کیپٹن احسان ملک کی تلاش میں ! .... (۱)
صحافی | سکندر خان بلوچ
************************** ************************** *
28 جولائی 1999ء کو بھارتی فوج کے فیلڈمارشل مانک شا کو ایک ٹی۔وی انٹرویو کے لیے بلایا گیا۔ مانک شا پارسی تھے اورتب ان کی عمر 85 برس تھی۔ وہ اس انٹرویو کے نو برس بعد 94 سال کی عمر میں فوت ہوئے۔ 1971ء کی جنگ میں جب بھارتی افواج نے بنگلہ دیش میں پاکستان کو شکست دی تو مانک شا اس وقت چی
ف آف آرمی سٹاف تھے۔ وہ اس جنگ کے دو برس بعد 1973ء میں سبک دوش ہوئے۔
کرن تھاپر نے ایک ایسا سوال مانک شا سے کردیا جس کے جواب نے ان کروڑوں لوگوں کو ششدر کردیا جو اس وقت ٹی۔وی پر ان کا انٹرویو دیکھ رہے تھے۔ کرن تھاپر نے پوچھا کہ فیلڈمارشل صاحب آپ کو یہ جنگ جیتنے کا کتنا کریڈٹ جاتا ہے کیونکہ پاکستانی فوج نے وہ بہادری نہیں دکھائی جس کی ان سے توقع کی جارہی تھی۔
فیلڈمارشل مانک شا ایک لمحے میں ایسے پیشہ ور فوجی بن گئے جو اپنے دشمن کی تعریف کرنے میں بغض سے کام نہیں لیتے۔ مانک شا نے کہا، یہ بات غلط تھی۔ پاکستانی فوج بڑی بہادری سے ڈھاکا میں لڑی تھی لیکن ان کے جیتنے کا کوئی امکان نہیں تھا۔ وہ اپنے مرکز سے ہزاروں میل دور جنگ لڑ رہے تھے جبکہ میں نے اپنی ساری جنگی تیاریاں آٹھ سے نو میل کے علاقے میں کرنا تھیں۔ ایک پاکستانی فوجی کے مقابلے میں میرے پاس پندرہ بھارتی فوجی تھے لہٰذا اپنی تمام تر بہادری کے باوجود پاکستانی فوج یہ جنگ نہیں جیت سکتی تھی۔
کرن تھاپر کو کوئی خیال آیا اور اس نے پوچھا کہ فیلڈمارشل ہم نے کوئی کہانی سنی ہے کہ پاکستانی فوج کا ایک کیپٹن احسان ملک تھا جس نے کومان پل کے محاذ پر بھارتی فوجیوں کے خلاف اتنی ناقابلِ یقین بہادری دکھائی کہ آپ نے جنگ کے بعد بھارتی فوج کا چیف آف آرمی سٹاف ہوتے ہوئے اسے ایک خط لکھا جس میں اس کی بہادری اور اپنے ملک کے لیے اتنے ناقابل یقین انداز میں لڑنے پر اسے خراجِ تحسین پیش کیا گیا تھا۔
************************** ************************** **********************
پاکستانی فوج نے جتنی بھی جنگیں لڑی ہیں اس میں دو چیزوں پر ہمارے دوست، دشمن اور غیر جانبدار ناقدین متفق ہیں۔ وہ یہ کہ تمام جنگوں میں ہماری اعلیٰ فوجی قیادت قوم کی امیدوں پر پوری نہ اتر سکی لیکن جونیئر لیڈرشپ نے بہادری اور جرات کی اعلیٰ مثالیں قائم کیں جو ہم سب کےلئے باعثِ فخر ہیں۔ یہی کچھ 1965میں ہوا، 1971میں ہوا، 1999 میں ہوا اور اب بھی ہو رہا ہے۔ فوجیوں کا کام تو پروانوں کی طرح وطن کی آن پر قربان ہونا ہے باقی قوم کی مرضی وہ اسے پذیرائی بخشے یا نہ بخشے۔ موجودہ مضمون کا تعلق بھی پاکستان کے ایک ایسے ہی فرزندِ عظیم کیپٹن احسن ملک اور اسکی یونٹ31 بلوچ رجمنٹ سے ہے۔
