◄شہر میں ہر طرف مہمان تاجروں کا چرچا تھا، جو ان کے لیے ضرورت کا سامان لے کر آئے تھے. لوگ خوش تھے کہ اب وہ اپنی اپنی استطاعت کے مطابق خریداری کر سکیں گے. رسد خوب ہو تو قیمت بھی اعتدال میں رہتی ہے. تاجر من مانی نہی کر سکتے اور یہ بات تو ہے بھی تب کی، جب آسمان پر صرف پرندے پرواز کرتے تھے. ان کی اڑانیں دیوہیکل طیاروں کے لیے خطرہ یوں نہ تھیں کے ان کا دور دور تک کوئی وجود ہی نہی تھا. اہلیان شہر سامان سے
لدے جگالی کرتے اونٹوں کو دیکھ دیکھ کر خوش ہو رہے تھے، جنھیں عیدگاہ کے وسیح و عریض میدان میں ٹھہرایا گیا تھا، لیکن ان لوگوں میں ایک فرد ایسا بھی تھا جو سخت متفکر تھا اور اس کی پریشانی کا اظھار اس کے چہرے سے ہو رہا تھا. جیسے جیسے رات اپنی آنکھوں میں سیاہی کے سرمے کی سلائی کھیچتی جاتی، اس کی پریشانی، اضطراب، اور بڑھتا جاتا. آخر اس سے رہا نہ گیا. اس نے اپنے دوست سے پریشانی کا اظھار کیا اور مدد طلب کی. دوست بھی سچا دوست تھا . وہ بلا تردد فوراً راضی ہو گیا. اب دونوں کے قدم عید گاہ کی جانب اٹھ رہے تھے جہاں تاجروں کے قافلے نے پڑاؤ ڈال رکھا تھا.
یہ دونوں قافلے کے پاس جا کر ٹھہر گئے اور اپنے اپنے کام میں لگ گئے. دونوں قافلے کے گرد ٹہل رہے تہے. کبھی ایک طرف جاتے اور کبھی دوسری طرف کا رخ کرتے اور کبھی تاریکی میں آنکھیں کھول کهول کر دیکھنے کی کوشش کرتے اور جگالی کرتے بے فکر اونٹوں کے پاس ٹہلنے لگ جاتے. وہ دونوں خاصے چوکنے تھے. انداز ایسا تھا جیسے انھیں کوئی خطرہ ہو. رات کے گھپ اندھیرے میں یہ کام آسان نہی تھا . دونوں دوستوں نے باہمی مشورہ کیا اوراپنی باریاں لگا لیں.
دراز قامت شخص کی باری آئی تو اس نے کسی بچے کے رونے کی آواز سنی. بچے کا رونا کوئی انہونی بات نہی، لیکن مسلسل رونے سے لگ رہا تھا وہ معصوم کسی تکلیف میں ہے. اس شخص سے رہا نہ گیا اوروہ احوال معلوم کرنے چلا گیا. اس نے دیکھا کہ شیرخوار بچہ بری طرح روئے جا رہا ہے، جسے اس کی ماں بہلا پھسلا رہی ہے. اس نے بچے کی ماں سے کہا: الله سے ڈر اور اپنے بچے کا خیال کر.
یہ که کر وہ شخص باہر آ گیا، اور پہلے کی طرح قافلے کے گرد منڈلانے لگا. تھوڑی دیر بعد اسے پھر بچے کے رونے کی آواز آئی. بچہ بلک بلک کر رو رہا تھا، وہ پھر اس عورت کے پاس گیا اور اسے تلقین کی کہ بچے کا خیال کرے. اس نصیحت کا اثر تھوڑی دیر ہی رہا. رات کے سناٹے میں ایک بار پھر بچے کے بلکنے کی آواز آنے لگی. اب تو اس شخص کو غصہ آ گیا. وہ اس عورت کے پاس گیا اور کہنے لگا : "تیرا بھلا ہو، میرا خیال ہے تو بچے کے حق میں ٹھیک نہی. کیا بات ہے تیرا بیٹا آج ساری رات جاگتا رہا. وہ ذرا دیر بھی نہ سویا."
وہ عورت جو اس اجنبی کی بار بار آمد سے جھنجھلا گئی تھی، کہنے لگی: تو نے بھی تو مجے تنگ کیے رکھا. بار بار آتا رہا. میں اس بچے کا دودھ چھڑانا چاہتی ہوں، لیکن یہ نہی مانتا."
"یہ کیا بات ہوئی. تو اس کا دودھ کیوں چھڑانا چاہتی ہے؟" اجنبی شخص کے لہجے میں حیرت تھی کہ کوئی ماں ایسی سخت دل بھی ہو سکتی ہے.
عورت بولی:"سرکار سے اسی بچے کو وظیفہ ملتا ہے جو ماں کا دودھ چھوڑ چکا ہو. یہ دودھ چھوڑے گا تو مجھے اس کا وظیفہ ملے گا."
