ٹیپو سلطان شہید اور انتظامِ ریاست
=====================
اقبال کے مردِ مومن کو اگر مجسم دیکھنا ہو تو ٹیپو سلطان شہید کو دیکھا جاسکتا ہے۔ برعظیم پاک وہند کی تاریخ میں ٹیپو سلطان (۱۷۹۹۔۱۷۵۱ء) کو ایک لازوال اہمیت حاصل ہے۔ دنیا کی تاریخ بمشکل اس اولوالعزم سلطان کی نظیر پیش کر سکے گی۔ٹیپو سلطان نہ صرف ایک مردِ مجاہد تھابلکہ حقیقی معنیٰ میں اقبال کا ایک مردِ مومن تھا۔ عالِم بھی تھا، عابد بھی۔ ایک بہترین سپہ سالار بھی تھا اور ایک بہترین منتظم بھی۔ایک تجربہ کار سیاستدان اور غیر معمولی بصیرت رکھنے والا عوامی رہنما اور قائد بھی۔
جس وقت عنانِ حکومت ٹیپو سلطان کے ہاتھ آئی، اس نے دو اہم کام کیے۔ ایک جانب اپنی پوری توجہ اتحاد بین المسلمین اور اتحاد بین الاقوام ہند پر مرکوز کی۔دوسری جانب ملک کی صنعت و حرفت پر پوری توجہ دی۔ سلطان کے یہی عزائم و ارادے تھے جس نے ایسٹ انڈیا کمپنی کو سلطان کا مخالف بنا دیا اور اسی مخالفت نے اس کو تمام عمر جنگوں میں مصروف رکھا۔ مگر باوجود اس کے سلطنتِ خداداد میسور نے صنعت و حرفت اور دیگر فنون میں جو ترقی کی وہ میسور کو کبھی دوبارہ حاصل نہ ہوسکی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی جان چکی تھی کہ اگر ٹیپو سلطان کو اپنے ارادوں میں کامیاب ہونے دیا جائے تو پھر ہندوستان پر قبضہ ہر گز نہیں ہوسکتا۔
ٹیپوسلطان کے خطرہ کو ختم کرنے کے لیے انگریز، نظام اور مرہٹے متحد ہوگئے۔انگریز اسے ہندوستان پر اپنے اقتدارِ کامل میں سب سے بڑی، بلکہ واحد رکاوٹ سمجھتے تھے۔ اس اتحاد کے مقصد کو مزید کامیاب بنانے اور رائے عامہ کی اخلاقی ہمدردی حاصل کرنے کے لیے انگریزوں نے ٹیپو سلطان کی مفروضہ چیرہ دستیوں کو اس انداز میں دور تک پہنچادیا کہ خود اپنے بھی اس سے نفرت کرنے لگے۔ فورٹ ولیم کی دیواروں پر کھڑے ہوکر اعلان کردیا گیا کہ ٹیپو سفاکی میں چنگیز خان اور ہلاکو سے بڑھ کر ہے۔
ٹیپو سلطان کی شہادت اور سلطنت خداداد کے زوال کے بعد انگریزوں کے مقابلے کے لیے کوئی بڑی طاقت نہیں رہ گئی تھی۔ ملک میں ان کے توسیع پسندانہ عزائم کی راہ میں ٹیپو سلطان ہی سب سے بڑی رکاوٹ تھا۔ اس کی شہاد ت کے بعد ہی ان کی زبان سے پہلی دفعہ یہ معنی خیز جملہ نکلا کہ ’’آج سے ہندوستان ہمارا ہے‘‘۔
ضروری ہے کہ ٹیپو سلطان کے عہدِ حکومت اور انتظامِ ریاست کا بغور مطالعہ کیا جائے تاکہ حقائق سے آگہی حاصل ہو سکے۔ ٹیپو سلطان نے اپنے ۱۷ سالہ عہد حکومت (۱۷۹۹۔۱۷۸۲ء) میں زندگی کا کوئی لمحہ اطمینا ن اور چین سے نہیں گزارا۔ یہ سارا عرصہ جنگی معرکوں میں گزرا جو مہلت ملی اس میں وہ اپنے زیرِ اقتدار علاقوں میں زراعت کی ترقی، آب رسانی کی سہولتوں میں اضافے، نہروں اور تالابوں اور سڑکوں اور پلوں، بندرگاہوں اور نئے شہروں کی تعمیر، چھوٹی بڑی صنعتوں کی ترقی، فوجی و انتظامی اصلاحات اور بیرون ملک و پڑوسی حکمرانوں سے سفارتی روابط اور داخلی معاملات پر گفت و شنیدجیسے اہم انتظامی و تعمیراتی امور میں الجھا رہا۔ ساتھ ہی ساتھ میدان جنگ کے نقشوں کو مرتب کرتا، لڑائی کی منصوبہ بندی کرتا اور اپنے عمال حکومت، فوجی سالاروں اور قلعہ داروں کو ہدایات جاری کرتا۔ اس کی شہادت کے بعداس کے ذخیرے سے ملنے والے چار ہزار سے زائد خطوط کے موضوعات و مندرجات اس کی ایسی کارگزاریوں کا واضح ثبوت ہیں۔ حیرت ہوتی ہے کہ جس فرمانرو ا کی زندگی کا ایک ایک لمحہ شہزادگی سے شہادت تک مسلسل خوفناک لڑائیوں میں گزرا، اسے ان معاملات پر توجہ دینے کا وقت کیوں کر ملتا تھا۔ حق یہ ہے کہ سلطان حکومت کو خدا کی طرف سے امانت سمجھتا تھا اور اس امانت کا حق ادا کرنے کی جیسی عملی مثال اس نے پیش کی، اس کی نظیریں بہت کم ملیں گی۔
ٹیپو سلطان نے تخت نشینی کے بعداپنی رعایا کے نام جو پہلا سرکاری فرمان جاری کیا اس میں بلاتفریق مذہب و ملت اپنی رعایا کی اخلاقی اصلاح، ان کی خوشحالی، معاشی و سیاسی ترقی، عدل و انصاف، جاگیرداروں اور زمین داروں کے ظلم وستم سے نجات، مذہبی و لسانی و طبقاتی عصبیت کا خاتمہ، اور دفاع وطن کے لیے جان کی بازی لگادینے کا عزم کیا۔
ملک کے قدیم طرز حکمرانی کو یکسر بدل دیا۔سلطنت کے امور میں عوام کو زیادہ سے زیادہ حصہ دینے کے لیے کوشاں رہا۔ اس نے جمہوری تقاضوں کے پیش نظر ایک مجلس شوریٰ قائم کی جس کا نام ’مجلس غم نباشد‘تھا۔
ٹیپوسلطان نے تخت نشین ہونے کے بعد دو نئے آئین بنائے۔ ایک فوج کے لیے جس کا نام ’فتح المجاہدین‘ تھا اور دوسرا عوام کے لیے جس کا نام ’ملکی آئین‘ تھا۔ سرنگا پٹم میں جامع الامور کے نام سے ایک یونیورسٹی قائم کی جہاں بیک وقت دینی و دنیاوی دونوں طرح کی تعلیم دی جاتی تھی۔ حکومت کی طرف سے مختلف علوم و فنون کے ماہرین کو بھاری مشاہرہ پر یہاں مقرر کیا گیا تھا۔
ٹیپو سلطان کو جدت و اختراعات کا خاص شوق تھا۔کئی شہروں کے نام بدل ڈالے۔ مثلاً بنگلور کا نام دارالسرور، کالی کٹ کا اسلام آباد، میسور کا نظر آباد، اور مینگلور کا جمال آباد رکھا۔ وزن اور پیمانوں کے نام بھی تبدیل کردیے۔نیا روپیہ جاری کیااور مختلف نسبتوں سے ان کے نام رکھے مثلاً احمدی، صدیقی، فاروقی، حیدری وغیرہ۔ نئی وضع کی بندوقیں اور توپیں بنوائیں، ایسی ڈھالیں تیار کرائیں جن پر تیر یا گولی کا اثر نہیں ہوتا تھا۔ جرائم کی بیخ کنی کے لیے ایک نئی تدبیر سوچی۔ ہر مجرم کو اس کے جرم کی مناسبت سے ایک درخت اگانے کی ذمہ داری سونپی۔ معمولی جرم کے لیے ایسا درخت تجویز پاتا جس کے لیے کم محنت و مہلت درکار ہوتی اور سنگین جرم کے لیے ایسا درخت اگانے کی ذمہ داری جس کے لیے کافی محنت و مہلت درکار ہوتی۔ سلطان معمولی سے معمولی مسئلہ میں بھی پور ی توجہ ظاہر کرتا تھا۔ علوم و فنون، طب، تجارت، معاملات مذہبی، تعمیر، فوجی محکمات اور بے شمار دوسرے امور پر سلطان یکساں مہارت سے قطعی رائے دیتا تھا۔
ہندوستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ ٹیپو سلطان نے مردم شماری کرائی۔پنچایت راج کی بنیاد رکھی۔ اسی کے حکم سے فرانسیسی ماہرین نے پانی سے چلنے والا ایک ایسا انجن تیار کیا جس سے توپوں میں باآسانی سوراخ کیا جاسکتا تھا۔ دنیا میں میزائل ایجاد کرنے کا سہرا بھی اسی کے سر تھا۔ حتیٰ کے امریکیوں نے بھی اس کو راکٹ کے بانیوں میں شمار کیا ہے۔ وہ جب بھی اپنی سلطنت کے کسی کارخانہ میں جاتا تو نئے طرز یا جدید انداز کی کوئی چیز بنانے کا حکم ضرور دیتا۔
سلطان کی بری اور بحری فوجوں کا انتظام قابل داد تھا، فوج کے محکمہ میں گیارہ بڑے بڑے شعبے تھے، سلطنت کے کل رقبہ کو ۲۲ فوجی اضلاع میں تقسیم کیا گیا تھا۔ اس نے ۱۷۹۶ء میں امراء البحر کی ایک جماعت قائم کی۔ جس میں گیارہ اراکین تھے۔ ان اراکین کا لقب میریم رکھا گیا تھا۔ ان اراکین کے ماتحت ۳۰؍امیر البحر تھے۔ بحری فوج کے متعلق بیس جنگی جہاز کلاں اور بیس چھوٹے جنگی جہاز تھے۔ سلطان کو فن جہاز سازی سے بھی شغف تھا۔ وہ جہازوں کے نقشے خود تیار کرتا تھا۔ جہازوں کے پیندوں کے واسطے ہدایت کی گئی تھی کہ تانبے کے پیندے لگائے جائیں تاکہ چٹانوں سے ٹکرانے کی صورت میں نقصان نہ پہنچے۔ جہاز سازی کے لیے لکڑی کا جنگل بھی نامزد کردیا گیا اور سب مدارج کے افسروں کی تنخواہوں کی بھی صراحت کردی گئی۔ فوجیوں کی باقاعدہ تربیت کے لیے خصوصی مراکز قائم کیے گئے اور پوری فوج کو ازسرنو منظم کیا گیا۔
ٹیپو سلطان نے ہر ہر شہر، قصبہ اور قلعہ کے چار دروازے مقرر کیے جہاں پہرے دار مقرر کیے کہ ملک میں بغیر اطلاع و اجازت کوئی آنے نہ پائے اور ہر مقام کی رویدادپر فوری اطلاع کا انتظام کیا گیا۔ جس مقام پر چوری ہوجاتی، وہاں کے پولیس افسر کو اس کا ذمہ دار قرار دیا جاتا۔ اگر مجرم گرفتار نہ ہوسکتا تو پولیس افسران کی تنخواہ سے اس کی تلافی کی جاتی۔ ان مقامات پر جہاں ڈاکوؤں کے حملہ کا خطرہ رہتا تھا، وہاں کے رہنے والوں کو آتشیں اسلحہ رکھنے کی عام اجازت دی جاتی۔ عدل و انصاف کا یہ عالم تھا کہ ہر شہر میں قاضی اور ہر گاؤں میں پنچائت مقدموں کا فیصلہ کرتی۔ اگر فریقین میں سے کسی ایک کو ابتدائی عدالتوں کے فیصلہ پر شک ہوتا تو مقدمہ صدر عدالت (ہائیکورٹ) میں دائر کیا جاتا۔ سلطان نے افسرانِ ضلع کے نام حکم جاری کررکھا تھا کہ وہ ہر سال سرنگاپٹم (دارالحکومت) میں جمع ہوکر انتظامی امور کے متعلق مشورہ کیا کریں۔
ٹیپو سلطان کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ اردو اخبار کا بانی تھا۔ ۱۷۹۴ء میں اس نے اپنی ذاتی نگرانی و سرپرستی میں ایک ہفت روزہ جاری کیا۔ اس ہفت روزہ میں سلطنت کے مختلف علاقوں میں پھیلے ہوئے سپاہیوں کے نام سلطان کی ہدایات شائع ہوتی تھیں۔ یہ ہفت روزہ سلطان کی شہادت تک مسلسل پانچ سال پابندی سے شائع ہوتا رہا۔
