Saturday, December 29, 2012

ٹیپو سلطان شہید اور انتظامِ ریاست







ٹیپو سلطان شہید اور انتظامِ ریاست
=====================

اقبال کے مردِ مومن کو اگر مجسم دیکھنا ہو تو ٹیپو سلطان شہید کو دیکھا جاسکتا ہے۔ برعظیم پاک وہند کی تاریخ میں ٹیپو سلطان (۱۷۹۹۔۱۷۵۱ء) کو ایک لازوال اہمیت حاصل ہے۔ دنیا کی تاریخ بمشکل اس اولوالعزم سلطان کی نظیر پیش کر سکے گی۔ٹیپو سلطان نہ صرف ایک مردِ مجاہد تھابلکہ حقیقی معنیٰ میں اقبال کا ایک مردِ مومن تھا۔ عالِم بھی تھا، عابد بھی۔ ایک بہترین سپہ سالار بھی تھا اور ایک بہترین منتظم بھی۔ایک تجربہ کار سیاستدان اور غیر معمولی بصیرت رکھنے والا عوامی رہنما اور قائد بھی۔

جس وقت عنانِ حکومت ٹیپو سلطان کے ہاتھ آئی، اس نے دو اہم کام کیے۔ ایک جانب اپنی پوری توجہ اتحاد بین المسلمین اور اتحاد بین الاقوام ہند پر مرکوز کی۔دوسری جانب ملک کی صنعت و حرفت پر پوری توجہ دی۔ سلطان کے یہی عزائم و ارادے تھے جس نے ایسٹ انڈیا کمپنی کو سلطان کا مخالف بنا دیا اور اسی مخالفت نے اس کو تمام عمر جنگوں میں مصروف رکھا۔ مگر باوجود اس کے سلطنتِ خداداد میسور نے صنعت و حرفت اور دیگر فنون میں جو ترقی کی وہ میسور کو کبھی دوبارہ حاصل نہ ہوسکی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی جان چکی تھی کہ اگر ٹیپو سلطان کو اپنے ارادوں میں کامیاب ہونے دیا جائے تو پھر ہندوستان پر قبضہ ہر گز نہیں ہوسکتا۔

ٹیپوسلطان کے خطرہ کو ختم کرنے کے لیے انگریز، نظام اور مرہٹے متحد ہوگئے۔انگریز اسے ہندوستان پر اپنے اقتدارِ کامل میں سب سے بڑی، بلکہ واحد رکاوٹ سمجھتے تھے۔ اس اتحاد کے مقصد کو مزید کامیاب بنانے اور رائے عامہ کی اخلاقی ہمدردی حاصل کرنے کے لیے انگریزوں نے ٹیپو سلطان کی مفروضہ چیرہ دستیوں کو اس انداز میں دور تک پہنچادیا کہ خود اپنے بھی اس سے نفرت کرنے لگے۔ فورٹ ولیم کی دیواروں پر کھڑے ہوکر اعلان کردیا گیا کہ ٹیپو سفاکی میں چنگیز خان اور ہلاکو سے بڑھ کر ہے۔

ٹیپو سلطان کی شہادت اور سلطنت خداداد کے زوال کے بعد انگریزوں کے مقابلے کے لیے کوئی بڑی طاقت نہیں رہ گئی تھی۔ ملک میں ان کے توسیع پسندانہ عزائم کی راہ میں ٹیپو سلطان ہی سب سے بڑی رکاوٹ تھا۔ اس کی شہاد ت کے بعد ہی ان کی زبان سے پہلی دفعہ یہ معنی خیز جملہ نکلا کہ ’’آج سے ہندوستان ہمارا ہے‘‘۔

ضروری ہے کہ ٹیپو سلطان کے عہدِ حکومت اور انتظامِ ریاست کا بغور مطالعہ کیا جائے تاکہ حقائق سے آگہی حاصل ہو سکے۔ ٹیپو سلطان نے اپنے ۱۷ سالہ عہد حکومت (۱۷۹۹۔۱۷۸۲ء) میں زندگی کا کوئی لمحہ اطمینا ن اور چین سے نہیں گزارا۔ یہ سارا عرصہ جنگی معرکوں میں گزرا جو مہلت ملی اس میں وہ اپنے زیرِ اقتدار علاقوں میں زراعت کی ترقی، آب رسانی کی سہولتوں میں اضافے، نہروں اور تالابوں اور سڑکوں اور پلوں، بندرگاہوں اور نئے شہروں کی تعمیر، چھوٹی بڑی صنعتوں کی ترقی، فوجی و انتظامی اصلاحات اور بیرون ملک و پڑوسی حکمرانوں سے سفارتی روابط اور داخلی معاملات پر گفت و شنیدجیسے اہم انتظامی و تعمیراتی امور میں الجھا رہا۔ ساتھ ہی ساتھ میدان جنگ کے نقشوں کو مرتب کرتا، لڑائی کی منصوبہ بندی کرتا اور اپنے عمال حکومت، فوجی سالاروں اور قلعہ داروں کو ہدایات جاری کرتا۔ اس کی شہادت کے بعداس کے ذخیرے سے ملنے والے چار ہزار سے زائد خطوط کے موضوعات و مندرجات اس کی ایسی کارگزاریوں کا واضح ثبوت ہیں۔ حیرت ہوتی ہے کہ جس فرمانرو ا کی زندگی کا ایک ایک لمحہ شہزادگی سے شہادت تک مسلسل خوفناک لڑائیوں میں گزرا، اسے ان معاملات پر توجہ دینے کا وقت کیوں کر ملتا تھا۔ حق یہ ہے کہ سلطان حکومت کو خدا کی طرف سے امانت سمجھتا تھا اور اس امانت کا حق ادا کرنے کی جیسی عملی مثال اس نے پیش کی، اس کی نظیریں بہت کم ملیں گی۔

ٹیپو سلطان نے تخت نشینی کے بعداپنی رعایا کے نام جو پہلا سرکاری فرمان جاری کیا اس میں بلاتفریق مذہب و ملت اپنی رعایا کی اخلاقی اصلاح، ان کی خوشحالی، معاشی و سیاسی ترقی، عدل و انصاف، جاگیرداروں اور زمین داروں کے ظلم وستم سے نجات، مذہبی و لسانی و طبقاتی عصبیت کا خاتمہ، اور دفاع وطن کے لیے جان کی بازی لگادینے کا عزم کیا۔

ملک کے قدیم طرز حکمرانی کو یکسر بدل دیا۔سلطنت کے امور میں عوام کو زیادہ سے زیادہ حصہ دینے کے لیے کوشاں رہا۔ اس نے جمہوری تقاضوں کے پیش نظر ایک مجلس شوریٰ قائم کی جس کا نام ’مجلس غم نباشد‘تھا۔

ٹیپوسلطان نے تخت نشین ہونے کے بعد دو نئے آئین بنائے۔ ایک فوج کے لیے جس کا نام ’فتح المجاہدین‘ تھا اور دوسرا عوام کے لیے جس کا نام ’ملکی آئین‘ تھا۔ سرنگا پٹم میں جامع الامور کے نام سے ایک یونیورسٹی قائم کی جہاں بیک وقت دینی و دنیاوی دونوں طرح کی تعلیم دی جاتی تھی۔ حکومت کی طرف سے مختلف علوم و فنون کے ماہرین کو بھاری مشاہرہ پر یہاں مقرر کیا گیا تھا۔

ٹیپو سلطان کو جدت و اختراعات کا خاص شوق تھا۔کئی شہروں کے نام بدل ڈالے۔ مثلاً بنگلور کا نام دارالسرور، کالی کٹ کا اسلام آباد، میسور کا نظر آباد، اور مینگلور کا جمال آباد رکھا۔ وزن اور پیمانوں کے نام بھی تبدیل کردیے۔نیا روپیہ جاری کیااور مختلف نسبتوں سے ان کے نام رکھے مثلاً احمدی، صدیقی، فاروقی، حیدری وغیرہ۔ نئی وضع کی بندوقیں اور توپیں بنوائیں، ایسی ڈھالیں تیار کرائیں جن پر تیر یا گولی کا اثر نہیں ہوتا تھا۔ جرائم کی بیخ کنی کے لیے ایک نئی تدبیر سوچی۔ ہر مجرم کو اس کے جرم کی مناسبت سے ایک درخت اگانے کی ذمہ داری سونپی۔ معمولی جرم کے لیے ایسا درخت تجویز پاتا جس کے لیے کم محنت و مہلت درکار ہوتی اور سنگین جرم کے لیے ایسا درخت اگانے کی ذمہ داری جس کے لیے کافی محنت و مہلت درکار ہوتی۔ سلطان معمولی سے معمولی مسئلہ میں بھی پور ی توجہ ظاہر کرتا تھا۔ علوم و فنون، طب، تجارت، معاملات مذہبی، تعمیر، فوجی محکمات اور بے شمار دوسرے امور پر سلطان یکساں مہارت سے قطعی رائے دیتا تھا۔

ہندوستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ ٹیپو سلطان نے مردم شماری کرائی۔پنچایت راج کی بنیاد رکھی۔ اسی کے حکم سے فرانسیسی ماہرین نے پانی سے چلنے والا ایک ایسا انجن تیار کیا جس سے توپوں میں باآسانی سوراخ کیا جاسکتا تھا۔ دنیا میں میزائل ایجاد کرنے کا سہرا بھی اسی کے سر تھا۔ حتیٰ کے امریکیوں نے بھی اس کو راکٹ کے بانیوں میں شمار کیا ہے۔ وہ جب بھی اپنی سلطنت کے کسی کارخانہ میں جاتا تو نئے طرز یا جدید انداز کی کوئی چیز بنانے کا حکم ضرور دیتا۔

سلطان کی بری اور بحری فوجوں کا انتظام قابل داد تھا، فوج کے محکمہ میں گیارہ بڑے بڑے شعبے تھے، سلطنت کے کل رقبہ کو ۲۲ فوجی اضلاع میں تقسیم کیا گیا تھا۔ اس نے ۱۷۹۶ء میں امراء البحر کی ایک جماعت قائم کی۔ جس میں گیارہ اراکین تھے۔ ان اراکین کا لقب میریم رکھا گیا تھا۔ ان اراکین کے ماتحت ۳۰؍امیر البحر تھے۔ بحری فوج کے متعلق بیس جنگی جہاز کلاں اور بیس چھوٹے جنگی جہاز تھے۔ سلطان کو فن جہاز سازی سے بھی شغف تھا۔ وہ جہازوں کے نقشے خود تیار کرتا تھا۔ جہازوں کے پیندوں کے واسطے ہدایت کی گئی تھی کہ تانبے کے پیندے لگائے جائیں تاکہ چٹانوں سے ٹکرانے کی صورت میں نقصان نہ پہنچے۔ جہاز سازی کے لیے لکڑی کا جنگل بھی نامزد کردیا گیا اور سب مدارج کے افسروں کی تنخواہوں کی بھی صراحت کردی گئی۔ فوجیوں کی باقاعدہ تربیت کے لیے خصوصی مراکز قائم کیے گئے اور پوری فوج کو ازسرنو منظم کیا گیا۔

ٹیپو سلطان نے ہر ہر شہر، قصبہ اور قلعہ کے چار دروازے مقرر کیے جہاں پہرے دار مقرر کیے کہ ملک میں بغیر اطلاع و اجازت کوئی آنے نہ پائے اور ہر مقام کی رویدادپر فوری اطلاع کا انتظام کیا گیا۔ جس مقام پر چوری ہوجاتی، وہاں کے پولیس افسر کو اس کا ذمہ دار قرار دیا جاتا۔ اگر مجرم گرفتار نہ ہوسکتا تو پولیس افسران کی تنخواہ سے اس کی تلافی کی جاتی۔ ان مقامات پر جہاں ڈاکوؤں کے حملہ کا خطرہ رہتا تھا، وہاں کے رہنے والوں کو آتشیں اسلحہ رکھنے کی عام اجازت دی جاتی۔ عدل و انصاف کا یہ عالم تھا کہ ہر شہر میں قاضی اور ہر گاؤں میں پنچائت مقدموں کا فیصلہ کرتی۔ اگر فریقین میں سے کسی ایک کو ابتدائی عدالتوں کے فیصلہ پر شک ہوتا تو مقدمہ صدر عدالت (ہائیکورٹ) میں دائر کیا جاتا۔ سلطان نے افسرانِ ضلع کے نام حکم جاری کررکھا تھا کہ وہ ہر سال سرنگاپٹم (دارالحکومت) میں جمع ہوکر انتظامی امور کے متعلق مشورہ کیا کریں۔

ٹیپو سلطان کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ اردو اخبار کا بانی تھا۔ ۱۷۹۴ء میں اس نے اپنی ذاتی نگرانی و سرپرستی میں ایک ہفت روزہ جاری کیا۔ اس ہفت روزہ میں سلطنت کے مختلف علاقوں میں پھیلے ہوئے سپاہیوں کے نام سلطان کی ہدایات شائع ہوتی تھیں۔ یہ ہفت روزہ سلطان کی شہادت تک مسلسل پانچ سال پابندی سے شائع ہوتا رہا۔

ٹیپو سلطان کا ایک بڑا کارنامہ یہ بھی ہے کہ اس نے غلاموں اور لڑکیوں کی خریدو فروخت بالکل بند کردی۔ ان کے لیے یتیم خانے بنائے۔ (بعض بُری روایات کو روکنے کے لیے) مندروں میں لڑکیوں کا داخلہ ممنوع قرار دے دیا۔ زمین داریوں کا خاتمہ کرکے مزدوروں او ر کسانوں کو زمین کا مالک قرار دیا۔زمین کو رعایا کی ملکیت قرار دیا گیا، زمین پر کسانوں کا دوامی قبضہ تسلیم کرلیا گیا۔ زمین صرف اس کی تھی جو ہل چلائے۔ ٹیپوسلطان نے احکام جاری کردیے تھے کہ جو شخص زمین کے لیے درخواست کرے،اسے اس کی ضرورت کے مطابق زمین مفت دی جائے۔ تجارت کی توسیع کے لیے بیرونی ملکوں سے روابط پیدا کیے۔ دور دور سے کاریگر بلا کر اپنے ہاں ہر قسم کی صنعتیں جاری کیں۔ دوسرے ممالک سے ریشم کے کیڑے منگوا کر ان کی پرورش و پرداخت کا طریقہ اپنی رعایا کو سکھایا۔ اس کے علاوہ جواہر تراشی اور اسلحہ سازی کے کارخانے بھی قائم کیے۔ ان کارخانوں میں گھڑی سازی اور قینچیوں کا کام بھی ہوتا تھا۔ ان کارخانوں کے قیام سے ایک بڑا فائدہ یہ ہوا کہ ضرورت کی ہر چیز اب سلطنت میں تیار ہونے لگی۔ درآمدات پر انحصار کم ہوگیا اور سلطنت میں تیار کردہ چیزیں برآمد ہونے لگیں۔ دوسری طرف ہزاروں بے روزگاروں کے مسائل بھی اس سے حل ہوئے۔

