Monday, June 11, 2012

گوادر


پاکستان کے انتہائی جنوب مغرب میں اور دنیا کے سب سے بڑے بحری تجارتی راستے پر واقع60 کلو میٹر طویل ساحلی پٹی والے شہر گوادر میں اکیسویں صدی کی ضروتوںسے آراستہ جدید بندرگاہ کی تکمیل کا وقت جوں جوں قریب آرہا ہے اس سونے کی چڑیا کی اہمیت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔آنے والے وقت میں نہ صرف پاکستان بلکہ چین ، افغانستان اور وسطیٰ ایشیاءکے ممالک کی بحری تجارت کا زیادہ تر دارومدار اسی بندر گاہ پر ہوگا ۔گوادر اور اس کے گرد و نواح کی تاریخ بہت پرانی ہے۔یہ علاقہ وادی کلانچ اور وادی دشت بھی کہلاتا ہے اس کا زیادہ رقبہ بے آباد اور بنجر ہے ۔یہ مکران کی تاریخ میں ہمیشہ سے ہی خاص اہمیت کا حا مل رہا ہے۔ معلوم تاریخ کی ایک روایت کے مطابق حضرت داﺅد علیہ السلام کے زمانے میں جب قحط پڑا تو وادی سینا سے بہت سے افراد کوچ کر کے وادی مکران کے علاقے میں آگئے ۔مکران کا یہ علاقہ ہزاروں سال تک ایران کا حصہ رہا ہے۔ ایرانی بادشاہ کاﺅس اور افراسیاب کے دور میں بھی ایران کی عملداری میںتھا ۔325قبل مسیح میں سکندر اعظم جب برصغیر سے واپس یونان جا رہا تھا تو اس نے یہ علاقہ اتفاقاً دریافت کیا اس کی بحری فوج کے سپہ سالار (Admiral Nearchos)نے اپنے جہاز اس کی بندرگاہ پر لنگر انداز کیے اور اپنی یادداشتوں میں اس علاقے کے اہم شہروں کو قلمات ،گوادر ،پشوکان اور چاہ بارکے ناموں سے لکھا ہے۔اہم سمندری راستے پر واقع ہونے کی وجہ سے سکندر اعظم نے اس علاقے کو فتح کر کے اپنے ایک جنرل Seleukos Nikatorکو یہاں کا حکمران بنا دیا جو303قبل مسیح تک حکومت کرتا رہا ۔303ق م میں برصغیر کے حکمران چندر گپتا نے حملہ کر کے یونانی جنرل سے یہ علاقہ چھین لیا اور اپنی حکومت میں شامل کر لیامگر 100سال بعد 202ق م میں پھر یہاں کی حکمرانی ایران کے بادشاہوںکے پاس چلی گئی ۔ 711عیسوی میں مسلمان جنرل محمد بن قاسم نے یہ علاقہ فتح کر لیا۔ہندوستان کے مغل بادشاہوں کے زمانے میں یہ علاقہ مغلیہ سلطنت کا حصہ رہا جب کہ 16ویں صدی میں پرتگیزیوں نے مکران کے متعدد علاقوں جن میں یہ علاقہ بھی شامل تھا پر قبضہ کر لیا۔ 1581میں پرتگیزیوں نے اس علاقے کے دو اہم تجارتی شہروں پسنی اور گوادر کو جلا دیا ۔ یہ علاقہ متعدد مقامی حکمرانوں کے درمیان بھی تختہ مشق بنا رہا اور کبھی اس پر بولیدی حکمران رہے تو کبھی رندوں کو حکومت ملی کبھی ملک حکمران بن گئے تو کبھی گیچکیوںنے اس پر قبضہ کر لیا۔مگر اہم حکمرانوں میں بولیدی اور گچکی قبیلے ہی رہے ہیں ۔بولیدی خاندان کو اس وقت بہت پزیرائی ملی جب انھوں نے ذکری فرقے کو اپنا لیا اگرچہ گچکی بھی ذکری فرقے سے ہی تعلق رکھتے تھے ۔1740تک بولیدی حکومت کرتے رہے ان کے بعد گچکیوں کی ایک عرصہ تک حکمرانی رہی مگر خاندانی اختلافات کی وجہ سے جب یہ کمزور پڑے تو خان آف قلات میر ناصر خان اول نے کئی مرتبہ ان پر چڑھائی کی جس کے نتیجے میں ان دونوں نے اس علاقے اور یہاں سے ہونے والی آمدن کوآپس میں تقسیم کر لیا۔ 