Monday, October 29, 2012

انٹر سروسز انٹلیجنس (inter-services intelligence) اور ISI (آئی ایس آئی)



محکمۂ بین الاقوامی مخابرات جسے انگریزی میں ڈائریکٹوریٹ آف انٹر سروسز انٹلیجنس یا مختصراً انٹر سروسز انٹلیجنس (inter-services intelligence) اور ISI (آئی ایس آئی) کہاجاتا ہے، پاکستان کی سب سے بڑی مایہ ناز خفیہ ایجنسی ہے. جو ملکی مفادات کی حفاظت اور دشمن ایجنٹوں کی تخریبی کاروائیوں کا قبل از وقت پتا چلا کر انہیں ختم کرنے کےلیے بنائی گئی ہے. اس سے پہلے انٹیلیجنس بیورو (I.B) اور ملٹری انٹیلیجنس (M.I) ک
ا قیام عمل میں آیا تھا. لیکن بعد میں اسکا قیام عمل میں آیا.
تاریخ

1947 میں آزادی حاصل کرنے کے بعد دو نئی انٹیلیجنس ایجنسیوں انٹیلیجنس بیورو اور ملٹری انٹیلیجنس کا قیام عمل میں آیا.لیکن خفیہ اطلاعات کا تینوں مسلح افواج سے تبادلہ کرنے میں ملٹری انٹیلیجنس کی کمزوری کی وجہ سے I.S.I کا قیام عمل میں لایا گیا. 1948 میں ایک آسٹریلوی نژاد برطانوی فوجی افسر میجر جنرل رابرٹ کاؤتھم (جو اس وقت پاکستانی فوج میں ڈپٹی چیف آف اسٹاف تھے) نے I.S.I قائم کی.اس وقت آئی ایس آئی میں تینوں مسلح افواج سے افسران شامل کیے گئے.
تنظیم

14 جولائی 1948ء میں لیفٹیننٹ کرنل شاہد حمید جنہیں بعد میں دو ستارہ میجر جنرل بنایا گیا.پھر میجر جنرل (ریٹائرڈ)سکندر مرزا (جو اس وقت ڈیفنس سیکرٹری تھے) نے انہیں ملٹری انٹیلیجنس کا ڈائریکٹر بنا دیا.پھر انہیں آئی ایس آئی کی تنظیم کرنے کو کہا گیا.اور انہوں نے یہ کام میجر جنرل رابرٹ کاتھوم (جو اس وقت ڈپٹی چیف آف اسٹاف تھے) کی مدد سے کیا.تینوں مسلح افواج سے افسران لیے گئے.اور پبلک سروس کمیشن کے ذریعے سویلین بھی بھرتی کیے گئے.I.S.I کی موجودہ ترقی کے پیچھے میجر جنرل کاتھوم کا ذہن کارفرما تھا.جو I.S.I کے 1950-59 تک ڈائریکٹر جنرل رہے. I.S.I کا ہیڈکوارٹر اسلام آباد میں واقع ہے.اسکا سربراہ حاضر سروس لیفٹیننٹ جنرل ہوتا ہے.اسکے ماتحت مزید 3 ڈپٹی ڈائریکٹر جنرلز کام کرتے ہیں.آئی ایس آئی کے موجودہ سربراہ ظہیر الاسلام ہیں.

بھارتی خفیہ ایجنسی راآئی ایس آئی کی دیرینہ مخالف ہے. لیکن فتح ہمیشہ آئی ایس آئی کی ہی ہوئی ہے. آئی ایس آئی نے بھارتی فوجی حملوں اور خفیہ فوجی مشقوں کی فائلز اندرا گاندھی کی میز پر پہنچنے سے پہلے ہی اڑا لی تھیں. یوں بھارتیوں کے حملے سے پہلے ہی پاکستانی فوج ہوشیار ہوگئی اور مورچہ بندی کر لی. جس پر بھارتی سورما دم دبا کر بھاگ گئے.
تاریخ
1947 میں آزادی حاصل کرنے کے بعد دو نئی انٹیلیجنس ایجنسیوں انٹیلیجنس بیورو اور ملٹری انٹیلیجنس کا قیام عمل میں آیا.لیکن خفیہ اطلاعات کا تینوں مسلح افواج سے تبادلہ کرنے میں ملٹری انٹیلیجنس کی کمزوری کی وجہ سے I.S.I کا قیام عمل میں لایا گیا. 1948 میں ایک آسٹریلوی نژاد برطانوی فوجی افسر میجر جنرل رابرٹ کاؤتھم (جو اس وقت پاکستانی فوج میں ڈپٹی چیف آف اسٹاف تھے) نے I.S.I قائم کی.اس وقت آئی ایس آئی میں تینوں مسلح افواج سے افسران شامل کیے گئے.
تنظیم
14 جولائی 1948ء میں لیفٹیننٹ کرنل شاہد حمید جنہیں بعد میں دو ستارہ میجر جنرل بنایا گیا.پھر میجر جنرل (ریٹائرڈ)سکندر مرزا (جو اس وقت ڈیفنس سیکرٹری تھے) نے انہیں ملٹری انٹیلیجنس کا ڈائریکٹر بنا دیا.پھر انہیں آئی ایس آئی کی تنظیم کرنے کو کہا گیا.اور انہوں نے یہ کام میجر جنرل رابرٹ کاتھوم (جو اس وقت ڈپٹی چیف آف اسٹاف تھے) کی مدد سے کیا.تینوں مسلح افواج سے افسران لیے گئے.اور پبلک سروس کمیشن کے ذریعے سویلین بھی بھرتی کیے گئے.I.S.I کی موجودہ ترقی کے پیچھے میجر جنرل کاتھوم کا ذہن کارفرما تھا.جو I.S.I کے 1950-59 تک ڈائریکٹر جنرل رہے. I.S.I کا ہیڈکوارٹر اسلام آباد میں واقع ہے.اسکا سربراہ حاضر سروس لیفٹیننٹ جنرل ہوتا ہے.اسکے ماتحت مزید 3 ڈپٹی ڈائریکٹر جنرلز کام کرتے ہیں.آئی ایس آئی کے موجودہ سربراہ ظہیر الاسلام ہیں.
بھارتی خفیہ ایجنسی راآئی ایس آئی کی دیرینہ مخالف ہے. لیکن فتح ہمیشہ آئی ایس آئی کی ہی ہوئی ہے. آئی ایس آئی نے بھارتی فوجی حملوں اور خفیہ فوجی مشقوں کی فائلز اندرا گاندھی کی میز پر پہنچنے سے پہلے ہی اڑا لی تھیں. یوں بھارتیوں کے حملے سے پہلے ہی پاکستانی فوج ہوشیار ہوگئی اور مورچہ بندی کر لی. جس پر بھارتی سورما دم دبا کر بھاگ گئے.

Sunday, October 28, 2012

محمدافضل کی کہانی جوپاکستان کا پرچم لہراتے ہوئےاپنے دونوں بازو کٹوابیھٹا...!



