Sunday, June 10, 2012

بلوچستان میں 20 ملکوں کی ایجنسیاں سرگرم.



بلوچستان میں 20 ملکوں کی ایجنسیاں سرگرم‘30 کیمپ افغانستان میں کام کر رہے ہیں:آئی جی ایف سی‘ لاپتہ افراد کے حوالے سے قانون بنایا جائے: وزیراعظم
بلوچستان میں جاری تمام ” راہداری“ منسوخ کردی گئیں ہیں۔ اس بات کا فیصلہ وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کی صدارت میں اعلی سطح کے اجلاس میں کیا گیا ۔ اجلاس میں یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ وزارت داخلہ تین دن کے اندر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہدایات جاری کرے گی کہ کسی قسم کی ”راہداری“ جاری نہ کی جائے۔ اجلاس میں وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب اسلم رئیسانی، وزیر داخلہ رحمان ملک اور دوسرے اعلی حکام نے شرکت کی ۔ وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی اتوار سے بلوچستان کا دو روزہ دورہ کریں گے اور وفود سے ملاقاتیں کریں گے۔ اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ بلوچستان میں کالے شیشوں والی گاڑیاں چلانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ ”نان کسٹمز پیڈ“ گاڑیوں کو سڑکوں پر آنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ایسی گاڑیاں ضبط کرنے کا اختیار دیا جائے گا۔ نان کسٹمز پیڈ گاڑیوں کو چلانے کے لیے عارضی اجازت نامے بھی فوری طور پر منسوخ کر دئیے گئے ہیں وزیراعظم نے وزیر داخلہ اور وزیر اعلی بلوچستان کو ہدایت کی کہ وہ باقاعدگی سے مناسب وقفوں کے بعد ملاقات کیا کریں ۔ کوئٹہ اور صوبے کے دوسرے حصوں میں امن وامان کے لیے اقدامات کئے جائیں۔ وزیراعظم نے وزارت داخلہ کو ہدایت کی قانون نافذ کرنے والے اداروں کی لاجسٹک ضروریات کے لیے وزیراعلی کی مشاورت سے تخمینہ لگایا جائے۔وزارت قانون کو ہدایت کی گئی لاپتہ افراد کے حوالے سے ضروری قانون بنایا جائے اور دہشت گردی کے واقعات کی روک تھام کے لئے قانون کے اندر ضروری ترامیم کی جائیں۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کسی کو مستقبل میں ”راہداری“ جاری نہیں کی جائے گی۔ اس کے علاوہ کالے شیشے والی گاڑیوں کو بھی سڑکوں پر لانے پر پابندی ہو گی۔ نان کسٹمز پیڈ اور کالے شیشوں والی گاڑیاں چلانے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔ اجلاس میں وزارت داخلہ کو ہدایت جاری کی گئی کہ وہ اگلے تین دن میں قانون نافذ کرنے والے تمام اداروں اور خفیہ ایجنسیوں کو یہ حکم نامہ جاری کریں کہ موجودہ راہداریوں کو منسوخ کر دیا جائے اور مستقبل میں کسی کو راہداری جاری نہ کی جائے۔ اس اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ بلوچستان میں کالے شیشے والی گاڑیوں پر مکمل پابندی ہو گی اور کسی شخص کو کالے شیشے والی گاڑی چلانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ بیان کے مطابق وزیراعظم نے وزارت داخلہ کو یہ بھی ہدایت کی جرائم پر قابو پانے کے لئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی استعداد کار اور صلاحیتوں کو
بڑھانے کے لئے ان کی ضروریات کو دیکھا جائے۔

