحانی کھجور کا تھال لائی جو آپ کو بہت پسند تھیں اور اسے رغبت سے کھاتے تھے۔ آپ نے دونوں ہاتھوں سے کچھ کھجوریں اُٹھائیں اور پوچھا: مسلمہ! اگر کوئی اتنی کھجوریں کھاکر اس پر پانی پی لے تو کیا خیال ہے یہ رات تک اس کے لیے کافی ہوگا؟ میں نے عرض کیا: مجھے صحیح اندازہ نہیں، میں قطعی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ کھجوریں کم تھیں۔ اس پر آپ نے کھجوروں سے اوک بھرا اور پوچھا: اب کیا خیال ہے؟ اب چونکہ مقدار زیادہ تھی اس لیے میں نے کہا: امیرالمومنین! اس سے کچھ کم مقدار بھی کافی ہوسکتی ہے۔
کچھ دیر توقف کے بعد آپ نے کہا: اگر اس قدر کھجوریں کافی ہیں تو پھر انسان اسراف کرکے اپنا پیٹ کیوں نارِ جہنم سے بھرتاہے۔ یہ سن کر میں کانپ اُٹھا اور بعد میں کھانے پینے کے معاملے میں نہایت کفایت شعاری سے کام لینے لگا۔
جب آپ کا وقت وصال آیا توآپ نے اپنے بیٹوں کو طلب کیا اور ان سے فرمایا: بچّو! میں جا رہا ہوں، میرے پاس کوئی دنیاوی مال و متاع نہیں کہ تم کو دے سکوں لیکن تمھارے لیے خیرکثیر چھوڑے جا رہا ہوں۔ تم جب کسی مسلمان یا ذمّی کے پاس سے گزرو گے، اپنے لیے عزت و احترام ہی پاؤگے۔ وہ تمھارا حق پہچانے گا کہ یہ اس خلیفۂ عادل کی اولاد ہے جس نے اپنی رعایا کو سب کچھ دیا مگر اپنی اولاد کو کچھ لینے نہیں دیا۔ اللہ تمھارا حامی و نگہبان ہو۔ اللہ تعالیٰ تمھیں رزق دے گا اور خوب دے گا۔
حضرت عبدالرحمن بن قاسم بن محمد ابی بکر فرماتے ہیں: جب حضرت عمر بن عبدالعزیز کا انتقال ہوا تو ان کے گیارہ وارث تھے اور ترکہ میں کل ۱۷ دینار تھے۔ پانچ دینار کفن پر خرچ ہوئے، دو دینار میں قبر کے لیے جگہ خریدی گئی، باقی اولاد پر تقسیم ہوئے تو ہر لڑکے کے حصے میں فی کس ۱۹ درہم آئے اور جب ہشام بن عبدالملک کا انتقال ہوا اور اس کا ترکہ اس کی اولاد میں تقسیم ہوا تو ایک ایک بیٹے کے حصے میں دس دس لاکھ دینار آئے۔ بعد میں، میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کی اولاد میں سے ایک نے جہاد کے لیے ایک دن میں ۱۰۰ گھوڑوں کا عطیہ دیا، جب کہ ہشام بن عبدالملک کی اولاد میں سے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ اس قدر تنگ دست ہوچکا تھا کہ لوگ اس بے چارے کو صدقہ و خیرات دیا کرتے تھے۔


