Friday, November 23, 2012

اللہ والے


کسی جگہ پر ایک اللہ والے رہتے تھے ،کچھ لوگ ان کے متعلق سن کر ان کے عقیدت مند بن گئے۔۔۔ ایک دن خیال آیا کہ ان کے پاس چلیں اور جا کر خود ان کی کرامتوں کا مشاہدہ کریں۔۔۔ اور اگر وہ واقعی کرامت والے بزرگ ہیں تو ان کی مریدی اختیار کی جائے ، وہ لوگ ان بزرگ کے شہر پہنچے اور آستانے پر ڈیرے جما لئے۔۔
ان لوگوں نے دن رات ان اللہ والوں کے معمولات دیکھے لیکن کوئی بھی غیر معمولی چیز نہ دیکھی۔ ایک
 دو ہفتے بعد ان
ھیں احساس ہوا کہ وہ بزرگ تو عام آدمیوں جیسے ہیں۔۔عام لوگوں کی طرح کھاتے پیتے ہیں ، عام لوگوں کی طرح عبادت کرتے ہیں، ان میں تو ایسی کوئی بات نہیں جس کی وجہ سے انہیں صاحب کرامت بزرگ سمجھا جائے، اس بات سے ان لوگوں کا دل بزرگ کی عقیدت سے خالی ہونا شروع ہو گیا۔۔۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ ہم نے اپنے مال اور وقت کو ضائع کیا ہے بہتر ہے واپس چلیں اور کسی سچے ولی کی تلاش کریں۔۔ اسی سوچ میں وہ بزرگ کے پاس اجازت کے غرض سے پہنچے۔۔۔
بزرگ نے ان سے پوچھا کہ آپ لوگ کس مقصد کے لیے آئے تھے اور اب واپس کیوں جا رہے ہیں ، انہوں نے جواب دیا کہ حضرت ہم نے آپ کی بڑی شہرت سنی تھی کہ آپ بڑے اللہ والے ہو تو ہم آپ کے مرید بننے کے لیے حاضر ہوئے تھے لیکن ہم نے تو آپ میں کوئی غیر معمولی بات نہیں دیکھی اس لیے ہم مایوس ہوکر واپس جا رہے تھے
بزرگ نے انہیں دیکھا اور مسکرائے۔۔۔ اور بولے کیا آپ نے پچھلے دو ہفتے میں مجھ سے کوئی ایسی بات ہوتے دیکھی جو شریعت ، سنت اور اخلاق مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منافی ہو۔۔۔۔ کسی چھوٹے سے چھوٹے کام میں بھی میں نے سنت کا خیال نہ رکھا ہو،
سب یک زبان بولے نہیں بلکہ ہم نے آپ کو شریعت کے احکامات کا پابند اور نہایت متقی پایا۔۔۔ اور آپ کی سارے معمولات سنت نبوی کے مطابق ہی پائے
بزرگ پھر مسکرائے۔۔۔ اور بولے دوستو اللہ کے ولیوں کی سب سے بڑی کرامت ان کا احکام شریعت کی بجا آوری اور خلق خدا کی خدمت میں جتے رہنا ہوتا ہے۔۔۔ یاد رکھو جس کی زندگی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت نہیں وہ اللہ کا ولی نہیں ہو سکتا ، اللہ کا ولی وہی ہوگا جو کسی بھی معاملے میں سنت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑے اب اگر آپ سمجھتے ہو یہ چیزیں مجھ میں ہیں تو آپ کا آنا غلط نہیں گیا۔۔۔
کیاہم بھی کسی کے عقیدت مند بننے سے پہلے یہ چیز دیکھتے ہیں کہ اس کی زندگی میں سنتوں کا کتنا اہتمام ہے
خود بھی پڑھیں اور دوستوں کو بھی شیئر کریں

محمد بن قاسم سندھ فتح کرکے کہاں گیا؟



محمد بن قاسم سندھ فتح کرکے کہاں گیا؟

محمد بن قاسم کے حوالے سے ہماری درسی کتابیں ہمیں بار بار یہ تو بتاتی ہیں کہ اُس نے سترہ سال کی چھوٹی سی عمر میں فوجی جرنیل کا عہدہ سنبھال کر سندھ پر حملہ کیا اور بڑی مہارت سے دیبل سے لے کر ملتان تک کا علاقہ تھوڑے سے عرصے میں فتح کر لیا۔ تاہم یہ کتابیں اس حوالے سے مکمل طور پر خاموش ہیں کہ محمد بن قاسم سندھ فتح کرنے کے بعد کہاں گیا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمارے طلبا
ء/نوجوانوں کو بھی میں نے کبھی یہ سوال اٹھاتے نہیں سنا۔ حالانکہ فطری سی بات ہے کہ بندے کو یہ تجسس پیدا ہوتا ہے کہ آخر جس نوجوان نے سترہ سال کی عمر میں سندھ فتح کر لیا اُس نے باقی کی زندگی کیسے گزاری۔ کسی مشہور شخص کی پیدائش کا احوال معلوم نہ ہونا تو اتنی حیرت کی بات نہیں۔ لیکن اگر کسی شخص نے چھوٹی سی عمر میں اتنا بڑا کارنامہ انجام دیا ہو تو اس کی موت کے حوالے سے کتابوں میں کوئی ذکر نہ ملنا یقیناً حیرت کی بات ہے۔

اسی تجسس نے لالاجی کو بے چین کر دیا اور لالا جی نے اس معاملے کو کریدنا شروع کر دیا۔ اس کے نتیجے میں جو چند باتیں مختلف ذرائع سے سامنے آئیں وہ پیش خدمت ہیں:

پہلی بات تو یہ ہے کہ محمد بن قاسم سندھ کی فتح کے بعد کچھ زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہا۔ سترہ سال کی عمر میں سندھ پر حملہ کرنے نکلا۔ اُس زمانے میں سفر کی مشکلات اور طوالت کو سامنے رکھئے، پھر دیبل (موجودہ کراچی کے آس پاس کوئی جگہ) سے لیکر ملتان تک کی فتوحات میں لگ بھگ تین سال لگ گئے۔ تقریباً سارے ہی مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ محمد بن قاسم کی وفات بیس (۲۰) سال کی عمر میں ہوئی۔

دوسری بات یہ ہے کہ محمد بن قاسم کی موت میدانِ جنگ میں لڑتے ہوئے نہیں ہوئی۔ نہ ہی کسی بیماری کی وجہ سے ہوئی۔ اگرچہ مورخٰین موت کے حوالے سے کوئی متفقہ فیصلہ نہیں دیتے تاہم اس بات پر سب متفق ہیں کہ محمد بن قاسم کی موت اپنے ہی حاکم کی طرف سے دی گئی سزا کے نتیجے میں واقع ہوئی۔

موت کیسے ہوئی ، حاکم کیوں ناراض ہوا، کیا سزا سنائی گئی…ان باتوں پر مورخین میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ محمد بن قاسم کی موت کے حوالے سے دو بیانات ملتے ہیں:

1) چھچھ نامہ سندھ کی تاریخ پر پہلی باقاعدہ کتاب سمجھی جاتی ہے۔ چھچھ نامہ میں محمد بن قاسم کے سندھ پر حملے اور سندھ کے مختلف شہروں کے محاصرے، جنگوں اور فتوحات کی تفصیلات درج ہیں۔ اس کتاب کا انگریزی ترجمہ انٹرنیٹ پر دستیاب ہے۔ اس کتاب کے مطابق محمد بن قاسم نے راجہ داہر کی موت اور اس کی فوج کو شکست دینے کے بعد مسلمانوں کے دستور کے مطابق مالِ غینمت اور راجہ کی بیوی اور بیٹیوں کو اپنے حاکم حجاج بن یوسف کو بھجوا دیا۔ راجہ داہر کی بیٹیوں نے حجاج بن یوسف سے جھوٹ بولا کہ وہ خلیفہ کے لائق نہیں کیوں کہ محمد بن قاسم نے انہیں پہلے ہی استعمال کر لیا تھا۔ اس بات پر حجاج بہت ناراض ہوا اور حکم دیا کہ محمد بن قاسم کو بیل کی کھال میں بند کر کے واپس لے آؤ۔ اس کے حکم پر عمل کیا گیا تاہم بیل کی کھال میں دم گھُٹنے سے محمد بن قاسم کی راستے ہی میں موت واقع ہو گئی۔ بعد میں حجاج کو راجہ داہر کی بیٹیوں کا جھوٹ معلوم ہو گیا۔ انہوں نے محمد بن قاسم سے اپنے باپ کی موت کا بدلہ لینے کے لئے یہ جھوٹ بولا تھا۔ حجاج نے ان لڑکیوں کو زندہ دیوار میں چنوا دیا۔

2) أحمد بن يحيى بن جابر البلاذري ایک مسلمان مورخ ہے جو خلیفہ المتوکل کے دربار تک رسائی رکھتا تھا۔ اس نے مسلمانوں کے ابتدائی دور کی تاریخ کو قلم بند کیا ہے۔ البلاذري نے ایک کتاب لکھی تھی فتوح البلدان کے نام سے جس کا انگریزی ترجمہ فلپ کے ہِٹی(Philip K Hitti) نے ‘The Origins of the Islamic State’کے نام سے کیا ہے۔ البلاذري کے مطابق714ء میں حجاج کی موت کے بعد اُس کے بھائی سلیمان بن عبدالمالک نے حکومت سنبھالی۔ وہ حجاج بن یوسف کو سخت ناپسند کرتا تھا۔ اُس نے عنان حکومت سنبھالتے ہی حجاج کے منظورِنظر افراد کو قید کروا دیا۔ محمد بن قاسم بھی حجاج بن یوسف کے پسندیدہ افراد میں گنا جاتا تھا(یاد رہے کہ محمد بن قاسم حجاج بن یوسف کا داماد بھی تھا اور بعض مورخین کا خیال ہے کہ بھانجا بھی تھا)۔ چنانچہ محمد بن قاسم کو بھی قید کر دیا گیا۔ قید کے دوران میں ہونے والے تشدد کے نتیجے میں محمد بن قاسم کی موت واقع ہو گئی۔

محمد بن قاسم کی موت کے حوالے سے یہ باتیں قوم کے نونہالوں سے چھپا کر ہمارا محکمہ تعلیم کیا حاصل کرنا چاہتا ہے اس کا تو پتہ نہیں۔ تاہم اپنے ماضی کے ناپسندیدہ واقعات کو چھُپایا تو جا سکتا ہے، مٹایا نہیں جا سکتا۔ جو قوم اپنی تاریخ سے پوری طرح آگاہ نہیں ہوتی، وہ کبھی بھی پورے اعتماد سے دوسری قوموں کے ساتھ برابری کی بنیاد پر تعلقات استوار نہیں کر سکتی۔

خود بھی پڑھیں اور دوستوں کو بھی شیئر کریں

مزید کے لیے ضرور وزٹ کریں
██▒░ Page for +ve Pakistan stuff-> Mai Pakistani Hoon ░▒▓██
██▒░ Like Page www.facebook.com/Mai.Pakistani.Hoon ░▒▓██
 

ایک پردیسی کی کہانی



پاکستان یا انڈیا میں جس بندے نے اچھے کلف لگے اکڑے هوئے کپڑے پہنے هوں ، بڑا صاف ستھرا بن کے بیٹھا هو بقول شخصے ناک پر مکھی نہ بیٹھنے دے ،
اس سے پوچھ کر دیکھیں کہ بھائی صاحب آپ کا کاروبار کیا هے ؟ تو زیادہ تر کا جواب هو گا بھائی یا بیٹا باہر 
هوتا ہے

یا یہ سوال کیا جائے ، بھائی آپ کیا کرتے هو؟
تو ان کا کوئی مصاحب پاس سے جواب دے گا جی پیسہ ان کے لیے مسئلہ ہی نہیں ہے ،
آ پ نے سنا نہیں ہے کہ ان کے بھائی اور بیٹے باہر هوتے هیں .

یہ تحریر بھی اسی موضوع پر ہے۔ جو کہ ایک پر
دیسی اور اس کے گھر والوں کے مابین خطوط کی شکل میں ہے۔
شاید کچھ لمبی تحریر ہے لیکن پڑھیں گے تو اچھی لگے گی۔
____________________________

ایک پردیسی کی کہانی !
_______________________

پیارے ابو جان اور امی جان
مجھے آج ملک سے باہر پانچ سال ہو گئے اور میں اگلے ماہ اپنے وطن واپسی کا ارادہ کر رہا ہوں، میں نے اپنے ویزا کے لیے جو قرض لیا تھا وہ ادا کر چکا ہوں اور کچھ اخراجات پچھلی چھٹی پر ہو گئے تھے۔ تحفے تحائف لینے میں اور کچھ دیگر اخراجات۔ اب میرے پاس کوئی بڑی رقم موجود نہیں لیکن میری صحت ابھی ٹھیک ہے اور میں خود کو اس قابل سمجھتا ہوں کہ پاکستان جا کر کوئی بھی اچھی نوکری کر سکوں اور گھر کے اخراجات چلا سکوں۔ یہ جگہ مجھے پسند نہیں ہے میں اپنے گھر رہنا چاہتا ہوں۔ آپ کی کیا رائے ہے اس بارے میں
آپکا پیارا – جمال

پیارے بیٹے جمال
تمھارا خط ملا اور ہمیں تمھاری چھٹی کے بارے میں پڑھ کر خوشی ہوئی۔باقی تمھاری امی کہہ رہی تھی کہ گھر کی حالت بہت خراب ہو رہی ہے اور تم جانتے ہو برسات شروع ہونے والی ہے۔ یہ گھر رہنے کے قابل نہیں ہے۔ گھر چونکہ پرانی اینٹوں اورلکڑیوں سے بنا ہے اس لیے اس کی مرمت پر کافی خرچ آئے گا۔ ہم سوچ رہے ہیں کہ کنکریٹ اور سیمینٹ سے بنا ہوا گھر ہو تو بہت اچھا ہو۔ ایک اچھا اور نیا گھر وقت کی ضرورت ہے۔ تم جانتے ہو یہاں کے کیا حالات ہیں اگر تم یہاں آ کر کام کرو گے تو اپنی محدود سی کمائی سے گھر کیسے بنا پاؤ گے۔ خیر گھر کا ذکر تو ویسے ہی کر دیا آگے جیسے تمھاری مرضی۔
تمھاری پیاری امی اور ابو۔