اقتصادی مسائل پر قابو پانے کے بعدٹیپو سلطان نے ایک نئی تجارتی پالیسی وضع کی جس کے تحت بیرونی ممالک ایران، ترکی اور حجاز وغیرہ سے مسلم تاجروں کو سلطنت خداداد میں آ کر تجارت کرنے کے لیے حکومت کی طرف سے خصوصی رعایتوں سے نوازا گیا۔ خود حکومت کی زیر سرپرستی ایک بڑی تجارتی کمپنی بھی قائم کی گئی جس میں اس کی رعایا میں سے ہر کوئی بلاتفریق مذہب اپنا سرمایہ لگا کر نفع و نقصان کے اسلامی اصولوں کی بنیاد پر شریک ہوسکتا تھا۔ وسط ایشیا کی ریاست آرمینیا سے غیر ملکی تاجروں کو میسور کی حدود میں لاکر بسایا گیا۔میسور سامان تجارت لانے والے چینی سوداگروں کو مالابار کے ڈاکو تنگ کرتے تھے۔ سلطان نے ان کی حفاظت کے لیے کئی جہاز مقرر کردیے۔ سلطان کی ان کوششوں کے نتیجے میں سلطنت خداداد میں تجارت اور صنعت و حرفت نے بہت زیادہ ترقی کی۔

سلطان نے جہاں جاگیرداری کو ختم کیا، وہاں سرمایہ داری کے خاتمے کے لیے بھی اقدامات کیے۔ تمام سلطنت میں، رعایا، تاجروں اور کاشتکاروں کے لیے بنک جاری کیے۔ ان میں خاص بات یہ تھی کہ غریب طبقہ اور چھوٹے سرمایہ داروں کو زیادہ منافع دیا جاتا تھا۔ ان تمام اصلاحات اور سلطان کی جدوجہد کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہندوستان کے تمام علاقوں میں میسور سب سے زیادہ خوشحال اور سرسبزو شاداب علاقہ ہوگیا۔ میسور کی تیسری جنگ میں انگریزجب اس علاقے میں داخل ہوئے تو ان کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی۔

عربی کا ایک مقولہ ہے کہ خوبی وہ ہے جس کا اعتراف دشمن کرے۔ ٹیپو سلطان سے انگریزوں کے بے انتہا تعصب کے باوجود کیپٹن لٹل جس نے میسور کی تیسری جنگ میں نمایاں حصہ لیا تھا، اپنی یادداشتوں میں لکھتا ہے:

’’ٹیپو کے متعلق بہت سی افواہیں سنی جاتی تھیں کہ وہ ایک جابر و ظالم حکمران ہے۔جس کی وجہ سے اس کی تمام رعایا اس سے بے زار ہے۔ لیکن جب ہم اس کے ملک میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ صنعت و حرفت کی روز افزوں ترقی کی وجہ سے نئے نئے شہر آباد ہوئے اور ہوتے جارہے ہیں۔ رعایا اپنے کاموں میں مصروف و منہمک ہے۔ زمین کا کوئی حصہ بھی بنجر نظر نہیں آتا۔ قابل کاشت زمین جس قدر بھی مل سکتی ہے اس پر کھیتیاں لہرارہی ہیں۔ ایک انچ زمین بھی بیکار نہیں پائی گئی۔ رعایا اورفوج کے دل میں بادشاہ کا احترام اور محبت بدرجہ اتم موجود ہے۔ فوج کی تنظیم اور اس کے ہتھیاروں کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ یہ یورپ کے کسی مہذب ملک کی فوج سے کسی حالت میں پیچھے نہیں ہے۔‘‘ بقول اقبال:


رفت سلطاں زیں سرائے ہفت روز
نوبتِ او در دکن باقی ہنوز

ایک زمانہ تھا کہ تقسیم ہند سے قبل کسی نوجوان کے لیے سب سے اعلیٰ اور قابل رشک مقام آئی سی ایس (انڈین سول سروس) میں داخل ہونا تھا۔ یہی وہ طبقہ تھا جو دراصل ہندوستان پر حکومت کررہا تھا۔علامہ عبداللہ یوسف علی اور مولانا محمد علی جوہر تقریباً ایک دوسرے کے ہم عصر تھے۔ مولانا محمد علی جوہر کی بھی خواہش تھی کہ وہ آئی سی ایس آفیسر بنیں۔ لیکن وہ امتحان میں کامیاب نہیں ہوئے۔ حال ہی میں شائع ہونے والی علامہ عبداللہ یوسف علی کی سوانح حیات "Searching for Solace" کے مصنف نے اس بارے میں لکھاہے:

’’وجہ یہ تھی کہ انڈین ہسٹری جیسے مضامین کے پرچے میں ایسے سوال شامل کیے جاتے تھے جن سے امیدواروں کے ذہنی رویوں اور جذباتی تعلق کا اندازہ لگایا جاسکے۔ اس طرح امیدواروں کے بارے میں یہ جانچنے کا موقع مل جاتا تھا کہ آیا وہ برطانوی راج کے وفادار بن سکتے ہیں یا نہیں۔ مثلاً ’بتائیے آپ ٹیپو سلطان کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟‘ جیسا سوال، جو برٹش انڈیا کی ہسٹری کے پرچہ میں۱۸۹۵ء میں پوچھا گیا تھا، بڑی آسانی سے یہ بات سامنے لے آتا تھا کہ امتحان میں شریک امیدوار کس حد تک اس مسلم حکمران کی ان کارروائیوں کی تائید کرتا ہے جو اس نے برطانیہ کے خلاف کی تھیں۔‘‘

درج بالا اقتباس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حکومت برطانیہ ٹیپو سلطان سے کس حد تک خوفزدہ تھی۔ ساتھ ہی حکومت برطانیہ کے تعصب، تنگ دلی اور تنگ نظری کا اندازہ بھی لگایا جاسکتا ہے۔ یہ دلچسپ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ ٹیپو سلطان کی شخصیت وہ پیمانہ ہے جس پر انگریز اپنے وفاداروں کا انتخاب کیا کرتے تھے۔دوستوں اور دشمنوں کو جانچا کرتے تھے۔کسی نے خوب کہا ہے کہ کچھ برگزیدہ شہید ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی آزمایش، عقوبتِ مطّہرہ اور شہادتِ عظمیٰ ان کی موت کے ساتھ ختم نہیں ہوتی۔ ربِّ جلیل انہیں شہادتِ جاریہ کی سعادت سے سرفراز فرماتا ہے۔


Thursday, December 27, 2012

مجبوری


ایک گرلز کالج میں سرکاری تفتیش آئی اور کالج کے سارے کلاسیز میں گھوم گھوم کر لڑکیوںکے بیگ کی تلاشی کرنے لگی ،ایک ایک لڑکی کے بیگ کی تفتیش کی گئی ،کسی بھی پرس میں کتابیں ،کاپیاں اورلازمی اوراق کے علاوہ کوئی ممنوع شے پائی نہیں گئی ، البتہ ایک آخری کلاس باقی رہ گیاتھا ، اوریہی جائے حادثہ تھا ،حادثہ کیاتھا ،اورکیاپیش آیا؟!تفتیشی کمیٹی ہال میں داخل ہوئی اور ساری لڑکیوں سے گذارش کی کہ تفتیش کے لیے اپنا اپنا پرس کھول کر سامنے رکھیں ،ہال کے ایک کنارے ایک طالبہ بیٹھی تھی ،اس کی پریشانی بڑھ گئی تھی ،وہ تفتیشی کمیٹی پردزدیدہ نگاہ ڈال رہی تھی اور شرم سے پانی پانی ہورہی تھی ۔اس نے اپنے پرس پرہاتھ رکھاہوا تھا !!تفتیش شروع ہوچکی ہے ،اس کی باری آنے ہی والی ہے ،لڑکی کی پریشانی بڑھتی جارہی ہے …. چندمنٹوں میں لڑکی کے پرس کے پاس تفتیشی کمیٹی پہنچ چکی ہے ،لڑکی نے پرس کو زورسے پکڑ لیاگویا وہ خاموش زبان سے کہنا چاہتی ہوکہ آپ لوگ اسے ہرگزنہیں کھول سکتے ، اسے کہاجارہا ہے ،پرس کھولو! تفتیش کی طرف دیکھ رہی ہے اور زبان بند ہے ،پرس کو سینے سے چپکا لی ہوئی ہے ، تفتیش نے پھرکہا : پرس ہمارے حوالے کرو،لڑکی زور سے چلاکر بولتی ہے : نہیں میں نہیں دے سکتی ۔ پوری تفتیشی کمیٹی اس لڑکی کے پاس جمع ہوگئی ،سخت بحث ومباحثہ شروع ہوگیا ۔ ہال کی ساری طالبات پریشان ہیں ،آخر رازکیا ہے ؟حقیقت کیا ہے ؟ بالآخر لڑکی سے اس کا پرس چھین لیا گیا،ساری لڑکیاں خاموش ….لکچر بند …. ہر طرف سناٹا چھا چکا ہے۔پتہ نہیں کیا ہوگا …. پرس میں کیاچیز ہے ؟تفتیشی کمیٹی طالبہ کا پرس لیے کالج کے آفس میں گئی ،طالبہ آفس میںآئی ،ادھراس کی آنکھوں سے آنسوو ں کی بارش ہورہی تھی ،سب کی طرف غصہ سے دیکھ رہی تھی کہ بھرے مجمع کے سامنے اسے رسوا کیا گیا تھا ، اسے بٹھایا گیا، کالج کی ڈائرکٹر نے اپنے سامنے پرس کھلوایا، طالبہ نے پرس کھولا ،یااللہ ! کیاتھا پرس میں ….؟ آپ کیا گمان کرسکتے ہیں ….؟پرس میں کوئی ممنوع شے نہ تھی ،نہ فحش تصویریںتھیں ، واللہ ایسی کوئی چیز نہ تھی …. اس میں روٹی کے چند ٹکڑ ے تھے ، اور استعمال شدہ سنڈویچ کے باقی حصے تھے ، بس یہی تھے اورکچھ نہیں ۔ جب اس سلسلے میں اس سے بات کی گئی تو اس نے کہا : ساری طالبات جب ناشتہ کرلیتی ہیں تو ٹوٹے پھوٹے روٹی کے ٹکڑے جمع کرلیتی ہوں جس میں سے کچھ کھاتی ہوں اور کچھ اپنے اہل خانہ کے لیے لے کر جاتی ہوں۔ جی ہاں! اپنی ماں اور بہنوں کے لیے ….تاکہ انہیں دوپہر اور رات کا کھانا میسر ہو سکے ۔ ہم تنگ دست ہیں ،ہماری کوئی کفالت کرنے والا نہیں، ہماری کوئی خبر بھی نہیں لیتا ۔ اور پرس کھولنے سے انکار کرنے کی وجہ صرف یہی تھی کہ مبادا میری کلاس کی سہیلیاں میری حالت کو جان جائیں اور مجھے شرمندگی اٹھانی پڑے ۔ میری طرف سے بے ادبی ہوئی ہے تواس کے لیے میں آپ سب سے معافی کی خواستگار ہوں۔یہ دلدوز منظر کیاتھا کہ سب کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں ،اللہ پاک ہر شخص کو ایسی مجبوری سے بچائے ،اور ایسے بُرے دن کسی کو نہ دیکھنے پڑیں ۔بھائیو اور بہنو! یہ منظر ان مختلف المناک مناظر میں سے ایک ہے، جو ممکن ہے ہمارے پڑوس میں ہو اور ہم اسے نہ جانتے ہوں،یا بسا اوقات ایسے لوگوں سے نظریں اوجھل کئے ہوئے ہوں ۔

Sunday, December 23, 2012

پاکستان:




پاکستان:

جہاں جوتے خریدنے کے بھی پیسے نہ ہوں اور کوئی ہاشم خان سکواش کے میدان میں جھنڈا گاڑ دے اور پھر اگلے باون برس تک اس کا خاندان یہ جھنڈا نہ گرنے دے۔


جہاں ملک کے اڑتیس فیصد بچے پہلی جماعت بھی مکمل کیے بغیر سکول سے ڈراپ آؤٹ ہوجائیں اور کوئی علی معین نوازش ایک ہی برس میں اکیس مضامین میں اے لیول لینے کا عالمی ریکارڈ قائم کردے،

جہاں ولید امجد ملک اقوامِ متحدہ کے تحت انسانی حقوق پر مضمون نگاری کے عالمی مقابلے میں اول آجائے۔

جہاں نو سالہ ارفع کریم دنیا کی کم عمر ترین مائیکرو سوفٹ کمپیوٹر انجینیر کے طور پر ابھر آئے۔

جہاں نابیناؤں کے لیے نہ تعلیم کی ضمانت ہو اور نہ ہی روزگار کی وہاں کے نابیناؤں کی کرکٹ ٹیم ایک نہیں دو ورلڈ کپ جیت جائے۔

جہاں کے پہاڑی لوگ غیرملکی کوہ پیماؤں کے قلی بن کر گھر کا چولہا جلنے پر خوش ہوجائیں اور ان میں سے کوئی نذیر صابر اور پھر کوئی حسن صدپارہ ماؤنٹ ایورسٹ سر کر لے۔

جہاں ایم ایم عالم نامی ایک پائیلٹ ایک پرانے فائیٹر جہاز سے صرف ایک منٹ میں دشمنوں کے پانچ طیارے گرا کر دنیا کی ہوائی جنگ میں نہ ٹوٹنے والا ریکارڈ بنا دے

جہاں اوپر سے نیچے تک کچھ لے دیئے بغیر سرمایہ کاری کا تصور ہی محال ہو وہاں کا کوئی اسد جمال فوربس میگزین کی ٹاپ ہنڈرڈ گلوبل وینچر کیپٹلسٹ لسٹ میں آٹھویں نمبر پر آجائے۔

جہاں ایسے حالات میں بھی لوگ ایسے کارنامے سر انجام دے رہے ہو سر فخر سے بلند ہو جائے
اور اگر حالات سازگار ہو جائیں تو یہ ملک بلاشبہ دنیا کا بہترین ملک بن جائے

یہ ہے میرا وطن ، میرا فخر، میری پہچان، میرا پیارا پاکستان
مجھے فخر ہے پاکستانی ہعنے پر۔۔۔

Saturday, December 22, 2012

سنگلاخ پہاڑیوں اور خاردار جنگل میں گھرا ہوا ایک چھوٹا سا گاؤں





سنگلاخ پہاڑیوں اور خاردار جنگل میں گھرا ہوا ایک چھوٹا سا گاؤں تھا، جس میں مسلمانوں کے بیس پچیس گھر آباد تھے۔ ان کی معاشرت، ہندوانہ اثرات میں اس درجہ ڈوبی ہوئی تھی کہ رومیش علی، صفدر پانڈے، محمود مہنتی، کلثوم دیوی اور پر بھادئی جیسے نام رکھنے کا رواج عام تھا۔ گاؤں میں ایک نہایت مختصر کچی مسجد تھی جس کے دروازے پر اکثر تالا پڑا رہتا تھا جمعرات کی شام کو دروازے کے باہر ایک مٹی کا دیا جلایا جاتا تھا۔ ک
چھ لوگ نہا دھوکر آتے تھے اور مسجد کے تالے کو عقیدت سے چوم کر ہفتہ بھر کیلئے اپنے دینی فرائض سے سبکدوش ہوجاتے تھے۔