Tuesday, March 5, 2013

ابابیلوں کا لشکر پاکستان ؟؟؟


ابابیلوں کا لشکر پاکستان ؟؟؟

*=*=*=*=*=*=*=*=*=*=*=*=**=*==*

میرا الله ہر فیصلے پر قادر ہے وہ فیصلے کرنے کا اختیار رکھتا ہے .اسے آنے والے حالات اور واقعات کا علم ہے وہ علم الغیب ہے .اور دشمنوں کی چالوں سے بخوبی واقف .جب سے انسان اس دنیا میں اترا ہے اس معاشرے کی اصلاح حفاظت کا ذمہ بھی الله نے لے رکھا ہے .کام وہی کرتا ہے مگر اپنے کام کی تکمیل کے لیے وہ اپنی مخلوقات ہی میں سے اپنے پسندیدہ برگزیدہ بندوں کو چنتا ہے جو اس کے مشن کو اس کی منشا کے مطابق مکمل کرتے ہیں .اور یہ سلسلہ نبیوں تک محدود نہیں الله ہر صدی اور دور میں مصیبت میں پھنسی انسانیت کو نکالنے اس کی تکلیفوں کو کم کرنے کے لیے کسی نہ کسی بندے کو قوم کو حتہ کے باقی پیدا کی ہوئی مخلوقات چرند پرند کو بھی چن لیتا ہے جو اس کے دشمنوں پر قہر بن کر ٹوٹتی ہیں .انہی مخلوقات میں ابابیلوں کا لشکر بھی شامل ہے .جو نا جانے کتنے برسوں سے آنے والے وقت میں مشن کی تکمیل کے لیے تیار ہوتی رہیں .جن پر الله کی جانب سے اپنے کام کے لیے انتخاب نظر ٹھرا .
بے شک کام الله ہی کرتا ہے حرم کی زمداری الله ہی نے لے رکھی ہے .مگر سبب کے لیے یوں ہی کسی نہ کسی مخلوق کو چن لیتا ہے .اس کی چال دشمن کے مقابلے میں ان سے بہتر ہے 
تاریخ سے ثابت ہے کہ ابرہہ نامی ایک عیسائی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش سے تقریباً دو ماہ پہلے خانہ کعبہ کو ڈھانے کے لیئے حملہ آور ہوا تھا لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ نے اُسکے مقابلے کے لیئے ابابلیوں (پرندوں) کی فوج بھیج دی جنہوں نے ابرہہ اور اُسکے لشکر پر سنگ باری کرکے اُسے رہتی دنیا کے لیئے نشان عبرت بنا دیا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ ابرہہ نے یمن کے دارالسلطنت صنعاءمیں ایک بہت شاندار اور عالی شان گرجا گھر بنا رکھا تھا اور چاہتا تھا کہ عرب کے لوگ خانہ کعبہ کی بجائے اُسکے گرجا گھر کو اپنی عبادت کا مرکز بنائیں۔ جب یہ ممکن نہ ہو سکا ابرہہ کو پتا چلا تو سخت برہم ہوا اور ساٹھ (60) ہزار کا لشکر جرار لے کر کعبہ کو ڈھانے کے لیے نکل کھڑا ہوا۔ اس نے اپنے لیے ایک زبردست ہاتھی بھی منتخب کیا۔ لشکر میں کل 9 یا 13 ہاتھی تھے۔ تو اس نے نعوذ باللہ خانہ کعبہ کو تباہ کرنے کی ٹھان لی اور ہاتھیوں کی فوج لے کر تکبر کا مظاہرہ کرنے لگا 
عبدل المطلب کو اطلاح ملی .لوگ پرشانی اور ناامید کا اظہار کرنے لگے کہ اب اس طاقتور ترین لشکر سے کوئی نہیں بچا سکے گا مگر عبدل مطلب مسکراے فرمایا وہی حفاظت کرے گا جس کا گھر ہے 
تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے پرندوں کے ہول در ہول بھیج دیئے جنہوں نے ایسی کنکریاں برسائیں کہ ابرہہ اپنے لشکر سمیت نیست و نابود ہو گیا۔یہاں تک کہ ابرہہ سمیت اس کی فوج کا ایک آدمی بھی زندہ نہ بچ سکا اور ہاتھیوں سمیت اِن کے جسموں کی بوٹیاں ٹکڑے ٹکڑے ہو کر زمین پر بکھر گئیں۔
یہ چڑیاں ابابیل اور قمری جیسی تھیں۔ ہر چڑیا کے پاس تین تین کنکریاں تھیں۔ ایک چونچ میں اور دو پنجوں میں۔ کنکریاں چنے جیسی تھیں مگر جس کسی کو لگ جاتی تھیں ، اس کے اعضاء کٹنا شروع ہو جاتے تھے اور وہ مر جاتا تھا۔
یہ کنکریاں ہر آدمی کو نہیں لگتی تھیں لیکن لشکر میں ایسی بھگدڑ مچی کہ ہر شخص دوسرے کو روندتا ، کچلتا گر پڑتا اور بھاگ جاتا۔ پھر بھاگنے والے ہر راہ پر گر رہے تھے اور ہر چشمے میں مر رہے تھے۔
ادھر ابرہہ پر اللہ تعالیٰ نے ایسی آفت بھیجی کہ اس کی انگلیوں کے پور جھڑ گئے اور صنعاء پہنچتے پہنچتے وہ چوزے جیسا ہو گیا ، پھر اس کا سینہ پھٹ گیا ، دل باہر نکل آیا اور وہ مر گیا۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ابرہہ نے خانہ کعبہ کو ڈھانے کا ناپاک ارادہ صرف مذہبی جنون میں ہی نہیں کیا تھا بلکہ اس کی پشت پر کھڑی اس وقت کی عیسائی دنیا کو بحر احمر کی بحری گزرگاہ پر مکمل تسلط درکار تھا کیوں کہ اس زمانے میں جس قوت کے ہاتھ میں بحری گزرگاہیں ہوتی تھیں وہی عالمی اقتصادیات کی حکمرانی کرتی تھی۔ 
صدیاں گزر گیں . اس واقعے کو پھر کسی کو جرت نہیں ہوئی .مگر الله کی آنے والے وقت پر بھی نظر ہے وہ جانتا ہے .شیطان کے پجاری کیا سوچ رکھتے ہیں .اور کون سی نئی چال چل کر اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کر رہے ہیں
قرآن اہلِ ایمان کو مخاطب کرتے ہوئے واضح کہتا ہے کہ یہود و نصاریٰ تمہارے دوست نہیں ہو سکتے بلکہ کھلے دشمن ہیں۔ اسلام چونکہ اس وقت دنیا میں تیزی سے پھیلتا ہوا مذہب بن چکا ہے اس لیئے یہود و نصاری اسے مٹانے کی ناپاک سازشوں میں مصروف ہیں۔ دُنیا کے مقدس ترین شہروں مکہ اور مدینہ پر حملوں اور خانہ کعبہ کو مٹانے کی سازش ابرہہ بھی کر چکا ہے اور آج بھی ہو رہی ہیں ۔ اسرائیل اس منصوبے پر عمل پیرا ہے کہ کسی طرح بحرِ احمر اُسکے ہاتھوں آ کر بحرِ یہودی یا بحرِ اسرائیل کہلائے چونکہ بحرِ احمر کے مشرقی کنارے پر اسلام کے دونوں مراکز مکہ اور مدینہ منورہ واقع ہیں اس لیئے یہود و نصاریٰ ایک بار پھر ابرہہ کی تاریخ دھرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔یہودی لابی ایک منظم سازش کے تحت حرمین شریفین کے گرد اپنے اڈے قائم کر چکی ہے اور اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لیئے مزید کوشاں ہے۔ جس کا مقصد گریٹر اسرائیل کی تیاری ہے .اور اس کے ساتھ امریکا ،انڈیا اس کا بازو بنے ہوے ہیں 
مجھے یہاں ہندو مذہبی انتہا پسندوں کے بیان یاد آ جاتا ہے جس میں وہ مشرکین مکہ سے اپنا دینی رشتہ جوڑتے ہوے اس بات کا عزم کرتے ہیں کہ کعبہ ان کا معاز الله بت کا گھر ہے .مکہ اور مدینہ ان کا ہے اور وہ مسلمانوں سے یہ مقامات چھین کر رہیں گے 
مگر میرا الله ان کی چالوں سے خوب واقف ہے .چنانچہ برسوں پہلے ہی ان کی چالوں کو سمجھتے ہوے الله نے آنے والے وقت کے رازوں سے اپنے پیارے نبی اکرم (ص) کو اگاہ فرما دیا .چنانچہ نبی اکرم ص نے ان دجالی چیلوں کی چالوں سے خبردار کرتے ہوے مشرق کی جانب رخ کر کے فرما دیا 
مجھے ہند سے ٹھنڈی ہوائیاں آ رہی ہیں .برسوں تک تاریخ اس بات کو ڈھونڈنے میں لگی رہی آخر ہند میں کون سا ایسا خطہ ہے جہاں سے سردار کائنات ص کو ٹھنڈی ہوا آئی
اس کا راز اس وقت کھلا جب ١٩٣٠ کے اندر ایک درویش صفت الله کے ولی نے الآباد کے مقام پر کھڑے ہو کر اپنے خطبے میں آنے والے وقت کی پیشن گوئی کرتے ہوے ایک اسلامی خطے کے قائم ہونے کی خوشخبری سناتے ہوے فرما دیا 
وحدت کی لے سنی تھی جس مقام سے 
میر عرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے 
میرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے 
آج ابرہہ نمرود ،فرعون ،کی ساری نسلیں یکجا ہو کر ایک دجالی نظام تشکیل دے چکی ہیں .اس دفعہ ان کا داؤ بھی ماضی کی نسبت بہت خطرناک ہے .چنانچہ نیو ورلڈ آرڈر کے حکم نامے جاری کیے جا رہے ہیں .جبکہ اس دنیا سے الله کے تشکیل کردہ مراکز کو تباہ کرنے کی سازش بھی عروج پر ہے.مگر میرا الله بہت خاموشی سے چپکے چپکے ابابیلوں کا ایک اور لشکر تشکیل دے رہا ہے .جس کی بنیاد ١٩٤٧ میں رکھی گئی .جس کو تباہ کرنے کے لیے دشمن نہ جانے کتنی جدوجہد میں مصروف ہے .کبھی سیکولرازم کے لبادے لپیٹ کر تو کبھی فرقہ وارانہ سرگرمیوں میں الجھا کر اس لشکر کو تباہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ..کبھی اس خطے کو دلخت کر کے مگر 
جوں جوں اس کو تباہ کرنے کی سازشیں عروج پر آتی ہیں .الله اس کو اور مظبوط سے مظبوط کرتا چلا جاتا ہے 
حتہ کہ امریکی تجزیہ نگار اس بات کی پیشن گوئی دینے پر مجبور ہو چکے ہیں کہ آیندہ ٧ سالوں تک پاکستان ان کے ہاتھوں سے نکل جائے گا .
اب تو حالت یہ ہے یہ ابابیلوں کا لشکر سعودی عرب کے اندر بھی اپنا اثر رسوخ قائم کر چکا ہے .مجھے اچھی طرح یاد ہے یہاں ایک پاکستانی سے ملاقات کے دوران ایک سعودی نے پاکستانی کا ہاتھ چومتے ہوے اس بات کا اظہار کیا تھا کہ پاکستان اس وقت اس مشکل کی گھڑی میں حرم کی حفاظت کے لیے ان کے ساتھ کھڑا ہے 
یہی نہیں ایک ٹیکسی ڈرائیور سے ملاقات کے دوران بھی اس بات کا انکشاف ہوا کہ یہاں پاکستان آرمی کا ہر سولجر سعودی آرمی کے لیے قابل احترام ہے .اور یہاں سعودی آرمی کا ہر افسر پاکستان آرمی سے تعلق رکھتا ہے حالانکہ ان عربوں کی قوم اپنے آپ پر بہت ناز کرتی ہیں 
مجھے یہاں نبی اکرم ص کی ایک احدیث یاد آتی ہے 
ابو ہریرہ بیان فرماتے ہیں حضور نے فرمایا کے جب بڑی بڑی لڑیاں ہوں گئیں تو الله عجمیوں سے ایک لشکر اٹھاےُ گا .جو عرب سے بڑھ کر شاہ سوار اور ان سے بہتر ہتھیار والے ہوں گے ...الله ان کے زریعے دین کی مدد فرماے گا.(سنن ابن ماجہ )
ایک اور جگہ فرمایا حضرت امم المومنین (حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا )روایت کرتی ہیں -کہ رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمایا - زمانہ قریب میں مکہ کے اندر ایک قوم پناہ گزین ہو گی جو شوکت و حشمت اور افرادی ہتھیار کی طاقت سے تہی دست ہو گی - اس سے جنگ کے لیے ایک لشکر چلے گا - یہاں تک کہ یہ لشکر جب ایک چٹیل میدان میں پہنچے گا تو اسی جگہ زمین میں دھنسا دیا جائے گا (صحیح مسلم )
تو وہ تکبر کا ایک لشکر افغاستان کے اندر دھنس رہا ہے تجزیہ نگار اس بات کا اظہار کر رہے ہیں کہ افغانستان ایک دلدل ہے 
مجھے ایک دن ایک دانہ شخص سے ملاقات کا اتفاق ہوا .خراسان کی احدیث کا ذکر چھڑا بولے خراسان کے کالے جھنڈے کے بارے میں جانتے ہو میں نے کہا ہاں وہ جن کے جھنڈے کالے ہوں گے .کہنے لگے نہیں .اس سے مراد وہ لوگ ہوں گے جو انتہائی خاموش سے کام کریں گے .دنیا کو بتاے بغیر دنیا ان کے اصل منصوبے جاننے کی کوشش کرے گی مگر جان نہ پاے گی .شور کرتے لوگوں کی باتوں سے اتنا خوف زدہ نہیں ہوں گے جتنی کے ان کی خاموشی سے 
شاہد اقبال نے اسی وقت کے لیے اور انہی پرسرار بندوں کے لیے فرمایا تھا
**************************** 
شور دریا سے یہ کہہ رہا ہے سمندر کا سکوت 
جس میں جتنا ظرف ہے اتنا ہی وہ خاموش ہے 
************************** 
دوستو ......اس وقت مشرق وسطیٰ کی کنجی پاکستان کے ہاتھ میں آ رہی ہے..جب پاکستان بن رہا تھا تو اس وقت بھی اسرائیل کے پہلے وزیراعظم کا پہلا بیان جو کہ آج بھی ریکارڈ پر ہے، یہ دیا کہ ”دنیا میں ہمارا کوئی دشمن نہیں سوائے پاکستان کے.
اب پاکستان اچھا ہے برا ہے....غریب ہے یا بدحال اس الله اور نبی کے قلعے اس ابابیلوں کے لشکر کی حفاظت کرو......اس وجہ سے کیوں کے یہ اس وقت اس دجال کے چیلوں کے گلے میں ہڈی بن کر پھنسا ہوا ہے نہ نگل سکتے ہیں نہ اگل ....پچھلے ١٢ سال سے ایٹم بمبوں کے پیچھے افغانستان کے اندر کتوں کی طرح ذلیل ہو رہے ہیں مگر کامیابی نہیں ملی .........اگر یہ پتھر بیچ میں سے نکل گیا تو اس کے بعد دشمن اپنے ناپاک عزائم کی خاطر ہر وہ خطرناک ہتھیار استمال کرے گا.جو اس نے جمع کر رکھے ہیں
اور آخر میں یہ بات پھر سے ذہن میں رکھنا دین کی حرم کی حفاظت الله نے ہی کرنی ہے مگر،مشن کی تکمیل کے لیے وہ یہ اعزاز اور سبب اسی طرح قوموں کو ابابیلوں کی طرح بناتا ہے 
**********************************