محمدافضل کی کہانی جوپاکستان کا پرچم لہراتے ہوئےاپنے دونوں بازو کٹوابیھٹا...!
محمدافضل جس نے 1987 میں جشن آزادی کی تقریبات کو شایان شان طریقہ سے مناتے ہوئے ایک وفاقی وزیر کے ڈرایؤر کے گھر سے بھی اونچا پاکستان کا پرچم لہراتے ہوئے بدقسمتی سے ایک حادثے میں دونوں بازو کٹوا کر اوکاڑا میں تاریخ رقم کردی۔محمد افضل اسوقت چھٹی جماعت کا طالبعلم تھاوطن کی محبت اور جوش میں اپنے گھر کے سامنے ایک وفاقی وزیر کے
 ڈرایؤر کے اونچے جھنڈے کودیکھکرملی جذبے سے سرشار اپنے گھر پر بھی قومی پرچم کو بلند کرنے لگامعصوم تھا کسی بھی حادثے سے بے خبراس نے گھر کی چھت پر مزید جھنڈا اونچا کرنے کیلئے سولہ فٹ لمبی بھاری پانی استعمال والی لوہے کی پائپ پر جھنڈا لہرا دیا اسی لمحے اسکے ننھے ہاتھو ں سے بیلنس برقرارنہ رہا اور بھاری پائپ اسکے گھر سے نیچے گزرنے والی گیارہ ہزار کے وی کی برقی تاروں سے لگی اور پلک جھپکتے ہی بجلی کے جھٹکے سے محمدافضل کے جسم اورکپڑوں کو آگ لگ گئی جسکی جان بچانے کیلئے ڈاکٹروں نے قومی پرچم بلند کرنے والے اسکے بازو کاٹ دئیے اسکی تعلیم مکمل نا ہوسکی والد کا سایہ سر سے اٹھنے کے بعد وہی بلند ہمت نوجوان معذور کوٹے پر ملنے والی چپڑاسی کی ملازمت کرتے ہوئے وطن عزیز پر جان تک نچھاور کرنے کاعزم رکھتا ہے۔ یوم دفاع،جشن آزادی یایوم پاکستا ن ہو محمد افضل پورے ملی جذبے کے ساتھ کٹے ہوئے بازوؤں میں سبز ہلالی پرچم پکڑ کر وطن کے رکھوالوں کو سلامی پیش کرتا ہے۔

Saturday, October 27, 2012

ایک کافی کا کپ



درد دل رکھنے والے اس تحریر کو ضرور پڑھیں--
اس تحریر کو پڑھنے میں 5 منٹ لگیں گے لیکن عمل کرنے والوں کے لئے ایک نئی راہ سے روشناس ہوں گے انشا اللہ۔آپ سے ریکویسٹ ہے ایک نظر ضرور دیکھیے گا جزاک اللہ الخیر:)
ہم دونوں دوست ، پانیوں اور روشنیوں کے شہر وینس کےایک نواحی قصبے کی مشہور کافی شاپ پر بیٹھے ہوئے کافی سے لظف اندوز ہو رہے تھے کہ اس کافی شاپ میں ایک گاہک داخل ہوا جو ہمارے ساتھ والی میز کو خالی پا 
کر یہاں آ کر بیٹھ گیا۔ اس نے بیٹھتے ہی بیرے کو آواز دیکر بلایا اور اپنا آرڈر یوں دیا؛ دو کپ کافی لاؤ، اور اس میں سے ایک وہاں دیوار پر۔

ہم نے اس شخص کےاس انوکھے آرڈر کو دلچپسی سے سنا۔ بیرے نے آرڈر کی تعمیل کرتے ہوئے محض ایک کافی کا کپ اس کے سامنے لا کر رکھ دیا۔ اس صاحب نے کافی کا وہ ایک کپ نوش کیا مگر پیسے دو کے ادا کئے۔ اس گاہک کے جاتے ہی بیرے نے دیوار پر جا کر ایک ورقہ چسپاں کر دیا جس پر لکھا تھا؛ ایک کپ کافی۔ 

ہمارے وہاں بیٹھے بیٹھے دو اور گاہک آئے جنہوں نے تین کپ کافی کا آرڈر دیا، دو ان کی میز پر اور ایک دیوار پر، پیئے تو انہوں نے دو ہی کپ، مگر ادائیگی تین کپ کی اور چلتے بنے۔ ان کے جانے کے بعد بھی بیرے نے ویسا ہی کیا، جا کر دیوار پر ایک اور ورقہ چسپاں کردیا جس پر لکھا تھا؛ ایک کپ کافی۔ 

ایسا لگتا تھا یہاں ایسا ہونا معمول کی بات ہے مگر ہمارے لئے انوکھا اور ناقابل فہم تھا۔ خیر، ہمیں کونسا اس معاملے سے کچھ لینا دیا تھا، ہم نے اپنی کافی ختم کی، پیسے ادا کیئے اور چلتے بنے۔ 

چند دنوں کے بعد ہمیں ایک بار پھر اس کافی شاپ پر جانے کا اتفاق ہوا۔ ہم بیٹھے کافی سے لطف اندوز ہو رہے تھے کہ یہاں ایک ایسا شخص داخل ہوا جس کے کپڑے اس کافی شاپ کی حیثیت اور یہاں کے ماحول سے قطعی میل نہیں کھا رہے تھے۔ غربت اس شخص کے چہرے سے عیاں تھی۔ اس شخص نے بیٹھتے ہی پہلے دیوار کی طرف دیکھا اور پھر بیرے کو بلایا اور کہا؛ ایک کپ کافی دیوار سے لاؤ۔ بیرے نے اپنے روایتی احترام اور عزت کے ساتھ اس شخص کو کافی پیش کی جسے پی کر یہ شخص بغیر پیسے دیئے چلتا بنا۔ ہم یہ سب کچھ حیرت سے دیکھ رہے تھے کہ بیرے نے دیوار پر لگے ہوئے ورقوں میں سے ایک ورقہ اتار کر کوڑے دان میں پھینک دیا۔ اب ہمارے لئے اس بات میں کچھ چھپا نہیں رہ گیا تھا، ہمیں سارے معاملے کا پتہ چل گیا تھا۔اس قصبے کے باسیوں کی اس عظیم الشان اور اعلیٰ انسانی قدر نے ہماری آنکھوں کو آنسووں سے بھگو کر رکھ دیا تھا۔ 

کافی نا تو ہمارے معاشرے کی ضرورت ہے اور نا ہی ہمارے لئے واجبات زندگی طرح کی اہم کوئی کوئی چیز۔ بات تو صرف اس سوچ کی ہے کہ کسی بھی نعمت سے لطف اندوز ہوتے ہوئے آپ ان لوگوں کا تصور ہی کرلیں جو اس نعمت کو اتنا ہی پسند کرتے ہیں جتنا کہ آپ مگر وہ اس کے حصول سے محروم ہیں۔ 

اس بیرے کے کردار کو دیکھیئے جو صاحب حیثیت لوگوں اور ضرورتمندوں کے درمیان رابطے کا کردار نہایت خندہ پیشانی اور کھلے دل کے ساتھ لبوں پر مسکراہٹ سجائے کر رہا ہے۔

اس ضرورتمند کو دیکھیئے جو اس کافی شاپ میں اپنی عزت نفس کو مجروح کیئے بغیر ہی داخل ہوتا ہے، اور اسے یہ پوچھنے کی قطعی ضرورت پیش نہیں آئی کہ آیا اس کو ایک کپ کافی مفت میں مل سکتا ہے یا نہیں۔ اس نے دیوار پر دیکھا، کافی کا آرڈر موجود پا کر، یہ پوچھے اور جانے بغیر ہی، کہ یہ کپ کس کی طرف سے اس کو دیئے جانے کیلئے موجود ہے، اپنے لئے ایک کپ کا آرڈر دیا، کافی کو سرور کے ساتھ پیا اورخاموشی سے چلتا بنا۔

