Sunday, June 10, 2012

تحریک طالبان پاکستان سو سے زائد گروپوں میں تقسیم

.تحریک طالبان پاکستان سو سے زائد گروپوں میں تقسیم
سال 2009 میں بیت اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد تحریک طالبان پاکستان اپنی تنظیمی صلاحیت سے محروم ہو چکی ہے
پشاور – تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگست 2009 میں تحریک طالبان پاکستان کے رہنما بیت اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد اندرونی چپقلشوں اور کافی عرصے سے قیادت کے بحران کے باعث اس تنظیم کے اثر و رسوخ میں کمی واقع ہو چکی ہے۔ کسی زمانے میں وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں میں مختلف عسکریت پسند گروپ تحریک طالبان پاکستان کے جھنڈے تلے جمع تھے۔ 
پاکستان کے قبائلی علاقوں میں موجود طالبان سے متعلق تحقیق پر وقف اسلام آباد کے ایک ادارے فاٹا تحقیق مرکز کے صدر اشرف علی نے بتایا کہ اس تناظر میں فاٹا کے 27 ہزار 2 سو 20 مربع کلومیٹر رقبے پر 1 سو 30 بڑے اور چھوٹے عسکریت پسند گروپ موجود ہیں جن میں سے بعض تو وہ ہیں جو تحریک طالبان پاکستان سے الگ ہو چکے ہیں۔ 

فاٹا تحقیق مرکز میں ڈائریکٹر تحقیق کے طور پر فرائض سر انجام دینے والے منصور خان محسود نے سینٹرل ایشیا آن لائن کے ساتھ گفتگو میں کہا کہ اپنے قیام کے بعد تحریک طالبان پاکستان کے اثر و رسوخ میں اضافہ ہونا شروع ہو گیا کیونکہ فاٹا میں سرگرم بہت سے چھوٹے گروہ بھی اس کی صفوں میں شامل ہونا شروع ہو گئے۔ 
منصور محسود نے کہا کہ یہ وہ وقت تھا جب قبائلی علاقوں کے ہر اس شخص نے جس کے ساتھ پچاس یا سو افراد تھے بلامشروط تحریک طالبان پاکستان میں شمولیت اختیار کر لی۔ 
تاہم ان کے بقول یہ صورت حال اس وقت تبدیل ہو گئی جب فوج نے محسود کے عسکریت پسندوں پر دباؤ ڈال کر انہیں جنوبی وزیرستان کے اپنے گڑھ سے نکل کر شمالی وزیرستان میں جانے پر مجبور کر دیا۔ علی نے کہا کہ اس کے بعد سے قبائلی خطوں میں تحریک طالبان پاکستان مختلف گروپوں میں بکھرنا شروع ہو گئی ہے۔ 
فاٹا میں طالبان گروپ 
علی نے کہا کہ بیت اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد تحریک میں اختلافات کی خبریں سامنے آنے لگیں۔ یہ اختلافات زیادہ قتل و غارت گری پر مائل عسکریت پسند کمانڈر حکیم اللہ محسود، ایک اہم کمانڈر ولی الرحمٰن اور باجوڑ ایجنسی میں بیت اللہ کے ایک نائب مولوی فقیر کے درمیان ابھرے اور ان سے ایسے تنازعے کا آغاز ہوا جو آج دن تک جاری ہے۔ 
علی نے سینٹرل ایشیا آن لائن کو بتایا کہ بیت اللہ کی موت کے کچھ ہی عرصے بعد تحریک کی قیادت کے معاملے پر حکیم اللہ محسود اور ولی الرحمٰن کے درمیان ہونے والی لڑائی کے باعث شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسند گروپ تحریک طالبان پاکستان سے الگ ہونا شروع ہو گئے۔ 
انہوں نے کہا کہ شمالی وزیرستان کی صورت حال فاٹا کی دیگر ایجنسیوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ عدم استحکام کا شکار ہے۔ تحصیل میران شاہ میں ایک مضبوط عسکریت پسند کمانڈر مولوی حافظ گل بہادر کا سکہ چلتا ہے۔ اسے متعدد کمانڈروں کی حمایت حاصل ہے جو اپنے اپنے گروپ چلاتے ہیں۔ ان کمانڈروں میں خالق نور، صادق نور اور آریانہ کے علاوہ دیگر بھی شامل ہیں۔ 
علی نے کہا کہ آریانہ کمانڈر صادق نور کی زیر کمان تھا مگر اب ان کے راستے جدا ہو چکے ہیں۔ 
انہوں نے کہا کہ ان گروپوں کے بارے میں یہ تصور کیا جاتا ہے کہ ان کا رویہ پاکستانی فوج کی جانب نرم ہے کیونکہ ان کی زیادہ توجہ حقانی نیٹ ورک کے ساتھ مل کر افغانستان میں اتحادی فوج کے ساتھ لڑنے پر مرکوز ہے۔ 
منصور محسود نے کہا کہ حافظ گل بہادر کے ساتھی دیگر کمانڈروں میں حلیم خان اور گڈ عبد الرحمٰن شامل ہیں۔ 
انہوں نے کہا کہ اگرچہ ان کے اپنے الگ الگ گروپ ہیں مگر اسی دوران وہ گل بہادر کے لئے بھی کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ حافظ گل بہادر کے حامی گروپوں کی تعداد 15 سے 20 ہے۔ 
شمالی وزیرستان کی تحصیل میر علی کو حکیم اللہ محسود کے جنگجوؤں اور پنجابی طالبان کے نام سے سرگرم فوج مخالف گروپوں کا مضبوط گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔ پنجابی طالبان میں انتہائی تربیت یافتہ عسکریت پسند شامل ہیں جن کا تعلق 313 بریگیڈ (جس کا رہنما کشمیر سے تعلق رکھنے والا عسکریت پسند الیاس کشمیری ایک فضائی حملے میں مارا گیا تھا)، لشکر جھنگوی العالمی، لال مسجد بریگیڈ، سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی نامی کالعدم پاکستانی عسکریت پسند گروپوں سے ہے۔ 



