Friday, November 9, 2012

بیٹی



بیٹی
دور جہالت کے پروردہ ایک شخص نے اپنی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا کے ساتھ نبی اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلم کی محبت کا عالم دیکھا تو حیرت زدہ رہ گيا ۔ آنکھوں سے آنسو نکل آئے سوچنے لگا کہ آہ کس بے دردی سے میں نے اپنی پارۂ جگر کو صرف دور جہالت کی عصبیت کی بنا پر زندہ در گور کر دیا تھا۔ اور پھر نبی اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلم کے استفسار پر اپنی داستان بیان کرنا شروع کردی ۔
__________________________
_____________
میری بیوی حاملہ تھی ، ان ہی دنوں میں ایک سفر پر مجبور ہوگیا عرصے بعد پلٹ کر آیا تو اپنے گھر میں ایک بچی کو کھیلتے دیکھا بیوی سے پوچھا: یہ کون ہے؟ تو بیوی نے کہا یہ تمہاری بیٹی ہے اور پھر کسی نامعلوم خوف کے تحت، التجا آمیزلہجے میں کہا: ذرا دیکھو تو کس قدر پیاری بچی ہے اس کے وجود سے گھر میں کتنی رونق ہے، یہ اگر زندہ رہے گی تو تمہاری یادگار بن کر تمہارے خاندان اور قبیلے کا نام زندہ رکھے گی۔ میں نے گردن جھکا لی، بیوی کو کوئی جواب دیے بغیر لڑکی کو بغور دیکھتا رہا لڑکی کچھ دیر تو اجنبی نگاہوں سے مجھے تکتی رہی پھر نہ جانے کیا سوچ کر بھاگتی ہوئی آئی اور میرے سینے سے لپٹ گئی، میں نے بھی جذبات کی رو میں اس کوآغوش میں بھر لیا اور پیار کرنے لگا کچھ عرصہ یونہی گزر گیا لڑکی آہستہ آہستہ بڑی ہوتی رہی اور ہوشیار ہوئی سن بلوغ کےقریب پہنچ گئی اب ماں کو میری طرف سے بالکل اطمینان ہو چکا تھا میرا رویہ بھی بیٹی کے ساتھ محبت آمیز تھا ایک دن میں نے اپنی بیوی سے کہا: ذرا اس کو بنا سنوار دو،میں قبیلے کی ایک شادی میں اسے لے جاؤں گا ماں بیچاری خوش ہو گئی اور جلدی سے سجا سنوار کر تیار کردیا۔ میں نے لڑکی کا ہاتھ پکڑ ا اور گھر سے روانہ ہوگيا۔ ایک غیر آباد بیابان میں پہنچ کر پہلے سے تیار شدہ ایک گڑھے کے قریب میں کھڑا ہوگیا لڑکی جو بڑی خوشی کے ساتھ اچھلتی کودتی چلی آرہی تھی میرے قریب آ کر رک گئی اور بڑی معصومیت سے سوال کیا: بابا یہ گڑھا کا ہے کے لیے ہے؟ میں نے سپاٹ لہجے میں اس سے کہا: اپنے خاندانی رسم و رواج کے مطابق میں تم کو اس میں دفن کردینا چاہتا ہوں تاکہ تمہاری پیدائش سے ہمارے خاندان اور قبیلے کو جو ذلت و رسوائی ہوئی ہے اس سے نجات مل جائے۔ لڑکی کو صورت حال کا اندازہ ہوا تو اس کے چہرے کا رنگ اڑ گيا اور قبل اس کے اس کی طرف سے کسی رد عمل کا اظہار ہو، میں نے اس کو گڑھے میں دھکیل دیا ۔ لڑکی دیر تک روتی اور گڑ گڑاتی رہی لیکن مجھ پر اس کے نالہ و فریاد کا کوئی اثر نہ ہوا۔ میں نے گڑھے کو مٹی سے بھر دیا ، اگرچہ آخر وقت تک وہ ہاتھ اٹھائے مجھ سے زندگی کی التجا کر رہی تھی لیکن افسوس! میں نے اپنے دل کے ٹکڑے کو زندہ در گور کردیا لیکن اس کی آخری التجا اب بھی میرے کانوں میں لاوے ٹپکاتی رہتی ہے: " بابا تم نے مجھے تو دفن کردیا لیکن میری ماں کوحقیقت نہ بتانا کہہ دینا کہ میں بیٹی کو اپنے قبیلے والوں میں چھوڑ آیا ہوں"۔
_______________________________________
اپنے عرب صحابی سے ایک بیٹی کے زندہ درگور کر دیے جانے کی داستان سنی تو حضور صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلم کی آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب جاری ہوگیا ۔ اس وقت نبی اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلم کی آغوش میں جناب فاطمہ سلام اللّہ علیہا بیٹھی ہوئی تھیں ان کی آنکھوں میں بھی نمی نظر آئی نبی اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلم نے بیٹی کو سینے سے لگا لیا اور آپ صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلم کے ہونٹوں پر یہ جملے جاری ہوگئے: بیٹی تو رحمت ہے اور پھر آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے فرمایا: میں فاطمہ کو دیکھ کر اپنے مشام جان کو بہشت کی خوشبو سے معطر کرتا ہوں۔