جب ہم اس مذکورہ بالا کہانی کی جزئیات کو جانیں گے تو ہمیں اس کہانی کے کرداروں کے ساتھ ساتھ اس دیوار کے کردار کو بھی یاد رکھنا پڑے گا جو اس قصبے کے درد دل رکھنے والے باسیوں کی عکاس بنی ہوئی ہے۔
ہم نے اس شخص کےاس انوکھے آرڈر کو دلچپسی سے سنا۔ بیرے نے آرڈر کی تعمیل کرتے ہوئے محض ایک کافی کا کپ اس کے سامنے لا کر رکھ دیا۔ اس صاحب نے کافی کا وہ ایک کپ نوش کیا مگر پیسے دو کے ادا کئے۔ اس گاہک کے جاتے ہی بیرے نے دیوار پر جا کر ایک ورقہ چسپاں کر دیا جس پر لکھا تھا؛ ایک کپ کافی۔ 
ہمارے وہاں بیٹھے بیٹھے دو اور گاہک آئے جنہوں نے تین کپ کافی کا آرڈر دیا، دو ان کی میز پر اور ایک دیوار پر، پیئے تو انہوں نے دو ہی کپ، مگر ادائیگی تین کپ کی اور چلتے بنے۔ ان کے جانے کے بعد بھی بیرے نے ویسا ہی کیا، جا کر دیوار پر ایک اور ورقہ چسپاں کردیا جس پر لکھا تھا؛ ایک کپ کافی۔ 
ایسا لگتا تھا یہاں ایسا ہونا معمول کی بات ہے مگر ہمارے لئے انوکھا اور ناقابل فہم تھا۔ خیر، ہمیں کونسا اس معاملے سے کچھ لینا دیا تھا، ہم نے اپنی کافی ختم کی، پیسے ادا کیئے اور چلتے بنے۔ 
چند دنوں کے بعد ہمیں ایک بار پھر اس کافی شاپ پر جانے کا اتفاق ہوا۔ ہم بیٹھے کافی سے لطف اندوز ہو رہے تھے کہ یہاں ایک ایسا شخص داخل ہوا جس کے کپڑے اس کافی شاپ کی حیثیت اور یہاں کے ماحول سے قطعی میل نہیں کھا رہے تھے۔ غربت اس شخص کے چہرے سے عیاں تھی۔ اس شخص نے بیٹھتے ہی پہلے دیوار کی طرف دیکھا اور پھر بیرے کو بلایا اور کہا؛ ایک کپ کافی دیوار سے لاؤ۔ بیرے نے اپنے روایتی احترام اور عزت کے ساتھ اس شخص کو کافی پیش کی جسے پی کر یہ شخص بغیر پیسے دیئے چلتا بنا۔ ہم یہ سب کچھ حیرت سے دیکھ رہے تھے کہ بیرے نے دیوار پر لگے ہوئے ورقوں میں سے ایک ورقہ اتار کر کوڑے دان میں پھینک دیا۔ اب ہمارے لئے اس بات میں کچھ چھپا نہیں رہ گیا تھا، ہمیں سارے معاملے کا پتہ چل گیا تھا۔اس قصبے کے باسیوں کی اس عظیم الشان اور اعلیٰ انسانی قدر نے ہماری آنکھوں کو آنسووں سے بھگو کر رکھ دیا تھا۔ 
کافی نا تو ہمارے معاشرے کی ضرورت ہے اور نا ہی ہمارے لئے واجبات زندگی طرح کی اہم کوئی کوئی چیز۔ بات تو صرف اس سوچ کی ہے کہ کسی بھی نعمت سے لطف اندوز ہوتے ہوئے آپ ان لوگوں کا تصور ہی کرلیں جو اس نعمت کو اتنا ہی پسند کرتے ہیں جتنا کہ آپ مگر وہ اس کے حصول سے محروم ہیں۔ 
اس بیرے کے کردار کو دیکھیئے جو صاحب حیثیت لوگوں اور ضرورتمندوں کے درمیان رابطے کا کردار نہایت خندہ پیشانی اور کھلے دل کے ساتھ لبوں پر مسکراہٹ سجائے کر رہا ہے۔
اس ضرورتمند کو دیکھیئے جو اس کافی شاپ میں اپنی عزت نفس کو مجروح کیئے بغیر ہی داخل ہوتا ہے، اور اسے یہ پوچھنے کی قطعی ضرورت پیش نہیں آئی کہ آیا اس کو ایک کپ کافی مفت میں مل سکتا ہے یا نہیں۔ اس نے دیوار پر دیکھا، کافی کا آرڈر موجود پا کر، یہ پوچھے اور جانے بغیر ہی، کہ یہ کپ کس کی طرف سے اس کو دیئے جانے کیلئے موجود ہے، اپنے لئے ایک کپ کا آرڈر دیا، کافی کو سرور کے ساتھ پیا اورخاموشی سے چلتا بنا۔
جب ہم اس مذکورہ بالا کہانی کی جزئیات کو جانیں گے تو ہمیں اس کہانی کے کرداروں کے ساتھ ساتھ اس دیوار کے کردار کو بھی یاد رکھنا پڑے گا جو اس قصبے کے درد دل رکھنے والے باسیوں کی عکاس بنی ہوئی ہے۔

Friday, October 26, 2012

5 Officers, 13 Soldiers Still Missing in Record After 65, 71 Wars


September 8, 2012
The Senate was informed Thursday that eighteen prisoners including five officers and thirteen soldiers of 1965 and 1971 wars are missing in the record after the wars.
Minister of State for Foreign Affairs Malik Ammad Khan informed the House during question hour that the matter has been raised with India a number of times but India has not acknowledged the presence of Pakistani prisoners of wars in their custody. He said until the response from Indian side is received, it could not be ascertained that these prisoners of war are dead or alive.
The Minister said that the issue of prisoners is humanitarian issue and remains high on priority of the government of Pakistan. He said the Ministry of Foreign Affairs through High Commission of Pakistan in New Delhi has raised the issue of missing prisoners of wars at numerous occasions with Indian side and our High Commission is also vigorously following up. He said the High Commission has been in touch with human rights activists, lawyers and ICRC to locate prisoners of wars in India jails.
To a supplementary question, he said a total of four hundred and fifty-three prisoners including four hundred and twenty-four civilians and twenty-nine fishermen are in the Indian jails and negotiations are underway for the their repatriation.
Malik Ammad Khan said measures including Strategic Trade Policy Framework 2009-12 have increased geographical diversification of exports and we are focusing on regions in Africa, South East-Asia, Central Asia and with our friends China, Turkey and the countries in our neighborhood.
The Minister of State said the Afghan Trade Agreement has encouraged formal trade between Pakistan and Afghanistan and volume has risen to around 2.5 billion dollars annually.
He said Pakistan wishes to normalize its trade relations with India and steps have been taken to increase the number of tradable items with India by curtailing the negative list during this year.
He said the government is in the process of proposing and negotiating Free Trade Agreements and Preferential Trade Agreements with other countries. He said Pakistan has entered into Free Trade Agreement with China, Malaysia and Sri Lanka. He said steps have also been taken to increase trade with the OIC member countries.

امریکی عدالت میں ایک پاکستانی دہشت گرد کی تقریر



امریکی عدالت میں ایک پاکستانی دہشت گرد کی تقریر جس نے بہت سے لوگوں کو رلا دیا طارق مھنا ایک پاکستانی مصری امریکن ہیں ان کے والدین پاکستان اور مصر سے امریکہہجرت کرگئے تھے اور طارق وہیں پیدا ہوئے اور پیدائش سےا مریکہ میں مقیم ہیں۔

انہیں کچھ ہفتے قبل ہی امریکی حکومت نے انٹر نیٹ پر جہادیوں کی حمایت کرنے کے الزام میں کئی سال کے لئے جیل بھیج دیا ہے۔ جس وقت جج انہیں سزا سنا رہا تھا انہوں نے بھری عدالت 
میں ایک بیان دیا تھا۔ اس جذباتی بیان نے عدالت میں موجود بہت سے لوگوں کو مہبوت کردیا تھا اور کئی لوگ اپنی آنکھیں پونچھتے دیکھے گئے۔ اس تقریر کے بعد جج نے کہا کہ عدالت صرف قانون کے دائرے میں رہ کر فیصلہ دیتی ہے قانون بناتی نہیں اور امریکی قانون یہی کہتا ہے کہ آپ مجرم ہیں۔ ذیل میں دئی گئی تحریر دراصل وہ تقریر ہے جوطارق مھنّا نے۱۲ اپریل ۲۰۱۲ء کو سزا سنائے جانے پر امریکی جج کے سامنے کی، طارق مھنّا ان بہت سارے لوگوں میں سے ہیں جو اپنی حق گوئی کی بابت امریکی عقوبت خانوں میں قید ہیں اور امریکہ کی اسلام دشمنی کا ہد ف بن رہے ہیں۔ آپ ابو سبایا کے نام سے انٹرنیٹ پر جانے جاتے تھے اور بہت موثر مقرر ہیں۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

