بھارتی فوج میں اخلاقی اقدار کا انحطاط … (۱)
| ـ 3 اکتوبر ، 2009
سکندر خان بلوچ ۔۔۔
جنگی تاریخ کی یہ ایک حقیقت ہے کہ شکست و فتح کا فیصلہ ہمیشہ میدان جنگ میں نہیں بلکہ اکثر اوقات جنگ لڑنے والی فوجوں کے ذہنوں میں جنگ شروع ہونے سے بھی پہلے ہو جاتا ہے۔جو فوج اعلیٰ اخلاقی اقدار سے لیس ہو کر میدان جنگ میں داخل ہوتی ہے اپنے آپ کو حق بجانب سمجھتی ہے وہ نہ صرف اپنی بہت سی جنگی خامیوں پر قابو پا لیتی ہے
بلکہ اکثر و بیشتر اپنے سے بڑی فوجوں کو شکست دیکر فتح سے ہمکنار ہوتی ہے۔اعلیٰ اخلاقی اقدار جنگی سپاہیوں کے دل و دماغ کو ’’جذبہ حق‘‘ کی روشنی سے منوّر کرتی ہیں اور یہ روشنی اعلیٰ ’’مورال‘‘ کی بنیاد بنتی ہے۔
فوجی اصطلاح میں ’’مورال‘‘فتح کیلئے سب سے بڑا ہتھیار ہے۔اسی لئے موجودہ دور کی جنگوں میں سب سے پہلا حملہ مخالف فوجوں کے ’’ مورال‘‘ پر کیا جاتا ہے۔با الفاظ دیگر انکی اخلاقی اقدار کو مجروح کر کے دشمن کے سپاہیوں سے’’ فتح کا جذبہ‘‘چھین لیا جاتا ہے اور بغیر اس جذبے کے فوج میدان جنگ میں تو جا سکتی ہے لیکن کامیابی مشکل ہو جاتی ہے۔
یاد رہے کہ زندگی میں بھی اور جنگ میں بھی سپاہی کا ذاتی کردار بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ 1971ء کی جنگ میں بھارت نے جنگ سے پہلے پاکستانی فوج کی ’’اخلاقی اقدارــ ‘‘ پر حملہ کیا تھا وہ یوں کہ 12/13نومبر 1970ء کو مشرقی پاکستان میں ایک بہت بڑا سمندری طوفان آیاجسے سول انتظامیہ نے اپنے طور پر سنبھالنے کی کوشش کی۔جب فوج کو مدد کیلئے بلایا گیا تو مال و املاک کے علاوہ بہت زیادہ انسانی تباہی ہو چکی تھی۔بھارت نے اس سے پورا پورا فائدہ اُٹھایا۔انسانی لاشوں کی فلمیں بنائیں۔ پاکستان مخالف بنگالیوں کے انٹرویو ریکارڈ کیے اور انسانی تباہی کی یہ فلمیں اور نشریات پوری دنیا میں پھیلا دیںاور یہ سب تباہی پاکستان آرمی کے ذمہ لگا دی۔اس تباہی کیساتھ ساتھ خواتین کے ریپ اور بے حرمتی کی بھی منظم مہم چلائی جو دراصل مکتی باہنی اور عوامی لیگ کے غنڈوں کی ملی بھگت کا نتیجہ تھی۔اس مہم کو اس حد تک بڑھایا گیا کہ جنگ کے بعد پاکستان فوج کو تین لاکھ عورتوں کی آبرو ریزی اور تیس لاکھ بے گناہ انسانوں کے قتل کا ذمہ دار ٹھہرایا گیاجبکہ بعد میں نہ تو اقوام متحدہ کی انکوائری ہوئی اور نہ ہی کوئی ایسا بڑا جرم ثابت ہوا ۔ان واقعات کی تفصیل پھر کسی وقت۔