انہوں نے کہا کہ اگست 2009 میں ایک فضائی حملے کے نتیجے میں اپنے بااثر رہنما کی ہلاکت کے بعد تحریک طالبان پاکستان ایک متحدہ کمان کی صلاحیت سے محروم ہو چکی ہے۔ 
اشرف علی نے کہا کہ تحریک طالبان پاکستان کو قیادت کا بحران درپیش ہے کیونکہ اس کا موجودہ سربراہ حکیم اللہ محسود قیادت کے لحاظ سے انتہائی ناتجربہ کار ہے جبکہ باجوڑ ایجنسی کا ایک ممتاز کمانڈر مولوی فقیر بھی اسے متحد رکھنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ 
فاٹا سیکرٹریٹ میں سلامتی کے امور کے سابق سیکرٹری ریٹائرڈ بریگیڈیر محمود شاہ کا کہنا ہے کہ جنوبی وزیرستان، باجوڑ اور مہمند ایجنسیوں میں کامیاب فوجی حکمت عملی کے نتیجے میں تحریک طالبان پاکستان کی کمر توڑ دی گئی ہے اور تنظیم کے قدم اکھڑ رہے ہیں۔ 
بریگیڈیر شاہ نے تحریک طالبان پاکستان سے الگ ہونے والے عسکریت پسند گروپوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کسی کو بھی معلوم نہیں ہے کہ اس وقت ان عسکریت پسند گروپوں کی کیا تعداد ہے۔ 
دھڑوں میں بٹنا تحریک طالبان پاکستان کی تاریخ کا حصہ 
علی نے کہا کہ 2007 میں چالیس عسکریت پسند گروپوں کے اتحاد کے نتیجے میں تحریک طالبان پاکستان وجود میں آئی تھی۔ 
انہوں نے کہا کہ بیت اللہ محسود کا تحریک طالبان پاکستان کو متحد رکھنے میں کلیدی کردار تھا کیونکہ اسی کی وجہ سے بہت سے عسکریت پسند رہنماؤں نے تحریک طالبان پاکستان کے قیام پر اتفاق کیا تھا۔