آج سے چار سال قبل یہی اپریل کا مہینہ تھا جب میں ایک مقامی ہسپتال میں اپنا کام ختم کرکے گاڑی کی طرف جارہا تھا کہ میرے پاس امریکی حکومت کے دو ایجنٹ آئے ۔ انہوں نے کہا کہ مجھے دو راہوں میں ایک کا انتخاب کرنا ہوگا، ایک راستہ آسان تھا اور دوسرا مشکل۔ ’آسان‘ راستہ ان کے مطابق یہ تھا کہ امریکی حکومت کا مخبر بن جاؤں اور یوں کبھی عدالت یا قیدخانے کی صورت نہ دیکھنی پڑے گی اور دشوار راستہ، سو وہ آپ کے سامنے ہے۔تب سے اب تک ان چار سالوں کا اکثر حصہ میں نے قید تنہائی میں ایک ایسے کمرے میں گزارا ہے جس کا حجم ایک چھوٹی سی الماری جتنا ہے اور مجھے دن کے تئیس گھنٹے اسی میں بند رکھا جاتا ہے۔ایف بی آئے اور ان وکلاء نے بہت محنت کی،حکومت نے مجھے اس کوٹھری میں ڈالنے، اس میں رکھنے، مقدمہ چلانے اور بالآخر یہاں آپ کے سامنے پیش ہونے اور اس کوٹھری میں مزید وقت گزارنے کی سزا سننے کے لئے لوگوں کے اداکردہ ٹیکسوں کے سینکڑوں ڈالر خرچ کئے۔

اس دن سے ماقبل ہفتوں میں لوگوں نے مجھے بہت سے مشورے دیئے کہ مجھے آپ کے سامنے کیا کہنا چاہئے۔ کچھ نے کہا کہ مجھے رحم کی اپیل کرنی چاہئے کہ شاید کچھ سزا میں تخفیف ہوجائے، جبکہ دوسروں کی رائے تھی کہ کچھ بھی کرلوں میرے ساتھ سختی ہی کا معاملہ کیا جائے گا۔تاہم میں بس یہ چاہتا ہوں کہ چند منٹ اپنے بارے میں گفتگو کروں۔ جب میں نے مخبر بننے سے انکار کردیا تو حکومت نے ردعمل کے طور پرمجھ پر الزام لگایا کہ میں نے دنیا بھر میں مسلم ممالک پر قبضے کے خلاف لڑنے والے مجاہدین کی حمایت کا’جرم‘ کیا ہے۔یا ’دہشتگردوں ‘ کی جیسا کہ وہ انہیں کہنا پسند کرتے ہیں۔حالانکہ میں کسی مسلمان ملک میں بھی پیدا نہیں ہوا۔ میں یہیں امریکہ میں پلا بڑھا ہوں اور یہی بات بہت سے لوگوں کو غضبناک کرتی ہے۔ایسا کیسے ممکن ہے کہ میں امریکی ہونے کے باوجود ان باتوں پر یقین رکھوں جن پر میں رکھتا ہوں اور وہ موقف اختیار کروں جو میں نے کررکھا ہے؟ آدمی اپنے ماحول میں جو کچھ دیکھتا ہے وہ ایک جز بن جاتا ہے جو اس کا نقطہ نظر تشکیل کرتا ہے، اور یہی حال میرا بھی ہے۔لہذا، ایک نہیں بلکہ بہت سی وجوہات کے سبب میں جو کچھ ہوں امریکہ ہی کی وجہ سے ہوں۔

چھ سال کی عمر میں میں نے comic booksکا ذخیرہ جمع کرنا شروع کردیا۔بیٹ مین نے میرے ذہن میں ایک تصور بویا، میرے سامنے ایک نمونہ رکھا کہ کس طرح دنیا کا نظام چل رہا ہے،بعض ظالم ہوتے ہیں، بعض مظلوم ہوتے ہیں اور بعض وہ جو مظلمومین کی حمایت کے لئے آگے آتے ہیں۔یہ چیز میرے ذہن میں اس طرح پیوست رہی کہ اپنے پچپن کے پورے دور کے اندر میں ہر اس کتاب کی طرف کھنچا چلا جاتا جس میں یہ نمونہ پیش کیا جارہا ہوUncle Tom's Cabin, TheAutobiography of Malcolm X اور مجھے توThe Catcher in the Ryeمیں بھی ایک اخلاقی پہلو نظر آتا تھا۔ پھر میں ہائی اسکول پہنچ گیا اور تاریخ کے اسباق پڑھے ،اور مجھ پر یہ واضح ترہوگیا کہ دنیا کا یہ اصول کتنا حقیقی ہے۔میں نے امریکہ کے اصل باشندوں اور یورپی آبادکاروں کے ہاتھوں ان پر ہونے والے ظلم کے بارے میں پڑھا۔

میں نے پڑھا کہ پھر ان یورپی آبادکاروں کی نسلوں کو کس طرح کنگ جارج سوم کی جابرانہ حکومت کے دوران ظلم کا نشانہ بنایا گیا۔میں نے پال ریوراور ٹام پین کے بارے میں پڑھا اور یہ کہ کس طرح امریکیوں نے برطانوی فوج کے خلاف مسلح بغاوت کی،وہ بغاوت جس کا اب ہم امریکہ کی انقلابی جنگ کی حیثیت سے جشن مناتے ہیں۔آج جہاں ہم بیٹھے ہیں بچپن میں اس سے کچھ دور ہی اسکول کی فیلڈ ٹرپ پر جایا کرتے تھے۔میں نے ہیریئٹ ٹب مین،نیٹ ٹرنر،جان براؤن اور اس ملک میں غلامی کے خلاف جنگ کے بارے میں پڑھا۔میں نے ایما گولڈمین،یوجین ڈیبز، مزدوروں کی انجمنوں، ورکنگ کلا س اور غرباء کی جدوجہدوں کے بارے میں پڑھا۔

میں نے این فرینک اور نازیوں کے بارے میں پڑھا کہ وہ کس طرح اقلیتوں کو اذیتیں دیتے تھے اورمخالفین کو قید کردیتے تھے۔میں نے روزا پارکس، میلکم ایکس، مارٹن لیوتھر کنگ اور شہری حقوق کی جدوجہد کے بارے میں پڑھا۔میں نے ہو چی منھ کے بارے میں پڑھا کہ کس طرح ویت نام کے باشندگان نے کئی دہائیاں یکے بعد دیگرے آنے والے غاصبین کے خلاف لڑنے میں گزاردیں۔ میں نے نیلسن منڈیلا اور جنوبی افریقہ میں نسلی عصبیت کے خلاف جنگ کے بارے میں پڑھا۔میں نے ان سالوں میں جو کچھ پڑھا وہ چھ سال کی عمر میں سیکھی گئی بات کی مزید تصدیق کررہا تھا، کہ پوری تاریخ میں ظالم اور مظلوم کے درمیان ایک مستقل جنگ جاری رہی ہے۔

