1400پہلےتاجدار عرب و عجم نے مدینہ کو اسلام کا پہلا مرکز بنایا ۔ مدینہ مواخات و مساوات کا آئینہ دار تھا ۔ اسلام کی پہلی ریاست صفحہ ہستی پہ نمودار ہوئی ۔ مدینہ کا مطلب خطہ ہوتا ہے ۔ مدینہ سرکار دوعالم کے آنے سے پہلے یثرب تھا۔ یعنی بیماریوں کا شہر، مصیبتوں کا شہر ۔۔۔ سرکار کے آنے سے یثرب مدینہ بن گیا ۔ سرکار دوعالم کی نگاہ نبوت قیامت تک ہونے والے عروج وزوال کو دیکھ رہی تھی چنانچہ سرزمین ہند سے ٹھنڈی
ہوا آنے کا مژدہ سنایا گیا ۔ وصال نبوی کے بعد خلفائے راشدین کا دور شروع ہوا ۔ اسلام کی شروعات سے ہی اصحاب نبوی نے سرزمین ہند کا رخ کر لیا تھا ۔ جہاں اسلام کی تبلیغ شروع کردی گئی ۔ تابعین کے دور میں بھی ہند کا رخ ہوا اور تاریخ بتاتی ہے کہ اصحاب نبوی نے چین کا بھی رخ کیا ۔ اسلام کی دعوت پھیلتی گئی ۔ صدیاں اس تلاش میں رہیں کہ وہ کونسا ہند ہے کہ جس کے بارے میں حضور نے فرمایا کہ مجھے ہند سے ٹھنڈی ہوا آتی ہے ۔ اب تاریخ کی کتابوں کا مشاہدہ کیا جائے اور مطالعہ کیا جائے تو فلسطین ،عراق، ترکی، روم اور حجاز و یمن ہی اسلام کی سرگرمیوں کا مرکز رہے ۔ اسلام کے اوائل دور ہی سے پہلے مدینہ اسلام کا مرکز بنا ۔ خلفائے راشدین کے دور میں اسلام نے عرب و عجم کی سرحدوں کو چھوا ، خصوصا خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق کے دور میں اسلام عالمگیر قوت بن کر ابھرا۔ مدینہ سے سلطنت عثمانیہ تک ہند کبھی بھی اسلام کا مرکز نہ بن سکا ۔
سوال یوں ہی رہا کہ آخر میر عرب کو کس خطے سے ٹھنڈی ہوا آئی ۔ صدیاں بیت گئی اور اس کا جواب نہ ملا ۔
کشمیر کے ایک بزرگ کو خواب آئی کہ محمد رسول اللہ کسی بڑے اجتماع میں ہیں صلحا ئے امت قطار در قطار ہیں جماعت کا وقت ہے محمد رسول اللہ جماعت نہیں کروا رہے لوگوں نے دو تین بار کہا یارسول اللہ جماعت کروائیں مگر حضور کی نگائیں کسی اقبال کے انتظار میں تھی فرمایا اقبال کا انتظار ہے ۔ باالاخر اقبال آئے حضور نے پہلی صف پہ کھڑا کیا اور جماعت کروائی۔ وہ بزرگ بیتاب ہوئے اور صبح لوگوں سے خواب کا چرچا کیا کسی نے کہا کہ لاہور میں کسی اقبال کا چر چا عام ہے آپ وہاں جائیں شایدوہ ہوں وہ بزرگ لاہور پہنچے تو اقبال کو دیکھا آنکھیں برس پڑیں اقبال نے سمجھا کہ کوئی ضرورت مند ہے پیسے دینے لگے تو بزرگ نے خواب سنایا اور کہا کہ جس کا انتظار مصلحین امت کی صفوں میں حضور کررہے تھے وہ اقبال آپ ہی ہیں ۔۔۔۔۔
صدیوں کا راز اسی عظیم اقبال کی زبان سے فراموش ہونا تھا اقبال فرماتے ہیں کہ صدیاں جس سوال کا پر پریشان تھیں ہاں سنو ۔۔۔۔۔۔۔۔
میر عرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے
میرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے
علامہ محمد اقبال کا مدینہ سے حبی عشقی فکری اور نظریاتی تعلق تھا آپ قدرت کی طرف سے ایک تحفہ تھے ۔ راز کھلا کہ میر عرب کی نگاہ کسی مدینہ ثانی کو دیکھ رہی تھی اقبال اس مدینہ ثانی کی روحانی و ظاہری سرحدوں کیلئے منتخب کیے گئے ۔ چنانچہ 1930 کو خطبہ الہ آباد میں اقبال نے ظاہری سرحدیں قائم کیں ۔ اقبال روحانی سرحدوں کو تو قائم کر ہی رہے تھے صدیاں جس سے فیض پاتی رہیں گی ۔ ضرب کلیم ، بال جبریل ، بانگ درا اور اقبال کی دیگر تصانیف کی صورت میں مدینہ ثانی کا نصاب تیار ہوا۔ اقبال نے خواب نہیں دیکھا بلکہ نبی کریم کے خصوصی فیض سے امت مسلمہ کے مستقبل کی نشاندہی کی ۔
بے شک اقبال اپنے ہی اس شعر کی تعبیر ہیں کہ
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
اقبال عراق میں کیوں نہیں پیدا ہوئے جہاں بغداد ہے ، اقبال مدینہ میں کیوں نہیں پیدا ہوئے جو اسلام کا پہلا مرکز ہے ، اقبال یمن یا شام میں کیوں نے پیدا کیے گئے ۔ وہ کونسا راز ہے کہ اقبال برصغیر کیلئے ہی پیدا ہوئے ۔ وہ راز ہے 1947میں کھلا جب صفحہ ہستی پر پاکستان وجود میں آیا
وہی مدینہ ثانی ۔۔ اسلام کی آئندہ قیادت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بلاشبہ پاکستان ہی کیلئے میر عرب نے مژدہ سنایا تھا ۔ قائد اعظم محمد علی جناح اس قوم کو ملے جنہوں نے اپنی تمام تر صلاحیتیں انقلاب پاکستان کیلئے وقف کردیں ۔ محمد علی جناح ایک غیر معمولی انسان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے وکیل بھی تھے وہ صرف ذہین نہیں فتین تھے ۔ مجھے اس سوال کا جواب دیں کہ محمد علی جناح جیسے فتین شخص کے ہاتھ ملت کی بیڑی ہو 10
لاکھ کے قریب مسلمان شہید کردیے جائیں وہ اس آگ کو اپنے ایک لفظ سے بجھا سکتے تھے لیکن نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ انہوں نے ایسا نہیں کیا کیوں کہ ان کے ذمے تھا اس بھی زیادہ تباہی آجاتی تو بھی پاکستان بننا تھا ۔میر عرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے ، پاکستان وہی ہے ، پاکستان وہی ہے
No comments:
Post a Comment