ہر دوسرے تیسرے مہینے ایک مولوی صاحب اس گاؤں میں آکر ایک دو روز کے لئے مسجد کو آباد کر جاتے تھے۔ اس دوران میں اگر کوئی شخص وفات پا گیا ہوتا، تو مولوی صاحب اس کی قبر پر جاکر فاتحہ پڑھتے تھے۔ نوزائیدہ بچوں کے کان میں اذان دیتے تھے۔ کوئی شادی طے ہوگئی ہوتی تو نکاح پڑھوا دیتے تھے۔ بیماروں کو تعویذ لکھ دیتے تھے اور اپنے اگلے دورے تک جانور ذبح کرنے کے لئے چند چھریوں پر تکبیر پڑھ جاتے تھے۔ اس طرح مولوی صاحب کی برکت سے گاؤں والوں کا دین اسلام کے ساتھ ایک کچا سا رشتہ بڑے مضبوط دھاگے کے ساتھ بندھا رہتا تھا۔

برہام پور گنجم کے اس گاؤں کو دیکھ کر زندگی میں پہلی بار میرے دل میں مسجد کے ملّا کی عظمت کا کچھ احساس پیدا ہوا۔ ایک زمانے میں ملّا اور مولوی کے القاب علم و فضل کی علامت ہوا کرتے تھے لیکن سرکار انگلشیہ کی عملداری میں جیسے جیسے ہماری تعلیم اور ثقافت پر مغربی اقدار کا رنگ و روغن چڑھتا گیا، اسی رفتار سے ملّا اور مولوی کا تقدس بھی پامال ہوتا گیا۔ رفتہ رفتہ نوبت بایں جارسید کہ یہ دونوں تعظیمی اور تکریمی الفاظ تضحیک و تحقیر کی ترکش کے تیر بن گئے۔ داڑھیوں والے ٹھوٹھ اور ناخواندہ لوگوں کو مذاق ہی مذاق میں ملّا کا لقب ملنے لگا۔ کالجوں ، یونیورسٹیوں اور دفتروں میں کوٹ پتلون پہنے بغیر دینی رجحان رکھنے والوں کو طنز و تشنیع کے طور پر مولوی کہا جاتا تھا۔ مسجدوں کے پیش اماموں پر جمعراتی ، شبراتی، عیدی، بقرعیدی اور فاتحہ درود پڑھ کر روٹیاں توڑنے والے قل اعوذئے ملّاؤں کی پھبتیاں کسی جانے لگیں۔ لُو سے جھلسی ہوئی گرم دوپہر میں خس کی ٹٹیاں لگا کر پنکھوں کے نیچے بیٹھنے والے یہ بھول گئے کہ محلے کی مسجد میں ظہر کی اذان ہر روز عین وقت پر اپنے آپ کس طرح ہوتی رہتی ہے؟ کڑکڑاتے ہوئے جاڑوں میں نرم و گرم لحافوں میں لپٹے ہوئے اجسام کو اس بات پر کبھی حیرت نہ ہوئی کہ اتنی صبح منہ اندھیرے اٹھ کر فجر کی اذان اس قدر پابندی سے کون دے جاتا ہے؟

دن ہو یا رات، آندھی ہو یا طوفان، امن ہو یا فساد، دور ہو یا نزدیک، ہر زمانے میں شہر شہر، گلی گلی ، قریہ قریہ، چھوٹی بڑی، کچی پکی مسجدیں اسی ایک ملّا کے دم سے آباد تھیں جو خیرات کے ٹکڑوں پر مدرسوں میں پڑا تھا اور دربدر کی ٹھوکریں کھا کر گھر بار سے دور کہیں اللہ کے کسی گھر میں سرچھپا کر بیٹھ رہا تھا۔ اس کی پشت پر نہ کوئی تنظیم تھی، نہ کوئی فنڈ تھا، نہ کوئی تحریک تھی۔ اپنوں کی بے اعتنائی، بیگانوں کی مخاصمت، ماحول کی بے حسی اور معاشرے کی کج ادائی کے باوجود اس نے نہ اپنی وضع قطع کو بدلا اور نہ اپنے لباس کی مخصوص وردی کو چھوڑا۔ اپنی استعداد اور دوسروں کی توفیق کے مطابق اس نے کہیں دین کی شمع ، کہیں دین کا شعلہ، کہیں دین کی چنگاری روشن رکھی۔ برہام پور گنجم کے گاؤں کی طرح جہاں دین کی چنگاری بھی گل ہوچکی تھی، ملّا نے اس کی راکھ ہی کو سمیٹ سمیٹ کر بادِ مخالف کے جھونکوں میں اڑ جانے سے محفوظ رکھا۔

یہ ملّا ہی کا فیض تھا کہ کہیں کام کے مسلمان، کہیں نام کے مسلمان، کہیں محض نصف نام کے مسلمان ثابت و سالم و برقرار رہے اور جب سیاسی میدان میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان آبادی کے اعداد و شمار کی جنگ ہوئی تو ان سب کا اندارج مردم شماری کے صحیح کالم میں موجود تھا۔ برصغیر کے مسلمان عموماً اور پاکستان کے مسلمان خصوصاً ملّا کے اس احسان عظیم سے کسی طرح سبکدوش نہیں ہوسکتے جس نے کسی نہ کسی طرح کسی نہ کسی حد تک ان کے تشخص کی بنیاد کو ہر دور اور ہر زمانے میں قائم رکھا۔

شہاب نامہ از قدرت اللہ شہاب

Friday, December 21, 2012

سفید فام عورت



جنوب افریقیا کے شہر جوھانسبرگ سے لندن آتے ہوئے پرواز کے دوران، اکانومی کلاس میں ایک سفید فام عورت جس کی عمر پچاس یا اس سے کچھ زیادہ تھی کی نشست اتفاقا ایک سیاہ فام آدمی کے ساتھ بن گئی۔

عورت کی بے چینی سے صاف لگ رہا تھا کہ وہ اس صورتحال سے قطعی خوش نہیں ہے۔ اس نے گھنٹی دیکر ایئر ہوسٹس کو بلایا اور کہا کہ تم اندازہ لگا سکتی ہو کہ میں کس قدر بری صورتحال سے دوچار ہوں۔ تم لوگوں نے مجھے ایک سیاہ فام کے پہلو میں بٹھا دیا ہے۔ میں اس بات پر قطعی راضی نہیں ہوں کہ ایسے گندے شخص کے ساتھ سفر کروں۔ تم لوگ میرے لئے متبادل سیٹ کا بندوبست کرو۔
ایئر ہوسٹس جو کہ ایک عرب ملک سے تعلق رکھنے والی تھی نے اس عورت سے کہا، محترمہ آپ تسلی رکھیں، ویسے تو جہاز مکمل طور پر بھرا ہوا ہے لیکن میں جلد ہی کوشش کرتی ہوں کہ کہیں کوئی ایک خالی کرسی تلاش کروں۔

ایئرہوسٹس گئی اور کچھ ہی لمحات کے بعد لوٹی تو اس عورت سے کہا، محترمہ، جس طرح کہ میں نے آپ کو بتایا تھا کہ جہاز تو مکمل طور پر بھرا ہوا ہے اور اکانومی کلاس میں ایک بھی کرسی خالی نہیں ہے۔ میں نے کیپٹن کو صورتحال سے آگاہ کیا تو اس نے بزنس کلاس کو بھی چیک کیا مگر وہاں پر بھی کوئی سیٹ خالی نہیں تھی۔ اتفاق سے ہمارے پاس فرسٹ کلاس میں ایک سیٹ خالی ہے۔

اس سے پہلے کہ وہ سفید فام عورت کچھ کہتی، ایئرہوسٹس نے اپنی بات کو مکمل کرتے ہوئے کہا، ہماری کمپنی ویسے تو کسی اکانومی کلاس کے مسافر کو فرسٹ کلاس میں نہیں بٹھاتی، لیکن اس خصوصی صورتحال میں کیپٹن نے فیصلہ کیا ہے کہ کوئی شخص ایسے گندے شخص کے ساتھ بیٹھ کر اپنا سفر ہرگز طے نا کرے۔ لہذا۔۔۔۔

ایئرہوسٹس نے اپنا رخ سیاہ فام کی طرف کرتے ہوئے کہا، جناب محترم، کیا آپ اپنا دستی سامان اُٹھا کر میرے ساتھ تشریف لائیں گے؟ ہم نے آپ کیلئے فرسٹ کلاس میں متبادل سیٹ کا انتظام کیا ہے۔
آس پاس کے مسافر جو اس صورتحال کو بغور دیکھ رہے تھے، ایسے فیصلے کی قطعی توقع نہیں رکھ رہے تھے۔ لوگوں نے کھڑے ہو کر پر جوش انداز سے تالیاں بجا کر اس فعل کو سراہا جو کہ اس سفید فام عورت کے منہ پر ایک قسم کا تھپڑ تھا۔

بنی آدم جس کی پیدائش نطفے سے ہوئی, جس کی اصلیت مٹی ہے, جس کے اعلیٰ ترین لباس ایک کیڑے سے بنتے ہیں, جس کا لذیذ ترین کھانا ایک (شہد کی) مکھی کے لعاب سے بنتا ہے، جس کا ٹھکانا ایک وحشتناک قبر ہے اور ایسا تکبر اور ایسی بڑائی

خود بھی پڑھیں اور دوستوں کو بھی شیئر کریں

Wednesday, December 19, 2012

قائد اعظم نے فرمایا۔ یہ ریاست یا حکومت کا کام نہیں کہ گورنر جنرل کو ان کی پسند کا کھانا سرکاری خرچ پر کھلائے۔




قائد اعظم کھانا بہت کم کھاتے تھے۔ کمزور بوڑھے اور بیمار تھے۔ مرض الموت میں جسمانی بہت بڑھ گئی۔ زیارت میں قیام کے دوران ان کے معالج، ڈاکٹر الہی بحش نے تشویش ظاہر کی کہ کم خوراکی کی وجہ سے ان کی خالت تیزی سے خراب ہو رہی ہے۔ ان کی رائے تھی کہ لاہور میں موجود دو باورچی جو کہ کپور تھلا برادرزکے نام سے مشہور ہیں، کو زیارت بھیجا جائے کیونکہ ان کے ہاتھ کا بنا ہوا کھانا قائداعظم کو بہت مرغوب ہے۔
کپور تھلا برادرز باورچیوں کی تلاش شروع ہوئی۔ وہ لاہور چھوڑ کر لائل پور چلے گئے تھے، زیارت پہنچ کر کھانا بنایا۔ اس روز قائد اعظم نے کچھ لقمے شوق سے کھائے۔ کھانے کے بعد اپنے پرائیویٹ سیکرٹری فرخ امین کو بلایا اور کھانے میں فرق کی وجہ دریافت کی۔ وجہ بتائی گئی۔ وہ ناخوش ہوئے چیک بک منگوائی۔ باورچیوں کے آنے جانے کا حساب کیا۔ رقم کا چیک کاٹا اور رقم سرکاری خزانے میں جمع کرائی۔ باورچی رخصت کیے اور فرمایا۔ یہ ریاست یا حکومت کا کام نہیں کہ گورنر جنرل کو ان کی پسند کا کھانا سرکاری خرچ پر کھلائے۔
(لوح ایام - مختار مسعود )
سب کا بھلا سب کی خیر - شب بخیر - الله حافظ

Monday, December 17, 2012

کیپٹن احسان ملک کی تلاش میں ! .... (۱)



کیپٹن احسان ملک کی تلاش میں ! .... (۱)

صحافی | سکندر خان بلوچ
*****************************************************

28 جولائی 1999ء کو بھارتی فوج کے فیلڈمارشل مانک شا کو ایک ٹی۔وی انٹرویو کے لیے بلایا گیا۔ مانک شا پارسی تھے اورتب ان کی عمر 85 برس تھی۔ وہ اس انٹرویو کے نو برس بعد 94 سال کی عمر میں فوت ہوئے۔ 1971ء کی جنگ میں جب بھارتی افواج نے بنگلہ دیش میں پاکستان کو شکست دی تو مانک شا اس وقت چی
ف آف آرمی سٹاف تھے۔ وہ اس جنگ کے دو برس بعد 1973ء میں سبک دوش ہوئے۔
کرن تھاپر نے ایک ایسا سوال مانک شا سے کردیا جس کے جواب نے ان کروڑوں لوگوں کو ششدر کردیا جو اس وقت ٹی۔وی پر ان کا انٹرویو دیکھ رہے تھے۔ کرن تھاپر نے پوچھا کہ فیلڈمارشل صاحب آپ کو یہ جنگ جیتنے کا کتنا کریڈٹ جاتا ہے کیونکہ پاکستانی فوج نے وہ بہادری نہیں دکھائی جس کی ان سے توقع کی جارہی تھی۔
فیلڈمارشل مانک شا ایک لمحے میں ایسے پیشہ ور فوجی بن گئے جو اپنے دشمن کی تعریف کرنے میں بغض سے کام نہیں لیتے۔ مانک شا نے کہا، یہ بات غلط تھی۔ پاکستانی فوج بڑی بہادری سے ڈھاکا میں لڑی تھی لیکن ان کے جیتنے کا کوئی امکان نہیں تھا۔ وہ اپنے مرکز سے ہزاروں میل دور جنگ لڑ رہے تھے جبکہ میں نے اپنی ساری جنگی تیاریاں آٹھ سے نو میل کے علاقے میں کرنا تھیں۔ ایک پاکستانی فوجی کے مقابلے میں میرے پاس پندرہ بھارتی فوجی تھے لہٰذا اپنی تمام تر بہادری کے باوجود پاکستانی فوج یہ جنگ نہیں جیت سکتی تھی۔
کرن تھاپر کو کوئی خیال آیا اور اس نے پوچھا کہ فیلڈمارشل ہم نے کوئی کہانی سنی ہے کہ پاکستانی فوج کا ایک کیپٹن احسان ملک تھا جس نے کومان پل کے محاذ پر بھارتی فوجیوں کے خلاف اتنی ناقابلِ یقین بہادری دکھائی کہ آپ نے جنگ کے بعد بھارتی فوج کا چیف آف آرمی سٹاف ہوتے ہوئے اسے ایک خط لکھا جس میں اس کی بہادری اور اپنے ملک کے لیے اتنے ناقابل یقین انداز میں لڑنے پر اسے خراجِ تحسین پیش کیا گیا تھا۔

