Thursday, June 14, 2012

اسلام سے پہلے بیٹی کا مقام



ایک کالم میں چھوٹا سا واقعہ پڑھ رہا تھا, اس کو پڑھ کر آنسووں کو روکنا ناممکن ہو گیا۔اور سر بے اختیار اللہ پاک کے آگے جھک
گیا کے اللہ پاک نے ہمیں محمد صلی اللہ علیہ واللہ وسلم کا امتی بنایا ۔

آپ بھی پڑھئے یہ واقعہ

جیسا کے آپ سب نے کتابوں میں پڑھا ہوگا کے زمانہ جہالیت میں لوگ اپنی بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیتے تھے ۔یہ لوگ بچی کے ہاتھ میں مٹھائی کا ٹکڑا تھما دیتے اس کے ہاتھ میں گڑیا تھما کر اس کو قبر میں بٹھا دیتے ۔ بچی اس کو کھیل سمجھتی اور قبر میں گڑیا اور مٹھائی کے ٹکروں سے کھیلنے لگتی
یہ لوگ تب اس پر مٹی ڈالنا شروع کردیتے ۔بچی شروع میں اس کو بھی کھیل سمجھتی اور بچی شروع میں اس کو بھی کھیل سمجھتی لیکن جب مٹی اس کی گردن تک پہنچ جاتی تو وہ گھبرا کر اپنی ماں کو
آواز دیتی
چیختی چلاتی منتیں کرتی۔لیکن ظالم باپ اس بچی کو زندہ دفن کردیتا ۔اس قبیح فعل کے بعد جب وہ گھر آتا تو اس بچی کی چیخیں گھر تک اس کا پیچھا کرتی۔لیکن ان ظالموں کے دلوں پر تالے پڑئے ہوئے تھے جو نرم نہیں ہوتے تھے
۔بعض ایسے لوگ بھی تھے جن سے اسلام قبول کرنے سے پہلے یہ گناہ سرزرد ہو چکا تھا۔ان میں سے ایک صحابی رضہ اللہ تعالی عنہ نےاپنا واقعہ سنایا کے جب وہ اپنی بیٹی کو انگلی پکڑ کر قبرستان لے جارہا تھا ۔بچی نے میری انگلی پکڑ رکھی تھی وہ باپ کے لمس کی وجہ سے خوش ہو رہی تھی۔وہ سارہ راستہ مجھ سے باتیں کرتی رہی اور اپنی توتلی زبان میں مجھ سے باتیں کرتی رہی ۔میں سارہ راستہ اس کو اور اس کی فرمایشوں کو بہلاتا رہا۔میں اس لے کر قبرستان پہنچ گیا اوراس کے لیئے قبر کی جگہ منتخب کی ۔میں نیچے زمین پر بیٹھا اور اپنے ہاتھوں سے ریت اٹھانے لگا میری بیٹی نے مجھے کام کرتے دیکھا تو خود بھی کام میں لگ گئی ۔وہ بھی اپنے ننھے ہاتھوں سے مٹی کھودنے لگی ۔ہم دونوں باپ بیٹی ریت کھودتے رہے ۔میں نےاس دن صاف کپڑے پہن رکھے تھے ۔ریت کھودتے وقت میرے کپڑوں پر مٹی لگ گئی ۔میری بچی نے اٹھ کر میرے کپڑے صاف کیئے ۔میں اس کے لیئے قبر تیار کر رہا تھا اور وہ میرے کپڑے صاف کررہی تھی
قبر تیار ہوئی تو میں نے اس میں اس کو بٹھایا اور اس پر مٹی ڈالنی شروع کر دی ۔وہ بھی اپنے ننھے ہاتھوں سے اپنے اوپر مٹی ڈالنے لگی ۔وہ مٹی ڈالتی جاتی تھی اور قہقہ لگاتی جاتی تھی اور ساتھ ساتھ مجھ سے فرمائش کرتی جاتی تھی ۔لیکن میں دل ہی دل میں اپنے جھوٹے خداوں سے دعا کر رہا تھا کے وہ مجھے بیٹا دیں ۔میں دعا کرتا رہا اور بیٹی ریت میں دفن ہوتی رہی ۔میں نے آخر میں جب اس کے سر پر مٹی ڈالنی شروع کی تو اس نے خوفزدہ نظروں سےمجھے دیکھا اور کہا
"ابا آپ پر میری جان آپ مجھے کیوں دفن کرنا چاہتے ہیں "
میں نے اپنے دل کو پتھر بنا لیا اور دونوں ہاتھوں سے تیزی سے قبر پر مٹی پھینکنے لگا۔میری بیٹی روتی رہی چیختی رہی دہایاں دیتی رہی لیکں میں نے اس کو قبر میں زندہ دفن کردیا
یہ وہ نقطہ تھا جہاں رحمت العلماین صلی اللہ علیہ واللہ وسلم کا ضبط بھی جواب دے گیا اور آپ کی ہچکیاں بندھ گئی ۔داڑھی مبارک آنسووں سے تر ہوگئی ۔اور آواز مبارک حلق میں گولا بن کر پھنسنے لگی ۔وہ شخص دھاڑیں مار مار کر رو رہا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ واللہ وسلم ہچکیاں لے رہے تھے ۔
اس زمانے کے لوگ کہتے ہیں کہ وہ لوگ کتنے ظالم اور جاہل تھے۔ لیکن لوگ اپنے زمانے کو نہیں دیکھتے۔ لیکن اگر آج ہم اپنا زمانہ دیکھے تو یہ کام اس زمانے سے زیادہ ہو رہا ہے۔اس وقت کے لوگ بیٹیوں کو پیدا ہونے کے بعد زندہ دفن کرتے تھے۔ جب کے آج کے زمانے کے لوگ پیدا ہونے سے پہلے ہی Abortion کے ذریعے قتل کر کے دفن کر دیتے ہیں
پیارے رسول صلی اللہ علیہ واللہ وسلم پر کروڑوں درود کے جن کی بدولت ہمیں زمانہ جہالیت کی اس جاہلانہ رسم سے نجات ملی. 

