Thursday, November 8, 2012

آنسوﺅں میں ڈوبتا امریکہ



آنسوﺅں میں ڈوبتا امریکہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہتے طالبان نے فرعون امریکہ کو کس حال پر پہنچا دیا؟
تازہ ترین حالات کا تجزیہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔علی عمران شاہین کے قلم سے
افغانستان کا صوبہ قندھار.... اس کی شہرت یہ ہے کہ اس پر جو قابض ہوتا ہے، وہی ملک پر حکومت کرتا ہے۔ آج کل اس قندھار پر عملاً تو طالبان کی ہی حکومت ہے لیکن یہاں ایک امریکی کیمپ بھی موجود ہے۔ آج 19 اکتوبر ہے اور امریکی فوج کے کیمپ ناتھن میں آہ و بکا ہو رہ
ی ہے۔ ا مریکی فوجی ایک دوسرے کے گلے لگ لگ کر رو رہے ہیں.... ان کے سامنے 2 فوجی بوٹ پڑے ہیں جن کے اوپر ایک جدید ترین بندوق الٹی کھڑی ہے۔ اس بندوق کے اوپر فوجی ہیلمٹ رکھا ہوا ہے۔ بوٹوں کے اردگرد فوجی تمغے اور اعزازات پڑے ہوئے ہیں اور رونے والے فوجی اس کے گرد گھیرا ڈال کر بلک بلک کر آنسو بہا رہے ہیں اور کیوں....؟ اس لئے کہ ایک روز پہلے یہیں ان کا ایک اہم ساتھی برٹنی گورڈن طالبان کے حملے میں مارا گیا تھا، یوں اب اس کی باقیات رکھ کر ماتم جاری ہے لیکن امریکیوں کے دل کو سکون نہیں آ رہا ۔ 
یہ اسی دن کا ایک اور لیکن امریکہ کے اندر کا منظر ہے۔ ریاست لاس اینجلس کے فوجی مرکز میں فوج کی 225 ویں ملٹی رول برج کمپنی کے 200 ماہر سپاہیوں کو افغانستان روانہ کیا جا رہا ہے تاکہ وہاں سے نکلنے والی اپنی فوج کے لئے راہ ہموار کر سکیں اور وہاں افغان فوج کو انتظامات سنبھالنے کیلئے تیار کر سکیں۔ یہاں یہ فوجی بھی جمع ہیں اور ان کے اہل خانہ اور بچے بھی موجود ہیں۔ یہاں بھی منظر عجیب ہے، ہر بچہ اپنے فوجی باپ کو اور ہر عورت اپنے خاوند، بھائی یا بیٹے کو گلے لگا لگا کر اور چمٹ چمٹ کر رو رہی ہے کہ پتہ نہیں، یہ واپس بھی آئیں گے کہ نہیں۔ آہوں اور سسکیوں سے سارا ہال گونج رہا ہے لیکن کوئی کسی کو دلاسہ دینے والا نہیں سبھی رونے والے ہیں۔
ایسے مناظر آج کل امریکہ میں عام ہیں، جو فوجی واپس آ رہے ہیں، ان کے لواحقین انہیں زندہ سلامت پا کر روتے ہیں کہ چلو آیا تو سہی.... اگرچہ وہ اب پاگل ہے.... نفسیاتی مریض ہے، ہاتھ، پاﺅں یا ٹانگ سے محروم ہے یا اس کا چہرہ جل گیا ہے۔ 
یہی حال امریکہ کے صدر کا ہے جس کے بارے میں دنیا کہتی ہے کہ یہ دنیا کا طاقتور ترین انسان ہوتا ہے کیونکہ اس کے ہاتھ میں وہ ایٹمی بٹن ہوتا ہے کہ جس کو اگر دبا دیا جائے تو ساری روئے زمین ایک بار نہیںبلکہ 6 بار جل کر مکمل خاکستر ہو جائے.... لیکن اس صدر کو اب یہ بٹن دبانے کی جرا¿ت و ہمت نہیں بلکہ اس کی طرف توجہ کی بجائے اب تو اس کی آنکھوں سے آنسو رواں ہیں کہ ہمارے ساتھ یہ کیا ہو گیا؟وہ کبھی افغانستان سے بھری لاشوں سے ا ٓنے والے جہازوں کو دیکھ کر ایئر پورٹ پر روتاہے کبھی فوجیوں کی قبروں پر اور کبھی ماتمی مجلسوں میں.... امریکہ کی تاریخ میں اتنے آنسو شاید پہلے کسی صدر کے نہیں بہائے ہوں گے۔ 