1775 کے قریب مسقط کے حکمرانوں نے وسطیٰ ایشیاءکے ممالک سے تجارت کیلئے اس علاقے کو مستعار لے لیا اور گوادر کی بندر گاہ کو عرب علاقوں سے وسطیٰ ایشیاءکے ممالک کی تجارت کیلئے استعمال کرنے لگے جن میں زیادہ تر ہاتھی دانت اور اس کی مصنوعات ، گرم مصالے ، اونی لباس اور افریقی غلاموں کی تجارت ہوتی۔ 1783میںمسقط کے بادشاہ کی اپنے بھائی سعد سلطان سے جھگڑا ہو گیاجس پر سعد سلطان نے خان آف قلات میر ناصر خان کو خط لکھا جس میں اس نے یہاں آنے کی خواہش ظاہر کی چنانچہ خان نے نہ صرف سلطان کو فوری طور پر آ جانے کو کہا بلکہ گوادر کا علاقہ اور وہاں کی آمدن (ریونیو)بھی لا محدود وقت ( وقت کا تعین نہ کیا گیا کہ کتنے عرصے تک یہ علاقہ اس کے نام ہو گا)کیلئے سلطان کے نام کر دیا ۔جس کے بعد سلطان نے گوادر میں آ کر رہائش اختیار کر لی۔1797میں سلطان واپس مسقط چلا گیا اور وہاں اپنی کھوئی ہوئی حکومت حاصل کر لی۔1804میں سلطان کی وفات کے بعد اس کے بیٹے حکمران بن گئے تو اس دور میں بولیدیوں نے ایک بار پھر گوادر پر قبضہ کر لیا جس پر مسقط سے فوجوں نے آ کر اس علاقے کو بولیدیوں سے واگزار کروایا۔1838-39کی پہلی افغان جنگ میں برطانیہ کی توجہ اس علاقہ پر ہوئی تو بعد میں1861میں برطانوی فوج نے میجر گولڈ سمتھ کی نگرانی آکر اس علاقے پر قبضہ کر لیا اور1863میں گوادر میں اپنا ایک اسسٹنٹ پولٹیکل ایجنٹ مقرر کر دیاچنانچہ ہندوستان میں برطانیہ کی برٹش انڈیا سٹیم نیویگیشن کمپنی کے جہازوں نے گوادر اور پسنی کی بندر گاہوں کو استعمال کرنا شروع کر دیا۔1863میں گوادر میں پہلا تار گھر (ٹیلی گرام آفس )قائم ہوا جبکہ پسنی میں بھی تار گھر بنایا گیا۔1894کو گوادر میں پہلا پوسٹ آفس کھلا جبکہ 1903کو پسنی اور1904کو اوماڑہ میں ڈاک خانے قائم کیے گئے۔1947میں جب برصغیر کی تقسیم ہوئی اور بھارت اور پاکستان کے نام سے دو بڑی ریاستیں معرض وجود میں آئیں تو گوادر اور اس کے گرد ونواح کے علاوہ یہ علاقہ قلات میں شامل تھا۔1955میں اس علاقے کو مکران ضلع بنا دیا گیا جبکہ1958میں مسقط نے بھی گوادر اور اس کے گرد ونواح کا علاقہ واپس پاکستان کو دے دیاجس پر پاکستان کی حکومت نے گوادر کو تحصیل کو درجہ دے کر اسے ضلع مکران میں شامل کر دیا۔یکم جولائی 1970کو جب ون یونٹ کا خاتمہ ہوا اور بلوچستان بھی ایک صوبے کی حیثیت اختیار کر گیا تو مکران کو بھی ضلعی اختیار مل گئے۔1977میں مکران کو ڈویژن کا درجہ دے دیا گیا اور یکم جولائی1977کو تربت ،پنجگور اور گوادر تین ضلعے بنا دیے۔
گوادر کا موجودہ شہر ایک چھوٹا سا شہر ہے جس کی آبادی ایک لاکھ افراد پر مشتمل ہے ۔ اس شہر کو سمندر نے تین طرف سے اپنے گھیرے میں لیا ہوا ہے اور ہر وقت سمندری ہوائیں چلتی رہتی ہیں جس کی وجہ سے یہ ایک خوبصورت اوردلفریب منظر پیش کرتا ہے ویسے بھی گوادرکے معنی ہوا کا دروازہ ہے ۔گوا کے معنی ہوا اور در کا مطلب دروازہ ہے۔ گہرے سمندر کے علاوہ شہر کے ارد گرد مٹی کی بلند بالا چٹانیں موجود ہیں۔اس شہر کے باسیوں کا زیادہ تر گزر بسر مچھلی کے شکار پر ہوتا ہے اور دیگر اقتصادی اور معاشی ضرورتیں ہمسایہ ممالک ایران،دوبئی اور مسقظ سے پوری ہوتی ہیں۔
فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور میں ہی گوادر میں جدید بندرگاہ بنانے کا منصوبہ بن گیا تھا مگرفنڈ کی کمی اور دیگر ملکی اور بین الااقوامی معامات اور سیاسی مصلحتوں کی وجہ اس کی تعمیر کاکام شروع نہ ہو سکا۔مگر جب امریکہ نے افغانستان پر طالبان حکومت کے خاتمے کے نام پر حملہ کیا تو اس کے بعد ابھی چار ماہ بھی نہیں گزرے تھے کہ پاکستان اور چین نے ملکر گوادر میں اکیسویں صدی کی ضروتوں کے مطابق بندرگاہ بنانی شروع کر دی۔چینیوں کے اس شہر میں داخلے کے ساتھ ہی شہر کی اہمیت یکدم کئی گنا بڑھ گئی اور مستقبل کا بین الاقوامی شہر اور فری ٹیکس زون کا اعلان ہوتے ہی ملک بھرکے سرمایہ دار اور دولت مند کھربوں روپے لیکر اس شہر میں پہنچ گئے اور زمینوں کو خرید نے کیلئے لوکل شہریوں کو ان کے منہ مانگے روپے دینے شروع کر دیے جس کی وجہ سے دو سو روپے کرایہ کی دکان تیس ہزار روپے تک ہو گئی اور تیس ہزار روپے فی ایکڑ زمین کی قیمت دو سے تین کروڑ روپے تک پہنچ گئی چنانچہ گوادر کا عام شہری جو چند ایکڑ کا مالک تھا دیکھتے ہی دیکھتے کروڑ پتی اورارب پتی بن گیاچنانچہ اب شہر میں بے شمار لینڈ کروزر ، پیجارو، پراڈو ، ویکو، ٹیوٹا ،ہنڈا اور دیگر نوعیت کی امپورٹڈ قیمتی گاڑیوں کی بھرمار ہو گئی ہے جس کی وجہ سے چھوٹی اور تنگ سڑکیں مزید سکڑ گئیں ۔ شہر کے تقریبا تمام بے روز گار افراد نے پراپرٹی ڈیلر کے دفتر کھول لیے جبکہ دوسرے شہروں سے آئے ہوئے افراد نے پراپرٹی کو منافع بخش کاروبار سمجھتے ہوئے بڑے بڑے ادارے قائم کر لیے۔شہر کی ابتر حالت کو بہتر بنانے اور منظم کرنے کیلئے حکومت نے 2003میں گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے نام سے ایک ادارہ بنایا جس کا قانون بلوچستان کی صوبائی اسمبلی نے2002میں منظور کیا تھامگر نومولود ادارہ تاحال شہر کی حالت کو سدھارنے میں کامیاب نہ ہو سکا ۔
گوادر شہر مستقبل میں ایک بین الاقوامی شہر کی حیثیت اختیار کر جائے گااور نہ صرف بلوچستان بلکہ پاکستان کا اقتصادی لحاظ سے ایک اہم شہر بن جائے گا اور یہاں کی بندرگاہ پاکستان کے علاوہ چین، افغانستان، سنٹرل ایشیاءکے ممالک تاجکستان، قازقستان، آذربائیجان، ازبکستان ،ترکمانستان اور دیگر روسی ریاستوں کے استعمال میں آئے گی جس سے پاکستان کو بے شمار ریونیو ملے گا۔گوادر کی بڑھتی ہوئی اہمیت کی وجہ سے اب لوگوں کی توجہ اس طرف ہو چکی ہے چنانچہ ایسے میں بے شمار فراڈیوں اور دھوکے بازوں نے بھی جعلی اور دو نمبر رہائشی سکیموں اور دیگر کالونیوںکی آڑ میں لوگوں کو لوٹنا شروع کر رکھا ہے کیونکہ پاکستان کے دیگر شہروں سے تعلق رکھنے والے افراد گوادر کی اصل صورتحال سے بے خبر ہونے کی وجہ سے ان فراڈیوں کی چکنی چپڑی باتوں اور دلفریب اشتہارات کی وجہ سے ان کے جال میں پھنس