1971ءکی جنگ میںکمال پور (جمالپور کا سب سیکٹر) کی حفاظت کی ذمہ داری 31 بلوچ کو سونپی گئی جسے کرنل سلطان احمد جیسے دلیر اور بہادر آفیسر کمان کر رہے تھے۔ یہ ایک قدرتی امر ہے کہ فوج میں یونٹ کی سطح پر بہادری اور بزدلی کا حوصلہ کمانڈنگ آفیسر سے شروع ہوتا ہے اور فوج کی سطح پر اعلیٰ فوجی قیادت سے۔ ایک اچھا اور دلیر کمانڈر ایک کمزور فوج کو بھی بہتر طریقے سے لڑا کر مطلوبہ نتائج حاصل کر سکتا ہے جبکہ کمزور اور بزدل کمانڈر اعلیٰ تربیت یافتہ فوج کا بھی ستیاناس کر دیتا ہے۔ یہ حقیقت پاکستان کی تمام جنگوں میں خصوصاً مشرقی پاکستان کے دفاع میں کھل کر سامنے آئی۔ دلیر اور پیشہ ور کمانڈرز نے آخر تک ہمت نہ ہاری اور بھارتیوں کو اپنی لاشوں پر سے گزر کر مشرقی پاکستان پر قبضہ کرنا پڑا۔ جونیئر آفیسرز کو جہاں کہیں بھی کھل کر لڑنے کا موقع ملا انہوں نے اپنی جان پر کھیل کر ایک ایک انچ زمین کی حفاظت کی۔ بہت سے آفیسرز اور جوانوں نے اپنے فرض کی ادائیگی میں جامِ شہادت نوش کرکے دشمن کو آگے بڑھنے سے روک دیا۔ بہت سے آفیسرز اور جوان ایسے بھی تھے جو بھوکے پیاسے آخری دم تک لڑے اور دشمن کو روکے رکھا۔ باامر مجبوری اس وقت ہتھیار ڈالے جب انہیں اعلیٰ قیادت کی طرف سے ایسا کرنے کےلئے کہا گیا۔ ان بہت سی روشن مثالوں میں ایک مثال کیپٹن احسن ملک کی ہے۔
31 بلوچ کے کمانڈنگ آفیسر کرنل سلطان احمد چونکہ بذاتِ خود ایک دلیر افسر تھے اس لئے انکے ماتحت بھی جذبہ ایمانی اور جذبہ سر فروشی سے سرشار تھے۔ کیپٹن احسن ملک کو کمال پور کے علاقے میں آگے ایک بارڈر پوسٹ پر حفاظت کےلئے بھیجا گیا۔ یہ علاقہ چھوٹی چھوٹی تین پوسٹوں پر مشتمل تھا۔ کیپٹن ملک کے پاس 70 جوان اپنی یونٹ31 بلوچ کے اور تقریباً اتنی ہی نفری مغربی پاکستان سے حال ہی میں گئے ہوئے سکاوٹس (پیرا ملٹری) کے جوان تھے۔ ان بارڈر پوسٹوں کی دفاعی ذمہ داری تقریباً 2 میل طویل تھی حالانکہ ایک کمپنی کےلئے اتنے طویل فرنٹ کی حفاظت کرنا نا ممکن ہے لیکن اس وقت حالات ہی ایسے تھے۔ سامنے بھارت کا95 برگیڈ گروپ حملے کی پوزیشن میں تھا جسے بریگیڈئر ہردیو سنگھ کلیر کمان کر رہے تھے۔ عام طور پر ایک مکمل برگیڈ میں تین انفنٹری بٹالین ہوتی ہیں لیکن اس برگیڈ گروپ میں 4 انفنٹری بٹالین کے علاوہ ٹینک اور بھاری توپخانہ کی مکمل رجمنٹس اور تقریباً2 بٹالین کے قریب تربیت یافتہ مکتی باہنی بھی موجود تھیں جن میں زیادہ تر آفیسرز اور جوان پاکستانی فوج کے بھگوڑے تھے۔ یہ بریگیڈ گروپ بھارت کی کمیونیکیشن زون کور کے ایک ڈویژن کا حصہ تھا جسے جنرل گور بخش سنگھ گِل کمانڈ کر رہے تھے۔
بریگیڈئر کلیر (Kler) دراصل سگنل کور کا آفیسر تھا جسے جنگ میں95 برگیڈ گروپ کی کمان دیدی گئی۔ وہ اپنے آپ کو ہر قیمت پر ایک جنگجو کمانڈر ثابت کرنا چاہتا تھا۔ پاکستانی فوج کی پوسٹوں پر تعینات جوانوں اور افسروں کو ڈرانے کےلئے اور مخالفت ختم کرنے کےلئے اس نے جنگ شروع ہونے سے بھی بہت پہلے جولائی میں ہی گوریلا کارروائیاں شروع کر دیں۔ اس نے مکتی باہنی اور اپنے جوانوں پر مشتمل گروپ بنائے جنہیں پاکستانی علاقے میں داخل کرکے گوریلا کارروائیوں کا حکم دیا۔ ان گوریلا پارٹیوں نے بہت کوشش کی لیکن کیپٹن ملک کے علاقے پر قبضہ نہ کر سکے۔ 22 اکتوبر اور 14 نومبر کو بٹالین سطح کے دو شدید حملے کئے گئے لیکن کامیابی نصیب نہ ہوئی۔ کیپٹن ملک اور اسکے جوان اپنی اپنی جگہ ڈٹے رہے۔
بریگیڈئر کلیر جنگ کے شروع میں ہی ناکامی کا دھبہ نہیں لگوانا چاہتا تھا۔ لہٰذا مکتی باہنی اور اپنے گوریلا سپاہیوں کے بار بار حملوں میں ناکامی سے تلملا اُٹھا۔ کیپٹن ملک کو سبق سکھانے کےلئے اس نے اپنی ایک اعلیٰ ترین یونٹ13گارڈز بٹالین کو نومبر کے تیسرے ہفتے کیپٹن ملک کی کمپنی پر حملے کا حکم دیا۔ حملے سے پہلے دو دن کمپنی پر بھاری توپخانہ سے گولوں کی بارش کی گئی۔ دو دن کے مسلسل گولے بھی کیپٹن ملک کے حوصلے نہ توڑ سکے۔ 13گارڈز بٹالین نے جب حملہ کیا تو کیپٹن ملک اور اسکے جوانوں نے جوانمردی سے مقابلہ کیا۔ یہ حملہ تو ناکام ہوگیا لیکن 13گارڈز بٹالین نے کمپنی کے پیچھے والے علاقے پر قبضہ کرکے بلاکنگ پوزیشنیں قائم کر لیں۔ توپخانہ کی مدد نہ ہونے کی وجہ سے 31 بلوچ اس علاقے کو نہ بچا سکی اور اس علاقہ پر قبضہ کی وجہ سے کیپٹن ملک کی پوسٹ اپنی یونٹ سے کٹ گئی۔ سپلائی کا کوئی راستہ نہ بچا۔ ملک اور اسکے جوانوں نے پھر بھی ہمت نہ ہاری، آخری گولی اور آخری جوان تک مقابلے کا فیصلہ کیا۔