ہر امریکی آج یہی سوچتا نظر آتا ہے کہ افغانستان کے 11 سال نے ہمارا حال کیا سے کیا کر دیا ہے؟ جی ہاں! یہ وہی امریکہ ہے کہ جو کل تک ”خدائی“ کا دعویدار تھا لیکن دشمن کے ہاتھوں مرنے پر نہ رونے والے افغانیوں نے ننگے پاﺅں اور ننگے جسم سے وہ حشر کردیا کہ غرور و تکبر کے سارے لبادے ہی اتر گئے۔ میرے سامنے اس وقت امریکی صحافی گیرتھ پورٹر کی چند روز پہلے کی ایک رپورٹ پڑی ہے جس کا عنوان ہے :
How the US Quietly Lost the IED War in Afghanistan
”امریکہ افغانستان میں دیسی ساختہ بموں کی جنگ کیسے مکمل طور پر ہار گیا“۔ 
صحافی لکھتا ہے کہ افغانستان میں سال 2012ءکی شہرت تو اس بات سے تھی کہ افغان فوج نے اندرونی جنگ میں اتحادیوں کو بے تحاشہ مارا ہے، لیکن اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ امریکہ دیسی ساختہ بموں یعنی IED Improvised Explosive Devices کی جنگ طالبان سے ہار گیا ہے۔ اگرچہ دعوے تو کئے جا رہے ہیں کہ دیسی ساختہ بموں کے دھماکے اور کارروائیاں کم ہو گئی ہیں لیکن عملاً ایسا نہیں ہے، 2009ءسے 2011ءکے عرصے میں ایسے بموں سے امریکی اعتراف کے مطابق امریکی و اتحادی افواج پر 14627 حملے ہوئے۔2011ءمیں ان کی شرح میں اضافہ ہوا تھا۔امریکہ نے ان حملوں کو روکنے کیلئے{Jieddo} IED Defeat Joint Organization کے نام سے ادارہ بنایا۔ اس ادارے نے 18ارب ڈالر خرچ کر کے اعلیٰ اور حساس ترین آلات جن میں روبوٹ اور حساس کیمرے تک شامل تھے، تیار کئے لیکن مقابلے میں طالبان نے انتہائی سادہ طریقے سے بنائے جانے والے بموں اور دھماکوں کی تعداد بہت زیادہ بڑھا دی، دھماکے بڑھے تو امریکی جرنیلوں ڈیوڈ پیٹریاس اور جنرل میکرسٹل نے حکمت عملی تشکیل دی کہ ”ہم گاڑیوں سے باہر نہیں نکلتے، عام لوگوں سے نہیں ملتے تو حملے لازماً بڑھیں گے۔ ہمیں فولادی قلعہ نما جنگی گاڑیوں سے نکل کر عوام میں جانا اور باہمی اعتماد پیدا کرنا ہو گا تاکہ وہ ہمیں اطلاعات دیں اور ہم ان بموں سے بچ جائیں“ لیکن اس حکمت عملی کا انجام اور بھی خطرناک نکلا کیونکہ گاڑیوں میں مرنے والے فوجیوں کی تعداد نسبتاً کم تھی لیکن جب انہوں نے باہر نکلنا شروع کیا تو اموات اور تباہی کہیں بڑھ گئی، حالت یہاں تک پہنچی کہ امریکی فوج کی ٹاسک فورس نے جون 2011ءمیں جنگ میں لگنے والے فوجیوں کے نئے قسم کے زخموں کو Dismount Complete Blast injury کا نام دے دیا جس میں ذہنی دباﺅ اور نقصان کے ساتھ ٹانگوں کے علاوہ نازک اعضا بھی ضائع ہو جاتے ہیں۔ جنوری 2011ءمیں JIEDDO کے سربراہ جنرل اوٹس نے واشنگٹن پوسٹ کو دیئے انٹرویو میں کھلا اعتراف کیا کہ We are Losing the IED fight in Afghanistan”ہم افغانستان دیسی بموں کی جنگ ہار رہے ہیں“۔ 