اصل جنگ تو نومبر 1971ء میں شروع ہوئی لیکن بھارتی پروپیگنڈہ نے نومبر 1970ء میں ہی ہماری فوج پر ایسے بیہودہ الزامات لگا کر فوج کو نہ صرف اپنی ہی قوم کے سامنے بلکہ پوری دنیا میں بدنام کر دیابلکہ مجرم بنا دیا۔بعد میں کچھ بھارتی جرنیلوں نے کھلم کھلا لکھا کہ ہم نے جنگ سے پہلے ہی پاکستان فوج کی اخلاقی اقدار پر حملہ کر کے انہیں تباہ کر دیا تھا۔
معزز قارئین! اخلاقی اقدار کسی بھی شخص، کسی بھی قوم یا کسی بھی فوج کا سب سے بڑا سرمایہ ہوتی ہیں اور یہ سرمایہ فوج اور قوم کی اصل طاقت ہوتا ہے۔ اخلاقی اقدار کا انحطاط کئی انداز میں ظاہر ہوتا ہے اور دیمک کی طرح خاموشی سے قوموں کو یا اداروں کو اندر ہی اندر سے کھوکھلا کر دیتا ہے۔اس وقت کچھ ایسی ہی حالت بھارتی فوج کی ہے۔
بھارتی فوج اس وقت دنیا کی چوتھی بڑی اور جدید فوج گنی جاتی ہے۔عددی لحاظ سے بھی اور فائر پاور کے لحاظ سے بھی۔بھارتی عوام اپنی فوج اور اپنی کرکٹ ٹیم پر ناز کرتے ہیں جس کیلئے وہ حق بجانب ہیں۔لیکن یہ فوج کافی عرصہ سے آہستہ آہستہ اپنی اخلاقی اقدار کھو رہی ہے خصوصاََ 1971ء کی جنگ کے بعد سے اور شاید یہ اخلاقی اقدار کا انحطاط اعلیٰ قیادت تک سرایت کر گیا ہے۔
مثلاََ حال میں مختلف رپورٹس سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ 1998ء میں بھارتی سائنسدانوں نے پوکھران کے مقام پر جو ایٹمی دھماکے کئے تھے وہ مکمل طور پر کامیاب نہ تھے۔اسی طرح اگنی اور براہموس میزائلوں کے تجربے بھی ناکام تھے جنہیں فقط قوم کا مورال بلند رکھنے کیلئے پریس اعلانات میں کامیاب قرار دیا گیا۔یعنی یہ قوم کیساتھ کھلا جھوٹ تھا جو یقینا اخلاقی دیوالیہ پن کا بہت بڑا ثبوت ہے۔عین ممکن ہے کہ یہ کوئی سیاسی کھیل ہو لیکن جو اطلاعات اور میڈیا رپورٹس بھارتی فوج کے بارے میں ہیں ان میں کسی قسم کا شک نہیں۔
اخلاقی انحطاط کا سب سے بڑا مظہر ’’کرپشن‘‘ ہے جو بھارتی فوج میںایک معمول بن چکی ہے جس میں سویلین بزنس مین،سیاستدان اور جرنیل سب ایک ہیں اور سب مل کر کھاتے ہیں‘اسی لئے ایک بھارتی لکھاری نے اس کرپشن پر بحث کرتے ہوئے لکھا کہ ہمارے جرنیلوں کے ہاتھ ہمارے سولجرز کے خون سے رنگے ہیں۔
ویسے تو بھارتی فوج کی کرپشن کے قصے 1950ء سے ہی شروع ہو گئے تھے جس کا خمیازہ بھارت کو 1962ء میں ہند چینی جنگ میں بھگتنا پڑا لیکن وقت کیساتھ ساتھ یہ ناسور ختم ہونے کی بجائے بڑھتا رہا۔اس کرپشن کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ آہستہ آہستہ سیاستدان بھی اس میں ملوث ہو گئے اور پہلا ایسا واقعہ 1986ء میں منظر عام پر آیا جب بھارت نے سویڈن سے ’’بوفورز‘‘ نامی توپیں خریدیں۔
