بدنام زمانہ بھارتی ایجنسی “را” کو خفت کا سامنا
اشتیاق بیگ
=======================================
ضروری نوٹ ذیل میں دیا گیا تجزیہ ذاتی یا کسی پاکستان اخبار کا نہیں ایک عربی اخبار سے لیا گیا تجزیہ ہے
جو لوگ بھارتی داخل اندازی کے حوالے سے شک میں پڑے ہوے ہے وہ اسے پڑھ کر خود فیصلہ کر سکتے ہیں
===========================================================
سنہ 1962 ء میں چین - بھارت جنگ اور 1965 ء میں ہونے والی پاک بھارت جنگ میں
بیرونی انٹیلی جنس کی ناکامی کے بعد بھارت میں ایک مضبوط انٹیلی جنس
ایجنسی کی ضرورت کو شدت سے محسوس کیا گیا اور اس طرح ستمبر 1968 ء میں "را"
یعنی ( Wing Analysis & Research ) کا قیام عمل میں آیا اور اسے بیرونی اور اندرونی
انٹیلی جنس کی ذمہ داریاں سونپی گئی۔ “را” کے قیام سے قبل بھارت میں
انٹیلی جنس معلومات جمع کرنے کی ذمہ داریان انٹیلی جنس بیورو کے پاس
تھیں جو 1933 میں برطانوی راج کے وقت میں قائم کی گئی تھی۔ “را” کے نام سے
ایسا لگتا ہے کہ یہ کوئی معلومات اکٹھی کرنے والی ایجنسی ہو مگر اس کو
قائم کرنے کے بنیادی مقاصد میں اسے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کا کام
سونپا گیا ہے۔ اس مقصد کے لئے تقریباً 80 ہزار انتہا پسند ہندوؤں کو اس
ایجنسی میں بھرتی کیا گیا۔ گذشتہ دنوں بھارت کی اس خفیہ ایجنسی کو جس پر
بھارت کو بہت ناز تھا پاکستان میں انٹیلی جنس کی ناکامی پر دنیا بھر میں
شدید خفت کا سامنا کرنا پڑا جب اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمیشن میں “را”
کے ایجنٹ کے روپ میں تعینات ایک سفارت کار مادھوری گپتا کو نئی دہلی میں
پاکستان کے لئے جاسوسی کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا۔ مبینہ جاسوسی کا
معاملہ اس وقت منظر عام پر آیا جب بھوٹان میں سارک سربراہی اجلاس ہورہا
تھا اور پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم مذاکرات کررہے تھے۔
ترپن سالہ مادھوری گپتا بھارتی سفارت خانے میں گزشتہ 2 سال سے زیادہ
عرصے سے سیکنڈ سیکریٹری کے طور پر تعینات تھی اور بظاہر اس کا کام
پاکستان کے اخبارات میں بھارت کے بارے میں شائع ہونے والی خبروں کا
ترجمہ کر کے اسے بھارت بھیجنا تھا مگر دراصل وہ “را” کی ایجنٹ تھی جو
بھارتی سفارت خانے میں تعینات “را” کے اسٹیشن ہیڈ آر کے شرما کو رپورٹ
کرتی تھی اور وہ پاکستان میں “را” کی ہونے والی سرگرمیوں سے واقف تھی
اور افغانستان میں پاکستان کی سرحد کے قریب واقع بھارتی قونصلیٹ جو
بلوچستان میں دہشت گردی کے لئے استعمال ہو رہے ہیں ان سے رابطے میں تھی۔
بھارت کو اس وقت شدید شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا جب حکومت پاکستان کو
خفیہ ذرائع سے کچھ ایسی اہم دستاویزات حاصل ہوئیں جس میں افغانستان میں
قائم ان بھارتی قونصلیٹ کے بلوچستان میں دخل اندازی کے ٹھوس ثبوت موجود
تھے۔ حکومت پاکستان نے امریکہ اور برطانیہ کی حکومتوں کو یہ ثبوت فراہم
کئے جس کے بعد امریکا اور برطانیہ کے بھارت کے بارے میں رویئے میں
تبدیلی آئی۔ اس بھارتی ٹھوس ثبوت نے عالمی رائے کو بھی پاکستان کے حق
میں اجاگر کیا۔ وزیر داخلہ رحمن ملک اکثر یہ کہتے سنے گئے کہ ان کے پاس
انڈیا کے پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہونے کے ثبوت موجود
ہیں۔
دو سال تک بھارتی خفیہ ایجنسی کے اہلکار یہ پتہ لگانے کی کوشش کرتے رہے
کہ جاسوسی کے اس مبینہ معاملے میں کتنے لوگ ملوث ہیں اور کس نوعیت کی
معلومات پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کو فراہم کی گئیں۔ 21 اپریل کو