یوں اس تناظر میں دیکھیں تو منظر نامہ عجیب نظر آتا ہے کہ ایک طرف اندھی دولت، ٹیکنالوجی اور سائنس کی ترقی کا اوج کمال، طاقت بے حساب اور دوسری طرف خالی ہاتھ یا زیادہ سے زیادہ ریت، پتھر اور کنکر پھر یہ کیا ہوا کہ امریکی رو پڑے.... جو کہتے تھے ہم اس قدر معزز و محترم ہیں کہ ہمارے کتوں کو بھی دنیا میں کوئی میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا۔ آج انہی امریکیوں کی آنکھیں خون کے آنسو رو رہی ہیں، سب کچھ نامراد ٹھہراہے۔ کہانی نکھر کر سامنے آ رہی ہے.... وقت تھوڑا رہ گیا ہے۔ جو ہم کل کہتے تھے لوگ ماننے سے انکاری تھے۔ آج ماننے پر مجبور ہیں تو پھر مان لو.... امریکہ برباد.... جہاد کامیاب.... یہی اللہ نے لکھا تھا اور یہی آج کا فیصلہ ہے۔
یہ اسی دن کا ایک اور لیکن امریکہ کے اندر کا منظر ہے۔ ریاست لاس اینجلس کے فوجی مرکز میں فوج کی 225 ویں ملٹی رول برج کمپنی کے 200 ماہر سپاہیوں کو افغانستان روانہ کیا جا رہا ہے تاکہ وہاں سے نکلنے والی اپنی فوج کے لئے راہ ہموار کر سکیں اور وہاں افغان فوج کو انتظامات سنبھالنے کیلئے تیار کر سکیں۔ یہاں یہ فوجی بھی جمع ہیں اور ان کے اہل خانہ اور بچے بھی موجود ہیں۔ یہاں بھی منظر عجیب ہے، ہر بچہ اپنے فوجی باپ کو اور ہر عورت اپنے خاوند، بھائی یا بیٹے کو گلے لگا لگا کر اور چمٹ چمٹ کر رو رہی ہے کہ پتہ نہیں، یہ واپس بھی آئیں گے کہ نہیں۔ آہوں اور سسکیوں سے سارا ہال گونج رہا ہے لیکن کوئی کسی کو دلاسہ دینے والا نہیں سبھی رونے والے ہیں۔
ایسے مناظر آج کل امریکہ میں عام ہیں، جو فوجی واپس آ رہے ہیں، ان کے لواحقین انہیں زندہ سلامت پا کر روتے ہیں کہ چلو آیا تو سہی.... اگرچہ وہ اب پاگل ہے.... نفسیاتی مریض ہے، ہاتھ، پاﺅں یا ٹانگ سے محروم ہے یا اس کا چہرہ جل گیا ہے۔ 
یہی حال امریکہ کے صدر کا ہے جس کے بارے میں دنیا کہتی ہے کہ یہ دنیا کا طاقتور ترین انسان ہوتا ہے کیونکہ اس کے ہاتھ میں وہ ایٹمی بٹن ہوتا ہے کہ جس کو اگر دبا دیا جائے تو ساری روئے زمین ایک بار نہیںبلکہ 6 بار جل کر مکمل خاکستر ہو جائے.... لیکن اس صدر کو اب یہ بٹن دبانے کی جرا¿ت و ہمت نہیں بلکہ اس کی طرف توجہ کی بجائے اب تو اس کی آنکھوں سے آنسو رواں ہیں کہ ہمارے ساتھ یہ کیا ہو گیا؟وہ کبھی افغانستان سے بھری لاشوں سے ا ٓنے والے جہازوں کو دیکھ کر ایئر پورٹ پر روتاہے کبھی فوجیوں کی قبروں پر اور کبھی ماتمی مجلسوں میں.... امریکہ کی تاریخ میں اتنے آنسو شاید پہلے کسی صدر کے نہیں بہائے ہوں گے۔ 
ہر امریکی آج یہی سوچتا نظر آتا ہے کہ افغانستان کے 11 سال نے ہمارا حال کیا سے کیا کر دیا ہے؟ جی ہاں! یہ وہی امریکہ ہے کہ جو کل تک ”خدائی“ کا دعویدار تھا لیکن دشمن کے ہاتھوں مرنے پر نہ رونے والے افغانیوں نے ننگے پاﺅں اور ننگے جسم سے وہ حشر کردیا کہ غرور و تکبر کے سارے لبادے ہی اتر گئے۔ میرے سامنے اس وقت امریکی صحافی گیرتھ پورٹر کی چند روز پہلے کی ایک رپورٹ پڑی ہے جس کا عنوان ہے :