Monday, June 11, 2012

گوادر


پاکستان کے انتہائی جنوب مغرب میں اور دنیا کے سب سے بڑے بحری تجارتی راستے پر واقع60 کلو میٹر طویل ساحلی پٹی والے شہر گوادر میں اکیسویں صدی کی ضروتوںسے آراستہ جدید بندرگاہ کی تکمیل کا وقت جوں جوں قریب آرہا ہے اس سونے کی چڑیا کی اہمیت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔آنے والے وقت میں نہ صرف پاکستان بلکہ چین ، افغانستان اور وسطیٰ ایشیاءکے ممالک کی بحری تجارت کا زیادہ تر دارومدار اسی بندر گاہ پر ہوگا ۔گوادر اور اس کے گرد و نواح کی تاریخ بہت پرانی ہے۔یہ علاقہ وادی کلانچ اور وادی دشت بھی کہلاتا ہے اس کا زیادہ رقبہ بے آباد اور بنجر ہے ۔یہ مکران کی تاریخ میں ہمیشہ سے ہی خاص اہمیت کا حا مل رہا ہے۔ معلوم تاریخ کی ایک روایت کے مطابق حضرت داﺅد علیہ السلام کے زمانے میں جب قحط پڑا تو وادی سینا سے بہت سے افراد کوچ کر کے وادی مکران کے علاقے میں آگئے ۔مکران کا یہ علاقہ ہزاروں سال تک ایران کا حصہ رہا ہے۔ ایرانی بادشاہ کاﺅس اور افراسیاب کے دور میں بھی ایران کی عملداری میںتھا ۔325قبل مسیح میں سکندر اعظم جب برصغیر سے واپس یونان جا رہا تھا تو اس نے یہ علاقہ اتفاقاً دریافت کیا اس کی بحری فوج کے سپہ سالار (Admiral Nearchos)نے اپنے جہاز اس کی بندرگاہ پر لنگر انداز کیے اور اپنی یادداشتوں میں اس علاقے کے اہم شہروں کو قلمات ،گوادر ،پشوکان اور چاہ بارکے ناموں سے لکھا ہے۔اہم سمندری راستے پر واقع ہونے کی وجہ سے سکندر اعظم نے اس علاقے کو فتح کر کے اپنے ایک جنرل Seleukos Nikatorکو یہاں کا حکمران بنا دیا جو303قبل مسیح تک حکومت کرتا رہا ۔303ق م میں برصغیر کے حکمران چندر گپتا نے حملہ کر کے یونانی جنرل سے یہ علاقہ چھین لیا اور اپنی حکومت میں شامل کر لیامگر 100سال بعد 202ق م میں پھر یہاں کی حکمرانی ایران کے بادشاہوںکے پاس چلی گئی ۔ 711عیسوی میں مسلمان جنرل محمد بن قاسم نے یہ علاقہ فتح کر لیا۔ہندوستان کے مغل بادشاہوں کے زمانے میں یہ علاقہ مغلیہ سلطنت کا حصہ رہا جب کہ 16ویں صدی میں پرتگیزیوں نے مکران کے متعدد علاقوں جن میں یہ علاقہ بھی شامل تھا پر قبضہ کر لیا۔ 1581میں پرتگیزیوں نے اس علاقے کے دو اہم تجارتی شہروں پسنی اور گوادر کو جلا دیا ۔ یہ علاقہ متعدد مقامی حکمرانوں کے درمیان بھی تختہ مشق بنا رہا اور کبھی اس پر بولیدی حکمران رہے تو کبھی رندوں کو حکومت ملی کبھی ملک حکمران بن گئے تو کبھی گیچکیوںنے اس پر قبضہ کر لیا۔مگر اہم حکمرانوں میں بولیدی اور گچکی قبیلے ہی رہے ہیں ۔بولیدی خاندان کو اس وقت بہت پزیرائی ملی جب انھوں نے ذکری فرقے کو اپنا لیا اگرچہ گچکی بھی ذکری فرقے سے ہی تعلق رکھتے تھے ۔1740تک بولیدی حکومت کرتے رہے ان کے بعد گچکیوں کی ایک عرصہ تک حکمرانی رہی مگر خاندانی اختلافات کی وجہ سے جب یہ کمزور پڑے تو خان آف قلات میر ناصر خان اول نے کئی مرتبہ ان پر چڑھائی کی جس کے نتیجے میں ان دونوں نے اس علاقے اور یہاں سے ہونے والی آمدن کوآپس میں تقسیم کر لیا۔ 1775 کے قریب مسقط کے حکمرانوں نے وسطیٰ ایشیاءکے ممالک سے تجارت کیلئے اس علاقے کو مستعار لے لیا اور گوادر کی بندر گاہ کو عرب علاقوں سے وسطیٰ ایشیاءکے ممالک کی تجارت کیلئے استعمال کرنے لگے جن میں زیادہ تر ہاتھی دانت اور اس کی مصنوعات ، گرم مصالے ، اونی لباس اور افریقی غلاموں کی تجارت ہوتی۔ 1783میںمسقط کے بادشاہ کی اپنے بھائی سعد سلطان سے جھگڑا ہو گیاجس پر سعد سلطان نے خان آف قلات میر ناصر خان کو خط لکھا جس میں اس نے یہاں آنے کی خواہش ظاہر کی چنانچہ خان نے نہ صرف سلطان کو فوری طور پر آ جانے کو کہا بلکہ گوادر کا علاقہ اور وہاں کی آمدن (ریونیو)بھی لا محدود وقت ( وقت کا تعین نہ کیا گیا کہ کتنے عرصے تک یہ علاقہ اس کے نام ہو گا)کیلئے سلطان کے نام کر دیا ۔جس کے بعد سلطان نے گوادر میں آ کر رہائش اختیار کر لی۔1797میں سلطان واپس مسقط چلا گیا اور وہاں اپنی کھوئی ہوئی حکومت حاصل کر لی۔1804میں سلطان کی وفات کے بعد اس کے بیٹے حکمران بن گئے تو اس دور میں بولیدیوں نے ایک بار پھر گوادر پر قبضہ کر لیا جس پر مسقط سے فوجوں نے آ کر اس علاقے کو بولیدیوں سے واگزار کروایا۔1838-39کی پہلی افغان جنگ میں برطانیہ کی توجہ اس علاقہ پر ہوئی تو بعد میں1861میں برطانوی فوج نے میجر گولڈ سمتھ کی نگرانی آکر اس علاقے پر قبضہ کر لیا اور1863میں گوادر میں اپنا ایک اسسٹنٹ پولٹیکل ایجنٹ مقرر کر دیاچنانچہ ہندوستان میں برطانیہ کی برٹش انڈیا سٹیم نیویگیشن کمپنی کے جہازوں نے گوادر اور پسنی کی بندر گاہوں کو استعمال کرنا شروع کر دیا۔1863میں گوادر میں پہلا تار گھر (ٹیلی گرام آفس )قائم ہوا جبکہ پسنی میں بھی تار گھر بنایا گیا۔1894کو گوادر میں پہلا پوسٹ آفس کھلا جبکہ 1903کو پسنی اور1904کو اوماڑہ میں ڈاک خانے قائم کیے گئے۔1947میں جب برصغیر کی تقسیم ہوئی اور بھارت اور پاکستان کے نام سے دو بڑی ریاستیں معرض وجود میں آئیں تو گوادر اور اس کے گرد ونواح کے علاوہ یہ علاقہ قلات میں شامل تھا۔1955میں اس علاقے کو مکران ضلع بنا دیا گیا جبکہ1958میں مسقط نے بھی گوادر اور اس کے گرد ونواح کا علاقہ واپس پاکستان کو دے دیاجس پر پاکستان کی حکومت نے گوادر کو تحصیل کو درجہ دے کر اسے ضلع مکران میں شامل کر دیا۔یکم جولائی 1970کو جب ون یونٹ کا خاتمہ ہوا اور بلوچستان بھی ایک صوبے کی حیثیت اختیار کر گیا تو مکران کو بھی ضلعی اختیار مل گئے۔1977میں مکران کو ڈویژن کا درجہ دے دیا گیا اور یکم جولائی1977کو تربت ،پنجگور اور گوادر تین ضلعے بنا دیے۔
گوادر کا موجودہ شہر ایک چھوٹا سا شہر ہے جس کی آبادی ایک لاکھ افراد پر مشتمل ہے ۔ اس شہر کو سمندر نے تین طرف سے اپنے گھیرے میں لیا ہوا ہے اور ہر وقت سمندری ہوائیں چلتی رہتی ہیں جس کی وجہ سے یہ ایک خوبصورت اوردلفریب منظر پیش کرتا ہے ویسے بھی گوادرکے معنی ہوا کا دروازہ ہے ۔گوا کے معنی ہوا اور در کا مطلب دروازہ ہے۔ گہرے سمندر کے علاوہ شہر کے ارد گرد مٹی کی بلند بالا چٹانیں موجود ہیں۔اس شہر کے باسیوں کا زیادہ تر گزر بسر مچھلی کے شکار پر ہوتا ہے اور دیگر اقتصادی اور معاشی ضرورتیں ہمسایہ ممالک ایران،دوبئی اور مسقظ سے پوری ہوتی ہیں۔
فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور میں ہی گوادر میں جدید بندرگاہ بنانے کا منصوبہ بن گیا تھا مگرفنڈ کی کمی اور دیگر ملکی اور بین الااقوامی معامات اور سیاسی مصلحتوں کی وجہ اس کی تعمیر کاکام شروع نہ ہو سکا۔مگر جب امریکہ نے افغانستان پر طالبان حکومت کے خاتمے کے نام پر حملہ کیا تو اس کے بعد ابھی چار ماہ بھی نہیں گزرے تھے کہ پاکستان اور چین نے ملکر گوادر میں اکیسویں صدی کی ضروتوں کے مطابق بندرگاہ بنانی شروع کر دی۔چینیوں کے اس شہر میں داخلے کے ساتھ ہی شہر کی اہمیت یکدم کئی گنا بڑھ گئی اور مستقبل کا بین الاقوامی شہر اور فری ٹیکس زون کا اعلان ہوتے ہی ملک بھرکے سرمایہ دار اور دولت مند کھربوں روپے لیکر اس شہر میں پہنچ گئے اور زمینوں کو خرید نے کیلئے لوکل شہریوں کو ان کے منہ مانگے روپے دینے شروع کر دیے جس کی وجہ سے دو سو روپے کرایہ کی دکان تیس ہزار روپے تک ہو گئی اور تیس ہزار روپے فی ایکڑ زمین کی قیمت دو سے تین کروڑ روپے تک پہنچ گئی چنانچہ گوادر کا عام شہری جو چند ایکڑ کا مالک تھا دیکھتے ہی دیکھتے کروڑ پتی اورارب پتی بن گیاچنانچہ اب شہر میں بے شمار لینڈ کروزر ، پیجارو، پراڈو ، ویکو، ٹیوٹا ،ہنڈا اور دیگر نوعیت کی امپورٹڈ قیمتی گاڑیوں کی بھرمار ہو گئی ہے جس کی وجہ سے چھوٹی اور تنگ سڑکیں مزید سکڑ گئیں ۔ شہر کے تقریبا تمام بے روز گار افراد نے پراپرٹی ڈیلر کے دفتر کھول لیے جبکہ دوسرے شہروں سے آئے ہوئے افراد نے پراپرٹی کو منافع بخش کاروبار سمجھتے ہوئے بڑے بڑے ادارے قائم کر لیے۔شہر کی ابتر حالت کو بہتر بنانے اور منظم کرنے کیلئے حکومت نے 2003میں گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے نام سے ایک ادارہ بنایا جس کا قانون بلوچستان کی صوبائی اسمبلی نے2002میں منظور کیا تھامگر نومولود ادارہ تاحال شہر کی حالت کو سدھارنے میں کامیاب نہ ہو سکا ۔
گوادر شہر مستقبل میں ایک بین الاقوامی شہر کی حیثیت اختیار کر جائے گااور نہ صرف بلوچستان بلکہ پاکستان کا اقتصادی لحاظ سے ایک اہم شہر بن جائے گا اور یہاں کی بندرگاہ پاکستان کے علاوہ چین، افغانستان، سنٹرل ایشیاءکے ممالک تاجکستان، قازقستان، آذربائیجان، ازبکستان ،ترکمانستان اور دیگر روسی ریاستوں کے استعمال میں آئے گی جس سے پاکستان کو بے شمار ریونیو ملے گا۔گوادر کی بڑھتی ہوئی اہمیت کی وجہ سے اب لوگوں کی توجہ اس طرف ہو چکی ہے چنانچہ ایسے میں بے شمار فراڈیوں اور دھوکے بازوں نے بھی جعلی اور دو نمبر رہائشی سکیموں اور دیگر کالونیوںکی آڑ میں لوگوں کو لوٹنا شروع کر رکھا ہے کیونکہ پاکستان کے دیگر شہروں سے تعلق رکھنے والے افراد گوادر کی اصل صورتحال سے بے خبر ہونے کی وجہ سے ان فراڈیوں کی چکنی چپڑی باتوں اور دلفریب اشتہارات کی وجہ سے ان کے جال میں پھنس کر اپنی جمع پونجھی سے محروم ہو رہے ہیں جبکہ یہاں ایسی سکیمیں جن کو گوادر دویلپمنٹ اتھارٹی نے این او سی بھی جاری کر رکھے ہیں مگر ان کی ابھی ابتداءبھی نہیں ہو سکی اور وہ اپنے پوسٹروں اور پمفلٹوں پر دوبئی اور ہانگ کانگ کے مناظر اور عمارتیں دکھا کر لوگوں کو بے وقوف بنا رہے ہیںویسے بھی گوادر میں پینے کے پانی کی کمیابی، سیوریج کے نظام کی عدم دستیابی اور دیگر عمارتی سامان کی عدم موجودگی کی وجہ سے نہ صرف پرائیویٹ سیکٹر بلکہ سرکاری سیکٹر میں بھی کوئی خاص کام شروع نہیں ہو سکا ماسوائے سی پورٹ اور چند ایک عمارتیں جن میں پرل کانٹی نینٹل اور دیگر منصوبے شامل ہیں پر کام ہو رہا ہے۔ جبکہ موجودہ گوادر شہرمیںٹوٹی ہوئی سڑکیں، چھوٹی چھوٹی تنگ گلیاں اوربازاروںمیں گندگی کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں ۔
گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی ایک چیئرمین ، ڈائریکٹر جنرل اور گورننگ باڈی جس میں دو وفاقی وزیر ،ایک صوبائی وزیر ،ڈسٹرکٹ ناظم اور ایڈیشنل چیف سیکرٹری ہوتے ہیں پر مشتمل ایک ادارہ ہے۔ جی ڈی اے کے ماسٹر پلان کے مطابق گوادر شہر کا علاقہ موجودہ پوری گوادر تحصیل کے برابر ہے اور شہر کی بڑی سڑکیں 200فٹ چوڑی اور چار لین پر مشتمل ہو نگی جبکہ ان سڑکوں کے دونوں جانب 2/2لین کی سروس روڈ ہو گی اور شہر کے مین روڈ کا نام جناح ایونیو رکھا گیا ہے جو تقریبا14کلو میٹر طویل ہے اور اسی طرح بلوچستان براڈوے بھی200فٹ چوڑی اور سروس روڈ پر مشتمل ہو گی اور اس کی لمبائی تقریبا60کلو میٹر ہے جبکہ سمندر کے ساتھ ساتھ تقریبا24کلو میٹر سڑک تعمیر ہو گی اور جو چوڑائی کے لحاظ سے جناح ایونیو کی ماند ہو گی۔ یہ سڑکیں نہ صرف ایشیاءبلکہ یورپ کے بہت سے ممالک کے شہروں سے بھی بڑی سڑکیں ہو نگی ۔ ابتک ترقیاتی کاموں پر تقریبا60سے70ملین روپے خرچ ہو چکے ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ اخراجات بھی بڑھتے چلے جائیں گے ۔شہر میں ترقیاتی کاموں میں تاخیر اور سستی کی سب سے اہم وجہ میٹریل کا دور دراز علاقوںسے لایا جا ناہے جیسے ریت 135کلو میٹر سے لایا جاتا ہے جبکہ سیمنٹ اور سریا وغیرہ 800کلو میٹر دور کراچی سے لایا جاتا ہے۔ موجودہ گوادر شہر صرف 800میٹر لمباہے جبکہ ماسٹر پلان کے مطابق آنے والے دنوں میں گوادر تقریبا40کلومیٹر عریض اور60کلو میٹر طویل ہو گا۔ اب تک جی ڈی اے نے قانون کے مطابق رہائشی ، انڈسٹریل اور کمرشل نوعیت کی30 سے زائد سکیموںکے این او سی جاری کیے ہیں جبکہ سرکاری سکیمیں اس وقت 2ہیں جن میں سنگار ہاﺅسنگ سکیم جو تقریبا 13کلو میٹر لمبی اور4.5کلو میٹر چوڑی سمندر میںمٹی کی پہاڑی پر ہے جبکہ دوسری سرکاری سکیم نیو ٹاﺅن کے نام سے ہو گی جس کے 4فیز ہو نگے اور اس میں 120گز سے 2000گز کے پلاٹ ہو نگے۔ گوادر فری پورٹ نہیں بلکہ ٹیکس فری زون شہر ہو گا۔جی ڈی اے نے این او سی جاری کرتے وقت پرائیویٹ اداروں کو اس بات کا پابند کیا ہے کہ وہ اپنی اپنی سکیموں میں پینے کے پانی کا انتظام کریں گے اور سمندر کا پانی صاف کرنے کے پلانٹ لگائےں گے جبکہ سیوریج کے پانی کے نکاس کا بھی ایسا انتطام کیا جا رہا ہے کہ گندا پانی سمندر میں شامل ہو کر اسے آلودہ نہ کرے اور کراچی جیسی صورتحال پیدا نہ ہو اور اس مقصد کیلئے ہر پرائیویٹ سکیم کو بھی پابند کیا ہے کہ وہ سیوریج کے پانی کو صاف کرنے کے ٹریٹمنٹ اور ری سائیکلنگ پلانٹ لگائیںاور اس پانی کو گرین بیلٹ اور پارکوں میں استعمال کیا جائے۔ اب گوادر شہر میں آکڑہ ڈیم سے پینے کا پانی آتاہے جو 45ہزار کی آبادی کیلئے کافی تھا مگر اب آبادی میں اضافہ کی وجہ سے پانی کا مسئلہ پیدا ہو گیا اور موجودہ پانی کی مقدار کم پڑ گئی کیونکہ اب گوادر کی آبادی ایک لاکھ کے لگ بھگ ہے اور آنے والے دنوں میں اس میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا جس کیلئے میرانی ڈیم کے منصوبے پر کام ہو رہا ہے مگر یہ گوادر سے120کلو میٹر دور ہے جہاں سے پانی لانا بہت مشکل کام ہو گا جبکہ میرانی ڈیم کے پانی کا سردیوں کی بارشوں پر منحصر ہے اور جیسا کہ اکثر ہوتا ہے کہ کئی کئی سال بارشیں نہیں ہوتی تو ڈیم میں پانی بھی نہیں آئے گا لہذا یہ کہا جائے تو درست ہو گا کہ گوادر میں اصل مسئلہ پانی کا ہی ہو گا جو ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔
گوارد کی بندر گاہ خلیج فارس ،بحیرہ عرب ،بحر ہند ،خلیج بنگال اور اسی سمندری بیلٹ میں واقع تمام بندرگاہوں سے زیادہ گہری بندر گاہ ہو گی اور اس میں بڑے بڑے کارگو بحری جہاز باآسانی لنگر انداز ہو سکیں گئے اس سال جون جولائی تک نئی بندرگاہ پر 50ہزار ٹن وزنی بحری جہاز لنگر انداز ہونے لگیں گے جبکہ اگلے مرحلے میںڈھائی لاکھ ٹن وزنی جہاز لنگر انداز ہو سکیں گے۔ اس بندر گاہ کے ذریعے نہ صرف پاکستان بلکہ افغانستان ،چین اور سنٹرل ایشیاءکی تمام ریاستوں کی تجارت ہو گی۔بندر گاہ کی گہرائی 14.5 میٹر ہوگی یہ ایک بڑی ،وسیع اور محفوظ بندر گاہ ہے ۔ اس کی اہمیت کے پیش نظر بہت سے ممالک کی اس پر نظریں ہیں ۔ بندرگاہ کا ایک فیز مکمل ہو چکا ہے جس میں 3 برتھ اور ایک ریمپ شامل ہے ۔ریمپ پر Ro-Ro جہاز لنگر انداز ہو سکیں گئے جبکہ 5 عدد فکس کرینیں اور 2 عدد موبائل کرینیں جبکہ ایک R T G کرین آپریشنل حالت میں لگ چکی ہیں ۔ ایک برتھ کی لمبائی 600 میٹر ہے جس پر بیک وقت کئی جہاز کھڑے ہو سکیں گے جبکہ دوسرے فیز میں 10 برتھوں کی تعمیر ہو گی۔ بندر گاہ چلانے کیلئے تمام بنیادی سامان اور آلات بھی لگ چکے ہیںمگر یہاں پر کام اس لیے نہیں ہو رہا کہ دوسرے علاقوں جیسے سنٹرل ایشیاءکے ممالک کیلئے رابطہ سڑکیں موجود نہیں ہیں اور اس مقصد کیلئے M4 کی تعمیر پر کام شروع ہو چکا ہے جو تقریبا 850کلو میٹر طویل موٹروے ہو گی جو گوادر سے چمن کے راستے افغانستان اور سنٹرل ایشیاءکے ممالک اوربذریعہ انڈس ہائی وے سے سلک روڈ( شاہراہ ریشم ) سے چین تک جائے گی اور اس کی تعمیر کے بعد ہی بندرگاہ پر اصل کام شروع ہوسکے گا
 — 

Sunday, June 10, 2012



بلوچستان ۔امریکہ بھارت اور اسرائیل کا کھیل.... 2
کرنل (ر) محمد زمان
روس کی افغانستان میں شکست اور پھر روس کی 16ٹکڑوں میں تقسیم کے بعد روس کی گریٹر بلوچستان‘ پختونستان اور بلوچستان کی علیحدگی کی خواہش تو پوری نہ ہو سکی۔ اب 2012ءمیں روس صرف یہ چاہتا ہے کہ پاکستان (اور خصوصاً بلوچستان) سے امریکہ کا اثرورسوخ یا تو کم ہو جائے یا وہ وسطی ایشیائی ریاستوں کی تیل، گیس، معدنیات اور تجارت سے فائدہ نہ اٹھا سکے۔ چونکہ روس نے ویت نام میں امریکہ کو شکست دی اور پھر امریکہ نے روس کو افغانستان میں شکست دی اور اب روس بھی چاہتا ہے کہ امریکہ کو افغانستان میں نہ صرف شکست ہو بلکہ ہو سکے تو امریکہ کے کم از کم تین ٹکڑے ضرور ہوں۔ اس معاملے میں روسی اخبارات میں امریکہ کی تین ریاستوں میں تقسیم کے نقشے بھی کئی مرتبہ شائع ہوئے ہیں۔ روس امریکہ کو ٹکڑوں میں تقسیم تو شاید نہ کر سکے لیکن اسے معاشی طور پر اتنا تباہ ضرور کروا دے گا کہ امریکہ ورلڈ پاور سٹیٹس World Power Status سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔

1970ءکی دہائی میں امریکی سٹریٹجسٹ (Strategist) برزنسکی نے لکھا تھا کہ :
1۔ روس کے جلد ٹکڑے ہو جائینگے۔ (اس کےلئے سی آئی اے نے روس کو ورغلایا کہ افغانستان اور بلوچستان پر قبضہ کر لو، فائدے میں رہو گے)
2۔ جو قوم یورو ایشیا پر قبضہ کرےگی (جس میں بلوچستان افغانستان بھی شامل ہے) وہ دنیا کے مرکز پر قبضہ کرےگی اور اس قوم کےلئے ایشیا اور افریقہ کے وسائل پر قبضہ آسان ہو جائےگا۔
3۔ مستقبل میں مشرقی یورپ نیٹو ممالک کے ساتھ مل کر روس کےخلاف مغربی فرنٹ کھولیں گے۔
4۔ عراق اور افغانستان پر قبضہ کر کے ایشیاءمیں جنوبی فرنٹ کھولا جائےگا۔ اس کےلئے اسرائیل اور بھارت امریکہ کی معاونت کرینگے۔
5۔ دنیا کے تیل، گیس اور اہم راستوں پر امریکہ کا قبضہ ہو جائےگا۔

امریکہ نے 9/11کا ڈرامہ اسی لئے رچایا تھا کہ افغانستان اور پاکستان کے صوبے بلوچستان پر قبضہ کر کے دنیا کے تیل، گیس کے ذخائر اور اہم راستوں پر قبضہ کر سکے۔ اسی لئے امریکہ
1۔ چین کے گرد گھیرا ڈالنا چاہتا ہے۔
2۔ چین کو گوادر تک رسائی نہیں دینا چاہتا کیونکہ چین سے گوادر عرب افریقہ اور یورپ کےلئے سب سے چھوٹا راستہ ہے۔
3۔ چین کو ایران اور عرب ممالک کے تیل اور گیس کے ذخائر تک رسائی نہیں دینا چاہتا اور عرب افریقہ اور یورپ کی منڈیوں تک رسائی کی مزاحمت کرنا چاہتا ہے۔ اس کےلئے بھارت امریکہ کی معاونت کر رہا ہے۔
4۔ امریکہ بحیرہ کیسپئن کا 6ارب بیرل تیل اور وسطی ایشیائی ریاستوں کے تیل اور گیس پر اپنی اجارہ داری رکھنا چاہتا ہے تاکہ امریکہ کو سستا تیل اور گیس ملے اور وہ دنیا کو مہنگا فروخت کرے۔
پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ امریکہ اپنے عزائم میں ناکام رہا۔ امریکہ ہندوستان اور اسرائیل نے مل کر پاکستان کے شمالی حصے سوات اور وزیرستان پر مشتمل ایک علیحدہ ملک بنانے کی کوشش کی۔ کیونکہ

1۔ سوات دنیا کا خوبصورت ترین علاقہ ہے۔ امریکہ کا خیال تھا کہ اگر یہ علیحدہ ملک بن جائے تو صرف سیاح یہاں اتنے آئینگے کہ اس ملک کو زرمبادلہ کی کمی نہیں ہو گی۔
2۔ سوات میں ہیرے جواہرات کی کانیں ہیں جہاں سے اربوں ڈالر کمائے جا سکتے ہیں۔
3۔ سوات اور وزیرستان میں اربوں ٹن کے سنگ مرمر کے کئی رنگوں کے ذخائر ہیں اور 19قسم کی قیمتی دھاتیں ہیں جن کو برآمد کر کے قیمتی زرمبادلہ کمایا جا سکتا ہے۔
4۔ سوات اور وزیرستان میں یورینیم کی کانیں ہیں۔ جہاں سے پاکستان کو یورینیم کی سپلائی روکنا اور امریکہ، اسرائیل اور بھارت کو برآمد کرنا تھا۔
5۔ مشرقی پاکستان کے بعد ایٹمی پاکستان کے مزید ٹکڑے کر کے اکلوتی مسلم نیوکلیئر پاور کو کمزور کرنا اور اسکے ایٹمی اثاثوں پر قبضہ کرنا تھا۔
اس سازش کو کامیاب بنانے کےلئے امریکہ نے

1۔ ہندوستان کو افغانستان میں 15 قونصل خانے بنانے کی اجازت دی جہاں سے جاسوسی کا نیٹ ورک اور تخریب کار تیار کئے جاتے ہیں۔
2۔ ہندوستان کو اپنے اور اسرائیل اور امریکہ کے تربیت یافتہ دہشت گرد پاکستان میں بھیجنے کی سہولیات مہیا کیں۔
3۔ پاکستان کے امریکہ میں سفیر کے ذریعے ہزاروں سی آئی اے اور بلیک واٹرکے کمانڈوز پاکستان میں سیاحوں کی صورت میں بھیجے۔ پاکستان کے امریکہ میں سفیر نے نہ پاکستان آرمی کو مطلع کیا اور نہ آئی ایس آئی کو۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بھارت اسرائیل اور امریکہ کے تعاون سے ان ہزاروں سی آئی اے کے ایجنٹوں اور بلیک واٹر کمانڈوز نے پاکستان میں دھماکے کرانے شروع کئے۔ ان تحریب کاروں نے پاکستان میں 45000 پاکستانیوں کو شہید کیا۔ لاکھوں زخمی ہوئے اور 70ارب ڈالر کے پل، دفاتر، سکول وغیرہ تباہ کئے۔
4ہندوستانی ایجنسیوں اور دہشت گردوں نے ان علاقوں میں رہنے کےلئے سرنگیں بنائیں جہاں ہیرے جواہرات اور یورینیم کے ذخائر ہیں۔ کیونکہ ہندوستان میں یورینیم کے ذخائر بہت کم ہیں اور وہ دنیا سے خریدتا ہے۔ آجکل افغانستان سے ہر ہفتہ 15 ایئرانڈیا کی پروازیں یہی یورینیم اور ہیرے جواہرات کی مٹی لے کر ہر ہفتہ بھارت جاتی ہیں۔ گو کہ ہندوستان میں ہیرے جواہرات بہت کم ہیں لیکن اب پاکستانی ہیرے جواہرات کی وجہ سے ہندوستان میں بین الاقوامی ہیرے جواہرات کی منڈی اور ایکسچینج ہے۔
اللہ تعالیٰ نے پاکستان کی مدد کی۔ پاکستان کے عوام اور افواج نے مکمل یکجہتی کے
ساتھ مقابلہ کیا۔

1۔ پاکستان آرمی کے 2بریگیڈ تباہ ہوئے۔ ایک لیفٹیننٹ جنرل 2میجر جنرل، 5 بریگیڈیئر،
20 لیفٹیننٹ کرنل اور 5000 کے قریب آفیسر اور جوان شہید ہوئے۔ اس سے پہلے دنیا کی تاریخ میں 10سپاہیوں کے پیچھے ایک آفیسر شہید ہوتا تھا۔ لیکن سوات اور وزیرستان میں پاکستان آرمی نے جنگوں کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا۔ 6سپاہیوں کے پیچھے ایک آفیسر شہید ہوا۔
2ہندوستان اسرائیل اور امریکہ کے ایوانوں میں صف ماتم بچھ گئی کیونکہ اتنی زیادہ قربانی آج تک کسی فوج نے اپنے ملک کےلئے نہیں دی تھی۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی تعداد بھی افغانستان میں 150000 ہے لیکن پچھلے 11سالوں میں امریکہ اور نیٹو کا ایک بھی جنرل، ایک بھی بریگیڈئر اور ایک بھی کرنل نہیں مرا۔
3۔ پاکستان کے عوام نے اپنی افواج کا بھرپور ساتھ دیا۔ جتنے بھی فوجی شہید ہوئے ان کو پورے اعزاز کے ساتھ دفنایا۔
امریکہ کو افغانستان اور پاکستان کے خلاف جنگ بہت مہنگی پڑی۔ افغانستان جس کو
Graveyard of Empires کہتے ہیں۔ امریکہ روس کی طرح تباہ ہو رہا ہے۔
1۔ امریکہ پر 16کھرب ڈالر کا قرضہ چڑھ گیا ہے۔
2۔ امریکی سپاہی جتنے مرتے ہیں اس سے زیادہ افغانستان میں خودکشی کرتے ہیں۔
3۔ امریکہ کی معیشت سے 14کھرب ڈالر بینکوں اور گھروں کے خسارے میں ڈوب گئے ہیں۔ (جاری)
4۔ امریکہ کی معیشت تباہی کے دہانے پر ہے۔
5۔ امریکہ کے پاس اپنے 250بحری جہازوں کی جگہ نئے خریدنے کی شکست نہیں۔ امریکی نیوی کے یہ جہاز 40سال پرانے ہیں۔
6۔ امریکہ کے پاس اپنے 30/40سال پرانے ہوائی جہاز تبدیل کرنے کو ڈالر نہیں ہیں۔
7۔ امریکی ڈالر اپنی ساکھ کھو رہا ہے۔ مستقبل قریب میں امریکی ڈالر کی جگہ چین اور روس کی کرنسیاں لے سکتی ہیں۔
8۔ امریکی قوم کسی قسم کی لڑائی کے موڈ میں نہیں ہیں۔
9۔ Unipolarity کی ہوس نے American Empire کو ختم کر دیا ہے۔ اب بادشاہ اور اس کی رعایا بغیر کپڑوں کے ہے۔ (Kirkpatric Sole)
10۔ اب امریکہ نے ہنری کسنجر کی نئی تھیوری پر عمل شروع کر دیا ہے جس کےمطابق اب Centre of gravity شفٹ ہو گیا ہے اور اب بحرالکاہل (Pacific Ocean) کی طرف امریکہ کی نظر ہے۔ امریکی صدر اوبامہ نے اپنی نئی ڈاکٹرائن Asia Pacific کی طرف کر دی ہے جس کےمطابق امریکہ کے معاشی اور سیکورٹی مفادات اب مغربی بحرالکاہل، مشرقی ایشیاءاور بحیرہ ہند کی طرف ہو گئے ہیں۔ اس کےلئے امریکہ 346 بحری جہازوں کی نیوی تیار کرےگا۔ امریکہ کی بدقسمتی کہ اب اسکے پاس 30/40سال پرانے بحری جہاز تبدیل کرنے کو ڈالر نہیں ہیں۔
11۔ امریکہ چین کو گھیرنے کےلئے ہندوستان، جاپان جنوبی کوریا اور آسٹریلیا کے ساتھ مل کر Coalition of Willing بنائے گا۔
12۔ امریکہ توبہ کرتا کہ اب عراق اور افغانستان کی طرح کسی ملک پر قبضہ نہیں کرے گا۔
13۔ امریکہ اور اس کے اتحادی اسرائیل بھارت آسٹریلیا اور جنوبی کوریا مل کر صومالیہ، لیبیا، بحرین اور شام کی طرح مداخلت کریں گے۔
14۔ امریکہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر ہوائی دستوں (Air borne forces) اور سپیشل افواج (سی آئی اے اور بلیک وائر کمانڈوز) لڑاکا اور بمبار طیاروں اور بحری جہازوں کی مدد سے دنیا میں سرجیکل آپریشن Surgical Operation کرے گا۔
15۔ امریکہ ہنری کسنجر کی تھیوری (Daily squib co.uh 11.2.2002) کے مطابق تیل کے کنٹرول سے قوموں کو کنٹرول کرے گا۔ خوراک کے ذرائع پر کنٹرول کے لئے جس طرح ڈاکو کھانے پینے اور زیورات کی تلاش میں ڈاکے مارتے ہیں اسی طرح امریکہ نے 7عرب ملکوں کے تیل کے ذخائر پر قبضہ کرنا ہے۔ چین اور روس امریکہ کا کب تک مقابلہ کریں گے۔ مستقبل میں آدھے سے زیادہ عرب اسرائیل میں شامل ہوں گے۔
16۔ بلوچستان کی علیحدہ ریاست اور افغانستان پر قبضہ رکھنے سے امریکہ بحیرہ کیپسین کا تیل، وسطی ایشیائی ریاستوں کا تیل، گیس اور تجارتی منڈیوں پر قبضہ کر سکے گا۔ بلوچستان کے معدنی ذخائر (جن میں سونا، تانبا اور یورینیم شامل ہیں) پر قبضہ کر سکے گا۔ (جاری)
17۔ امریکہ چین کو پاکستان اور خصوصاً بلوچستان کے ترقیاتی کاموں میں رکاوٹ ڈالے گا۔
18۔ بھارت کے ساتھ مل کر بلوچستان کا الگ ملک بنانا تاکہ ایران او چین کو گھیرا جا سکے۔
19۔ امریکہ میں جو اس وقت معاشی بحران ہے بلوچستان کے وسائل اس کو سہارا دے سکتے ہیں۔
20۔ بھارت پاکستان کو ترقی کرتا نہیں دیکھ سکتا۔ کیونکہ طاقتور پاکستان اس کے جنونی ارادوں کے آگے ایک بندھ ہے۔ اس کے لئے بھارت امریکہ کی ہر لحاظ میں بلوچستان کے معاملات میں مدد کر رہا ہے۔
21۔ طاقتور پاکستان اسرائیل کو بھی گوارا نہیں۔ اس سے عربوں کو طاقت ملتی ہے۔ اسی لئے را، موساد اور سی آئی اے مل کر پاکستان کے خلاف سازشیں کر رہے ہیں۔
22۔ آزاد بلوچستان کے جھنڈے کئی ممالک میں لہرا دیے گئے ہیں۔ امریکہ میں آزاد بلوچستان کار ریزولیوشن پاس ہو چکا ہے۔ اس سے پہلے 1970ءمیں بھی امریکہ میں آزاد بنگال (یا بنگلہ دیش) کا ریزولیوشن پاس کر چکا ہے۔
23۔ امریکی پہلے تو ملا عمر اور طالبان کی شوریٰ کا بلوچستان میں موجودگی کا پراپیگنڈہ کرتے تھے اور پھر پاکستان کو دھمکیاں دیں کہ ان کے خلاف ایکشن لے۔
24۔ اب امریکی سی این این، برطانوی بی بی سی اور پاکستان میں امریکی ایجنٹ پاکستانی میڈیا پر پاکستان آرمی اور آئی ایس آئی کے خلاف پراپیگنڈہ کر رہے ہیں کہ وہ بلوچستان میں بلوچوں کے قتل اور اغوا میں ملوث ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ پاکستان آرمی یا آئی ایس آئی نے کسی ملک پر قبضہ نہیں کیا ہوا۔ بھلا وہ اپنے ملک کے اپنے ہی شہریوں کو کیوں قتل اور اغوا کریں گے۔
25۔ امریکہ پاکستان ایران اور افغانستان کے علاقوں پر مشتمل 240000 مربع میل کی علیحدہ ریاست چاہتا ہے جس کے ساتھ 1000میل لمبا سمندر ہو گا۔ اس سے دنیا کے 40فیصد تیل کی برآمدات (جو کہ آبنائے ہرمز کے راستے ہوتی ہیں) پر نظر رکھ سکے گا۔
26۔ گوادر پر قبضہ کے بعد امریکہ چینی نیوی کو بحیرہ عرب سے دور رکھ سکے گا۔
27۔ گورنمنٹ آف بلوچستان (Govt of Baluchistan in Exile) یروشلم میں قائم ہے۔ یہ گوگل پر بھی موجود ہے اور دیکھا جا سکتا ہے۔
28۔ اپریل 2011ءمیں بلوچستان سوسائٹی آف نارتھ امریکہ (BSO-NA) نے بلوچستان پر ایک کانفرنس کی۔ امریکہ کے امن انسٹی ٹیوٹ (US Institute for Peace) یا USIP نے بھی Termoil in Baluchistan پر کانفرنس کی جس میں پاکستان سے اعجاز حیدر، برطانیہ سے شہزادی بیگ، امریکہ سے سلائیگ ہریسن (Sleg Harrison) (جو کہ پاکستان کے خلاف بغض کی وجہ سے مشہور ہیں) اور ماروین وائن بام Marvin Weinbaum نے پاکستان کے خلاف وہ زہر اگلا جو ان کے آقا بھارت، اسرائیل اور امریکہ چاہتے تھے۔ USIP کانگریس کے اخراجات سے ملت یہے۔
29۔ ہر بیار مری برطانیہ سے اور براہمداغ بگتی سوئٹزر لینڈ سے پاکستان کے خلاف پراپیگنڈہ کر رہے ہیں۔ سی آئی اغے اور را ان کی ہر طرح سے مدد کرتی ہے۔
 