آئی جی ایف سی بلوچستان میجر جنرل عبیداللہ بیگ نے کہا ہے کہ بلوچستان میں بیرونی مداخلت ہو رہی ہے۔ بلوچستان میں 121فراری کیمپ کام کر رہے ہیں۔کوئٹہ میں میڈیا سے گفتگوکرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بلوچستان کو بے پناہ بیرونی چیلنجز کا سامنا ہے۔ سیاسی، انتظامی، جوڈیشل، میڈیا سمیت تمام پلیٹ فارمز پر جنگ لڑنا پڑےگی۔ انہوں نے کہا کہ 30کیمپس افغانستان میں کام کر رہے ہیں۔ صوبہ بھر سے ایک لاکھ لوگ نقل مکانی کرچکے ہیں۔ ایف سی اور انٹیلی جنس اداروں کو سازش کے تحت تنقید کانشانہ بنایا جا رہا ہے۔ بلوچستان کے مسئلے کا سیاسی حل تلاش کیاجائے۔ سرحدوں کی حفاظت، امن و استحکام کے علاوہ ہمارا مقصد کچھ نہیں۔ انہوں نے کہاکہ بلوچستان میں 20ممالک کی ایجنسیاں سرگرم ہیں، گڑبڑ پھیلانے والوں کو اسلحہ اور ڈالر باہر سے مل رہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ فرنٹیئر کور بلوچستان وفاقی ادارہ ہے جس کو وفاقی وزارت داخلہ کنٹرول کرتی ہے جس کا کام سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے۔ صوبے میں قیام امن اور دیگر فرائض کیلئے وزیراعلیٰ بلوچستان اور صوبائی حکومت کی درخواست پر ذمہ داریاں نبھاتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ بلوچستان میں ٹارگٹ کلنگ، بدامنی اور فورسز پر حملوں کے واقعات میں سے اکثریت کی کالعدم تنظیموں نے ذمہ داری قبول کی ہے لیکن ان کے خلاف کوئی مقدمہ درج ہوا نہ کسی عدالت میں کوئی مقدمہ لایا گیا ہے۔ میجر جنرل عبید اللہ خان نے کہا کہ اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے پاکستان اور بلوچستان کی حفاظت کریں گے جو لوگ بلوچستان کو پاکستان سے الگ کرنے کا خواب دیکھ رہے ہیں ان کا یہ خواب کبھی بھی پورا نہیں ہو گا بلوچستان پاکستان کی شہ رگ ہے، ایک سو اکیس فراری کیمپ حیر بیار مری‘ براہمداغ بگٹی‘ جاوید مینگل اور ڈاکٹر اللہ نذر چلا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا اس وقت بلوچستان میں امن وامان کی صورتحال خراب ہے تاہم بعض عناصر اس صورتحال سے فائدہ اٹھانے کی جو کوشش کر رہے ہیں وہ کبھی بھی کامیاب نہیں ہو سکیں گے بلوچستان میں اسلحہ صوبہ سرحد‘ پنجاب اور سندھ کے مختلف راستوں سے آ رہا ہے کچھ عرصے سے ایف سی کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور حقائق سے ہٹ کر پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں دکھایا جا رہا ہے جو درست نہیں ہیں، حقائق دکھانے چاہئیں ایف سی صوبائی حکومت کی درخواست پر آتی ہے بلوچستان کے اس وقت جو علاقے بہت حساس ہیں ان میں سبی‘ کوئٹہ‘ نصیر آباد‘ خضدار ‘ ڈیرہ بگٹی اور تربت شامل ہیں کافی عرصے سے ایک ہی قبیلے سے تعلق رکھنے والے افراد کو ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے مارا جا رہا ہے اور کوئٹہ میں تیس چالیس سالوں سے رہنے والے افراد بھی اب نقل مکانی کر کے جا چکے ہیں اور جو لوگ یہاں حالات خراب کر رہے ہیں انہیں ڈالر اور اسلحہ باہر سے مل رہا ہے۔ ایف سی کو طلب کیا ہے اور اس کی درخواست کی ہے ہم نے وہاں ایف سی بھیجی انہوں نے کہا بعض دفعہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا ایف سی کو صوبائی حکومت کے ما تحت ہونے کی خبریں شائع ہوتی ہیں حقیقت یہ نہیں ہے ہمیں جب بھی صوبائی حکومت نے طلب کیا ہم وہاں گئے ایف سی وفاقی فورس ہے اور ہم وزارت داخلہ کے ما تحت ہیں انہوں نے کہا کچھ لوگ ٹی وی پر آکر بلوچستان کو پاکستان سے الگ کرنے کی باتیں کر رہے ہیں یہ ان کا خواب ہے جو کبھی پورا نہیں ہو گا، بلوچستان میں آپریشن ہوا تھا تو اس وقت فرار ی کیمپ ختم ہو گئے تھے یا جو ان میں موجود تھے وہ چلے گئے تھے بلوچستان میں فوجی آپریشن بند ہونے کے بعد وہ فراری جو مختلف جگہوں پر چھپے ہوئے تھے واپس اکٹھے ہو گئے ہیں اور اس وقت ایک سو اکیس کیمپ موجود ہیں اور تیس فراری کیمپ افغانستان میں ہیں جہاں باقاعدہ انہیں ٹریننگ دیکر بلوچستان بھیجا جاتا ہے اور یہاں پر وہ دہشتگردی اورٹارگٹ کلنگ کرتے ہیں۔ہم نے ہمیشہ ایک بات کی ہے کہ بلوچستان کے مسئلے کو سنجیدگی سے لینا ہوگا اور بات چیت کے ذریعے اگر مسئلے کو حل کیاجائے تو بہتر ہو گا بلوچستان میں اس وقت جو فراری کیمپ موجود ہیں انہیں باقاعدہ اسلحہ سپلائی ہو رہا ہے ڈالرز مل رہے ہیں ہمارے پاس ثبوت ہیں کہ حیر بیار مری نے ہمارے ایک کیمپ پر حملے کے بعد اپنے آدمیوں کو ہدایت دی تھی اور وہ ٹیلیفون ریکارڈنگ بھی ہمارے پاس موجود ہے جس پر انہوں نے اپنے آدمیوں کو کہا تھا کہ اب واپس چلے جاﺅ انہوں نے کہا بلوچستان میں ویسے تو امن وامان کی صورتحال دیکھی جائے خراب ہے مگر دوسرے صوبوں سے مقابلہ کیاجائے تو بہتر نظر آتی ہے۔
 — 

No comments:

Post a Comment