How the US Quietly Lost the IED War in Afghanistan
”امریکہ افغانستان میں دیسی ساختہ بموں کی جنگ کیسے مکمل طور پر ہار گیا“۔ 
صحافی لکھتا ہے کہ افغانستان میں سال 2012ءکی شہرت تو اس بات سے تھی کہ افغان فوج نے اندرونی جنگ میں اتحادیوں کو بے تحاشہ مارا ہے، لیکن اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ امریکہ دیسی ساختہ بموں یعنی IED Improvised Explosive Devices کی جنگ طالبان سے ہار گیا ہے۔ اگرچہ دعوے تو کئے جا رہے ہیں کہ دیسی ساختہ بموں کے دھماکے اور کارروائیاں کم ہو گئی ہیں لیکن عملاً ایسا نہیں ہے، 2009ءسے 2011ءکے عرصے میں ایسے بموں سے امریکی اعتراف کے مطابق امریکی و اتحادی افواج پر 14627 حملے ہوئے۔2011ءمیں ان کی شرح میں اضافہ ہوا تھا۔امریکہ نے ان حملوں کو روکنے کیلئے{Jieddo} IED Defeat Joint Organization کے نام سے ادارہ بنایا۔ اس ادارے نے 18ارب ڈالر خرچ کر کے اعلیٰ اور حساس ترین آلات جن میں روبوٹ اور حساس کیمرے تک شامل تھے، تیار کئے لیکن مقابلے میں طالبان نے انتہائی سادہ طریقے سے بنائے جانے والے بموں اور دھماکوں کی تعداد بہت زیادہ بڑھا دی، دھماکے بڑھے تو امریکی جرنیلوں ڈیوڈ پیٹریاس اور جنرل میکرسٹل نے حکمت عملی تشکیل دی کہ ”ہم گاڑیوں سے باہر نہیں نکلتے، عام لوگوں سے نہیں ملتے تو حملے لازماً بڑھیں گے۔ ہمیں فولادی قلعہ نما جنگی گاڑیوں سے نکل کر عوام میں جانا اور باہمی اعتماد پیدا کرنا ہو گا تاکہ وہ ہمیں اطلاعات دیں اور ہم ان بموں سے بچ جائیں“ لیکن اس حکمت عملی کا انجام اور بھی خطرناک نکلا کیونکہ گاڑیوں میں مرنے والے فوجیوں کی تعداد نسبتاً کم تھی لیکن جب انہوں نے باہر نکلنا شروع کیا تو اموات اور تباہی کہیں بڑھ گئی، حالت یہاں تک پہنچی کہ امریکی فوج کی ٹاسک فورس نے جون 2011ءمیں جنگ میں لگنے والے فوجیوں کے نئے قسم کے زخموں کو Dismount Complete Blast injury کا نام دے دیا جس میں ذہنی دباﺅ اور نقصان کے ساتھ ٹانگوں کے علاوہ نازک اعضا بھی ضائع ہو جاتے ہیں۔ جنوری 2011ءمیں JIEDDO کے سربراہ جنرل اوٹس نے واشنگٹن پوسٹ کو دیئے انٹرویو میں کھلا اعتراف کیا کہ We are Losing the IED fight in Afghanistan”ہم افغانستان دیسی بموں کی جنگ ہار رہے ہیں“۔ 
یوں اس تناظر میں دیکھیں تو منظر نامہ عجیب نظر آتا ہے کہ ایک طرف اندھی دولت، ٹیکنالوجی اور سائنس کی ترقی کا اوج کمال، طاقت بے حساب اور دوسری طرف خالی ہاتھ یا زیادہ سے زیادہ ریت، پتھر اور کنکر پھر یہ کیا ہوا کہ امریکی رو پڑے.... جو کہتے تھے ہم اس قدر معزز و محترم ہیں کہ ہمارے کتوں کو بھی دنیا میں کوئی میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا۔ آج انہی امریکیوں کی آنکھیں خون کے آنسو رو رہی ہیں، سب کچھ نامراد ٹھہراہے۔ کہانی نکھر کر سامنے آ رہی ہے.... وقت تھوڑا رہ گیا ہے۔ جو ہم کل کہتے تھے لوگ ماننے سے انکاری تھے۔ آج ماننے پر مجبور ہیں تو پھر مان لو.... امریکہ برباد.... جہاد کامیاب.... یہی اللہ نے لکھا تھا اور یہی آج کا فیصلہ ہے۔