**************************************************************************

پاکستانی فوج نے جتنی بھی جنگیں لڑی ہیں اس میں دو چیزوں پر ہمارے دوست، دشمن اور غیر جانبدار ناقدین متفق ہیں۔ وہ یہ کہ تمام جنگوں میں ہماری اعلیٰ فوجی قیادت قوم کی امیدوں پر پوری نہ اتر سکی لیکن جونیئر لیڈرشپ نے بہادری اور جرات کی اعلیٰ مثالیں قائم کیں جو ہم سب کےلئے باعثِ فخر ہیں۔ یہی کچھ 1965میں ہوا، 1971میں ہوا، 1999 میں ہوا اور اب بھی ہو رہا ہے۔ فوجیوں کا کام تو پروانوں کی طرح وطن کی آن پر قربان ہونا ہے باقی قوم کی مرضی وہ اسے پذیرائی بخشے یا نہ بخشے۔ موجودہ مضمون کا تعلق بھی پاکستان کے ایک ایسے ہی فرزندِ عظیم کیپٹن احسن ملک اور اسکی یونٹ31 بلوچ رجمنٹ سے ہے۔ 
1971ءکی جنگ میںکمال پور (جمالپور کا سب سیکٹر) کی حفاظت کی ذمہ داری 31 بلوچ کو سونپی گئی جسے کرنل سلطان احمد جیسے دلیر اور بہادر آفیسر کمان کر رہے تھے۔ یہ ایک قدرتی امر ہے کہ فوج میں یونٹ کی سطح پر بہادری اور بزدلی کا حوصلہ کمانڈنگ آفیسر سے شروع ہوتا ہے اور فوج کی سطح پر اعلیٰ فوجی قیادت سے۔ ایک اچھا اور دلیر کمانڈر ایک کمزور فوج کو بھی بہتر طریقے سے لڑا کر مطلوبہ نتائج حاصل کر سکتا ہے جبکہ کمزور اور بزدل کمانڈر اعلیٰ تربیت یافتہ فوج کا بھی ستیاناس کر دیتا ہے۔ یہ حقیقت پاکستان کی تمام جنگوں میں خصوصاً مشرقی پاکستان کے دفاع میں کھل کر سامنے آئی۔ دلیر اور پیشہ ور کمانڈرز نے آخر تک ہمت نہ ہاری اور بھارتیوں کو اپنی لاشوں پر سے گزر کر مشرقی پاکستان پر قبضہ کرنا پڑا۔ جونیئر آفیسرز کو جہاں کہیں بھی کھل کر لڑنے کا موقع ملا انہوں نے اپنی جان پر کھیل کر ایک ایک انچ زمین کی حفاظت کی۔ بہت سے آفیسرز اور جوانوں نے اپنے فرض کی ادائیگی میں جامِ شہادت نوش کرکے دشمن کو آگے بڑھنے سے روک دیا۔ بہت سے آفیسرز اور جوان ایسے بھی تھے جو بھوکے پیاسے آخری دم تک لڑے اور دشمن کو روکے رکھا۔ باامر مجبوری اس وقت ہتھیار ڈالے جب انہیں اعلیٰ قیادت کی طرف سے ایسا کرنے کےلئے کہا گیا۔ ان بہت سی روشن مثالوں میں ایک مثال کیپٹن احسن ملک کی ہے۔ 
31 بلوچ کے کمانڈنگ آفیسر کرنل سلطان احمد چونکہ بذاتِ خود ایک دلیر افسر تھے اس لئے انکے ماتحت بھی جذبہ ایمانی اور جذبہ سر فروشی سے سرشار تھے۔ کیپٹن احسن ملک کو کمال پور کے علاقے میں آگے ایک بارڈر پوسٹ پر حفاظت کےلئے بھیجا گیا۔ یہ علاقہ چھوٹی چھوٹی تین پوسٹوں پر مشتمل تھا۔ کیپٹن ملک کے پاس 70 جوان اپنی یونٹ31 بلوچ کے اور تقریباً اتنی ہی نفری مغربی پاکستان سے حال ہی میں گئے ہوئے سکاوٹس (پیرا ملٹری) کے جوان تھے۔ ان بارڈر پوسٹوں کی دفاعی ذمہ داری تقریباً 2 میل طویل تھی حالانکہ ایک کمپنی کےلئے اتنے طویل فرنٹ کی حفاظت کرنا نا ممکن ہے لیکن اس وقت حالات ہی ایسے تھے۔ سامنے بھارت کا95 برگیڈ گروپ حملے کی پوزیشن میں تھا جسے بریگیڈئر ہردیو سنگھ کلیر کمان کر رہے تھے۔ عام طور پر ایک مکمل برگیڈ میں تین انفنٹری بٹالین ہوتی ہیں لیکن اس برگیڈ گروپ میں 4 انفنٹری بٹالین کے علاوہ ٹینک اور بھاری توپخانہ کی مکمل رجمنٹس اور تقریباً2 بٹالین کے قریب تربیت یافتہ مکتی باہنی بھی موجود تھیں جن میں زیادہ تر آفیسرز اور جوان پاکستانی فوج کے بھگوڑے تھے۔ یہ بریگیڈ گروپ بھارت کی کمیونیکیشن زون کور کے ایک ڈویژن کا حصہ تھا جسے جنرل گور بخش سنگھ گِل کمانڈ کر رہے تھے۔ 
بریگیڈئر کلیر (Kler) دراصل سگنل کور کا آفیسر تھا جسے جنگ میں95 برگیڈ گروپ کی کمان دیدی گئی۔ وہ اپنے آپ کو ہر قیمت پر ایک جنگجو کمانڈر ثابت کرنا چاہتا تھا۔ پاکستانی فوج کی پوسٹوں پر تعینات جوانوں اور افسروں کو ڈرانے کےلئے اور مخالفت ختم کرنے کےلئے اس نے جنگ شروع ہونے سے بھی بہت پہلے جولائی میں ہی گوریلا کارروائیاں شروع کر دیں۔ اس نے مکتی باہنی اور اپنے جوانوں پر مشتمل گروپ بنائے جنہیں پاکستانی علاقے میں داخل کرکے گوریلا کارروائیوں کا حکم دیا۔ ان گوریلا پارٹیوں نے بہت کوشش کی لیکن کیپٹن ملک کے علاقے پر قبضہ نہ کر سکے۔ 22 اکتوبر اور 14 نومبر کو بٹالین سطح کے دو شدید حملے کئے گئے لیکن کامیابی نصیب نہ ہوئی۔ کیپٹن ملک اور اسکے جوان اپنی اپنی جگہ ڈٹے رہے۔ 
بریگیڈئر کلیر جنگ کے شروع میں ہی ناکامی کا دھبہ نہیں لگوانا چاہتا تھا۔ لہٰذا مکتی باہنی اور اپنے گوریلا سپاہیوں کے بار بار حملوں میں ناکامی سے تلملا اُٹھا۔ کیپٹن ملک کو سبق سکھانے کےلئے اس نے اپنی ایک اعلیٰ ترین یونٹ13گارڈز بٹالین کو نومبر کے تیسرے ہفتے کیپٹن ملک کی کمپنی پر حملے کا حکم دیا۔ حملے سے پہلے دو دن کمپنی پر بھاری توپخانہ سے گولوں کی بارش کی گئی۔ دو دن کے مسلسل گولے بھی کیپٹن ملک کے حوصلے نہ توڑ سکے۔ 13گارڈز بٹالین نے جب حملہ کیا تو کیپٹن ملک اور اسکے جوانوں نے جوانمردی سے مقابلہ کیا۔ یہ حملہ تو ناکام ہوگیا لیکن 13گارڈز بٹالین نے کمپنی کے پیچھے والے علاقے پر قبضہ کرکے بلاکنگ پوزیشنیں قائم کر لیں۔ توپخانہ کی مدد نہ ہونے کی وجہ سے 31 بلوچ اس علاقے کو نہ بچا سکی اور اس علاقہ پر قبضہ کی وجہ سے کیپٹن ملک کی پوسٹ اپنی یونٹ سے کٹ گئی۔ سپلائی کا کوئی راستہ نہ بچا۔ ملک اور اسکے جوانوں نے پھر بھی ہمت نہ ہاری، آخری گولی اور آخری جوان تک مقابلے کا فیصلہ کیا۔ 
3 دسمبر کو 31 بلوچ کے میجر محمد ایوب نے کچھ جوانوں کےساتھ 13گارڈز کی بلاکنگ پوزیشن پر حملہ کیا تاکہ کیپٹن ملک اور اسکے جوانوں کےساتھ رابطہ بحال ہو سکے اور انہیں سپلائی اور راشن دیا جا سکے لیکن میجر ایوب کامیاب نہ ہو سکا۔ اس نے 4 دسمبر کو اس پوسٹ تک رابطہ کرنے کی دوبارہ کوشش کی اور شہید ہو گیا۔ (انا للہ وانا الیہ راجعون) بھارتیوں کابھی کافی نقصان ہوا۔ اس دوران بریگیڈئر کلیر نے سامنے سے کیپٹن ملک کی کمپنی پر ہر قسم کا دباﺅ جاری رکھا لیکن بہت نقصان اٹھایا۔ ایک پاکستانی کپتان کے محض 70 جوانوں پر ایک بریگیڈ کے مسلسل حملوں کا ناکام ہونا کلیر کی بہت بڑی بے عزتی تھی۔ لہٰذا اس نے فیصلہ کیا کہ مسلسل حملوں کی بجائے اس دستے کو بھوکا پیاسا مارا جائے۔ اس پوسٹ کے ارد گرد کلیر نے اپنی تین بٹالین بٹھا دیں تاکہ انہیں کسی قسم کی سپلائی نہ پہنچ سکے۔ آفرین کہ ملک پھر بھی اپنی جگہ پر ڈٹا رہا۔ خوشونت سنگھ جس نے اس جنگ کی حقیقی رپورٹنگ کی تھی اپنی جنگی ڈائری میں لکھا : 
Kler then \\\"decided to lay a siege to Kamalpur and break down its will to resist. Getting wary because of casualties, successive failures and demoralization among the attacking troops, he decided to starve out the garrison by prolonged siege.\\\"
ترجمہ : ”مسلسل ناکامیوں، بڑھتی ہوئی اموات، پورے بریگیڈ میں پست ہمتی اور خوف کی وجہ سے کلیر نے فیصلہ کیا کہ اس کمپنی کو اپنے حصار میں لیکر بھوک پیاس سے مارا جائے تاکہ ان کی مقابلہ کرنے کی ہمت کو توڑ دیا جائے۔“
خوشونت سنگھ مزید طنز کرتے ہوئے لکھتا ہے :
\\\"A Brigade is demoralized by a company\\\"
”حیران کن بات یہ ہے کہ پورا بریگیڈ ایک کمپنی سے ڈرا ہوا ہے“
خصوصاً جبکہ کمپنی کے پاس توپخانہ بھی نہ تھا۔ خوشونت سنگھ نے اس دلیرانہ مقابلے کو سچے انداز میں خوبصورت طریقے سے بیان کیا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ ”کلیر غصے سے پاگل ہوگیا“ اس نے کئی دن کے حصار کے بعد ایک اور بٹالین کو حملے کا حکم دیا۔ یہ بٹالین بغیر زیادہ نقصان کے کمپنی پوزیشن کے نزدیک پہنچ گئی اور حملے کےلئے پوزیشن لی۔ ملک نے دو مارٹر گنوں اور رائفل فائر سے شدید مقابلہ کیا۔ (جاری ہے)
**************************
حملہ آور کمانڈنگ آفیسر کی بدقسمتی کہ اسکے مورچہ کیساتھ والے مورچہ پر ایک مارٹر کا گولہ گرا اور مورچے میں موجود چاروں جوان مر گئے۔ انکے اعضا ہَوا میں اُڑتے ہوئے دکھائی دئیے۔ کیپٹن ملک جو کئی دنوں سے بُرے حالات میں بریگیڈ کا مقابلہ کر رہا تھا اسکی ہمت تو قائم رہی لیکن حملہ آور بھارتی کمانڈنگ آفیسر کی ہمت جواب دے گئی۔ وہ خوف سے کانپنے لگا اور مزید آگے بڑھنے کا حوصلہ نہ کر سکا۔ کیپٹن ملک کا ساتھ والی پوسٹوں سے اور پیچھے بٹالین سے کئی دنوں سے رابطہ کٹ چکا تھا۔ کئی دنوں سے مسلسل پورے بریگیڈ کی فائرنگ کی زد میں رہا لیکن ہمت نہ ہاری اور اب یہ حالت تھی کہ بریگیڈئر کلیر کی کوئی یونٹ اس کمپنی پر حملے کیلئے تیار نہ تھی۔ پورے بریگیڈ میں اس قدر خوف پھیل گیا کہ کوئی آگے جانے کو تیار نہ تھا۔ 
جب بریگیڈئر کلیر کی فوج خوف سے آگے نہ بڑھ سکی تو اس نے یہ یونٹ واپس بلا لی اور بھارتی ائر فورس کی مدد مانگی۔ بھارتی مگ 21 طیاروں نے اس معمولی سی پوسٹ پر سارا دن صبح سے شام تک اس قدر بمباری کی کہ پورا علاقہ پاوڈر بن گیا لیکن پھر بھی آگے کوئی نہ آ سکا۔ جب ڈویژن کمانڈر جنرل گور بخش سنگھ نے بریگیڈ کی یہ بے بسی دیکھی تو اس نے خود اس علاقے کی کمان سنبھالنے کا فیصلہ کیا۔ جنرل بخش نے مکتی باہنی کے ایک آدمی کے ہاتھ کیپٹن ملک کو ایک لیٹر بھیجا ”تم جو کچھ بھی کرو ہم یہ پوسٹ ہر قیمت پر ختم کرینگے۔ لہٰذا مزید اموات سے بچنے کیلئے مقابلہ ختم کرو“ لیکن اسکے جواب میں ملک نے پھر فائرنگ شروع کر دی۔ جنرل بخش کو بھی بہت غصہ آیا اس نے شدید بمباری کا دوبارہ حکم دیا جو سارا دن جاری رہی۔ شام کے وقت ایک اور لیٹر بھیجا گیا۔ حیران کن بات کہ ملک تاحال زندہ تھا اور اسکا حوصلہ اسی طرح جوان۔ اس خط کا جواب بھی کیپٹن ملک نے شدید فائرنگ کرکے دیا۔ 
جب بھارتی بریگیڈ زچ ہوگیا اور جنرل بے بس تو پیچھے پاکستانی ہیڈ کوارٹر سے رابطہ کیا گیا۔ اس وقت تک پاکستانی ہیڈ کوارٹر کی ہمت بھی جواب دے چکی تھی۔ چونکہ اور کوئی رابطہ نہ تھا لہٰذا شام کو ریڈیو پر کیپٹن احسن ملک کو ہتھیار ڈالنے کا حکم دیا گیا۔ اس حکم پر ملک اور اسکے جوانوں نے کئی دن کے بھوکے پیاسے، بھیگی آنکھوں سے سفید جھنڈا لہرایا اور شام سات بجے اپنے آپکو بھارتی فوج کے حوالے کر دیا۔ خوشونت سنگھ کیپٹن ملک کی بہادری کی تعریف کرتے ہوئے لکھتا ہے ”کیپٹن ملک نے بہت بہادری اور جوانمردی سے مقابلہ کیا اور گھیرے میں لینے والے پورے بریگیڈ کو بغیر کسی مدد کے (ائر فورس، توپخانہ یا ٹینک) 21 دنوں تک روکے رکھا“ اس مقابلے کی مکمل کارروائی بھارتی چیف آف آرمی سٹاف فیلڈ مارشل مانک شا تک پہنچی۔ وہ کیپٹن ملک کی بہادری سے بہت متاثر ہوا۔ روایتی دلیر جنرل کی طرح کیپٹن ملک کو مبارکباد کا ذاتی پیغام بھیجا اور اس جراتمندانہ مقابلے پر شاباش دی۔ 
ڈویژن کمانڈر جنرل گور بخش سنگھ بھی ایک بہادر اور بہادرانہ روایات پر یقین رکھنے والا سولجر تھا‘ جب اسے پتہ چلا کہ کیپٹن ملک نے ہتھیار ڈال دئیے ہیں تو اس نے ملک سے مل کر ذاتی طور پر مبارکباد دینے کا فیصلہ کیا۔ وہ خود بھی ملک کی بہادری سے بہت متاثر تھا۔ وہ اپنے ہیڈ کوارٹر سے جیپ میں ملک کی طرف روانہ ہوا۔ جیپ بریگیڈئر کلیر چلا رہا تھا لیکن بدقسمتی سے یہ جیپ راستے میں ایک بارودی سرنگ کے اوپر حادثے کا شکار ہوگئی۔ جنرل گور بخش سنگھ بُرے طریقے سے زخمی ہوگیا اور اسے فوری ہسپتال لے جایاگیا۔ بریگیڈئر کلیر بھی زخمی ہوگیا۔ جنرل گور بخش سنگھ کی جگہ وقتی طور پر جنرل گندھا وانا گرا نے کمان سنبھالی جو ساتھ والا ڈویژن کمانڈ کر رہا تھا۔ اسے سارے معاملے کا پتہ نہ تھا۔ کیپٹن احسن ملک جیسے سولجرز پاکستان آرمی اور پاکستانی قوم کا عظیم سرمایہ ہیں اور عظیم روایات کے امین۔ قابلِ تعظیم ہے وہ ماں جس نے ایسے عظیم فرزند کوجنم دیا اور پرورش کی۔ 
٭۔ یہ تمام واقعہ Col. Brian Cloughley نے بھی اپنی مشہو رکتابHistory of the Pakistan Army میں درج کیا۔ کرنل کلاولے آسٹریلوی شہری تھا اور کئی سال یہاں آسٹریلین سفارتخانے میں ملٹری اتاشی رہا۔ 
٭۔ یہاں کیپٹن احسن ملک کے کمانڈنگ افسر کرنل سلطان احمد کا ذکر نہ کرنا زیادتی ہوگی۔ کرنل سلطان احمد (مرحوم) پاکستان آرمی کے کمانڈو گروپ کے ایک بہت ہی دلیر آفیسر تھے جنہوں نے 1965 اور 1971کی دونوں جنگوں میں ستارہ جرات حاصل کیا۔ کرنل صاحب ان دنوں مشرقی پاکستان میں جمال پور سیکٹر کے سیکٹر کمانڈر تھے اور31 بلوچ کمانڈ کر رہے تھے۔ انہیں بھی بھارتی بریگیڈ کمانڈر بریگیڈئر کلیر نے ایک خط لکھا تھا ۔
”محترم کرنل!
آپکو تمام اطراف سے گھیر لیا گیا ہے لہٰذا آپ کیلئے بچ نکلنے کا کوئی راستہ نہیں بچا۔ میرے پاس توپخانہ اور ہَوائی بمباری کے بھی بے پناہ وسائل موجود ہیں۔ اگر آپ اپنے جوانوں کی زندگیاں بچانا چاہتے ہیں تو میرا مشورہ ہے کہ آپ ہتھیار ڈال دیں۔ میں آپ کو یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ اگر آپ بنگالی، سویلین یا مکتی باہنی والوں کے ہاتھ لگ گئے تو آپکے ساتھ بہت بُرا سلوک ہو سکتا ہے میں آپکو شام 4.30 بجے تک کا وقت دیتا ہوں ورنہ نتائج کے ذمہ دار آپ خود ہونگے۔“
٭....٭....٭
کرنل سلطان احمدکا جواب
محترم بریگیڈئر صاحب!
”خط لکھنے کا شکریہ۔ امید ہے آپ خوش باش اور اچھے موڈ میں ہونگے۔ ہتھیار ڈالنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہمیں خوشی ہے کہ وہ دن جس کا ہم اتنے عرصے سے انتظار کر رہے تھے بالآخر آگیا ہے۔ لہٰذا آئیں انتظار کئے بغیر جنگ شروع کریں‘ جہاں تک آپکی ائر فورس سے بمباری کا تعلق ہے میرے خیال میں یہ بہت کم ہے، تمہیں زیادہ کی کوشش کرنی چاہئے۔
آپ کیساتھ مکتی باہنی والوں کو میرا سلام۔ امید ہے آپ جب پھر ملیں گے تو آپکے ہاتھ میں قلم کی بجائے سٹین گن ہوگی۔ قلم کے تو آپ ویسے ہی دھنی نظر آتے ہیں۔ میدان جنگ میں ملاقات تک خدا حافظ۔“
کمانڈر جمالپور سیکٹر
نوٹ :یہ خط ایک بوڑھے باریش بنگالی کے ہاتھ بھیجا گیا تھا جسے بہت باعزت طریقے سے کرنل صاحب اور تمام آفیسرز نے اپنے ساتھ میس میں بٹھا کر چائے پیش کی۔ مزید یہ کہ ایک لیفٹےننٹ کے مشورے پر اس خط میں ایک گولی بھی رکھ دی گئی جو کرنل سلطان اور 31 بلوچ کی طرف سے ایک واضح پیغام تھا۔ دونوں خطوط کا اصل متن میری کتاب ”جانثارانِِ وطن“ میں دیا گیا ہے یہ کتاب دوست پبلی کیشنز اسلام آباد نے 2008 میں شائع کی۔ 
اس محاذ پر خطوط کے اس تبادلے کیساتھ جنگ شروع ہوئی۔ دو دن تک پاکستانی ”پاکستان زندہ باد“ اور اللہ اکبرکے نعروں کی گونج میں لہر در لہر حملہ آور ہوئے لیکن ان کا بنیادی مقصد علاقے کا دفاع تھا۔ بریگیڈئر کلیر اور کرنل سلطان دونوں موت سے بال بال بچے۔ بریگیڈئر کلیر کے مطابق اسکے جیکٹ کی جیب گولیوں سے چھلنی تھی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ موت کتنا قریب سے اسے چُھو کر گزری۔ اسی طرح کرنل سلطان کی جیپ بارودی سرنگ پر تباہ ہوئی اسکے ساتھ لوگ بُرے طریقے سے زخمی ہوئے (ڈرائیور یوسف شہید ہو گیا) لیکن کرنل سلطان بچ گیا۔
دو دنوں بعدکرنل سلطان اپنی بٹالین لے کر ڈھاکہ پہنچا۔ یونٹ کا تیسرا حصہ راستے میں شہید ہو گیا۔ ڈھاکہ میں انہیں دشمن کے خلاف سب سے بڑا محاذ سنبھالنے کا حکم ملا جس کی تعمیل کی۔ اس یونٹ کے جوان لڑنے کیلئے تاحال تیار تھے جب اعلیٰ فوجی قیادت نے ہتھیار ڈالنے کا فیصلہ کر لیا۔ مرحوم کرنل نے ہتھیار ڈالنے والے فیصلے سے اتفاق نہ کیا۔ وہ لگاتار لڑنا چاہتا تھا۔ ہتھیار ڈالنے کے بعد بھارتی کمانڈر ان سے خصوصی طور پر ملنے آیا۔ کھانے پر دعوت دی اور بہت سارے نامہ نگاروں نے ان کا انٹرویو کیا جن میں خصوصی طور پر Christian Science Monitorکا انٹرویو بہت مشہور ہوا۔ بعد میں کرنل صاحب نے اپنی بائیوگرافی \\\"The Stolen Victory\\\" میں تمام تفصیلات درج کیں۔“
کیسے کیسے پروانے1947 سے اب تک اس پاک وطن کی حفاظت پر جانثار ہوئے لیکن افسوس کہ قوم نے ان قربانیوں کی کوئی قدرنہ کی۔ شہدائے مشرقی پاکستان پاک وطن کے عظیم فرزند تھے۔ ہماری بے حسی کہ نہ تو اُن کی یاد میں کوئی دن منایا جاتا ہے نہ ہی کوئی یادگار تعمیر کی گئ · 