فاٹا تحقیق مرکز کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستانی فوج سے ہمدردی رکھنے والے کمانڈر صرف شمالی وزیرستان ایجنسی تک ہی محدود نہیں ہیں۔ وہ جنوبی وزیرستان ایجنسی کے صدر مقام وانا میں بھی موجود ہیں۔ 
احمد زئی وزیر قبیلے کا ایک عسکریت پسند قبائلی ملا نذیر ایک ایسے گروپ کا رہنما ہے جس نے اسلامی تحریک برائے ازبکستان کے ازبک اراکین کا سخت مقابلہ کیا اور انہیں جنوبی وزیرستان سے شمالی وزیرستان میں دھکیل دیا۔ 
محسود نے کہا کہ ملا نذیر کے گروپ کے اراکین تحصیل وانا میں بڑی تعداد میں موجود ہیں اور انہیں 14 چھوٹے عسکریت پسند گروپوں کی حمایت حاصل ہے۔ 
باجوڑ ایجنسی، ایک پیچیدہ منظر نامہ
علی نے کہا کہ حکیم اللہ محسود نے تحریک طالبان پاکستان کی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد سابق رہنما بیت اللہ محسود کے اعلانیہ نائب سربراہ مولوی فقیر کو خاموشی سے ہٹاتے ہوئے اسی کے ایک سابق ساتھی کمانڈر جمال الدین کو باجوڑ ایجنسی میں طالبان کا سربراہ مقرر کر دیا۔ 
اب ایجنسی میں تین بڑے اور درجنوں چھوٹے گروپ موجود ہیں تاہم علی کا کہنا تھا کہ 2008 اور 2009 میں فوجی کارروائی کے بعد ان میں سے بعض گروپ غیر مؤثر ہو گئے ہیں۔ 
علی نے کہا کہ جمال الدین یا داد اللہ اور برہان الدین تحریک طالبان پاکستان سے وابستگی رکھنے والے دو بڑے عسکریت پسند کمانڈر ہیں۔ دونوں کے باجوڑ میں اپنے گروپ ہیں اور دونوں ہی مولوی فقیر کے خلاف ہیں۔ مولوی فقیر اس وقت افغانستان کے صوبہ کنڑ میں مقیم ہے جہاں سے وہ اپنا ریڈیو اسٹیشن بھی چلاتا
ہے۔ 
ان کے بقول مختلف کمانڈروں کی زیر کمان بعض دیگر گروپ بھی موجود ہیں۔ ان کمانڈروں میں قاری ضیاء الرحمٰن (ایک افغان شہری جو حکومت کے ساتھ مذاکرات کا مخالف ہے)، مولوی عنایت الرحمٰن، ڈاکٹر اسماعیل (باجوڑ ایجنسی کا رہائشی)، مولانا عبدل (2006 میں چینائی نامی دینی مدرسے پر ہونے والے فضائی حملے میں 83 افراد کے ہمراہ مدرسے کے سربراہ مولانا اسماعیل کی ہلاکت کے بعد اس کا انتظام سنبھالنے والا) اور کاروان نعمت اللہ شامل ہیں۔ 
علی نے کہا کہ مولانا منیر، سالار مسعود، عبد الوہاب اور مولانا عبد الحمید نامی کمانڈروں کے بعض چھوٹے گروپوں نے اپنی سرگرمیاں محدود کر رکھی ہیں۔ 
انہوں نے کہا کہ یہ گروپ پہلے گرد و نواح کے علاقوں میں سرگرم تھے مگر اب کچھ عرصے سے انہوں نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ اگرچہ وہ ایک جانب ہٹ چکے ہیں مگر علاقے میں ان کی موجودگی اب بھی باقی ہے۔ 
ان کے بقول 2008 میں باجوڑ میں فوج کی کارروائی کے بعد ان میں سے کوئی بھی گروپ سرگرم نہیں رہا مگر وہ کبھی کبھی منظر عام پر دکھائی دیتے ہیں۔ 
خیبر اور درہ آدم خیل میں مختلف گروپ سرگرم 
علی نے کہا کہ خیبر ایجنسی، کرم ایجنسی اور درہ آدم خیل کے عسکریت پسند فاٹا کی دیگر ایجنسیوں سے مختلف ہیں۔ 

خیبر ایجنسی کے تمام عسکریت پسند کمانڈروں میں سب سے طاقتور منگل باغ کی زیر قیادت لشکر اسلام نامی تنظیم تیراہ، باڑہ اور ایجنسی کے دیگر علاقوں میں اندرونی لڑائیوں میں مصروف ہے۔ 
علی نے کہا کہ ان کی لڑائی کا محرک فرقہ وارانہ اختلافات ہیں کیونکہ ان کا تحریک طالبان پاکستان سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ 
تاہم درہ آدم خیل کے ایک طاقتور عسکریت پسند کمانڈر طارق آفریدی کے تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ روابط ہیں گو کہ اپنے زیر اثر علاقے میں وہ سیکورٹی فورسز کے لئے اپنے طور پر بھی ایک بڑا چیلنج بنا ہوا ہے۔ اس نے ایک بار 20 سے زائد کوئلے کے کان کنوں کو ایک سال تک یرغمال بنائے رکھا تھا۔ 
فرقہ وارانہ تنازعات کے گڑھ کرم ایجنسی کے سنی علاقوں میں فضل سعید حقانی کا کافی اثر و رسوخ ہے۔ وہ کسی زمانے میں تحریک طالبان پاکستان سے وابستہ تھا مگر علاقے میں تحریک طالبان پاکستان کے خلاف فوجی کارروائی سے کچھ ہی عرصہ قبل جون 2010 میں اس نے حکیم اللہ سے اپنی راہیں جدا کر لیں۔ 
علی نے کہا کہ حکیم اللہ محسود کے کمان سنبھالنے کے بعد کسی زمانے میں تحریک طالبان پاکستان کا مضبوط گڑھ تصور کی جانے والی اورکزئی ایجنسی میں اب تنظیم کو مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ 
تحریک طالبان پاکستان سے وابستہ ایک طاقتور کمانڈر ملا طوفان کا اپنے زیر اثر علاقے میں کافی اثر و رسوخ موجود ہے۔ تاہم اسے اپنے جتنے طاقتور مخالف کمانڈر نبی ملا کی جانب سے سخت چیلنج کا سامنا ہے۔

No comments:

Post a Comment