میں نے جس بھی جدوجہد کے بارے میں پڑھا ،میں نے اپنے آپ کو ہمیشہ مظلوم کا طرفدار پایا، اور ان کی حمایت میں کھڑے ہونے والوں کو میں نے ہمیشہ احترام کی نگاہ سے دیکھا، خواہ وہ کسی بھی ملک سے ہوں، کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں۔ میں نے کبھی بھی اپنی کلاسوں کے نوٹس نہیں پھینکے۔ آج بھی جبکہ میں یہاں کھڑا ہوں وہ میرے کمرے کی الماری میں سلیقے سے رکھے ہیں۔ جتنی بھی تاریخی شخصیات کے بارے میں میں نے پڑھا ان میں سے ایک سب میں ممتاز تھی۔ملیکم ایکس کے بارے میں بہت سی چیزوں نے مجھے متاثر کیا لیکن جس چیز نے سب سے زیادہ دلچسپی بڑھائی وہ کایا پلٹ تھی، ان کی کایا پلٹ۔مجھے معلوم نہیں کہ آپ نے سپائک لی کی فلم ’X‘ دیکھی ہے یانہیں، یہ تقریبا ساڑھے تین گھنٹے کی ہے، اور ابتدا میں نظر آنے والا میلکم آخر میں نظر آنے والے میلکم سے بہت مختلف ہے۔وہ ایک ان پڑھ مجرم ہوتا ہے جو بعدازاں ایک شوہر، ایک باپ ، اپنے لوگوں کا محافظ اور فصیح البیاں لیڈر بن جاتا ہے، ایک اصولی مسلمان جو مکہ میں حج کا فریضہ ادا کرتا ہے اور بالآخر شہید ہوجاتا ہے۔میلکم کی زندگی نے مجھے یہ سبق دیا کہ اسلام کوئی وراثتی دین نہیں ہے؛یہ کسی نسل یا تہذیب کا نام نہیں ہے۔ یہ تو طریقہ زندگی ہے،ایک فکری حالت ہے جو کوئی بھی اپنا سکتا ہے چاہے وہ کہیں سے بھی تعلق رکھتا ہو اور کسی بھی ماحول میں پلا بڑھا ہو۔اس چیز نے مجھے اسلام کو بنظر غائر دیکھنے کی ترغیب دی اور بس پھر میں اس کا دلدادہ ہوگیا۔

میں تو صرف ایک نوجوان تھا اوراسلام اس سوال کا جواب پیش کرتا تھا جو بڑے بڑے سائنسی ذہن دینے سے قاصر ہیں۔اور جس کا جواب نہ پاکر امرا ء اور مشہور و معروف لوگ ڈیپریشن اور خودکشیوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔زندگی کا مقصد کیا ہے؟اس کائنات میں ہمارا وجود کیوں ہے؟ اسلام نے جواباً بتایا کہ کس طرح ہمیں زندگی گزارنی ہے۔کیونکہ اسلام ہمیں کسی پیشوا یا راہب کا محتاج نہیں کرتا لہذا میں نے براہ راست قرآن اور سنت کی گہرائیوں میں جانا شروع کردیا،تاکہ اس فہم کے سفر کا آغاز کرسکوں کہ اسلام کیا ہے،بحیثیت انسان اسلام میرے لئے کیا پیش کرتا ہے، ایک فرد کی حیثیت سے، میرے اردگرد کے لوگوں کے لئے، ساری دنیا کے لئے، اور جتنا جتنا میں سیکھتا گیا،مجھے اسلام کی قدر وقیمت کا اتنا ہی احساس ہونے لگا گویا وہ کوئی ہیرا ہے۔یہ میرے عنفوان شباب کی بات ہے، لیکن آج بھی پچھلے چند سالوں کے دباؤ کے باوجود، میں یہاں آپ کے اور اس کمرہ عدالت میں موجود تمام لوگوں کے سامنے ایک مسلمان کی حیثیت سے کھڑا ہوں،الحمدللہ۔ اس کے ساتھ ہی میری توجہ دنیا بھر میں مسلمانوں کے حالات کی طرف گئی۔اور جدھر بھی میں نے نگاہ ڈالی میں نے دیکھا کہ نام نہاد طاقتیں میری محبوب شے کے درپے ہیں۔مجھے پتہ چلا کہ سویت نے افغانستان کے مسلمانوں کے ساتھ کیا کیا۔مجھے معلوم ہوا کہ سربوں نے بوسنیا کے مسلمانوں پرکیا قیامت ڈھائی۔مجھے روسیوں کے ہاتھوں چیچن مسلمانوں پر ہونے والے ظلم کے متعلق پتہ چلا۔مجھے پتہ چلا کہ اسرائیل نے لبنان میں کیا کیا تھا، اوراب امریکہ کی مکمل پشت پناہی کے ساتھ فلسطین میں کیا کچھ کررہا ہے۔اور مجھے پتہ چلا کہ خود امریکہ مسلمانوں کے ساتھ کیا کررہا ہے۔مجھے جنگ خلیج کے متعلق اور ان یورینیم بموں کے متعلق علم ہوا جن سے ہزاروں لوگ مر گئے اور عراق میں کینسر کی شرح آسمان کو پہنچ گئی۔میں نے امریکہ کے صادر کردہ ان احکامات و قوانین کے بارے میں جانا جن کے باعث عراق میں کھانا، دوائیں اور طبی سامان جانے سے روک دیا گیا اور کس طرح ،اقوام متحدہ کے مطابق،نتیجتاً پانچ لاکھ سے زائد بچے ہلاک ہوئے۔

مجھے میڈیلائن ایلبرائٹ کے ’۰ ۶ منٹ ‘ کے انٹرویو کا ایک حصہ یاد ہے جس میں اس نے اپنا یہ اظہار خیال کیا تھا کہ یہ بچے اسی قابل تھے۔میں نے گیارہ ستمبرکو دیکھا کہ کس طرح کچھ افراد نے ان بچوں کی ہلاکتوں پر ہوائی جہاز ہائی جیک کرنے اور انہیں عمارتوں میں اڑادینے کی صورت میں اپنے غم و غصے کا اظہار کیا۔پھر میں نے دیکھا کہ امریکہ نے براہ راست عراق پر حملہ کردیاہے۔میں نے حملے کے پہلے روزآپریشن ’Shock and Awe‘ کے نتیجے میں ہونے والی تباہی دیکھی، ہسپتال کے واڑدوں میں وہ بچے تھے جن کے سروں میں امریکی میزائلوں کے ٹکڑے کھبے ہوئے تھے(ظاہر ہے یہ سب کچھ سی این این پر نہیں دکھایا گیا)۔ مجھے حدیثہ کے قصبے کے بارے میں علم ہواجہاں چوبیس مسلمانوں کو جن میں ایک چھیتر سالہ ویل چیئر پربیٹھا بوڑھا، عورتیں اور ننھے بچے شامل ہیں، ان کے بستروں میں ہی گولیوں سے بھون دیا گیا۔ مجھے عبیر الجنبی کے بارے میں پتی چلا، ایک چودہ سالہ عراقی بچی جسے پانچ امریکی فوجیوں نے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا، جنہوں نے پھر اس کے اور اس کے گھر والوں کے سروں میں گولیاں ماریں اور ان کی لاشوں کو جلا دیا۔میں بس اس بات کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہوں، آپ دیکھتے ہی ہیں کہ مسلم خواتین نامحرم مردوں کو اپنے بال تک نہیں دکھاتیں۔ ذرا تصور کریں ایک گاؤں سے تعلق رکھنے والی بچی کو بے لباس کیا جائے اور پھر ایک نہیں، دو نہیں ، تین نہیں یکے بعد دیگرے پانچ فوجی اسے بے عزت کریں۔آج بھی جبکہ میں اپنے سیل میں بیٹھا ہوتا ہوں ،ان ڈرون حملوں کے بارے میں پڑھتا ہوں جو پاکستان ، صومالیہ اور یمن جیسے ممالک میں روزانہ مستقل بنیاد پر مسلمانو ں کو قتل کررہے ہیں۔