پیارے ابو جان اور امی جان
میں حساب لگا رہاتھا آج مجھے پردیس میں دس سال ہو چکے ہیں۔ اب میں اکثر تھکا تھکا رہتا ہوں، گھر کی بہت یاد آتی ہے اور اس ریگستان میں کوئی ساتھی نہیں ہے۔ میں سوچ رہا ہوں اگلے ماہ ملازمت چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے گھر آجاؤں۔ دس سال کے عرصے میں الحمدللہ ہمارا پکا گھر بن چکا ہے اور جو ہمارے اوپر جو قرضے تھے وہ بھی میں اتار چکا ہوں۔ اب چاہتا ہوں کہ اپنے وطن آ کر رہنے لگ جاؤں۔ اب پہلے والی ہمت تو نہیں رہی لیکن پھر بھی کچھ نہ کچھ کر کے ، ٹیکسی چلا کے گھر کا خرچ چلا لوں گا۔ اس ریگستان سے میرا جی بھر گیا ہے۔ اب اپنے بچوں کے ساتھ رہنا چاہتا ہوں۔ آپ کی کیا رائے ہے۔
آپکا پیارا – جمال

پیارے بیٹے جمال
تمھارا خط ملا اور ہم پچھتا رہے ہیں اس وقت کو جب ہم نے تمھیں باہر جانے دیا، تم ہمارے لیے اپنے لڑکپن سے ہی کام کرنے لگ گئے۔ ایک چھوٹی سے بات کہنی تھی بیٹا۔ تمھاری بہنا زینب اب بڑی ہو گئی ہے ، اس کی عمر ۲۰ سے اوپر ہو گئی۔ اس کی شادی کے لیے کچھ سوچا ، کوئی بچت کر رکھی ہے اس لیے کہ نہیں۔ بیٹا ہماری تو اب یہی خواہش ہے کہ زینب کی شادی ہو جائے اور ہم اطمینان سے مر سکیں۔ بیٹا ناراض مت ہونا ، ہم تم پر کوئی بوجھ نہیں ڈالنا چاہتے۔
تمھاری پیاری امی اور ابو۔

پیارے ابو جان اور امی جان
آج مجھے پردیس میں چودہ سال ہو گئے۔ یہاں کوئی اپنا نہیں ہے۔ دن رات گدھے کی طرح کام کر کے میں بیزار ہو چکا ہوں، کمھار کا گدھا جب دن بھر کام کرتا رہتا ہے تو رات کو گھر لا کر اس کا مالک اس کے آگے پٹھے ڈال دیتا ہے اور اسے پانی بھی پلاتا ہے پر میرے لیے تو وہ بھی کوئی نہیں کرتا، کھانا پینا بھی مجھے خود ہی کرنا پڑتا ہے۔ بس اب میں ویزا ختم کروا کر واپس آنے کا سوچ رہا ہوں۔ پچھلے کچھ سالوں میں اللہ کی مدد سے ہم زندگی کی بیشتر آزمائشوں سے نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔ زینب بہنا کی شادی ہو چکی ہے اور اب وہ اپنے گھر میں سکھی ہے۔ اس کے سسرال والوں کو خوش رکھنے کے لیے میں اکثر تحفے تحائف بھی بھیج دیتا ہوں۔ اللہ کے کرم سے آپ لوگوں کو میں نے حج بھی کروا دیا اور کوئی قرضہ بھی باقی نہیں ہے۔ بس کچھ بیمار رہنے لگا ہوں، بی پی بڑھا ہوا ہے اور شوگر بھی ہو گئی ہے لیکن جب گھرآؤں گا، گھر کے پرسکون ماحول میں رہوں گا اور گھرکا کھانا کھاؤں گا تو انشاء اللہ اچھا ہو جاؤں گا اور ویسے بھی اگر یہاں مزید رہا تو میری تنخواہ تو دوائی دارو میں چلی جائے گی وہاں آ کر کسی حکیم سے سستی دوائی لے کر کام چلا لوں گا۔ اب بھی مجھ میں اتنی سکت ہے کہ کوئی ہلکا کام جیسے پرائیویٹ گاڑی چلانا کر لوں گا۔
آپکا پیارا – جمال

پیارے بیٹے جمال
بیٹا ہم تمھارا خط پڑھ کر کافی دیر روتے رہے۔ اب تم پردیس مت رہنا لیکن تمھاری بیوی زہرہ نے کچھ کہنا تھا تم سے ، اسکی بات بھی سن لو۔
(بیوی ) پیارے جمال
میں نے کبھی آپکو کسی کام کے لیے مجبور نہیں کیا اور کسی چیز کے لیے کبھی ضد نہیں کی لیکن اب مجبوری میں کچھ کہنا پڑ رہا ہے مجھے۔ آپکے بھائی جلال کی شادی کے بعد آپ کے والدین تو مکمل طور پر ہمیں بھول چکے ہیں ان کا تمام پیار نئی نویلی دلہن کے لیے ہے ، میں نے تو یہ بھی سنا ہے کہ وہ آبائی گھر جلال کو دینے کا سوچ رہے ہیں۔ ذرا سوچیے اگر آپ یہاں آ گئے اور مستقبل میں کبھی اس بات پر جھگڑا ہو گیا تو ہم اپنے چھوٹے چھوٹے بچے لے کر کہاں جائیں گے۔ اپنا گھر ہر انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ آپ کو پتہ ہے سیمنٹ سریہ کی قیمتیں کتنی ہیں؟ مزدوروں کی دیہاڑی آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ یہاں رہ کر ہم کبھی بھی اپنا گھر نہیں بنا سکیں گے۔ لیکن میں آپ کو پریشان نہیں کرنا چاہتی۔ آپ خود سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں۔
آپکی پیاری ۔ زہرہ

پیاری شریک حیات زہرہ
انیسواں سال چل رہا ہےپردیس میں، اور بیسواں بھی جلد ہی ہو جائے گا۔ اللہ کے فضل سے ہمارا نیا علیحدہ گھر مکمل ہو چکا ہے۔ اور گھرمیں آج کے دور کی تمام آسائشیں بھی لگ چکی ہیں۔ اب تمام قرضوں کے بوجھ سے کمر سیدھی ہو چکی ہے میری ، اب میرے پاس ریٹائرمنٹ فنڈ کے سوا کچھ نہیں بچا، میری نوکری کی مدت بھی اب ختم ہو گئی ہے۔ اس ماہ کے اختتام پر کمپنی میرا ریٹائرمنٹ فنڈ جو کہ ۲۵۰۰ ہزار درہم ہے جاری کردے گی۔ اتنے لمبے عرصے اپنے گھر والوں سے دور رہنے کے بعد میں بھول ہی گیا ہوں کہ گھر میں رہنا کیسا ہوتا ہے۔بہت سے عزیز دنیا سے کوچ کر چکے ہیں اور بہت سوں کی شکل تک مجھے بھول گئی۔ لیکن میں مطمئن ہوں ، اللہ کے کرم ہے کہ میں گھر والوں کو اچھی زندگی مہیا کر سکا اور اپنوں کے کام آسکا۔ اب بالوں میں چاندی اتر آئی ہے اور طبیعت بھی کچھ اچھی نہیں رہتی۔ ہر ہفتہ ڈیڑھ بعد ڈاکٹر کے پاس جانا پڑتا ہے۔ اب میں واپس آکر اپنوں میں رہوں گا۔ اپنی پیاری شریک حیات اور عزیز از جان بچوں کے سامنے۔
تمھارا شریک سفر – جمال

پیارے جمال
آپ کے آنے کا سن کر میں بہت خوش ہوں۔ چاہے پردیس میں کچھ لمبا قیام ہی ہو گیا لیکن یہ اچھی خبر ہے ۔ مجھے تو آپکے آنے پر کوئی اعتراض نہیں لیکن بڑا بیٹا احمد ہے نا، وہ ضد کر رہا ہے کہ یونیورسٹی آف لاہور میں ہی داخلہ لے گا۔ میرٹ تو اس کا بنا نہیں مگر سیلف فنانس سے داخلہ مل ہی جائے گا۔ کہتا ہے کہ جن کے ابو باہر ہوتے ہیں سب یونیورسٹی آف لاہور میں ہی داخلہ لیتے ہیں۔ پہلے سال چار لاکھ فیس ہے اور اگلے تین سال میں ہر سال تین تین لاکھ۔ اور ہم نے پتہ کروایا ہے تو یونیورسٹی والے انسٹالمنٹ میں فیس بھرنے پر راضی ہو گئے ہیں۔ اس ماہ کی ۳۰ تک فیس کی پہلی قسط بھرنی پڑے گی،
آپکے جواب کی منتطر ، آپکی پیاری ۔ زہرہ
__________
اس نے بیٹے کی پڑھائی کے لیے ساری رقم بھیج دی۔ بیٹی کی شادی کے لیے جہیز اور دیگر اخراجات بھیجے۔ مگر اب ستائیس سال ہو چکے تھے۔ وہ خود کو ائر پورٹ کی طرف گھسیٹ رہا تھا۔ شوگر، بلڈ پریشر، السر ،گردے و کمر کا درد اورجھریوں والا سیاہ چہرا اس کی کمائی تھا۔ اسے اچانک اپنی جیب میں کسی چیز کی موجودگی کا احساس ہوا۔ اس نے جیب میں ہاتھ ڈال کر دیکھا تو وہ ایک ان کھلا خط تھا۔
یہ وہ پہلا خط تھا جو اس نے اپنی پردیس کی زندگی میں نہیں کھولا ۔

خود بھی پڑھیں اور دوستوں کو بھی شیئر کریں

مزید کے لیے ضرور وزٹ کریں
██▒░ Page for +ve Pakistan stuff-> Mai Pakistani Hoon ░▒▓██
██▒░ Like Page www.facebook.com/Mai.Pakistani.Hoo

دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے ہمیشہ بہتر ہوتا ہے ۔


کسی یونیورسٹی کاایک نوجوان طالب علم ایک دن اپنے پروفیسر کے ساتھ چہل قدمی کر رہا تھا ۔ پروفیسر اپنی مشفقانہ طبیعت کی وجہ سے تمام طالب علموں میں بہت مقبول تھے ۔
چہل قدمی کرتے ہوئے اچانک ان کی نظر ایک بہت خستہ حال پرانے جوتوں کی جوڑی پر پڑی جو پاس ہی کھیت میں کام کرتے ہوئے غریب کسان کی لگتی تھی
طالب علم پروفیسر سے کہنے لگا ، "ایسا کرتے
ہیں کہ اس کسان کے ساتھ کچھ دل لگی کرتے ہیں اور اس کے جوتے چھپا دی
تے ہیں اور خود بھی ان جھاڑیوں کے پیچھے چھپ جاتے ہیں اور پھردیکھتے ہیں کہ جوتے نہ ملنے پر کسان کیا کرتا ہے"۔
پروفیسر نے جواب دیا ، "ہمیں خود کو محظوظ کرنے کے لئے کبھی بھی کسی غریب کے ساتھ مذاق نہیں کرنا چاہئیے ، تم ایک امیر لڑکے ہو اور اس غریب کی وساطت سے تم ایک احسن طریقہ سے محظوظ ہو سکتے ہو ۔
ایسا کرو ان جوتوں کی جوڑی میں پیسوں کا ایک ایک سکہ ڈال دو اور پھر ہم چھپ جاتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ یہ سکے ملنے پر کسان کا کیا رد عمل ہوتا ہے " ۔ لڑکے نے ایسا ہی کیا اور پھر دونوں نزدیک ہی چھپ گئے ۔
غریب کسان اپنا کام ختم کر کے اس جگہ لوٹا جہاں اسکا کوٹ اور جوتے پڑے ہوئے تھے ۔ کوٹ پہنتے ہوئے اس نے جونہی اپنا ایک پاؤں جوتے میں ڈالاتو اسے کچھ سخت سی چیز محسوس ہوئی ۔ وہ دیکھنے کی خاطر جھکا تو اسے جوتے میں سے ایک سکہ ملا ۔
اس نے سکے کو بڑی حیرانگی سے دیکھا ، اسے الٹ پلٹ کیا اور پھر بار بار اسے دیکھنے لگا۔
پھر اس نے اپنے چاروں طرف نظر دوڑائی کہ شائید اسے کوئی بندہ نظر آ جائے لیکن اسے کوئی بھی نظر نہ آیا اور پھر شش و پنج کی ادھیڑ بن میں اس نے وہ سکہ کوٹ کی جیب میں ڈال لیا ۔ لیکن اس وقت اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی اور اسے ایک جھٹکا سا لگا جب دوسرا پاؤں پہنتے وقت اسے دوسرا سکہ ملا اس کے ساتھ ہی وفور جذبات سے اس کی آنکھیں اشکوں سے لبریز ہوگئیں ۔۔۔ وہ اپنے گھٹنوں کے بل گر پڑا ۔۔۔ اور آسماں کی طرف منہ کر کےاپنے رب کا شکر ادا کرنے لگا کہ جس نے اس کی کسی غیبی طریقے سے مدد فرمائی وگرنہ اس کی بیمار بیوی اور بھوکے بچوں کا ، جو گھر میں روٹی تک کو ترس رہے تھے ، کوئی پرسان حال نہ تھا ۔
طالب علم پر اس کا بہت گہرا اثر ہوا اور اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے
تب اچانک پروفیسر بول پڑے اور لڑکے سے پوچھنے لگے "کیا تم اب زیادہ خوشی محسوس کر رہے ہو یا اس طرح کرتے جو تم کرنے جا رہے تھے ؟"
لڑکے نے جواب دیا، " آج آپ نے مجھے ایسا سبق سکھایا ہے جسے میں باقی کی ساری زندگی نہیں بھولوں گا، اور آج مجھے ان الفاظ کی حقیقت کا بھی صحیح ادراق ہوا ہے جو پہلے کبھی ٹھیک طرح سے سمجھ نہ آ سکے کہ دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے ہمیشہ بہتر ہوتا ہے ۔
اگر آپ بھی زندگی میں حقیقی خوشی حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ ۔ ۔ تو دوسروں کی مدد کیجئے ۔
خود بھی پڑھیں اور دوستوں کو بھی شیئر کریں
پروفیسر نے جواب دیا ، "ہمیں خود کو محظوظ کرنے کے لئے کبھی بھی کسی غریب کے ساتھ مذاق نہیں کرنا چاہئیے ، تم ایک امیر لڑکے ہو اور اس غریب کی وساطت سے تم ایک احسن طریقہ سے محظوظ ہو سکتے ہو ۔
ایسا کرو ان جوتوں کی جوڑی میں پیسوں کا ایک ایک سکہ ڈال دو اور پھر ہم چھپ جاتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ یہ سکے ملنے پر کسان کا کیا رد عمل ہوتا ہے " ۔ لڑکے نے ایسا ہی کیا اور پھر دونوں نزدیک ہی چھپ گئے ۔
غریب کسان اپنا کام ختم کر کے اس جگہ لوٹا جہاں اسکا کوٹ اور جوتے پڑے ہوئے تھے ۔ کوٹ پہنتے ہوئے اس نے جونہی اپنا ایک پاؤں جوتے میں ڈالاتو اسے کچھ سخت سی چیز محسوس ہوئی ۔ وہ دیکھنے کی خاطر جھکا تو اسے جوتے میں سے ایک سکہ ملا ۔
اس نے سکے کو بڑی حیرانگی سے دیکھا ، اسے الٹ پلٹ کیا اور پھر بار بار اسے دیکھنے لگا۔
پھر اس نے اپنے چاروں طرف نظر دوڑائی کہ شائید اسے کوئی بندہ نظر آ جائے لیکن اسے کوئی بھی نظر نہ آیا اور پھر شش و پنج کی ادھیڑ بن میں اس نے وہ سکہ کوٹ کی جیب میں ڈال لیا ۔ لیکن اس وقت اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی اور اسے ایک جھٹکا سا لگا جب دوسرا پاؤں پہنتے وقت اسے دوسرا سکہ ملا اس کے ساتھ ہی وفور جذبات سے اس کی آنکھیں اشکوں سے لبریز ہوگئیں ۔۔۔ وہ اپنے گھٹنوں کے بل گر پڑا ۔۔۔ اور آسماں کی طرف منہ کر کےاپنے رب کا شکر ادا کرنے لگا کہ جس نے اس کی کسی غیبی طریقے سے مدد فرمائی وگرنہ اس کی بیمار بیوی اور بھوکے بچوں کا ، جو گھر میں روٹی تک کو ترس رہے تھے ، کوئی پرسان حال نہ تھا ۔
طالب علم پر اس کا بہت گہرا اثر ہوا اور اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے
تب اچانک پروفیسر بول پڑے اور لڑکے سے پوچھنے لگے "کیا تم اب زیادہ خوشی محسوس کر رہے ہو یا اس طرح کرتے جو تم کرنے جا رہے تھے ؟"
لڑکے نے جواب دیا، " آج آپ نے مجھے ایسا سبق سکھایا ہے جسے میں باقی کی ساری زندگی نہیں بھولوں گا، اور آج مجھے ان الفاظ کی حقیقت کا بھی صحیح ادراق ہوا ہے جو پہلے کبھی ٹھیک طرح سے سمجھ نہ آ سکے کہ دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے ہمیشہ بہتر ہوتا ہے ۔
اگر آپ بھی زندگی میں حقیقی خوشی حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ ۔ ۔ تو دوسروں کی مدد کیجئے ۔
خود بھی پڑھیں اور دوستوں کو بھی شیئر کریں

