Saturday, June 9, 2012

قائد کے بارے میں نجم سیٹھیکے نجس خیالات


The Ideology Of Pakistan قائد کے بارے   میں  نجم سیٹھیکے نجس خیالات نجم سیٹھی کی چڑیا ان کو بہت کچھ بتاتی ہے لیکن سب کچھ نہیں۔ ”پہلے بات کو تولو پھر بولو“ یہ تربیت والدین، اساتذہ اور معاشرے کے صالح افراد کی صحبت سے ہوتی ہے۔ لگتا ہے کہ جہاں موصوف کی تربیت میں کہیں کمی رہ گئی تو وہیں انکی چڑیا بھی ان کو یہ نہیں بتاتی کہ کس بات سے وہ سرخرو ہونگے اور کونسی بات سے منہ کالا ہو گا۔ اگر یہ سب ہوتا تو وہ قائداعظم سے متعلق دریدہ دہنی نہ کرتے۔ صحافت کی دنیا میں خیر سے وہ 75 برس کے ہو گئے اس لئے شمار بزرگ صحافیوں میں ہوتا ہے۔ اگر وہ خود اپنی بزرگی کا ادراک نہیں کرتے تو کوئی دوسرا احساس کیوں کرے گا۔ جو شخص قائداعظم اور ان کے پاکستان کے خلاف منہ کھولے گا وہ محب وطن پاکستانیوں کے لئے ابو الکلام آزاد اور باچا خان کی طرح راندہ درگاہ ٹھہرے گا ۔ گزشتہ دنوں ایک پروگرام میں قائد اور ہندو لیڈروں کا تقابل کرتے ہوئے نجم سیٹھی کے خیالات کچھ یوں تھے ”قائداعظم کے خیالات آمرانہ تھے۔ نہرو جمہوریت پسند تھا، قائداعظم مرکزیت کے قائل نہیں تھے۔ انہوں نے گورنر جنرل اور آئین ساز اسمبلی کی چیئرمین شپ کے اختیارات اپنے پاس رکھے۔ وہ خود کو عقل کُل سمجھتے تھے اس لئے بغیر مشاورت کے فیصلے کر لیا کرتے تھے جبکہ نہرو مشاورت سے کام لیتا تھا۔“ جمہوری رویے کے حوالے سے سیٹھی صاحب نے نہرو کی شخصیت کو زیادہ اہم قرار دینے کی کوشش کی ہے۔ آگے چل کر ان کا قائد کے حوالے سے تعصب اور خبثِ باطن واضح ہو جاتا ہے۔ ”ڈھاکہ میں قائد نے یکطرفہ اعلان کر دیا کہ پاکستان کی قومی زبان اردو ہو گی حالانکہ ملک میں بنگالی بولنے والوں کی اکثریت تھی۔ نجم سیٹھی نے اپنے الفاظ میں اسے حماقت قرار دیا ہے۔
ان حالات میں جب انگریز اور ہندو کا مسلمانوں کے بارے میں رویہ متعصبانہ تھا۔ ہندووں کے پاس گاندھی، نہرو اور پٹیل جیسے سیاسی و سازشی گرو موجود تھے، مقابلے میں صرف ایک محمد علی جناح تھا۔ قائداعظم کا ہر ساتھی ان کی طرح ہر قسم کا دباو برداشت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا تھا۔ قائد کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ مشاورت نہیں کرتے تھے ایک الزام ہے۔ وہ مشاورت ضرور کرتے تھے البتہ فیصلہ حالات و واقعات کے مطابق خود کرتے تھے۔ 6 نومبر 1946ءکو ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے قائد فرماتے ہیں‘ ” میں بھی انسان ہوں‘ مجھ سے بھی غلطی ہو سکتی ہے۔ لہٰذا ہر شخص کو اختیار ہے کہ میرے کام کے بارے میں مشورے دے اور اس پر تنقید کرے۔“