پچھلے ماہ ہی ان سترہ افغان مسلمانوں کے بارے میں سنا جن میں اکثریت ماؤں اور ان کے بچوں کی تھی،جو ایک امریکی فوجی کی گولیوں کا نشانہ بنے اور اس نے ان کی لاشوں کو بھی جلا دیا۔ یہ تو صرف چند کہانیاں ہیں جو شہ سرخیوں تک پہنچ پاتی ہیں، تاہم اسلام کے جو تصورات میں نے سب سے پہلے سیکھے ان میں بھائی چارہ اور وفادرای بھی شامل ہے، کہ ہر مسلمان خاتون میری بہن ہے اور ہر مرد میرا بھائی اور مل جل کر ہم سب ایک جسم کی مانند ہے اور ہمیں ایک دوسرے کی حفاظت کرنی ہے۔بالفاظ دیگر ،میں یہ نہیں دیکھ سکتا تھا کہ میرے بہن بھائیوں کے ساتھ یہ کچھ ہوتا رہے، امریکہ بھی ظالموں میں شامل ہو اور میں غیر جانبدار رہوں۔مظلوموں کے لئے میری حمایت جاری رہی تاہم اس بار اس میں اپنائیت بھی تھی، اور یہی احساسات ان لوگوں کے لئے بھی تھے جو ان مظلومین کے دفاع میں اٹھے۔ میں نے پال ریور کا تذکرہ کیا تھا، وہ آدھی رات کو لوگوں کو خبردار کر نے کے لئے نکلا کہ برطانوی سام ایڈمز اور جان ہینکاک کو گرفتار کرنے کے لئے لیگزنگٹن کی طرف پیش قدمی کررہے ہیں اور اس کے بعد کانکورڈجائیں گے تاکہ وہاں آزادی کے لئے لڑنے والی ملیشیا کے ذخیرہ کردہ اسلحہ کو ضبط کریں۔جس وقت تک برطانوی کانکورڈ پہنچے آزادی کے لئے لڑنے والے لوگ اپنے ہاتھوں میں اسلحہ لئے ا ن کے سامنے مقابلے کے لئے کھڑے تھے۔انہوں نے برطانویوں پر گولیاں چلائیں، ان سے لڑائی کی اور انہیں ہرا دیا۔

اسی جنگ سے امریکی انقلاب کا آغا ز ہوا۔ جو کام ان لوگوں نے کیا اس کے لئے ایک عربی لفظ ہے ،اور وہ لفظ ’جہاد ‘ہے، اور میرا مقدمہ بھی اسی سے متعلق تھا۔وہ ساری ویڈیوز اور تراجم اور بچکانہ بحثیں کہ’ اوہ! اس نے اس جملے کا ترجمہ کیا تھا ‘اور ’اوہ ! اس نے اس جملے پر نظر ثانی کی تھی!‘،اور وہ تمام پیش کردہ باتیں ایک ہی معاملے کے گرد گھومتی تھیں:وہ مسلمان جو امریکہ کے خلاف اپنا دفاع کررہے تھے جو ان کے ساتھ وہی سلوک کررہا ہے جو برطانیہ نے امریکہ کے ساتھ کیا تھا۔پیشیوں کے اندر یہ بات بالکل واضح ہوگئی تھی کہ میں کبھی بھی بازاروں میں ’امریکیوں کے قتل‘ کے کسی منصوبے میں شامل نہیں رہا، یا جو بھی کہانی بنائی گئی تھی اس سے میرا کوئی تعلق نہیں۔حکومتی گواہوں نے خود بھی اس دعوے کا رد کیا، اور ایک کے بعد دوسرا ماہر اس جگہ آکر کھڑا ہوتا رہا، جنہو ں نے میرے تحریر کردہ ہر ہر لفظ کے حصے بخرے کرنے میں کئی گھنٹے گزارے کہ میرے عقائد کو بیان کرسکیں۔ اس کے بعد جب میں آزاد ہواتو حکومت نے اپنا ایک خفیہ ایجنٹ بھیجا کہ وہ مجھے اپنے کسی چھوٹے سے’دہشتگردانہ منصوبے‘ میں ملوث ہونے کی ترغیب دے سکے، لیکن میں نے شمولیت سے انکار کردیا۔ تاہم حیرت کی بات ہے کہ جیوری کو اس بارے میں کوئی خبر نہیں۔

لہذا ،میرا یہ مقدمہ امریکی شہریوں کے قتل پر میرے موقف کے لحاظ سے نہیں تھا، بلکہ یہ امریکیوں کے ہاتھوں مسلمان شہریوں کے قتل کے لحاظ سے میرے موقف پر تھا، اور وہ یہی ہے کہ مسلمانوں کو اپنی اراضی پر غاصب قوتوں کے خلاف دفاع کرنا چاہئے چاہے وہ امریکی ہوں ، روسی ہوں یا مریخی ہوں۔میں اسی بات پر یقین رکھتا ہوں، ہمیشہ سے میرا یہی یقین رہا ہے اور ہمیشہ یہی یقین رہے گا۔یہ نہ دہشت گردی ہے ،نہ انتہا پسندی ہے۔یہ تو بس دفاع نفس کی سادہ سی منطق ہے۔یہ وہی چیز ہے جس کی نمائندگی آپ کے اوپر موجود علامت کے تیر کررہے ہیں، وطن کا دفاع۔چنانچہ میں اپنے وکلاء کی اس بات سے متفق نہیں ہوں کہ آپ کو میرے عقائد ماننے کی ضرورت نہیں۔نہیں،بلکہ جس کے اندر بھی تھوڑی سی عقل اور انسانیت ہوگی لامحالہ اسے یہ بات ماننی ہی پڑے گی۔

اگر کوئی آپ کے گھر میں گھس کر چوری کرنا چاہے اور آپ کے اہل و عیال کو نقصان پہنچانا چاہے تو عقل یہی کہے گی کہ اس جارح کو باہر نکالنے کے لئے جو کچھ ہو سکتا ہے وہ کیا جائے۔ لیکن جب وہ گھر کوئی مسلم سرزمین ہو، اور وہ جارح امریکی فوج ہو، تو کسی وجہ سے یہ اصول بدل جاتے ہیں۔عقل کا نام’دہشت گردی ‘رکھ دیا جاتا ہے، اور جو لوگ سمندر پار سے آئے قاتلوں کے خلاف اپنا دفاع کرتے ہیں وہ ’دہشت گرد‘ بن جاتے ہیں جو ’امریکیوں کو قتل‘ کررہے ہیں۔ ڈھائی صدی پہلے امریکہ جس ذہنیت کا شکار تھا جب برطانوی ان سڑکوں پر چل رہے تھے وہی ہے جس کا شکا ر آج مسلمان ہیں جن کی سڑکوں پر امریکی فوجی مٹر گشت کررہے ہیں۔ یہ استعماریت کی ذہنیت ہے۔جب سرجنٹ بیلز نے پچھلے مہینے ان افغانوں کو قتل کیا تو ذرائع ابلاغ کا سارا زور اس کی ذات پر تھا، اس کی زندگی، اس کی پریشانی، اس کے گھر کا گروی ہونا، گویا وہی ظلم کا نشانہ بنا ہے۔اور جن لوگوں کو اس نے ماراتھا ان کے لئے کم ہی ہمدردی دکھائی گئی،گویا وہ حقیقی لوگ نہیں تھے، انسان نہیں تھے۔بدقسمتی سے یہی ذہنیت معاشرے کے ہر فرد میں راسخ ہوچکی ہے،چاہے اسے اس بات کا احساس ہو یا نہ ہو۔حتی کہ میرے وکلاء بھی، دو سال گفتگو کرنے، سمجھانے اور وضاحتیں پیش کرنے میں لگے اور پھر کہیں جاکر وہ اس قابل ہوئے کہ اپنے خول سے باہر جھانک سکیں اور کم ازکم میری بات میں موجود منطق و عقل کو بناوٹی طور پر ہی قبول کرسکیں۔

