Sunday, June 10, 2012

امریکہ اور امریکی طالبان پاکستان کے سخت ترین دشمن ۔۔


امریکہ اور امریکی طالبان پاکستان کے سخت ترین دشمن ۔۔
-----------
رحمت خان وردگ
ہم نے شروع سے ہی افغانستان میں امریکی مداخلت کی سختی سے مخالفت کی تھی روس نے افغانستان میں جارحیت کی، جو کسی بھی طور پر مناسب نہیں تھا ۔ روس کے خلا ف امریکہ نے افغانستان کی سرزمین استعمال کی اور روس سے ویت نام کا بدلہ لے لیا اور روس معاشی طور پر تباہ ہو گیا تھا۔ امریکہ اسامہ سمیت ہزاروں مجاہدین کو روس سے لڑنے کیلئے افغانستان لایا تھا۔ اسامہ سمیت سب کو مجاہدین ، القاعدہ ، طالبان اور دہشت گرد نام امریکہ نے دئےے ہیں۔ اسی وقت سے لیکر آج تک یہ جنگ امریکہ کی تھی اور جب تک افغانستان سے غیر ملکی افواج نہیں جائےں گی ۔اُس وقت تک یہ جنگ جاری رہے گی۔ امریکہ افغانستان کے اندر ایسے طالبان کو تربیت دے رہا ہے۔ جو پاک فوج کے خلاف کارروائیاں کر رہے ہیں اور انہیں وسیع پیمانے پر اسلحہ اور پیسہ فراہم کیا جا رہا ہے۔ میں نے نیک محمد کا واقعہ بھی لکھا جس میں اس نے ہتھیار پاکستانی سکیورٹی فورسز کے سپرد کرتے وقت بہت سے بیگ کھول رکھے تھے اور نشاندہی کرتے ہوئے بتایا کہ ” آپ یہ اسلحہ دیکھ لیں کہاں کا بنا ہوا ہے؟ اورمزید تصدیق کیلئے یہ نوٹ دیکھ لیںکہ یہ کس ملک کی کرنسی ہے؟ظاہر ہے وہ نوٹ امریکی ڈالر تھے اور یہ بھی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ پاکستانی فورسز کے خلاف لڑتے ہوئے جن طالبان نے ہتھیار ڈالے ، ان میں سے بھی بیشتر کو ہلاک کر دیا گیا۔ آج پاکستان میں امریکیوں کی دہشت گردی کے منصوبوں کے حقائق سامنے آنے لگے ہیں۔
افغانستان میں امریکہ کا ایک واضح کردار ہے جس کے تحت وہ پاکستان دشمن دہشت گردوں کو فروغ اور امداد دے رہا ہے۔ جو پاکستان کے اندر تحریب کاریاں کریں۔یہ کام 2002ءمیں افغانستان پر قبضہ کرتے ہی شروع کر دیا گیاتھا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ اسلام کے نام پر ایسے ہی گروہ تیار کئے جائیں جو پاکستانیوں کو اتنی بڑی تعداد میں ہلاک کریں کہ اس کے رد عمل میں افغان دہشت گردوں اور کشمیری مجاہدین کے خلاف عوامی دباو ¿ پیدا ہوتا کہ پاکستان کیلئے آزادی کی ان دونوں جنگوں میں مدد دینا مشکل ہو تا جائے ۔
