Monday, September 24, 2012
مسجد نبوی کی تاریخ کے عظیم ترین توسیعی منصوبہ کا آغاز
مسجد نبوی کی تاریخ کے عظیم ترین توسیعی منصوبہ کا آغاز آج ہوگا
جدید ترین ریلوے نظام کی بدولت جدہ سے پنج وقتہ نماز کی ادائیگی حرم مکہ و حرم نبوی میں ممکن ہونے والی ہے
سعودی عرب کے فرمانروا شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز آج (سوموار کے روز) مدینہ منورہ پہنچ رہے ہیں جہاں وہ مسجد نبوی کے بڑے توسیعی منصوبے کا سنگ بنیاد رکھیں گے۔ اب تک ہونے والے توسیعی منصوبوں میں یہ سب سے بڑا منصوبہ ہے، جسے تین مراحل میں مکمل
کیا جائے گا اور تیسرے اور آخری مرحلے کی تکمیل کے بعد مسجد نبوی میں اٹھائیس لاکھ افراد نماز ادا کر سکیں گے۔
اس وقت مسجد نبوی میں آٹھ لاکھ افراد نماز ادا کر رہے ہیں۔ دوسرے اور تیسرے مرحلے میں مسجد نبوی کے مشرقی اور مغربی جانب توسیع کی جائے گی۔ ان دو مراحل میں آٹھ سے بارہ لاکھ افراد کی نماز کے لیے مزید گنجائش پیدا کی جائے گی۔شاہ عبداللہ بن عبد العزیز کی زیر نگرانی الحرمین الشریفین کے توسیعی منصوبے کا یہ دوسرا بڑا پراجیکٹ ہے۔ اس سے قبل مسجد حرم کی توسیع کا کام تیزی سے جاری ہے۔ ان دنوں حج سیزن کے باوجود مکہ مکرمہ میں سعی، رمی، جمرات اور مسجد حرام کی توسیع کا کام جاری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جدہ سے مکہ مکرمہ تک ایک ریلوے لائن بچھائی جا رہی ہے۔ یہ منصوبہ بھی حرم کی توسیع کا حصہ ہے۔ جدہ ریلوے لائن سے نہ صرف حجاج اور معتمرین کو مکہ مکرمہ تک فوری رسائی کی سہولت حاصل ہو گی بلکہ جدہ کے شہری بھی پانچوں نمازیں مسجد حرام میں ادا کرنے کی سعادت حاصل کر سکیں گے۔اس کے ساتھ ہی سیکڑوں میل دور آباد شہر کے باسیوں کے لئے اب عنقریب یہ بات بھی ممکن ہونے والی ہے کہ وہ چاہیں تو مدینہ منورہ میں مسجد نبوی تک بھی یہ رسائی حاصل کرلیں ۔
Pakistani-origin woman becomes Norway's minister
پاکستانی نژاد ہادیہ تاجک ناروے کی پہلی مسلم خاتون وزیر مقرر
Pakistani-origin woman becomes Norway's minister
ناروے میں پہلی پاکستانی نژاد مسلم خاتون کو وزیر ثقافت مقرر کر دیا گیا۔ ناروے کے وزیر اعظم جینز اسٹولٹن برگ نے اسی ہفتے اپنی کابینہ میں رد وبدل کیا ہے اور اس میں پہلی مرتبہ ایک مسلم خاتون کو وزارت ثقافت کا قلم دان سونپا ہے۔
خاتون وزیر انتیس سالہ ہادیہ تاجک پاکستانی نژاد ہیں۔انھیں جمعہ کو ناروے کی وزیر ثقافت مقرر کیا گیا تھا۔ وہ اس سیکنڈے نیوین ملک کی تاریخ میں کابینہ میں شامل ہونے والی پہلی مسلم خاتون اور سب سے کم عمر وزیر ہیں۔ ہادیہ تاجک نے وزیر مقرر ہونے سے قبل ہی آئندہ مہینوں کے حوالے سے اپنے پروگرام کی تشہیر شروع کر دی تھی اور انھوں نے کہا تھا کہ ناروے میں ثقافتی تنوع کو روزمرہ زندگی کا ایک غیر متنازعہ حصہ ہونا چاہیے۔وہ ناروے میں 2009ء میں منعقدہ عام انتخابات میں حکمراں لیبر پارٹی کے ٹکٹ پر رکن پارلیمان منتخب ہوئی تھیں۔یہ جماعت پارلیمان میں دارالحکومت اوسلو کی نمائندگی کرتی ہے۔ ہادیہ تاجک سیاست میں آنے سے قبل صحافیہ رہی ہیں۔انھیں سال 2008ء سے2009ء کے درمیان وزیر انصاف نٹ اسٹوربرگٹ کی مشیر مقرر کیا گیا تھا۔
Norwegian Prime Minister Jens Stoltenberg has appointed a Muslim woman as part of his government during a Cabinet reshuffle this week.