بلوچستان میں 20 ملکوں کی ایجنسیاں سرگرم.



بلوچستان میں 20 ملکوں کی ایجنسیاں سرگرم‘30 کیمپ افغانستان میں کام کر رہے ہیں:آئی جی ایف سی‘ لاپتہ افراد کے حوالے سے قانون بنایا جائے: وزیراعظم
بلوچستان میں جاری تمام ” راہداری“ منسوخ کردی گئیں ہیں۔ اس بات کا فیصلہ وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کی صدارت میں اعلی سطح کے اجلاس میں کیا گیا ۔ اجلاس میں یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ وزارت داخلہ تین دن کے اندر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہدایات جاری کرے گی کہ کسی قسم کی ”راہداری“ جاری نہ کی جائے۔ اجلاس میں وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب اسلم رئیسانی، وزیر داخلہ رحمان ملک اور دوسرے اعلی حکام نے شرکت کی ۔ وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی اتوار سے بلوچستان کا دو روزہ دورہ کریں گے اور وفود سے ملاقاتیں کریں گے۔ اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ بلوچستان میں کالے شیشوں والی گاڑیاں چلانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ ”نان کسٹمز پیڈ“ گاڑیوں کو سڑکوں پر آنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ایسی گاڑیاں ضبط کرنے کا اختیار دیا جائے گا۔ نان کسٹمز پیڈ گاڑیوں کو چلانے کے لیے عارضی اجازت نامے بھی فوری طور پر منسوخ کر دئیے گئے ہیں وزیراعظم نے وزیر داخلہ اور وزیر اعلی بلوچستان کو ہدایت کی کہ وہ باقاعدگی سے مناسب وقفوں کے بعد ملاقات کیا کریں ۔ کوئٹہ اور صوبے کے دوسرے حصوں میں امن وامان کے لیے اقدامات کئے جائیں۔ وزیراعظم نے وزارت داخلہ کو ہدایت کی قانون نافذ کرنے والے اداروں کی لاجسٹک ضروریات کے لیے وزیراعلی کی مشاورت سے تخمینہ لگایا جائے۔وزارت قانون کو ہدایت کی گئی لاپتہ افراد کے حوالے سے ضروری قانون بنایا جائے اور دہشت گردی کے واقعات کی روک تھام کے لئے قانون کے اندر ضروری ترامیم کی جائیں۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کسی کو مستقبل میں ”راہداری“ جاری نہیں کی جائے گی۔ اس کے علاوہ کالے شیشے والی گاڑیوں کو بھی سڑکوں پر لانے پر پابندی ہو گی۔ نان کسٹمز پیڈ اور کالے شیشوں والی گاڑیاں چلانے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔ اجلاس میں وزارت داخلہ کو ہدایت جاری کی گئی کہ وہ اگلے تین دن میں قانون نافذ کرنے والے تمام اداروں اور خفیہ ایجنسیوں کو یہ حکم نامہ جاری کریں کہ موجودہ راہداریوں کو منسوخ کر دیا جائے اور مستقبل میں کسی کو راہداری جاری نہ کی جائے۔ اس اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ بلوچستان میں کالے شیشے والی گاڑیوں پر مکمل پابندی ہو گی اور کسی شخص کو کالے شیشے والی گاڑی چلانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ بیان کے مطابق وزیراعظم نے وزارت داخلہ کو یہ بھی ہدایت کی جرائم پر قابو پانے کے لئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی استعداد کار اور صلاحیتوں کو
بڑھانے کے لئے ان کی ضروریات کو دیکھا جائے۔

آئی جی ایف سی بلوچستان میجر جنرل عبیداللہ بیگ نے کہا ہے کہ بلوچستان میں بیرونی مداخلت ہو رہی ہے۔ بلوچستان میں 121فراری کیمپ کام کر رہے ہیں۔کوئٹہ میں میڈیا سے گفتگوکرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بلوچستان کو بے پناہ بیرونی چیلنجز کا سامنا ہے۔ سیاسی، انتظامی، جوڈیشل، میڈیا سمیت تمام پلیٹ فارمز پر جنگ لڑنا پڑےگی۔ انہوں نے کہا کہ 30کیمپس افغانستان میں کام کر رہے ہیں۔ صوبہ بھر سے ایک لاکھ لوگ نقل مکانی کرچکے ہیں۔ ایف سی اور انٹیلی جنس اداروں کو سازش کے تحت تنقید کانشانہ بنایا جا رہا ہے۔ بلوچستان کے مسئلے کا سیاسی حل تلاش کیاجائے۔ سرحدوں کی حفاظت، امن و استحکام کے علاوہ ہمارا مقصد کچھ نہیں۔ انہوں نے کہاکہ بلوچستان میں 20ممالک کی ایجنسیاں سرگرم ہیں، گڑبڑ پھیلانے والوں کو اسلحہ اور ڈالر باہر سے مل رہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ فرنٹیئر کور بلوچستان وفاقی ادارہ ہے جس کو وفاقی وزارت داخلہ کنٹرول کرتی ہے جس کا کام سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے۔ صوبے میں قیام امن اور دیگر فرائض کیلئے وزیراعلیٰ بلوچستان اور صوبائی حکومت کی درخواست پر ذمہ داریاں نبھاتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ بلوچستان میں ٹارگٹ کلنگ، بدامنی اور فورسز پر حملوں کے واقعات میں سے اکثریت کی کالعدم تنظیموں نے ذمہ داری قبول کی ہے لیکن ان کے خلاف کوئی مقدمہ درج ہوا نہ کسی عدالت میں کوئی مقدمہ لایا گیا ہے۔ میجر جنرل عبید اللہ خان نے کہا کہ اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے پاکستان اور بلوچستان کی حفاظت کریں گے جو لوگ بلوچستان کو پاکستان سے الگ کرنے کا خواب دیکھ رہے ہیں ان کا یہ خواب کبھی بھی پورا نہیں ہو گا بلوچستان پاکستان کی شہ رگ ہے، ایک سو اکیس فراری کیمپ حیر بیار مری‘ براہمداغ بگٹی‘ جاوید مینگل اور ڈاکٹر اللہ نذر چلا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا اس وقت بلوچستان میں امن وامان کی صورتحال خراب ہے تاہم بعض عناصر اس صورتحال سے فائدہ اٹھانے کی جو کوشش کر رہے ہیں وہ کبھی بھی کامیاب نہیں ہو سکیں گے بلوچستان میں اسلحہ صوبہ سرحد‘ پنجاب اور سندھ کے مختلف راستوں سے آ رہا ہے کچھ عرصے سے ایف سی کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور حقائق سے ہٹ کر پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں دکھایا جا رہا ہے جو درست نہیں ہیں، حقائق دکھانے چاہئیں ایف سی صوبائی حکومت کی درخواست پر آتی ہے بلوچستان کے اس وقت جو علاقے بہت حساس ہیں ان میں سبی‘ کوئٹہ‘ نصیر آباد‘ خضدار ‘ ڈیرہ بگٹی اور تربت شامل ہیں کافی عرصے سے ایک ہی قبیلے سے تعلق رکھنے والے افراد کو ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے مارا جا رہا ہے اور کوئٹہ میں تیس چالیس سالوں سے رہنے والے افراد بھی اب نقل مکانی کر کے جا چکے ہیں اور جو لوگ یہاں حالات خراب کر رہے ہیں انہیں ڈالر اور اسلحہ باہر سے مل رہا ہے۔ ایف سی کو طلب کیا ہے اور اس کی درخواست کی ہے ہم نے وہاں ایف سی بھیجی انہوں نے کہا بعض دفعہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا ایف سی کو صوبائی حکومت کے ما تحت ہونے کی خبریں شائع ہوتی ہیں حقیقت یہ نہیں ہے ہمیں جب بھی صوبائی حکومت نے طلب کیا ہم وہاں گئے ایف سی وفاقی فورس ہے اور ہم وزارت داخلہ کے ما تحت ہیں انہوں نے کہا کچھ لوگ ٹی وی پر آکر بلوچستان کو پاکستان سے الگ کرنے کی باتیں کر رہے ہیں یہ ان کا خواب ہے جو کبھی پورا نہیں ہو گا، بلوچستان میں آپریشن ہوا تھا تو اس وقت فرار ی کیمپ ختم ہو گئے تھے یا جو ان میں موجود تھے وہ چلے گئے تھے بلوچستان میں فوجی آپریشن بند ہونے کے بعد وہ فراری جو مختلف جگہوں پر چھپے ہوئے تھے واپس اکٹھے ہو گئے ہیں اور اس وقت ایک سو اکیس کیمپ موجود ہیں اور تیس فراری کیمپ افغانستان میں ہیں جہاں باقاعدہ انہیں ٹریننگ دیکر بلوچستان بھیجا جاتا ہے اور یہاں پر وہ دہشتگردی اورٹارگٹ کلنگ کرتے ہیں۔ہم نے ہمیشہ ایک بات کی ہے کہ بلوچستان کے مسئلے کو سنجیدگی سے لینا ہوگا اور بات چیت کے ذریعے اگر مسئلے کو حل کیاجائے تو بہتر ہو گا بلوچستان میں اس وقت جو فراری کیمپ موجود ہیں انہیں باقاعدہ اسلحہ سپلائی ہو رہا ہے ڈالرز مل رہے ہیں ہمارے پاس ثبوت ہیں کہ حیر بیار مری نے ہمارے ایک کیمپ پر حملے کے بعد اپنے آدمیوں کو ہدایت دی تھی اور وہ ٹیلیفون ریکارڈنگ بھی ہمارے پاس موجود ہے جس پر انہوں نے اپنے آدمیوں کو کہا تھا کہ اب واپس چلے جاﺅ انہوں نے کہا بلوچستان میں ویسے تو امن وامان کی صورتحال دیکھی جائے خراب ہے مگر دوسرے صوبوں سے مقابلہ کیاجائے تو بہتر نظر آتی ہے۔
 — 

مائیک مولن کو لکھے گئے مبینہ خفیہ میمو کا متن


 مائیک مولن کو لکھے گئے مبینہ خفیہ میمو کا متن 
صدر، وزیراعظم اور آرمی چیف کے درمیان ہونے والی ملاقات کے بعد 72 گھنٹوں کے دوران پاکستان میں سیاسی صورتحال بہت زیادہ خراب ہو گئی ہے۔ حکومت میں موجود مختلف ایجنسیوں اور گروپوں کی طرف سے آئی ایس آئی، فوج یا سول حکومت پر اسامہ بن لادن کیخلاف آپریشن کے الزامات عائد کرنے کی بڑھتی ہوئی بھرپور کوششیں فوج اور سویلین شعبے کے درمیان رسہ کشی پر چھائی ہوئی ہیں۔نتیجتاً ادلے کے بدلے کی صورت میں آئی ایس آئی حکام کی طرف سے اسلام آباد میں سی آئی اے کے سٹیشن چیف کا نام افشا کیا گیا جو اسلام آباد میں جہاں کوئی مرکزی کنٹرول نظر نہیں آتا زمینی صورتحال خطرناک ہونے کا مظہر ہے۔ سول حکومت آرمی کی طرف سے بڑے پیمانے پر تبدیلیوں کیلئے دباؤ کی تاب نہیں لا سکتی۔ اگر سول حکومت کو بزور ختم کردیا گیا تو پاکستان اسامہ بن لادن کی باقیات کا مسکن بن جائے گا اور القاعدہ طرزکی انتہا پسندی اور دہشت گردی کو مزید تیزی سے پھیلاؤ کا پلیٹ فارم بن جائے گا۔ اسامہ بن لادن کے معاملے میں اعانت کی بنا پر آرمی اور انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹس پر سول حکومت کا برتری حاصل کرنے کا ایک منفرد موقع ہے۔ آپ سے استدعا ہے کہ جنرل کیانی کو سخت، فوری اور براہ راست پیغام دیاجائے جس میں ان سے اور جنرل پاشا سے کہا جائے کہ پاکستان کی تاریخ کے ایک اور 1971ء جیسے لمحے پر سول نظام کو ختم کرنے کی کوششوں کو بند کیاجائے۔ اگر آپ نے ایسا کیا تو واشنگٹن کی سیاسی و ملٹری حمایت کے نتیجے میں سول حکومت کی تنظیم نو ہوگی، جو اب سٹرٹیجک حوالے سے اعلیٰ سطح پر کمزور ہے (اگرچہ انہیں ملکی سیاسی قوتوں کی حمایت حاصل ہے) یہ تبدیلی بڑی سطح کی ہوگی جس میں قومی سلامتی مشیر اور دیگر قومی سلامتی کے حکام کی جگہ ایسے لوگوں اور بااعتماد مشیروں کی تعیناتی شامل ہے جو سابق فوجی یا سول لوگ ہوں گے جو واشنگٹن کی نظر میں ان کے حمایتی ہوں گے ان میں سے ہر کسی امریکی امریکی، سیاسی اور انٹیلی طبقے کے ساتھ طویل اور تاریخ تعلقات ہوں گے۔ ان لوگوں کے نام یہ پیغام پہنچانے والی شخصیت کے ذریعے براہ راست ملاقات میں پہنچا دیئے جائیں گے۔ پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ کو رام کرنے کیلئے اگرچہ آپ کے کیانی کے ساتھ براہ راست رابطے (کیونکہ اس وقت وہ صرف آپ ہی بات سنیں گے) کی صورت میں پس پردہ امریکی مداخلت ہوئی ہے تو نئی قومی سلامتی کی ٹیم سول حکومت کی مکمل حمایت کے ساتھ درج ذیل امور سرانجام دینے کو تیار ہے۔(1 صدر مملکت پاکستان کی طرف سے اسامہ بن لادن اور القاعدہ کے دیگر سینئر ارکان کی معاونت کرنے اور پناہ دینے کے الزامات کی آزادانہ انکوائری کا حکم دیں گے۔