3 دسمبر کو 31 بلوچ کے میجر محمد ایوب نے کچھ جوانوں کےساتھ 13گارڈز کی بلاکنگ پوزیشن پر حملہ کیا تاکہ کیپٹن ملک اور اسکے جوانوں کےساتھ رابطہ بحال ہو سکے اور انہیں سپلائی اور راشن دیا جا سکے لیکن میجر ایوب کامیاب نہ ہو سکا۔ اس نے 4 دسمبر کو اس پوسٹ تک رابطہ کرنے کی دوبارہ کوشش کی اور شہید ہو گیا۔ (انا للہ وانا الیہ راجعون) بھارتیوں کابھی کافی نقصان ہوا۔ اس دوران بریگیڈئر کلیر نے سامنے سے کیپٹن ملک کی کمپنی پر ہر قسم کا دباﺅ جاری رکھا لیکن بہت نقصان اٹھایا۔ ایک پاکستانی کپتان کے محض 70 جوانوں پر ایک بریگیڈ کے مسلسل حملوں کا ناکام ہونا کلیر کی بہت بڑی بے عزتی تھی۔ لہٰذا اس نے فیصلہ کیا کہ مسلسل حملوں کی بجائے اس دستے کو بھوکا پیاسا مارا جائے۔ اس پوسٹ کے ارد گرد کلیر نے اپنی تین بٹالین بٹھا دیں تاکہ انہیں کسی قسم کی سپلائی نہ پہنچ سکے۔ آفرین کہ ملک پھر بھی اپنی جگہ پر ڈٹا رہا۔ خوشونت سنگھ جس نے اس جنگ کی حقیقی رپورٹنگ کی تھی اپنی جنگی ڈائری میں لکھا :
Kler then \\\"decided to lay a siege to Kamalpur and break down its will to resist. Getting wary because of casualties, successive failures and demoralization among the attacking troops, he decided to starve out the garrison by prolonged siege.\\\"
ترجمہ : ”مسلسل ناکامیوں، بڑھتی ہوئی اموات، پورے بریگیڈ میں پست ہمتی اور خوف کی وجہ سے کلیر نے فیصلہ کیا کہ اس کمپنی کو اپنے حصار میں لیکر بھوک پیاس سے مارا جائے تاکہ ان کی مقابلہ کرنے کی ہمت کو توڑ دیا جائے۔“
خوشونت سنگھ مزید طنز کرتے ہوئے لکھتا ہے :
\\\"A Brigade is demoralized by a company\\\"
”حیران کن بات یہ ہے کہ پورا بریگیڈ ایک کمپنی سے ڈرا ہوا ہے“
خصوصاً جبکہ کمپنی کے پاس توپخانہ بھی نہ تھا۔ خوشونت سنگھ نے اس دلیرانہ مقابلے کو سچے انداز میں خوبصورت طریقے سے بیان کیا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ ”کلیر غصے سے پاگل ہوگیا“ اس نے کئی دن کے حصار کے بعد ایک اور بٹالین کو حملے کا حکم دیا۔ یہ بٹالین بغیر زیادہ نقصان کے کمپنی پوزیشن کے نزدیک پہنچ گئی اور حملے کےلئے پوزیشن لی۔ ملک نے دو مارٹر گنوں اور رائفل فائر سے شدید مقابلہ کیا۔ (جاری ہے)