دو سال!اگر اتنے ذہین لوگوں کو اتنا وقت لگا، جن کا کام میرا دفاع کرنا تھا، اپنی ذہنیت تبدیل کرنا تھا ، اور پھر مجھے یونہی کسی جیوری کے سامنے پیش کردیا گیا اس بات کے تحت کہ وہ میرے’غیر جانبدار موکل‘ ہیں ، مطلب یہ کہ مجھے اپنے ساتھیوں کی جیوری کے سامنے نہیں پیش کیا گیا کیونکہ جو ذہنیت امریکہ پر چھائی ہوئی ہے اس کی وجہ سے میرے کوئی ساتھی ہی نہیں۔اسی حقیقت کو بنیاد بناتے ہوئے حکومت نے مجھ پر مقدمہ چلایا، اس لئے نہیں کہ انہیں کوئی حاجت تھی، بس صرف اس لئے کیونکہ وہ ایسا کرسکتے تھے۔ میں نے تاریخ کی کلاسوں میں ایک او ر بات بھی سیکھی تھی۔

امریکہ نے تاریخ میں ہمیشہ اپنی اقلیتوں کے خلاف غیر منصفانہ ترین حکمت عملیاں اپنائی ہیں، ایسے افعال جنہیں قانون کا تحفظ بھی حاصل تھا، اور پھربعد میں پیچھے دیکھ کر یہی کہا گیا’آخر ہم کیا سوچ رہے تھے؟‘غلامی، جم کرو،جنگ عظیم دوئم میں جاپانیوں کی نظر بندی، یہ سب امریکی معاشرے میں بالکل قابل قبول تھا، اور سپریم کورٹ کی پشت پناہی کے ساتھ تھا۔لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا اور امریکہ بدل گیا، عوام اور عدلیہ دونوں نے پیچھے دیکھ کر یہی کہا کہ ’آخر ہم کیا سوچ رہے تھے؟‘ جنوبی افریقہ کی حکومت نیلسن منڈیلا کودہشت گرد سمجھتی تھی، اور اسے قید حیا ت کی سزا سنائی گئی تھی۔لیکن وقت گزر گیا اور دنیا بدل گئی،انہیں احساس ہوا کہ ان کی پالیسی کتنی ظالمانہ تھی، کہ دراصل وہ دہشت گرد نہیں تھا، اور اسے قید سے آزاد کردیاگیا۔ وہ صدر بھی بن گیا۔ لہذا ہر چیزذہنیت سے تعلق رکھتی ہے، یہ ’دہشت گردی‘ کا سارا معاملہ بھی اور یہ کہ کون ’دہشت گرد ‘ہے۔یہ سب تو وقت اور مقام پر منحصر ہے اور یہ کہ کون اس وقت ’عالمی قوت ‘ ہے۔

آپ کی نظروں میں میں دہشت گردہوں، صرف ایک میں ہی یہاں پر ایک زرد لباس میں کھڑا ہوں اور میرا یہاں زرد لباس میں کھڑا ہونا بالکل معقول ہے۔ لیکن ایک دن امریکہ بدل جائے گا اور لوگوں کو اس دن کی حقیقت کا احساس ہوگا۔وہ دیکھیں گے کہ کس طرح ہزاروں لاکھوں مسلمان غیر ممالک میں امریکی فوج کے ہاتھوں قتل ہوئے اور اپاہج ہوئے۔ تاہم کسی طریقے سے آج میں ہوں جسے ان ممالک میں’قتل اور اپاہج کرنے کی سازش ‘ کی وجہ سے قید میں بھیجا جارہا ہے، کیونکہ میں ان لوگوں کا دفاع کرنے والے مجاہدین کی حمایت کرتا ہوں۔لوگ پیچھے مڑ کر دیکھیں گے کہ کس طرح حکومت نے مجھے’دہشتگرد‘ کی حیثیت سے قید کرنے کے لئے لاکھوں ڈالر خرچ کئے، لیکن اگر ہم کسی طرح امیر الجنبی کو اس موقع پر زندہ کرکے لاکھڑا کریں جب وہ آپ کے فوجیوں کے ہاتھوں ذلیل ہورہی تھی، اسے اس گواہی کے کٹہرے میں کھڑا کریں اور اس سے پوچھیں کہ دہشت گرد کون ہیں، تو یقیناًاس کا اشارہ میر ی طرف نہیں ہوگا۔ حکومت کا کہنا ہے کہ مجھ پر شدت کا بھوت سوار ہے، ’امریکیوں کے قتل ‘کا بھوت سوار ہے۔ لیکن اس دور میں رہنے والے مسلمان کی حیثیت سے، میں اس سے زیادہ طعن آمیز جھوٹ سوچ بھی نہیں سکتا۔۔۔

زیادہ سے زیادہ شیر کریں
 

Thursday, October 25, 2012

ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا معمول


♥ اللہ اکبر ♥
ہمارے خلفائے راشددین کے یہ واقعات پڑھ کر آپ کی آنکھوں میں آنسو آجائیں گے۔۔۔۔ میری آپ سب دوستوں سے گزارش سے کہ اسے مکمل پڑھیں۔۔۔
ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا معمول تھا کہ آپ فجر کی نماز کے بعد صحرا کی طرف نکل جاتے، وہاں چند ساعتیں گزارتے اور واپس مدینہ آجاتے- عمر رضی اللہ عنہ کو بڑا تعجب ہوا کہ ابوبکر صبح ہی صبح صحرا میں کیا لینے جاتے ہں- ایک دن فجر کی نماز کے بعد انہوں نے چھپ کر ابوبکر رضی اللہ عنہ تعاقب کیا، ابوبکر رضی اللہ عنہ معمول کے مطابق مدینہ سے نکلے اور صحرا میں ایک پرانے خیمے کے اندر گئے، عمر رضی اللہ عنہ ایک چٹان کی اوٹ میں چپکے سے انہیں دیکھنے لگے۔