کچھ اطلاعات کیمطابق اس وقت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی نے جو اس سے پہلے ’’مسٹر کلین‘‘ سمجھے جاتے تھے 64کروڑ ڈالر کمیشن وصول کیا۔اب ظاہر ہے جب وزیر اعظم اتنا کمیشن لے گا تو اس ڈیل کے باقی متعلقہ لوگ کیسے پیچھے رہیں گے؟ یہ توپیں پہلی دفعہ پاکستان کیخلاف 1999ء میں کارگل میں استعمال کی گئیں۔پاکستانی پوزیشنز پر ان توپوں سے ایک ایک انچ زمین پر گولے برسائے گئے لیکن پھر بھی بھارتی فوج پاکستانی کمانڈوز کو مورچوں سے نکالنے میں ناکام رہی بالآخر اسرائیل سے مدد حاصل کرنی پڑی۔
یاد رہے کہ جہاں ڈیل میں کمیشن اور کِک بیکس ہوتی ہیں وہاں ’’مطلوبہ معیار‘‘ کبھی نہیں ملتا۔ راجیو گاندھی کی روایت کو زندہ رکھتے ہوئے اسی سال فروری میں بھارت نے اسرائیل سے 10ارب روپے کے میزائل اور دیگر جدید فوجی سامان کا سودا کیا۔میڈیا کیمطابق اس میں 10فیصد کمیشن حاصل کیا گیااور انگلیاں بھارت کی ٹاپ لیڈی سونیا گاندھی کی طرف اُٹھیں ۔اس ڈیل سے یقینااور بھی بہت سے لوگ مستفیض ہوئے۔ (جاری ہے)
بھارتی فوج میں اخلاقی اقدار کا انحطاط … (آخری قسط)
| ـ 4 اکتوبر ، 2009
سکندر خان بلوچ ۔۔۔
کارگل کے حوالے سے ایک اور بڑی کرپشن بھی سامنے آئی۔ وہ یہ کہ اس جنگ میں مرنے والے سپاہیوں اور افسروں کیلئے جب لوکل وسائل سے میّتوںکیلئے تابوت کم پڑ گئے تو 420 المونیم کے بنے تابوتوں کیلئے ایک امریکی فرم کو آرڈر دیا گیا اور قیمت 2500 ڈالر فی تابوت طے کی گئی جبکہ دو سال پہلے یہی تابوت بھارتی فوج نے اقوام متحدہ کے تحت اپنی فوج کے صومالیہ میں مرنے والے سپاہیوں کیلئے 172ڈالر فی تابوت خرید کئے تھے اور پھر سب سے شرمناک بات یہ ثابت ہوئی کہ اتنے مہنگے بنوائے گئے تابوت جب بھارت پہنچے تو وہ اتنے گھٹیا تھے کہ انہیں نا قابلِ استعمال قرار دے دیا گیا۔
بھارتی افواج میں کرپشن ایک مافیا کی صورت اختیار کر گئی ہے۔ اسکی ایک مثال چند سال پہلے اُس وقت سامنے آئی جب ’’بلند مقامات‘‘ پر رکھے گئے ٹروپس کیلئے ’’برفانی بوٹس‘‘ خرید کر بھیجے گئے جو لاکھوں کی تعداد میںتھے لیکن یہ بوٹس منفی 15 ڈگری کے برفانی موسم میں بھی بیکار ثابت ہوئے جبکہ بھارتی ٹروپس سیاچن، کشمیر، سکم اور نیفا کے بعض علاقوں میں منفی 40 سے 50 ڈگری ٹمپریچر میں رہ رہے ہیں جہاں موسم کی شدت کے علاوہ سخت برفانی طوفانوں کا بھی مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔ معاملہ اس وقت سامنے آیا جب پے در پے اموات ہوئیں۔ 