رات کے ۱۲ بجے تھے۔ وہ بستر پہ لیٹی کروٹیں بدل رہی تھیں۔ انھیں کسی پل قرار نہ تھا۔ پھر وہ اٹھیں اور میز کے سامنے کرسی پر بیٹھ گئیں۔ انھوں نے کاغذ قلم تھاما اور ہولے ہولے اپنے دِلی جذبات صفحۂ قرطاس پر بکھیرنے لگیں : ’’پیارے ! تم نے (میرے لیے) جوکچھ کیا، اس کا شکریہ۔ ممکن ہے کہ کبھی آپ کی غیر معمولی حِسّوں نے میرے رویّے میں اشتعال انگیزی یا بے رحمی پائی ہو۔ آپ یقین رکھیں کہ میرے دل میں صرف شدید محبت اور انتہائی درد ہی موجود ہے… پیارے ایسا درد جو مجھے تکلیف نہیں دیتا۔ دراصل جب کوئی حقیقت زندگی کے قریب ہو (اور جو بہرحال موت ہے) جیسے کہ میں پہنچ چکی، تو تب انسان (اپنی زندگی) کے خوش کن اور مہربان لمحے ہی یاد رکھتا ہے، بقیہ لمحات موہومیت کی چھپی، اَن چھپی دھند میں چھپ جاتے ہیں۔ کوشش کرکے مجھے ایسے پھول کی حیثیت سے یاد رکھنا جو تم نے شاخ سے توڑا، ویسا نہیں جو جوتے تلے کچل دیا جائے۔’’پیارے! (شاید) میں نے زیادہ تکالیف اس لیے اٹھائیں کہ میں نے پیار بھی ٹوٹ کر کیا۔ میرے غم و اندوہ کی پیمایش (اسی لیے) میرے پیار کی شدت کے حساب سے ہونی چاہیے۔ ’’پیارے! میں تم سے محبت کرتی ہوں… مجھے تم سے پیار ہے… اور اگر میں تم سے تھوڑا سا بھی کم پیار کرتی، تو شاید تمھارے ساتھ ہی رہتی… جب کوئی خوبصورت شگوفہ تخلیق کرلے، تو وہ اسے کبھی دلدل میں نہیں پھینکتا۔ انسان اپنے آئیڈیل کا معیار جتنا بلند کرے، وہ اتنا ہی زوال پذیر ہوجاتا ہے۔ ’’میرے پیارے! میں نے اتنی شدت سے تم سے محبت کی ہے کہ کم ہی مردوں کو ایسا پیار ملا ہوگا۔ میری تم سے صرف یہی التجا ہے کہ (ہماری) محبت میں جس اَلم نے جنم لیا، وہ اسی کے ساتھ اختتام پذیر ہوجائے۔
’’پیارے شب بخیر اور خدا حافظ۔ رتی ’’میں نے پیرس میں تمھیں خط لکھا تھا۔ خیال تھا کہ یہاں سے سپردِڈاک کروں گی لیکن یہاں پہنچ کر خیال آیا کہ میں تمھیں ایسا تازہ خط لکھوں کہ اپنا دل کھول کر رکھ دوں۔‘‘
٭٭
یہ وہ انتہائی جذباتی، محبت آمیز اور یادگار خط ہے جو قائداعظم کی دوسری زوجہ، مریم (رتی) جناح نے ۵ اکتوبر ۱۹۲۸ء کو مارسیلیز، فرانس سے لکھا۔ رتی جناح وہاں سرطان کا علاج کرانے گئی تھیں۔ اپنے محبوب (شوہر) کے نام یہ ان کا آخری خط ثابت ہوا۔ وہ صرف ۴ ماہ بعد اللہ کو پیاری ہو گئیں۔ بھارتی اور مغربی مؤرخین اکثر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ قائداعظم نے رتی جناح کے ساتھ ناروا سلوک روا رکھا۔ وہ ان سے بے توجہی برتتے اور اپنی انا کے خول میں بند رہتے لیکن رتی جناح کا آخری خط سبھی غیرمسلم مؤرخین کے دلائل رد کرنے کو کافی ہے۔ اگرچہ قائد اور رتی کی داستان نشیب و فراز سے ضرور پُر ہے۔
