Saturday, December 8, 2012

بنگلہ دیش سے باضابطہ معافی کا معاملہ



بنگلہ دیش سے باضابطہ معافی کا معاملہ
***********************************
بھارت نے مشرقی پاکستان توڑنے کی عملی منصوبہ بندی1971سے بھی بہت پہلے کی۔ سکھ جنرل کلدیپ سنگھ برار بھارتی فوج کی طرف سے مشرقی پاکستان میں لڑنے والا ایک اہم کمانڈر تھا۔ بعد میں 1984میں اس نے سکھوں کے مقدس مقام ”گولڈن ٹمپل“ پر حملہ کرکے بین الاقوامی شہرت حاصل کی۔ سکھ اس وقت سے اسکی جا ن کے درپے ہیں۔ حال ہی جب وہ انگلینڈ گیا تو 

وہاں لندن میں30ستمبر کوخالصتانی سکھ نوجوانوں نے اس پر حملہ کر دیا۔ موت سے تو بچ گیا لیکن سخت زخمی ہوا۔ اس واقعہ پر تمام اہم اخبارات میں بہت سے مضامین لکھے گئے اور جنرل برار کے انٹرویوز بھی شائع ہوئے۔
ایک ایسا ہی انٹرویو9نومبر2012 کو انٹرنیٹ پر پوسٹ ہوا۔(حوالہ rupeenews.com) اس انٹرویو کےمطابق: ”1971سے اب تک بھارت کی طرف سے کی جانیوالی کاروائیوں کے متعلق بہت سے اعترافات سامنے آئے ہیں۔ پہلا اعتراف تو جنرل مانک شاکی طرف سے ہوا کہ اس نے 1970میں اعلیٰ تربیت یافتہ ہندو فورس کے 80ہزار جوان مشرقی پاکستان میں داخل کئے جن کا مقصد افراتفری پھیلانا ۔تخریب کاری اور بنگالی خواتین کا ریپ کرنا تھا۔ یہ فورس عام بنگالی لباس میں بھیجی گئی۔ ان کارروائیوں کا الزام پاکستان فوج پر لگا کہ اسے بدنام کرنا۔ مشرقی پاکستان میں تباہی پھیلا کر عام بنگالیوں میں خوف و ہراس پیدا کرنا اور انہیں پاکستان فوج کےخلاف متنفر کرنا تھا۔ کئی اور جرنیلوں نے بھی اسکی تصدیق کی ہے“ قابل غور نکتہ یہ ہے کہ یہ فورس 1970میں الیکشن سے بھی پہلے بھیجی گئی۔
مکتی باہنی اور باغی فوجیوں کی فیملیزفروری ۔مارچ 1971 میں جب حالات خراب ہونے شروع ہوئے تو بھاگ کر بھارتی علاقے میں چلی گئیں ۔وہاں مہاجرین کیمپ قائم ہو گئے۔ فوجی ایکشن کے بعد ان کیمپوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوا۔بھارت ان پناہ گزین کیمپوں کی تصاویر دکھا دکھا کر اور غیر ملکی وفود کو ان کیمپس کے دورے کرا کر پوری دنیا کو متاثر کرتا اور امداد بٹورتارہا۔ان فیملیز کو بھارت نے ایک طرح سے قیدی بنا لیا۔ اگر کوئی فیملی ان میں سے واپس آنا بھی چاہتی تو اسے بلیک میل کرکے روک لیا جاتاتاکہ انکے مرد مشرقی پاکستان میں تخریب کاری کےلئے استعمال ہوتے رہیں۔وہ دریاﺅں کے ذریعے مشرقی پاکستان میں داخل ہوتے ۔وہ وہاں افراتفری پھیلانے اورقتل و غارت میں مصروف رہتے۔ان کے پاس نقصان اٹھانے کےلئے کچھ نہ تھاکیونکہ ان کی فیمیلیز پہلے ہی بھارت میں پناہ لے چکی تھیں۔
پاکستانی فوج چونکہ علاقے اور زبان سے ناواقف تھی اس لئے ان حالات میں سراغ رسانی کا موئثر نظام بھی قائم نہیں ہو سکتا تھا اور مکتی باہنی والوں کا خوف اتنا تھا کہ کوئی بھی بنگالی یا بہاری انکی یا انکے گھروں کی نشاندہی کرنے کےلئے تیار نہ تھااس لئے ان کےخلاف کسی قسم کی کاررروائی ممکن نہ تھی۔اس کے برعکس بھارتی گوریلے اورر مکتی باہنی کے لوگ قتل و غارت کی کارروائیاں کرکے ادھر ہی روپوش ہو جاتے۔ ہمارے لئے انہیں تلاش کرنا ممکن ہی نہیں تھا نہ ہم ان کی کارروائےاں روک سکتے تھے۔یہ سب قتل و غارت بھی پاکستان آرمی کے ذمہ لگتی رہی۔اب یہاں اہم سوال یہ بھی پیدا ہوتا کہ شرپسند بنگالی اور ان کی فیملیز تو وہاں موجود ہی نہ تھیں تو پاکستان فوج کن لوگوں کو قتل اور کن خواتین کار یپ کرتی رہی۔ اس دور میں جو لوگ قتل ہوئے ان میں سے زیادہ تر لوگ پاکستان پسند بنگالی یابہاری تھے۔ فوج اتنی پاگل تو نہ تھی کہ اپنے لوگوں کو مارتی۔