Hadia Tajik, 29, from Pakistani decent, was appointed on Friday as Norway’s minister of culture.
Hadia has become the first ever Muslim cabinet member and youngest ever government minister in the Scandinavian country.
The newly appointed minister of culture has already publicized her program for the upcoming months and highlighted that cultural diversity should become an undisputable part of Norway’s everyday life.
In 2009 she was elected as MP for the Norwegian Labour Party that represented Oslo.
Tajik had worked as journalist before she was made advisor to Minister of Justice, Knut Storberget between 2008 and 2009
Saturday, September 22, 2012
حضرت جنید بغدادی رح فرماتے ہیں
حضرت جنید بغدادی رح فرماتے ہیں -
میں نے اخلاص ایک حجام سے سیکھا - وہ اس وقت مکہ معظمہ میں کسی رئیس شخص کے بال بنا رہا تھا میرے مالی حالات نہایت شکستہ تھے میں نے حجام سے کہا -
" میں اجرت کے طور پر تمھیں ایک پیسا نہیں دے سکتا بس تم الله کے لئے میرے بال بنا دو "
میری بات سنتے ہی اس حجام نے رئیس کو چھوڑ دیا اور مجھ سے مخا
طب ہو کر بولا - تم بیٹھ جاؤ ! مکے کے رئیس نے حجام کے طرز عمل پر اعتراض کیا تو وہ معذرت کرتے ہوئے بولا -
" جب الله کا نام اور واسطہ درمیان میں آجاتا ہے ، تو میں پھر سارے کام چھوڑ دیتا ہوں "
حجام کا جواب سن کر مجھے بڑا تعجب ہوا اور پھر قریب آ کر اس نے میرے سر پر بوسہ دیا اور بال بنانے لگا اپنے کام سے فارغ ہو کے حجام نے مجھے ایک پڑیا دی جس میں کچھ رقم تھی -
" اسے بھی اپنے استمعال میں لائیے " حجام کے لہجے میں بڑا خلوص تھا - میں نے رقم قبول کر لی اور اس کے ساتھ نیت کی کہ مجھے جو پہلی آمدنی ہوگی وہ حجام کی نظر کروں گا - پھر چند روز بعد جب میرے پاس کچھ روپیہ آیا تو میں سیدھا اس حجام کے پاس پہنچا اور وہ رقم اسے پیش کر دی -
یہ کیا ہے ؟ حجام نے حیران ہو کر پوچھا میں نے اس کے سامنے پورا واقعہ بیان کر دیا میری نیت کا حال سن کر حجام کے چہرے پر ناگواری کا رنگ ابھر آیا -
" اے شخص ! تجھے شرم نہیں آتی ! تو نے الله کی راہ میں بال بنانے کو کہا تھا اور اب کہتا ہے کہ یہ اس کا معاوضہ ہے - تو نے کسی بھی مسلمان کو دیکھا ہے الله کی راہ میں کام کرے اور پھر اس کی مزدوری لے "