عورت کی بات سن کر اس شخص کے چہرے پر ایک رنگ آ کر گزر گیا. اس نے پوچھا بچے کی عمر کیا ہے؟
عورت نے بچے کی عمر بتائی. وہ شخص کہنے لگا "تیرا بھلا ہو، اس بچے کا دودھ چھڑانے میں جلدی نہ کر." یہ که کر وہ شخص چلا آیا.
باہر صبح صادق کا وقت قریب تھا. فضا میں الله کی کبریائی کا اعلان ہونے لگا. الله اکبر الله اکبر کی صدا سن کر وہ شخص جھرجھری لے کر رہ گیا اور بوجھل قدموں کے ساتھ اس طرح مسجد کی طرف چل پڑا کہ اس کا سر جھکا ہوا تھا. مسجد پہنچا تو دیگر نمازیوں کی نظریں اس کے چہرے پر جم گئیں. وہ دیکھ رہے تھے کہ آج ان کے امام صاحب کچھ غمگین اور افسردہ افسردہ سے ہیں. اس روز وہ دراز قامت شب بیدار نماز میں گڑگڑا گڑگڑا کر رویا. اس نے روتے روتے سلام پھیرا اور لوگوں سے مخاطب ہو کر کہنے لگا: "خبردار کوئی قبل از وقت اپنے بچے کا دودھ نہ چھڑائے. آج سے ہر دودھ پیتے بچے کا وظیفہ مقرر کیا جاتا ہے."
نماز میں ہچکیاں لے لے کر رونے اور یہ اعلان کرنے والے شخص کوئی عام سا بندہ نہی. دعائے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ تھے، جو حضرت عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ کے ساتھ رات بھر جاگتے رہے اور تاجروں کے قافلے پر پہرا دیتے رہے کہ کوئی چوری چکاری نہ کرے. چھتیس ہزار شہروں اور قلعوں کا فاتح اور اجنبی تاجروں کے مال کی چوکیداری.
میں آج عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی جستجو میں تھا. میں اس شاندار فاتح اور عظیم قائد کے بارے میں جاننا چاہتا تھا کہ جن کا یوم شہادت یکم محرم کو دبے پاؤں آ کر گزر گیا. اس روز آرٹس کونسل میں کوئی سیمینار ہوا نہ کسی پنج ستارہ ہوٹل میں وزیر اعلیٰ یا گورنر صاحب بہادر نے لکھی ہوئی تقریر پڑھی. کراچی، لاہور ، کوئٹہ، پشاور، گلگت بلتستان اور سکردو میں کہیں بھی سرکاری سطح پر ایسی کوئی تقریب نہی ہوئی، جہاں اپنوں کو نوازنے کے لیے سرکاری خزانے کا منہ کھول دینے والوں کو بتایا جاتا کہ جس طرح تمہاری بہو بیٹیاں تمیں عزیز اور پیاری ہیں، ویسے ہی اس عظیم فاتح کو بھی اپنی اولاد اس سے کہیں زیادہ پیاری رہی ہو گی اور کون باپ ہے جو لوگوں کی ضرورتیں پوری کر رہا ہو. مال غنیمت تقسیم کر رہا ہو. ایسے میں ضرورت مند لاڈلی بیٹی کو خبر ملے اور وہ چادر اوڑھے ضرورت مندوں کی قطار میں لگ کر باری انے پر کہے:" اے امیر المومنین! الله نے رشتےداروں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے، اس لیے اس مال میں سے آپ کے رشتےداروں کا بھی حق ہے......"
جواب میں امیر المومنین اپنی لاڈلی بیٹی حفصہ رضی اللہ عنہ سے کہے: " بیٹا! میرے رشتےداروں کا حق میرے مال پر ہے. یہ تو مسلمانوں کا مال غنیمت ہے. جاؤ واپس جاؤ...." کیا کسی وزیر کا یہ جگرا ہے کہ وہ یہ کہے اور اپنی بیٹی کو چادر گھسیٹتے خالی ہاتھ جاتا دیکھتا رہے.....
کاش کہیں کسی سیمینار میں لطیف کھوسہ، عشرت العباد، ذولفقار مگسی، مسعود کوثر، راجہ زلقرنیں خان اور پیر کرم علی شاہ مہمان خصوصی ہوتے اور انھیں بتایا جاتا کہ منظر ایک میدان کا ہے، جہاں ایک کمزور سی لڑکی لڑکھڑاتی چلی جا رہی ہے. خلیفہ وقت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی نظر پڑتی ہے. پوچھتے ہیں "یہ کون ہے؟"
پاس کھڑا بیٹا کہتا ہے:"یہ آپ کی بیٹی ہے....."
