پاکستان بھر میں ذہین ترین طلبا کو یونیورسٹی کی تعلیم حاصل کرنے سے روکنے کی امریکی کوشش کا انکشاف ہوا ہے۔ اس سلسلے میں ایک سے زائد امریکی ادارے مقامی پارٹنرز کے ساتھ مل کر سرگرم ہیں اور اس پروگرام کو جینئس ہنٹ کا نام دیا گیا ہے۔ منصوبے کے تحت پاکستان بھرکے اچھے سرکاری کالجز میں ایف ایس سی فائنل ائیر کے طلبہ کا ذہنی صلاحیت جانچنے کا ٹیسٹ لیا جاتا ہے۔ ان طلبہ کو کہا بتایا جاتا ہے کہ ٹیسٹ ایک امریکی آئی ٹی کمپنی کی طرف سے لیا جارہا ہے اور کامیاب طلبہ کو ملازمت فراہم کی جائے گی اور اس کی یونیورسٹی کی تعلیم کا خرچہ بھی برداشت کیا جائے گا۔ بتایا جاتا ہے کہ اس پروگرام کے تحت پاکستان بھر سے ذہین ترین تین فیصد طلبہ کاانتخاب کیا جا تا ہے۔ اس گروپ کا طریقہ واردات یہ ہے کہ سب سے پہلےان کے نمائندے ملک بھر کے ٹاپ کالجز کے دورے کرتے ہیں اوروہاں موجود بارہویں جماعت کے طلباء کا ایک ذہنی امتحان لیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہےکہ اس ٹیسٹ میں کامیاب ہونے والے طلبا کو یونیورسٹی میں اسکالرشپ دی جائےگی اور اس کے ساتھ ساتھ پر کشش تنخواہ والی ملازمت بھی دی جائے گی ۔ اس ضمن میں کئی طلبہ نے تفصیلات بتائی ہیں جو ان مراحل سے گزر چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے کالج میں بھی چندماہ قبل کچھ لوگ آئے تھے جو اپنا تعلق ایک آئی ٹی کمپنی اور سافٹ وئیر ہاؤس سے بتاتے تھےاور اس کالج کے طلباء سے بھی ایک ذہنی ٹیسٹ لیا گیا تھا۔ بارہویں جماعت کے امتحان ختم ہونے کے بعد اب چند یوم قبل ان طلباکو فون کر کے بلایا گیا اور بتایا گیا کہ وہ پاکستان کے دو فیصد ذہین ترین طلبا میں شمار کئے گئے ہیں اور ٹیسٹ پاس کرلیا ہے۔ یہ انٹرویو لاہور اور کراچی میں لئے گئے۔ ان انٹریوز میں کامیاب ہونے والے طلبہ کو بتایا گیا کہ انہیں ماہانہ اسی ہزار پاکستانی روپے دئے جائیں گے جو کہ ان کی تنخواہ کی مد میں ہوں گے جب کہ انہیں امریکی کمپنی تین ماہ کاایک کورس بھی کرائے گی اور پاکستان کی کسی بھی یونیورسٹی میں داخلے کی فیس بھی ادا کی جائے گی۔ اس کے بعد ان طلبا کو ایک بائونڈ پیپر سائن کرنے کے لئے دیا گیا جسے دیکھ کر سب طلبا پریشان ہو گئے کیونکہ اس میںلکھا تھا کہ یہ طلبا اب تین سال تک کسی بھی یونیورسٹی میں داخلہ نہیں لےسکتے اور اس کے عوض انہیں امریکی کمپنی تین ماہ کا ایک کورس کرائے گی اورپھر انہیں تین سال تک ماہانہ اسی ہزار پاکستانی روپے تنخواہ ادا کی جائے گی جب کہ انہیں کمپنی کے کال سینٹر میں بطور کلرک کام کرنا ہوگا۔ تین سال کے بعد اگر وہ یونیورسٹی میں داخلہ لینا چاہیں تو کسی بھی سرکاری یونیورسٹی میں ان کی فیس بھی امریکی کمپنی ادا کرے گی۔ جب طلبا نے ان سے یہ پوچھا کہ تین سال بعد کون سی یونیورسٹی انہیں داخلہ دے گی کیونکہ سرکاری یونیورسٹیز میں تو داخلہ فریش طلبا کو ہی ملتا ہے اور کیا تین سال تعلیم سے آئوٹ رہنے کے بعد وہ مزید پڑھنے کے قابل بھی رہ جائیں گے؟ کیونکہ اس وقت تک ان کی عمر بڑھ چکی ہوگی اور گھر کی ذمہ داریاں بھی ان پر آ چکی ہوں گی ۔ پھر یہ کہ پاکستان کی ذہین ترین طلبہ سے کلرک کی ملازمت کرانا اور انہیں تین سال تک یونیورسٹی میں داخلے سے روکنے کا کیا جواز ہے؟ اس پر امریکی کمپنی کا کہنا تھا کہ وہ بھاری تنخواہ دے رہے ہیں اور اسی ہزار ماہانہ یونیورسٹی گریجویٹ کو بھی نہیں ملتے۔ جب ان سے کہا گیا کہ وہ یونیورسٹی گریجویٹس کو ہی کیوں ملازمت پرنہیں رکھ لیتے تو ان کا کہنا تھا کہ یہ ان کی پالیسی نہیں ہے۔ اس سلسلے میں کالجز کے اساتذہ کا بھی کہنا ہےکہ وہ حیران ہیں کہ آخر امریکی ادارے پاکستانی کالجز کے ذہین ترین طلبا کو منتخب کر کے انہیں یونیورسٹی جانے سے کیوں روک رہے ہیں؟ اس سے تو واضح ہوتا ہے کہ وہ پاکستان کے ذہین ترین طلبہ کو کسی بھی قیمت پر مزید تعلیم حاصل کرنے سے روکنا چاہتے ہیں اور اسی لئے یونیورسٹی نہ جانے پر بھاری تنخواہ ادا کررہے ہیں۔ واضح رہے ہر سال پاکستان کی یونیورسٹیز سے ہزاروں طلباء انجینئرز اور ڈاکٹرز بنتے ہیں اور پاکستان میں اعلی تعلیم حاصل کرنے کا رجحان تیزی سے بڑھا ہے۔ گذشتہ بیس برس میں صرف چھ ہزار پاکستانیوں نے پی ایج ڈی کی تعلیم حاصل کی جس میں سے نصف نے صرف گذشتہ تین برسوں میں پی ایچ ڈی کی ہے جس سے تعلیم کے بڑھتے رجحان کا پتہ چلتا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ تین سال بعد اسکالر شپ دینے کا امریکی ڈرامہ بھی جھوٹ پر مبنی ہے۔تین سال گزر جانے کے بعد گریجویشن کے لئے داخلہ نہیں مل پاتا کیونکہ سرکاری یونیورسٹی میں داخلہ کا پہلا حق اسی سال انٹر کرنے والے طالبعلم کا ہوتا ہے اور اس کے بعد یونیورسٹی میں نشستیں ہی ختم ہو جاتی ہیں۔ واضح رہے کہ اس پروگرام کے لئے پاکستان کے ذہین ترین طلبا کا انتخاب کرنے کے لئے مینسا نامی تنظیم امریکہ کی پارٹنر ہے۔ یہ ایک عالمی تنظیم ہے جو ذہنی صلاحیت کاا متحان لینے کی ماہر ہے۔ تفصیلات کےلئے دیکھیں، اس کی ویب سائٹ:http://www.mensapk.org/ جب کہ امریکی کمپنی کا نام ہے ٹی آر جی ورلڈ۔ اس کی ویب سائٹ دیکھنے کے لئے کلک کریں: http://www.trgworld.com/
No comments:
Post a Comment