٭٭
۱۹۱۶ء تک محمدعلی جناح بمبئی میں بحیثیت مستند وکیل اور سیاست داں مشہور ہو چکے تھے۔ ان کے واقف کاروں میں اب معزز شخصیات شامل تھیں۔ چنانچہ اسی سال وہ پارسی صنعت کار، سرڈنشاپیٹٹ کے اہل خانہ کے ساتھ دارجلنگ بغرض تفریح گئے۔ یہ سرڈنشا پیٹٹ کے والد ہی ہیں جنھوں نے ہندوستان میں کاٹن کے اولین کارخانے لگائے۔ چنانچہ پیٹٹ خاندان بڑا امیرکبیر تھا۔
اس قافلے میں سرڈنشا کی ۱۶ سالہ دختر، رتی پیٹٹ بھی شامل تھیں۔ وہ بڑے نفیس ذوق کی مالک تھیں اور ادب، تاریخ، روحانیت وغیرہ ان کے مرغوب موضوع تھے۔ دوسری طرف ۳۹ سالہ قائداعظم کی شخصیت بھی بڑی پُراثر تھی۔ مردانہ وجاہت اُن میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ نیز وہ کسی بھی موضوع پر نہایت پُرمغز اور دلفریب گفتگو کرسکتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ رتی پیٹٹ قائد سے بہت متاثر ہوئیں اور ان سے محبت کرنے لگیں۔ یہ پیار یک طرفہ نہیں تھا، قائد بھی رفتہ رفتہ رتی کو دل سے چاہنے لگے۔وقت کے ساتھ ساتھ یہ محبت اتنی پائیدار اور مستحکم ہوگئی کہ جب ۲ سال بعد رتی بالغ ہوئیں، تو انھوں نے اپنے گھر کو خیرباد کہا، اسلام قبول کیا اور قائد سے شادی کرلی۔ یہ ۱۸ اپریل ۱۹۱۸ء کو انجام پائی۔ یوں مالابار ہلز میں واقع قائد کا وسیع و عریض گھر اداسی و ویرانی سے نجات پا کر خوشیوں اور قہقہوں سے گونجنے لگا۔ نوبیاہتا جوڑے کے اولین ۴ برس خوشی و مسرت سے بھرپور تھے۔ انھوں نے ایک ساتھ ہندوستان بھر کے علاوہ یورپ و امریکا کے دورے کیے۔ پارلیمنٹ میں جب بھی قائد خطاب کرتے، تو رتی جناح انھیں سننے ضرور جاتی۔اس زمانے میں قائد اور رتی کا جوڑا بہت مقبول تھا۔ دونوں خوبصورت اور پُرکشش تھے۔ پھر قیمتی کپڑے زیبِ تن کرتے، تو راہ چلتے لوگ انھیں دیکھنے کے لیے رک جاتے۔ رض تب ان کی مسرت بے حساب تھی اور وہ سکون سے زندگی گزار رہے تھے۔ بمبئی کے خاص و عام اُن کی ازدواجی زندگی پر رشک کرتے۔ قائداعظم اور رتی کی خوشگوار زندگی میں طوفان کیونکر آیا، اس ضمن میں کوئی واضح وجہ بیان کرنا ممکن نہیں۔ شاید اِس لیے کہ قائد اپنی نجی زندگی کے متعلق بہت کم گفتگو کرتے تھے۔ اسی لیے ان کی ازدواجی زندگی کے متعلق معلومات بھی متفرق افراد کی لکھی کتب میں دستیاب ہیں۔غالب امکان یہی ہے کہ قائداعظم کی بے پناہ مصروفیت رتی کو کھلنے لگی۔ شاید بدخواہ انھیں قائد کے خلاف بھڑکانے اور رتی جناح میں یہ مصنوعی احساس پیدا کرنے میں کامیاب رہے کہ وہ ان کی طرف توجہ نہیں دیتے۔ اس کے بعد جب اَناؤں کا ٹکرائو شروع ہوا، تو وہ بڑھا اور تمام حدیں پار کرگیا۔ قائداعظم بہرحال رتی سے بہت محبت کرتے تھے۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ وہ خرچ کے معاملے میں بڑے جزرس تھے۔ اُدھر رتی خاصی فضول خرچ واقع ہوئی تھیں۔ ایک بار دونوں کشمیر سیر کرنے گئے۔ وہاں صرف اپنے شکارے کی تزئین و آرائش پر رتی نے ۵۰ ہزار روپے خرچ کر ڈالے جو اس زمانے میں خاصی بڑی رقم تھی۔ تاہم شوہر نے ماتھے پر شکن ڈالے بغیر رقم ادا کردی۔ رتی نے کئی مواقع پر ایسی شاہ خرچیوں کا مظاہرہ کیا لیکن قائد خندہ پیشانی سے تمام بل ادا کر دیتے۔اسی دوران ان کی بیٹی، دِینا پیدا ہوئی۔ قائد اورئینٹ کلب میں شطرنج اور بلیئرڈ کھیلا کرتے تھے۔ انھوں نے کلب چھوڑا اور تفریح کا اپنا وقت دفتر میں دینے لگے۔ قائد عدالتوں سے گھر آتے تو بیوی بچی پر بھرپور توجہ دیتے۔ افسوس کہ یہ خوشگوار خاندانی زندگی چند برس ہی قائم رہی۔ قائد نے جب سیاسی سرگرمیوں کو زیادہ وقت دیا، تو رتی ناراض رہنے لگیں۔ ۱۹۲۲ء میں وہ دینا کو لے کر لندن چلی گئیں۔ تاہم وہاں بھی شوہر کی یاد انھیں رہ رہ کر ستاتی۔ دوارکاداس کانجی، قائد اور رتی کے دوستوں میں سے تھے۔ رتی جب بھی انھیں خط لکھتیں، تو یہ ضرور تاکید کرتیں کہ جناح صاحب کا خیال رکھیے گا۔ ایک خط میں لکھا : جناح سے جب بھی مل کر آئیے تو بذریعہ خط مجھے اطلاع دیجیے کہ وہ کیسے ہیں۔وہ سخت محنت کے عادی ہیں۔ میں اُدھر ہوتی تو انھیں تنگ کرتی اور (کام سے) روکتی تھی۔ میری عدم موجودگی میں تو وہ کام کرکرکے بے حال ہو جائیں گے -رتی جب واپس آئیں، تو قائد نے انھیں یورپ اور شمالی امریکا کا دورہ کرایا۔ جوڑے نے وہاں خوب سیروتفریح کی اور عمدہ وقت گزارا۔ لیکن واپسی پر قائد پھر مصروف ہوئے، تو رتی جناح دوبارہ ناراض ہوگئیں۔ بدقسمتی سے اسی دوران انھیں سرطان چمٹ گیا۔ علاج ہوا مگر وہ جانبر نہ ہوسکیں اور ۱۸ فروری ۱۹۲۹ء کو چل بسیں۔ء۲۲ فروری کو انھیں اسلامی رسوم کے مطابق بمبئی کے قبرستان میں دفنایا گیا۔ جنازے کے وقت قائداعظم انتہائی سنجیدہ رہے۔ وہ بہت مضبوط اعصاب کے مالک تھے اور بہت کم اپنے دلی جذبات ظاہر کرتے لیکن جب ان سے قبر پر مٹی ڈالنے کو کہا گیا، تو اندر کا لاوا اُبل پڑا اور قائد رو پڑے۔ اس وقت سبھی لوگوں نے پہلی بار قائد کو آنسو بہاتے دیکھا۔ کم ہی لوگوں کو علم ہے کہ قائد نے دوسری مرتبہ بھی رتی کی آخری آرام گاہ کے سامنے ہی نِیر بہائے۔ یہ اگست ۱۹۴۷ء کی بات ہے جب قائد نے آخری بار مرحومہ بیوی کی قبر کا دیدار کیا۔ تب بھی اُن کی آنکھوں کو اشکبار دیکھا گیا۔ قائداعظم پاکستان جانے کے بعد کبھی واپس بمبئی نہیں گئے، تاہم وہ اپنے دل کا ایک ٹکڑا ضرور وہاں کی چھوٹی سی قبر میں چھوڑ آئے تھے۔رتی جناح کے خطوط کیا عیاں کرتے ہیں؟ اس میں شک نہیں کہ رتی اپنے شوہر سے ناراض تھیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ آخری سانسوں تک وہ قائد سے محبت کرتی رہیں۔ اس سچائی کا سب سے بڑا ثبوت خود رتی کے خطوط ہی ہیں۔ قابلِ ذکر بات یہ کہ آخری خط سے انکشاف ہوتا ہے کہ رتی جناح وہ وجوہ سمجھ چکی تھیں جن کی بنا پر ان کا شوہر کے ساتھ رہنا مشکل ہوگیا تھا۔ اس کے باوجود رتی کو قائد سے کوئی شکایت نہیں تھی۔ خطوط سے عیاں ہونے والا تیسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ قائداعظم بتدریج اپنے نصب العین سے اس حد تک وابستہ ہوئے کہ انھوں نے اپنی تمام ذاتی خواہشات قربان کر دیں حتیٰ کہ ان کا گھر بکھر گیا مگر قائد نے مسلمانوں کو سیدھا راستہ دکھانے سے منہ نہیں موڑا۔ دراصل اعلیٰ مقاصد بڑی قربانیاں مانگتے ہیں، چنانچہ قائد نے بھی بہت کچھ قربان کیا مگر اُنھیں یہ عظیم کامیابی ضرور ملی کہ وہ مسلمانانِ ہند کو ایک آزاد وطن عطا کر گئے۔ پاکستانیوں کو آزادی جیسی عظیم نعمت قائد کی قربانی سے ہی حاصل ہوئی۔
رات کے ۱۲ بجے تھے۔ وہ بستر پہ لیٹی کروٹیں بدل رہی تھیں۔ انھیں کسی پل قرار نہ تھا۔ پھر وہ اٹھیں اور میز کے سامنے کرسی پر بیٹھ گئیں۔ انھوں نے کاغذ قلم تھاما اور ہولے ہولے اپنے دِلی جذبات صفحۂ قرطاس پر بکھیرنے لگیں : ’’پیارے ! تم نے (میرے لیے) جوکچھ کیا، اس کا شکریہ۔ ممکن ہے کہ کبھی آپ کی غیر معمولی حِسّوں نے میرے رویّے میں اشتعال انگیزی یا بے رحمی پائی ہو۔ آپ یقین رکھیں کہ میرے دل میں صرف شدید محبت اور انتہائی درد ہی موجود ہے… پیارے ایسا درد جو مجھے تکلیف نہیں دیتا۔ دراصل جب کوئی حقیقت زندگی کے قریب ہو (اور جو بہرحال موت ہے) جیسے کہ میں پہنچ چکی، تو تب انسان (اپنی زندگی) کے خوش کن اور مہربان لمحے ہی یاد رکھتا ہے، بقیہ لمحات موہومیت کی چھپی، اَن چھپی دھند میں چھپ جاتے ہیں۔ کوشش کرکے مجھے ایسے پھول کی حیثیت سے یاد رکھنا جو تم نے شاخ سے توڑا، ویسا نہیں جو جوتے تلے کچل دیا جائے۔’’پیارے! (شاید) میں نے زیادہ تکالیف اس لیے اٹھائیں کہ میں نے پیار بھی ٹوٹ کر کیا۔ میرے غم و اندوہ کی پیمایش (اسی لیے) میرے پیار کی شدت کے حساب سے ہونی چاہیے۔ ’’پیارے! میں تم سے محبت کرتی ہوں… مجھے تم سے پیار ہے… اور اگر میں تم سے تھوڑا سا بھی کم پیار کرتی، تو شاید تمھارے ساتھ ہی رہتی… جب کوئی خوبصورت شگوفہ تخلیق کرلے، تو وہ اسے کبھی دلدل میں نہیں پھینکتا۔ انسان اپنے آئیڈیل کا معیار جتنا بلند کرے، وہ اتنا ہی زوال پذیر ہوجاتا ہے۔ ’’میرے پیارے! میں نے اتنی شدت سے تم سے محبت کی ہے کہ کم ہی مردوں کو ایسا پیار ملا ہوگا۔ میری تم سے صرف یہی التجا ہے کہ (ہماری) محبت میں جس اَلم نے جنم لیا، وہ اسی کے ساتھ اختتام پذیر ہوجائے۔
’’پیارے شب بخیر اور خدا حافظ۔ رتی ’’میں نے پیرس میں تمھیں خط لکھا تھا۔ خیال تھا کہ یہاں سے سپردِڈاک کروں گی لیکن یہاں پہنچ کر خیال آیا کہ میں تمھیں ایسا تازہ خط لکھوں کہ اپنا دل کھول کر رکھ دوں۔‘‘
٭٭
یہ وہ انتہائی جذباتی، محبت آمیز اور یادگار خط ہے جو قائداعظم کی دوسری زوجہ، مریم (رتی) جناح نے ۵ اکتوبر ۱۹۲۸ء کو مارسیلیز، فرانس سے لکھا۔ رتی جناح وہاں سرطان کا علاج کرانے گئی تھیں۔ اپنے محبوب (شوہر) کے نام یہ ان کا آخری خط ثابت ہوا۔ وہ صرف ۴ ماہ بعد اللہ کو پیاری ہو گئیں۔ بھارتی اور مغربی مؤرخین اکثر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ قائداعظم نے رتی جناح کے ساتھ ناروا سلوک روا رکھا۔ وہ ان سے بے توجہی برتتے اور اپنی انا کے خول میں بند رہتے لیکن رتی جناح کا آخری خط سبھی غیرمسلم مؤرخین کے دلائل رد کرنے کو کافی ہے۔ اگرچہ قائد اور رتی کی داستان نشیب و فراز سے ضرور پُر ہے۔
٭٭
۱۹۱۶ء تک محمدعلی جناح بمبئی میں بحیثیت مستند وکیل اور سیاست داں مشہور ہو چکے تھے۔ ان کے واقف کاروں میں اب معزز شخصیات شامل تھیں۔ چنانچہ اسی سال وہ پارسی صنعت کار، سرڈنشاپیٹٹ کے اہل خانہ کے ساتھ دارجلنگ بغرض تفریح گئے۔ یہ سرڈنشا پیٹٹ کے والد ہی ہیں جنھوں نے ہندوستان میں کاٹن کے اولین کارخانے لگائے۔ چنانچہ پیٹٹ خاندان بڑا امیرکبیر تھا۔
اس قافلے میں سرڈنشا کی ۱۶ سالہ دختر، رتی پیٹٹ بھی شامل تھیں۔ وہ بڑے نفیس ذوق کی مالک تھیں اور ادب، تاریخ، روحانیت وغیرہ ان کے مرغوب موضوع تھے۔ دوسری طرف ۳۹ سالہ قائداعظم کی شخصیت بھی بڑی پُراثر تھی۔ مردانہ وجاہت اُن میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ نیز وہ کسی بھی موضوع پر نہایت پُرمغز اور دلفریب گفتگو کرسکتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ رتی پیٹٹ قائد سے بہت متاثر ہوئیں اور ان سے محبت کرنے لگیں۔ یہ پیار یک طرفہ نہیں تھا، قائد بھی رفتہ رفتہ رتی کو دل سے چاہنے لگے۔وقت کے ساتھ ساتھ یہ محبت اتنی پائیدار اور مستحکم ہوگئی کہ جب ۲ سال بعد رتی بالغ ہوئیں، تو انھوں نے اپنے گھر کو خیرباد کہا، اسلام قبول کیا اور قائد سے شادی کرلی۔ یہ ۱۸ اپریل ۱۹۱۸ء کو انجام پائی۔ یوں مالابار ہلز میں واقع قائد کا وسیع و عریض گھر اداسی و ویرانی سے نجات پا کر خوشیوں اور قہقہوں سے گونجنے لگا۔ نوبیاہتا جوڑے کے اولین ۴ برس خوشی و مسرت سے بھرپور تھے۔ انھوں نے ایک ساتھ ہندوستان بھر کے علاوہ یورپ و امریکا کے دورے کیے۔ پارلیمنٹ میں جب بھی قائد خطاب کرتے، تو رتی جناح انھیں سننے ضرور جاتی۔اس زمانے میں قائد اور رتی کا جوڑا بہت مقبول تھا۔ دونوں خوبصورت اور پُرکشش تھے۔ پھر قیمتی کپڑے زیبِ تن کرتے، تو راہ چلتے لوگ انھیں دیکھنے کے لیے رک جاتے۔ رض تب ان کی مسرت بے حساب تھی اور وہ سکون سے زندگی گزار رہے تھے۔ بمبئی کے خاص و عام اُن کی ازدواجی زندگی پر رشک کرتے۔ قائداعظم اور رتی کی خوشگوار زندگی میں طوفان کیونکر آیا، اس ضمن میں کوئی واضح وجہ بیان کرنا ممکن نہیں۔ شاید اِس لیے کہ قائد اپنی نجی زندگی کے متعلق بہت کم گفتگو کرتے تھے۔ اسی لیے ان کی ازدواجی زندگی کے متعلق معلومات بھی متفرق افراد کی لکھی کتب میں دستیاب ہیں۔غالب امکان یہی ہے کہ قائداعظم کی بے پناہ مصروفیت رتی کو کھلنے لگی۔ شاید بدخواہ انھیں قائد کے خلاف بھڑکانے اور رتی جناح میں یہ مصنوعی احساس پیدا کرنے میں کامیاب رہے کہ وہ ان کی طرف توجہ نہیں دیتے۔ اس کے بعد جب اَناؤں کا ٹکرائو شروع ہوا، تو وہ بڑھا اور تمام حدیں پار کرگیا۔ قائداعظم بہرحال رتی سے بہت محبت کرتے تھے۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ وہ خرچ کے معاملے میں بڑے جزرس تھے۔ اُدھر رتی خاصی فضول خرچ واقع ہوئی تھیں۔ ایک بار دونوں کشمیر سیر کرنے گئے۔ وہاں صرف اپنے شکارے کی تزئین و آرائش پر رتی نے ۵۰ ہزار روپے خرچ کر ڈالے جو اس زمانے میں خاصی بڑی رقم تھی۔ تاہم شوہر نے ماتھے پر شکن ڈالے بغیر رقم ادا کردی۔ رتی نے کئی مواقع پر ایسی شاہ خرچیوں کا مظاہرہ کیا لیکن قائد خندہ پیشانی سے تمام بل ادا کر دیتے۔اسی دوران ان کی بیٹی، دِینا پیدا ہوئی۔ قائد اورئینٹ کلب میں شطرنج اور بلیئرڈ کھیلا کرتے تھے۔ انھوں نے کلب چھوڑا اور تفریح کا اپنا وقت دفتر میں دینے لگے۔ قائد عدالتوں سے گھر آتے تو بیوی بچی پر بھرپور توجہ دیتے۔ افسوس کہ یہ خوشگوار خاندانی زندگی چند برس ہی قائم رہی۔ قائد نے جب سیاسی سرگرمیوں کو زیادہ وقت دیا، تو رتی ناراض رہنے لگیں۔ ۱۹۲۲ء میں وہ دینا کو لے کر لندن چلی گئیں۔ تاہم وہاں بھی شوہر کی یاد انھیں رہ رہ کر ستاتی۔ دوارکاداس کانجی، قائد اور رتی کے دوستوں میں سے تھے۔ رتی جب بھی انھیں خط لکھتیں، تو یہ ضرور تاکید کرتیں کہ جناح صاحب کا خیال رکھیے گا۔ ایک خط میں لکھا : جناح سے جب بھی مل کر آئیے تو بذریعہ خط مجھے اطلاع دیجیے کہ وہ کیسے ہیں۔وہ سخت محنت کے عادی ہیں۔ میں اُدھر ہوتی تو انھیں تنگ کرتی اور (کام سے) روکتی تھی۔ میری عدم موجودگی میں تو وہ کام کرکرکے بے حال ہو جائیں گے -رتی جب واپس آئیں، تو قائد نے انھیں یورپ اور شمالی امریکا کا دورہ کرایا۔ جوڑے نے وہاں خوب سیروتفریح کی اور عمدہ وقت گزارا۔ لیکن واپسی پر قائد پھر مصروف ہوئے، تو رتی جناح دوبارہ ناراض ہوگئیں۔ بدقسمتی سے اسی دوران انھیں سرطان چمٹ گیا۔ علاج ہوا مگر وہ جانبر نہ ہوسکیں اور ۱۸ فروری ۱۹۲۹ء کو چل بسیں۔ء۲۲ فروری کو انھیں اسلامی رسوم کے مطابق بمبئی کے قبرستان میں دفنایا گیا۔ جنازے کے وقت قائداعظم انتہائی سنجیدہ رہے۔ وہ بہت مضبوط اعصاب کے مالک تھے اور بہت کم اپنے دلی جذبات ظاہر کرتے لیکن جب ان سے قبر پر مٹی ڈالنے کو کہا گیا، تو اندر کا لاوا اُبل پڑا اور قائد رو پڑے۔ اس وقت سبھی لوگوں نے پہلی بار قائد کو آنسو بہاتے دیکھا۔ کم ہی لوگوں کو علم ہے کہ قائد نے دوسری مرتبہ بھی رتی کی آخری آرام گاہ کے سامنے ہی نِیر بہائے۔ یہ اگست ۱۹۴۷ء کی بات ہے جب قائد نے آخری بار مرحومہ بیوی کی قبر کا دیدار کیا۔ تب بھی اُن کی آنکھوں کو اشکبار دیکھا گیا۔ قائداعظم پاکستان جانے کے بعد کبھی واپس بمبئی نہیں گئے، تاہم وہ اپنے دل کا ایک ٹکڑا ضرور وہاں کی چھوٹی سی قبر میں چھوڑ آئے تھے۔رتی جناح کے خطوط کیا عیاں کرتے ہیں؟ اس میں شک نہیں کہ رتی اپنے شوہر سے ناراض تھیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ آخری سانسوں تک وہ قائد سے محبت کرتی رہیں۔ اس سچائی کا سب سے بڑا ثبوت خود رتی کے خطوط ہی ہیں۔ قابلِ ذکر بات یہ کہ آخری خط سے انکشاف ہوتا ہے کہ رتی جناح وہ وجوہ سمجھ چکی تھیں جن کی بنا پر ان کا شوہر کے ساتھ رہنا مشکل ہوگیا تھا۔ اس کے باوجود رتی کو قائد سے کوئی شکایت نہیں تھی۔ خطوط سے عیاں ہونے والا تیسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ قائداعظم بتدریج اپنے نصب العین سے اس حد تک وابستہ ہوئے کہ انھوں نے اپنی تمام ذاتی خواہشات قربان کر دیں حتیٰ کہ ان کا گھر بکھر گیا مگر قائد نے مسلمانوں کو سیدھا راستہ دکھانے سے منہ نہیں موڑا۔ دراصل اعلیٰ مقاصد بڑی قربانیاں مانگتے ہیں، چنانچہ قائد نے بھی بہت کچھ قربان کیا مگر اُنھیں یہ عظیم کامیابی ضرور ملی کہ وہ مسلمانانِ ہند کو ایک آزاد وطن عطا کر گئے۔ پاکستانیوں کو آزادی جیسی عظیم نعمت قائد کی قربانی سے ہی حاصل ہوئی۔
No comments:
Post a Comment