 وائٹ ہاؤس پینل میں شامل کرنے کیلئے دو پارٹی نائن الیون کمیشن طرز پر آزاد / خود مختار تفتیش کاروں کا نام دے سکتا ہے۔(2 یہ انکوائری قابل احتساب اور آزاد ہوگی اور اس کے نتائج امریکی حکومت اور عوام کیلئے قابل قبول ہوں گے اور پاکستانی حکومت (سول، انٹیلی جنس اور فوج) کے زیراثر حلقے جو اسامہ کو پناہ دینے اور مدد دینے کے ذمہ دار ہوں گے، ان کی صحیح اور مفصل تفصیلات دے گی۔ یہ بات یقینی ہے کہ اسامہ بن لادن کمیشن متعلقہ حکومتی دفاتر اور ایجنسیوں میں موجود ایسے سرگرم افسران جو اسامہ بن لادن کی حمایت یا اعانت کے ذمہ دار ہوں گے ان کو فوری برطرف کرے گا۔(3 نئی نیشنل سکیورٹی ٹیم پاکستانی سرزمین پر باقی رہ جانے والی القاعدہ قیادت بشمول ایمن الظواہری، ملا عمر اور سراج حقانی یا القاعدہ سے منسلک گروپوں کی قیادت کو حوالے کرنے کی پالیسی پر عملدرآمد کرے گی یا امریکی ملٹری فورسز کو ان افراد کو پاکستانی سرزمین سے پکڑنا یا ہلاک کرنے کے آپریشن کا گرین سگنل دے گی۔ یہ کھلی اجازت سیاسی لحاظ سے خالی ازخطرہ نہیں ہے مگر یہ نئے گروپ کا ہماری سرزمین سے برے عناصر کے خاتمے کا عزم ظاہر کرتی ہے۔ اس عزم کو ہماری اعلیٰ سول قیادت کی حمایت حاصل ہے اور ضروری مدد کی بھی یقین کرائی جاتی ہے۔(4 ملٹری انٹیلی جنس اسٹیبلشمنٹ کو سب سے زیادہ خدشہ یا خوف یہ ہے کہ آپ کی سٹیلتھ ٹیکنالوجی کے باعث پاکستان کی فضائی حدود میں آزادانہ آنے جانے کی صلاحیت کے باعث پاکستان کے جوہری اثاثے اب اصل ہدف ہیں، نئی سکیورٹی ٹیم پاکستانی حکومت (ابتداء میں سول بعد ازا ں طاقت کے تینوں مراکز کے ساتھ) کی مکمل حمایت کے ساتھ جوہری پروگرام کیلئے ایک قابل قبول فریم ورک تیار کرنے کیلئے تیار ہے۔ اس کوشش کی ابتداء سابقہ فوجی دور میں کی گئی تھی جس کے نتائج بھی قابل قبول تھے۔ ہم اس آئیڈیا پر کام شروع کرنے کیلئے تیار ہیں اور اس انداز میں کہ پاکستانی جوہری اثاثے مزید شفاف اور ٹھوس طریقہ کار میں آجائیں۔ (5 نئی قومی سکیورٹی ٹیم آئی ایس آئی کے سیکشن ”ایس“ کو ختم کردے گی، جس پر طالبان اور حقانی نیٹ ورک وغیرہ سے تعلقات کا الزام ہے۔ اس سے افغانستان کے ساتھ تعلقات ڈرامائی طور پر بہتر ہو جائیں گے۔(6 ہم نئی سکیورٹی ٹیم کی زیر رہنمائی ممبئی حملوں کے پاکستانی ذمہ داران کیخلاف کارروائی کیلئے بھارت کی حکومت سے تعاون کیلئے تیار ہیں، یہ ذمہ داران چاہے غیر سرکاری ہوں یا سرکاری ہوں، بشمول انٹیلی جنس ایجنسیوں کے۔ اس تعاون میں ان لوگوں کو جن کیخلاف ٹھوس شواہد موجود ہیں کو بھارتی سکیورٹی فورسز کے حوالے کرنا بھی شامل ہے۔پاکستان کو انتہائی غیر معمول صورتحال کا سامنا ہے۔ ہم جو جمہوری نظام حکومت اور خطے میں بھارت اور افغانستان کے ساتھ بہتر ڈھانچہ جاتی تعلقات بنانے پر یقین رکھتے ہیں کو آپ کے اور ہمارے مفادات کیخلاف صف بند قوتوں کو ان کی حدود میں رکھنے کیلئے امریکی مدد کی ضرورت ہے۔ہم آپ کو یہ میمورنڈم آپ کی حمایت کے ساتھ صدر پاکستان کی طرف سے تشکیل دی جانے والی نئی سکیورٹی ٹیم کے ارکان کے طور پر اجتماعی طور پر پیش کر رہے ہیں

بھارت کا امریکہ اور اسرائیل سے ملکر پاکستان کےخلاف کام کرنے کا اعتراف



بھارت کا امریکہ اور اسرائیل سے ملکر پاکستان کےخلاف کام کرنے کا اعتراف
ـ
امریکہ اعتماد کے قابل ہے نہ بھارت سے دوستی سودمند
بھارتی حکومت نے اعتراف کیا ہے کہ اس کی فوج امریکی سپیشل آپریشنز کمانڈ کے ساتھ انسدادِ دہشتگردی پر کام کر رہی ہے۔اس کی بڑی وجہ پاکستان اور اسلامی عسکریت پسندوں سے نمٹنا ہے ۔اس کیلئے وہ اسرائیل،امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کے ساتھ ملکر کام کررہا ہے۔ویب سائٹ پر سٹرٹیجی پیج کی رپورٹ کے مطابق بھارت عسکریت پسندوں کو خطے میں بالادستی اور مقامی سپر پاور بننے کی راہ میں رکاوٹ سمجھتا ہے اس لئے وہ خطے میں امریکی سپیشل اپریشنز کمانڈ کی موجودگی چاہتا ہے۔امریکی سپیشل فورسز کے اہلکار خاموشی سے بھارت میں موجود ہیں۔بھارتی اپریٹرز بھی امریکہ کا دورہ کرتے ہیں۔

پاکستان کے مفادات کیخلاف بھارت امریکہ اور اسرائیل کا گٹھ جوڑ کوئی نیا انکشاف نہیں ہے۔ بھارت تو پاکستان کا ازلی و ابدی دشمن ہے۔اس کیلئے پاکستان کا وجود ناقابل برداشت ہے۔اسے جب بھی موقع ملا اس نے پاکستان کو نقصان پہنچانے کی سازش کی۔ آدھا پاکستان بھی بھارتی سازشوں کی نذر ہوا۔اس موقع پر بھی امریکہ نے پاکستان کی حمایت کا وعدہ اور بحری بیڑا بھجوانے کااعلان کیا تھا۔وعدہ ایفا ہوا نہ اعلان پر عملدرآمد ہوا، امریکہ پاکستان ٹوٹنے کا تماشا دیکھتا رہا۔ پاکستان کے شورش زدہ قبائلی علاقوں میں سی آئی اے،را اور موساد کے ایجنٹوں کی سرگرمیوں کے حوالے سے رپورٹس مغربی میڈیا میں آتی رہی ہیں۔ وزیراعظم گیلانی نے شرم الشیخ میں اپنے بھارتی ہم منصب منموہن کو را کے بلوچستان میںمداخلت کے ثبوت پیش کئے تھے منموہن نے کہا تھا وہ واپس جاکر نوٹس لیں گے۔ پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنا ہر بھارتی حکومت کی پالیسی رہی ہے۔منموہن گیلانی سے کئے گئے وعدے کے مطابق نوٹس لے لیتے یہ ممکن نہیں تھا۔وزیر داخلہ رحمن ملک بلوچستان میں بیرونی قوتوں کی مداخلت کی بارہا بات کرچکے ہیں۔

فوجی ذرائع نے واضح کہاکہ بلوچستان کی بد امنی میں افغانستان کے ذریعے امریکہ بھارت اور اسرائیل ملوث ہیں۔ افغانستان میں امریکی منظوری کے بغیر کوئی پالیسی بن سکتی ہے نہ اندرون اور بیرون افغانستان کوئی تقرری و تعیناتی ہوسکتی ہے۔بھارت کے18 قونصل خانوں سے امریکہ لاعلم نہیں۔ ان قونصل خانوںکا کام پاکستان میں تخریب کار ی اور دہشت گردی کی سازشوں کے سوا کچھ نہیں۔بھارت سے ہزاروں فوجی افغان نیشنل گارڈز کی تربیت کرنے جارہے ہیں۔ ان بھارتی ٹرینرز کا کردار بھی وہی ہوگا جو امریکہ کے 96ٹرینرز کا پاکستان میں تھا جن کو پاک فوج نے ان کی پاکستان دشمن سرگرمیوں کے باعث واپس امریکہ بھجوادیا تھا۔ مغربی میڈیا نے دو ماہ قبل یہ انکشاف بھی کیا تھا کہ سی آئی اے ،را اور موساد افغانستان میں مشترکہ اڈا قائم کرنے کی تیاری کر رہی ہیں۔امریکی کانگریس میں بلوچوں کیلئے حق ارادیت کی قراردادیں کیا پاکستان کے اندرونی اور قومی سلامتی کے معاملات میں صریح مداخلت نہیں ہے ؟ بنیئے کے دل میں پاکستان کا وجود کا نٹے کی طرح چبھتا ہے تو امریکہ اس کے اتحادیوں اور طفیلی اسرائیل کیلئے پاکستان کا ایٹمی پروگرام ناقابل برداشت ہے۔ اب گوادر پورٹ پاکستان کے دشمنوں کیلئے مشترکہ دُکھ کی صورت اختیار کرگئی ہے۔

بھارت تو پاکستان کا کھلا دشمن ہے۔امریکہ دوستی کے روپ میں دشمن کا کردار ادا کر رہا ہے۔آج امریکہ کی دشمنی کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ راجستھان میں بھارت امریکہ مشترکہ فوجی مشقیں جاری ہیں قبل ازیں وسیع پیمانے پر پاکستان کی سرحدوں کے ساتھ دونوں ممالک مشترکہ فوجیں مشقیں کرتے رہے ہیں۔ان کا مقصد آخر کیا ہے؟ امریکہ پاکستان کو اپنا فرنٹ لائن اتحادی قرار دیتا ہے لیکن اس کی نوازشات بھارت پر ہیں۔بھارت کو اسلحہ جمع کرنے کا خبط ہے۔ بھارت اسرائیل سے سب سے زیادہ اسلحہ خریدتا ہے۔سول نیو کلیئر ٹیکنالوجی کی فراہمی میں امریکہ، روس، فرانس،برطانیہ اور ہالینڈ سرفہرست ہیں۔جدید ترین سخوئی اور میراج لڑاکا طیارے بالترتیب روس اور فرانس سے حاصل کر رہا ہے۔ برطانیہ بھی اپنے طیارے بھارت کو فروخت کرنے کیلئے بے چین ہے۔پاکستان کو نہ صرف مذکورہ ممالک سول نیو کلیئر انرجی دینے پر تیار نہیں بلکہ چین کے ساتھ ہونیوالے معاہدوں کی بھی سخت مخالفت کی جاتی ہے۔بھارت نے تو اپنی بحریہ میں ایٹمی آبدوزیں بھی شامل کرلی ہیں۔اسلحہ کے انبار لگا کر بھارت کا جی نہیں بھررہا۔بھارتی آرمی چیف وی کے سنگھ نے وزیراعظم منموہن سنگھ سے مزید اسلحہ کی ڈیمانڈ کرتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ اسلحہ دو دن میں ختم ہوجائیگا۔بھارت کے اسلحہ کے ڈھیر اور امریکہ کے ساتھ مل کر فوجی مشقوں کا مقصد پاکستان کے خلاف جنگی تیاریوں کے سوا کچھ اور نہیں ہوسکتا۔ امریکہ کے ڈرون حملے پاکستان کی آزادی و خودمختاری کی پامالی ہیں۔

آج ضرورت دشمن کے مذموم مقاصد کو ناکام بنانے کی ہے لیکن اس سے بھی پہلے دشمن کا تعین ضروری ہے قوم کو تو بھارت امریکہ اور اسرائیل پاکستان کے واضح دشمن نظر آرہے ہیں۔شواہد بھی یہی ہیں مگر حکمران دباﺅ کا شکار ہیں یا آنکھوں پر لالچ کاپردہ پڑا ہے۔ تمام ثبوتوں کے باوجود دشمن کو نظر انداز کر رہے ہیں۔دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر منجمد ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔مسئلہ کشمیر کی موجودگی میں بھارت کے ساتھ خسارے کی تجارت ہورہی ہے۔اسے پسندیدہ ترین ملک قراردیاجاچکا ہے ایسے میں مسئلہ کشمیر کے منجمد نہ ہونے کی بات منافقت نہیں تواور کیا ہے۔بھارت کی امریکہ اور اسرائیل کو ساتھ ملا کر پاکستان کےخلاف سازش کو خود بھارتی سرکار نے بے نقاب کردیا ہے۔ایسے میں ضروری ہے کہ حکومت پاکستان کشمیری شہدا کے خون کو بیچنے کے بجائے بھارت کے ساتھ تجارت کا مکمل خاتمہ کرے اور اسے پسندیدہ ملک قرار دینے کا سٹیٹس واپس لیاجائے۔ اس کے ساتھ ہی امریکہ کی جنگ سے مکمل طورپر نکلنے کی کوشش کی جائے ۔امریکہ نیٹو سپلائی کی بحالی کیلئے بے چین ہے اور افغانستان سے اپنی جنگ سمیٹتا دکھائی دیتا ہے۔بگرام جیل میں قرآن پاک کی بے حرمتی کے بعد شدید عوامی ردّعمل پر امریکہ افغانستان سے انخلا کیلئے مزید سرعت سے کام لے رہا ہے۔نیٹو سپلائی بحال کرکے اسے آکسیجن فراہم نہ کی جائے بلکہ اس کا دالبندین، پسنی اور شہباز ائر بیس سے عمل دخل بھی ختم کرایاجائے۔ حکومت نے اگر امریکہ اور اس کی جنگ سے گلو خلاصی حاصل کرلی ،بھارت کے ساتھ مسئلہ کشمیر کے حل تک تعلقات منقطع کرلیے تو ان ممالک کی پاکستان کے خلاف سازشوں کے ساتھ ساتھ اسرائیل کی سازشیں بھی دم توڑ جائیں گی۔

بلوچستان ....امریکہ بھارت اور اسرائیل کا کھیل.