Wednesday, December 12, 2012

قبول اسلام



1977میں جناب گیری میلر (Gary Miller) جو ٹورنٹو یونیورسٹی میں ماہر علمِ ریاضی اور منطق کے لیکچرار ہیں ، اور کینڈا کے ایک سرگرم مبلغ ہیں انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ عیسائیت کی عظیم خدمت کرنے کے لئے قرآن ِمجید کی سائنسی اور تاریخی غلطیوں کو دنیا کے سامنے لائیں گے ، جو اس کےمبلغ پیرو کاروں کی مدد کرے تاکہ مسلمانوں کو عیسایئت کی طرف لایا جا سکے ۔
تاہم نتیجہ اس کے بالکل برعکس تھا میلر کی دستاویز جائز تھیں 
اور تشریح اور ملاحظات مثبت تھے ۔ مسلمانوں سے بھی اچھے جو وہ قرآنِ مجید کے متعلق دے سکتے تھے ۔ اس نے قرآنِ مجید کو بالکل ایسا ہی لیا جیسا ہونا چاہیئے تھا ،اور ان کا نتیجہ یہ تھا کہ:
یہ قرآنِ مجید کسی انسان کا کام نہیں۔
پروفیسر گیری میلر کے لئے بڑا مسئلہ قرآنِ مجید کی بہت سی آیات کی بناوٹ تھی جو اسے چیلنج کر رہی تھیں للکار رہی تھیں مثلاً:
أَفَلاَ يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللّهِ لَوَجَدُواْ فِيهِ اخْتِلاَفًا كَثِيرًا۔
بھلا یہ قرآن میں غور کیوں نہیں کرتے؟ اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کا (کلام) ہوتا تو اس میں (بہت سا) اختلاف پاتے۔
سورۃ نمبر:4، النسآء، آیت نمبر82