مادھوری گپتا کو سارک سربراہی کانفرنس کے سلسلے میں مدد کے بہانے نئی
دہلی طلب کیا گیا۔ آخری وقت تک اس مشن کو خفیہ رکھا گیا اور اس کا علم
پاکستان میں تعینات بھارت ہائی کمشنر کو بھی نہ تھا۔ “را” کو یہ ڈر تھا کہ
اگر گرفتاری سے قبل مادھوری گپتا کو اس کا علم ہوگیا تو شاید وہ بھارت
واپس نہ آئے او رکہیں روپوش نہ ہوجائے۔ مادھوری گپتا جیسے ہی دہلی
ایئرپورٹ پر پہنچی اسے حراست میں لے کر ایئرپورٹ سے ایک خفیہ مقام پر لے
جایاگیا جہاں “را” کے سینئر حکام’ دوسری خفیہ ایجنسیاں اور بھارتی
پولیس اس سے کئی گھنٹے تک تفتیش کرتی رہی اور آخر کار مادھوری کو
پاکستان کے لئے جاسوسی کرنے کے الزام میں باقاعدہ گرفتار کرلیا گیا۔
بھارتی حکام کا کہنا ہے کہ مادھوری گپتا کی گرفتاری ایک ای میل کے نتیجے
میں عمل میں آئی جو اس نے اپنے دفتر سے ایک پاکستانی اہلکار کو بھیجی۔
بھارتی حکومت یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ مادھوری گپتا یہ سب کام
اکیلے کررہی تھی۔ انہیں اپنے ہائی کمیشن میں تعینات “را” کے اسٹیشن ہیڈ
پر بھی شبہ ہے کہ وہ مادھوری کے ساتھ ملوث تھے جس پر انہیں بھی شامل
تفتیش کیا گیا ہے اور بھارت طلب کیا گیا ہے۔
میں نے اس سلسلے میں جب پاکستانی انٹیلی جنس بیورو کے سابق سربراہ
بریگیڈیئر (ر) امتیاز احمد سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ پاکستانی
ایجنسیاں اتنی بے وقوف نہیں کہ وہ اپنے انفارمر سے ای میل ’ فیکس یا
ٹیلیفون کے ذریعے رابطے میں رہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اسلام آباد میں
بھارت کا ہائی کمیشن پاکستان میں “را” کا ایک بڑا مرکز ہے جہاں “را” اپنے
ایجنٹوں کو سفارت کاروں کے روپ میں تعینات کرتی ہے جو اکثر قونصلر یا
ڈپٹی ہائی کمشنر کے عہدے پر تعینات ہوتے ہیں اور پاکستان مخالف
سرگرمیوں میں ملوث ہوتے ہیں۔
جاسوسی کے مبینہ معاملے کے بعد اسلام آباد میں قائم بھارتی ہائی کمیشن
شدید تذبذب کا شکا رہے اور بھارتی حکومت وہاں کام کرنے والے ہر شخص کو شک
کی نظر سے دیکھ رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ پاکستانی خفیہ ایجنسیاں بھارتی
ہائی کمیشن میں سرایت کرگئی ہیں۔گویہ پہلا موقع نہیں کہ “را” کے کچھ ایجنٹ
دوسرے ممالک کے لئے کام کرتے ہوئے پکڑے گئے ہوں مگر ایک خاتون کا
پاکستان کے لئے جاسوسی کرنے کا یہ پہلا واقعہ ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مادھوری گپتا کے پاکستانی ایجنسی کے لئے کام
کرنے پر “را” کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے اور اگر مادھوری کے ساتھ “را” کے
کچھ اور لو گ بھی ملوث پائے گئے تو یہ کسی بھی ایجنسی کے مورال کے لئے
شدید نقصان دی ہے۔ “را” یہ کہہ کر اپنی خفت مٹارہا ہے کہ جس خاتون اہلکار
کو گرفتار کیا گیا ہے وہ ایک چھوٹی سطح کی ایجنٹ تھی اور اسے حساس
دستاویزات تک رسائی حاصل نہیں تھی۔ پاکستانی ایجنسیوں نے اس خاتون کو
پیسے اور محبت کا لالچ دے کر اپنی جانب مائل کیا جب کہ مادھوری گپتا کے
بینک اکاؤنٹ میں اس کی تنخواہ کے علاوہ کوئی غیر معمولی رقم نہیں ملی ہے
جو یہ ثابت کرے کہ اس نے یہ سب پیسے کی لالچ میں کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ
مادھوری گپتا پاکستان میں تعیناتی کے دوران اسلام کی تعلیمات سے متاثر
نظر آئی اور ایک اطلاع کے مطابق اسلام قبول کرنے کے بعد اس کے ضمیر نے یہ
گوارا نہیں کیا کہ وہ “را” کے مذموم مقاصد کا حصہ بنے۔
No comments:
Post a Comment