جنت میں گھر


ہارون الرشید کے زمانے میں بہلول نامی ایک بزرگ گزرے ہیں۔ وہ مجذوب اور صاحب ِ حال تھے ۔ ہارون الرشید ان کا بہت احترام کرتے تھے۔ ہارون الرشیدکی بیوی زبیدہ خاتون بھی ایک نیک اور پارسا عورت تھیں۔ انھوں نے اپنے محل میں ایک ہزار ایسی خادمائیں رکھی ہوئی تھیں جو قرآن کی حافظہ اور قاریہ تھیں۔ ان سب ڈیوٹیاں مختلف شفٹوں میں لگی ہوئی تھیں۔ چنانچہ ان کے محل سے چوبیس گھنٹے ان بچیوں کے قرآن پڑھنے کی آواز آرہی ہوت
ی تھی۔ ان کا محل قرآن کا گلشن محسوس ہوتا تھا۔
ایک دن ہارون الرشیداپنی بیوی کے ساتھ دریا کے کنارے ٹہل رہے تھے کہ ایک جگہ بہلول دانا کو بیٹھے ہوئے دیکھا۔ انھوں نے کہا، اسلام وعلیکم، بہلول دانا نے جواب میں کہا، وعلیکم سلام۔ ہارون الرشید نے کہا ، بہلول آپ کیا کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ریب کے گھر بنا رہا ہوں۔ پوچھا، کس کے لیئے بنارہے ہیں؟ جواب دیا کہ جو آدمی اس کو خریدے گا میں اس کے لیئے دعا کروں گا کہ اللہ رب العزت اس کے بدلے اس کو جنت میں گھر عطا فرمادے۔ بادشاہ نے کہا، بہلول اس گھر کی قیمت کیا ہے؟ انہوں نے کہاکہ ایک دینار۔ ہارون الرشید نے سمجھا کہ یہ دیوانے کی بڑ ہے لہذا وہ آگے چلے گئے۔
ان کے پیچھے زبیدہ خاتون آئیں۔ انہوں نے بہلول کو سلام کیا اور پھر پوچھا بہلول کیا کررہے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ میں ریت کے گھر بنا رہاہوں۔ پوچھا کس کے لیئے گھر بنا رہے ہیں؟
بہلول نے کہا کہ جو آدمی اس گھر کو خریدے گا میں اس کے لیئے دعا کروں گا کہ یا اللہ اس کے بدلے اس کو جنت میں گھر عطا فرمادے۔ انہوں نے پوچھا، بہلول اس گھر کی کیا قیمت ہے؟ بہلول نے کہا ایک دینار۔ زبیدہ خاتون نے ایک دینار نکال کر ان کو دے دیا اور کہا کہ میرے لیئے دعا کرنا، وہ دعا لے کر چلی گئیں۔
رات کو جب ہارون الرشید سوئے تو انہوں نے خواب میں جنت کے مناظر دیکھے ، آبشاریں، مرغزاریں اور پھل پھول وغیرہ دیکھنے کے علاوہ بڑے اونچے اونچے خوبصورت محلات بھی دیکھے، ایک سرخ یاقوت کے بنے ہوئے محل پر انہوں نے زبیدہ کا نام لکھا ہوا دیکھا۔ ہارون الرشیدنے سوچا کہ میں دیکھوں تو سہی کیوں کہ یہ میری بیوی کا گھر ہے۔ وہ محل میں داخل ہونے کے لیئے جیسے ہی دروازے پر پہنچے تو ایک دربان نے انہیں روک لیا۔ ہارون الرشیدکہنے لگے ، اس پر تو میری بیوی کا نام لکھا ہوا ہے، اس لیئے مجھے اندرجانا ہے، دربان نے کہا نہیں، یہاں کا دستور الگ ہے، جس کا نام ہوتا ہے اسی کو اندر جانے کی اجازت ہوتی ہے، کسی اور کو اجازت نہیں ہوتی، لہذا آپ کو داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے۔ جب دربان نے ہارون الرشید کو پیچھے ہٹایا تو ان کی آنکھ کھل گئی۔
بیدار ہونے پر فوراً خیال آیا کہ مجھے تو لگتا ہےکہ بہلول کی دعا زبیدہ کے حق میں اللہ رب العزت کے ہاں قبول ہوگئی۔ پھر انہیں خود پر افسوس ہوا کہ میں بھی اپنے لیئے ایک گھر خرید لیتا تو کتنا اچھا ہوتا، وہ ساری رات اسی افسوس میں کروٹیں بدلتے رہے، صبح ہوئی تو ان کے دل میں خیال آیا کہ آج پھر میں ضرور دیا کے کنارے جاوں گا۔ اگر آج مجھے بہلول مل گئے تو میں بھی ایک مکان ضرور خریدوں گا۔
چنانچہ وہ شام کو پھر اپنی بیوی کو لے کر چل پڑے، وہ بہلول کو تلاش کرتے ہوئے اِدھر اُدھر دیکھ رہے تھے کہ اچانک انہوں نے دیکھا کہ بہلول ایک جگہ بیٹھے اسی طرح مکان بنا رہے ہیں، ہارون الرشید نے اسلام وعلیکم کہا، بہلول نے جواب دیا وعلیکم سلام، ہارون الرشیدنے پوچھا، کیا کررہے ہیں؟ بہلول نے کہا، میں گھر بنا رہا ہوں۔ ہارون الرشیدنے پوچھا کس لیئے، بہلول نے کہا ، جو آدمی یہ گھر خریدے گا، میں اس کے حق میں دعا کروں گا کہ اللہ تعالیٰ اسے اس گھر بدلے جنت میں گھر عطاکرے۔
ہارون الرشیدنے پوچھا ، بہلول اس گھر کی قیمت بتائیں کیا ہے؟ بہلول نے کہا، اس کی قیمت پوری دنیا کی بادشاہی ہے۔ ہارون الرشیدنے کہا ، اتنی قیمت تو میں نہیں دے سکتا، کل تو آپ ایک دینار کے بدلے دے رہے تھے، اور آج پوری دنیا کی بادشاہت مانگ رہے ہیں؟ بہلول دانا نے کہا، بادشاہ سلامت! کل بن دیکھےمعاملہ تھا اور آج دیکھا ہوا معاملہ ہے، کل بن دیکھے کا سودا تھا اس لیئے سستا مل رہا تھا، اور آج چونکہ دیکھ کے آئے ہیں اس لیئے اب اس کی قیمت بھی زیادہ دینی پڑے گی۔
خود بھی پڑھیں اور دوستوں کو بھی شیئر کریں

Saturday, November 17, 2012

دعائے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ


◄شہر میں ہر طرف مہمان تاجروں کا چرچا تھا، جو ان کے لیے ضرورت کا سامان لے کر آئے تھے. لوگ خوش تھے کہ اب وہ اپنی اپنی استطاعت کے مطابق خریداری کر سکیں گے. رسد خوب ہو تو قیمت بھی اعتدال میں رہتی ہے. تاجر من مانی نہی کر سکتے اور یہ بات تو ہے بھی تب کی، جب آسمان پر صرف پرندے پرواز کرتے تھے. ان کی اڑانیں دیوہیکل طیاروں کے لیے خطرہ یوں نہ تھیں کے ان کا دور دور تک کوئی وجود ہی نہی تھا. اہلیان شہر سامان سے
 لدے جگالی کرتے اونٹوں کو دیکھ دیکھ کر خوش ہو رہے تھے، جنھیں عیدگاہ کے وسیح و عریض میدان میں ٹھہرایا گیا تھا، لیکن ان لوگوں میں ایک فرد ایسا بھی تھا جو سخت متفکر تھا اور اس کی پریشانی کا اظھار اس کے چہرے سے ہو رہا تھا. جیسے جیسے رات اپنی آنکھوں میں سیاہی کے سرمے کی سلائی کھیچتی جاتی، اس کی پریشانی، اضطراب، اور بڑھتا جاتا. آخر اس سے رہا نہ گیا. اس نے اپنے دوست سے پریشانی کا اظھار کیا اور مدد طلب کی. دوست بھی سچا دوست تھا . وہ بلا تردد فوراً راضی ہو گیا. اب دونوں کے قدم عید گاہ کی جانب اٹھ رہے تھے جہاں تاجروں کے قافلے نے پڑاؤ ڈال رکھا تھا.

یہ دونوں قافلے کے پاس جا کر ٹھہر گئے اور اپنے اپنے کام میں لگ گئے. دونوں قافلے کے گرد ٹہل رہے تہے. کبھی ایک طرف جاتے اور کبھی دوسری طرف کا رخ کرتے اور کبھی تاریکی میں آنکھیں کھول کهول کر دیکھنے کی کوشش کرتے اور جگالی کرتے بے فکر اونٹوں کے پاس ٹہلنے لگ جاتے. وہ دونوں خاصے چوکنے تھے. انداز ایسا تھا جیسے انھیں کوئی خطرہ ہو. رات کے گھپ اندھیرے میں یہ کام آسان نہی تھا . دونوں دوستوں نے باہمی مشورہ کیا اوراپنی باریاں لگا لیں.

دراز قامت شخص کی باری آئی تو اس نے کسی بچے کے رونے کی آواز سنی. بچے کا رونا کوئی انہونی بات نہی، لیکن مسلسل رونے سے لگ رہا تھا وہ معصوم کسی تکلیف میں ہے. اس شخص سے رہا نہ گیا اوروہ احوال معلوم کرنے چلا گیا. اس نے دیکھا کہ شیرخوار بچہ بری طرح روئے جا رہا ہے، جسے اس کی ماں بہلا پھسلا رہی ہے. اس نے بچے کی ماں سے کہا: الله سے ڈر اور اپنے بچے کا خیال کر.

یہ که کر وہ شخص باہر آ گیا، اور پہلے کی طرح قافلے کے گرد منڈلانے لگا. تھوڑی دیر بعد اسے پھر بچے کے رونے کی آواز آئی. بچہ بلک بلک کر رو رہا تھا، وہ پھر اس عورت کے پاس گیا اور اسے تلقین کی کہ بچے کا خیال کرے. اس نصیحت کا اثر تھوڑی دیر ہی رہا. رات کے سناٹے میں ایک بار پھر بچے کے بلکنے کی آواز آنے لگی. اب تو اس شخص کو غصہ آ گیا. وہ اس عورت کے پاس گیا اور کہنے لگا : "تیرا بھلا ہو، میرا خیال ہے تو بچے کے حق میں ٹھیک نہی. کیا بات ہے تیرا بیٹا آج ساری رات جاگتا رہا. وہ ذرا دیر بھی نہ سویا."