اور اگر تم کو اس (کتاب) میں، جو ہم نے اپنے بندے (محمدﷺ عربی) پر نازل فرمائی ہے کچھ شک ہو تو اسی طرح کی ایک سورت تم بھی بنا لاؤ اور اللہ کے سوا جو تمہارے مددگار ہوں ان کو بھی بلالو اگر تم سچے ہو۔
سورۃ نمبر:2 ،البقرۃ،آیت نمبر:23
اگرچہ پروفیسر میلر شروع شروع میں للکار رہا تھا اور چیلنج کر رہا تھا ،مگر بعد میں اس کا یہ رویہ حیرت انگیز طور پر تبدیل ہو گیا اور پھر اس نے بیان کیا کہ اس کو قرآن سے کیا ملا؟
مندرجہ ذیل کچھ نکات ہیں جو پروفیسر میلر کے لیکچر”حیرت انگیز قرآن“میں بیان کئے ہیں:
یہاں کوئی مصنف (لکھنے والا) ایسا نہیں ملے گا جو ایک کتاب لکھے اور پھر سب کو للکارے اور چیلنج کرے کہ یہ کتاب غلطیوں (اغلاط)سے پاک ہے۔قرآن کا معاملہ کچھ دوسرا ہے۔ یہ پڑھنے والے کو کہتا ہے کہ اس میں غلطیاں نہیں ہیں۔اور پھر تمام لوگوں کو چیلنج کرتا ہے کہ اگر تم کہتے ہو کہ اس میں غلطیاں ہیں اور تم اپنی اس بات پر سچے ہو تو ان غلطیاں تلاش کرکے دکھا دو۔یا تم سمجھتے ہو کہ یہ اللہ کے سوا کسی دوسرے کا کلام ہے تو اس جیسی ایک سورت ہی بنا کر دکھا دو۔
قرآن مقدس ،نبی اکرمﷺ کی حیات مبارکہ(ذاتی زندگی) کے سخت لمحات کا ذکر نہیں کرتا جیسا کہ آپ ﷺ کی رفیق حیات اور محبوب بیوی حضرت خدیجہ ؓاور آپﷺ کے صاحبزادوں اور صاحبزادیوں کی موت۔
نہایت ہی عجیب طرح سے اور عجیب طور پر وہ آیات مبارکہ جو کچھ ناکامیوں پر بطور رائے(تبصرہ) نازل کی گئیں وہ بھی کامیابی کا اعلان کرتی ہیں اور وہ آیات جو کامیابی ،فتح اور کامرانی کے وقت نازل ہوئیں ان میں بھی غرور و تکبر کے خلاف تنبیہ کی گئی ہیں۔
جب کوئی اپنی ذاتی زندگی (سوانح حیات/آپ بیتی) لکھتا ہے تو اپنی کامیابیوں (فتوحات) کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتا ہے اور اپنی ناکامیوں اور شکست کے متعلق دلائل دینے کی کوشش کرتا ہے ، جبکہ قرآن مجید نے اس کے برعکس کیا جو یکساں اور منطقی ہے۔ یہ ایک خاص اور مقررہ وقت کی تاریخ نہیں ہے، بلکہ ایک تحریر ہے جو اللہ(معبود) اور اللہ کے ماننے والوں ،عبادت کرنے والوں کے درمیان عام قسم کے قوانین اور تعلق کو پیدا کرتی ہے،وضع کرتی ہے۔
میلر نے ایک دوسری خاص آیت کے متعلق بھی بات کی :
کہہ دو کہ میں تمہیں صرف ایک بات کی نصیحت کرتا ہوں کہ تم اللہ کے لئے دو دو اور اکیلے اکیلے کھڑے ہوجاؤ پھر غور کرو۔ تمہارے رفیق کو جنون نہیں وہ تم کو عذاب سخت (کے آنے) سے پہلے صرف ڈرانے والے ہیں۔
سورۃ نمبر: 34 ،سبآ، آیت نمبر:46
اس نے ان تجربات کی طرف اشارہ کیا جو ایک محقیق “اجتماعی بحث و مباحثہ کے اثرات ” پر ٹورنٹو یونیورسٹی میں کر چکا تھا ۔
محقق نے مختلف مقررین (تقریر اور بحث کرنے والوں) کو مختلف بحث و مباحثہ میں اکھٹا کیا اور ان کے نتائج میں موازنہ کیا ، اس نے یہ دریافت کیا کہ بحث و مباحثہ کی زیادہ تر طاقت اور کامیابی تب ملی جب مقرر تعداد میں 2 تھے ،جبکہ طاقت اور کامیابی کم تھی جب مقررین کی تعداد کم تھی۔
قرآن مجید میں ایک سورۃ حضرت مریم علیہ السلام کے نام پر بھی ہے۔اس سورۃ میں جس طرح ان کی تعریف اور مدح کی گئی ہے اس طرح تو انجیل مقدس میں بھی نہیں کی گئی،بلکہ کوئی بھی سورۃ حضرت عائشہ ؓیا حضرت فاطمہ ؓکے نام سے موجود نہیں۔
حضرت عیسٰی علیہ السلام کا اسم کرامی قرآنِ مجید میں 25 مرتبہ ،جبکہ محمد ﷺ کا اسم مبارک صرف 5 مرتبہ دہرایا گیا ہے۔
کچھ تنقید کرنے والے یہ بھی کہتے ہیں (نعوذ باللہ)کہ جو کچھ قرآن میں لکھا ہے وہ سب آسیب ، بھوت اور شیطان نبی اکرمﷺکو سکھاتے تھے، ہدایات دیاکرتے تھے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ جبکہ قرآن مجید میں کچھ آیات ایسی بھی ہیں جیسے:
اور اس (قرآن) کو شیطان لے کر نازل نہیں ہوئے۔
سورۃ نمبر:26، الشعرآء، آیت نمبر:210
مِ۔
اور جب تم قرآن پڑھنے لگو تو شیطان مردود سے پناہ مانگ لیا کرو۔
سورۃ نمبر:16، النحل، آیت نمبر:98
اگر آپ ان حالات کا سامنا کرتے جب آپﷺ اور حضرت ابو بکر صدیقؓ غارِ حرا کے اندر ،مشرکوں کے درمیان گھرے ہوئے تھے اور وہ انہیں دیکھ سکتے تھے ،اگر وہ نیچے دیکھتے ،انسانی ردِ عمل یہ ہو گا کہ پیچے سے خروج کا راستہ تلاش کیا جائے یا باہر جانے کا کوئی دوسرا متبادل راستہ یا خاموش رہا جائے تاکہ کوئی ان کی آواز نہ سن سکے ، تاہم نبی اکرم ﷺ نے ابو بکر صدیق ؓسےفرمایا :
غمزدہ نہ ہو، فکر مت کرو، اللہ ہمارے ساتھ ہے۔
"اگر تم پیغمبر کی مدد نہ کرو گے تو اللہ اُن کا مددگار ہے (وہ وقت تم کو یاد ہوگا) جب ان کو کافروں نے گھر سے نکال دیا۔ (اس وقت) دو (ہی ایسے شخص تھے جن) میں (ایک ابوبکرؓ تھے) اور دوسرے (خود رسول الله) جب وہ دونوں غار (ثور) میں تھے اس وقت پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ تو اللہ نے ان پر تسکین نازل فرمائی اور ان کو ایسے لشکروں سے مدد دی جو تم کو نظر نہیں آتے تھے اور کافروں کی بات کو پست کر دیا۔ اور بات تو اللہ ہی کی بلند ہے۔ اور اللہ زبردست (اور) حکمت والا ہے۔"
سورۃ نمبر:9، التوبہ، آیت نمبر:40
یہ کسی دھوکہ باز یا دغا باز کی ذہنیت نہیں ایک نبی ﷺ کی سوچ ہے ۔جن کو پتہ ہے وہ جانتے ہیں کہ اللہ سبحان و تعالٰی ، ان کی حفاظت فرمائیں گے۔
میلر لکھتا ہے کہ کسی بھی مقدس کتاب نے اس قسم کا انداز نہیں اپنایا کہ جس میں پڑھنے والے کو ایک خبر دی جار رہی ہو اور پھر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ نئی خبر(اطلاع) ہے ۔ یہ ایک بے نظیر (بےمثال ) چیلنج (للکار) ہے ۔ کیا اگر مکہ کے لوگ مکر و فریب سے یہ کہہ دیتے کہ وہ تو یہ سب کچھ پہلے سے ہی جانتے تھے؟ کیا اگر کوئی اسکالر (عالم) یہ دریافت کرتا کہ یہ اطلاع(خبر) پہلے ہی سے جانی پہچانی تھی(افشا تھی) تاہم ایسا کچھ نہیں ہوا۔
پروفیسر میلر کیتھولک انسائیکلو پیڈیا کے موجودہ عہد (زمانہ)کا ذکر کرتا ہے جو قرآن کے متعلق ہے۔ یہ واضع کرتا ہے کہ باوجود اتنے زیادہ مطالعہ ،نظریات اور قرآنی نزول کی صداقت پر حملوں کی کوشش اور بہت سے بہانے اور حجتیں جن کو منطقی طور پر تسلیم نہیں کیا جاسکتا کہ گرجا گھر (چرچ) کو اپنے آپ میں یہ ہمت نہیں ہوئی کہ ان نظریات کو اپنا سکے اور ابھی تک اس نے مسلمانوں کے نظریہ کی سچائی اور حقیقت کو تسلیم نہیں کیا کہ قرآن مجید میں کوئی شک نہیں اور یہ آخری آسمانی کتاب ہے۔
حقیقت میں پروفیسر میلر اپنا نقطہ نظر تبدیل کرنے اور اور صحیح راستہ چننے میں کافی حد تک صاف کو اور ایماندار تھا ۔اللہ اسے اور اس جیسے ان تمام لوگوں کو (جنہوں نے حق کو تلاش کیا اور اپنے تعصب کو اجازت نہیں دی کہ انہیں حق تک پہنچنے سے دور رکھے)مزید ہدایت نصیب فرمائے اور حق کی روشن شاہراہ پر چل کر اپنی عاقبت سنوارنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
1977میں پروفیسر میلر نے مسلمان اسکالر جناب احمد دیداتؒ سے ایک بہت مشہور مکالمہ،بحث و مباحثہ کیا اس کی منطق صاف تھی اور اس کا عذر (تائید) ایسے دکھائی دیتی تھی کہ جیسے وہ سچائی تک بغیر کسی تعصب کے پہنچنا چاہتا تھا بہت سے لوگوں کی خواہش تھی کہ وہ اسلام قبول کر کے مسلمان ہو جائے۔
1978 میں پروفیسر میلر نے اسلام قبول کرہی لیا اور اپنے آپ کو عبد الاحد کے نام سے پکارا ۔ اس نے کچھ عرصہ سعودی عرب تیل اور معدنیات کی یورنیورسٹی میں کام کیا اور اپنی زندگی کو دعویٰ بذریعہ ٹیلی ویژین اور لیکچرز کے لئے وقف کر دیا۔



Saturday, December 8, 2012

بنگلہ دیش سے باضابطہ معافی کا معاملہ



بنگلہ دیش سے باضابطہ معافی کا معاملہ
***********************************
بھارت نے مشرقی پاکستان توڑنے کی عملی منصوبہ بندی1971سے بھی بہت پہلے کی۔ سکھ جنرل کلدیپ سنگھ برار بھارتی فوج کی طرف سے مشرقی پاکستان میں لڑنے والا ایک اہم کمانڈر تھا۔ بعد میں 1984میں اس نے سکھوں کے مقدس مقام ”گولڈن ٹمپل“ پر حملہ کرکے بین الاقوامی شہرت حاصل کی۔ سکھ اس وقت سے اسکی جا ن کے درپے ہیں۔ حال ہی جب وہ انگلینڈ گیا تو 

وہاں لندن میں30ستمبر کوخالصتانی سکھ نوجوانوں نے اس پر حملہ کر دیا۔ موت سے تو بچ گیا لیکن سخت زخمی ہوا۔ اس واقعہ پر تمام اہم اخبارات میں بہت سے مضامین لکھے گئے اور جنرل برار کے انٹرویوز بھی شائع ہوئے۔
ایک ایسا ہی انٹرویو9نومبر2012 کو انٹرنیٹ پر پوسٹ ہوا۔(حوالہ rupeenews.com) اس انٹرویو کےمطابق: ”1971سے اب تک بھارت کی طرف سے کی جانیوالی کاروائیوں کے متعلق بہت سے اعترافات سامنے آئے ہیں۔ پہلا اعتراف تو جنرل مانک شاکی طرف سے ہوا کہ اس نے 1970میں اعلیٰ تربیت یافتہ ہندو فورس کے 80ہزار جوان مشرقی پاکستان میں داخل کئے جن کا مقصد افراتفری پھیلانا ۔تخریب کاری اور بنگالی خواتین کا ریپ کرنا تھا۔ یہ فورس عام بنگالی لباس میں بھیجی گئی۔ ان کارروائیوں کا الزام پاکستان فوج پر لگا کہ اسے بدنام کرنا۔ مشرقی پاکستان میں تباہی پھیلا کر عام بنگالیوں میں خوف و ہراس پیدا کرنا اور انہیں پاکستان فوج کےخلاف متنفر کرنا تھا۔ کئی اور جرنیلوں نے بھی اسکی تصدیق کی ہے“ قابل غور نکتہ یہ ہے کہ یہ فورس 1970میں الیکشن سے بھی پہلے بھیجی گئی۔
مکتی باہنی اور باغی فوجیوں کی فیملیزفروری ۔مارچ 1971 میں جب حالات خراب ہونے شروع ہوئے تو بھاگ کر بھارتی علاقے میں چلی گئیں ۔وہاں مہاجرین کیمپ قائم ہو گئے۔ فوجی ایکشن کے بعد ان کیمپوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوا۔بھارت ان پناہ گزین کیمپوں کی تصاویر دکھا دکھا کر اور غیر ملکی وفود کو ان کیمپس کے دورے کرا کر پوری دنیا کو متاثر کرتا اور امداد بٹورتارہا۔ان فیملیز کو بھارت نے ایک طرح سے قیدی بنا لیا۔ اگر کوئی فیملی ان میں سے واپس آنا بھی چاہتی تو اسے بلیک میل کرکے روک لیا جاتاتاکہ انکے مرد مشرقی پاکستان میں تخریب کاری کےلئے استعمال ہوتے رہیں۔وہ دریاﺅں کے ذریعے مشرقی پاکستان میں داخل ہوتے ۔وہ وہاں افراتفری پھیلانے اورقتل و غارت میں مصروف رہتے۔ان کے پاس نقصان اٹھانے کےلئے کچھ نہ تھاکیونکہ ان کی فیمیلیز پہلے ہی بھارت میں پناہ لے چکی تھیں۔
پاکستانی فوج چونکہ علاقے اور زبان سے ناواقف تھی اس لئے ان حالات میں سراغ رسانی کا موئثر نظام بھی قائم نہیں ہو سکتا تھا اور مکتی باہنی والوں کا خوف اتنا تھا کہ کوئی بھی بنگالی یا بہاری انکی یا انکے گھروں کی نشاندہی کرنے کےلئے تیار نہ تھااس لئے ان کےخلاف کسی قسم کی کاررروائی ممکن نہ تھی۔اس کے برعکس بھارتی گوریلے اورر مکتی باہنی کے لوگ قتل و غارت کی کارروائیاں کرکے ادھر ہی روپوش ہو جاتے۔ ہمارے لئے انہیں تلاش کرنا ممکن ہی نہیں تھا نہ ہم ان کی کارروائےاں روک سکتے تھے۔یہ سب قتل و غارت بھی پاکستان آرمی کے ذمہ لگتی رہی۔اب یہاں اہم سوال یہ بھی پیدا ہوتا کہ شرپسند بنگالی اور ان کی فیملیز تو وہاں موجود ہی نہ تھیں تو پاکستان فوج کن لوگوں کو قتل اور کن خواتین کار یپ کرتی رہی۔ اس دور میں جو لوگ قتل ہوئے ان میں سے زیادہ تر لوگ پاکستان پسند بنگالی یابہاری تھے۔ فوج اتنی پاگل تو نہ تھی کہ اپنے لوگوں کو مارتی۔
فوجی کارروائی کے دوران مغربی پاکستان سے مزید فوج۔ٹیکنےکل لوگ ۔سول پولیس اور کچھ ریٹائرڈ ریزروسٹ (Reservist)وہاں بھیجے گئے ۔ہہ لوگ بالکل ہی علاقے سے، نئے ماحول سے اور سب سے بڑھ کر زبان سے ناواقف تھے۔پولیس والوں کو مکتی باہنی والوں نے چن چن کر مارنا شروع کیا بلکہ ان لوگوں کی حفاظت ایک مسئلہ بن گئی لہٰذا ان لوگوں کو مکتی باہنی کے حملوں سے بچانے کےلئے کچھ اہم علاقوں میں فوجی یونیفارم پہنانا پڑی اس لئے یہ لوگ بھی ہتھیار ڈالنے والوں میں فوجی شمار ہوئے۔مارچ میں جب فوجی کارروائی ہوئی تو اس وقت سے لےکر دسمبر تک پاکستانی فوج کی تعدادمع پولیس تقریباً45ہزار تک پہنچ سکی۔ان 45ہزار میں لڑاکا فوج محض25 سے 30ہزار تھی۔ان 25یا 30ہزار میں بھی ایک معقول تعداد ریٹائرڈ اور بوڑھے فوجیوں کی تھی جو وہاں بھیجے گئے تھے۔یہ تمام فوج مشرقی پاکستان کے ڈیڑھ لاکھ مربع میل کے رقبے میں پھیلی تھی جس کا کام محض نظم و نسق بحال کرنا تھانہ کہ قتل عام کرنا یا ریپ کرنا۔
حال ہی میں مشہور بھارتی صحافی سرمیلا بوس کی ایک تحقیقی کاوشDead Reckoning: Memories of the 1971 Bangladesh War کے نام سے سامنے آئی ہے۔ یہ خاتون آکسفورڈ یونیورسٹی کی سینئر ریسرچ سکالر ہے۔ 6سال کی جان لیوا تحقیق کے بعد یہ کتاب مکمل ہوئی اور آکسفورڈ یونیورسٹی پریس انگلینڈ سے شائع ہوئی۔ اس تحقیق میںجنوبی ایشیا کی اس جنگ کا مکمل احاطہ کیا گیاہے اور بھارتی الزامات کا بھانڈہ ان الفاظ میں پھوڑا ہے۔”جنگ کے شروع میں مشرقی پاکستان میں پاکستان فوج کی کل تعداد لگ بھگ بیس ہزار تھی۔ دسمبر تک یہ تعداد بڑھ کر34 ہزار ہوگئی۔ تقریباً 11ہزار سول پولیس اور رضاکار تھے۔ یہ لوگ وہاں گوریلا اور حقیقی جنگ کا مقابلہ کر رہے تھے ۔ ان حالات میں ان لوگوں کا لاکھوں کے حساب سے خواتین کی عصمت دری کرلینا ”سپر ہیومن“ کارنامہ ہوسکتا ہے حقیقت نہیں۔دوسرا بھارت جارح تھا جس نے ایک آزاد ملک میں80ہزار گوریلے اور بعد میں فوج بھیج کر اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی کی“
”را “کی زیر نگرانی بھارتی اور بنگلہ دیشی میڈیا نے ملکر ایسے ایسے جھوٹ کے پہاڑ کھڑے کئے جن کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی مثلاًپاکستان آرمی پر بنگالی عورتوں۔ بچوں اور بوڑھوں تک کو قتل کے الزامات لگائے گئے جب کہ سرمیلا بوس کی 6سالہ ریسرچ کے مطابق پاکستان آرمی نے کہیں بھی کسی عورت۔ بچے یا بوڑھے پر ہاتھ نہیں اٹھایا۔ سنی سنائی باتیں تو بہت تھیں لیکن کسی نے بھی ایسے قتل کی گواہی نہ دی بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جہاں کہیں ضرورت پڑی پاکستان آرمی نے ایسے لوگوں کی مدد کی ۔ (حوالہ صفحہ164)
اسی طرح9دسمبر1971 کی رات کو ڈھاکہ میں ایک یتیم خانہ پر بمباری کی گئی جس میں تین سو سے زیادہ معصوم بچے ہلاک ہوئے۔ یہ شرمناک ۔جھوٹا اور بیہودہ الزام بھی پاکستان ائیر فورس پر لگاجبکہ پاکستان ائیر فورس کے جہازتو6دسمبر کو ہی ڈھاکہ میں گراﺅنڈ کر دئیے گئے تھے۔ بعدمیں 12دسمبر کے "The Observer"نے یہ پول کھول دیا کہ یہ کارنامہ بھارتی پائلٹس کاتھا۔ 13دسمبر کو جب حالات خراب ہوئے تو غیر ملکیوں کو ڈھاکہ سے نکالا گیا۔ ان غیر ملکیوں نے بھی تصدیق کی کہ بھارتی جہازوں نے 5عدد پانچ سو سے ایک ہزار پونڈ کے وزنی بم برسا کر یہ یتیم خانہ تباہ کیاتھا۔
**********************
کالم نگار | سکندر خان بلوچ(ملتان)
*****************************


Respect – Dr. Farzana Suleman became first blind PhD women of Pakistan. She completed her double Masters and PhD in Philosophy and Islamic Study.