یہ اسی دن کا ایک اور لیکن امریکہ کے اندر کا منظر ہے۔ ریاست لاس اینجلس کے فوجی مرکز میں فوج کی 225 ویں ملٹی رول برج کمپنی کے 200 ماہر سپاہیوں کو افغانستان روانہ کیا جا رہا ہے تاکہ وہاں سے نکلنے والی اپنی فوج کے لئے راہ ہموار کر سکیں اور وہاں افغان فوج کو انتظامات سنبھالنے کیلئے تیار کر سکیں۔ یہاں یہ فوجی بھی جمع ہیں اور ان کے اہل خانہ اور بچے بھی موجود ہیں۔ یہاں بھی منظر عجیب ہے، ہر بچہ اپنے فوجی باپ کو اور ہر عورت اپنے خاوند، بھائی یا بیٹے کو گلے لگا لگا کر اور چمٹ چمٹ کر رو رہی ہے کہ پتہ نہیں، یہ واپس بھی آئیں گے کہ نہیں۔ آہوں اور سسکیوں سے سارا ہال گونج رہا ہے لیکن کوئی کسی کو دلاسہ دینے والا نہیں سبھی رونے والے ہیں۔
ایسے مناظر آج کل امریکہ میں عام ہیں، جو فوجی واپس آ رہے ہیں، ان کے لواحقین انہیں زندہ سلامت پا کر روتے ہیں کہ چلو آیا تو سہی.... اگرچہ وہ اب پاگل ہے.... نفسیاتی مریض ہے، ہاتھ، پاﺅں یا ٹانگ سے محروم ہے یا اس کا چہرہ جل گیا ہے۔ 
یہی حال امریکہ کے صدر کا ہے جس کے بارے میں دنیا کہتی ہے کہ یہ دنیا کا طاقتور ترین انسان ہوتا ہے کیونکہ اس کے ہاتھ میں وہ ایٹمی بٹن ہوتا ہے کہ جس کو اگر دبا دیا جائے تو ساری روئے زمین ایک بار نہیںبلکہ 6 بار جل کر مکمل خاکستر ہو جائے.... لیکن اس صدر کو اب یہ بٹن دبانے کی جرا¿ت و ہمت نہیں بلکہ اس کی طرف توجہ کی بجائے اب تو اس کی آنکھوں سے آنسو رواں ہیں کہ ہمارے ساتھ یہ کیا ہو گیا؟وہ کبھی افغانستان سے بھری لاشوں سے ا ٓنے والے جہازوں کو دیکھ کر ایئر پورٹ پر روتاہے کبھی فوجیوں کی قبروں پر اور کبھی ماتمی مجلسوں میں.... امریکہ کی تاریخ میں اتنے آنسو شاید پہلے کسی صدر کے نہیں بہائے ہوں گے۔ 
ہر امریکی آج یہی سوچتا نظر آتا ہے کہ افغانستان کے 11 سال نے ہمارا حال کیا سے کیا کر دیا ہے؟ جی ہاں! یہ وہی امریکہ ہے کہ جو کل تک ”خدائی“ کا دعویدار تھا لیکن دشمن کے ہاتھوں مرنے پر نہ رونے والے افغانیوں نے ننگے پاﺅں اور ننگے جسم سے وہ حشر کردیا کہ غرور و تکبر کے سارے لبادے ہی اتر گئے۔ میرے سامنے اس وقت امریکی صحافی گیرتھ پورٹر کی چند روز پہلے کی ایک رپورٹ پڑی ہے جس کا عنوان ہے :
How the US Quietly Lost the IED War in Afghanistan
”امریکہ افغانستان میں دیسی ساختہ بموں کی جنگ کیسے مکمل طور پر ہار گیا“۔ 