Thursday, February 28, 2013

سلطان صلاح الدین ایوبی


سلطان صلاح الدین ایوبی تاریخ اسلام بلکہ تاریخ عالم کے مشہور ترین فاتحین و حکمرانوں میں سے ایک ہیں ۔ وہ 1138ء میں موجودہ عراق کے شہر تکریت میں پیدا ہوئے۔ ان کی زیر قیادت ایوبی سلطنت نے مصر، شام، یمن، عراق، حجاز اور دیار باکر پر حکومت کی۔ صلاح الدین ایوبی کو بہادری، فیاضی، حسن خلق، سخاوت اور بردباری کے باعث نہ صرف مسلمان بلکہ عیسائی بھی عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ صلاح الدین کو فاتح بیت المقدس کہا جاتا ہے جنہوں نے 1187ء میں یورپ کی متحدہ افواج کو عبرتناک شکست دے کر بیت المقدس ان سے آزاد کروا لیا تھا۔
شروع میں وہ سلطان نور الدین زنگی کے یہاں ایک فوجی افسر تھے۔مصر فتح ہو جانے کے بعد صلاح الدین کو 1171میں مصر کا حاکم مقرر کردیا گیا۔ نور الدین زنگی کے انتقال کے بعد چونکہ اس کی کوئی لائق اولاد نہیں تھی اس لئے صلاح الدین 1174 ء میں حکمرانی پر فائز ہوۓ۔
مصر کے بعد صلاح الدین نے 1182ء تک شام، موصل، حلب وغیرہ فتح کرکے اپنی سلطنت میں شامل کر لیے۔ اس دوران صلیبی سردار رینالڈ کے ساتھ چار سالہ معاہدہ صلح ہو چکا تھا جس کی رو سے دونوں ایک دوسرے کی مدد کرنے کے پابند تھے لیکن یہ معاہدہ محض کاغذی اور رسمی تھا۔ صلیبی بدستور اپنی اشتعال انگیزیوں میں مصروف تھے اور مسلمانوں کے قافلوں کو برابر لوٹ رہے تھے-
حطین کی فتح کے بعد صلاح الدین نے بیت المقدس کی طرف رخ کیا ایک ہفتہ تک خونریز جنگ کے بعد عیسائیوں نے ہتھیار ڈال دیے ۔ بیت المقدس پورے 91 سال بعد دوبارہ مسلمانوں کے قبضہ میں آیا اور تمام فلسطین سے مسیحی حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔ پھر تقریباً 761 سال مسلسل مسلمانوں کا قبضہ رہا۔بیت المقدس کی فتح صلاح الدین ایوبی کا عظیم الشان کارنامہ تھا-
جب بیت المقدس پر قبضے کی خبر یورپ پہنچی تو سارے یورپ میں کہرام مچ گیا۔ ہر طرف لڑائی کی تیاریاں ہونے لگیں۔ جرمنی، اٹلی، فرانس اور انگلستان سے فوجوں پر فوجیں فلسطین روانہ ہونے لگیں۔ یورپ کی اس متحدہ فوج کی تعداد 6 لاکھ تھی عیسائیوں کا سلطان کے ساتھ گیارہ بار مقابلہ ہوا سب سے اہم معرکہ ارسوف کا تھا۔ سلطان نے جواں مردی اور بہادری کی درخشندہ مثالیں پیش کیں لیکن چونکہ کسی بھی مسلمان حکومت بالخصوص خلیفہ بغداد کی طرف سے کوئی مدد نہ پہنچی جب فتح کی کوئی امید باقی نہ رہی تو صلیبیوں نے صلح کی درخواست کی۔ فریقین میں معاہدہ صلح ہوا۔ جس کی رو سے تیسری صلیبی جنگ کا خاتمہ ہوا۔
اس صلیبی جنگ میں سوائے عکہ شہر کے عیسائیوں کو کچھ بھی حاصل نہ ہوا اور وہ ناکام واپس ہوئے۔ رچرڈ شیر دل ، سلطان کی فیاضی اور بہادری سے بہت متاثر ہوا جرمنی کا بادشاہ بھاگتے ہوئے دریا میں ڈوب کر مرگیا اور تقریباً چھ لاکھ عیسائی ان جنگوں میں*کام آئے۔
تیسری صلیبی جنگ میں سلطان صلاح الدین نے ثابت کردیا کہ وہ دنیا کا سب سے طاقتور ترین حکمران ہے ۔
1186ء میں عیسائیوں کے صلیبی سردار رینالڈ نے یہ جسارت کی کہ بہت سے دیگر عیسائی امرا کے ساتھ مدینہ منورہ پر حملہ کی غرض سے حجاز مقدس پر حملہ آور ہوا۔ صلاح الدین ایوبی نے ان کی سرگرمیوں کی روک تھام کے لیے اقدامات کیے اور فوراً رینالڈ کا تعاقب کرتے ہوئے حطین میں اسے جالیا۔ سلطان نے یہیں دشمن کے لشکر پر ایک ایسا آتش گیر مادہ ڈلوایا جس سے زمین پر آگ بھڑک اٹھی۔ چنانچہ 1187ء کو حطین کے مقام پر تاریخ کی خوف ناک ترین جنگ کا آغاز ہوا ۔ اس جنگ کے نتیجہ میں تیس ہزار عیسائی ہلاک ہوئے اور اتنے ہی قیدی بنا لیے گئے۔ رینالڈ گرفتار ہوا اور سلطان نے اپنے ہاتھ سے اس کا سر قلم کیا۔ اس جنگ کے بعد اسلامی افواج عیسائی علاقوں پر چھا گئیں۔ 4 مارچ 1193ء میں 56 سال کی عمر میں صلاح الدین انتقال کرگیا۔ اسے شام کے موجودہ دارالحکومت دمشق کی مشہور زمانہ اموی مسجد کے نواح میں سپرد خاک کیا گیا۔ صلاح الدین نے کل 20 سال حکومت کی۔ایک انگریز مورخ لین پول نے بھی سلطان کی بڑی تعریف کی ہے اور لکھتا ہے کہ اس نے عوام سے محبت اور ان کے معاملات میں دلچسپی لے کر ہردلعزیزی کی دولت کمائی“۔
اپنا خزانہ اس نے خلق خدا کی خدمت میں صرف کیا وفات کے بعد دیکھا گیا کہ اس کے ذاتی خزانے میں اپنی تجہیز و تدفین کے لئے بھی نا کافی رقم تھی-
.............