محمد بن قاسم سندھ فتح کرکے کہاں گیا؟


محمد بن قاسم سندھ فتح کرکے کہاں گیا؟
محمد بن قاسم کے حوالے سے ہماری درسی کتابیں ہمیں بار بار یہ تو بتاتی ہیں کہ اُس نے سترہ سال کی چھوٹی سی عمر میں فوجی جرنیل کا عہدہ سنبھال کر سندھ پر حملہ کیا اور بڑی مہارت سے دیبل سے لے کر ملتان تک کا علاقہ تھوڑے سے عرصے میں فتح کر لیا۔ تاہم یہ کتابیں اس حوالے سے مکمل طور پر خاموش ہیں کہ محمد بن قاسم سندھ فتح کرنے کے بعد کہاں گیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمارے طلبا
ء/نوجوانوں کو بھی میں نے کبھی یہ سوال اٹھاتے نہیں سنا۔ حالانکہ فطری سی بات ہے کہ بندے کو یہ تجسس پیدا ہوتا ہے کہ آخر جس نوجوان نے سترہ سال کی عمر میں سندھ فتح کر لیا اُس نے باقی کی زندگی کیسے گزاری۔ کسی مشہور شخص کی پیدائش کا احوال معلوم نہ ہونا تو اتنی حیرت کی بات نہیں۔ لیکن اگر کسی شخص نے چھوٹی سی عمر میں اتنا بڑا کارنامہ انجام دیا ہو تو اس کی موت کے حوالے سے کتابوں میں کوئی ذکر نہ ملنا یقیناً حیرت کی بات ہے۔
اسی تجسس نے لالاجی کو بے چین کر دیا اور لالا جی نے اس معاملے کو کریدنا شروع کر دیا۔ اس کے نتیجے میں جو چند باتیں مختلف ذرائع سے سامنے آئیں وہ پیش خدمت ہیں:
پہلی بات تو یہ ہے کہ محمد بن قاسم سندھ کی فتح کے بعد کچھ زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہا۔ سترہ سال کی عمر میں سندھ پر حملہ کرنے نکلا۔ اُس زمانے میں سفر کی مشکلات اور طوالت کو سامنے رکھئے، پھر دیبل (موجودہ کراچی کے آس پاس کوئی جگہ) سے لیکر ملتان تک کی فتوحات میں لگ بھگ تین سال لگ گئے۔ تقریباً سارے ہی مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ محمد بن قاسم کی وفات بیس (۲۰) سال کی عمر میں ہوئی۔
دوسری بات یہ ہے کہ محمد بن قاسم کی موت میدانِ جنگ میں لڑتے ہوئے نہیں ہوئی۔ نہ ہی کسی بیماری کی وجہ سے ہوئی۔ اگرچہ مورخٰین موت کے حوالے سے کوئی متفقہ فیصلہ نہیں دیتے تاہم اس بات پر سب متفق ہیں کہ محمد بن قاسم کی موت اپنے ہی حاکم کی طرف سے دی گئی سزا کے نتیجے میں واقع ہوئی۔
موت کیسے ہوئی ، حاکم کیوں ناراض ہوا، کیا سزا سنائی گئی…ان باتوں پر مورخین میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ محمد بن قاسم کی موت کے حوالے سے دو بیانات ملتے ہیں:
1) چھچھ نامہ سندھ کی تاریخ پر پہلی باقاعدہ کتاب سمجھی جاتی ہے۔ چھچھ نامہ میں محمد بن قاسم کے سندھ پر حملے اور سندھ کے مختلف شہروں کے محاصرے، جنگوں اور فتوحات کی تفصیلات درج ہیں۔ اس کتاب کا انگریزی ترجمہ انٹرنیٹ پر دستیاب ہے۔ اس کتاب کے مطابق محمد بن قاسم نے راجہ داہر کی موت اور اس کی فوج کو شکست دینے کے بعد مسلمانوں کے دستور کے مطابق مالِ غینمت اور راجہ کی بیوی اور بیٹیوں کو اپنے حاکم حجاج بن یوسف کو بھجوا دیا۔ راجہ داہر کی بیٹیوں نے حجاج بن یوسف سے جھوٹ بولا کہ وہ خلیفہ کے لائق نہیں کیوں کہ محمد بن قاسم نے انہیں پہلے ہی استعمال کر لیا تھا۔ اس بات پر حجاج بہت ناراض ہوا اور حکم دیا کہ محمد بن قاسم کو بیل کی کھال میں بند کر کے واپس لے آؤ۔ اس کے حکم پر عمل کیا گیا تاہم بیل کی کھال میں دم گھُٹنے سے محمد بن قاسم کی راستے ہی میں موت واقع ہو گئی۔ بعد میں حجاج کو راجہ داہر کی بیٹیوں کا جھوٹ معلوم ہو گیا۔ انہوں نے محمد بن قاسم سے اپنے باپ کی موت کا بدلہ لینے کے لئے یہ جھوٹ بولا تھا۔ حجاج نے ان لڑکیوں کو زندہ دیوار میں چنوا دیا۔
2) أحمد بن يحيى بن جابر البلاذري ایک مسلمان مورخ ہے جو خلیفہ المتوکل کے دربار تک رسائی رکھتا تھا۔ اس نے مسلمانوں کے ابتدائی دور کی تاریخ کو قلم بند کیا ہے۔ البلاذري نے ایک کتاب لکھی تھی فتوح البلدان کے نام سے جس کا انگریزی ترجمہ فلپ کے ہِٹی(Philip K Hitti) نے ‘The Origins of the Islamic State’کے نام سے کیا ہے۔ البلاذري کے مطابق714ء میں حجاج کی موت کے بعد اُس کے بھائی سلیمان بن عبدالمالک نے حکومت سنبھالی۔ وہ حجاج بن یوسف کو سخت ناپسند کرتا تھا۔ اُس نے عنان حکومت سنبھالتے ہی حجاج کے منظورِنظر افراد کو قید کروا دیا۔ محمد بن قاسم بھی حجاج بن یوسف کے پسندیدہ افراد میں گنا جاتا تھا(یاد رہے کہ محمد بن قاسم حجاج بن یوسف کا داماد بھی تھا اور بعض مورخین کا خیال ہے کہ بھانجا بھی تھا)۔ چنانچہ محمد بن قاسم کو بھی قید کر دیا گیا۔ قید کے دوران میں ہونے والے تشدد کے نتیجے میں محمد بن قاسم کی موت واقع ہو گئی۔
محمد بن قاسم کی موت کے حوالے سے یہ باتیں قوم کے نونہالوں سے چھپا کر ہمارا محکمہ تعلیم کیا حاصل کرنا چاہتا ہے اس کا تو پتہ نہیں۔ تاہم اپنے ماضی کے ناپسندیدہ واقعات کو چھُپایا تو جا سکتا ہے، مٹایا نہیں جا سکتا۔ جو قوم اپنی تاریخ سے پوری طرح آگاہ نہیں ہوتی، وہ کبھی بھی پورے اعتماد سے دوسری قوموں کے ساتھ برابری کی بنیاد پر تعلقات استوار نہیں کر سکتی۔
خود بھی پڑھیں اور دوستوں کو بھی شیئر کریں
مزید کے لیے ضرور وزٹ کریں
██▒░ Page for +ve Pakistan stuff-> Mai Pakistani Hoon ░▒▓██
██▒░ Like Page www.facebook.com/Mai.Pakistani.Hoon ░▒▓██