320 جوان صرف سیاچن کے محاذ پر شدید موسم سے لقمۂ اجل بنے۔ بعد میںکمپٹرولر آڈیٹر جنرل آف انڈیا (CAG) نے آڈٹ کے دوران یہ فراڈ پکڑا۔ اس کارنامے میں بھارتی فوج کے (MGO) یعنی ماسٹر جنرل آف آرڈیننس جو لیفٹیننٹ جنرل رینک کا افسر ہوتا ہے، اسکی سٹاف ٹیم، کچھ ریٹائرڈ فوجی افسران جو ٹھیکیداری کرتے ہیں اور ’’برفانی بوٹس‘‘ بنانے والی فرم کے مالکان ملوث پائے گئے یعنی یہ سب کی ملی بھگت تھی۔ سپلائی کور کے ایک جنرل صاحب نے ڈیزل اور پٹرول کے بھرے ٹرکوں سے پٹرول نکلوا کر پانی بھرا دیا اور یہ ٹرک کشمیر اور سیاچن بھجوا دئیے۔
2001ء میں تہلکہ ٹی وی نے کرپشن کا ایک مشہور کیس پکڑا تھا جس میں لاکھوں ڈالرز کی رشوت کھائی گئی تھی جب انکوائری ہوئی تو اس میں وزیر دفاع جارج فرنینڈس کے علاوہ سی بی آئی کے انچارج جیا جیٹلے اور نیول چیف آف سٹاف ایڈمرل سوشیل کمار ملوث پائے گئے۔ اسی کیساتھ 6 ارب روپے کی کرپشن کا ایک اور کیس بھی سامنے آیا۔
اس کرپشن کیلئے بھارتی ایئر لائن کے باس رمیش نمبیار اور اسکے اسسٹنٹ جنرل منیجر کو پکڑا گیا جنرل منیجر صاحب سے 6 ارب روپے ملے اور اسسٹنٹ سے .2 2 ارب روپے۔ 2006ء میں ڈیرہ دون ڈویژن کے جی او سی نے اپنے کچھ آفیسرز کیساتھ مل کر تین ٹرک شراب چرائی اور کیس پکڑا گیا۔ 10 اکتوبر 2007ء کو ایک میگا کرپشن کیس میں 25 حاضر سروس آفیسرز کو زیر حراست لیا گیا جس میں MGO جنرل آنند کپور سمیت 2 لیفٹیننٹ جنرل اور 6 میجر جنرل ملوث پائے گئے۔ ان 25 افسران میں سے 17کا تعلق آرمی سے، ایک ایئر فورس سے اور 7 کا تعلق نیوی سے تھا۔بھارتی فوج میں کرپشن نے تمام برانچز کو متاثر کیا ہے۔
ستمبر 2007ء میں حاضر سروس لیفٹیننٹ جنرل ساہنی، ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل ایس کے داہیا کے علاوہ 4 میجر جنرلز، 2 بریگیڈئیرز اور 8 دوسرے آفیسرز کو زیرحراست لیکر ان پر مقدمات چلائے گئے۔ یہ سب فوج کیلئے گھٹیا راشن کی خرید میں ملوث پائے گئے تھے‘ انہوں نے ایک ہزار ٹن دال مسور خریدی جو سب کی سب بیکار پائی گئی۔ اسی راشن اور بقیہ ضروری اشیأ کی خرید میں لیفٹیننٹ جنرل نربھے شرما، میجر جنرل ایس پی سنہا اور لیفٹیننٹ جنرل ڈھلوں بھی ملوث پائے گئے جن کیخلاف کارروائی کی گئی۔ 21 سینئر افسران کے کیسز پارلیمنٹ میں بھی زیر بحث لائے گئے۔