**************************
حملہ آور کمانڈنگ آفیسر کی بدقسمتی کہ اسکے مورچہ کیساتھ والے مورچہ پر ایک مارٹر کا گولہ گرا اور مورچے میں موجود چاروں جوان مر گئے۔ انکے اعضا ہَوا میں اُڑتے ہوئے دکھائی دئیے۔ کیپٹن ملک جو کئی دنوں سے بُرے حالات میں بریگیڈ کا مقابلہ کر رہا تھا اسکی ہمت تو قائم رہی لیکن حملہ آور بھارتی کمانڈنگ آفیسر کی ہمت جواب دے گئی۔ وہ خوف سے کانپنے لگا اور مزید آگے بڑھنے کا حوصلہ نہ کر سکا۔ کیپٹن ملک کا ساتھ والی پوسٹوں سے اور پیچھے بٹالین سے کئی دنوں سے رابطہ کٹ چکا تھا۔ کئی دنوں سے مسلسل پورے بریگیڈ کی فائرنگ کی زد میں رہا لیکن ہمت نہ ہاری اور اب یہ حالت تھی کہ بریگیڈئر کلیر کی کوئی یونٹ اس کمپنی پر حملے کیلئے تیار نہ تھی۔ پورے بریگیڈ میں اس قدر خوف پھیل گیا کہ کوئی آگے جانے کو تیار نہ تھا۔
جب بریگیڈئر کلیر کی فوج خوف سے آگے نہ بڑھ سکی تو اس نے یہ یونٹ واپس بلا لی اور بھارتی ائر فورس کی مدد مانگی۔ بھارتی مگ 21 طیاروں نے اس معمولی سی پوسٹ پر سارا دن صبح سے شام تک اس قدر بمباری کی کہ پورا علاقہ پاوڈر بن گیا لیکن پھر بھی آگے کوئی نہ آ سکا۔ جب ڈویژن کمانڈر جنرل گور بخش سنگھ نے بریگیڈ کی یہ بے بسی دیکھی تو اس نے خود اس علاقے کی کمان سنبھالنے کا فیصلہ کیا۔ جنرل بخش نے مکتی باہنی کے ایک آدمی کے ہاتھ کیپٹن ملک کو ایک لیٹر بھیجا ”تم جو کچھ بھی کرو ہم یہ پوسٹ ہر قیمت پر ختم کرینگے۔ لہٰذا مزید اموات سے بچنے کیلئے مقابلہ ختم کرو“ لیکن اسکے جواب میں ملک نے پھر فائرنگ شروع کر دی۔ جنرل بخش کو بھی بہت غصہ آیا اس نے شدید بمباری کا دوبارہ حکم دیا جو سارا دن جاری رہی۔ شام کے وقت ایک اور لیٹر بھیجا گیا۔ حیران کن بات کہ ملک تاحال زندہ تھا اور اسکا حوصلہ اسی طرح جوان۔ اس خط کا جواب بھی کیپٹن ملک نے شدید فائرنگ کرکے دیا۔
جب بھارتی بریگیڈ زچ ہوگیا اور جنرل بے بس تو پیچھے پاکستانی ہیڈ کوارٹر سے رابطہ کیا گیا۔ اس وقت تک پاکستانی ہیڈ کوارٹر کی ہمت بھی جواب دے چکی تھی۔ چونکہ اور کوئی رابطہ نہ تھا لہٰذا شام کو ریڈیو پر کیپٹن احسن ملک کو ہتھیار ڈالنے کا حکم دیا گیا۔ اس حکم پر ملک اور اسکے جوانوں نے کئی دن کے بھوکے پیاسے، بھیگی آنکھوں سے سفید جھنڈا لہرایا اور شام سات بجے اپنے آپکو بھارتی فوج کے حوالے کر دیا۔ خوشونت سنگھ کیپٹن ملک کی بہادری کی تعریف کرتے ہوئے لکھتا ہے ”کیپٹن ملک نے بہت بہادری اور جوانمردی سے مقابلہ کیا اور گھیرے میں لینے والے پورے بریگیڈ کو بغیر کسی مدد کے (ائر فورس، توپخانہ یا ٹینک) 21 دنوں تک روکے رکھا“ اس مقابلے کی مکمل کارروائی بھارتی چیف آف آرمی سٹاف فیلڈ مارشل مانک شا تک پہنچی۔ وہ کیپٹن ملک کی بہادری سے بہت متاثر ہوا۔ روایتی دلیر جنرل کی طرح کیپٹن ملک کو مبارکباد کا ذاتی پیغام بھیجا اور اس جراتمندانہ مقابلے پر شاباش دی۔