یۂ عبرت کی جاء هے تماشہ نہیں هے



یۂ عبرت کی جاء هے تماشہ نہیں هے
 
ﺍﯾﮏ ﻭﯾﺮﺍﻥ ﺳﯽ ﺟﮕﮧ ﭘﺮ ﻭﺍﻗﻊ ﮐﮭﻨﮉﺭ ﻧﻤﺎ ﻣﮑﺎﻥ ﺳﮯ 19ﻧﻮﻣﺒﺮ 2011ﮐﻮﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﮯ ﺷﺨﺺ ﮐﻮ ﮔﺮﻓﺘﺎﺭ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﺟﻮ ﺍﺱ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺗﻘﺮﯾﺒﺎ ً ﭘﭽﮭﻠﮯ ﭘﺎﻧﭻ ﯾﺎﭼﮭﮯ ﻣﺎﮦ ﺳﮯ ﭼﮭﭙﺎ ﮨﻮ ﺍ ﺗﮭﺎ ﻭﮦ ﺷﺪﯾﺪ ﺯﺧﻤﯽ ﺍﻭﺭ ﺑﯿﻤﺎﺭ ﺗﮭﺎ ﮐﻤﺮﮮ ﮐﯽ ﺣﺎﻟﺖ ﺍﺗﻨﯽ ﺧﺴﺘﮧ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻣﯿﮞﻨﮧ ﺗﻮ ﮐﻮﺋﯽ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﮐﺎﻣﻨﺎﺳﺐ ﺍﻧﺘﻈﺎﻡ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﮨﯽ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺗﺎﺯﮦ ﮨﻮﺍ ﺁﻧﮯ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺭﺍﺳﺘﮧ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺗﮭﺎ ﯾﮩﺎﮞ ﺗﮏﮐﮧ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﺗﮫ ﺭﻭﻡ ﺗﮏ ﮐﯽ ﺳﮩﻮﻟﺖ ﺑﮭﯽ ﻣﯿﺴﺮﻧﮧ ﺗﮭﯽ۔ ﺍُﺱ 
ﺷﺨﺺ ﮐﺎ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﭘﯿﻨﺎ ﺳﻮﻧﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﯿﺸﺎﺏ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﮐﺮﻧﺎ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﺍﺳﯽ ﮐﻤﺮﮮ ﮐﯽ ﭼﺎﺭ ﺩﯾﻮﺍﺭﯼ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﮨﯽ ﻣﺤﺪﻭﺩ ﺗﮭﺎ۔ ﺟﺐ ﺍﺱ ﺷﺨﺺ ﮐﻮ ﮔﺮﻓﺘﺎﺭ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﺍُﺱ ﮐﯽ ﺣﺎﻟﺖ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺍﯾﺴﮯ ﻟﮕﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﺟﯿﺴﮯ ﻭﮦ ﮐﺌﯽ ﺩﻧﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﮭﻮﮐﺎ ﭘﯿﺎﺳﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﺌﯽ ﮨﻔﺘﻮﮞ ﺳﮯ ﻧﮩﺎﯾﺎ ﮨﻮﺍ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮞﮩﮯ۔ ﺍﺱ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮞ ﭙﮍ ﺍ ﻣﯿﭩﺮﺱ ﺗﮑﯿﮧ ﺍﻭﺭ ﮐﻤﺒﻞ ﺍﺱ ﻗﺪﺭ ﮔﻨﺪﮦ ﺍﻭﺭ ﺑﺪﺑﻮ ﺩﺍﺭ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﻥ ﮐﻮ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﺮﻧﺎ ﺗﻮ ﺭﮨﯽ ﺩﻭﺭ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺑﮭﯽ ﮔﮭﻦ ﺁﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﮔﻨﺪﮮ ﺍﻭﺭ ﺑﺪﺑﻮ ﺩﺍﺭ ﮐﻤﺒﻞ ﻣﯿﮟ ﻟﭙﭩﺎ ﮨﻮﺍ ﺟﻮ ﺷﺨﺺ ﮔﺮﻓﺘﺎﺭ ﮨﻮﺍ ﻭﮦ ﺷﺨﺺ ﮐﻮﺋﯽ ﻋﺎﻡ ﺁﺩﻣﯽ ﻧﮩﯿﮞﺘﮭﺎﺑﻠﮑﮧ ﮐﭽﮫ ﻋﺮﺻﮧ ﭘﮩﻠﮯ ﺗﮏ ﻭﮦ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﺍﻣﯿﺮ ﺗﺮﯾﻦ ﺁﺩﻣﯽ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍُﺳﮑﺎ ﺷﻤﺎﺭ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﭼﻨﺪ ﺑﺎﺍﺛﺮ ﺍﻭﺭ ﺍﻣﯿﺮ ﺗﺮﯾﻦ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﮭﺎ ۔ﻭﮦ ﺍﻧﺘﮩﺎﺋﯽ ﺁﺳﺎﺋﺶ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮔﺰﺍﺭﺗﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﻋﯿﺎﺷﯿﻮﮞ ﭘﺮ ﮐﺮﻭﮌﻭﮞ ﮈﺍﻟﺮﺯ ﮐﭽﮫ ﺳﮑﯿﻨﮉ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﺧﺮﭺ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﺎ ﺗﮭﺎﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﻟﻨﺪ ﻥ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﯽ ﮐﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺳﻔﺮ ﮐﺮﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺳﻔﺮ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﮨﯽ ﺍُﺳﮯ ﺷﻤﺎﻟﯽ ﻟﻨﺪ ﻥ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭ ﺕ ﮔﮭﺮ ﭘﺴﻨﺪ ﺁﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮔﮭﺮ ﺧﺮﯾﺪﻧﮯ ﮐﺎ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﮐﺮ ﻟﯿﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﮔﮭﺮ ﮐﺎ ﻣﺎﻟﮏ ﮔﮭﺮ ﺑﯿﭽﻨﮯ ﮐﻮ ﺗﯿﺎ ﺭ ﻧﮩﯿﮞﺘﮭﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺿﺪ ﻣﯿﮞﺂﮐﺮ ﮔﮭﺮ ﮐﯽ ﮈﺑﻞ ﻗﯿﻤﺖ ﺍﺩﺍ ﮐﺮﮐﮯ ﻭﮨﯿﮟ ﮐﮭﮍﮮ ﮐﮭﮍﮮ ﺍﯾﮏ ﮐﺮﻭﮌ ﺑﺮﭨﺶ ﭘﺎﺅﻧﮉﺯ ﮐﺎ ﻭﮦ ﮔﮭﺮ ﺧﺮﯾﺪ ﻟﯿﺎ ﺟﺴﮑﯽ ﻗﯿﻤﺖ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻧﯽ ﮐﺮﻧﺴﯽ ﻣﯿﮟ ﺗﻘﺮﯾﺒﺎً ﺍﯾﮏ ﺍﺭﺏ ﭼﺎﻟﯿﺲ ﮐﺮﻭ ﮌ ﺭﻭﭘﮯ ﺑﻨﺘﯽ ﮨﮯ۔ 2009 ﺀ ﻣﯿﮟ ﺍُﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ 37ﺳﺎﻟﮕﺮﮦ ﻣﻨﺎﺋﯽ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺩﻧﯿﺎ ﺑﮭﺮ ﮐﮯ ﺍﻣﯿﺮ ﺗﺮﯾﻦ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﺷﺮﮐﺖ ﮐﯽ ﺟﻦ ﻣﯿﮟ ﺭﻭﺱ ﮐﮯ Albanian tycoon ،ﺳﻮﻧﮯ ﮐﯽ ﮐﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﻣﺎﻟﮏ Peter Munkﺍﻭﺭ prince of Monaco Albertﺟﯿﺴﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﺑﮭﺮ ﮐﯽ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﺷﺨﺼﯿﺎ ﺕ ﻧﮯ ﺷﺮﮐﺖ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺳﺎﻟﮕﺮﮦ ﺍﺏ ﺗﮏ ﮐﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﻣﮩﻨﮕﯽ ﺗﺮﯾﻦ ﺳﺎﻟﮕﺮﮦ ﺷﻤﺎﺭ ﮐﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ۔ ﯾﮧ ﺷﺨﺺ ﺍﻧﺘﮩﺎﺋﯽ ﻣﮩﻨﮕﯽﭘﯿﻨﭩﻨﮓ ﺧﺮﯾﺪﻧﮯ ﮐﺎ ﺷﯿﺪﺍﺋﯽ ﺗﮭﺎ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﺭﺑﻮﮞ ﮈﺍﻟﺮﺯ ﻣﺎﻟﯿﺖ ﮐﯽ ﭘﯿﻨﭩﻨﮓ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﺤﻞ ﮐﯽ ﺯﯾﻨﺖ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ ۔ 2006ﺀ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﮯ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﮐﯽ ﺍﺩﺍﺭﮐﺎﺭﮦ Orly weinerman ﺳﮯ ﻋﺸﻖ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍُﺳﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺤﺒﻮﺑﮧ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﺌﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮔﺮﺩ ﺩﻭﻟﺖ ﮐﮯ ﺍﻧﺒﺎﺭ ﻟﮕﺎﺩﺋﯿﮯ ﭼﻨﺎﭼﮧ orly weinermaﺍﺱ ﮐﯽ ﮔﺮﻝ ﻓﺮﯾﻨﮉﺑﻦ ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﻣﮩﻨﮕﯽ ﺗﺮﯾﻦ ﮔﺮﻝ ﻓﺮﯾﻨﮉﺗﮭﯽ ۔ﺑﺮﻃﺎﻧﯿﮧ ﮐﮯ ﺳﺎﺑﻖ ﻭﺯﯾﺮ ﺍﻋﻈﻢ ﭨﻮﻧﯽ ﺑﻠﯿﺮﮐﺎ ﻭﮦ ﺑﯿﺴﭧ ﻓﺮﯾﻨﮉﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﺮﻃﺎﻧﻮﯼ ﺷﺎﮨﯽ ﺧﺎﻧﺪﺍﻥ ﺍﺳﮯ ﮐﺌﯽ ﺑﺎﺭ ﺍﺳﮯ buckingham palace ﺍﻭﺭ winsley castleﻣﯿﮟ ﻟﻨﭻ ﺍﻭﺭ ﮈﻧﺮ ﺩﺋﯿﮯ ﺗﮭﮯ ﯾﮧ ﻟﻨﺪﻥ ﺍﻭﺭ ﭘﯿﺮﺱ ﻣﯿﮟ ﭘﻠﮯ ﺑﻮﺍﺋﮯ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮔﺰﺍﺭﺗﺎﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﺟﮩﺎﻥ ﮐﮯ ﻗﺎﻧﻮﻥ ﺗﻮﮌﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﺑﮍﺍ ﻓﺨﺮ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﺮﺗﺎﺗﮭﺎﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﭘﯿﺮﺱ ﮐﯽ shanzelize street ﭘﺮ ﺍﯾﮏ ﺳﻮ ﺗﯿﺲ ﮐﻠﻮﻣﯿﭩﺮ ﻓﯽ ﺭﻓﺘﺎﺭ ﺳﮯ ﮔﺎﮌﯼ ﭼﻼ ﮐﺮ ﭘﻮﺭﯼ ﯾﻮﺭﭘﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﻮ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮐﺮﺩﯾﺎﺍﻭﺭ ﭘﯿﺮﺱ ﮐﯽ ﺳﭩﯽ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﺑﮭﺮ ﭘﻮﺭ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﺎﻭﺟﻮﺩ ﺍﺱ ﮐﺎ ﭼﺎﻻﻥ ﺗﮏ ﻧﮧ ﮐﺮﺳﮑﯽ ۔ﺍﭘﻨﮯ ﻣﻠﮏ ﮐﯽ investment authorityﮐﺎ ﯾﮧ ﺷﺨﺺ ﺳﺮﺑﺮﺍﮦ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺍﺗﮭﺎﺭﭨﯽ ﺍﺗﻨﯽ ﭘﺎﻭﺭ ﻓﻞ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﮐﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﻣﻠﮏ ﻣﯿﮟﮐﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﻭﻗﺖ 10$ billionﺗﮏ ﮐﯽ ﺳﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﺎﺭﯼ ﮐﺮﺳﮑﺘﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺑﮩﺖ ﺑﮍﯼ ﺑﺎﺕ ﺗﮭﯽ ۔ﺍﯾﺴﯽ ﺷﺎﻥ ﻭﺷﻮﮐﺖ ﺳﮯ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮔُﺰﺍﺍﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﺷﺨﺺ ﺟﻮ 19ﻧﻮﻣﺒﺮ2011ﺀ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﺳﮯ ﺑﺪﺑﻮ ﺩﺍﺭﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺑﺪﺑﻮ ﺩﺍﺭ ﮐﻤﺒﻞ ﻣﯿﮟ ﻟﭙﭩﺎ ﮔﺮﻓﺘﺎﺭ ﮨﻮﺍ ﻭﮦ ﺷﺨﺺ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﻭﮦ ﺳﯿﻒ ﺍﻻﺳﻼﻡ ﺗﮭﺎ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﺗﯿﺴﺮﮮ ﻧﻤﺒﺮ ﭘﺮ ﺗﯿﻞ ﺳﮯ ﻣﺎﻻﻣﺎﻝ ﻣﻠﮏ ﻟﯿﺒﯿﺎ ﮐﮯ ﺳﺎﺑﻖ ﺣﮑﻤﺮﺍﻥ ﮐﺮﻧﻞ ﻗﺰﺍﻓﯽ ﮐﺎ ﺑﯿﭩﺎ ﺗﮭﺎ ﻭﮦ ﻗﺰﺍﻓﯽ ﮐﺎ ﺟﺎﻧﺸﯿﻦ ﺍﻭﺭ ﻟﯿﺒﯿﺎﮐﺎ ﻭﻟﯽ ﻋﮩﺪﺗﮭﺎ ﯾﮧ ﺍﭘﻨﮯ ﻭﻗﺖ ﻣﯿﮟ ﻟﯿﺒﯿﺎ ﮐﺎ ﺩﻭﺳﺮﺍ ﺑﺎﺍﺛﺮ ﺗﺮﯾﻦ ﺁﺩﻣﯽ ﺗﮭﺎ ﯾﮧ ﺍﺗﻨﺎ ﺑﺎ ﺍﺛﺮ ﺍﻭﺭ ﭘﺎﻭﺭ ﻓﻞ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﮐﺮﻧﻞ ﻗﺬﺍﻓﯽ ﮐﻮ ﻧﯿﻮﮐﻠﯿﺌﺮ ﭘﺮﻭﮔﺮﺍﻡ ﺗﺮﮎ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﺌﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﺳﯽ ﻧﮯ ﻗﺎﺋﻞ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ ۔ ﺳﯿﻒ ﺍﻻﺳﻼ ﻡ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﻟﯿﺒﯿﺎ ﮐﯽ ﻣﻮﺟﻮﺩﮦ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﮐﯽ ﻗﯿﺪ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﻮﺕ ﺳﮯ ﺑﺪﺗﺮ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮔﺰﺍﺭﻧﮯ ﭘﺮ ﻣﺠﺒﻮﺭ ﮨﮯ۔ ﻭﮦ ﺳﯿﻒ ﺍﻻﺳﻼﻡ ﺟﺲ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﻗﺪﻡ ﻟﯿﺒﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﺩﻭﺳﺮ ﺍ ﻟﻨﺪ ﻥ ﯾﺎ ﭘﯿﺮﺱ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺟﺲ ﮐﮯ ﻟﯿﺌﮯ ﭘﯿﺮﺱ ﮐﯽ ﺑﮍ ﯼ ﺑﮍﯼ ﮐﻤﭙﻨﯿﺎﮞ ﺧﺎﺹ ﻗﺴﻢ ﮐﮯ ﺧﺼﻮﺻﯽ ﭘﺮﻓﯿﻮﻣﺰ ﺗﯿﺎ ﺭ ﮐﺮﺗﯿﮟ ﺗﮭﯿﮞﯿﮧ ﻭﮨﯽ ﺳﯿﻒ ﺍﻻﺳﻼﻡ ﮨﮯ ﺟﻮ ﮐﭽﮫ ﻋﺮﺻﮧ ﭘﮩﻠﮯ ﺗﮏ ﻣﻠﮑﮧ ﺑﺮﻃﺎﻧﯿﮧ ﮐﺎ ﺷﺎﮨﯽ ﻣﮩﻤﺎﻥ ﺑﻨﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﺁﺝ ﭘﻮﺭﯼ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮭﯽ ﻣﻠﮏ ﺍُﺳﮯ ﭘﻨﺎﮦ ﺩﯾﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺗﯿﺎﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ۔ﻭﮦ ﺳﯿﻒ ﺍﻻﺳﻼﻡ ﺟﺲ ﮐﮯ ﻟﯿﺌﮯ ﻟﻨﺪﻥ ﺍﻭﺭ ﭘﯿﺮﺱ ﻣﯿﮟ ﺧﺼﻮﺻﯽ ﻟﻨﭻ ﺍﻭﺭ ﮈﻧﺮ ﺯ ﮐﺎﺍﮨﺘﻤﺎﻡ ﮐﯿﺌﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺁﺝ ﺍُﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﻭﻗﺖ ﮐﺎ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﺑﮭﯽ ﺑﮍﯼ ﻣﺸﮑﻞ ﺳﮯ ﻧﺼﯿﺐ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ۔ ﺍﯾﮏ ﻟﻤﺤﮯ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺍﯾﮏ ﮐﺮﻭﮌ ﭘﺎﺅﻧﮉﺯ ﻣﯿﮟ ﮔﮭﺮ ﺧﺮﯾﺪﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺁﺝ ﺳﺮ ﭼﮭﭙﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺍﯾﮏ ﭼﮭﺖ ﺗﮏ ﻣﯿﺴﺮ ﻧﮩﯿﮞﮩﮯ۔ ﺟﺲ ﮐﮯ ﮐﻞ ﺗﮏ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﺍﺭﺑﻮﮞ ﭘﺘﯽ ﻟﻮﮒ ﺑﯿﺴﭧ ﻓﺮﯾﻨﮉﺯ ﮨﻮﺍ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺁﺝ ﻭﮨﯽ ﺑﮯ ﯾﺎﺭﻭ ﻣﺪﺩﮔﺎﺭ ﻣﺪﺩ ﮐﮯ ﻟﯿﺌﮯ ﺩﮨﺎﺋﯿﺎﮞ ﻟﮕﺎ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮭﯽ ﺍﺱﮐﯽ ﻣﺪﺩ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺗﯿﺎﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ۔ﺳﯿﻒ ﺍﻻﺳﻼﻡ ﭘﻠﮏ ﺟﮭﭙﮑﺘﮯ ﮨﯽ ﻋﺮﺵ ﺳﮯ ﻓﺮﺵ ﭘﺮ ﺁﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺳﮯ ﻓﻘﯿﺮ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻭﮦ ﻟﻮﮒ ﺟﻮﺧﺪﺍ ﮐﻮ ﺑﮭﻮﻝ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﺧﺪﺍ ﺗﺼﻮﺭ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﯾﺴﮯﻟﻮﮔﻮﮞ ﭘﺮ ﺍﯾﮏ ﻧﮧ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﺍﷲﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐﺎ ﻋﺬﺍﺏ ﻗﺎﮨﺮ ﺑﻦ ﮐﺮ ﻧﺎﺯﻝ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺟﺲ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮭﯽ ﺑﭻ ﻧﮩﯿﮞﺴﮑﺘﺎ۔ ﺍﯾﺴﮯ ﺣﮑﻤﺮﺍﻥ ﺟﻮﺍﻗﺘﺪﺍﺭ ﮐﻮ ﮨﯽ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﺳﻤﺠﮫ ﻟﯿﺘﮯ ﮨﯿﮞﺎﻭﺭﺍﻗﺘﺪﺍﺭ ﮐﮯ ﻧﺸﮯ ﻣﯿﮞﺒﮩﮏ ﮐﺮ ﯾﮧ ﺧﯿﺎﻝ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍُﻥ ﮐﮯ ﺍﻗﺘﺪﺍﺭ ﮐﺎ ﺳﻮﺭﺝ ﮐﺒﮭﯽ ﺑﮭﯽ ﻏﺮﻭﺏ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮑﮯ ﻣﻘﺪﺭ ﮐﺎ ﺳﺘﺎﺭﮦ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﮨﯽ ﭼﻤﮑﺘﺎ ﺭﮨﮯ ﮔﺎ ﺗﻮ ﺍﯾﺴﮯ ﺣﮑﻤﺮﺍﻧﻮﮞ ﺳﮯ ﺳﯿﻒ ﺍﻻﺳﻼﻡﮐﯽ ﮐﮩﺎﻧﯽ ﭼﯿﺦ ﭼﯿﺦ ﮐﺮ ﯾﮧ ﮐﮩﮧ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻋﻮﺍﻡ ﮐﺎ ﺍﻋﺘﻤﺎﺩ ﮐﮭﻮ ﺩﯾﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺑﮯ ﺣﺲ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﺧﺪﺍﺗﺼﻮﺭ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺣﮑﻤﺮﺍﻧﻮﮞ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﻧﮧ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﺍﯾﺴﺎﮨﯽ ﺩﺭﺩﻧﺎﮎ ﺍﻭﺭ ﺑﮭﯿﺎﻧﮏ ﺍﻧﺠﺎﻡ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