Friday, September 14, 2012

جنرل اختر عبدالرحمن



17اگست 1988 ءکو جنرل اختر عبدارحمن خان نے مرتبہ شہادت پر فائز ہو کر وہ اعلیٰ ترین اعزاز بھی حاصل کر لیا جو کسی فوجی جوان اور افسر کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش ہوتی ہے.
یہ بات اب پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ جن لوگوں نے پاک فوج کے خلاف یہ سازش تیار کی ان کا ہدف صرف جنرل ضیاءالحق نہیں، جنرل اختر عبدالرحمن بھی تھے۔ ان لوگوں کو اچھی طرح معلوم تھا کہ جنرل اختر عبدالرحمن کو راستے سے ہٹائے بغیر، ان کی سازش کا مقصد پورا نہیں ہو سکتا۔ جنرل اختر عبدالرحمن پاکستان کی افغان پالیسی کے معمار تھے۔ یہ جنرل اختر عبدالرحمن ہی تھے کہ جب کوئی یہ سوچتا بھی نہیں تھا کہ سوویت یونین کی فوجوں کو افغانستان سے نکلنے پر 
مجبور کیا جا سکتا ہے۔

جنرل اختر عبدالرحمن کو یقین تھا کہ سوویت یونین کے خلاف اس جنگ کا ابتدائی دور ضرور مشکل ہو گا لیکن ایک بار جب افغان تنظیمیں متحد ہو گئیں اور ان میں ایک ہم آہنگی پیدا ہو گئی تو اس کے بعد کوئی وجہ نہیں کہ امریکہ اور یورپ سوویت یونین کے خلاف اس جنگ میں افغان تنظیموں کی مالی اور فوجی امداد نہ کریں۔ جو لوگ افغانستان کے قبائلی نظام سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ افغان قبائل کو کسی ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنا کتنا قریب قریب ایک ناممکن کام سمجھا جاتا ہے۔ جنرل اختر عبدالرحمن نے مگر یہ چیلنج قبول کیا اور کم بہت ہی کم عرصے میں یہ مشکل مرحلہ سر کر لیا۔

یہی وہ مرحلہ تھا جب امریکہ اور یورپ نے یہ محسوس کرنا شروع کیا کہ اگر سوویت یونین کے خلاف افغان جدوجہد کی بھرپور مالی اور فوجی امداد کی جائے تو اس کی کامیابی سے ہمکنار کیا جا سکتا ہے ورنہ اس سے پہلے مغربی دنیا، سوویت یونین کے خلاف افغان مزاحمت کو کچھ زیادہ سنجیدگی سے نہیں لے رہی تھی۔ جنرل اختر عبدالرحمن کا بہت شروع سے خیال تھا کہ افغان مزاحمت کو اس وقت تک کامیابی کی منزل نہیں مل سکتی جب تک کہ سوویت یونین کے فضائی حملوں کو غیر موثر نہ بنا دیا جائے۔ اس تناظر میں وہ امریکہ پر مسلسل زور دے رہے تھے کہ افغانن مزاحمتی گروپوں کو سٹنگز میزائل فراہم کیے جائیں۔ 1986ءمیں آخر کار جنرل اختر عبدالرحمن نے امریکیوں کو اس امر پر آمادہ کر لیا۔ افغان مزاحمتی تنظیموں کو سٹنگزمیزائل مہیا کر دیئے گئے۔ جنرل اختر عبدالرحمن کے اس ایک اقدام نے افغانستان میں جنگ کا پانسہ پلٹ دیا۔ رفتہ رفتہ، بتدریج، افغانستان کے اندر جنگ میں افغان کمانڈروں کا پلہ بھاری ہونے لگا تاآنکہ ان کی فتح قریب آ لگی۔اب جبکہ سوویت یونین افغانستان سے نکلنے کے راستے تلاش کر رہا تھا امریکہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کا سارا کریڈٹ جنرل اختر عبدالرحمن کو دیا جائے۔ اس امر کے شواہد موجود ہیں کہ جنرل اختر عبدالرحمن کو امریکی دباﺅ پر آئی ایس آئی کی سربراہی سے ہٹایا گیا لیکن اس وقت تک سوویت یونین کے خلاف افغان جنگ کامیاب ہو چکی تھی اور جنرل اختر عبدالرحمن مسرور تھے کہ ان کی محنت بار آور ہوئی۔

17اگست 1988ءکو جنرل اختر عبدالرحمن کے خلاف عالمی سازش کاروں کی سازش کامیاب ہو گئی جنرل اختر عبدالرحمن نے جنرل ضیاءالحق اور پاک فوج کی دیگر اعلیٰ قیادت کے ساتھ داعی اجل کو لبیک کہا لیکن ان کی روح یقینا مسرور ہو گی کہ ایک مجاہد کے طور پر انہوں نے شہادت کی آخری منزل بھی طے کر لی۔ 

No comments:

Post a Comment