ہتھیاروں، راشن اور بقیہ ضروریات زندگی کی خرید میں کرپشن کے علاوہ بھارتی فوج کا سب سے بڑا المیہ اس وقت دور دراز علاقوں میں خدمات سر انجام دینے والے ٹروپس میں پست مورال، بھگوڑا پن، خود کشیاں، اپنے آفیسرز پر حملہ آور ہونا اور جنسی سکینڈل ہیں اور یہ سب کچھ اخلاقی اقدار کے انحطاط کا نتیجہ ہے۔ اخلاقی اقدار کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ستمبر 2007ء میں بھارتی فوج کے مایہ ناز نمبر 3 انفنٹری ڈویژن کو میجر جنرل اے کے لال کمان کر رہا تھا۔ یہ ڈویژن لیہہ میں متعین تھا۔
جنرل لال ایک پروفیشنل اور قابل جرنیلوں میں شمار ہوتا تھا لیکن اچانک اسے کمان سے ہٹا لیا گیا۔ پتہ چلا کہ وہ اخلاقی طور پر دیوالیہ ہو چکا تھا۔ اپنے ہی ڈویژن کی ماتحت خواتین آفیسرز کو ریپ کرنے کی کوشش میں ملوث پایا گیا۔ انڈین نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن کیمطابق 1990ء سے لیکر 1999ء تک کشمیر میں مقیم بھارتی فوج کے 1034 انسانی حقوق سے تجاوز کیسز سامنے آئے جن میں ریپ، دہشت گردی، اغوا اور معصوم انسانوں کے قتل جیسے گھناؤنے اور غیر انسانی جرائم شامل ہیں۔ یہ تو صرف وہ کیسز ہیں جن کا کسی نہ کسی طرح پتہ چل گیا‘ ورنہ ’’آف رپورٹڈ‘‘ کیسز ان سے کئی گنا زیادہ ہیں بہرحال رپورٹڈ کیسز کی تعداد اوسطاً 109کیسز سالانہ ہے۔
اسکے علاوہ بھارتی فوج کے افسران فرضی جنگی لڑائیاں اور فرضی بہادری کے کیسز بتا کر انعامات اور تمغے حاصل کرنے میں بھی ماہر ہو گئے ہیں۔ ہر آفیسر اور ہر جوان چھاتی پر تمغے سجانے کی شدید خواہش میں اس طرح کے من گھڑت واقعات لکھ کر اپنے افسران کو پیش کرتے ہیں جو کہ سراسر جھوٹ اور فراڈ کے زمرے میں آتے ہیں۔ آفیسرز اور جوانوں کی ایسی گھٹیا حرکت کا اندازہ 3 اکتوبر 2005ء کو ٹائمز آف انڈیا کی ایڈیٹوریل رپورٹ سے لگایا جا سکتا ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ آفیسرز اور جوانوں میں شراب بیچنے جیسے سکینڈل اور جعلی مقابلوں سے بہادری کے میڈل حاصل کرنا ایک بہت بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔ سزاؤں اور کورٹ مارشلز کے باوجود ایسے کیسز روز بہ روز بڑھ رہے ہیں۔
اخبار مزید لکھتا ہے کہ بھارتی افواج میں 2000ء میں 1215، 2001ء میں 1034، 2002ء میں 1031، 2004ء میں 872 اور 2005ء میں 6000 جوانوں اور آفیسرز کے کورٹ مارشل یا ان کیخلاف تادیبی کارروائی کی گئی لیکن پھر بھی اس قسم کی غیر اخلاقی عادات میں کمی نہیں آئی۔