فوجی کارروائی کے دوران مغربی پاکستان سے مزید فوج۔ٹیکنےکل لوگ ۔سول پولیس اور کچھ ریٹائرڈ ریزروسٹ (Reservist)وہاں بھیجے گئے ۔ہہ لوگ بالکل ہی علاقے سے، نئے ماحول سے اور سب سے بڑھ کر زبان سے ناواقف تھے۔پولیس والوں کو مکتی باہنی والوں نے چن چن کر مارنا شروع کیا بلکہ ان لوگوں کی حفاظت ایک مسئلہ بن گئی لہٰذا ان لوگوں کو مکتی باہنی کے حملوں سے بچانے کےلئے کچھ اہم علاقوں میں فوجی یونیفارم پہنانا پڑی اس لئے یہ لوگ بھی ہتھیار ڈالنے والوں میں فوجی شمار ہوئے۔مارچ میں جب فوجی کارروائی ہوئی تو اس وقت سے لےکر دسمبر تک پاکستانی فوج کی تعدادمع پولیس تقریباً45ہزار تک پہنچ سکی۔ان 45ہزار میں لڑاکا فوج محض25 سے 30ہزار تھی۔ان 25یا 30ہزار میں بھی ایک معقول تعداد ریٹائرڈ اور بوڑھے فوجیوں کی تھی جو وہاں بھیجے گئے تھے۔یہ تمام فوج مشرقی پاکستان کے ڈیڑھ لاکھ مربع میل کے رقبے میں پھیلی تھی جس کا کام محض نظم و نسق بحال کرنا تھانہ کہ قتل عام کرنا یا ریپ کرنا۔
حال ہی میں مشہور بھارتی صحافی سرمیلا بوس کی ایک تحقیقی کاوشDead Reckoning: Memories of the 1971 Bangladesh War کے نام سے سامنے آئی ہے۔ یہ خاتون آکسفورڈ یونیورسٹی کی سینئر ریسرچ سکالر ہے۔ 6سال کی جان لیوا تحقیق کے بعد یہ کتاب مکمل ہوئی اور آکسفورڈ یونیورسٹی پریس انگلینڈ سے شائع ہوئی۔ اس تحقیق میںجنوبی ایشیا کی اس جنگ کا مکمل احاطہ کیا گیاہے اور بھارتی الزامات کا بھانڈہ ان الفاظ میں پھوڑا ہے۔”جنگ کے شروع میں مشرقی پاکستان میں پاکستان فوج کی کل تعداد لگ بھگ بیس ہزار تھی۔ دسمبر تک یہ تعداد بڑھ کر34 ہزار ہوگئی۔ تقریباً 11ہزار سول پولیس اور رضاکار تھے۔ یہ لوگ وہاں گوریلا اور حقیقی جنگ کا مقابلہ کر رہے تھے ۔ ان حالات میں ان لوگوں کا لاکھوں کے حساب سے خواتین کی عصمت دری کرلینا ”سپر ہیومن“ کارنامہ ہوسکتا ہے حقیقت نہیں۔دوسرا بھارت جارح تھا جس نے ایک آزاد ملک میں80ہزار گوریلے اور بعد میں فوج بھیج کر اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی کی“
”را “کی زیر نگرانی بھارتی اور بنگلہ دیشی میڈیا نے ملکر ایسے ایسے جھوٹ کے پہاڑ کھڑے کئے جن کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی مثلاًپاکستان آرمی پر بنگالی عورتوں۔ بچوں اور بوڑھوں تک کو قتل کے الزامات لگائے گئے جب کہ سرمیلا بوس کی 6سالہ ریسرچ کے مطابق پاکستان آرمی نے کہیں بھی کسی عورت۔ بچے یا بوڑھے پر ہاتھ نہیں اٹھایا۔ سنی سنائی باتیں تو بہت تھیں لیکن کسی نے بھی ایسے قتل کی گواہی نہ دی بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جہاں کہیں ضرورت پڑی پاکستان آرمی نے ایسے لوگوں کی مدد کی ۔ (حوالہ صفحہ164)
اسی طرح9دسمبر1971 کی رات کو ڈھاکہ میں ایک یتیم خانہ پر بمباری کی گئی جس میں تین سو سے زیادہ معصوم بچے ہلاک ہوئے۔ یہ شرمناک ۔جھوٹا اور بیہودہ الزام بھی پاکستان ائیر فورس پر لگاجبکہ پاکستان ائیر فورس کے جہازتو6دسمبر کو ہی ڈھاکہ میں گراﺅنڈ کر دئیے گئے تھے۔ بعدمیں 12دسمبر کے "The Observer"نے یہ پول کھول دیا کہ یہ کارنامہ بھارتی پائلٹس کاتھا۔ 13دسمبر کو جب حالات خراب ہوئے تو غیر ملکیوں کو ڈھاکہ سے نکالا گیا۔ ان غیر ملکیوں نے بھی تصدیق کی کہ بھارتی جہازوں نے 5عدد پانچ سو سے ایک ہزار پونڈ کے وزنی بم برسا کر یہ یتیم خانہ تباہ کیاتھا۔
**********************
کالم نگار | سکندر خان بلوچ(ملتان)
*****************************


No comments:

Post a Comment