بلوچستان ....امریکہ بھارت اور اسرائیل کا کھیل.


لیفٹینٹ کرنل (ر) محمد زمان
13 اپریل کو واشنگٹن میں امریکی ہائی کمانڈ نے فیصلہ کیا ہے کہ اس سال کے آخر میں امریکی افواج افغانستان میں ایک بہت بڑا ملٹری آپریشن کریں گی جو کہ پاکستان کے بارڈر کے ساتھ ساتھ ہو گا۔ اس میں یہ بھی ذکر ہے کہ ملا عمر بلوچستان میں چھپا ہوا ہے اور پاکستان کی آئی ایس آئی ملا عمر کو تحفظ دے رہی ہے‘ امریکی نیوی کمانڈر بروک ڈی والٹ Brok Dewalt امریکی مرین کمانڈر جنرل جان ایلن کی طرف سے کہہ رہے تھے کہ امریکی افواج کابل اور قندھار کے درمیان زیادہ فوجی آپریشن کریں گی۔ پاکستانیوں کو یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ بڑی لڑائی کے بعد دنیا میں تبدیلیاں آتی ہیں کہیں ملک ٹوٹتے ہیں اور کہیں دنیا کا نقشہ بدل جاتا ہے کئی ممالک اپنی آزاد حیثیت ختم کر بیٹھتے ہیں اور کئی نئے ممالک وجود میں آ جاتے ہیں۔

اب امریکہ اپنی دس سالہ ناکامی کے بعد ذلیل ہو کر اپنا بوریا بستر گول کر رہا ہے وہ کھل کر پاکستانی افواج اور آئی ایس آئی کو بھی اپنی شکست کا ذمہ دار قرار دے رہا ہے۔ اس وقت بلوچستان‘ کراچی‘ بلتستان اور فاٹا میں جو بدامنی ہے وہ اسی امریکی سرد جنگ کا حصہ ہے پھر پاکستان میں دہری شہریت والے اور انکے بونے پاکستان کو چھوٹے ٹکڑوں یا اکائیوں میں تقسیم کرنے کے درپے ہیں حالانکہ موجودہ پاکستان کے صوبوں کے اخراجات بڑی مشکل سے پورے ہو رہے ہیں اگر زیادہ صوبے بن گئے تو انکے انتظامی اخراجات کہاں سے پورے ہونگے یہ لوگ کبھی سندھ میں مہاجر اور بلوچستان میں پشتون صوبے کا نعرہ لگاتے ہیں اور کبھی جنوبی پنجاب۔ بہاولپور اور ہزارہ کے صوبوں کی بات کرتے ہیں اسی کے نتیجے میں پیدا ہونےوالی نسلی لسانی اور صوبائی بدمزگی یا محاذ آرائی سے کیسے نمٹا جائےگا۔ کیا پاکستان کے لوگ اس کو خوشی سے قبول کر لیں گے یا ایسے لیڈروں پر ملک دشمنی کا لیبل لگایا جائےگا۔

پاکستان جو اس وقت بجلی‘ گیس‘ تیل‘ مہنگائی کے طوفان میں گھرا ہے کیا اس قسم کے جھٹکوں کو برداشت کر سکے گا؟ کیا بھارت امریکہ اور دوسرے پاکستان دشمن اس قسم کے حالات سے فائدہ نہیں اٹھائینگے۔ پاکستان کے مختلف ٹی وی چینلز کے ہمارے محترم اینکر پاکستانی افواج اور آئی ایس آئی کےخلاف نفرت انگیز جملے کہتے ہیں پاکستان کی تاریخ بیان کرتے کرتے وہ دنیا کے سامنے پاکستان کو ایک دہشت گرد ملک کے طور پر پیش کرتے ہیں ان کا محاسبہ بھی ہونا چاہئے دنیا کا کوئی بھی ملک اپنی افواج اور سکیورٹی ایجنسیوں کےخلاف اس طرح کا پراپیگنڈہ نہیں کرتا جس طرح کا پاکستان میں ہوتا ہے۔
پچھلے دنوں امریکی مفکر ہنری کسنجر نے کہا تھا ”تیل پر کنٹرول کر کے دنیا پر کنٹرول کیا جا سکتا ہے اور خوراک کے ذرائع پر قبضہ کر کے لوگوں پر کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ اب امریکی ڈاکو (Hordes) دنیا کا تیل خوراک اور قیمتی دھاتوں کے ذرائع پر قبضہ کر لیں گے۔ ہنری کسنجر کو ہم بوڑھا اور بہکی بہکی باتیں کرنے والا تو کہہ سکتے ہیں‘ لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے کہ گدھا اور ہاتھی کا نشان رکھنے والی امریکی سیاسی پارٹیاں اسی قسم کے پروگرام پر عمل پیرا ہیں۔

بلوچستان پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے‘ پاکستان کے سمندر کا زیادہ حصہ صوبہ بلوچستان کے ساتھ لگتا ہے‘ اسکی آبادی پاکستان کے باقی صوبوں میں سے سب سے کم ہے‘ یہاں پاکستان کی 50 قیمتی دھاتوں میں سے 40 پائی جاتی ہیں دنیا کا تیسرا بڑا سونے کا ذخیرہ یا کانیں بلوچستان میں پائی جاتی ہیں دنیا کی چھٹی بڑی تابنے کی کان بلوچستان میں ہے‘ پھر بلوچستان میں یورینیم بھی ہے‘ ہیرے جواہرات بھی ہیں‘ دنیا کی سب سے گہری بندرگاہ بھی ہے‘ یہ معدنی ذخائر دنیا کے کسی بھی ملک کو کھربوں ڈالر دے سکتے ہیں۔ ماہان (Mahan) اور میکنڈر (Meckinder) کی تھیوری کے مطابق بلوچستان دنیا کے دل (Heart land) کا حصہ ہے‘ جس نے اس دل پر قبضہ کر لیا تو گویا اس نے دنیا کے جزیروں اور وسائل پر قبضہ کر لیا اور جس نے دنیا کے جزیروں اور وسائل پر قبضہ کر لیا اس
نے دنیا پر قبضہ کر لیا۔

سٹریٹجک طور پر بلوچستان دنیا کے ہندے 8 کا وہ نقطہ ہے جہاں سے دنیا کی مستقبل کی پٹرول‘ گیس کی پائپ لائن‘ سڑکیں‘ ریلوے لائن اور ہوائی راستے بلوچستان سے ہو کر گزریں گی‘ اگر دیکھا جائے تو بلوچستان ایک ایسا ریگستان اور پہاڑی علاقہ ہے جہاں نہ پانی ہے‘ نہ کھانے کو خوراک ہے تو پھر کبھی روس بلوچستان پر قبضہ کرنا چاہتا ہے کبھی بھارت اور اب امریکہ اسکی وجہ صرف اور صرف بلوچستان کے معدنی وسائل‘ اسکی سٹریٹجک پوزیشن اور 8 کا درمیانی نقطہ ہے۔ بھارت بلوچستان پر قبضہ اس لئے کرنا چاہتا تھا کہ پاکستان کا حصہ نہ رہے اس کےلئے اس نے بلوچستان کے سرداروں کو رشوتیں دیں‘ وہاں تخریب کاروں کو تربیت اور پیسہ دیا کیونکہ گوا‘ منادار‘ حیدر آباد دکن‘ کشمیر اور پاکستان کے 400 جزیروں پر قبضہ کے بعد بھی اس کا پیٹ نہ بھرا‘ پھر بھارت نے مشرقی پاکستان کو علیحدہ کیا‘ 1947ءاور اسکے 10 سال بعد تک پاکستان آرمی بہت کمزور تھی‘ ملک میں پیسہ نہیں تھا‘ پاکستان کے پاس وسائل نہیں‘ جبکہ بھارت کے پاس انگریزوں کا دیا سب کچھ تھا بہرحال بھارت بلوچستان کو پاکستان سے علیحدہ کرنے میں اس وقت کامیاب نہ ہو سکا تو اب کیسے ہو گا آیئے دیکھتے ہیں کہ کیا بھارت اکیلا بلوچستان کو پاکستان سے علیحدہ کر سکتا ہے۔ ہم بھارت کی کمزوریوں کو دیکھتے ہیں۔
ہندوستان کی کمزوریاں

1۔ بھارت کی آبادی کا 70 فیصد حصہ انتہائی غربت میں ہے اور ان پڑھ بھی ہے‘ کسی قوم کی آبادی اسکی طاقت ہوتی ہے اگر وہ پڑھی لکھی ہو اور برسر روزگار ہو۔

2۔ بھارت میں 2کروڑ سے زیادہ لوگ چوہے کھاتے ہیں‘ کیونکہ انکو کھانے کو خوراک نہیں ملتی

3۔ بھارت دنیا کا تیسرا بڑا مقروض ملک ہے۔

4۔ بھارت کے پاس 300 ارب ڈالر کے زرمبادلہ کے ذخائر ہیں جو اسکے اپنے نہیں ہیں‘ یہ لوگوں کے اور بنکوں کے 8 فیصد سود پر جمع ڈالر ہیں۔ 2014ءکے بعد بھارتی روپے کی قیمت
جلدی سے گرے گی۔
5۔ بھارت کا سالانہ تجارتی خسارہ 30 فیصد کے حساب سے بڑھ رہا ہے جو پچھلے سال
135 ارب ڈالر تھا اور 2014ءمیں 270 ارب ڈالر ہو گا۔

6۔ بھارت کے 29 میں سے 22 صوبے آزادی مانگتے ہیں‘ جہاں 100 پرائیویٹ افواج بھارت کی افواج سے آزادی کیلئے لڑ رہی ہیں۔ بھارتی افواج روزانہ 1300 لوگوں کو قتل کرتی ہیں اور بھارتی افواج کا نقصان 10,000 سالانہ ہے۔
7۔ ماﺅ تحریک نے 40 فیصد بھارت پر قبضہ کر رکھا ہے‘ بھارتی وزیر اعظم کے بقول یہ بھارت کی وحدت کیلئے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ ماﺅ کا قومی ترانہ اقبال بانو کی گائی ہوئی احمد فراز کی غزل ”ہم دیکھیں گے ہم دیکھیں گے“ ہے۔
8۔ بھارت کے 5 ضلعوں میں پاکستان کے جھنڈے 2009ءمیں لہرائے گئے‘ 2011ءمیں ایک ضلعے میں اور 2012ءمیں بھی ایک بڑے جلسے میں لہرائے گئے۔
9۔ کارگل کی لڑائی کی وجہ سے اس کے 100 32 AN ٹرانسپورٹ طیارے گراﺅنڈ ہو چکے ہیں اور انکی اپ گریڈیشن کیلئے یوکرین کو ایک ارب ڈالر کا ٹھیکہ دیا ہے۔ IL-76-40 طیارے گراﺅنڈ ہو رہے ہیں۔
10۔ کارگل کی لڑائی کی وجہ سے اسکی 200 توپیں جو تباہ ہو چکی تھیں ابھی تک انکی جگہ نئی نہیں خرید سکا اور اس کے 2 آرمڈ ڈویژن ناکارہ ہیں۔
11۔ چونکہ بھارت روس سے امریکہ اور یورپ کی طرف رواں دواں ہے اس لئے اسے 150 ارب ڈالر کے عوض روس کی جگہ امریکی اور یورپی اسلحہ خریدنا پڑےگا۔
12۔ غربت کی وجہ سے بھارت میں ایڈز دنیا میں سب سے زیادہ پھیل رہی ہے‘ دنیا میں جتنی طوائفیں ہیں اس سے زیادہ صرف بمبئی میں ہیں‘ بھارت مستقبل کا طوائفستان ہے۔
13۔ بھارت میں 70 فیصد لوگوں کے پاس بیت الخلا کی سہولت ان کے گھروں میں نہیں ہے۔
14۔ امریکہ اور یورپ نے بھارت کو تجارتی منڈی بنا دیا ہے۔
15۔ بھارت کے 80 فیصد پل 100 سال سے زیادہ پرانے ہیں۔
 

Another Slap on the face of secularism


’بلوچستان میں 20 ممالک کی ایجنسیاں سرگرم ہیں.