کسی بھی اچھی اور منظم فوج میں اس قدر ڈسپلن کے مسائل اور کورٹ مارشلز واقعی حیران کن ہیں۔ ان بڑھتے ہوئے ڈسپلن کے مسائل کا بھارتی فوج نے ایک تفصیلی تجزیہ کیا ہے اور رپورٹ کیمطابق اس مسئلے کی جڑ جوانوں کا اتنا عرصہ اپنی فیملیز سے دور رہنا ہے۔ جوانوں کو بہت زیادہ چھٹیاں دینا ممکن نہیں اور نہ ہی یونٹوں کو ہر دو یا تین ماہ بعد فرنٹ لائن سے پیچھے لایا جا سکتا ہے۔ انگریز دور میں تو ایسے ٹروپس کیلئے خواتین سنگرز اور ایکٹرز کی انٹرٹینمنٹ پارٹیاں فرنٹ لائن پر بھیجی جاتی تھیں۔ بھارتی جنرل ہیڈ کوارٹر نے یہ روایت تو برقرار رکھی ہے لیکن ڈسپلن کے مسائل پر پھر بھی قابو نہیں پایا جا سکا۔ اب اسکا حل بھارتی فوج نے یہ نکالا ہے کہ اس نے نوجوان لڑکیوں کو برائے نام فوجی تربیت دیکر یونیفارم پہنا دی ہے۔ غالباََ انہیں ’’سیکس بٹالین‘‘ کا نام دیا گیا ہے یا ایسا نام مشہور ہو گیا ہے۔ عام لوگ انہیں Prostitutes in Uniform کہتے ہیں۔ عام فوجیوں کی طرح یہ بٹالین بھی کشمیر، سیاچن کی فرنٹ لائن پر متعین کی جائیں گی۔ پہلی ایسی بٹالین شاید اگلے ماہ تک کشمیر کے محاذ پر ’’ڈپلائے‘‘ کر دی جائیگی۔
لطف کی بات یہ ہے کہ ابتدائی اطلاعات کے مطابق یہ یونٹیں چھاونیوں کی بجائے اگلے محاذ پر ہوں گی۔ یہ تو اب وقت ہی ثابت کریگا کہ آیا یہ بھارتی فوجی جوانوں کا مورال بلند کرنے کیلئے آئی ہیں یا پھر پاکستانی جوانوں پر پٹو ڈالنے کیلئے۔ بہرحال جنوبی ایشیا کیلئے یہ بڑا دلچسپ اور انوکھا تجربہ ہے یا پھر شاید پاکستانی فوجی جوانوں کیخلاف نئی چال ہے کیونکہ اکثر اوقات جو کام مرد نہیں کر سکتے عورتیں کر گزرتی ہیں‘ خواتین بہترین جاسوس ثابت ہوتی ہیں۔
جہاں تک بھارتی فوج کی موجودہ جنگی تیاری کی صورتحال ہے اُس کیلئے ایک حالیہ بھارتی اخباری رپورٹ حاضر خدمت ہے ’’بھارتی سپاہیوں کے زیر استعمال ہر تین میں سے ایک ہینڈ گرنیڈ نہیں پھٹتا جبکہ انکی رائفلوں کا دہشت گردوں کی رائفلوں سے مقابلہ ہی نہیں کیا جا سکتا۔ بھارتی فوج کے گرنیڈ پھٹنے میں دہشت گردوں کے گرنیڈ سے 1.5سیکنڈ زیادہ لیتے ہیں جبکہ جنگ اور دہشت گردی میں ہر سیکنڈ فیصلہ کن ہوتا ہے۔ جوانوں کی رائفلیں بھی گھٹیا اور غیر مؤثر ہیں۔ اسی وجہ سے ممبئی دہشت گردی کے واقعہ میں فوج اور پولیس کچھ نہیں کر سکی۔ ایسے ہتھیار دیکر تو سولجرز کو سراسر مروانے والی بات ہے۔‘‘
میری رائے میں بھارتی فوج کے موجودہ حالات کا تجزیہ ہماری افواج کے’’ٹاپ براسز‘‘ کیلئے بہت ضروری ہے۔ اس سے نہ صرف ہم بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں بلکہ اپنی اصلاح بھی کر سکتے ہیں جو کہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
No comments:
Post a Comment