وہ عورت جو اس اجنبی کی بار بار آمد سے جھنجھلا گئی تھی، کہنے لگی: تو نے بھی تو مجے تنگ کیے رکھا. بار بار آتا رہا. میں اس بچے کا دودھ چھڑانا چاہتی ہوں، لیکن یہ نہی مانتا."
"یہ کیا بات ہوئی. تو اس کا دودھ کیوں چھڑانا چاہتی ہے؟" اجنبی شخص کے لہجے میں حیرت تھی کہ کوئی ماں ایسی سخت دل بھی ہو سکتی ہے.

عورت بولی:"سرکار سے اسی بچے کو وظیفہ ملتا ہے جو ماں کا دودھ چھوڑ چکا ہو. یہ دودھ چھوڑے گا تو مجھے اس کا وظیفہ ملے گا."
عورت کی بات سن کر اس شخص کے چہرے پر ایک رنگ آ کر گزر گیا. اس نے پوچھا بچے کی عمر کیا ہے؟
عورت نے بچے کی عمر بتائی. وہ شخص کہنے لگا "تیرا بھلا ہو، اس بچے کا دودھ چھڑانے میں جلدی نہ کر." یہ که کر وہ شخص چلا آیا.
باہر صبح صادق کا وقت قریب تھا. فضا میں الله کی کبریائی کا اعلان ہونے لگا. الله اکبر الله اکبر کی صدا سن کر وہ شخص جھرجھری لے کر رہ گیا اور بوجھل قدموں کے ساتھ اس طرح مسجد کی طرف چل پڑا کہ اس کا سر جھکا ہوا تھا. مسجد پہنچا تو دیگر نمازیوں کی نظریں اس کے چہرے پر جم گئیں. وہ دیکھ رہے تھے کہ آج ان کے امام صاحب کچھ غمگین اور افسردہ افسردہ سے ہیں. اس روز وہ دراز قامت شب بیدار نماز میں گڑگڑا گڑگڑا کر رویا. اس نے روتے روتے سلام پھیرا اور لوگوں سے مخاطب ہو کر کہنے لگا: "خبردار کوئی قبل از وقت اپنے بچے کا دودھ نہ چھڑائے. آج سے ہر دودھ پیتے بچے کا وظیفہ مقرر کیا جاتا ہے."

نماز میں ہچکیاں لے لے کر رونے اور یہ اعلان کرنے والے شخص کوئی عام سا بندہ نہی. دعائے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ تھے، جو حضرت عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ کے ساتھ رات بھر جاگتے رہے اور تاجروں کے قافلے پر پہرا دیتے رہے کہ کوئی چوری چکاری نہ کرے. چھتیس ہزار شہروں اور قلعوں کا فاتح اور اجنبی تاجروں کے مال کی چوکیداری.

میں آج عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی جستجو میں تھا. میں اس شاندار فاتح اور عظیم قائد کے بارے میں جاننا چاہتا تھا کہ جن کا یوم شہادت یکم محرم کو دبے پاؤں آ کر گزر گیا. اس روز آرٹس کونسل میں کوئی سیمینار ہوا نہ کسی پنج ستارہ ہوٹل میں وزیر اعلیٰ یا گورنر صاحب بہادر نے لکھی ہوئی تقریر پڑھی. کراچی، لاہور ، کوئٹہ، پشاور، گلگت بلتستان اور سکردو میں کہیں بھی سرکاری سطح پر ایسی کوئی تقریب نہی ہوئی، جہاں اپنوں کو نوازنے کے لیے سرکاری خزانے کا منہ کھول دینے والوں کو بتایا جاتا کہ جس طرح تمہاری بہو بیٹیاں تمیں عزیز اور پیاری ہیں، ویسے ہی اس عظیم فاتح کو بھی اپنی اولاد اس سے کہیں زیادہ پیاری رہی ہو گی اور کون باپ ہے جو لوگوں کی ضرورتیں پوری کر رہا ہو. مال غنیمت تقسیم کر رہا ہو. ایسے میں ضرورت مند لاڈلی بیٹی کو خبر ملے اور وہ چادر اوڑھے ضرورت مندوں کی قطار میں لگ کر باری انے پر کہے:" اے امیر المومنین! الله نے رشتےداروں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے، اس لیے اس مال میں سے آپ کے رشتےداروں کا بھی حق ہے......"

جواب میں امیر المومنین اپنی لاڈلی بیٹی حفصہ رضی اللہ عنہ سے کہے: " بیٹا! میرے رشتےداروں کا حق میرے مال پر ہے. یہ تو مسلمانوں کا مال غنیمت ہے. جاؤ واپس جاؤ...." کیا کسی وزیر کا یہ جگرا ہے کہ وہ یہ کہے اور اپنی بیٹی کو چادر گھسیٹتے خالی ہاتھ جاتا دیکھتا رہے.....

کاش کہیں کسی سیمینار میں لطیف کھوسہ، عشرت العباد، ذولفقار مگسی، مسعود کوثر، راجہ زلقرنیں خان اور پیر کرم علی شاہ مہمان خصوصی ہوتے اور انھیں بتایا جاتا کہ منظر ایک میدان کا ہے، جہاں ایک کمزور سی لڑکی لڑکھڑاتی چلی جا رہی ہے. خلیفہ وقت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی نظر پڑتی ہے. پوچھتے ہیں "یہ کون ہے؟"

پاس کھڑا بیٹا کہتا ہے:"یہ آپ کی بیٹی ہے....."
تعجب سے پوچھتے ہیں:" یہ میری کون سی بیٹی ہے؟"
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جواب دیتے ہیں :"یہ میری بیٹی اور آپ کی پوتی ہے"
سوال ہوتا ہے:"یہ اتنی کمزور کیوں ہے؟"
بیٹا شکایتاً کہتا ہے:"آپ کی وجہ سے، کیوں کہ آپ اسے کچھ دیتے جو نہی"

پھر وہ مقرر سیمینار میں گورنروں، وزیروں اور مشیروں کو بتاتا کہ خلیفہ وقت جگر گوشے کا شکوہ سن کر اسے کسی شہر کی امارت سونپنے یا کسے صوبے کی گورنری کا پروانہ تھمانے کے بجائے کہتا ہے:" خدا کی قسم! میں تمیں تمہاری اولاد کے بارے میں کسی دھوکے میں نہی رکھنا چاہتا. جاؤ خود کماؤ اور اپنی اولاد پر خوب خرچ کرو...."

اجرک اور ٹوپی کے دن سے لے کر بسنت کے نام سے سے ثقافتی بدعت منانے والے وی آئ پیز کو یوم فاروق رضی اللہ عنہ پر کوئی تقریب سجانے کی توفیق ہوتی تو پاکستان کو ماں باپ کی جاگیر سمجھ کر قیمتی ارازیوں پر قبضہ کرنے والوں کو کوئی نہ کوئی تو بتاتا کہ تم اور تمارے لیڈر تو ان کے غلاموں کے غلاموں کا پانی بھرنے کر لائق بھی نہی. تم کیا اور تمہاری اوقات کیا. تم ایک وزارت پر اتراتے پھرتے ہو، صدارت پر اکڑتے پھرتے ہو، فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی سلطنت مدینہ سے مکران اور اناطولیہ سے آزربائیجان تک پھیلی ہوئی تھی اور خدا خوفی اور جواب دہی کا یہ عالم تھا کہ مجوسی قاتل کے نیزوں کے گھاؤ سے جسم گھائل ہے. وقت آخر قریب ہے. حضور پر نور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ قبر کی دو گز جگہ چاہتے ہیں. بیٹے کو ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجتے ہیں اور کہتے ہیں "ام المومنین رضی اللہ عنہ کی خدمت میں سلام عرض کرنا اور ان سے کہنا کہ عمر بن خطاب رسول پاک صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حجرے میں ان کے ساتھ دفن ہونے کی اجازت مانگ رہا ہے اور ہاں عمر بن خطاب ہی کہنا، ساتھ امیر المومنین مت کہنا کہ آج میں امیر المومنین نہی ہوں. صاحبزادے جا کر ام المومنین رضی اللہ عنہ سے عرض کرتے ہیں. وہ فرماتی ہیں:"قسم خدا کی! وہ جگہ میں نے اپنے لیے رکھی ہوئی ہے، لیکن میں انھیں اجازت دیتی ہوں." صاحبزادہ اجازت لے کر خلیفہ وقت کے پاس جاتا ہےاور خوشخبری سناتا ہے. پھر بھی فرماتے ہیں جب میرا جنازہ اٹھاؤ تو جنازے کو ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہ کے حجرے کے سامنے روک دینا اور دوبارہ اجازت مانگنا. اگر اجازت نہ دیں تو عام مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کر دینا...."

کاش کہیں تو ایسا سیمینار ہوتا. کہیں تو ایسی کانفرنس ہوتی. کہیں تو ایسی تقریب ہوتی. شائد ذکر فاروق اعظم سے ہمارے حکمرانوں کے ضمیر جاگ جاتے. میں نے یہ سوچتے ہوے وکی پیڈیا کا انسائیکلوپیڈیا کھولا. غیروں کے اس انسائیکلوپیڈیا میں اس عظیم فاتح کے بارے میں تفصیلی معلومات کے ساتھ ساتھ ان کی اس کاٹ دار شمشیر کی تصویر بھی تھی، جسے اٹھانے والے ہاتھ اب مسلمانوں میں نہی رہے. میں افسردہ ہو گیا اور افسردگی، اداسی سے شمشیر فاروق کو دیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا...

Monday, November 12, 2012

/ قائد اعظم کی بیوی کا شوہر کے نام آخری محبت نامہ۔ ایک لومیرج جو پاکستان کے لئے بکھر گئی