تعجب سے پوچھتے ہیں:" یہ میری کون سی بیٹی ہے؟"
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جواب دیتے ہیں :"یہ میری بیٹی اور آپ کی پوتی ہے"
سوال ہوتا ہے:"یہ اتنی کمزور کیوں ہے؟"
بیٹا شکایتاً کہتا ہے:"آپ کی وجہ سے، کیوں کہ آپ اسے کچھ دیتے جو نہی"
پھر وہ مقرر سیمینار میں گورنروں، وزیروں اور مشیروں کو بتاتا کہ خلیفہ وقت جگر گوشے کا شکوہ سن کر اسے کسی شہر کی امارت سونپنے یا کسے صوبے کی گورنری کا پروانہ تھمانے کے بجائے کہتا ہے:" خدا کی قسم! میں تمیں تمہاری اولاد کے بارے میں کسی دھوکے میں نہی رکھنا چاہتا. جاؤ خود کماؤ اور اپنی اولاد پر خوب خرچ کرو...."
اجرک اور ٹوپی کے دن سے لے کر بسنت کے نام سے سے ثقافتی بدعت منانے والے وی آئ پیز کو یوم فاروق رضی اللہ عنہ پر کوئی تقریب سجانے کی توفیق ہوتی تو پاکستان کو ماں باپ کی جاگیر سمجھ کر قیمتی ارازیوں پر قبضہ کرنے والوں کو کوئی نہ کوئی تو بتاتا کہ تم اور تمارے لیڈر تو ان کے غلاموں کے غلاموں کا پانی بھرنے کر لائق بھی نہی. تم کیا اور تمہاری اوقات کیا. تم ایک وزارت پر اتراتے پھرتے ہو، صدارت پر اکڑتے پھرتے ہو، فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی سلطنت مدینہ سے مکران اور اناطولیہ سے آزربائیجان تک پھیلی ہوئی تھی اور خدا خوفی اور جواب دہی کا یہ عالم تھا کہ مجوسی قاتل کے نیزوں کے گھاؤ سے جسم گھائل ہے. وقت آخر قریب ہے. حضور پر نور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ قبر کی دو گز جگہ چاہتے ہیں. بیٹے کو ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجتے ہیں اور کہتے ہیں "ام المومنین رضی اللہ عنہ کی خدمت میں سلام عرض کرنا اور ان سے کہنا کہ عمر بن خطاب رسول پاک صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حجرے میں ان کے ساتھ دفن ہونے کی اجازت مانگ رہا ہے اور ہاں عمر بن خطاب ہی کہنا، ساتھ امیر المومنین مت کہنا کہ آج میں امیر المومنین نہی ہوں. صاحبزادے جا کر ام المومنین رضی اللہ عنہ سے عرض کرتے ہیں. وہ فرماتی ہیں:"قسم خدا کی! وہ جگہ میں نے اپنے لیے رکھی ہوئی ہے، لیکن میں انھیں اجازت دیتی ہوں." صاحبزادہ اجازت لے کر خلیفہ وقت کے پاس جاتا ہےاور خوشخبری سناتا ہے. پھر بھی فرماتے ہیں جب میرا جنازہ اٹھاؤ تو جنازے کو ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہ کے حجرے کے سامنے روک دینا اور دوبارہ اجازت مانگنا. اگر اجازت نہ دیں تو عام مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کر دینا...."
کاش کہیں تو ایسا سیمینار ہوتا. کہیں تو ایسی کانفرنس ہوتی. کہیں تو ایسی تقریب ہوتی. شائد ذکر فاروق اعظم سے ہمارے حکمرانوں کے ضمیر جاگ جاتے. میں نے یہ سوچتے ہوے وکی پیڈیا کا انسائیکلوپیڈیا کھولا. غیروں کے اس انسائیکلوپیڈیا میں اس عظیم فاتح کے بارے میں تفصیلی معلومات کے ساتھ ساتھ ان کی اس کاٹ دار شمشیر کی تصویر بھی تھی، جسے اٹھانے والے ہاتھ اب مسلمانوں میں نہی رہے. میں افسردہ ہو گیا اور افسردگی، اداسی سے شمشیر فاروق کو دیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا...
لدے جگالی کرتے اونٹوں کو دیکھ دیکھ کر خوش ہو رہے تھے، جنھیں عیدگاہ کے وسیح و عریض میدان میں ٹھہرایا گیا تھا، لیکن ان لوگوں میں ایک فرد ایسا بھی تھا جو سخت متفکر تھا اور اس کی پریشانی کا اظھار اس کے چہرے سے ہو رہا تھا. جیسے جیسے رات اپنی آنکھوں میں سیاہی کے سرمے کی سلائی کھیچتی جاتی، اس کی پریشانی، اضطراب، اور بڑھتا جاتا. آخر اس سے رہا نہ گیا. اس نے اپنے دوست سے پریشانی کا اظھار کیا اور مدد طلب کی. دوست بھی سچا دوست تھا . وہ بلا تردد فوراً راضی ہو گیا. اب دونوں کے قدم عید گاہ کی جانب اٹھ رہے تھے جہاں تاجروں کے قافلے نے پڑاؤ ڈال رکھا تھا.
No comments:
Post a Comment