ڈویژن کمانڈر جنرل گور بخش سنگھ بھی ایک بہادر اور بہادرانہ روایات پر یقین رکھنے والا سولجر تھا‘ جب اسے پتہ چلا کہ کیپٹن ملک نے ہتھیار ڈال دئیے ہیں تو اس نے ملک سے مل کر ذاتی طور پر مبارکباد دینے کا فیصلہ کیا۔ وہ خود بھی ملک کی بہادری سے بہت متاثر تھا۔ وہ اپنے ہیڈ کوارٹر سے جیپ میں ملک کی طرف روانہ ہوا۔ جیپ بریگیڈئر کلیر چلا رہا تھا لیکن بدقسمتی سے یہ جیپ راستے میں ایک بارودی سرنگ کے اوپر حادثے کا شکار ہوگئی۔ جنرل گور بخش سنگھ بُرے طریقے سے زخمی ہوگیا اور اسے فوری ہسپتال لے جایاگیا۔ بریگیڈئر کلیر بھی زخمی ہوگیا۔ جنرل گور بخش سنگھ کی جگہ وقتی طور پر جنرل گندھا وانا گرا نے کمان سنبھالی جو ساتھ والا ڈویژن کمانڈ کر رہا تھا۔ اسے سارے معاملے کا پتہ نہ تھا۔ کیپٹن احسن ملک جیسے سولجرز پاکستان آرمی اور پاکستانی قوم کا عظیم سرمایہ ہیں اور عظیم روایات کے امین۔ قابلِ تعظیم ہے وہ ماں جس نے ایسے عظیم فرزند کوجنم دیا اور پرورش کی۔
٭۔ یہ تمام واقعہ Col. Brian Cloughley نے بھی اپنی مشہو رکتابHistory of the Pakistan Army میں درج کیا۔ کرنل کلاولے آسٹریلوی شہری تھا اور کئی سال یہاں آسٹریلین سفارتخانے میں ملٹری اتاشی رہا۔
٭۔ یہاں کیپٹن احسن ملک کے کمانڈنگ افسر کرنل سلطان احمد کا ذکر نہ کرنا زیادتی ہوگی۔ کرنل سلطان احمد (مرحوم) پاکستان آرمی کے کمانڈو گروپ کے ایک بہت ہی دلیر آفیسر تھے جنہوں نے 1965 اور 1971کی دونوں جنگوں میں ستارہ جرات حاصل کیا۔ کرنل صاحب ان دنوں مشرقی پاکستان میں جمال پور سیکٹر کے سیکٹر کمانڈر تھے اور31 بلوچ کمانڈ کر رہے تھے۔ انہیں بھی بھارتی بریگیڈ کمانڈر بریگیڈئر کلیر نے ایک خط لکھا تھا ۔
”محترم کرنل!
آپکو تمام اطراف سے گھیر لیا گیا ہے لہٰذا آپ کیلئے بچ نکلنے کا کوئی راستہ نہیں بچا۔ میرے پاس توپخانہ اور ہَوائی بمباری کے بھی بے پناہ وسائل موجود ہیں۔ اگر آپ اپنے جوانوں کی زندگیاں بچانا چاہتے ہیں تو میرا مشورہ ہے کہ آپ ہتھیار ڈال دیں۔ میں آپ کو یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ اگر آپ بنگالی، سویلین یا مکتی باہنی والوں کے ہاتھ لگ گئے تو آپکے ساتھ بہت بُرا سلوک ہو سکتا ہے میں آپکو شام 4.30 بجے تک کا وقت دیتا ہوں ورنہ نتائج کے ذمہ دار آپ خود ہونگے۔“
٭....٭....٭
کرنل سلطان احمدکا جواب
محترم بریگیڈئر صاحب!