رات کے ۱۲ بجے تھے۔ وہ بستر پہ لیٹی کروٹیں بدل رہی تھیں۔ انھیں کسی پل قرار نہ تھا۔ پھر وہ اٹھیں اور میز کے سامنے کرسی پر بیٹھ گئیں۔ انھوں نے کاغذ قلم تھاما اور ہولے ہولے اپنے دِلی جذبات صفحۂ قرطاس پر بکھیرنے لگیں : ’’پیارے ! تم نے (میرے لیے) جوکچھ کیا، اس کا شکریہ۔ ممکن ہے کہ کبھی آپ کی غیر معمولی حِسّوں نے میرے رویّے میں اشتعال انگیزی یا بے رحمی پائی ہو۔ آپ یقین رکھیں کہ میرے دل میں صرف شدید محبت اور انتہائی درد ہی موجود ہے… پیارے ایسا درد جو مجھے تکلیف نہیں دیتا۔ دراصل جب کوئی حقیقت زندگی کے قریب ہو (اور جو بہرحال موت ہے) جیسے کہ میں پہنچ چکی، تو تب انسان (اپنی زندگی) کے خوش کن اور مہربان لمحے ہی یاد رکھتا ہے، بقیہ لمحات موہومیت کی چھپی، اَن چھپی دھند میں چھپ جاتے ہیں۔ کوشش کرکے مجھے ایسے پھول کی حیثیت سے یاد رکھنا جو تم نے شاخ سے توڑا، ویسا نہیں جو جوتے تلے کچل دیا جائے۔’’پیارے! (شاید) میں نے زیادہ تکالیف اس لیے اٹھائیں کہ میں نے پیار بھی ٹوٹ کر کیا۔ میرے غم و اندوہ کی پیمایش (اسی لیے) میرے پیار کی شدت کے حساب سے ہونی چاہیے۔ ’’پیارے! میں تم سے محبت کرتی ہوں… مجھے تم سے پیار ہے… اور اگر میں تم سے تھوڑا سا بھی کم پیار کرتی، تو شاید تمھارے ساتھ ہی رہتی… جب کوئی خوبصورت شگوفہ تخلیق کرلے، تو وہ اسے کبھی دلدل میں نہیں پھینکتا۔ انسان اپنے آئیڈیل کا معیار جتنا بلند کرے، وہ اتنا ہی زوال پذیر ہوجاتا ہے۔ ’’میرے پیارے! میں نے اتنی شدت سے تم سے محبت کی ہے کہ کم ہی مردوں کو ایسا پیار ملا ہوگا۔ میری تم سے صرف یہی التجا ہے کہ (ہماری) محبت میں جس اَلم نے جنم لیا، وہ اسی کے ساتھ اختتام پذیر ہوجائے۔
’’پیارے شب بخیر اور خدا حافظ۔ رتی ’’میں نے پیرس میں تمھیں خط لکھا تھا۔ خیال تھا کہ یہاں سے سپردِڈاک کروں گی لیکن یہاں پہنچ کر خیال آیا کہ میں تمھیں ایسا تازہ خط لکھوں کہ اپنا دل کھول کر رکھ دوں۔‘‘
٭٭
یہ وہ انتہائی جذباتی، محبت آمیز اور یادگار خط ہے جو قائداعظم کی دوسری زوجہ، مریم (رتی) جناح نے ۵ اکتوبر ۱۹۲۸ء کو مارسیلیز، فرانس سے لکھا۔ رتی جناح وہاں سرطان کا علاج کرانے گئی تھیں۔ اپنے محبوب (شوہر) کے نام یہ ان کا آخری خط ثابت ہوا۔ وہ صرف ۴ ماہ بعد اللہ کو پیاری ہو گئیں۔ بھارتی اور مغربی مؤرخین اکثر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ قائداعظم نے رتی جناح کے ساتھ ناروا سلوک روا رکھا۔ وہ ان سے بے توجہی برتتے اور اپنی انا کے خول میں بند رہتے لیکن رتی جناح کا آخری خط سبھی غیرمسلم مؤرخین کے دلائل رد کرنے کو کافی ہے۔ اگرچہ قائد اور رتی کی داستان نشیب و فراز سے ضرور پُر ہے۔
٭٭
۱۹۱۶ء تک محمدعلی جناح بمبئی میں بحیثیت مستند وکیل اور سیاست داں مشہور ہو چکے تھے۔ ان کے واقف کاروں میں اب معزز شخصیات شامل تھیں۔ چنانچہ اسی سال وہ پارسی صنعت کار، سرڈنشاپیٹٹ کے اہل خانہ کے ساتھ دارجلنگ بغرض تفریح گئے۔ یہ سرڈنشا پیٹٹ کے والد ہی ہیں جنھوں نے ہندوستان میں کاٹن کے اولین کارخانے لگائے۔ چنانچہ پیٹٹ خاندان بڑا امیرکبیر تھا۔
اس قافلے میں سرڈنشا کی ۱۶ سالہ دختر، رتی پیٹٹ بھی شامل تھیں۔ وہ بڑے نفیس ذوق کی مالک تھیں اور ادب، تاریخ، روحانیت وغیرہ ان کے مرغوب موضوع تھے۔ دوسری طرف ۳۹ سالہ قائداعظم کی شخصیت بھی بڑی پُراثر تھی۔ مردانہ وجاہت اُن میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ نیز وہ کسی بھی موضوع پر نہایت پُرمغز اور دلفریب گفتگو کرسکتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ رتی پیٹٹ قائد سے بہت متاثر ہوئیں اور ان سے محبت کرنے لگیں۔ یہ پیار یک طرفہ نہیں تھا، قائد بھی رفتہ رفتہ رتی کو دل سے چاہنے لگے۔وقت کے ساتھ ساتھ یہ محبت اتنی پائیدار اور مستحکم ہوگئی کہ جب ۲ سال بعد رتی بالغ ہوئیں، تو انھوں نے اپنے گھر کو خیرباد کہا، اسلام قبول کیا اور قائد سے شادی کرلی۔ یہ ۱۸ اپریل ۱۹۱۸ء کو انجام پائی۔ یوں مالابار ہلز میں واقع قائد کا وسیع و عریض گھر اداسی و ویرانی سے نجات پا کر خوشیوں اور قہقہوں سے گونجنے لگا۔ نوبیاہتا جوڑے کے اولین ۴ برس خوشی و مسرت سے بھرپور تھے۔ انھوں نے ایک ساتھ ہندوستان بھر کے علاوہ یورپ و امریکا کے دورے کیے۔ پارلیمنٹ میں جب بھی قائد خطاب کرتے، تو رتی جناح انھیں سننے ضرور جاتی۔اس زمانے میں قائد اور رتی کا جوڑا بہت مقبول تھا۔ دونوں خوبصورت اور پُرکشش تھے۔ پھر قیمتی کپڑے زیبِ تن کرتے، تو راہ چلتے لوگ انھیں دیکھنے کے لیے رک جاتے۔ رض تب ان کی مسرت بے حساب تھی اور وہ سکون سے زندگی گزار رہے تھے۔ بمبئی کے خاص و عام اُن کی ازدواجی زندگی پر رشک کرتے۔ قائداعظم اور رتی کی خوشگوار زندگی میں طوفان کیونکر آیا، اس ضمن میں کوئی واضح وجہ بیان کرنا ممکن نہیں۔ شاید اِس لیے کہ قائد اپنی نجی زندگی کے متعلق بہت کم گفتگو کرتے تھے۔ اسی لیے ان کی ازدواجی زندگی کے متعلق معلومات بھی متفرق افراد کی لکھی کتب میں دستیاب ہیں۔غالب امکان یہی ہے کہ قائداعظم کی بے پناہ مصروفیت رتی کو کھلنے لگی۔ شاید بدخواہ انھیں قائد کے خلاف بھڑکانے اور رتی جناح میں یہ مصنوعی احساس پیدا کرنے میں کامیاب رہے کہ وہ ان کی طرف توجہ نہیں دیتے۔ اس کے بعد جب اَناؤں کا ٹکرائو شروع ہوا، تو وہ بڑھا اور تمام حدیں پار کرگیا۔ قائداعظم بہرحال رتی سے بہت محبت کرتے تھے۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ وہ خرچ کے معاملے میں بڑے جزرس تھے۔ اُدھر رتی خاصی فضول خرچ واقع ہوئی تھیں۔ ایک بار دونوں کشمیر سیر کرنے گئے۔ وہاں صرف اپنے شکارے کی تزئین و آرائش پر رتی نے ۵۰ ہزار روپے خرچ کر ڈالے جو اس زمانے میں خاصی بڑی رقم تھی۔ تاہم شوہر نے ماتھے پر شکن ڈالے بغیر رقم ادا کردی۔ رتی نے کئی مواقع پر ایسی شاہ خرچیوں کا مظاہرہ کیا لیکن قائد خندہ پیشانی سے تمام بل ادا کر دیتے۔اسی دوران ان کی بیٹی، دِینا پیدا ہوئی۔ قائد اورئینٹ کلب میں شطرنج اور بلیئرڈ کھیلا کرتے تھے۔ انھوں نے کلب چھوڑا اور تفریح کا اپنا وقت دفتر میں دینے لگے۔ قائد عدالتوں سے گھر آتے تو بیوی بچی پر بھرپور توجہ دیتے۔ افسوس کہ یہ خوشگوار خاندانی زندگی چند برس ہی قائم رہی۔ قائد نے جب سیاسی سرگرمیوں کو زیادہ وقت دیا، تو رتی ناراض رہنے لگیں۔ ۱۹۲۲ء میں وہ دینا کو لے کر لندن چلی گئیں۔ تاہم وہاں بھی شوہر کی یاد انھیں رہ رہ کر ستاتی۔ دوارکاداس کانجی، قائد اور رتی کے دوستوں میں سے تھے۔ رتی جب بھی انھیں خط لکھتیں، تو یہ ضرور تاکید کرتیں کہ جناح صاحب کا خیال رکھیے گا۔ ایک خط میں لکھا : جناح سے جب بھی مل کر آئیے تو بذریعہ خط مجھے اطلاع دیجیے کہ وہ کیسے ہیں۔وہ سخت محنت کے عادی ہیں۔ میں اُدھر ہوتی تو انھیں تنگ کرتی اور (کام سے) روکتی تھی۔ میری عدم موجودگی میں تو وہ کام کرکرکے بے حال ہو جائیں گے -رتی جب واپس آئیں، تو قائد نے انھیں یورپ اور شمالی امریکا کا دورہ کرایا۔ جوڑے نے وہاں خوب سیروتفریح کی اور عمدہ وقت گزارا۔ لیکن واپسی پر قائد پھر مصروف ہوئے، تو رتی جناح دوبارہ ناراض ہوگئیں۔ بدقسمتی سے اسی دوران انھیں سرطان چمٹ گیا۔ علاج ہوا مگر وہ جانبر نہ ہوسکیں اور ۱۸ فروری ۱۹۲۹ء کو چل بسیں۔ء۲۲ فروری کو انھیں اسلامی رسوم کے مطابق بمبئی کے قبرستان میں دفنایا گیا۔ جنازے کے وقت قائداعظم انتہائی سنجیدہ رہے۔ وہ بہت مضبوط اعصاب کے مالک تھے اور بہت کم اپنے دلی جذبات ظاہر کرتے لیکن جب ان سے قبر پر مٹی ڈالنے کو کہا گیا، تو اندر کا لاوا اُبل پڑا اور قائد رو پڑے۔ اس وقت سبھی لوگوں نے پہلی بار قائد کو آنسو بہاتے دیکھا۔ کم ہی لوگوں کو علم ہے کہ قائد نے دوسری مرتبہ بھی رتی کی آخری آرام گاہ کے سامنے ہی نِیر بہائے۔ یہ اگست ۱۹۴۷ء کی بات ہے جب قائد نے آخری بار مرحومہ بیوی کی قبر کا دیدار کیا۔ تب بھی اُن کی آنکھوں کو اشکبار دیکھا گیا۔ قائداعظم پاکستان جانے کے بعد کبھی واپس بمبئی نہیں گئے، تاہم وہ اپنے دل کا ایک ٹکڑا ضرور وہاں کی چھوٹی سی قبر میں چھوڑ آئے تھے۔رتی جناح کے خطوط کیا عیاں کرتے ہیں؟ اس میں شک نہیں کہ رتی اپنے شوہر سے ناراض تھیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ آخری سانسوں تک وہ قائد سے محبت کرتی رہیں۔ اس سچائی کا سب سے بڑا ثبوت خود رتی کے خطوط ہی ہیں۔ قابلِ ذکر بات یہ کہ آخری خط سے انکشاف ہوتا ہے کہ رتی جناح وہ وجوہ سمجھ چکی تھیں جن کی بنا پر ان کا شوہر کے ساتھ رہنا مشکل ہوگیا تھا۔ اس کے باوجود رتی کو قائد سے کوئی شکایت نہیں تھی۔ خطوط سے عیاں ہونے والا تیسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ قائداعظم بتدریج اپنے نصب العین سے اس حد تک وابستہ ہوئے کہ انھوں نے اپنی تمام ذاتی خواہشات قربان کر دیں حتیٰ کہ ان کا گھر بکھر گیا مگر قائد نے مسلمانوں کو سیدھا راستہ دکھانے سے منہ نہیں موڑا۔ دراصل اعلیٰ مقاصد بڑی قربانیاں مانگتے ہیں، چنانچہ قائد نے بھی بہت کچھ قربان کیا مگر اُنھیں یہ عظیم کامیابی ضرور ملی کہ وہ مسلمانانِ ہند کو ایک آزاد وطن عطا کر گئے۔ پاکستانیوں کو آزادی جیسی عظیم نعمت قائد کی قربانی سے ہی حاصل ہوئی۔

Saturday, November 10, 2012

صدیوں کا راز


1400پہلےتاجدار عرب و عجم نے مدینہ کو اسلام کا پہلا مرکز بنایا ۔ مدینہ مواخات و مساوات کا آئینہ دار تھا ۔ اسلام کی پہلی ریاست صفحہ ہستی پہ نمودار ہوئی ۔ مدینہ کا مطلب خطہ ہوتا ہے ۔ مدینہ سرکار دوعالم کے آنے سے پہلے یثرب تھا۔ یعنی بیماریوں کا شہر، مصیبتوں کا شہر ۔۔۔ سرکار کے آنے سے یثرب مدینہ بن گیا ۔ سرکار دوعالم کی نگاہ نبوت قیامت تک ہونے والے عروج وزوال کو دیکھ رہی تھی چنانچہ سرزمین ہند سے ٹھنڈی 
ہوا آنے کا مژدہ سنایا گیا ۔ وصال نبوی کے بعد خلفائے راشدین کا دور شروع ہوا ۔ اسلام کی شروعات سے ہی اصحاب نبوی نے سرزمین ہند کا رخ کر لیا تھا ۔ جہاں اسلام کی تبلیغ شروع کردی گئی ۔ تابعین کے دور میں بھی ہند کا رخ ہوا اور تاریخ بتاتی ہے کہ اصحاب نبوی نے چین کا بھی رخ کیا ۔ اسلام کی دعوت پھیلتی گئی ۔ صدیاں اس تلاش میں رہیں کہ وہ کونسا ہند ہے کہ جس کے بارے میں حضور نے فرمایا کہ مجھے ہند سے ٹھنڈی ہوا آتی ہے ۔ اب تاریخ کی کتابوں کا مشاہدہ کیا جائے اور مطالعہ کیا جائے تو فلسطین ،عراق، ترکی، روم اور حجاز و یمن ہی اسلام کی سرگرمیوں کا مرکز رہے ۔ اسلام کے اوائل دور ہی سے پہلے مدینہ اسلام کا مرکز بنا ۔ خلفائے راشدین کے دور میں اسلام نے عرب و عجم کی سرحدوں کو چھوا ، خصوصا خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق کے دور میں اسلام عالمگیر قوت بن کر ابھرا۔ مدینہ سے سلطنت عثمانیہ تک ہند کبھی بھی اسلام کا مرکز نہ بن سکا ۔
سوال یوں ہی رہا کہ آخر میر عرب کو کس خطے سے ٹھنڈی ہوا آئی ۔ صدیاں بیت گئی اور اس کا جواب نہ ملا ۔
کشمیر کے ایک بزرگ کو خواب آئی کہ محمد رسول اللہ کسی بڑے اجتماع میں ہیں صلحا ئے امت قطار در قطار ہیں جماعت کا وقت ہے محمد رسول اللہ جماعت نہیں کروا رہے لوگوں نے دو تین بار کہا یارسول اللہ جماعت کروائیں مگر حضور کی نگائیں کسی اقبال کے انتظار میں تھی فرمایا اقبال کا انتظار ہے ۔ باالاخر اقبال آئے حضور نے پہلی صف پہ کھڑا کیا اور جماعت کروائی۔ وہ بزرگ بیتاب ہوئے اور صبح لوگوں سے خواب کا چرچا کیا کسی نے کہا کہ لاہور میں کسی اقبال کا چر چا عام ہے آپ وہاں جائیں شایدوہ ہوں وہ بزرگ لاہور پہنچے تو اقبال کو دیکھا آنکھیں برس پڑیں اقبال نے سمجھا کہ کوئی ضرورت مند ہے پیسے دینے لگے تو بزرگ نے خواب سنایا اور کہا کہ جس کا انتظار مصلحین امت کی صفوں میں حضور کررہے تھے وہ اقبال آپ ہی ہیں ۔۔۔۔۔
صدیوں کا راز اسی عظیم اقبال کی زبان سے فراموش ہونا تھا اقبال فرماتے ہیں کہ صدیاں جس سوال کا پر پریشان تھیں ہاں سنو ۔۔۔۔۔۔۔۔
میر عرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے
میرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے
علامہ محمد اقبال کا مدینہ سے حبی عشقی فکری اور نظریاتی تعلق تھا آپ قدرت کی طرف سے ایک تحفہ تھے ۔ راز کھلا کہ میر عرب کی نگاہ کسی مدینہ ثانی کو دیکھ رہی تھی اقبال اس مدینہ ثانی کی روحانی و ظاہری سرحدوں کیلئے منتخب کیے گئے ۔ چنانچہ 1930 کو خطبہ الہ آباد میں اقبال نے ظاہری سرحدیں قائم کیں ۔ اقبال روحانی سرحدوں کو تو قائم کر ہی رہے تھے صدیاں جس سے فیض پاتی رہیں گی ۔ ضرب کلیم ، بال جبریل ، بانگ درا اور اقبال کی دیگر تصانیف کی صورت میں مدینہ ثانی کا نصاب تیار ہوا۔ اقبال نے خواب نہیں دیکھا بلکہ نبی کریم کے خصوصی فیض سے امت مسلمہ کے مستقبل کی نشاندہی کی ۔
بے شک اقبال اپنے ہی اس شعر کی تعبیر ہیں کہ
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
اقبال عراق میں کیوں نہیں پیدا ہوئے جہاں بغداد ہے ، اقبال مدینہ میں کیوں نہیں پیدا ہوئے جو اسلام کا پہلا مرکز ہے ، اقبال یمن یا شام میں کیوں نے پیدا کیے گئے ۔ وہ کونسا راز ہے کہ اقبال برصغیر کیلئے ہی پیدا ہوئے ۔ وہ راز ہے 1947میں کھلا جب صفحہ ہستی پر پاکستان وجود میں آیا
وہی مدینہ ثانی ۔۔ اسلام کی آئندہ قیادت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بلاشبہ پاکستان ہی کیلئے میر عرب نے مژدہ سنایا تھا ۔ قائد اعظم محمد علی جناح اس قوم کو ملے جنہوں نے اپنی تمام تر صلاحیتیں انقلاب پاکستان کیلئے وقف کردیں ۔ محمد علی جناح ایک غیر معمولی انسان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے وکیل بھی تھے وہ صرف ذہین نہیں فتین تھے ۔ مجھے اس سوال کا جواب دیں کہ محمد علی جناح جیسے فتین شخص کے ہاتھ ملت کی بیڑی ہو 10
لاکھ کے قریب مسلمان شہید کردیے جائیں وہ اس آگ کو اپنے ایک لفظ سے بجھا سکتے تھے لیکن نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ انہوں نے ایسا نہیں کیا کیوں کہ ان کے ذمے تھا اس بھی زیادہ تباہی آجاتی تو بھی پاکستان بننا تھا ۔میر عرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے ، پاکستان وہی ہے ، پاکستان وہی ہے
 