’بلوچستان میں 20 ممالک کی ایجنسیاں سرگرم ہیں.
------------------------------------------------------------
آئی جی ایف سی میجر جنر ل عبیداللہ خان نے سنیچر کو کوئٹہ میں میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ کچھ عرصے سے ملکی اداروں کے خلاف مہم چلائی جا رہی ہے تاکہ ملک میں لاقانونیت پھیلے اور عوام کا اعتماد حکومتی اداروں سے اٹھ جائے حالانکہ تمام ریاستی ادارے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے عوام کی خدمت کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ صوبے میں 20 دیگر ممالک کی ایجنسیاں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے سرگرم ہیں جن کی حرکتوں کو کنٹرول کرنے کے لیے حکومتی ادارے اور انٹیلیجنس ایجنسیاں سرگرداں ہیں۔ ایسی کارروائیوں میں ملک کے اندر اور ملک سے باہر بیٹھے ہوئے عناصر ملوث ہیں۔
ان عناصر کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ ان سازشوں کو ہم عوام کے تعاون سے ناکام بنا دیں گے اور ان سازشوں کو ناکام بنانے کے ساتھ ساتھ صوبے میں قیام امن، پاکستان اور بلوچستان کے استحکام کے لیے آج فورسز کے اہلکار جانیں قربان کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ فرنٹیئر کور بلوچستان ایک وفاقی ادارہ ہے جس کو وفاقی وزارت داخلہ کنٹرول کرتا ہے۔ اس کا کام سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے اور صوبے میں قیام امن سمیت دیگر فرائض کی منصبی کے لیے وزیراعلیٰ بلوچستان اور صوبائی حکومت کی درخواست پر اپنی ذمہ داریاں نبھاتے ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ ایف سی نے پولیس کے ساتھ مل کر مختلف کارروائیوں میں 129 شر پسندوں کو گرفتار کر کے پولیس کے حوالے کیا ہے جن میں سے صرف 4 کو سزا 50 بری اور 61 کے کیس ابھی تک چل رہے ہیں۔
آئی جی ایف سی نے کہا کہ علیحدگی پسندوں کے 121 کیمپ بلوچستان اور 30 کیمپ افغانستان میں موجود ہیں جہاں سے دہشتگردی کی کارروائیاں کی جاتی ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان میں موجود غیر ملکی فورسز کو فراری کیمپوں کی موجودگی کا علم ہونے کے باوجود بھی ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جا رہی ہے ۔
انہوں نے کہا کہ ایک خاص منصوبے کے تحت سیکورٹی فورسز اور خاص کر ایف سی کو مفلوج کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے صوبائی حکومت کو تجویز دی ہے کہ چونکہ اندرونی صوبے میں امن وامان کی صورتحال خراب ہے لہذا لیویز فورس کو فعال بنایا جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسی طرح شہروں میں پولیس کو ٹارگٹ بنایا جا رہا ہے جس کی وجہ سے سینئر افسران تک صوبے میں خدمات انجام دینے سے کتراتے ہیں۔
آئی جی ایف سی نے کہا کہ صوبے کے اندر اندرونی اور بیرونی سازشیں ہو رہی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ایک علیحدگی پسند کا انٹرویو دیکھا جاسکتا ہے جس میں انہوں نے پاکستان توڑنے کی واضح بات کی تھی لیکن ہم ان پر واضح کرنا چاہتے ہیں کہ جب تک ملک کے ادارے قائم ہیں کسی کو اپنے مذموم مقاصد میں کامیابی حاصل نہیں ہوگی ۔
انہوں نے کہا کہ کوئٹہ سمیت بلوچستان بھر سے حالات کی خرابی کے باعث 1 لاکھ سے زائد لوگ نقل مکانی کر کے دوسرے صوبوں کو چلے گئے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں آئی جی نے کہا کہ فرنٹیئر کور بلوچستان عدالتوں اور سیاسی اداروں کا احترام کرتی ہے۔ ایف سی کا مقصد سرحدوں کی حفاظت اور صوبے میں امن و استحکام کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے اور بلوچستان کے مسئلے کا سیاسی طور پر حل تلاش کیا جائے۔
آئی جی ایف سی میجر جنرل عبیداللہ خان نے کہا کہ ہم پاکستان کی سالمیت اور دفاع کے لیے کسی بھی قسم کی قربانی دینے کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں اور جہاں ہمیں ٹارگٹ کیا جائے گا ان کے ساتھ کسی قسم کی کوئی رعایت نہیں کی جائے گی اور نہ ہی علیحدگی کی باتیں کرنے والوں کو برداشت کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں جتنے بھی ٹارگٹ کلنگ، بدامنی اور فورسز پر حملوں کے واقعات ہوئے ہیں ان میں سے اکثریت کی کالعدم تنظیموں نے ذمہ داری قبول کی ہے لیکن ان تنظیموں کے خلاف نہ ہی کوئی مقدمہ درج ہوا ہے اور نہ کسی عدالت میں کوئی مقدمہ چلایا گیا ہے۔ اگر فرنٹیر کور ملزمان کو گرفتار کر کے پولیس کے حوالے کرتی ہے تو وہ عدم ثبوت کی بناء پر رہا ہوجاتے ہیں۔

’بیرونی خفیہ ادارے بلوچستان کے حالات خراب کر رہے ہیں


’بیرونی خفیہ ادارے بلوچستان کے حالات خراب کر رہے ہیں
---------------------------------------------------------------
لاپتہ افراد سے متعلق عدالتی کمیشن کے سربراہ جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا ہے کہ بلوچستان میں لوگوں کو لاپتہ اور حالات خراب کرنے کے لیے بیرونی ایجنسیاں کام کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ لاپتہ افراد کی فہرست بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی بجائے انسانی حقوق اور لاپتہ افراد کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں مکمل فہرست جمع کرائیں۔

کمیشن کے سربراہ نے سنیچر کو کوئٹہ میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ بلوچستان میں حالات خراب کرنے اور لوگوں کو لاپتہ کرنے میں بیرونی خفیہ ادارے ملوث ہیں جن کے پاس مکمل نیٹ ورک، اسلحہ ، تربیت اور دیگر وسائل موجود ہیں اور ان کے مقابلے میں ہمارے اداروں خصوصاً بلوچستان پولیس کی استعداد کار ، تربیت اور وسائل کم ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بیرونی ایجنسیوں کے خلاف ہمارے اداروں نے وہ کامیابی حاصل نہیں کی جو کرنی چاہیے تھی کیونکہ مدِ مقابل وہ بیرونی ایجنسیاں ہیں جو سب کچھ سیٹلائٹ سے دیکھتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ لاپتہ افراد کا مسئلہ صوبائی، قومی اور کسی حد تک بین الاقوامی سطح پر اہم مسئلہ ہے اور اس کے حل کے لیے سیاسی سطح پر مربوط حکمت عملی تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے گیارہ سے پندرہ افراد افغانستان کی پل چرخی اور پکتیکا جیلوں میں قید ہیں جن تک ہمیں رسائی حاصل نہیں۔

انہوں نے کہا کہ لاپتہ افراد کی تعداد میں وقت گزرنے کے ساتھ اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے بتایا کے کمیشن کی کوئٹہ آمد میں تاخیر کی وجہ ایبٹ آباد کمیشن ہے۔ تاہم بلوچستان نہ آنے کے باوجود لاپتہ افراد کے کمیشن نے اسلام آباد میں اپنا کام جاری رکھا۔

کمیشن کے سربراہ کا کہنا تھا کہ کمیشن جلد بلوچستان کےعلاقوں خضدار، پنجگور، تربت اور گودار کا بھی دورہ کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ کمیشن لاپتہ افراد کی بازیابی تک کام کرتا رہے گا۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ اس مسئلے کو چار سے چھ ماہ میں حل کر لیا جائےگا۔
انہوں نے کہا کہ بازیاب ہونے والے افراد کے خلاف کمیشن کی اجازت کے بغیر کسی قسم کی کارروائی نہیں کی جاسکتی۔ انہوں نے کہا کہ کمیشن صرف کاغذی کارروائی نہیں کرے گا بلکہ ذمہ داروں کا تعین بھی کرے گا اور اگر کمیشن کی افادیت نہ رہی تو خود ہی الگ ہو جاؤں گا

جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا کہ لاپتہ افراد کی تعداد بڑھا چڑھا کر پیش کی جاتی ہے لیکن دعوے کرنے والی انسانی حقوق اور لاپتہ افراد کی تنظیمیں مکمل کوائف پر مشتمل فہرست جمع نہیں کراتیں۔ انہوں نے کہا کہ تیس مئی دو ہزار بارہ تک پاکستان میں لاپتہ افراد کی تعداد چار سو ساٹھ تھی جن میں ستاون کا تعلق بلوچستان سے ہے

مزید وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان ستاون میں سے رواں ماہ کے دوران پندرہ افراد بازیاب ہوچکے ہیں اوراس وقت صوبے کے بیالیس افراد لاپتہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مسخ شدہ لاشوں کا سلسلہ بھی جلد بند ہوجائےگا۔
انہوں نے کہا کہ کمیشن نے خفیہ اداروں کے ذمہ داروں کو بلا کر ان سے برملا کہا ہے کہ ملک کا کوئی بھی ادارہ آئین و قانون سے بالاتر نہیں۔ جسٹس (ر) جاوید اقبال کا کہنا تھا کہ ان اداروں کو بھی اس بات کا احساس ہوگیا ہے اور وہ مکمل تعاون کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان حکومت نے کمیشن کو نو سو پینتالیس افراد کی فہرست بھیجی تھی جن میں پینتالیس افراد کے کوائف بھی مکمل نہیں تھے۔ کمیشن کی جانب سے فہرست دوبارہ حکومت کو بھیج کر مکمل تفصیلات مانگی گئیں تاہم بلوچستان حکومت کی جانب سے اب تک نو ترتیب شدہ فہرست نہیں ملی۔

صحابی درخت


صحابی درخت جس نے 1460 ھجری سال پہلے بارہ سال کی عمر میں میرے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دورانِ سفر سایہ فراہم کیا۔آج بھی قائم و دائم ہے۔


رسولِ خدا حضرت محمّد صلی الله علیہ وسلم ابھی کم سن تھے اور آپکی عمر شریف محض بارہ سال کے لگ بھگ تھی کہ آپ اپنے چچا ابو طالب کے ساتھ ایک قافلے کی شکل میں مکّہ سے بغرض تجارت روانہ ہوے - قافلے نے ملک شام کے جنوب میں اس مقام پر پڑاؤ ڈالا جہاں یہ درخت موجود ہے جو آپ تصویر میں دیکھہ رہے ہیں - اس مقام سے قریب '' بصرہ '' یا'' بوسیرہ '' میں ایک عیسائی راہب ''بحیرہ'' رہا کرتا تھا - اسنے انجیل مقدس اور دوسری کتابوں میں یہ پڑھ رکھا تھا کہ ایک آخری نبی مکّہ پیدا ہونگے - کتابوں میں اس نبی کے پیدا ہونے کی بہت سی نشانیاں بھی اسنے پڑھ رکھی تھیں - اسکے علم کے مطابق وہ نشانیاں ظاہر ہونا شروع ہوگی تھیں - وہ وقت قریب آ چکا تھا جب الله کے آخری نبی کا ظہور ہونا تھا - وہ الله کے اس عظیم نبی سے ملنے کا خواھشمند تھا - جب یہ قافلہ اسکے شہر کے قریب پڑاو ڈالے تھا تو اسکی متجسس نگاہیں اس قافلے پر مرکوز تھیں - اسکے علم میں جب یہ بات ائی کہ اس قافلے میں ایک بچہ ایسا ہے کہ وہ دھوپ میں جس طرف بھی جاتا ہے بادل کا ایک ٹکڑا اسپر سایہ فگن رہتا ہےتو خبر راہب کو یقین کی حد تک لے گئی کہ یہی الله کے آخری نبی ہیں - لیکن سو فیصد تصدیق کے لیے اسے ابھی کچھہ اور بھی تجربہ کرنا تھا - اسکا اضطراب دیدنی تھا - اسنے قافلے کے تمام لوگوں کو کھانے پر مدعو کیا - سب لوگ دعوت پر آیے لیکن وہ بارہ سال کا بچہ دعوت میں موجود نہیں تھا جس سے وہ راہب ملنے کے لیے بے چین تھا - اس بچے کا نہ انے سے وہ بے قرار باہر کی جانب آیا اور اس قافلے کے پڑاؤ کی جانب دیکھنے لگا- اسنے دیکھا کہ وہ بارہ سال کا بچہ تنہا اس درخت کے نیچے جو آپ کو اس تصویر میں نظر آرہا ہے آرام فرما رہا ہے - اس راہب کو بے قراری اور بڑھ گئی اور اسکو اب یقین کامل ہوگیا کہ یہی وہ ہستی ہے ، یہی وہ آخری نبی ہیں جسکے لیے الله سبحان و تعالی نے اس پوری کائنات کو پیدا فرمایا ہے - اس راہب اس درخت کے بارے میں پڑھ رکھا تھا کہ اس مقدس درخت کے نیچے آخری نبی ہی ہونگے جو آرام فرمائیں گے - اس راہب نے عزت سے کم سن رسول سیدنا محمّد صلی الله علیہ وسلم کو ضیافت میں آنے کی درخواست کی اور پھر لوگوں کو اگاہ کیا کہ یہی وہ آخری نبی ہیں جن کا ذکر پاک مقدس انجیل میں موجود ہے - اس راہب نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے چچا ابو طالب کو نہ صرف مشورہ دیا بلکہ اس بات پر راضی بھی کیا کہ کہ وہ اس عظیم بچے کو واپس مکّہ لے جائیں کیوں کہ بہت سے یہودی اس متبرک بچے کی جان مبارک کے دشمن ہیں اور وہ انکی تلاش میں ہیں - یہ تو وہ روح پرور واقعہ تھا جس نے اس درخت کو متبرک اور مقدس بنا دیا - اور اس درخت زندہ معجزہ اس اعتبار سے کہتے ہیں کہ تقریبا'' پندرہ سو سال گزرجانے کا باوجود یہ اپنی جگہ قائم و دائم ہے - حیران کن بات یہ ہے کہ اس درخت کے چاروں طرف سو کلو میٹر کے دور کوئی اور درخت موجود نہیں - اس درخت کے متعلق یہ بھی کہا جاتا کہ یہ پستے کو درخت ہے اور اس میں آج بھی پھل لگتا ہے لیکن اس بات میں کتنی صداقت ہے یہ اسکی حتمی طور سے تصدیق نہیں کی جا سکتی -
 