حضرت جنید بغدادی رح اکثر فرماتے تھے ، میں نے اخلاص کا مفہوم اسی حجام سے سیکھا ہے
" جب الله کا نام اور واسطہ درمیان میں آجاتا ہے ، تو میں پھر سارے کام چھوڑ دیتا ہوں "
حجام کا جواب سن کر مجھے بڑا تعجب ہوا اور پھر قریب آ کر اس نے میرے سر پر بوسہ دیا اور بال بنانے لگا اپنے کام سے فارغ ہو کے حجام نے مجھے ایک پڑیا دی جس میں کچھ رقم تھی -
" اسے بھی اپنے استمعال میں لائیے " حجام کے لہجے میں بڑا خلوص تھا - میں نے رقم قبول کر لی اور اس کے ساتھ نیت کی کہ مجھے جو پہلی آمدنی ہوگی وہ حجام کی نظر کروں گا - پھر چند روز بعد جب میرے پاس کچھ روپیہ آیا تو میں سیدھا اس حجام کے پاس پہنچا اور وہ رقم اسے پیش کر دی -
یہ کیا ہے ؟ حجام نے حیران ہو کر پوچھا میں نے اس کے سامنے پورا واقعہ بیان کر دیا میری نیت کا حال سن کر حجام کے چہرے پر ناگواری کا رنگ ابھر آیا -
" اے شخص ! تجھے شرم نہیں آتی ! تو نے الله کی راہ میں بال بنانے کو کہا تھا اور اب کہتا ہے کہ یہ اس کا معاوضہ ہے - تو نے کسی بھی مسلمان کو دیکھا ہے الله کی راہ میں کام کرے اور پھر اس کی مزدوری لے "
حضرت جنید بغدادی رح اکثر فرماتے تھے ، میں نے اخلاص کا مفہوم اسی حجام سے سیکھا ہے
از اشفاق احمد زاویہ ٣ ڈیفنسو ویپن
بغداد میں ایک نوجوان تھا – وہ بہت خوبصورت تھا ، اور اس کا کام نعل سازی تھا – وہ نعل بناتا بھی تھا اور گھوڑے کے سموں پر چڑھاتا بھی تھا – نعل بناتے وقت تپتی بھٹی میں سرخ شعلوں کے اندر وہ نعل رکھتا اور پھر آگ میں اسے کسی ” جمور ” یا کسی اوزار کے ساتھ نہیں پکڑتا تھا بلکہ آگ میں ہاتھ ڈال کے اس تپتے ہوئے شعلے جیسے نعل کو نکال لیتا اور اپنی مرضی کے مطابق اسے (shape) شکل دیتا تھا – لوگ اسے دیکھ کر دیوانہ کہتے اور حیران بھی ہوتے تھے کہ اس پر آگ کا کوئی اثر نہیں ہوتا – وہاں موصل شہر کا ایک شخص آیا جب اس نے ماجرا دیکھا تو اس نے تجسس سے اس نوجوان سے پوچھا کہ اسے گرم گرم
لوہا پکڑنے سے کیوں کچھ نہیں ہوتا ؟
اس نوجوان نے جواب دیا کہ وہ جلدی میں لوہے کو اٹھا لیتا ہے اور اب اس پر ایسی کیفیت طاری ہو گئی ہے کہ میرا ہاتھ اسے برداشت کرنے کا عادی ہوگیا ہے اور اسے کسی جمور یا پلاس کی ضرورت نہیں پڑتی – اس شخص نے کہا کہ میں اس بات کو نہیں مانتا ” یہ تو کوئی اور ہی بات ہے ” اس نے نوجوان سے کہا کہ مجھے اس کی حقیقت بتاؤ ؟ اس نوجوان نے بتایا کہ بغداد میں ایک نہایت حسین و جمیل لڑکی تھی اور اس کے والدین عمرے کے لیے گئے ، اور کسی حادثے کا شکار ہو کے وہ دونوں فوت ہو گئے – اور یہ لڑکی بے یار و مددگار اس شہر میں رہنے لگی – وہ لڑکی پردے کی پلی ہوئی ، گھر کے اندر رہنے والی لڑکی تھی اب اس کو سمجھ نہیں آتی تھی کہ زندگی کیسے گزارے – آخر کار نہایت غمزدہ اور پریشانی کی حالت میں وہ باہر سڑک پر نکل آئی – اس نے میرے دروازے پر دستک دی اور کہا ” کیا ٹھنڈا پانی مل سکتا ہے ” میں نے کہا ہاں اور اندر سے اس لڑکی کو ٹھنڈا پانی لا کر پلایا اور اس لڑکی نے کہا خدا تمہارا بھلا کرے – میں نے اس سے پوچھا کیا تم نے کچھ کھایا بھی ہے کہ نہیں اس لڑکی نے کہا نہیں میں نے کچھ نہیں کھایا – میں نے اس سے اکیلے اس طرح پھرنے کی وجہ پوچھی تو اس لڑکی نے اپنے اوپر گزرا سارا واقعہ سنایا اور کہا کہ مجھے سمجھ نہیں آتی میں زندگی کیسے بسر کروں – میں نے اس سے کہا کہ تم شام کو یہیں میرے گھر آجانا اور میرے ساتھ کھانا کھانا – میں تمھیں تمہاری پسند کا ڈنر کھلاونگا وہ لڑکی چلی گئی – اس نوجوان نے بتایا کہ میں نے اس کے لیے کباب اور بہت اچھی اچھی چیزیں تیار کیں وہ شام کے وقت میرے گھر آگئی اور میں نے کھانا اس کے آگے چن دیا -جب اس لڑکی نے کھانے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو میں نے دروازے کی چٹخنی چڑھا دی اور میری نیت بدل گئی کیوں کہ وہ انتہا درجے کا ایک آسان موقع تھا – جو میری دسترس میں تھا جب میں نے دروازے کی چٹخنی چڑہائی تو اس لڑکی نے پلٹ کر دیکھا اور اس نے کہا کہ میں بہت مایوس اور قریب المرگ اور اس دنیا سے گزر جانے والی ہوں – اس نے مزید کہا ” اے میرے پیارے بھائی تو مجھے خدا کے نام پر چھوڑ دے ” وہ نوجوان کہنے لگا میرے سر پر برائی کا بھوت سوار تھا – میں نے اس سے کہا کہ ایسا موقع مجھے کبھی نہیں ملے گا میں تمھیں نہیں چھوڑ سکتا – اس لڑکی نے مجھے کہا کہ
” میں تمھیں خدا اور اس کے رسول کے نام پردرخواست کرتی ہوں کہ میرے پاس سوائے میری عزت کے کچھ نہیں ہے اور ایسا نہ ہو کہ میری عزت بھی پامال ہو جائے اور میرے پاس کچھ بھی نہ بچے اور پھر اس حالت میں اگر میں زندہ بھی رہوں تو مردوں ہی کی طرح جیئوں ” اس نوجوان نے بتایا کہ لڑکی کی یہ بات سن کرمجھ پر خدا جانے کیا اثر ہوا ، میں نے دروازے کی چٹخنی کھولی اور دست بستہ اس کے سامنے کھڑا ہوگیا اور کہا کہ