News n Photos












Proud To Be A Pakistani (امریکی شہری پاکستانی شہریت کیلئے بھاگ دوڑ میں مصروف )



Proud To Be A Pakistani...
امریکی شہری پاکستانی شہریت کیلئے بھاگ دوڑ میں مصروف

ایسے دور میں جب پاکستانی شہری امریکی شہریت کیلیے جان توڑ کوششیں کررہے ہیں، پارلیمنٹ کے اراکین و وزرا دہری شہریت کے حصول کیلیے قانونی جنگ میں مصروف ہیں وہیں ایک امریکی شخص ایسا بھی ہے جو پاکستانی شہریت کیلیے عدالت کے دروازے پر جاپہنچا ہے۔
وہ 26سال سے پاکستانی شہریت کیلیے بھاگ دوڑ کررہا ہے، شیخ الحدیث محمد ہاشم نے 1986میں عیسائیت سے تائب ہوکر اسلام قبول کیا، سعودی عرب میں دینی تعلیم حاصل کرکے اسلامی اسکالر بن گئے،24نومبر کو جنوبی افریقہ کے شہر ڈربن میں ہونیوالی بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کے لیے انھیں جانا ہے، سفری دستاویزات کے سلسلے میں حکومت پاکستان کی جانب سے تاخیر کے باعث سابق جسٹس محمود عالم رضوی کے توسط سے عدالت سے رجوع کیا، ہائیکورٹ نے شیخ الحدیث محمد ہاشم کو لیکچردینے کیلیے جنوبی افریقہ جانے اور واپس پاکستان آنے کی اجازت دیتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ محمد ہاشم کو شہریت دینے کا عمل جلد مکمل کرلیا جائے، محمد ہاشم کی جانب سے چیف جسٹس مشیرعالم کی سربراہی میں دورکنی بینچ کے روبرو ان کی اہلیہ مسمات خیرالنسا صالحہ نے درخواست دائر کی ہے۔
درخواست میں وزارت داخلہ، چیئرمین نادرااور ڈائریکٹرایف آئی اے کو فریق بناتے ہوئے موقف اختیار کیا گیا ہے کہ درخواست گزار پاکستانی شہری ہے اور اس نے1986میں ایک امریکی شہری(محمدہاشم) سے شادی کی جس نے اسلام قبول کیا اوراس کے ساتھ پاکستان آگیا، وہ1986سے پاکستان میں مقیم ہے،درخواست گزار کے4بچے ہیں جو پاکستانی شہریت رکھتے ہیں، محمدہاشم نے سعودی عرب سے دینی تعلیم حاصل کی اور عالم دین بننے کے بعد جامعہ بنوریہ میں درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہوگئے، انھوں نے طویل عرصے سے پاکستانی شہریت کیلیے درخواست دے رکھی ہے، حکومت پاکستان کی جانب سے انھیںمختلف اوقات میں ’’پاکستان اوریجن کارڈ‘‘ (پی او سی) جاری کیا جاتا رہا ہے، آخری بار جاری کردہ کارڈ کی معیاد13جون2012کو ختم ہوگئی ہے۔
محمد ہاشم ایک کانفرنس میں شرکت کیلیے جنوبی افریقہ جانا چاہتے ہیں جہاں انھیں لیکچر بھی دینا ہے، سماعت کے موقع پر نادرا اور محکمہ داخلہ کی جانب سے بتایا گیا کہ محمد ہاشم کو پاکستانی شہریت دینے کے عمل میں مزید دو یا تین ماہ لگ سکتے ہیں،عدالت نے آبزرو کیا کہ محمد ہاشم امریکی شہری ہیں اور انھیں بیرون ملک جانے سے کوئی نہیں روک سکتا تاہم درخواست گزار کے وکیل نے موقف اختیارکیا کہ پی او سی ویزا کی حیثیت رکھتا ہے اس کی عدم موجودگی میں ان کی پاکستان واپسی میں مشکلات ہوسکتی ہیں، عدالت نے ہدایت کی کہ محمد ہاشم کو آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت دی جائے اور بیرون ملک سے واپسی پر انہیں نہ روکا جائے، ڈپٹی اٹارنی جنرل اشرف مغل نے وزارت داخلہ کی جانب سے یقین دلایا کہ محمد ہاشم کو واپسی پر پاکستان میں داخلے کی اجازت ہوگی، عدالت نے ہدایت کی کہ محمد ہاشم کو پاکستانی شہریت دینے کا عمل بھی جلد مکمل کرلیا جائے۔

ابرہہ کے لشکر پر پڑنے والا تاریخی پتھر



For complete Reading

http://goo.gl/Ptu4T






Magar Vo ilm Kay Mooti – Orya Maqbool Jan

Magar Vo ilm Kay Mooti – Orya Maqbool Jan

Friday, November 9, 2012

صدیوں کا راز


1400پہلےتاجدار عرب و عجم نے مدینہ کو اسلام کا پہلا مرکز بنایا ۔ مدینہ مواخات و مساوات کا آئینہ دار تھا ۔ اسلام کی پہلی ریاست صفحہ ہستی پہ نمودار ہوئی ۔ مدینہ کا مطلب خطہ ہوتا ہے ۔ مدینہ سرکار دوعالم کے آنے سے پہلے یثرب تھا۔ یعنی بیماریوں کا شہر، مصیبتوں کا شہر ۔۔۔ سرکار کے آنے سے یثرب مدینہ بن گیا ۔ سرکار دوعالم کی نگاہ نبوت قیامت تک ہونے والے عروج وزوال کو دیکھ رہی تھی چنانچہ سرزمین ہند سے ٹھنڈی 
ہوا آنے کا مژدہ سنایا گیا ۔ وصال نبوی کے بعد خلفائے راشدین کا دور شروع ہوا ۔ اسلام کی شروعات سے ہی اصحاب نبوی نے سرزمین ہند کا رخ کر لیا تھا ۔ جہاں اسلام کی تبلیغ شروع کردی گئی ۔ تابعین کے دور میں بھی ہند کا رخ ہوا اور تاریخ بتاتی ہے کہ اصحاب نبوی نے چین کا بھی رخ کیا ۔ اسلام کی دعوت پھیلتی گئی ۔ صدیاں اس تلاش میں رہیں کہ وہ کونسا ہند ہے کہ جس کے بارے میں حضور نے فرمایا کہ مجھے ہند سے ٹھنڈی ہوا آتی ہے ۔ اب تاریخ کی کتابوں کا مشاہدہ کیا جائے اور مطالعہ کیا جائے تو فلسطین ،عراق، ترکی، روم اور حجاز و یمن ہی اسلام کی سرگرمیوں کا مرکز رہے ۔ اسلام کے اوائل دور ہی سے پہلے مدینہ اسلام کا مرکز بنا ۔ خلفائے راشدین کے دور میں اسلام نے عرب و عجم کی سرحدوں کو چھوا ، خصوصا خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق کے دور میں اسلام عالمگیر قوت بن کر ابھرا۔ مدینہ سے سلطنت عثمانیہ تک ہند کبھی بھی اسلام کا مرکز نہ بن سکا ۔
سوال یوں ہی رہا کہ آخر میر عرب کو کس خطے سے ٹھنڈی ہوا آئی ۔ صدیاں بیت گئی اور اس کا جواب نہ ملا ۔
کشمیر کے ایک بزرگ کو خواب آئی کہ محمد رسول اللہ کسی بڑے اجتماع میں ہیں صلحا ئے امت قطار در قطار ہیں جماعت کا وقت ہے محمد رسول اللہ جماعت نہیں کروا رہے لوگوں نے دو تین بار کہا یارسول اللہ جماعت کروائیں مگر حضور کی نگائیں کسی اقبال کے انتظار میں تھی فرمایا اقبال کا انتظار ہے ۔ باالاخر اقبال آئے حضور نے پہلی صف پہ کھڑا کیا اور جماعت کروائی۔ وہ بزرگ بیتاب ہوئے اور صبح لوگوں سے خواب کا چرچا کیا کسی نے کہا کہ لاہور میں کسی اقبال کا چر چا عام ہے آپ وہاں جائیں شایدوہ ہوں وہ بزرگ لاہور پہنچے تو اقبال کو دیکھا آنکھیں برس پڑیں اقبال نے سمجھا کہ کوئی ضرورت مند ہے پیسے دینے لگے تو بزرگ نے خواب سنایا اور کہا کہ جس کا انتظار مصلحین امت کی صفوں میں حضور کررہے تھے وہ اقبال آپ ہی ہیں ۔۔۔۔۔
صدیوں کا راز اسی عظیم اقبال کی زبان سے فراموش ہونا تھا اقبال فرماتے ہیں کہ صدیاں جس سوال کا پر پریشان تھیں ہاں سنو ۔۔۔۔۔۔۔۔
میر عرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے
میرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے
علامہ محمد اقبال کا مدینہ سے حبی عشقی فکری اور نظریاتی تعلق تھا آپ قدرت کی طرف سے ایک تحفہ تھے ۔ راز کھلا کہ میر عرب کی نگاہ کسی مدینہ ثانی کو دیکھ رہی تھی اقبال اس مدینہ ثانی کی روحانی و ظاہری سرحدوں کیلئے منتخب کیے گئے ۔ چنانچہ 1930 کو خطبہ الہ آباد میں اقبال نے ظاہری سرحدیں قائم کیں ۔ اقبال روحانی سرحدوں کو تو قائم کر ہی رہے تھے صدیاں جس سے فیض پاتی رہیں گی ۔ ضرب کلیم ، بال جبریل ، بانگ درا اور اقبال کی دیگر تصانیف کی صورت میں مدینہ ثانی کا نصاب تیار ہوا۔ اقبال نے خواب نہیں دیکھا بلکہ نبی کریم کے خصوصی فیض سے امت مسلمہ کے مستقبل کی نشاندہی کی ۔
بے شک اقبال اپنے ہی اس شعر کی تعبیر ہیں کہ
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
اقبال عراق میں کیوں نہیں پیدا ہوئے جہاں بغداد ہے ، اقبال مدینہ میں کیوں نہیں پیدا ہوئے جو اسلام کا پہلا مرکز ہے ، اقبال یمن یا شام میں کیوں نے پیدا کیے گئے ۔ وہ کونسا راز ہے کہ اقبال برصغیر کیلئے ہی پیدا ہوئے ۔ وہ راز ہے 1947میں کھلا جب صفحہ ہستی پر پاکستان وجود میں آیا
وہی مدینہ ثانی ۔۔ اسلام کی آئندہ قیادت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بلاشبہ پاکستان ہی کیلئے میر عرب نے مژدہ سنایا تھا ۔ قائد اعظم محمد علی جناح اس قوم کو ملے جنہوں نے اپنی تمام تر صلاحیتیں انقلاب پاکستان کیلئے وقف کردیں ۔ محمد علی جناح ایک غیر معمولی انسان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے وکیل بھی تھے وہ صرف ذہین نہیں فتین تھے ۔ مجھے اس سوال کا جواب دیں کہ محمد علی جناح جیسے فتین شخص کے ہاتھ ملت کی بیڑی ہو 10
لاکھ کے قریب مسلمان شہید کردیے جائیں وہ اس آگ کو اپنے ایک لفظ سے بجھا سکتے تھے لیکن نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ انہوں نے ایسا نہیں کیا کیوں کہ ان کے ذمے تھا اس بھی زیادہ تباہی آجاتی تو بھی پاکستان بننا تھا ۔میر عرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے ، پاکستان وہی ہے ، پاکستان وہی ہے
 