قائد اپنے ساتھیوں کا اعتماد تو لے کر چلتے تھے لیکن ہر پالیسی ان کی رائے کا ماخذ نہیں ہوتی تھی۔ اگر قائد ساتھیوں کی رائے کے اسیر ہو جاتے تو پاکستان کبھی وجود میں نہ آ سکتا۔ پھر قائد کے ساتھیوں کی اہلیت کا اندازہ قائداعظم کی رحلت کے بعد ان کے ہاتھ معاملات آنے سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔ اُس وقت قائد کی سطح کا علامہ اقبال جیسا ایک لیڈر بھی ہوتا تو قائد یقیناً اس کی رائے کو مقدم سمجھتے۔ افسوس قائد کی جیب میں جو بھی تھے کھوٹے سکے تھے اس لئے قائد کو بہت سے فیصلے خود کرنا پڑے اور بہت سے اختیارات اپنے پاس رکھنا پڑے۔ قائداعظم کا جن حالات میں انتقال ہوا اسے قتل قرار دیا جائے تو قائد کے خون کے چھینٹے اس وقت کی قیادت کے دامن پر ہی ہوں گے۔ نجم سیٹھی کو ایک گلہ یہ بھی ہے انڈیا نے ماونٹ بیٹن کو گورنر جنرل برقرار رکھا پاکستان میں قائداعظم اس عہدے پر براجمان ہو گئے۔ جب ہندوستان سے الگ ہو کر نئی ریاست وجود میں آ گئی تو اس کے معاملات بھی نئی قیادت کے ہاتھ میں آ جانے چاہئیں تھے۔ بھارت نیا ملک نہیں تھا وہاں پاور کی منتقلی (Trasition of Power) ضروری تھی۔ ایک الگ ریاست کے لئے نہیں۔
جہاں تک اردو زبان کو قومی زبان قرار دینے کی بات ہے تو اس پر مشرقی بنگال میں آوازیں تو اُٹھیں لیکن قائد کا راسخ موقف سامنے آنے پر خاموشی طاری ہو گئی۔ پاکستان کے خلاف نفرت پھیلانے میں ہندو بنگالیوں نے بنگالی زبان کو بھی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ مسلمان بنگالی‘ ہندووں کے چکمے میں اس لئے آ گئے کہ اردو کی قائداعظم کی طرح کسی سیاسی رہنما نے وکالت نہ کی۔ مشرقی پاکستان کے لوگ قائد اور ان کے خاندان سے نہیں مغربی پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت سے نفرت کرتے تھے جنہوں نے اکثریتی آبادی کے صوبے کو بُری طرح نظر انداز کیا تھا۔ قائد نے اردو کو قومی زبان قیام پاکستان کے وقت قرار دیا تھا۔ اگر بنگالی اس اقدام پر ناخوش ہوتے تو وہ 1965 کے صدارتی انتخابات میں محترمہ فاطمہ جناح کی مغربی پاکستان سے زیادہ پذیرائی نہ کرتے۔ 
نجم سیٹھی پاکستان کا کھاتے اور گُن کسی اور کے گاتے ہیں۔ جس کا نام امریکہ ہے جس کا غلام بھارت ہے۔ ہمیں ان کی طرف سے قائد کے حوالے سے لفظ ”حماقت“ استعمال کرنے پر انتہائی دکھ‘ افسوس ہوا اور اس پر شدید اعتراض ہے۔ وہ نجم ہیں خود کو نجم ثابت کریں۔ وہ ایسے نجس خیالات سے نوجوان نسل کا ذہن پراگندہ کرنے کی کوشش نہ کریں۔ایسی حرکتیں کرکے وہ خود کو ”نجس سیٹھی“ کیوں کہلانا چاہتے ہیں؟ وہ مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئے یہ ان کے بس کی بات نہیں تھی۔ وہ جس علاقے میں رہتے تھے وہ پاکستان کے حصے میں آیا اس لئے پاکستانی کہلائیے، ان کو پاکستان نے بہت کچھ دیا حتیٰ کہ قائداعظم کے پاکستان کے وزیر بھی رہے۔ ان کو اگر بااصول اور جمہوریت پسند لیڈر کہیں اور نظر آتے ہیں تو آج ان کے بس میں ہے کہ وہ وہاں جا بسیں۔


No comments:

Post a Comment