کر اپنی جمع پونجھی سے محروم ہو رہے ہیں جبکہ یہاں ایسی سکیمیں جن کو گوادر دویلپمنٹ اتھارٹی نے این او سی بھی جاری کر رکھے ہیں مگر ان کی ابھی ابتداءبھی نہیں ہو سکی اور وہ اپنے پوسٹروں اور پمفلٹوں پر دوبئی اور ہانگ کانگ کے مناظر اور عمارتیں دکھا کر لوگوں کو بے وقوف بنا رہے ہیںویسے بھی گوادر میں پینے کے پانی کی کمیابی، سیوریج کے نظام کی عدم دستیابی اور دیگر عمارتی سامان کی عدم موجودگی کی وجہ سے نہ صرف پرائیویٹ سیکٹر بلکہ سرکاری سیکٹر میں بھی کوئی خاص کام شروع نہیں ہو سکا ماسوائے سی پورٹ اور چند ایک عمارتیں جن میں پرل کانٹی نینٹل اور دیگر منصوبے شامل ہیں پر کام ہو رہا ہے۔ جبکہ موجودہ گوادر شہرمیںٹوٹی ہوئی سڑکیں، چھوٹی چھوٹی تنگ گلیاں اوربازاروںمیں گندگی کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں ۔
گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی ایک چیئرمین ، ڈائریکٹر جنرل اور گورننگ باڈی جس میں دو وفاقی وزیر ،ایک صوبائی وزیر ،ڈسٹرکٹ ناظم اور ایڈیشنل چیف سیکرٹری ہوتے ہیں پر مشتمل ایک ادارہ ہے۔ جی ڈی اے کے ماسٹر پلان کے مطابق گوادر شہر کا علاقہ موجودہ پوری گوادر تحصیل کے برابر ہے اور شہر کی بڑی سڑکیں 200فٹ چوڑی اور چار لین پر مشتمل ہو نگی جبکہ ان سڑکوں کے دونوں جانب 2/2لین کی سروس روڈ ہو گی اور شہر کے مین روڈ کا نام جناح ایونیو رکھا گیا ہے جو تقریبا14کلو میٹر طویل ہے اور اسی طرح بلوچستان براڈوے بھی200فٹ چوڑی اور سروس روڈ پر مشتمل ہو گی اور اس کی لمبائی تقریبا60کلو میٹر ہے جبکہ سمندر کے ساتھ ساتھ تقریبا24کلو میٹر سڑک تعمیر ہو گی اور جو چوڑائی کے لحاظ سے جناح ایونیو کی ماند ہو گی۔ یہ سڑکیں نہ صرف ایشیاءبلکہ یورپ کے بہت سے ممالک کے شہروں سے بھی بڑی سڑکیں ہو نگی ۔ ابتک ترقیاتی کاموں پر تقریبا60سے70ملین روپے خرچ ہو چکے ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ اخراجات بھی بڑھتے چلے جائیں گے ۔شہر میں ترقیاتی کاموں میں تاخیر اور سستی کی سب سے اہم وجہ میٹریل کا دور دراز علاقوںسے لایا جا ناہے جیسے ریت 135کلو میٹر سے لایا جاتا ہے جبکہ سیمنٹ اور سریا وغیرہ 800کلو میٹر دور کراچی سے لایا جاتا ہے۔ موجودہ گوادر شہر صرف 800میٹر لمباہے جبکہ ماسٹر پلان کے مطابق آنے والے دنوں میں گوادر تقریبا40کلومیٹر عریض اور60کلو میٹر طویل ہو گا۔ اب تک جی ڈی اے نے قانون کے مطابق رہائشی ، انڈسٹریل اور کمرشل نوعیت کی30 سے زائد سکیموںکے این او سی جاری کیے ہیں جبکہ سرکاری سکیمیں اس وقت 2ہیں جن میں سنگار ہاﺅسنگ سکیم جو تقریبا 13کلو میٹر لمبی اور4.5کلو میٹر چوڑی سمندر میںمٹی کی پہاڑی پر ہے جبکہ دوسری سرکاری سکیم نیو ٹاﺅن کے نام سے ہو گی جس کے 4فیز ہو نگے اور اس میں 120گز سے 2000گز کے پلاٹ ہو نگے۔ گوادر فری پورٹ نہیں بلکہ ٹیکس فری زون شہر ہو گا۔