امریکی عدالت میں ایک پاکستانی دہشت گرد کی تقریر جس نے بہت سے لوگوں کو رلا دیا



امریکی عدالت میں ایک پاکستانی دہشت گرد کی تقریر جس نے بہت سے لوگوں کو رلا دیا طارق مھنا ایک پاکستانی مصری امریکن ہیں ان کے والدین پاکستان اور مصر سے امریکہہجرت کرگئے تھے اور طارق وہیں پیدا ہوئے اور پیدائش سےا مریکہ میں مقیم ہیں۔
انہیں کچھ ہفتے قبل ہی امریکی حکومت نے انٹر نیٹ پر جہادیوں کی حمایت کرنے کے الزام میں کئی سال کے لئے جیل بھیج دیا ہے۔ جس وقت جج انہیں سزا سنا رہا تھا انہوں نے بھری عدالت 
میں ایک بیان دیا تھا۔ اس جذباتی بیان نے عدالت میں موجود بہت سے لوگوں کو مہبوت کردیا تھا اور کئی لوگ اپنی آنکھیں پونچھتے دیکھے گئے۔ اس تقریر کے بعد جج نے کہا کہ عدالت صرف قانون کے دائرے میں رہ کر فیصلہ دیتی ہے قانون بناتی نہیں اور امریکی قانون یہی کہتا ہے کہ آپ مجرم ہیں۔ ذیل میں دئی گئی تحریر دراصل وہ تقریر ہے جوطارق مھنّا نے۱۲ اپریل ۲۰۱۲ء کو سزا سنائے جانے پر امریکی جج کے سامنے کی، طارق مھنّا ان بہت سارے لوگوں میں سے ہیں جو اپنی حق گوئی کی بابت امریکی عقوبت خانوں میں قید ہیں اور امریکہ کی اسلام دشمنی کا ہد ف بن رہے ہیں۔ آپ ابو سبایا کے نام سے انٹرنیٹ پر جانے جاتے تھے اور بہت موثر مقرر ہیں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
آج سے چار سال قبل یہی اپریل کا مہینہ تھا جب میں ایک مقامی ہسپتال میں اپنا کام ختم کرکے گاڑی کی طرف جارہا تھا کہ میرے پاس امریکی حکومت کے دو ایجنٹ آئے ۔ انہوں نے کہا کہ مجھے دو راہوں میں ایک کا انتخاب کرنا ہوگا، ایک راستہ آسان تھا اور دوسرا مشکل۔ ’آسان‘ راستہ ان کے مطابق یہ تھا کہ امریکی حکومت کا مخبر بن جاؤں اور یوں کبھی عدالت یا قیدخانے کی صورت نہ دیکھنی پڑے گی اور دشوار راستہ، سو وہ آپ کے سامنے ہے۔تب سے اب تک ان چار سالوں کا اکثر حصہ میں نے قید تنہائی میں ایک ایسے کمرے میں گزارا ہے جس کا حجم ایک چھوٹی سی الماری جتنا ہے اور مجھے دن کے تئیس گھنٹے اسی میں بند رکھا جاتا ہے۔ایف بی آئے اور ان وکلاء نے بہت محنت کی،حکومت نے مجھے اس کوٹھری میں ڈالنے، اس میں رکھنے، مقدمہ چلانے اور بالآخر یہاں آپ کے سامنے پیش ہونے اور اس کوٹھری میں مزید وقت گزارنے کی سزا سننے کے لئے لوگوں کے اداکردہ ٹیکسوں کے سینکڑوں ڈالر خرچ کئے۔
اس دن سے ماقبل ہفتوں میں لوگوں نے مجھے بہت سے مشورے دیئے کہ مجھے آپ کے سامنے کیا کہنا چاہئے۔ کچھ نے کہا کہ مجھے رحم کی اپیل کرنی چاہئے کہ شاید کچھ سزا میں تخفیف ہوجائے، جبکہ دوسروں کی رائے تھی کہ کچھ بھی کرلوں میرے ساتھ سختی ہی کا معاملہ کیا جائے گا۔تاہم میں بس یہ چاہتا ہوں کہ چند منٹ اپنے بارے میں گفتگو کروں۔ جب میں نے مخبر بننے سے انکار کردیا تو حکومت نے ردعمل کے طور پرمجھ پر الزام لگایا کہ میں نے دنیا بھر میں مسلم ممالک پر قبضے کے خلاف لڑنے والے مجاہدین کی حمایت کا’جرم‘ کیا ہے۔یا ’دہشتگردوں ‘ کی جیسا کہ وہ انہیں کہنا پسند کرتے ہیں۔حالانکہ میں کسی مسلمان ملک میں بھی پیدا نہیں ہوا۔ میں یہیں امریکہ میں پلا بڑھا ہوں اور یہی بات بہت سے لوگوں کو غضبناک کرتی ہے۔ایسا کیسے ممکن ہے کہ میں امریکی ہونے کے باوجود ان باتوں پر یقین رکھوں جن پر میں رکھتا ہوں اور وہ موقف اختیار کروں جو میں نے کررکھا ہے؟ آدمی اپنے ماحول میں جو کچھ دیکھتا ہے وہ ایک جز بن جاتا ہے جو اس کا نقطہ نظر تشکیل کرتا ہے، اور یہی حال میرا بھی ہے۔لہذا، ایک نہیں بلکہ بہت سی وجوہات کے سبب میں جو کچھ ہوں امریکہ ہی کی وجہ سے ہوں۔
چھ سال کی عمر میں میں نے comic booksکا ذخیرہ جمع کرنا شروع کردیا۔بیٹ مین نے میرے ذہن میں ایک تصور بویا، میرے سامنے ایک نمونہ رکھا کہ کس طرح دنیا کا نظام چل رہا ہے،بعض ظالم ہوتے ہیں، بعض مظلوم ہوتے ہیں اور بعض وہ جو مظلمومین کی حمایت کے لئے آگے آتے ہیں۔یہ چیز میرے ذہن میں اس طرح پیوست رہی کہ اپنے پچپن کے پورے دور کے اندر میں ہر اس کتاب کی طرف کھنچا چلا جاتا جس میں یہ نمونہ پیش کیا جارہا ہوUncle Tom's Cabin, TheAutobiography of Malcolm X اور مجھے توThe Catcher in the Ryeمیں بھی ایک اخلاقی پہلو نظر آتا تھا۔ پھر میں ہائی اسکول پہنچ گیا اور تاریخ کے اسباق پڑھے ،اور مجھ پر یہ واضح ترہوگیا کہ دنیا کا یہ اصول کتنا حقیقی ہے۔میں نے امریکہ کے اصل باشندوں اور یورپی آبادکاروں کے ہاتھوں ان پر ہونے والے ظلم کے بارے میں پڑھا۔
میں نے پڑھا کہ پھر ان یورپی آبادکاروں کی نسلوں کو کس طرح کنگ جارج سوم کی جابرانہ حکومت کے دوران ظلم کا نشانہ بنایا گیا۔میں نے پال ریوراور ٹام پین کے بارے میں پڑھا اور یہ کہ کس طرح امریکیوں نے برطانوی فوج کے خلاف مسلح بغاوت کی،وہ بغاوت جس کا اب ہم امریکہ کی انقلابی جنگ کی حیثیت سے جشن مناتے ہیں۔آج جہاں ہم بیٹھے ہیں بچپن میں اس سے کچھ دور ہی اسکول کی فیلڈ ٹرپ پر جایا کرتے تھے۔میں نے ہیریئٹ ٹب مین،نیٹ ٹرنر،جان براؤن اور اس ملک میں غلامی کے خلاف جنگ کے بارے میں پڑھا۔میں نے ایما گولڈمین،یوجین ڈیبز، مزدوروں کی انجمنوں، ورکنگ کلا س اور غرباء کی جدوجہدوں کے بارے میں پڑھا۔
میں نے این فرینک اور نازیوں کے بارے میں پڑھا کہ وہ کس طرح اقلیتوں کو اذیتیں دیتے تھے اورمخالفین کو قید کردیتے تھے۔میں نے روزا پارکس، میلکم ایکس، مارٹن لیوتھر کنگ اور شہری حقوق کی جدوجہد کے بارے میں پڑھا۔میں نے ہو چی منھ کے بارے میں پڑھا کہ کس طرح ویت نام کے باشندگان نے کئی دہائیاں یکے بعد دیگرے آنے والے غاصبین کے خلاف لڑنے میں گزاردیں۔ میں نے نیلسن منڈیلا اور جنوبی افریقہ میں نسلی عصبیت کے خلاف جنگ کے بارے میں پڑھا۔میں نے ان سالوں میں جو کچھ پڑھا وہ چھ سال کی عمر میں سیکھی گئی بات کی مزید تصدیق کررہا تھا، کہ پوری تاریخ میں ظالم اور مظلوم کے درمیان ایک مستقل جنگ جاری رہی ہے۔
میں نے جس بھی جدوجہد کے بارے میں پڑھا ،میں نے اپنے آپ کو ہمیشہ مظلوم کا طرفدار پایا، اور ان کی حمایت میں کھڑے ہونے والوں کو میں نے ہمیشہ احترام کی نگاہ سے دیکھا، خواہ وہ کسی بھی ملک سے ہوں، کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں۔ میں نے کبھی بھی اپنی کلاسوں کے نوٹس نہیں پھینکے۔ آج بھی جبکہ میں یہاں کھڑا ہوں وہ میرے کمرے کی الماری میں سلیقے سے رکھے ہیں۔ جتنی بھی تاریخی شخصیات کے بارے میں میں نے پڑھا ان میں سے ایک سب میں ممتاز تھی۔ملیکم ایکس کے بارے میں بہت سی چیزوں نے مجھے متاثر کیا لیکن جس چیز نے سب سے زیادہ دلچسپی بڑھائی وہ کایا پلٹ تھی، ان کی کایا پلٹ۔مجھے معلوم نہیں کہ آپ نے سپائک لی کی فلم ’X‘ دیکھی ہے یانہیں، یہ تقریبا ساڑھے تین گھنٹے کی ہے، اور ابتدا میں نظر آنے والا میلکم آخر میں نظر آنے والے میلکم سے بہت مختلف ہے۔وہ ایک ان پڑھ مجرم ہوتا ہے جو بعدازاں ایک شوہر، ایک باپ ، اپنے لوگوں کا محافظ اور فصیح البیاں لیڈر بن جاتا ہے، ایک اصولی مسلمان جو مکہ میں حج کا فریضہ ادا کرتا ہے اور بالآخر شہید ہوجاتا ہے۔میلکم کی زندگی نے مجھے یہ سبق دیا کہ اسلام کوئی وراثتی دین نہیں ہے؛یہ کسی نسل یا تہذیب کا نام نہیں ہے۔ یہ تو طریقہ زندگی ہے،ایک فکری حالت ہے جو کوئی بھی اپنا سکتا ہے چاہے وہ کہیں سے بھی تعلق رکھتا ہو اور کسی بھی ماحول میں پلا بڑھا ہو۔اس چیز نے مجھے اسلام کو بنظر غائر دیکھنے کی ترغیب دی اور بس پھر میں اس کا دلدادہ ہوگیا۔
میں تو صرف ایک نوجوان تھا اوراسلام اس سوال کا جواب پیش کرتا تھا جو بڑے بڑے سائنسی ذہن دینے سے قاصر ہیں۔اور جس کا جواب نہ پاکر امرا ء اور مشہور و معروف لوگ ڈیپریشن اور خودکشیوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔زندگی کا مقصد کیا ہے؟اس کائنات میں ہمارا وجود کیوں ہے؟ اسلام نے جواباً بتایا کہ کس طرح ہمیں زندگی گزارنی ہے۔کیونکہ اسلام ہمیں کسی پیشوا یا راہب کا محتاج نہیں کرتا لہذا میں نے براہ راست قرآن اور سنت کی گہرائیوں میں جانا شروع کردیا،تاکہ اس فہم کے سفر کا آغاز کرسکوں کہ اسلام کیا ہے،بحیثیت انسان اسلام میرے لئے کیا پیش کرتا ہے، ایک فرد کی حیثیت سے، میرے اردگرد کے لوگوں کے لئے، ساری دنیا کے لئے، اور جتنا جتنا میں سیکھتا گیا،مجھے اسلام کی قدر وقیمت کا اتنا ہی احساس ہونے لگا گویا وہ کوئی ہیرا ہے۔یہ میرے عنفوان شباب کی بات ہے، لیکن آج بھی پچھلے چند سالوں کے دباؤ کے باوجود، میں یہاں آپ کے اور اس کمرہ عدالت میں موجود تمام لوگوں کے سامنے ایک مسلمان کی حیثیت سے کھڑا ہوں،الحمدللہ۔ اس کے ساتھ ہی میری توجہ دنیا بھر میں مسلمانوں کے حالات کی طرف گئی۔اور جدھر بھی میں نے نگاہ ڈالی میں نے دیکھا کہ نام نہاد طاقتیں میری محبوب شے کے درپے ہیں۔مجھے پتہ چلا کہ سویت نے افغانستان کے مسلمانوں کے ساتھ کیا کیا۔مجھے معلوم ہوا کہ سربوں نے بوسنیا کے مسلمانوں پرکیا قیامت ڈھائی۔مجھے روسیوں کے ہاتھوں چیچن مسلمانوں پر ہونے والے ظلم کے متعلق پتہ چلا۔مجھے پتہ چلا کہ اسرائیل نے لبنان میں کیا کیا تھا، اوراب امریکہ کی مکمل پشت پناہی کے ساتھ فلسطین میں کیا کچھ کررہا ہے۔اور مجھے پتہ چلا کہ خود امریکہ مسلمانوں کے ساتھ کیا کررہا ہے۔مجھے جنگ خلیج کے متعلق اور ان یورینیم بموں کے متعلق علم ہوا جن سے ہزاروں لوگ مر گئے اور عراق میں کینسر کی شرح آسمان کو پہنچ گئی۔میں نے امریکہ کے صادر کردہ ان احکامات و قوانین کے بارے میں جانا جن کے باعث عراق میں کھانا، دوائیں اور طبی سامان جانے سے روک دیا گیا اور کس طرح ،اقوام متحدہ کے مطابق،نتیجتاً پانچ لاکھ سے زائد بچے ہلاک ہوئے۔
