Friday, November 23, 2012

جنت میں گھر


ہارون الرشید کے زمانے میں بہلول نامی ایک بزرگ گزرے ہیں۔ وہ مجذوب اور صاحب ِ حال تھے ۔ ہارون الرشید ان کا بہت احترام کرتے تھے۔ ہارون الرشیدکی بیوی زبیدہ خاتون بھی ایک نیک اور پارسا عورت تھیں۔ انھوں نے اپنے محل میں ایک ہزار ایسی خادمائیں رکھی ہوئی تھیں جو قرآن کی حافظہ اور قاریہ تھیں۔ ان سب ڈیوٹیاں مختلف شفٹوں میں لگی ہوئی تھیں۔ چنانچہ ان کے محل سے چوبیس گھنٹے ان بچیوں کے قرآن پڑھنے کی آواز آرہی ہوت
ی تھی۔ ان کا محل قرآن کا گلشن محسوس ہوتا تھا۔
ایک دن ہارون الرشیداپنی بیوی کے ساتھ دریا کے کنارے ٹہل رہے تھے کہ ایک جگہ بہلول دانا کو بیٹھے ہوئے دیکھا۔ انھوں نے کہا، اسلام وعلیکم، بہلول دانا نے جواب میں کہا، وعلیکم سلام۔ ہارون الرشید نے کہا ، بہلول آپ کیا کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ریب کے گھر بنا رہا ہوں۔ پوچھا، کس کے لیئے بنارہے ہیں؟ جواب دیا کہ جو آدمی اس کو خریدے گا میں اس کے لیئے دعا کروں گا کہ اللہ رب العزت اس کے بدلے اس کو جنت میں گھر عطا فرمادے۔ بادشاہ نے کہا، بہلول اس گھر کی قیمت کیا ہے؟ انہوں نے کہاکہ ایک دینار۔ ہارون الرشید نے سمجھا کہ یہ دیوانے کی بڑ ہے لہذا وہ آگے چلے گئے۔
ان کے پیچھے زبیدہ خاتون آئیں۔ انہوں نے بہلول کو سلام کیا اور پھر پوچھا بہلول کیا کررہے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ میں ریت کے گھر بنا رہاہوں۔ پوچھا کس کے لیئے گھر بنا رہے ہیں؟
بہلول نے کہا کہ جو آدمی اس گھر کو خریدے گا میں اس کے لیئے دعا کروں گا کہ یا اللہ اس کے بدلے اس کو جنت میں گھر عطا فرمادے۔ انہوں نے پوچھا، بہلول اس گھر کی کیا قیمت ہے؟ بہلول نے کہا ایک دینار۔ زبیدہ خاتون نے ایک دینار نکال کر ان کو دے دیا اور کہا کہ میرے لیئے دعا کرنا، وہ دعا لے کر چلی گئیں۔
رات کو جب ہارون الرشید سوئے تو انہوں نے خواب میں جنت کے مناظر دیکھے ، آبشاریں، مرغزاریں اور پھل پھول وغیرہ دیکھنے کے علاوہ بڑے اونچے اونچے خوبصورت محلات بھی دیکھے، ایک سرخ یاقوت کے بنے ہوئے محل پر انہوں نے زبیدہ کا نام لکھا ہوا دیکھا۔ ہارون الرشیدنے سوچا کہ میں دیکھوں تو سہی کیوں کہ یہ میری بیوی کا گھر ہے۔ وہ محل میں داخل ہونے کے لیئے جیسے ہی دروازے پر پہنچے تو ایک دربان نے انہیں روک لیا۔ ہارون الرشیدکہنے لگے ، اس پر تو میری بیوی کا نام لکھا ہوا ہے، اس لیئے مجھے اندرجانا ہے، دربان نے کہا نہیں، یہاں کا دستور الگ ہے، جس کا نام ہوتا ہے اسی کو اندر جانے کی اجازت ہوتی ہے، کسی اور کو اجازت نہیں ہوتی، لہذا آپ کو داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے۔ جب دربان نے ہارون الرشید کو پیچھے ہٹایا تو ان کی آنکھ کھل گئی۔
بیدار ہونے پر فوراً خیال آیا کہ مجھے تو لگتا ہےکہ بہلول کی دعا زبیدہ کے حق میں اللہ رب العزت کے ہاں قبول ہوگئی۔ پھر انہیں خود پر افسوس ہوا کہ میں بھی اپنے لیئے ایک گھر خرید لیتا تو کتنا اچھا ہوتا، وہ ساری رات اسی افسوس میں کروٹیں بدلتے رہے، صبح ہوئی تو ان کے دل میں خیال آیا کہ آج پھر میں ضرور دیا کے کنارے جاوں گا۔ اگر آج مجھے بہلول مل گئے تو میں بھی ایک مکان ضرور خریدوں گا۔
چنانچہ وہ شام کو پھر اپنی بیوی کو لے کر چل پڑے، وہ بہلول کو تلاش کرتے ہوئے اِدھر اُدھر دیکھ رہے تھے کہ اچانک انہوں نے دیکھا کہ بہلول ایک جگہ بیٹھے اسی طرح مکان بنا رہے ہیں، ہارون الرشید نے اسلام وعلیکم کہا، بہلول نے جواب دیا وعلیکم سلام، ہارون الرشیدنے پوچھا، کیا کررہے ہیں؟ بہلول نے کہا، میں گھر بنا رہا ہوں۔ ہارون الرشیدنے پوچھا کس لیئے، بہلول نے کہا ، جو آدمی یہ گھر خریدے گا، میں اس کے حق میں دعا کروں گا کہ اللہ تعالیٰ اسے اس گھر بدلے جنت میں گھر عطاکرے۔
ہارون الرشیدنے پوچھا ، بہلول اس گھر کی قیمت بتائیں کیا ہے؟ بہلول نے کہا، اس کی قیمت پوری دنیا کی بادشاہی ہے۔ ہارون الرشیدنے کہا ، اتنی قیمت تو میں نہیں دے سکتا، کل تو آپ ایک دینار کے بدلے دے رہے تھے، اور آج پوری دنیا کی بادشاہت مانگ رہے ہیں؟ بہلول دانا نے کہا، بادشاہ سلامت! کل بن دیکھےمعاملہ تھا اور آج دیکھا ہوا معاملہ ہے، کل بن دیکھے کا سودا تھا اس لیئے سستا مل رہا تھا، اور آج چونکہ دیکھ کے آئے ہیں اس لیئے اب اس کی قیمت بھی زیادہ دینی پڑے گی۔
خود بھی پڑھیں اور دوستوں کو بھی شیئر کریں

No comments:

Post a Comment