امریکہ کا ایک مقصد پاکستان کی خارجہ پالیسی کو متاثر کرنا تھا تاکہ پاکستان کشمیر پراپنے موقف سے پسپائی پر مجبور ہو جائے اور یہ مسئلہ اس طرح سے حل ہو کہ بھارت خطے میں غلبہ پر ستانہ علاقائی کردار ادا کر سکے اور پاکستان کی فوج اور ایجنسیوں کا کردار محدود کر دیا جائے ۔ وہ پاکستانی سیاست میں بھی اثر و رسوخ بڑھانا چاہتا تھا اور میڈیا میں بھی ۔ ڈاکٹر شکیل آفریدی امریکہ کا واحد ایجنٹ نہیں جسے پاکستان میں پروان چڑھایا گیا ۔ وطن کے ساتھ غداری سے بڑا جرم اس نے یہ کیا کہ اپنے پیشے کے تقدس کو پا مال کرتے ہوئے جعلی پولیوویکسین کا اپنے ہم وطن بچوں پر استعمال کیا اور نہ جانے کتنے بچوں کی زندگیاں خطرے میں ڈال دیں ؟امریکہ نے بڑی تعداد میں بھارتی ایجنٹوں کو اپنی مدد کیلئے افغانستان بلایا تاکہ پاکستان کے خلاف کارروائیوں کیلئے ان کی مہارتوں سے استفادہ کیا جائے۔امریکی طالبان ان گنت پاکستانیوں کے قاتل ہیں۔ اور سارے امریکی طالبان پاکستان کے خلاف ہیں۔ اس کیلئے سی آئی اے اور بھارتی جاسوسوں نے ان پاکستانی قبائلیوں کو بھرتی کیا جنہیں افغانستان اور امریکہ میں دو سال تربیت دی گئی اور یہ لوگ جدید ترین ہتھیاروں اور بھاری رقوم کے ساتھ پاکستان میں داخل ہوئے ۔ دو سال پہلے کے یہ گمنام لوگ معروف دہشت گردوں کی حیثیت سے پاکستان میں لوٹے اور ان کا پہلا بڑا کارنامہ چینی انجینئروں کو اغوا اور ہلاک کرنا تھا ۔چینی انجینئر اس لیے اغوا کیا جاتا ہے کہ وہ پاکستا ن کا قریبی دوست ہے۔ اور چین ان پالیسیوں پر گہری نظر رکھتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ امریکی طالبان ہی اغوا کی وارداتیں کروا رہے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں امریکہ ہی یہ سارے کام کروا رہا ہے۔ پاکستانی قبائلیوں کو گمراہ کرکے پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کا سلسلہ ایک عرصے سے جاری ہے۔ امریکی طالبان کو افغانستان کی مدد سے مسلسل سپلائی آتی ہے۔ البتہ افغان طالبان اس گروپ کے ساتھ لا تعلقی کا اظہار کرتے ہیں ۔ امریکی طالبان بنانے کا مقصد واضح ہے۔ کہ اگر پاکستان مذہبی گروہوں کو افغانستان اور کشمیر میں استعمال کر سکتا ہے۔ تو پاکستانی طالبان کے خودکش حملہ آوروں کو پاکستان کے خلاف کیوں استعمال نہیں کیا جا سکتا؟
2006ءسے پاکستان کے کئی شہروں میں ان خودکش حملہ آوروں کو استعمال کیا گیا ۔ مسجدوں اور خانقاہوں کو خصوصی نشانہ بنایا گیا۔ نوجوان پاکستانی لڑکوں کو بتایا گیا کہ وہ پاکستان میں موجود امریکیوں سے لڑنے جا رہے ہیں لیکن حقیقت میں وہ پاکستانیوں کو نشانہ بنارہے تھے۔ پاکستانی فوج کی طرف سے2008ءمیں امریکی نمائندوں کو باضابطہ طور پر بتایا گیا تھا کہ امریکہ طالبان کی سر پرستی کر رہا ہے۔ 2009ءمیں آئی ایس آئی کے سابق سربراہ نے بھی لیون پینٹا سے یہی شکایت کی اور متعدد حملوں کی تفصیلات بتائیں“عالمی سٹریٹجک ماہرین میں رائے ابھر رہی ہے۔ کہ امریکہ پاکستان سے خطے میں اپنے تیار کردہ ڈیزائن کے مطابق کام لینے کیلئے ہر طرح کے حربے استعمال کر رہا ہے۔ گزشتہ چھ ماہ سے ایک اتحادی کو جس طرح ہراساں اور نقصان پہنچانے کی دانستہ کوشش کی جارہی ہے۔ اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ امریکہ پاکستان کے دفاعی نظام کو مسلسل نقصان پہنچانے کیلئے کوشاں ہے۔ اب یہ حقیقت واضح ہو چکی ہے کہ ایبٹ آباد کا حملہ پاکستان کو دھوکہ دے کر کیا گیا ۔ اُسامہ بن لادن کے بارے میں پاکستان امریکہ کے ساتھ خفیہ معلومات کا تبادلہ کرتا رہا انہیں میں سے کچھ معلومات اُسامہ بن لادن کا سراغ لگانے میں مدد گار ثابت ہوئیں۔ لیکن پاکستان کا فراہم کر دہ ایک سراغ ہاتھ لگتے ہی امریکہ نے ازخود اپریشن کی تیاریاں شروع کردیں۔اور پاکستان کی سکیورٹی فورسز کو اندھیرے میں رکھا اور ایک ایسا اپریشن کر ڈالا۔ جو پاکستان کی سکیورٹی فورسز کیلئے حیران کن اور باعث شرم تھا۔ یہ پاکستان کے دفاعی نظام کی کمزوری نہیں بلکہ ایک دوست کی دغابازی اور فریب کاری تھی جوکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اتحادی ہونے کا دعویدار تھا۔ لیکن در پردہ وہ اپنے ہی اتحادی کا وقار مجروح کرنا چاہتا تھا۔ اس کے بعد سلالہ چیک پوسٹ پر قاتلانہ حملہ ایسی دانستہ کوشش تھی جس کا مقصد پاکستانی افواج اور عوام کو مشتعل کرنا تھا ۔ اب صورتحال یہ ہے کہ امریکیوں نے اپنی یکطرفہ کاروائیوں کے ذریعے پاکستان کو مجبور کرنا شروع کر دیا ہے۔ کہ وہ جذبات میں آکر کوئی غلط اقدام کر بیٹھے۔ جس کی آڑمیں امریکہ اپنے حقیقی عزائم پور ا کرنے کی پالیسی پر عمل کر سکے۔ پاکستان ابھی تک جوابی اشتعال انگیزی سے گریز کر رہا ہے۔ لیکن بد قسمتی سے ہمارے اہل سیاست وطن عزیز کی طرف بڑھتے ہوئے خطرات کو دیکھ کر اپنے طرز عمل میں مطلوبہ تبدیلی لانے میں ناکام ہورہے ہیں۔ ورنہ یہ ایسا وقت ہے کہ تمام سیاستدان امریکی جارحیت کے بڑھتے ہوئے خطرے کو دیکھ کر قومی یکجہتی پیدا کرنے پر توجہ دیں ۔ اور ایک متفقہ موقف اختیا ر کرکے امریکی سازش کا سامنا کریں۔ ہمیں سمجھ لینا چاہئے کہ امریکہ پاکستانی فوج کو اپنے مقاصد کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھنے لگا ہے۔ اب یہ بھی لازم ہو گیا ہے۔ کہ پاکستان میں فیصلہ سازی کا مرکز پارلیمنٹ اور منتخب حکومت کی طرف منتقل ہو جائے۔ گزشتہ چار سال سے فوج نے اپنے آپ کو اس معاملے میں پیچھے رکھنا شروع کر دیا ہے۔ لیکن ابھی تک منتخب حکومت کے پوری طرح مقتدر ہونے کا تاثر پید ا نہیں کیا جا سکا ۔ جس کی ایک وجہ خود منتخب حکومت اور اپوزیشن کی باہمی تصادم پر مبنی پالیسیاں ہیں۔ ہمیں ماضی کے تلخ تجربات کو فراموش کرکے جلد از جلد ایک نئے دور کا آغاز کر دینا چاہئے۔

 

No comments:

Post a Comment