مجھے میڈیلائن ایلبرائٹ کے ’۰ ۶ منٹ ‘ کے انٹرویو کا ایک حصہ یاد ہے جس میں اس نے اپنا یہ اظہار خیال کیا تھا کہ یہ بچے اسی قابل تھے۔میں نے گیارہ ستمبرکو دیکھا کہ کس طرح کچھ افراد نے ان بچوں کی ہلاکتوں پر ہوائی جہاز ہائی جیک کرنے اور انہیں عمارتوں میں اڑادینے کی صورت میں اپنے غم و غصے کا اظہار کیا۔پھر میں نے دیکھا کہ امریکہ نے براہ راست عراق پر حملہ کردیاہے۔میں نے حملے کے پہلے روزآپریشن ’Shock and Awe‘ کے نتیجے میں ہونے والی تباہی دیکھی، ہسپتال کے واڑدوں میں وہ بچے تھے جن کے سروں میں امریکی میزائلوں کے ٹکڑے کھبے ہوئے تھے(ظاہر ہے یہ سب کچھ سی این این پر نہیں دکھایا گیا)۔ مجھے حدیثہ کے قصبے کے بارے میں علم ہواجہاں چوبیس مسلمانوں کو جن میں ایک چھیتر سالہ ویل چیئر پربیٹھا بوڑھا، عورتیں اور ننھے بچے شامل ہیں، ان کے بستروں میں ہی گولیوں سے بھون دیا گیا۔ مجھے عبیر الجنبی کے بارے میں پتی چلا، ایک چودہ سالہ عراقی بچی جسے پانچ امریکی فوجیوں نے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا، جنہوں نے پھر اس کے اور اس کے گھر والوں کے سروں میں گولیاں ماریں اور ان کی لاشوں کو جلا دیا۔میں بس اس بات کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہوں، آپ دیکھتے ہی ہیں کہ مسلم خواتین نامحرم مردوں کو اپنے بال تک نہیں دکھاتیں۔ ذرا تصور کریں ایک گاؤں سے تعلق رکھنے والی بچی کو بے لباس کیا جائے اور پھر ایک نہیں، دو نہیں ، تین نہیں یکے بعد دیگرے پانچ فوجی اسے بے عزت کریں۔آج بھی جبکہ میں اپنے سیل میں بیٹھا ہوتا ہوں ،ان ڈرون حملوں کے بارے میں پڑھتا ہوں جو پاکستان ، صومالیہ اور یمن جیسے ممالک میں روزانہ مستقل بنیاد پر مسلمانو ں کو قتل کررہے ہیں۔
پچھلے ماہ ہی ان سترہ افغان مسلمانوں کے بارے میں سنا جن میں اکثریت ماؤں اور ان کے بچوں کی تھی،جو ایک امریکی فوجی کی گولیوں کا نشانہ بنے اور اس نے ان کی لاشوں کو بھی جلا دیا۔ یہ تو صرف چند کہانیاں ہیں جو شہ سرخیوں تک پہنچ پاتی ہیں، تاہم اسلام کے جو تصورات میں نے سب سے پہلے سیکھے ان میں بھائی چارہ اور وفادرای بھی شامل ہے، کہ ہر مسلمان خاتون میری بہن ہے اور ہر مرد میرا بھائی اور مل جل کر ہم سب ایک جسم کی مانند ہے اور ہمیں ایک دوسرے کی حفاظت کرنی ہے۔بالفاظ دیگر ،میں یہ نہیں دیکھ سکتا تھا کہ میرے بہن بھائیوں کے ساتھ یہ کچھ ہوتا رہے، امریکہ بھی ظالموں میں شامل ہو اور میں غیر جانبدار رہوں۔مظلوموں کے لئے میری حمایت جاری رہی تاہم اس بار اس میں اپنائیت بھی تھی، اور یہی احساسات ان لوگوں کے لئے بھی تھے جو ان مظلومین کے دفاع میں اٹھے۔ میں نے پال ریور کا تذکرہ کیا تھا، وہ آدھی رات کو لوگوں کو خبردار کر نے کے لئے نکلا کہ برطانوی سام ایڈمز اور جان ہینکاک کو گرفتار کرنے کے لئے لیگزنگٹن کی طرف پیش قدمی کررہے ہیں اور اس کے بعد کانکورڈجائیں گے تاکہ وہاں آزادی کے لئے لڑنے والی ملیشیا کے ذخیرہ کردہ اسلحہ کو ضبط کریں۔جس وقت تک برطانوی کانکورڈ پہنچے آزادی کے لئے لڑنے والے لوگ اپنے ہاتھوں میں اسلحہ لئے ا ن کے سامنے مقابلے کے لئے کھڑے تھے۔انہوں نے برطانویوں پر گولیاں چلائیں، ان سے لڑائی کی اور انہیں ہرا دیا۔
اسی جنگ سے امریکی انقلاب کا آغا ز ہوا۔ جو کام ان لوگوں نے کیا اس کے لئے ایک عربی لفظ ہے ،اور وہ لفظ ’جہاد ‘ہے، اور میرا مقدمہ بھی اسی سے متعلق تھا۔وہ ساری ویڈیوز اور تراجم اور بچکانہ بحثیں کہ’ اوہ! اس نے اس جملے کا ترجمہ کیا تھا ‘اور ’اوہ ! اس نے اس جملے پر نظر ثانی کی تھی!‘،اور وہ تمام پیش کردہ باتیں ایک ہی معاملے کے گرد گھومتی تھیں:وہ مسلمان جو امریکہ کے خلاف اپنا دفاع کررہے تھے جو ان کے ساتھ وہی سلوک کررہا ہے جو برطانیہ نے امریکہ کے ساتھ کیا تھا۔پیشیوں کے اندر یہ بات بالکل واضح ہوگئی تھی کہ میں کبھی بھی بازاروں میں ’امریکیوں کے قتل‘ کے کسی منصوبے میں شامل نہیں رہا، یا جو بھی کہانی بنائی گئی تھی اس سے میرا کوئی تعلق نہیں۔حکومتی گواہوں نے خود بھی اس دعوے کا رد کیا، اور ایک کے بعد دوسرا ماہر اس جگہ آکر کھڑا ہوتا رہا، جنہو ں نے میرے تحریر کردہ ہر ہر لفظ کے حصے بخرے کرنے میں کئی گھنٹے گزارے کہ میرے عقائد کو بیان کرسکیں۔ اس کے بعد جب میں آزاد ہواتو حکومت نے اپنا ایک خفیہ ایجنٹ بھیجا کہ وہ مجھے اپنے کسی چھوٹے سے’دہشتگردانہ منصوبے‘ میں ملوث ہونے کی ترغیب دے سکے، لیکن میں نے شمولیت سے انکار کردیا۔ تاہم حیرت کی بات ہے کہ جیوری کو اس بارے میں کوئی خبر نہیں۔
لہذا ،میرا یہ مقدمہ امریکی شہریوں کے قتل پر میرے موقف کے لحاظ سے نہیں تھا، بلکہ یہ امریکیوں کے ہاتھوں مسلمان شہریوں کے قتل کے لحاظ سے میرے موقف پر تھا، اور وہ یہی ہے کہ مسلمانوں کو اپنی اراضی پر غاصب قوتوں کے خلاف دفاع کرنا چاہئے چاہے وہ امریکی ہوں ، روسی ہوں یا مریخی ہوں۔میں اسی بات پر یقین رکھتا ہوں، ہمیشہ سے میرا یہی یقین رہا ہے اور ہمیشہ یہی یقین رہے گا۔یہ نہ دہشت گردی ہے ،نہ انتہا پسندی ہے۔یہ تو بس دفاع نفس کی سادہ سی منطق ہے۔یہ وہی چیز ہے جس کی نمائندگی آپ کے اوپر موجود علامت کے تیر کررہے ہیں، وطن کا دفاع۔چنانچہ میں اپنے وکلاء کی اس بات سے متفق نہیں ہوں کہ آپ کو میرے عقائد ماننے کی ضرورت نہیں۔نہیں،بلکہ جس کے اندر بھی تھوڑی سی عقل اور انسانیت ہوگی لامحالہ اسے یہ بات ماننی ہی پڑے گی۔
اگر کوئی آپ کے گھر میں گھس کر چوری کرنا چاہے اور آپ کے اہل و عیال کو نقصان پہنچانا چاہے تو عقل یہی کہے گی کہ اس جارح کو باہر نکالنے کے لئے جو کچھ ہو سکتا ہے وہ کیا جائے۔ لیکن جب وہ گھر کوئی مسلم سرزمین ہو، اور وہ جارح امریکی فوج ہو، تو کسی وجہ سے یہ اصول بدل جاتے ہیں۔عقل کا نام’دہشت گردی ‘رکھ دیا جاتا ہے، اور جو لوگ سمندر پار سے آئے قاتلوں کے خلاف اپنا دفاع کرتے ہیں وہ ’دہشت گرد‘ بن جاتے ہیں جو ’امریکیوں کو قتل‘ کررہے ہیں۔ ڈھائی صدی پہلے امریکہ جس ذہنیت کا شکار تھا جب برطانوی ان سڑکوں پر چل رہے تھے وہی ہے جس کا شکا ر آج مسلمان ہیں جن کی سڑکوں پر امریکی فوجی مٹر گشت کررہے ہیں۔ یہ استعماریت کی ذہنیت ہے۔جب سرجنٹ بیلز نے پچھلے مہینے ان افغانوں کو قتل کیا تو ذرائع ابلاغ کا سارا زور اس کی ذات پر تھا، اس کی زندگی، اس کی پریشانی، اس کے گھر کا گروی ہونا، گویا وہی ظلم کا نشانہ بنا ہے۔اور جن لوگوں کو اس نے ماراتھا ان کے لئے کم ہی ہمدردی دکھائی گئی،گویا وہ حقیقی لوگ نہیں تھے، انسان نہیں تھے۔بدقسمتی سے یہی ذہنیت معاشرے کے ہر فرد میں راسخ ہوچکی ہے،چاہے اسے اس بات کا احساس ہو یا نہ ہو۔حتی کہ میرے وکلاء بھی، دو سال گفتگو کرنے، سمجھانے اور وضاحتیں پیش کرنے میں لگے اور پھر کہیں جاکر وہ اس قابل ہوئے کہ اپنے خول سے باہر جھانک سکیں اور کم ازکم میری بات میں موجود منطق و عقل کو بناوٹی طور پر ہی قبول کرسکیں۔
دو سال!اگر اتنے ذہین لوگوں کو اتنا وقت لگا، جن کا کام میرا دفاع کرنا تھا، اپنی ذہنیت تبدیل کرنا تھا ، اور پھر مجھے یونہی کسی جیوری کے سامنے پیش کردیا گیا اس بات کے تحت کہ وہ میرے’غیر جانبدار موکل‘ ہیں ، مطلب یہ کہ مجھے اپنے ساتھیوں کی جیوری کے سامنے نہیں پیش کیا گیا کیونکہ جو ذہنیت امریکہ پر چھائی ہوئی ہے اس کی وجہ سے میرے کوئی ساتھی ہی نہیں۔اسی حقیقت کو بنیاد بناتے ہوئے حکومت نے مجھ پر مقدمہ چلایا، اس لئے نہیں کہ انہیں کوئی حاجت تھی، بس صرف اس لئے کیونکہ وہ ایسا کرسکتے تھے۔ میں نے تاریخ کی کلاسوں میں ایک او ر بات بھی سیکھی تھی۔
امریکہ نے تاریخ میں ہمیشہ اپنی اقلیتوں کے خلاف غیر منصفانہ ترین حکمت عملیاں اپنائی ہیں، ایسے افعال جنہیں قانون کا تحفظ بھی حاصل تھا، اور پھربعد میں پیچھے دیکھ کر یہی کہا گیا’آخر ہم کیا سوچ رہے تھے؟‘غلامی، جم کرو،جنگ عظیم دوئم میں جاپانیوں کی نظر بندی، یہ سب امریکی معاشرے میں بالکل قابل قبول تھا، اور سپریم کورٹ کی پشت پناہی کے ساتھ تھا۔لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا اور امریکہ بدل گیا، عوام اور عدلیہ دونوں نے پیچھے دیکھ کر یہی کہا کہ ’آخر ہم کیا سوچ رہے تھے؟‘ جنوبی افریقہ کی حکومت نیلسن منڈیلا کودہشت گرد سمجھتی تھی، اور اسے قید حیا ت کی سزا سنائی گئی تھی۔لیکن وقت گزر گیا اور دنیا بدل گئی،انہیں احساس ہوا کہ ان کی پالیسی کتنی ظالمانہ تھی، کہ دراصل وہ دہشت گرد نہیں تھا، اور اسے قید سے آزاد کردیاگیا۔ وہ صدر بھی بن گیا۔ لہذا ہر چیزذہنیت سے تعلق رکھتی ہے، یہ ’دہشت گردی‘ کا سارا معاملہ بھی اور یہ کہ کون ’دہشت گرد ‘ہے۔یہ سب تو وقت اور مقام پر منحصر ہے اور یہ کہ کون اس وقت ’عالمی قوت ‘ ہے۔
آپ کی نظروں میں میں دہشت گردہوں، صرف ایک میں ہی یہاں پر ایک زرد لباس میں کھڑا ہوں اور میرا یہاں زرد لباس میں کھڑا ہونا بالکل معقول ہے۔ لیکن ایک دن امریکہ بدل جائے گا اور لوگوں کو اس دن کی حقیقت کا احساس ہوگا۔وہ دیکھیں گے کہ کس طرح ہزاروں لاکھوں مسلمان غیر ممالک میں امریکی فوج کے ہاتھوں قتل ہوئے اور اپاہج ہوئے۔ تاہم کسی طریقے سے آج میں ہوں جسے ان ممالک میں’قتل اور اپاہج کرنے کی سازش ‘ کی وجہ سے قید میں بھیجا جارہا ہے، کیونکہ میں ان لوگوں کا دفاع کرنے والے مجاہدین کی حمایت کرتا ہوں۔لوگ پیچھے مڑ کر دیکھیں گے کہ کس طرح حکومت نے مجھے’دہشتگرد‘ کی حیثیت سے قید کرنے کے لئے لاکھوں ڈالر خرچ کئے، لیکن اگر ہم کسی طرح امیر الجنبی کو اس موقع پر زندہ کرکے لاکھڑا کریں جب وہ آپ کے فوجیوں کے ہاتھوں ذلیل ہورہی تھی، اسے اس گواہی کے کٹہرے میں کھڑا کریں اور اس سے پوچھیں کہ دہشت گرد کون ہیں، تو یقیناًاس کا اشارہ میر ی طرف نہیں ہوگا۔ حکومت کا کہنا ہے کہ مجھ پر شدت کا بھوت سوار ہے، ’امریکیوں کے قتل ‘کا بھوت سوار ہے۔ لیکن اس دور میں رہنے والے مسلمان کی حیثیت سے، میں اس سے زیادہ طعن آمیز جھوٹ سوچ بھی نہیں سکتا۔۔۔
زیادہ سے زیادہ شیر کریں