“ مجھے معاف کر دینا میرے اوپر ایک ایسی کیفیت گزری تھی جس میں میں نبرد آزما نہیں ہو سکا تھا لیکن اب وہ کیفیت دور ہو گئی ہے تم شوق سے کھانا کھاؤ اور اب سے تم میری بہن ہو – ” یہ سن کر اس لڑکی نے کہا کہ
” اے الله میرے اس بھائی پر دوزخ کی آگ حرام کر دے “
یہ کہ کر وہ رونے لگی اور اونچی آواز میں روتے ہوئی کہنے لگی کہ
” اے الله نہ صرف دوزخ کی آگ حرام کر دے بلکہ اس پر ہر طرح کی آگ حرام کر دے “
نوجوان نے بتایا کہ لڑکی یہ دعا دے کر چلی گئی – ایک دن میرے پاس زنبور (جمور) نہیں تھا اور میں دھونکنی چلا کر نعل گرم کر رہا تھا میں نے زنبور پکڑنے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو وہ دہکتے ہوئے کوئلوں میں چلا گیا لیکن میرے ہاتھ پر آگ کا کوئی اثر نہ ہوا – میں حیران ہوا اور پھر مجھے اس لڑکی کی وہ دعا یاد آئی اور تب سے لے کر اب تک میں اس دہکتی ہوئی آگ کو آگ نہیں سمجھتا ہوں بلکہ اس میں سے جو چاہے بغیر کسی ڈر کے نکال لیتا ہوں
از اشفاق احمد زاویہ ٣ ڈیفنسو ویپن صفحہ ٢٠٧،٠٨
Friday, September 14, 2012
ضیاء الحق
ضیاء الحق کا دور بڑا خوفناک تھا۔ اس میں بہت ظلم ہوا… ضیاء الحق نے بہت خوفناک قوانین بنائے… معاشرے کو یرغمال بنایا… ضیاء الحق کے دور میں کلاشنکوف کلچر، ہیروئن کلچر عام ہوا… ضیاء الحق کے دور میں یہ … ضیاء الحق کے دور میں وہ… ضیاء الحق ایسا تھا… ضیاء الحق ویسا تھا… یہ الفاظ گزشتہ 23 برس سے پاکستانی قوم دن رات سن رہی ہے اور 23 سال گزرے یہ سب لوگ مل کر دیواروں سے سر ٹکرا رہے ہیں اور ضیاء الحق کے دور کی باتوں، قوانین، طرز حکومت سے ٹکرا ٹکرا کر نہ صرف اپنے سر پاش پاش کر رہے ہیں بلکہ اپنے سر ہی گنوا رہے ہیں،
بظاہر ضیاء الحق جہاز اور اپنے سارے رفقاء سمیت دنیا سے مٹ گیا لیکن… وہ مٹایا نہ جا سکا۔ 23 برس سے زائد گزرے… ضیاء الحق کا نام اسی طرح ان سب کا پیچھا کر رہا ہے جس طرح اس وقت تھا۔ ضیاء الحق کے ہی ادارے یعنی پاک فوج سے تعلق رکھنے والے اس کے ایک پیش رو پرویز مشرف نامی شخص نے بھی اسے مٹانے کے لئے کیا کچھ نہیں کیا تھا۔ اسے اپنے آقائوں کی طرف سے اشارہ ملا کہ حدود آرڈیننس ختم کرو… پھر آناً فاناً اس کے خلاف طوفان کھڑا ہوا… یورپ اور امریکہ سے پیسے کے انبار آئے اور پھر پاکستانی اسمبلی نے اس کے خلاف تحفظ حقوق نسواں ایکٹ تھا پاس کر لیا، اس کے خلاف ہر طبقہ اور ہر جگہ سے بہت شور و غوغا ہوا… کہ یہ غیر اسلامی ہے شریعت کے منافی ہے لیکن یہ سب کچھ نقار خانے میں طوطی کی آواز ثابت ہوا لیکن جب 2010ء رخصت ہو رہا تھا جاتے جاتے اس حقوق نسواں ایکٹ کو بھی ساتھ بہا لے گیا جب وفاقی شرعی عدالت نے یہ کہہ دیا کہ اس بل کی کئی شقیں شریعت کے متصادم ہیں جنہیں کالعدم کہا جاتا ہے اور حدود کی سزائوں کو بحال کیا جاتا ہے… جنہوں نے برسوں سر پھٹول کی تھی، ساری دنیا کو جھوٹا کہا تھا… سب کچھ مسترد کر دیا تھا ان کا سب کیا دھرا ایک لفظ سے واپس ہو گیا۔
اور اب یہی کچھ توہین رسالت ایکٹ ختم کرنے کی باتیں کرنے والوں کے ساتھ ہو رہا ہے، کہتے ہیں کہ یہ انسان کا بنایا قانون ہے یہ ضیاء الحق کا بنایا قانون ہے… کیا اس سے پہلے یہاں مسلمان نہیں تھے، باقی دنیا کیا مسلمان نہیں۔ اس کی ضرورت ہی کیا ہے…؟ اسے ختم کرو… نام غلط استعمال کا ہے… لیکن نیت دوسری… اگر مسئلہ غلط استعمال کا ہے تو جہاں غلط استعمال ہوا اس کا پیچھا کر کے اسے کبھی درست کر کے بھی دکھا دو، یہ نہیں کرنا کیونکہ یہ تو مقصد ہی نہیں تھا اور نہ ہے۔
مقصد تو ان کے مشن کی تکمیل ہے جنہیں ان قوانین کے خاتمے کے لئے دن رات ایک کرنا پڑ رہا ہے۔ بھلا کوئی سوچے کہ ایک عام اور دیہاتی خاتون آسیہ کے لئے پوپ بینی ڈکٹ کیوں بیان پر بیان دیئے جا رہا ہے انہیں تکلیف کس بات کی ہے۔ یہی کہ اسلام نظر نہ آئے، اگر مسئلہ عیسائیت کا ہو تو یہ بھارت میں عیسائیوں کے قتل عام پر بھی کبھی معمولی سی حرکت یا جنبش کریں اور ہاں… ضیاء الحق کے نام کے ساتھ ٹکریں مار مار کر اپنے سر پھوڑنے اور خود کو موت سے ہمکنار کرنے والوں سے ہم کہتے ہیں کہ اب باز آ جائو کیونکہ ضیاء الحق کا نام اور تصور لے کر تم جس سے ٹکریں مارتے ہو وہ ضیاء الحق نہیں بلکہ اسلام ہے جسے تم پھونکے مار مار کر بجھانے کی کوشش کرتے ہو اور یہ شمع بجھنے کے بجائے تمہارے چہرے جھلسا رہی ہے۔ ضیاء الحق نے جو کہا وہ اس کا اپنا نہیں تھا اس لئے وہ مٹ نہیں سکا بلکہ مٹانے کی کوشش کرنے والے مٹ رہے ہیں۔ اس لئے اب بھی وقت ہے ضیاء الحق کو مٹانے کے نام پر خود کو مٹانے کا سلسلہ روک دو۔
جنرل اختر عبدالرحمن
17اگست 1988 ءکو جنرل اختر عبدارحمن خان نے مرتبہ شہادت پر فائز ہو کر وہ اعلیٰ ترین اعزاز بھی حاصل کر لیا جو کسی فوجی جوان اور افسر کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش ہوتی ہے.