Saturday, February 23, 2013

ایک نصیحت نے دہلی کی درجنوں طوائفوں کی زندگی بدل دی۔سچا واقعہ




ایک نصیحت نے دہلی کی درجنوں طوائفوں کی زندگی بدل دی۔سچا واقعہ
د ھلی کی شا رع عا م مر د و ں عو رتو ں ، بچو ں بو ڑ ھو ں، آ جر و ں ا ور مز د ورو ں کی ر یل پیل ،بیل گا ڑ یو ں ا و ر تا نگو ں کی آ مد و ر فت سے ا س د ر یا کا منظر پیش کر ر ھی تھی جس میں ند یو ں ا و ر نہر و ں، چشمو ں ا ور آ بشا ر و ں کا پا نی ر و اں د واں ہو اور اس میں ر نگ بر نگی مچھلیا ں تیر رھی ھو ں- لو گ کنا رو ں پر کھٹر ے ھو کر ا س پر فر یب اور دلکش منظر سے لطف اند و ز ھو رھے ہو ں اور اپنی اپنی پسند کی مچھلیا ں پکڑ نے کے لیے کنڈ یا ں اور جال لگا ے بیٹھے ھوں۔ ا س پر ر و نق با زا ر ا ور و سیع شا ر ع عام کے د و نو ں طر ف کھلی ھو ئ دو کا نو ں سے حا کم اور محکو م، آ جر اور مز دور بچے اور بو ڑ ھے ا شیاء صرف، کپڑ ے،کتا بیں اور کا پیا ں غلے اور فروٹ خر ید رھے تھے
 کہ  دفعتا با زار میں سکو ت طا ری ھو گیا خر یدا رو ں اور دوکانداروں کی نگا ھیں بگھیو ں اور رتھو ں میں جلو ہ افر و زحسینا وں پر ٹک گیں- یہ حسینا ئیں جو بن سنور کر اپنے اپنے با لا خا نوں میں عیا ش ا میر زادوں داد عیش دے کر ان کی دولت دونیا پر ڈاکہ ڈالتی تھیں-آ ج وہ نہا دھو کر بھڑ کیلے ملبو سا ت زیب تن کر کے گلستا ن کے ان رنگا رنگ پھو لو ں کی طر ح نکھر ی ھو ئ دکھائ دیتی تھیں جنھیں شبنم کے قطروں نے دھو ڈالا ھو- جب لوگوں کی نگا ھیں ان کی زرق برق پو شا کو ں،عنبر یں بالو ں،سرمگیں آنکھو ں،گورے چٹے رخساروں،گلا بی ھونٹوں اور صاف شفاف دانتو ں پر پڑ یں تو وہ خریدوفروخت بھول گیے اور ان کی طرف دیکھتے رہ گیے لیکن آج ان حسیناوں کو بازار کے لوگوں سے کچھ ر غبت نہ تھی-وہ اپنی نا یکہ کے جشن پر اکٹھی ھو کر جا ری تھیں-آج رات انہوںنے پازیبیں پہن کر تھرک تھرک کر اپنے فن کا مظاھرہ کرنا تھا- چنانچہ یہ مسلم اور غیر مسلم نوجوانوں کو اپنی اداؤں سے گھایل کرتی ھوئ مدرسہ عز یزیہ کے دروازے سے گزر رھی تھیں

 کہ حضرت شاہ محمد اسما عیل (ر ح) کی نظر ان پر پڑ گئ- انھوں نے جب انھیں بے پردہ دیکھا تو سا تھیوں سے پوچھا یہ بے پردہ کون ھیں؟ سا تھیوں نے بتایا کہ حضرت یہ طوا ئفیں ہیں اورکسی ناچ رنگ کی محفل میں جا رہی ہیں- حضرت شاہ صاحب نے فرمایا''چلو یہ تو معلوم ھو گیا کہ طوا ئفیں ہیں لیکن یہ بتاؤ کہ یہ کس مذھب سے تعلق رکھتی ھیں؟ ساتھیوں نے جوا ب دیاجناب ھم کیا بتائیں کہ ان کا مذھب کیا ھے اگر یہ کسی مذھب سے تعلق رکھتی ھو تیں تو یوں بن سنور کر اور بے پردہ ھو کر باھر نہ نکلتیں- شا ہ صا حب نے فرمایا یہ تو نہیں ھو سکتا کہ ان کا کوئ مذھب نہ ھو بلکہ یہ کسی نہ کسی مذھب کی طرف منسو ب تو ضرور ھوںگی خواہ نام کے اعتبار سے ہی سہی-تو ا نہو ں نے بتا یا کہ جناب یہ مذھب اسلام ہی کو بدنام کرنے والی ہیں اور بد قسمتی یہ ھے کہ یہ آ پنے آپ کو مسلما ن کہتی ہیں- شاہ صا حب نے جب یہ بات سنی تو فرمایا: مان لیا کہ بد عمل اور بد کردا ر ہی سہی لیکن کلمہ گو ہونے کے اعتبار سے ہو ئ تو ھم مسلما نو ں کی بہنیں ہی-لہذا ہمیں انھیں نصیحت کرنی چا ہیے ممکن ہے کہ گناہ سے باز آ جا ئیں،ساتھیو ں نے کہا ان پر نصیحت کیا خاک ا ثر کرے گی؟بلکہ ان کو نصیحت کر نے والا تو الٹا خود بدنا م ھو جاے گا- شاہ صا حب''تو پھر کیا میں تو یہ فریضہ ادا کر کے رھوں گا خواہ کچھ بھی ہو جاے- ساتھیوں نے عر ض کی حضرت آپ کا ان کے پاس جانا قرین مصلحت نھی ھے آپ کو پتہ ھے کہ شہر کے چاروں طرف آپ کے مذ ہبی مخالفین ھیں جو آپ کو بد نام کرنے کا کوئ موقعہ نہیں چھو ڑتے آپ نے فرما یا مجھے ذرہ بھر پر واہ نھی،میں انھیں ضرور نصیحت کرنے جاوں گا-