ٹیپو سلطان کا ایک بڑا کارنامہ یہ بھی ہے کہ اس نے غلاموں اور لڑکیوں کی خریدو فروخت بالکل بند کردی۔ ان کے لیے یتیم خانے بنائے۔ (بعض بُری روایات کو روکنے کے لیے) مندروں میں لڑکیوں کا داخلہ ممنوع قرار دے دیا۔ زمین داریوں کا خاتمہ کرکے مزدوروں او ر کسانوں کو زمین کا مالک قرار دیا۔زمین کو رعایا کی ملکیت قرار دیا گیا، زمین پر کسانوں کا دوامی قبضہ تسلیم کرلیا گیا۔ زمین صرف اس کی تھی جو ہل چلائے۔ ٹیپوسلطان نے احکام جاری کردیے تھے کہ جو شخص زمین کے لیے درخواست کرے،اسے اس کی ضرورت کے مطابق زمین مفت دی جائے۔ تجارت کی توسیع کے لیے بیرونی ملکوں سے روابط پیدا کیے۔ دور دور سے کاریگر بلا کر اپنے ہاں ہر قسم کی صنعتیں جاری کیں۔ دوسرے ممالک سے ریشم کے کیڑے منگوا کر ان کی پرورش و پرداخت کا طریقہ اپنی رعایا کو سکھایا۔ اس کے علاوہ جواہر تراشی اور اسلحہ سازی کے کارخانے بھی قائم کیے۔ ان کارخانوں میں گھڑی سازی اور قینچیوں کا کام بھی ہوتا تھا۔ ان کارخانوں کے قیام سے ایک بڑا فائدہ یہ ہوا کہ ضرورت کی ہر چیز اب سلطنت میں تیار ہونے لگی۔ درآمدات پر انحصار کم ہوگیا اور سلطنت میں تیار کردہ چیزیں برآمد ہونے لگیں۔ دوسری طرف ہزاروں بے روزگاروں کے مسائل بھی اس سے حل ہوئے۔
اقتصادی مسائل پر قابو پانے کے بعدٹیپو سلطان نے ایک نئی تجارتی پالیسی وضع کی جس کے تحت بیرونی ممالک ایران، ترکی اور حجاز وغیرہ سے مسلم تاجروں کو سلطنت خداداد میں آ کر تجارت کرنے کے لیے حکومت کی طرف سے خصوصی رعایتوں سے نوازا گیا۔ خود حکومت کی زیر سرپرستی ایک بڑی تجارتی کمپنی بھی قائم کی گئی جس میں اس کی رعایا میں سے ہر کوئی بلاتفریق مذہب اپنا سرمایہ لگا کر نفع و نقصان کے اسلامی اصولوں کی بنیاد پر شریک ہوسکتا تھا۔ وسط ایشیا کی ریاست آرمینیا سے غیر ملکی تاجروں کو میسور کی حدود میں لاکر بسایا گیا۔میسور سامان تجارت لانے والے چینی سوداگروں کو مالابار کے ڈاکو تنگ کرتے تھے۔ سلطان نے ان کی حفاظت کے لیے کئی جہاز مقرر کردیے۔ سلطان کی ان کوششوں کے نتیجے میں سلطنت خداداد میں تجارت اور صنعت و حرفت نے بہت زیادہ ترقی کی۔
سلطان نے جہاں جاگیرداری کو ختم کیا، وہاں سرمایہ داری کے خاتمے کے لیے بھی اقدامات کیے۔ تمام سلطنت میں، رعایا، تاجروں اور کاشتکاروں کے لیے بنک جاری کیے۔ ان میں خاص بات یہ تھی کہ غریب طبقہ اور چھوٹے سرمایہ داروں کو زیادہ منافع دیا جاتا تھا۔ ان تمام اصلاحات اور سلطان کی جدوجہد کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہندوستان کے تمام علاقوں میں میسور سب سے زیادہ خوشحال اور سرسبزو شاداب علاقہ ہوگیا۔ میسور کی تیسری جنگ میں انگریزجب اس علاقے میں داخل ہوئے تو ان کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی۔
عربی کا ایک مقولہ ہے کہ خوبی وہ ہے جس کا اعتراف دشمن کرے۔ ٹیپو سلطان سے انگریزوں کے بے انتہا تعصب کے باوجود کیپٹن لٹل جس نے میسور کی تیسری جنگ میں نمایاں حصہ لیا تھا، اپنی یادداشتوں میں لکھتا ہے:
’’ٹیپو کے متعلق بہت سی افواہیں سنی جاتی تھیں کہ وہ ایک جابر و ظالم حکمران ہے۔جس کی وجہ سے اس کی تمام رعایا اس سے بے زار ہے۔ لیکن جب ہم اس کے ملک میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ صنعت و حرفت کی روز افزوں ترقی کی وجہ سے نئے نئے شہر آباد ہوئے اور ہوتے جارہے ہیں۔ رعایا اپنے کاموں میں مصروف و منہمک ہے۔ زمین کا کوئی حصہ بھی بنجر نظر نہیں آتا۔ قابل کاشت زمین جس قدر بھی مل سکتی ہے اس پر کھیتیاں لہرارہی ہیں۔ ایک انچ زمین بھی بیکار نہیں پائی گئی۔ رعایا اورفوج کے دل میں بادشاہ کا احترام اور محبت بدرجہ اتم موجود ہے۔ فوج کی تنظیم اور اس کے ہتھیاروں کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ یہ یورپ کے کسی مہذب ملک کی فوج سے کسی حالت میں پیچھے نہیں ہے۔‘‘ بقول اقبال:
رفت سلطاں زیں سرائے ہفت روز
نوبتِ او در دکن باقی ہنوز
ایک زمانہ تھا کہ تقسیم ہند سے قبل کسی نوجوان کے لیے سب سے اعلیٰ اور قابل رشک مقام آئی سی ایس (انڈین سول سروس) میں داخل ہونا تھا۔ یہی وہ طبقہ تھا جو دراصل ہندوستان پر حکومت کررہا تھا۔علامہ عبداللہ یوسف علی اور مولانا محمد علی جوہر تقریباً ایک دوسرے کے ہم عصر تھے۔ مولانا محمد علی جوہر کی بھی خواہش تھی کہ وہ آئی سی ایس آفیسر بنیں۔ لیکن وہ امتحان میں کامیاب نہیں ہوئے۔ حال ہی میں شائع ہونے والی علامہ عبداللہ یوسف علی کی سوانح حیات "Searching for Solace" کے مصنف نے اس بارے میں لکھاہے:
’’وجہ یہ تھی کہ انڈین ہسٹری جیسے مضامین کے پرچے میں ایسے سوال شامل کیے جاتے تھے جن سے امیدواروں کے ذہنی رویوں اور جذباتی تعلق کا اندازہ لگایا جاسکے۔ اس طرح امیدواروں کے بارے میں یہ جانچنے کا موقع مل جاتا تھا کہ آیا وہ برطانوی راج کے وفادار بن سکتے ہیں یا نہیں۔ مثلاً ’بتائیے آپ ٹیپو سلطان کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟‘ جیسا سوال، جو برٹش انڈیا کی ہسٹری کے پرچہ میں۱۸۹۵ء میں پوچھا گیا تھا، بڑی آسانی سے یہ بات سامنے لے آتا تھا کہ امتحان میں شریک امیدوار کس حد تک اس مسلم حکمران کی ان کارروائیوں کی تائید کرتا ہے جو اس نے برطانیہ کے خلاف کی تھیں۔‘‘
درج بالا اقتباس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حکومت برطانیہ ٹیپو سلطان سے کس حد تک خوفزدہ تھی۔ ساتھ ہی حکومت برطانیہ کے تعصب، تنگ دلی اور تنگ نظری کا اندازہ بھی لگایا جاسکتا ہے۔ یہ دلچسپ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ ٹیپو سلطان کی شخصیت وہ پیمانہ ہے جس پر انگریز اپنے وفاداروں کا انتخاب کیا کرتے تھے۔دوستوں اور دشمنوں کو جانچا کرتے تھے۔کسی نے خوب کہا ہے کہ کچھ برگزیدہ شہید ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی آزمایش، عقوبتِ مطّہرہ اور شہادتِ عظمیٰ ان کی موت کے ساتھ ختم نہیں ہوتی۔ ربِّ جلیل انہیں شہادتِ جاریہ کی سعادت سے سرفراز فرماتا ہے۔
No comments:
Post a Comment