”خط لکھنے کا شکریہ۔ امید ہے آپ خوش باش اور اچھے موڈ میں ہونگے۔ ہتھیار ڈالنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہمیں خوشی ہے کہ وہ دن جس کا ہم اتنے عرصے سے انتظار کر رہے تھے بالآخر آگیا ہے۔ لہٰذا آئیں انتظار کئے بغیر جنگ شروع کریں‘ جہاں تک آپکی ائر فورس سے بمباری کا تعلق ہے میرے خیال میں یہ بہت کم ہے، تمہیں زیادہ کی کوشش کرنی چاہئے۔
آپ کیساتھ مکتی باہنی والوں کو میرا سلام۔ امید ہے آپ جب پھر ملیں گے تو آپکے ہاتھ میں قلم کی بجائے سٹین گن ہوگی۔ قلم کے تو آپ ویسے ہی دھنی نظر آتے ہیں۔ میدان جنگ میں ملاقات تک خدا حافظ۔“
کمانڈر جمالپور سیکٹر
نوٹ :یہ خط ایک بوڑھے باریش بنگالی کے ہاتھ بھیجا گیا تھا جسے بہت باعزت طریقے سے کرنل صاحب اور تمام آفیسرز نے اپنے ساتھ میس میں بٹھا کر چائے پیش کی۔ مزید یہ کہ ایک لیفٹےننٹ کے مشورے پر اس خط میں ایک گولی بھی رکھ دی گئی جو کرنل سلطان اور 31 بلوچ کی طرف سے ایک واضح پیغام تھا۔ دونوں خطوط کا اصل متن میری کتاب ”جانثارانِِ وطن“ میں دیا گیا ہے یہ کتاب دوست پبلی کیشنز اسلام آباد نے 2008 میں شائع کی۔
اس محاذ پر خطوط کے اس تبادلے کیساتھ جنگ شروع ہوئی۔ دو دن تک پاکستانی ”پاکستان زندہ باد“ اور اللہ اکبرکے نعروں کی گونج میں لہر در لہر حملہ آور ہوئے لیکن ان کا بنیادی مقصد علاقے کا دفاع تھا۔ بریگیڈئر کلیر اور کرنل سلطان دونوں موت سے بال بال بچے۔ بریگیڈئر کلیر کے مطابق اسکے جیکٹ کی جیب گولیوں سے چھلنی تھی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ موت کتنا قریب سے اسے چُھو کر گزری۔ اسی طرح کرنل سلطان کی جیپ بارودی سرنگ پر تباہ ہوئی اسکے ساتھ لوگ بُرے طریقے سے زخمی ہوئے (ڈرائیور یوسف شہید ہو گیا) لیکن کرنل سلطان بچ گیا۔
دو دنوں بعدکرنل سلطان اپنی بٹالین لے کر ڈھاکہ پہنچا۔ یونٹ کا تیسرا حصہ راستے میں شہید ہو گیا۔ ڈھاکہ میں انہیں دشمن کے خلاف سب سے بڑا محاذ سنبھالنے کا حکم ملا جس کی تعمیل کی۔ اس یونٹ کے جوان لڑنے کیلئے تاحال تیار تھے جب اعلیٰ فوجی قیادت نے ہتھیار ڈالنے کا فیصلہ کر لیا۔ مرحوم کرنل نے ہتھیار ڈالنے والے فیصلے سے اتفاق نہ کیا۔ وہ لگاتار لڑنا چاہتا تھا۔ ہتھیار ڈالنے کے بعد بھارتی کمانڈر ان سے خصوصی طور پر ملنے آیا۔ کھانے پر دعوت دی اور بہت سارے نامہ نگاروں نے ان کا انٹرویو کیا جن میں خصوصی طور پر Christian Science Monitorکا انٹرویو بہت مشہور ہوا۔ بعد میں کرنل صاحب نے اپنی بائیوگرافی \\\"The Stolen Victory\\\" میں تمام تفصیلات درج کیں۔“
کیسے کیسے پروانے1947 سے اب تک اس پاک وطن کی حفاظت پر جانثار ہوئے لیکن افسوس کہ قوم نے ان قربانیوں کی کوئی قدرنہ کی۔ شہدائے مشرقی پاکستان پاک وطن کے عظیم فرزند تھے۔ ہماری بے حسی کہ نہ تو اُن کی یاد میں کوئی دن منایا جاتا ہے نہ ہی کوئی یادگار تعمیر کی گئ ·
No comments:
Post a Comment