یہ بات اب پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ جن لوگوں نے پاک فوج کے خلاف یہ سازش تیار کی ان کا ہدف صرف جنرل ضیاءالحق نہیں، جنرل اختر عبدالرحمن بھی تھے۔ ان لوگوں کو اچھی طرح معلوم تھا کہ جنرل اختر عبدالرحمن کو راستے سے ہٹائے بغیر، ان کی سازش کا مقصد پورا نہیں ہو سکتا۔ جنرل اختر عبدالرحمن پاکستان کی افغان پالیسی کے معمار تھے۔ یہ جنرل اختر عبدالرحمن ہی تھے کہ جب کوئی یہ سوچتا بھی نہیں تھا کہ سوویت یونین کی فوجوں کو افغانستان سے نکلنے پر
مجبور کیا جا سکتا ہے۔
جنرل اختر عبدالرحمن کو یقین تھا کہ سوویت یونین کے خلاف اس جنگ کا ابتدائی دور ضرور مشکل ہو گا لیکن ایک بار جب افغان تنظیمیں متحد ہو گئیں اور ان میں ایک ہم آہنگی پیدا ہو گئی تو اس کے بعد کوئی وجہ نہیں کہ امریکہ اور یورپ سوویت یونین کے خلاف اس جنگ میں افغان تنظیموں کی مالی اور فوجی امداد نہ کریں۔ جو لوگ افغانستان کے قبائلی نظام سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ افغان قبائل کو کسی ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنا کتنا قریب قریب ایک ناممکن کام سمجھا جاتا ہے۔ جنرل اختر عبدالرحمن نے مگر یہ چیلنج قبول کیا اور کم بہت ہی کم عرصے میں یہ مشکل مرحلہ سر کر لیا۔
یہی وہ مرحلہ تھا جب امریکہ اور یورپ نے یہ محسوس کرنا شروع کیا کہ اگر سوویت یونین کے خلاف افغان جدوجہد کی بھرپور مالی اور فوجی امداد کی جائے تو اس کی کامیابی سے ہمکنار کیا جا سکتا ہے ورنہ اس سے پہلے مغربی دنیا، سوویت یونین کے خلاف افغان مزاحمت کو کچھ زیادہ سنجیدگی سے نہیں لے رہی تھی۔ جنرل اختر عبدالرحمن کا بہت شروع سے خیال تھا کہ افغان مزاحمت کو اس وقت تک کامیابی کی منزل نہیں مل سکتی جب تک کہ سوویت یونین کے فضائی حملوں کو غیر موثر نہ بنا دیا جائے۔ اس تناظر میں وہ امریکہ پر مسلسل زور دے رہے تھے کہ افغانن مزاحمتی گروپوں کو سٹنگز میزائل فراہم کیے جائیں۔ 1986ءمیں آخر کار جنرل اختر عبدالرحمن نے امریکیوں کو اس امر پر آمادہ کر لیا۔ افغان مزاحمتی تنظیموں کو سٹنگزمیزائل مہیا کر دیئے گئے۔ جنرل اختر عبدالرحمن کے اس ایک اقدام نے افغانستان میں جنگ کا پانسہ پلٹ دیا۔ رفتہ رفتہ، بتدریج، افغانستان کے اندر جنگ میں افغان کمانڈروں کا پلہ بھاری ہونے لگا تاآنکہ ان کی فتح قریب آ لگی۔اب جبکہ سوویت یونین افغانستان سے نکلنے کے راستے تلاش کر رہا تھا امریکہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کا سارا کریڈٹ جنرل اختر عبدالرحمن کو دیا جائے۔ اس امر کے شواہد موجود ہیں کہ جنرل اختر عبدالرحمن کو امریکی دباﺅ پر آئی ایس آئی کی سربراہی سے ہٹایا گیا لیکن اس وقت تک سوویت یونین کے خلاف افغان جنگ کامیاب ہو چکی تھی اور جنرل اختر عبدالرحمن مسرور تھے کہ ان کی محنت بار آور ہوئی۔
17اگست 1988ءکو جنرل اختر عبدالرحمن کے خلاف عالمی سازش کاروں کی سازش کامیاب ہو گئی جنرل اختر عبدالرحمن نے جنرل ضیاءالحق اور پاک فوج کی دیگر اعلیٰ قیادت کے ساتھ داعی اجل کو لبیک کہا لیکن ان کی روح یقینا مسرور ہو گی کہ ایک مجاہد کے طور پر انہوں نے شہادت کی آخری منزل بھی طے کر لی۔
Tuesday, September 4, 2012
Subscribe to:
Posts (Atom)