_______________________________________
بار الٰہی میں تجھ سے موت کے وقت آرام و راحت اور قیامت کے حساب و کتاب کے وقت عفوو مغفرت کا طالب ہوں
میری بیوی حاملہ تھی ، ان ہی دنوں میں ایک سفر پر مجبور ہوگیا عرصے بعد پلٹ کر آیا تو اپنے گھر میں ایک بچی کو کھیلتے دیکھا بیوی سے پوچھا: یہ کون ہے؟ تو بیوی نے کہا یہ تمہاری بیٹی ہے اور پھر کسی نامعلوم خوف کے تحت، التجا آمیزلہجے میں کہا: ذرا دیکھو تو کس قدر پیاری بچی ہے اس کے وجود سے گھر میں کتنی رونق ہے، یہ اگر زندہ رہے گی تو تمہاری یادگار بن کر تمہارے خاندان اور قبیلے کا نام زندہ رکھے گی۔ میں نے گردن جھکا لی، بیوی کو کوئی جواب دیے بغیر لڑکی کو بغور دیکھتا رہا لڑکی کچھ دیر تو اجنبی نگاہوں سے مجھے تکتی رہی پھر نہ جانے کیا سوچ کر بھاگتی ہوئی آئی اور میرے سینے سے لپٹ گئی، میں نے بھی جذبات کی رو میں اس کوآغوش میں بھر لیا اور پیار کرنے لگا کچھ عرصہ یونہی گزر گیا لڑکی آہستہ آہستہ بڑی ہوتی رہی اور ہوشیار ہوئی سن بلوغ کےقریب پہنچ گئی اب ماں کو میری طرف سے بالکل اطمینان ہو چکا تھا میرا رویہ بھی بیٹی کے ساتھ محبت آمیز تھا ایک دن میں نے اپنی بیوی سے کہا: ذرا اس کو بنا سنوار دو،میں قبیلے کی ایک شادی میں اسے لے جاؤں گا ماں بیچاری خوش ہو گئی اور جلدی سے سجا سنوار کر تیار کردیا۔ میں نے لڑکی کا ہاتھ پکڑ ا اور گھر سے روانہ ہوگيا۔ ایک غیر آباد بیابان میں پہنچ کر پہلے سے تیار شدہ ایک گڑھے کے قریب میں کھڑا ہوگیا لڑکی جو بڑی خوشی کے ساتھ اچھلتی کودتی چلی آرہی تھی میرے قریب آ کر رک گئی اور بڑی معصومیت سے سوال کیا: بابا یہ گڑھا کا ہے کے لیے ہے؟ میں نے سپاٹ لہجے میں اس سے کہا: اپنے خاندانی رسم و رواج کے مطابق میں تم کو اس میں دفن کردینا چاہتا ہوں تاکہ تمہاری پیدائش سے ہمارے خاندان اور قبیلے کو جو ذلت و رسوائی ہوئی ہے اس سے نجات مل جائے۔ لڑکی کو صورت حال کا اندازہ ہوا تو اس کے چہرے کا رنگ اڑ گيا اور قبل اس کے اس کی طرف سے کسی رد عمل کا اظہار ہو، میں نے اس کو گڑھے میں دھکیل دیا ۔ لڑکی دیر تک روتی اور گڑ گڑاتی رہی لیکن مجھ پر اس کے نالہ و فریاد کا کوئی اثر نہ ہوا۔ میں نے گڑھے کو مٹی سے بھر دیا ، اگرچہ آخر وقت تک وہ ہاتھ اٹھائے مجھ سے زندگی کی التجا کر رہی تھی لیکن افسوس! میں نے اپنے دل کے ٹکڑے کو زندہ در گور کردیا لیکن اس کی آخری التجا اب بھی میرے کانوں میں لاوے ٹپکاتی رہتی ہے: " بابا تم نے مجھے تو دفن کردیا لیکن میری ماں کوحقیقت نہ بتانا کہہ دینا کہ میں بیٹی کو اپنے قبیلے والوں میں چھوڑ آیا ہوں"۔
_______________________________________
اپنے عرب صحابی سے ایک بیٹی کے زندہ درگور کر دیے جانے کی داستان سنی تو حضور صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلم کی آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب جاری ہوگیا ۔ اس وقت نبی اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلم کی آغوش میں جناب فاطمہ سلام اللّہ علیہا بیٹھی ہوئی تھیں ان کی آنکھوں میں بھی نمی نظر آئی نبی اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلم نے بیٹی کو سینے سے لگا لیا اور آپ صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلم کے ہونٹوں پر یہ جملے جاری ہوگئے: بیٹی تو رحمت ہے اور پھر آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے فرمایا: میں فاطمہ کو دیکھ کر اپنے مشام جان کو بہشت کی خوشبو سے معطر کرتا ہوں۔
_______________________________________
بار الٰہی میں تجھ سے موت کے وقت آرام و راحت اور قیامت کے حساب و کتاب کے وقت عفوو مغفرت کا طالب ہوں

No comments:

Post a Comment