جی ڈی اے نے این او سی جاری کرتے وقت پرائیویٹ اداروں کو اس بات کا پابند کیا ہے کہ وہ اپنی اپنی سکیموں میں پینے کے پانی کا انتظام کریں گے اور سمندر کا پانی صاف کرنے کے پلانٹ لگائےں گے جبکہ سیوریج کے پانی کے نکاس کا بھی ایسا انتطام کیا جا رہا ہے کہ گندا پانی سمندر میں شامل ہو کر اسے آلودہ نہ کرے اور کراچی جیسی صورتحال پیدا نہ ہو اور اس مقصد کیلئے ہر پرائیویٹ سکیم کو بھی پابند کیا ہے کہ وہ سیوریج کے پانی کو صاف کرنے کے ٹریٹمنٹ اور ری سائیکلنگ پلانٹ لگائیںاور اس پانی کو گرین بیلٹ اور پارکوں میں استعمال کیا جائے۔ اب گوادر شہر میں آکڑہ ڈیم سے پینے کا پانی آتاہے جو 45ہزار کی آبادی کیلئے کافی تھا مگر اب آبادی میں اضافہ کی وجہ سے پانی کا مسئلہ پیدا ہو گیا اور موجودہ پانی کی مقدار کم پڑ گئی کیونکہ اب گوادر کی آبادی ایک لاکھ کے لگ بھگ ہے اور آنے والے دنوں میں اس میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا جس کیلئے میرانی ڈیم کے منصوبے پر کام ہو رہا ہے مگر یہ گوادر سے120کلو میٹر دور ہے جہاں سے پانی لانا بہت مشکل کام ہو گا جبکہ میرانی ڈیم کے پانی کا سردیوں کی بارشوں پر منحصر ہے اور جیسا کہ اکثر ہوتا ہے کہ کئی کئی سال بارشیں نہیں ہوتی تو ڈیم میں پانی بھی نہیں آئے گا لہذا یہ کہا جائے تو درست ہو گا کہ گوادر میں اصل مسئلہ پانی کا ہی ہو گا جو ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔
گوارد کی بندر گاہ خلیج فارس ،بحیرہ عرب ،بحر ہند ،خلیج بنگال اور اسی سمندری بیلٹ میں واقع تمام بندرگاہوں سے زیادہ گہری بندر گاہ ہو گی اور اس میں بڑے بڑے کارگو بحری جہاز باآسانی لنگر انداز ہو سکیں گئے اس سال جون جولائی تک نئی بندرگاہ پر 50ہزار ٹن وزنی بحری جہاز لنگر انداز ہونے لگیں گے جبکہ اگلے مرحلے میںڈھائی لاکھ ٹن وزنی جہاز لنگر انداز ہو سکیں گے۔ اس بندر گاہ کے ذریعے نہ صرف پاکستان بلکہ افغانستان ،چین اور سنٹرل ایشیاءکی تمام ریاستوں کی تجارت ہو گی۔بندر گاہ کی گہرائی 14.5 میٹر ہوگی یہ ایک بڑی ،وسیع اور محفوظ بندر گاہ ہے ۔ اس کی اہمیت کے پیش نظر بہت سے ممالک کی اس پر نظریں ہیں ۔ بندرگاہ کا ایک فیز مکمل ہو چکا ہے جس میں 3 برتھ اور ایک ریمپ شامل ہے ۔ریمپ پر Ro-Ro جہاز لنگر انداز ہو سکیں گئے جبکہ 5 عدد فکس کرینیں اور 2 عدد موبائل کرینیں جبکہ ایک R T G کرین آپریشنل حالت میں لگ چکی ہیں ۔ ایک برتھ کی لمبائی 600 میٹر ہے جس پر بیک وقت کئی جہاز کھڑے ہو سکیں گے جبکہ دوسرے فیز میں 10 برتھوں کی تعمیر ہو گی۔ بندر گاہ چلانے کیلئے تمام بنیادی سامان اور آلات بھی لگ چکے ہیںمگر یہاں پر کام اس لیے نہیں ہو رہا کہ دوسرے علاقوں جیسے سنٹرل ایشیاءکے ممالک کیلئے رابطہ سڑکیں موجود نہیں ہیں اور اس مقصد کیلئے M4 کی تعمیر پر کام شروع ہو چکا ہے جو تقریبا 850کلو میٹر طویل موٹروے ہو گی جو گوادر سے چمن کے راستے افغانستان اور سنٹرل ایشیاءکے ممالک اوربذریعہ انڈس ہائی وے سے سلک روڈ( شاہراہ ریشم ) سے چین تک جائے گی اور اس کی تعمیر کے بعد ہی بندرگاہ پر اصل کام شروع ہوسکے گا
 — 

No comments:

Post a Comment