صحافی لکھتا ہے کہ افغانستان میں سال 2012ءکی شہرت تو اس بات سے تھی کہ افغان فوج نے اندرونی جنگ میں اتحادیوں کو بے تحاشہ مارا ہے، لیکن اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ امریکہ دیسی ساختہ بموں یعنی IED Improvised Explosive Devices کی جنگ طالبان سے ہار گیا ہے۔ اگرچہ دعوے تو کئے جا رہے ہیں کہ دیسی ساختہ بموں کے دھماکے اور کارروائیاں کم ہو گئی ہیں لیکن عملاً ایسا نہیں ہے، 2009ءسے 2011ءکے عرصے میں ایسے بموں سے امریکی اعتراف کے مطابق امریکی و اتحادی افواج پر 14627 حملے ہوئے۔2011ءمیں ان کی شرح میں اضافہ ہوا تھا۔امریکہ نے ان حملوں کو روکنے کیلئے{Jieddo} IED Defeat Joint Organization کے نام سے ادارہ بنایا۔ اس ادارے نے 18ارب ڈالر خرچ کر کے اعلیٰ اور حساس ترین آلات جن میں روبوٹ اور حساس کیمرے تک شامل تھے، تیار کئے لیکن مقابلے میں طالبان نے انتہائی سادہ طریقے سے بنائے جانے والے بموں اور دھماکوں کی تعداد بہت زیادہ بڑھا دی، دھماکے بڑھے تو امریکی جرنیلوں ڈیوڈ پیٹریاس اور جنرل میکرسٹل نے حکمت عملی تشکیل دی کہ ”ہم گاڑیوں سے باہر نہیں نکلتے، عام لوگوں سے نہیں ملتے تو حملے لازماً بڑھیں گے۔ ہمیں فولادی قلعہ نما جنگی گاڑیوں سے نکل کر عوام میں جانا اور باہمی اعتماد پیدا کرنا ہو گا تاکہ وہ ہمیں اطلاعات دیں اور ہم ان بموں سے بچ جائیں“ لیکن اس حکمت عملی کا انجام اور بھی خطرناک نکلا کیونکہ گاڑیوں میں مرنے والے فوجیوں کی تعداد نسبتاً کم تھی لیکن جب انہوں نے باہر نکلنا شروع کیا تو اموات اور تباہی کہیں بڑھ گئی، حالت یہاں تک پہنچی کہ امریکی فوج کی ٹاسک فورس نے جون 2011ءمیں جنگ میں لگنے والے فوجیوں کے نئے قسم کے زخموں کو Dismount Complete Blast injury کا نام دے دیا جس میں ذہنی دباﺅ اور نقصان کے ساتھ ٹانگوں کے علاوہ نازک اعضا بھی ضائع ہو جاتے ہیں۔ جنوری 2011ءمیں JIEDDO کے سربراہ جنرل اوٹس نے واشنگٹن پوسٹ کو دیئے انٹرویو میں کھلا اعتراف کیا کہ We are Losing the IED fight in Afghanistan”ہم افغانستان دیسی بموں کی جنگ ہار رہے ہیں“۔ 
یوں اس تناظر میں دیکھیں تو منظر نامہ عجیب نظر آتا ہے کہ ایک طرف اندھی دولت، ٹیکنالوجی اور سائنس کی ترقی کا اوج کمال، طاقت بے حساب اور دوسری طرف خالی ہاتھ یا زیادہ سے زیادہ ریت، پتھر اور کنکر پھر یہ کیا ہوا کہ امریکی رو پڑے.... جو کہتے تھے ہم اس قدر معزز و محترم ہیں کہ ہمارے کتوں کو بھی دنیا میں کوئی میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا۔ آج انہی امریکیوں کی آنکھیں خون کے آنسو رو رہی ہیں، سب کچھ نامراد ٹھہراہے۔ کہانی نکھر کر سامنے آ رہی ہے.... وقت تھوڑا رہ گیا ہے۔ جو ہم کل کہتے تھے لوگ ماننے سے انکاری تھے۔ آج ماننے پر مجبور ہیں تو پھر مان لو.... امریکہ برباد.... جہاد کامیاب.... یہی اللہ نے لکھا تھا اور یہی آج کا فیصلہ ہے۔


 

No comments:

Post a Comment