تحریک طالبان پاکستان سو سے زائد گروپوں میں تقسیم

.تحریک طالبان پاکستان سو سے زائد گروپوں میں تقسیم
سال 2009 میں بیت اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد تحریک طالبان پاکستان اپنی تنظیمی صلاحیت سے محروم ہو چکی ہے
پشاور – تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگست 2009 میں تحریک طالبان پاکستان کے رہنما بیت اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد اندرونی چپقلشوں اور کافی عرصے سے قیادت کے بحران کے باعث اس تنظیم کے اثر و رسوخ میں کمی واقع ہو چکی ہے۔ کسی زمانے میں وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں میں مختلف عسکریت پسند گروپ تحریک طالبان پاکستان کے جھنڈے تلے جمع تھے۔ 
پاکستان کے قبائلی علاقوں میں موجود طالبان سے متعلق تحقیق پر وقف اسلام آباد کے ایک ادارے فاٹا تحقیق مرکز کے صدر اشرف علی نے بتایا کہ اس تناظر میں فاٹا کے 27 ہزار 2 سو 20 مربع کلومیٹر رقبے پر 1 سو 30 بڑے اور چھوٹے عسکریت پسند گروپ موجود ہیں جن میں سے بعض تو وہ ہیں جو تحریک طالبان پاکستان سے الگ ہو چکے ہیں۔ 

فاٹا تحقیق مرکز میں ڈائریکٹر تحقیق کے طور پر فرائض سر انجام دینے والے منصور خان محسود نے سینٹرل ایشیا آن لائن کے ساتھ گفتگو میں کہا کہ اپنے قیام کے بعد تحریک طالبان پاکستان کے اثر و رسوخ میں اضافہ ہونا شروع ہو گیا کیونکہ فاٹا میں سرگرم بہت سے چھوٹے گروہ بھی اس کی صفوں میں شامل ہونا شروع ہو گئے۔ 
منصور محسود نے کہا کہ یہ وہ وقت تھا جب قبائلی علاقوں کے ہر اس شخص نے جس کے ساتھ پچاس یا سو افراد تھے بلامشروط تحریک طالبان پاکستان میں شمولیت اختیار کر لی۔ 
تاہم ان کے بقول یہ صورت حال اس وقت تبدیل ہو گئی جب فوج نے محسود کے عسکریت پسندوں پر دباؤ ڈال کر انہیں جنوبی وزیرستان کے اپنے گڑھ سے نکل کر شمالی وزیرستان میں جانے پر مجبور کر دیا۔ علی نے کہا کہ اس کے بعد سے قبائلی خطوں میں تحریک طالبان پاکستان مختلف گروپوں میں بکھرنا شروع ہو گئی ہے۔ 
فاٹا میں طالبان گروپ 
علی نے کہا کہ بیت اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد تحریک میں اختلافات کی خبریں سامنے آنے لگیں۔ یہ اختلافات زیادہ قتل و غارت گری پر مائل عسکریت پسند کمانڈر حکیم اللہ محسود، ایک اہم کمانڈر ولی الرحمٰن اور باجوڑ ایجنسی میں بیت اللہ کے ایک نائب مولوی فقیر کے درمیان ابھرے اور ان سے ایسے تنازعے کا آغاز ہوا جو آج دن تک جاری ہے۔ 
علی نے سینٹرل ایشیا آن لائن کو بتایا کہ بیت اللہ کی موت کے کچھ ہی عرصے بعد تحریک کی قیادت کے معاملے پر حکیم اللہ محسود اور ولی الرحمٰن کے درمیان ہونے والی لڑائی کے باعث شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسند گروپ تحریک طالبان پاکستان سے الگ ہونا شروع ہو گئے۔ 
انہوں نے کہا کہ شمالی وزیرستان کی صورت حال فاٹا کی دیگر ایجنسیوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ عدم استحکام کا شکار ہے۔ تحصیل میران شاہ میں ایک مضبوط عسکریت پسند کمانڈر مولوی حافظ گل بہادر کا سکہ چلتا ہے۔ اسے متعدد کمانڈروں کی حمایت حاصل ہے جو اپنے اپنے گروپ چلاتے ہیں۔ ان کمانڈروں میں خالق نور، صادق نور اور آریانہ کے علاوہ دیگر بھی شامل ہیں۔ 
علی نے کہا کہ آریانہ کمانڈر صادق نور کی زیر کمان تھا مگر اب ان کے راستے جدا ہو چکے ہیں۔ 
انہوں نے کہا کہ ان گروپوں کے بارے میں یہ تصور کیا جاتا ہے کہ ان کا رویہ پاکستانی فوج کی جانب نرم ہے کیونکہ ان کی زیادہ توجہ حقانی نیٹ ورک کے ساتھ مل کر افغانستان میں اتحادی فوج کے ساتھ لڑنے پر مرکوز ہے۔ 
منصور محسود نے کہا کہ حافظ گل بہادر کے ساتھی دیگر کمانڈروں میں حلیم خان اور گڈ عبد الرحمٰن شامل ہیں۔ 
انہوں نے کہا کہ اگرچہ ان کے اپنے الگ الگ گروپ ہیں مگر اسی دوران وہ گل بہادر کے لئے بھی کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ حافظ گل بہادر کے حامی گروپوں کی تعداد 15 سے 20 ہے۔ 
شمالی وزیرستان کی تحصیل میر علی کو حکیم اللہ محسود کے جنگجوؤں اور پنجابی طالبان کے نام سے سرگرم فوج مخالف گروپوں کا مضبوط گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔ پنجابی طالبان میں انتہائی تربیت یافتہ عسکریت پسند شامل ہیں جن کا تعلق 313 بریگیڈ (جس کا رہنما کشمیر سے تعلق رکھنے والا عسکریت پسند الیاس کشمیری ایک فضائی حملے میں مارا گیا تھا)، لشکر جھنگوی العالمی، لال مسجد بریگیڈ، سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی نامی کالعدم پاکستانی عسکریت پسند گروپوں سے ہے۔ 



انہوں نے کہا کہ اگست 2009 میں ایک فضائی حملے کے نتیجے میں اپنے بااثر رہنما کی ہلاکت کے بعد تحریک طالبان پاکستان ایک متحدہ کمان کی صلاحیت سے محروم ہو چکی ہے۔ 
اشرف علی نے کہا کہ تحریک طالبان پاکستان کو قیادت کا بحران درپیش ہے کیونکہ اس کا موجودہ سربراہ حکیم اللہ محسود قیادت کے لحاظ سے انتہائی ناتجربہ کار ہے جبکہ باجوڑ ایجنسی کا ایک ممتاز کمانڈر مولوی فقیر بھی اسے متحد رکھنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ 
فاٹا سیکرٹریٹ میں سلامتی کے امور کے سابق سیکرٹری ریٹائرڈ بریگیڈیر محمود شاہ کا کہنا ہے کہ جنوبی وزیرستان، باجوڑ اور مہمند ایجنسیوں میں کامیاب فوجی حکمت عملی کے نتیجے میں تحریک طالبان پاکستان کی کمر توڑ دی گئی ہے اور تنظیم کے قدم اکھڑ رہے ہیں۔ 
بریگیڈیر شاہ نے تحریک طالبان پاکستان سے الگ ہونے والے عسکریت پسند گروپوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کسی کو بھی معلوم نہیں ہے کہ اس وقت ان عسکریت پسند گروپوں کی کیا تعداد ہے۔ 
دھڑوں میں بٹنا تحریک طالبان پاکستان کی تاریخ کا حصہ 
علی نے کہا کہ 2007 میں چالیس عسکریت پسند گروپوں کے اتحاد کے نتیجے میں تحریک طالبان پاکستان وجود میں آئی تھی۔ 
انہوں نے کہا کہ بیت اللہ محسود کا تحریک طالبان پاکستان کو متحد رکھنے میں کلیدی کردار تھا کیونکہ اسی کی وجہ سے بہت سے عسکریت پسند رہنماؤں نے تحریک طالبان پاکستان کے قیام پر اتفاق کیا تھا۔

فاٹا تحقیق مرکز کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستانی فوج سے ہمدردی رکھنے والے کمانڈر صرف شمالی وزیرستان ایجنسی تک ہی محدود نہیں ہیں۔ وہ جنوبی وزیرستان ایجنسی کے صدر مقام وانا میں بھی موجود ہیں۔ 
احمد زئی وزیر قبیلے کا ایک عسکریت پسند قبائلی ملا نذیر ایک ایسے گروپ کا رہنما ہے جس نے اسلامی تحریک برائے ازبکستان کے ازبک اراکین کا سخت مقابلہ کیا اور انہیں جنوبی وزیرستان سے شمالی وزیرستان میں دھکیل دیا۔ 
محسود نے کہا کہ ملا نذیر کے گروپ کے اراکین تحصیل وانا میں بڑی تعداد میں موجود ہیں اور انہیں 14 چھوٹے عسکریت پسند گروپوں کی حمایت حاصل ہے۔ 
باجوڑ ایجنسی، ایک پیچیدہ منظر نامہ
علی نے کہا کہ حکیم اللہ محسود نے تحریک طالبان پاکستان کی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد سابق رہنما بیت اللہ محسود کے اعلانیہ نائب سربراہ مولوی فقیر کو خاموشی سے ہٹاتے ہوئے اسی کے ایک سابق ساتھی کمانڈر جمال الدین کو باجوڑ ایجنسی میں طالبان کا سربراہ مقرر کر دیا۔ 
اب ایجنسی میں تین بڑے اور درجنوں چھوٹے گروپ موجود ہیں تاہم علی کا کہنا تھا کہ 2008 اور 2009 میں فوجی کارروائی کے بعد ان میں سے بعض گروپ غیر مؤثر ہو گئے ہیں۔ 
علی نے کہا کہ جمال الدین یا داد اللہ اور برہان الدین تحریک طالبان پاکستان سے وابستگی رکھنے والے دو بڑے عسکریت پسند کمانڈر ہیں۔ دونوں کے باجوڑ میں اپنے گروپ ہیں اور دونوں ہی مولوی فقیر کے خلاف ہیں۔ مولوی فقیر اس وقت افغانستان کے صوبہ کنڑ میں مقیم ہے جہاں سے وہ اپنا ریڈیو اسٹیشن بھی چلاتا
ہے۔ 
ان کے بقول مختلف کمانڈروں کی زیر کمان بعض دیگر گروپ بھی موجود ہیں۔ ان کمانڈروں میں قاری ضیاء الرحمٰن (ایک افغان شہری جو حکومت کے ساتھ مذاکرات کا مخالف ہے)، مولوی عنایت الرحمٰن، ڈاکٹر اسماعیل (باجوڑ ایجنسی کا رہائشی)، مولانا عبدل (2006 میں چینائی نامی دینی مدرسے پر ہونے والے فضائی حملے میں 83 افراد کے ہمراہ مدرسے کے سربراہ مولانا اسماعیل کی ہلاکت کے بعد اس کا انتظام سنبھالنے والا) اور کاروان نعمت اللہ شامل ہیں۔ 
علی نے کہا کہ مولانا منیر، سالار مسعود، عبد الوہاب اور مولانا عبد الحمید نامی کمانڈروں کے بعض چھوٹے گروپوں نے اپنی سرگرمیاں محدود کر رکھی ہیں۔ 
انہوں نے کہا کہ یہ گروپ پہلے گرد و نواح کے علاقوں میں سرگرم تھے مگر اب کچھ عرصے سے انہوں نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ اگرچہ وہ ایک جانب ہٹ چکے ہیں مگر علاقے میں ان کی موجودگی اب بھی باقی ہے۔ 
ان کے بقول 2008 میں باجوڑ میں فوج کی کارروائی کے بعد ان میں سے کوئی بھی گروپ سرگرم نہیں رہا مگر وہ کبھی کبھی منظر عام پر دکھائی دیتے ہیں۔ 
خیبر اور درہ آدم خیل میں مختلف گروپ سرگرم 
علی نے کہا کہ خیبر ایجنسی، کرم ایجنسی اور درہ آدم خیل کے عسکریت پسند فاٹا کی دیگر ایجنسیوں سے مختلف ہیں۔ 

خیبر ایجنسی کے تمام عسکریت پسند کمانڈروں میں سب سے طاقتور منگل باغ کی زیر قیادت لشکر اسلام نامی تنظیم تیراہ، باڑہ اور ایجنسی کے دیگر علاقوں میں اندرونی لڑائیوں میں مصروف ہے۔ 
علی نے کہا کہ ان کی لڑائی کا محرک فرقہ وارانہ اختلافات ہیں کیونکہ ان کا تحریک طالبان پاکستان سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ 
تاہم درہ آدم خیل کے ایک طاقتور عسکریت پسند کمانڈر طارق آفریدی کے تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ روابط ہیں گو کہ اپنے زیر اثر علاقے میں وہ سیکورٹی فورسز کے لئے اپنے طور پر بھی ایک بڑا چیلنج بنا ہوا ہے۔ اس نے ایک بار 20 سے زائد کوئلے کے کان کنوں کو ایک سال تک یرغمال بنائے رکھا تھا۔ 
فرقہ وارانہ تنازعات کے گڑھ کرم ایجنسی کے سنی علاقوں میں فضل سعید حقانی کا کافی اثر و رسوخ ہے۔ وہ کسی زمانے میں تحریک طالبان پاکستان سے وابستہ تھا مگر علاقے میں تحریک طالبان پاکستان کے خلاف فوجی کارروائی سے کچھ ہی عرصہ قبل جون 2010 میں اس نے حکیم اللہ سے اپنی راہیں جدا کر لیں۔ 
علی نے کہا کہ حکیم اللہ محسود کے کمان سنبھالنے کے بعد کسی زمانے میں تحریک طالبان پاکستان کا مضبوط گڑھ تصور کی جانے والی اورکزئی ایجنسی میں اب تنظیم کو مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ 
تحریک طالبان پاکستان سے وابستہ ایک طاقتور کمانڈر ملا طوفان کا اپنے زیر اثر علاقے میں کافی اثر و رسوخ موجود ہے۔ تاہم اسے اپنے جتنے طاقتور مخالف کمانڈر نبی ملا کی جانب سے سخت چیلنج کا سامنا ہے۔

تحریک طالبان پاکستان کو امریکہ کی جانب سے اسلحہ فراہم کرنے کے ثبوت ایک حیرت انگیز دستاویز منظر عام پر آگئ!!!!!


السلام علیکم۔۔۔۔۔

لیں جی ، جب ہم کہتے تھے تو گالیاں کھاتے تھے مگر اب کیا ہوگا؟؟؟؟؟

تحریک طالبان پاکستان کو امریکہ کی جانب سے اسلحہ فراہم کرنے کے ثبوت ایک حیرت انگیز دستاویز منظر عام پر آگئ!!!!!

دیکھئیے اور شیر کیجئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انڈین و امریکی ایجنٹس مردہ باد ، مردہ باد