 آپ تبلیغ حق وا صلا ح کا عزم صادق لے کر گھر میں تشریف لاے-درویشانہ لباس زیب تن کیا اور تن تنھا نایکہ کی حویلی کے دروازے پر پہنچ گے اور صدا لگائ اللہ والیو دروازہ کھولو اور فقیر بابا کی صدا سنو- آپ کی آواز سن کر چند چھوکریاں آئیں-انھوں نے دروازہ کھولا تو دیکھا باھر درویش صورت بزرگ کھٹرا ھے-انھوں نے سمجھا کہ یہ کوئ گدا گر فقیر ھے جو تما شا کر کے خیرات لینا چاھتا ھے- چھو کریوں نے چند روپے لاکر اسے دیے-لیکن اس نے اندر جانے کا ا صرار کیا اور پھر اندر چلے گیے-کیا دیکھا چاروں طرف شمعیں اور قند یلین روشن ھیں۔شہر بھر کی طوا ئفیں،طبلے اور ڈوھولک کی تھاپ پر تھرک رہی ھیں۔ان کی پازیبوں اور گھنگھروں کی جھنکا ر نے عجیب سماں باندھ رکھا ھے ان پر اس قدر محو یت طاری تھی کہ انھوں نے فقیر بے نوا،مرد قلندر کی پروا نہ کی اور اپنے شغل میں مصروف رہیں-جو نہی ان کی نائیکہ کی نگاہ اس فقیر بے نوا پر پٹری اس پر ہیبت طاری ھو گئ-وہ جا نتی تھی کہ اس کے سامنے فقیرانہ لباس میں گداگر نھی بلکہ شا ہ اسما عیل کھٹرا ھے جو حضرت شا ہ ولی اللہ کا پوتا اور شا ہ عبد ا لعز یز ،شا ہ رفیع الدین اور شا ہ عبدالقادر کا بھتیجا ھے-یہ جرات مند اور غیور انسان اور کجکلا ھوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے والا جسور ھے یہ اتنا نڈر اور بے باک شخص ھے کہ تلوار حما ئل کر کے تن تنھا متعصب رافضیو ں کے جلسہ عام میں خلفا ے ثلا ثہ کی شان بیان کر چکا ھے-شاہ دہلئ اکبر شاہ ثانی کے دربار میں بدعات پر ظرب کاری لگا چکا ھے۔اس کی کھال میں خدا کے سوا کسی کا خوف نھی اور نیکو کار بھی اتنا کہ سفر و حضر میں نماز تہجد قضا نھی ھونے دیتا،بے لوث اتنا کہ دین مصطفٰی کی سر بلندی کی خاطر اپنے سے چھوٹے شخص کے ھا تھ پر بیعت کر کے تحریک جھاد کی قیادت کرنے کا خواھاں ھے ۔ ان کی شخصیت اس قدر پُر رعب تھی کی نا ئیکہ نے لباس کی تبد یلی کے باو جود انھیں پہچا ن لیا۔اپنی نشست سے اٹھی اور احترام کے ساتھ ان کے سامنے جا کھٹری ھو ئ بڑے ادب سے عرض کی حضرت آپ نے ہم سیاہ کاروں کے پاس آنے کی زحمت کیوں کی آپ نے پیغام بھیج دیا ھوتا تو ھم آپ کی خدمت میں حا ضر ھو جاتیں-

 آپ نے فرمایا: ''بڑی بی تم نے ساری زندگی لوگوں کو راگ و سرور سنایاھے۔آج زرا کچھ دیر ھم فقیروں کی صدا بھی سن لو''- جی سنایئے ھم مکمل توجہ کے ساتھ آپ کا بیان سنیں گی- یہ کھہ کر اس نے تمام طوائفوں کو پا زیبیں اتارنے اور طبلے ڈھولکیاں بند کر کے وعظ سننے کا حکم دے دیا-وہ ہمہ تن گوش ھو کر بیٹھ گئیں- شاہ اسما عیل (رحمہ اللہ) نے حمائل شریف نکال کر سورة التين تلاوت فر مائ آپ کی تلاوت اس قدر آفریں اور پر سوز تھی کہ طوائفوں کے ہو ش ٹھکانے آگئے اور وہ بے خود ھو گئیں-اس کے بعدآپ نے آیات مبارکہ کا دلنشین رواںدواں ترجمہ کرکے خطاب شروع کر دیا- ان کا یہ خطاب زبان کا کانوں سے خطاب نہ تھا بلکہ یہ دل کادلوں سے اور روح کا روحوں سے خطاب تھا یہ خطاب دراصل اس الہام ربانی کا کرشمہ تھا جو شا ہ صا حب جیسے مخلص دردمندوں اور امت مسلمہ کے حقیقی خیر خواھوں کے دلوں پر اترتا ھے-قلم و قرطاس میں یہ سکت نھی کہ روحانی خطاب کو الفاظ کا جامہ پہنا سکیں-البتہ عالم تصور اس کی اتنی نشان دہی کر سکتا ھے کہ آپ نے قرآن پاک کی آیات مبارکہ سے کا ئنا ت پر انسان کی برتری اور بزرگی اس انداز سے بیان کی کہ انسانی مخلوق اپنے آپ کو ملائکہ مقربین سے 
افضل خیال کرنے لگی-قرآن کریم میں انسان کی بزرگی اور افضلیت یوں بیان کی گئ ھے-

سورة الإسراء70 وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَىٰ كَثِيرٍ مِّمَّنْ 
خَلَقْنَا تَفْضِيلًا

اور ہم نے آدم کی اولاد کو عزت دی ہے اور خشکی اور دریا میں اسے سوار کیا اور ہم نے انہیں ستھری چیزو ں سے رزق دیا اور اپنی بہت سی مخلوقات پر انہیں فضیلت عطا کی کہ باقی مخلوق ھاتھوں اور پاوں پر جھک کر چلتی ھے منہ سے چرتی چگتی کھاتی پیتی اور عقلوخرد سے عاری ھے جبکہ انسان اپنے پاؤں پر سیدھا چلتا ھاتھ سے کھاتا پیتا خشکی میں زمینی سواریوں پر سفر کر تا ھے دریاؤں اور سمندروں میں کشتیوں پر بیٹھ کر سمندر سے تازہ اور لزیذ گوشت حاصل کرتاھے اس سے گراں قدر موتی اور ھیرے نکالتا ھے اور ملائکہ کرام باوجود (ِعبَادّمُکُرَمُون)ھونے کےٹھنڈےاور شیریں مشروبات،لزیذ ماکولات،نرموگرم ملبوسات پھلوں کی لزتون اورپھولون کی رنگتوں سے محروم ھیں یہ انسان ھی ھے جسے اللہ نے احسن تقویم کا شا ہکار بنایا اور اسے ایسی شکل و صورت عطاکی ھے کہ چاند سورج سے اسےتشبیہ دینا ایسے ھی ھے جیسے سورج کو چراغ دکھانا-اللہ کریم نے اسے اپنے ہاتھ سے تخلیق کر کے مسجود ملائکہ بنایا- اسے دنیا اور آخرت کی نعمتوں کا وارث بنایا- فرشتوں نے عرض کی تھی اے اللہ عبادت ہم بھی کرتے ھیں اور انسانوں سے زیادہ کرتے ھیں مگر وہ ھر طرح کی لزتوں سے دنیا میں لطف اندوز ھیں جبکہ ھم بیویوں کی چاھت،بچوں کی محبت پھلوں کی مٹھاس اور پھلوں کی خوشبو سے محروم ھیں-اے اللہ! ھم تیری تقدیر پر راضی ھیں- البتہ ھمیں آخرت میں ان نعمتوں سے بہرور فم دینا-لیکن اللہ نے فرمایا یہ کیسے ھو سکتا کہ میں اس مخلوق کو جسے کُن کہہ کر پیدا فرمایا ھے اُس مخلوق کے برابر کردوں جسے میں نے اپنے ہا تھ سے بنایا ھے-شیطان لعین نے اس کی بزرگی پر حسد کیا اسے زچ کرنے 
کی ٹھانی اور دو ٹوک انداذ میں چیلنج دیا:

سورة الأعراف 16،17 قَالَ فَبِمَا أَغْوَيْتَنِي لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِيمَ ثُمَّ لَآتِيَنَّهُم مِّن بَيْنِ أَيْدِيهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ أَيْمَانِهِمْ وَعَن شَمَائِلِهِمْ ۖ وَلَا تَجِدُ أَكْثَرَهُمْ شَاكِرِينَ کہا جیسا تو نے مجھے گمراہ کیا ہے میں بھی ضرور ان کی تاک میں تیری سیدھی راہ پر بیٹھوں گا پھر ان کے پاس ان کے آگے ان کے پیچھے ان کے دائیں اور ان کے بائیں سےآؤں گا اور تو اکثر کو ان میں سے شکر گزار نہیں پائے گا اور اس ملعون نے چیلنج دیا تھا-
سورة النساء119 وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُبَتِّكُنَّ آذَانَ الْأَنْعَامِ وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللَّهِ ۚ وَمَن يَتَّخِذِ الشَّيْطَانَ وَلِيًّا مِّن دُونِ اللَّهِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مُّبِينًا

اور البتہ انہیں ضرور گمراہ کروں گا اور البتہ ضرور انہیں امیدیں دلاؤں گا اور البتہ ضرور انہیں حکم کروں گا کہ جانوروں کے کان چریں اور البتہ ضرور انہیں حکم دوں گا کہ جانورں کے کان چیریں اور البتہ ضرور انہیں حکم دوں گاکہ الله کی بنائی ہوئی صورتیں بدلیں اور جو شخص الله کو چھوڑ کر شیطان کو دوست بنائے گا وہ صریح نقصان میں جا پڑا اور اس خبیث نے واقعی اپنے دعوے کو عملی جامہ پہنا دیا-
سورة سبأ 20 وَلَقَدْ صَدَّقَ عَلَيْهِمْ إِبْلِيسُ ظَنَّهُ فَاتَّبَعُوهُ إِلَّا فَرِيقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ

اور البتہ شیطان نے ان پر اپنا گمان سچ کر دکھایا سوائے ایمان داروں کے ایک گروہ کے سب اس کے تابع ہو گئے چنانچہ بنوآدم اپنے باپ کی راہ کو چھو ڑ کر اس کے دشمن کے تابعدار بن گے آستانوں اور درگاہوں میں مدفون ہستیوں کی نذرونیاز دینے کے لیے جانوروں کے کان چیرنے،مصنو عی حسن کے لیے پیشا نیوں کے بال اکھاڑنے اور سرجری کروانے لگے-انھیں خدا سے اسقدر غافل کر دیا کہ فحاشی اور بے حیائ کے جوہٹر میں اوند ھے منہ گرنے لگے اور اس کے جال میں پھنس کر اپنی بزرگی اور شرافت کھو بیٹھے-نتیجتًا عفت و عصمت کی وہ دیویاں جنھیں جائز نکاح کی بدولت ان کے شوہروں نے سچے موتیوں کی طرح حفاظت میں رکھنا تھا اور ان کی اولاد نے ان کے پاؤں دھو دھو کر پینے تھے وہ کنواری مائیں بننے لگیں-اپنے نومولودوںکو کھیتوں اورگٹروں میں پھینکنے لگیں اور جوانی کے چار دن عیش سے گزارنے کے بعد معاشرے کا قابل نفرت حصہ بننے لگیں ان کی جوانی کی بہار یں لوٹنے والے انھیں ٹھوکریں مارنے لگے اور وہ بڑھاپے میں اپنی کسمپری،بے توقیری اور عصمت واحترام کی بربادی پر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں-مگر ''اب پچھتاے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گیں کھیت'' اگلا مرحلہ موت کا ھے شب د یجور جیسے سیاہ بال اب سفید ھو چکے موتیوں جیسے دانت ایک ایک کر کے جھڑچکے چہر ے پر جھریاں پڑ چکیں اور گوریوں کا چمڑا لٹکنے لگا-بلوریں آنکھوں سے بینائ ختم ھو چکی دوبارہ جوان ھونے کی امید نہ رھی کو ٹھیوں سے منتقل ھو کر قبر کی گھپ اندھیر کو ٹھڑ ی میں تن تنہا ھونے کا وقت قریب آ گیا-جوانی میں عفت مآب اور تہجد گزار ھو تیں تو یقیناً ان کی جائز اولاد بڑھاپے میں انھیں ہتھلییوں پر اٹھاتی لکین شیطان ملون نے انھیں کہیں کا نہ چھوڑا- نہ دنیا کا نہ آخرت کا-اب موت کے فر شتوں کی آمد آمد ھے حسن کی دیو یاں انھیں دیکھ کر کہتی ھیں:-

سورة المنافقون 10 رَبِّ لَوْلَا أَخَّرْتَنِي إِلَىٰ أَجَلٍ قَرِيبٍ فَأَصَّدَّقَ وَأَكُن مِّنَ الصَّالِحِينَ

اے میرے رب تو نے مجھے تھوڑی مدت کے لیے ڈھیل کیوں نہ دی کہ میں خیرات کرتا اور نیک لوگو ں میں ہو جاتا'' لیکن یہ روحیں پہلے کیا کرتی رہیں جواب مہلت مانگ رہی ھیں اور مہلت مل بھی جاے تو پھر اسے ایسے بھلا دیں گی جیسے اس سے قبل بیما ری کی حالت میں موت کا منہ دیکھ کر توبہ و استغفار کرتیں صحت آنے پر بھول جاتیں اور از سر نو حرام کھانا شروع کر دیتی تھیں- اس کا اب مہلت کا وقت ختم ھے قبر میں اترنے کی تیا ری کرو-

سورة ق 19 وَجَاءَتْ سَكْرَةُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّ ۖ ذَٰلِكَ مَا كُنتَ مِنْهُ تَحِيدُ

اور موت کی بے ہوشی تو ضرور آ کر رہے گی یہی ہے وہ جس سے تو گریز کرتا تھا

سورة الأنعام 93 وَلَوْ تَرَىٰ إِذِ الظَّالِمُونَ فِي غَمَرَاتِ الْمَوْتِ وَالْمَلَائِكَةُ بَاسِطُو أَيْدِيهِمْ أَخْرِجُوا أَنفُسَكُمُ ۖ الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ بِمَا كُنتُمْ تَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ غَيْرَ الْحَقِّ وَكُنتُمْ عَنْ آيَاتِهِ تَسْتَكْبِرُونَ

اور اگر تو دیکھے جس وقت ظالم موت کی سختیوں میں ہوں گے اور فرشتے اپنے ہاتھ بڑھانے والےہوں گے کہ اپنی جانوں کو نکالو آج تمہیں ذلت کا عذاب ملے گا اس سبب سے کہ تم الله پر جھوٹی باتیں کہتے تھے اور اس کی آیتوں کے ماننے سے تکبر کرتے تھے ان فر شتوں کی ہولناک دہشت کی وجہ سے مجرموں کے روحیں ان کے جسموں کے کونوں میں چھپنے لگتی ھیں اور انھیں مار مار کر نکالتے اور اس طرح نکالتے جس طرح باریک دوپٹے کو کانٹے دار بیری کی شاخ سے کھینچا چاتا ھے اور اس کشمکش میں اس کی جان نرخرے میں اٹک جاتی ھے-

سورة القيامة 26،27 كَلَّا إِذَا بَلَغَتِ التَّرَاقِيَ وَقِيلَ مَنْ ۜ رَاقٍ

نہیں نہیں جب کہ جان گلے تک پہنچ جائے گی اورلوگ کہیں گے کوئی جھاڑنے والے کو بلاو-'' بالآخر سب عزیزواقارب کی موجودگی میں اس کی روح کھینچ لی جاتی ھے اور اسے بدبودار ٹاٹ میں لپیٹ کر آسمانوں کی طرف لے جایا جاتا ھے اور جہاں سے گزاری جاتی ھے سب آسما نو ں والے اس کا اوراس کے باپ کا نام پوچھتے ھیں جب بتا یا جاتا ھے تو اسے برے لفظوں سے یاد کرتے ھیں اور یس کے لیے آسمانوں کے دروازے نھی کھلولے جاتے-

سورة الأعراف 40 إِنَّ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَاسْتَكْبَرُوا عَنْهَا لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَلَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّىٰ يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ ۚ وَكَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُجْرِمِينَ ''

بے شک جنہوں نے ہماری آیتو ں کو جھٹلایا اوران کے مقابلہ میں تکبر کیا ان کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے اورنہ وہ جنت میں داخل ہوں گے یہاں تک کہ اونٹ سوئی کے ناکے میں گھس جائے اور ہم گناہگاروں کو اسی طرح سزا دیتے ہیں،، عزیزواقارب اس جوان یا بوڑھے مردوں عورتوں کے سوٹ قینچی سے کاٹ کر ان کے ہاتھ سے قمیتی گھڑ یاں جیب سے روپے کانوں سے سونے کی بالیاں اور گلے سے قمیتی ہار اتار کر اسے نہلاتے کفناتے اور دفناتے ھیں- یس کے بعد اس کی روح بدن میں لوٹا دی جاتی ھے منکر نکیر ہیبت ناک صورت اور بجلی کی طرح کڑکتی آواز میں ( مَن رَبُّکَ،مَا دِینُکَ وَ مَن نَبِیُّکَ))کے جواب پوچھنے آ دھمکتے ھیں- مجرموں کے جواب نہ دینے پر انھیں ایک گرز سے مارتے ھیں کہ ان کا بدن ریزہ ریزہ ھو کر پھر اصل صورت پر آجاتا ھے وہ انھیں کہتے ھیں کہ اگر تو نے قرآن پڑھا ھوتا یا سنا ھوتا تو تجھے پتہ چل جاتا کہ تمھارا رب کون،تمھارا دین کیا ھےاور تمھارا نبی کون تھا-چنانچہ مسلسل سزا دینے کے لیے دوزخ کی طرف اس کی قبر میں سوراخ کر کے اسے لٹا دیا جاتا ھے- پھر جب حشر روز اسرافیل علیہ السلام قرناء میں پھونک دیں گے تو زمین میں زلزلہ برپا ھو جاے گا-پہاڑ آپس میں ٹکرا دیے جائیں گے اور روئ کے گالوں کی طرح اڑتے پھریں گے آسمان تلچھٹ کی طرح ھو جاے گا ستارے بے نور ھو جائیں گے اللہ فرماتے ھیں:

سورة الحاقة 13 تا 16 فَإِذَا نُفِخَ فِي الصُّورِ نَفْخَةٌ وَاحِدَةٌ وَحُمِلَتِ الْأَرْضُ وَالْجِبَالُ فَدُكَّتَا دَكَّةً وَاحِدَةً فَيَوْمَئِذٍ وَقَعَتِ الْوَاقِعَةُ وَانشَقَّتِ السَّمَاءُ فَهِيَ يَوْمَئِذٍ وَاهِيَةٌ

پھر جب صور میں پھونکا جائے گا ایک بار پھونکا جانا اور زمین اور پہاڑ اٹھائے جائیں گے پس وہ دونوں ریزہ ریزہ کر دیئے جائیں گے پس اس دن قیامت ہو گی اور آسمان پھٹ جائے گا اوروہ اس دن کمزور ہوگا'' اس روز صور کی ہولناک آواز کی دہشت سے دودھ پلاتی مائیں اپنے شیر خوار بچوں کو پٹخ کر بھاگ کھڑی ھوں گی-حاملہ عورتوں کے حمل گر جائیں گےاور دودھ دوہنے والےگوالے برتن پھینک دیں گے کپڑا لپیٹنے والے تھان پھینک کر ھاے واے کرتے ھوے جنگلوں کی طرف بھاگنا شروع کر دیں گے- افراتفری کا عالم ھو گا اور لوگ مدہوشوں کی طرح بے سدھ پھر رھے ھوں گے حالانکہ وہ نشے کی وجہ سے نھی بلکہ اللہ کے سخت عذاب کی دہشت کی وجہ سے ان کی عقلیں ماؤف کر دی ھوں گی- آہ اس روز کیا حال ھو گا جب ھر آدمی اپنے سگے کی صورت دیکھ کر بھاگ جاے گا اپنے ماں باپ سے بیگانہ ھو جاے گااور اپنے بیوی بچوں سے چھپتاپھرے گا خواہش کرے گا کہ کاش آج اللہ میرے بدلے میری ماں اور باپ،بیوی اور بچوں بھنوں اور بھائیوں کو دوزخ میں ڈال دے اور مجھے چھوڑ دے- آہ اس روز کیا بنے گا جب مجرموں کو گردنوں میں طوق،ھاتھوں میں ہتھکڑ یاں پاؤں میں زنجیریں ڈال کر اور گندھک کے لباس پہنا کر اللہ کی عدالت میں پیش کیا جاے گا-

سورة إبراهيم 49 تا 51 وَتَرَى الْمُجْرِمِينَ يَوْمَئِذٍ مُّقَرَّنِينَ فِي الْأَصْفَادِ سَرَابِيلُهُم مِّن قَطِرَانٍ وَتَغْشَىٰ وُجُوهَهُمُ النَّارُ لِيَجْزِيَ اللَّهُ كُلَّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ ۚ إِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ ''

اورتو اس دن گناہگاروں کو زنجیروں میں جکڑے ہوئے دیکھے گا کرتےان کے گندھک کے ہوں گے اوران کے چہرو ں پر آگ لپٹی ہو گی تاکہ الله ہر شخص کو اس کے کیے کی سزا دے بے شک الله بڑی جلدی حساب لینے والا ہے'' آہ اس روز ریاء کار حافظوں،عالموں،مجاھدوں،جان بازوں،سخیوں،اور فیاضوں کو کس طرح جکڑ کر جہنم میں پھینک دیا جاے گا؟ ظالم حاجیؤں اور نمازیوں سے ان کی نیکیوں چھین کر مظلوموں کو دے دی جائیں گی- آہ جس روز زانیوں اور بدکاروں کی اور ان کی کرتوتوں کی فائلیں کھول کر ان کے سامنے رکھ دی جائیں گی اور انھیں کہا جاے گا:

سورة الإسراء 14 اقْرَأْ كِتَابَكَ كَفَىٰ بِنَفْسِكَ الْيَوْمَ عَلَيْكَ حَسِيبًا ''

اپنا نامہ اعمال پڑھ لے آج اپنا حساب لینے کے لیے تو ہی کافی ہے'' آہ اس روز بدکار اور زاینہ عورتوں کا کیا بنے گا جب وہ بیڑ یوں اور زنجیروں میں جکڑی ھوئ دربار الٰہی میں پیش کی جائیں گی اور ایک ایک زانیہ کے پیچھے ستر(70)ستر(70) زانی مرد لعنت کے طوق پہنے کھڑے ھونگے- اسی دوران جہنم سے ایک گردن نکلے گی اور ین مجرموں کو دیکھ کر یوں جھر جھری لے گی جیسے بھوکے خچر جَو پر ٹوٹ پڑنے کی کوشش کرتے ھیں-وہ مجرموں کو میدان محشر سے یوں چُگ لے گی جس طرح دانے چگتا ھے جب طوا ئفو ں نے شاہ اسما عیل دہلوی رحمتہ اللہ کے اس مفہوم والے بیان کو سنا تو ان پر لرزہ طاری ھو گیا-روتے روتے اُن کی ہچکیاں بندھ گئیں-انھیں یقین آ گیا جس طرح عالم ازل سے رحم مادر میں آنا برحق ٹھرا اور رحم مادر سے دنیا میں آنا برحق ثابت ھوا اس طرح دنیا سے قبر میں جانا بھی برحق ھے وہاں سے اللہ کے دربار میں پیش ھونا بھی برحق ھے- یہ حقائق کسی کے نہ ماننے سے جھٹلاے نہیں جا سکتے ان حقیقتوں پر ایمان نہ رکھنے والے بھی اسی عمل سے ماں کے پیٹ میں آے جس طرح ایمان والے آے اور اسی طرح پیدا ھوے جس طرح اہل ایمان پیدا ھوتے ھیں اسی طرح مریں گے جس طرح اہل ایمان مرتے ھیں اور بالآخر قبروں سے اٹھ کر اسی جگہ پیشں ھوں گے جہاں اہل ایمان پیش ھوں گے- خواہ کوئ اس حقیقت پر ایمان رکھے یا نہ رکھے ھر حال ایسا ھونا ضرور ھے- شاہ ولی اللہ نے جب ان کی آنکھوں میں آنسوؤں کی جھڑیاں دیکھیں تو انہوں نے اپنا وعظ کا رخ توبہ کی طرف موڑ دیا اور بتایا کہ جو کوئ گناہ کر بیٹھے تو اللہ سے اس کی معافی مانگ لے تو اللہ بڑا رحیم ھے وہ معاف بھی کر دیتا ھے بلکہ اسے تو اپنے گنہگار اور سیاہ کار بندوں کی توبہ سے اتنی خوشی ھوتی ھے جس طرح کوئ مسافر اپنی اونٹنی پر سوار سینکڑوں میل لمبے ریگستان میں سفر شروع کر دے-جب درمیان میں پہنچے تو زرا سستانے کی غرض درخت کے نیچے سو جاے اور جب اسے جاگ آے تو اونٹنی کو وہاں موجود نہ پا کر چکرا جاے۔ادھر اُدھر کر کے تھک ہار کر اپنے آپ کو موت کے منہ میں دیکھ کر مایوس ھو کر لیٹ جاے کہ جھلستے ھوے ریگستان میں سڑ سڑ کر مرنے سے درخت کے نیچے مرنا ھی بھتر ھے اسے اس حال میں نیند آ جاے پھر وہ جاگے اور مع سامان خوردنوش کے اپنی اونٹنی کو موجود پاے تو وہ خوشی کی فروانی کی وجہ سے یہ کہہ بیٹھے واہ میرے اللہ ! میں تیرا رب اور تو میرا بندہ ھے-' چنانچہ جس طرح اس بندے کو موت کے منہ سے نکل کر خوشی ھوتی ھے اس طرح اللہ کو اس بندے سےبھی کہیں زیادہ خوشی اس مرد یا عورت سے ہوتی ھے جو گناہوں سے سچی توبہ کر لے اس کا فرمان ھے:

سورة الزمر 53 قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا ۚ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ ''

(اے میرے پیارے نبی) میری طرف سے لوگوں کو کہہ د یجیے (اللہ فرما رھا ھے) اے میرے بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے الله کی رحمت سے مایوس نہ ہو بے شک الله سب گناہ بخش دے گا بے شک وہ بخشنے والا رحم والا ہے '' وہ ھر توبہ کرنے والے کی توبہ قبول فرماتا ھے اور اس کے گناہ معاف کر دیتا ھے بلکہ اگر کوئ خطا کار سچی توبہ کر کے آئندہ اس طرح کے گناہوں سے تا حیات بچا رھے اور نیک اعمال پر عمل پیرا ھو جاے تو وہ اسکی خطاؤں کو نیکیوں میں بدل دیتا ھے:

سورة الفرقان 70 إِلَّا مَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُولَـٰئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا ''

مگر جس نے توبہ کی اور ایمان لایا اور نیک کام کیے سو انہیں الله برائیوں کی جگہ بھلائیاں بدل دے گا اور الله بخشنے والا مہربان ہے'' اس طرح حدیث پاک میں آتا ھے: ''گناہ سے توبہ کرنے والا یوں پاک اور صاف ھو جاتا ھے گویا اس نے گناہ کیا ہی نھی'' الغرض آپ نے توبہ کے اتنے فضائل بیان کیے کہ ان کی سسکیاں بند ھو گئیں- آنکھوں کے آنسو تھم گے اور وہ اپنے دوپٹوں سے اپنے رخسار پونچھنے لگیں-کسی زریعے شہر والوں کو اس وعظ کی خبر ھو گئ-وہ دوڑے دوڑے آے اور مکانوں کی چھتوں دیواروں چوکوں اور گلیوں میں کھڑے ھو کر وعظ سننے لگےتاحدِنگاہ لوگوں کے سر ھی سر نظر آنے لگے-اس کے بعد شاہ صاحب نے عفت مآب زندگی کی برکات اور نکاح کی فضیلت بیان کرنی شروع کر دی اور اس موضوع کو اس قدر خوش اسلوبی سے بیان کیا کہ تما م طوائفیں گناہ کی زندگی پر کف افسوس کرنے لگیں- حضرت شاہ اسماعیل کے اس وعظ نے برائی کے اس طوفان کے آگے بند باندھ دیا اور غلط راہ پر چلنے والیوں کو صراط مستقیم پر گامزن کر دیا-آپ نے انھیں اٹھ کروضوء کرنے اور دو رکت نوافل ادا کرنے کی ھدایت کی جب وہ وضو کر کے قبلہ رخ کھڑی ھوئیں اور نماز کے دوران سجدوں میں گریں تو 

شاہ شہید رحمہ اللہ نے ایک طرف کھڑے ھو کر اللہ کے سامنے ہاتھ پھیلا دیے اور عرض کی: ''اے مقلب القلوب! اے مصرف الاحوال! میں تیرے حکم کی تعمیل میں اتنا کچھ ھی کر سکتا تھا یہ سجدوں میں پڑی ھیں تو نے ان کے دلوں کو پاک کر دے گناہوں کو معاف کردے اور انھیں آبرومند بنا دے تو تیرے آگے کچھ مشکل نھی-ورنہ تجھ پر کسی کا زور نھیں-میری فریاد تو یہ ھے کہ انھیں ہدا یت عطا فرما انھیں نیک بندیؤں میں شامل فرما'' 
- ادھر سید اسماعیل رحمہ اللہ کی دعا ختم ھوئی اور ادھر ان کی نماز-وہ اس حال میں اٹھیں کہ دل پاک ھو چکے تھے اور وہ جائز نکاح پر راضی ھو چکی تھیں چنانچہ ان میں سے جوان عورتوں نے نکاح کرا لیے اور ادھیڑ والیوں نے گھروں میں بیٹھ کر محنت مزدوری سے گزارا شروع کر دیا- کہتے ھیں کہ ان میں سے سب سے زیادہ خوبصورت موتی نامی خاتون کو جب اس کے سابقہ جاننے والوں نے شر یفانہ حالت اور سادہ لباس میں مجاہدین کے گھوڑوں کے لیے ہاتھ والی چکی پر دال پیستے دیکھا تو پوچھا ''سنا وہ زندگی بہتر تھی جس میں تو ر یشم و حریر کے ملبو سات میں شاندار لگتی اور تجھ پر سیم وزرنچھاور ھوتے تھے یا یہ زندگی بہتر ھے جس میں تیرے ہاتھوں پر چھالے پڑے ھوے ھیں؟ کہنے لگی اللہ کی قسم! مجھے گناہ کی زندگی میں کبھی اتنا لطف نہ آیا جتنا فرسانِ مجاھدین کے لیے چکی پر دال دلتے وقت ہاتھوں میں ابھرنے والے چھالوں میں کانٹے چبھو کر پانی نکالنے سے آتا ھے- اللہ اکبر یہ ھے حلاوت ایمان اور یہ ھے پر لطف زندگی- اس قصے کا اصل تزکرہ الشہید میں ھے اوراس واقعہ کو کتاب ''اسلامی تاریخ کے دلچسپ اور ایمان افریں واقعات'' تالیف و تصنیف ابو مسعود الجبار'' سے نقل کیا گیا ھےخود بھی پڑھیں اور دوسروں سے بھی ضرور شئر کریں


کھیوڑہ نمک کی قدیم کان سیاحوں کی توجہ کا مرکز





کھیوڑہ نمک کی قدیم کان سیاحوں کی توجہ کا مرکز
کھیوڑہ نمک کی کان ضلع جہلم پاکستان میں واقع ہے۔ یہ جگہ اسلام آباد سے 160 جبکہ لاہور سے قریبا 250 کلومیٹر فاصلہ پر ہے۔
نمک کی دریافت
کھیوڑہ مہں موجود نمک کی یہ کان جنوبی ایشیا میں قدیم ترین ہے اور دنیا میں دوسرا بڑا خوردنی نمک کا ذخیرہ ہے۔ اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ جب سکندر اعظم 322 ق م میں اس علاقے میں آیا تو اس کے گھوڑے یہاں کے پتھر چاٹتے ہوئے دیکھے گئے۔ ایک فوجی نے پتھر کو چاٹ کر دیکھا تو اسے نمکین پایا۔ یوں اس علاقے میں نمک کی کان دیافت ہوئی۔ اس کے بعد یہ کان یہاں کے مقامی راجہ نے خرید لی اور قیام پاکستان تک یہ کان مقامی جنجوعہ راجوں کی ملکیت رہی۔[ترمیم]کان کا نظام
کھیوڑہ کی نمک کی کان کا موجودہ نظام چوہدری نظام علی خان نامی انجینئیر کا بنایا ہوا ہے۔ یہ کان زیر زمین 110 مربع کیلومیٹر رقبہ پر پھیلی ہوئی ہے۔ اس میں ۱۹ منزلیں بنائی گئی ہیں جن میں سے 11 منزلیں زیر زمین ہیں۔ نمک نکالتے وقت صرف 50 فی صد نمک نکالا جاتا ہے جبکہ باقی 50 فی صد بطور ستون اور دیوار کان میں باقی رکھا جاتا ہے۔ کان دھانے سے 750 میٹر دور تک پہاڑ میں چلی گئی ہے اور اس کے تمام حصوں کی مجموعی لمبائی 40 کیلومیٹر ہے۔ اس کان میں سے سالانہ 325000 ٹن نمک حاصل کیا جاتا ہے۔[ترمیم]کان میں موجود عمارات
کان کے مختلف حصوں میں بعض عمارات بھی بنائی گئی ہیں۔ ان میں سب سے مشہور نمک کی اینٹوں سے بنائی گئی ایک مسجد ہے جس میں بجلی کے قمقمے بھی نصب کئے گئے ہیں

کھیوڑہ نمک کان میں نمک کی اینٹوں سے بنائی گئی مسجد۔کان میں پانی کی نکاسی کے لئے پرنالوں کا ایک نظام بھی موجود ہے۔ پہاڑ سے رسنے والے پانی اور بارش کے پانے کے جمع ہونے سے نمکین پانی کے بعض تالاب بھی ہیں جن پر نمک ہی کے بنے ہوئے پل بنائے گئے ہیں۔