ابوبکر تھوڑی دیر بعد خیمے سے باہر آئے اور مدینہ روانہ ہوگئے-
عمر چٹان کی اوٹ سے نکلے اور خیمے میں داخل ہوئے، کیا دیکھتے ہیں کہ ایک نابینا کمزور عورت اور اس کے چھوٹے چھوٹے بچے بیٹھے ہیں، آپ نے اس عورت سے دریافت کیا: "یہ کون ہے جو تمہارے پاس آتا ہے؟" اس نے جواب دیا: "میں اسے نہیں جانتی، کوئی مسلمان ہے، ایک عرصے سے ہر صبح ہمارے پاس آتا ہے- پوچھا: " تمہارے پاس آکر کیا کرتا ہے؟
وہ بولی: " گھر میں جھاڑو دیتا ہے، آٹا گوندھتا ہے، ہماری بکری کا دودھ دوہتا ہے اور چلا جاتا ہے-"
اس کی بات سن کر عمر رضی اللہ عنہ یہ کہتے ہوئے خیمے
سے باہر آگئے:
" ابوبکر! آپ نے اپنے بعد کے خلفاء کو بڑی مشکل میں ڈال دیا، آپ نے اپنے بعد کے خلفاء کو بڑی مشکل میں ڈال دیا-"
عمر رضی اللہ عنہ بھی عبادت اور اخلاص کے معاملے میں ابوبکر رضی اللہ عنہ سے پیچھے نہ رہے-
طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ نے انہیں رات کی تاریکی میں اپنے گھر سے نکل کر ایک گھر میں داخل ہوتے اور پھر وہاں سے نکل کر دوسرے گھر میں جاتے دیکھا- وہ حیران ہوئے کہ امیر المؤمنین ان گھروں میں کیا کرتے ہیں- صبح ہوتے ہی طلحہ اس بات کا سراغ لگانے پہلے گھر گئے، ان کی ملاقات چارپائی پر پڑی نابینا بڑھیا سے ہوئی، اس سے دریافت کیا: " یہ آدمی آپ کے پاس کیوں آتا ہے- بڑھیا بولی: " یہ آدمی ایک مدت سے میرا خیال رکھتا ہے، گھر کی صفائی کرتا ہے، تازہ پانی بھرتا ہے، میرا بول و براز صاف کرتا ہے-"
اس پر طلحہ یہ کہتے ہوئے بڑھیا کے گھر سے باہر آگئے:
" طلحہ! تمہاری ماں کی بربادی! کیا عمر کی غلطیاں تلاش کرتے ہو؟"
علی بن حسین رح رات کو روٹیوں کا بورا کمر پر لادے گھر سے نکلتے اور روٹیوں کا صدقہ کرتے، کہا کرتے:
"چھپا کر صدقہ کرنا رب کے غضب کو ٹھنڈا کردیتا ہے-"
انہوں نے وفات پائی تو غسل دیتے ہوئے لوگوں کو ان کی کمر پر سیاہ نشان نظر آئے- لوگوں نے کہا:
" یہ مزدور کی کمر ہے، مگر وہ نہیں جانتے کہ انہوں نے کبھی مزدوری کی ہے-"
ان کی وفات پر مدینہ کی بیواؤں، اور یتیموں کے سو گھروں میں کھانا پہنچنا بند ہوگیا- علی بن حسین رح روز رات کو ان گھروں میں کھانا تقسیم کیا کرتے تھے-
گھر والے نہیں جانتے تھے کہ کھانا کون لاتا ہے، ان کی وفات پر سب کو معلوم ہوا کہ وہی ان سب گھروں میں کھانا دے کر آیا کرتے تھے-


Wednesday, October 24, 2012

Dead Reckoning The memories of the1971 Bangladesh War ( شرمیلا بوس۔ مصنفہ)




71 کی جنگ میں پاک فوج کے کردار پربھارتی مصنفہ شرمیلا بوس کی کتاب کو قوم پرست جذبات اور مشکل سوالوں کا سامنا 
کتاب کے مندرجات کو بنگلہ دیش ہی نہیں، امریکہ اور خود پاکستان میں بھی صحافیوں، تاریخ دانوں اور قوم پرست جذبات کی کڑی آزمائش اور مشکل سوالوں کا سامنا ہے
کیا یہ کتاب لکھنے کے لئے آپ نے کسی سے پیسے لئے ہیں ۔؟”
ایک تیکھا سوال ہال کی دائیں طرف سے اچھالا گیا تھا ۔سوال اٹھانے والے کے لہجے کی ت
پش اورچہرے کی ناگوار ی بتا رہی تھی کہ بنگلہ دیشی قوم پرستی کو آنچ دکھائی گئی ہے ۔

“نہیں ۔۔میں نے کتاب لکھنے کے لئے کسی سے پیسے نہیں لئے ۔” 

کمال اطمینان اور خندہ پیشانی سے دیا گیا جواب خود صاحب کتاب خاتون کی طرف سے آیا تھا۔

شرمیلا بوس۔ مصنفہ


واشنگٹن کے ووڈرو ولسن انٹرنیشنل سینٹر فار سکالرز میں ہونے والی یہ تقریب ڈیڑھ سال پہلے مارچ 2011 میں بھارتی صحافی اور یونیورسٹی آف آکسفورڈ کے شعبہ سیاسیات اور بین االاقوامی تعلقات کی سینئیر ریسرچ ایسوسی ایٹ شرمیلا بوس کی کتاب کا تنقیدی تعارف پیش کرنے کے لئے منعقد کی گئی تھی ۔
کتاب کا نام تھا 
Dead Reckoning 
The memories of the1971 Bangladesh War 

کتاب کے مندرجات کو بنگلہ دیش ہی نہیں ، امریکہ اورخود پاکستان میں بھی صحافیوں ،تاریخ دانوں اور قوم پرست جذبات کی کڑی آزمائش اور مشکل سوالوں کا سامنا ہے ۔ پاکستان میں جہاں اس کتاب کا اردو ترجمہ کیا جا رہا ہے ،اکثرلوگ اس کے مندرجات کو حق کی جیت قرار دے رہے ہیں ۔ لیکن ایسے لوگ بھی موجودہیں ، جنہیں کتاب کے مندرجات سے اتفاق نہیں ۔بنگلہ دیشی اخبارات میں گزشتہ ایک سال کے دوران تواتر سے شرمیلا بوس پر پاکستان سے مبینہ ہمدردی رکھنے کے الزامات عائد کئے گئے ہیں۔

بھارتی بنگال کے سب سے بڑے شہر کلکتہ سے تعلق رکھنے والی شرمیلا بوس ہندوستان کی تحریک آزادی کے راہنما سبھاش چندر بوس کی پوتی ہیں ۔ ان کی کتاب 1971 میں مشرقی اور مغربی پاکستان کی علیحدگی کے ان واقعات کی تحقیق پر مبنی ہے ۔ جس میں پاکستانی فوج کوجنگی جرائم اور بنگالی خواتین کی بے حرمتی کے ان گنت واقعات کے لئے مورد الزام ٹہرایا گیا تھا ۔کتاب میں سن 71 کے مشرقی پاکستان اور آج کے بنگلہ دیش میں پیش آنے والے واقعات کے بیانئے اور جنگ کے انسانی پہلوؤں کا جائزہ لیا گیا ہے۔
شرمیلا بو س کہتی ہیں کہ ان کی ریسرچ کا بڑا حصہ ، جس میں پاکستان اور بنگلہ دیش میں کیا جانے والا فیلڈ ورک شامل ہے جو2003 سے 2007 کے دوران انجام پایا ۔جبکہ کتاب کا کچھ کام برطانیہ اور امریکہ میں بھی کیا گیا۔

ذیل میں شرمیلا بوس سے کئے گئے ٹی وی انٹرویو کی تفصیلات درج کی جا رہی ہیں ۔جو انہوں نے وائس آف امریکہ اردو کی تابندہ نعیم کو دیا تھا۔ 
شرمیلا بوس کا وڈیو انٹرویو دیکھنے کے لئے اس لنک پر کلک کیجئے ۔

سوال:اس کتاب پر ریسرچ کے لئے آپ نے کتنے لوگوں سے بات کی اور وہ کون لوگ تھے ؟
شرمیلا بوس : بنگلہ دیش میں میں نے ایسے بہت سے افراد سے بات کی، جو 1971 کے واقعات میں کسی نہ کسی طرح شامل تھے ، یا ان کے عینی شاہد تھے،جن کے بارے میں میں تحقیق کر رہی تھی۔یہ انٹرویوز،جن کا ذکر میری کتاب میں ہے،بنگلہ دیش کے دیہاتوں ، شہروں اور کئی اضلاع میں جا کر کئے گئے۔جن واقعات کا میں نے جائزہ لیا، وہ دسمبر 1970 ، جنوری 1971 سے مارچ 1972 تک کے ہیں ۔اس لئے وہ سب لوگ جو وہاں خود موجود تھے ، یا ان کے عینی گواہ تھے ، ان سے میں نے بنگلہ دیش میں بات کی ۔ تو آپ خود سوچ سکتی ہیں کہ وہ لوگوں کی کتنی بڑی تعداد ہو گی ۔ پاکستان میں میں نے کوشش کی کہ میں ایسے افراد سے بات کروں ، جو1971میں مشرقی پاکستان میں تعینات مغربی پاکستان کے حاضر سروس جونئیر آرمی آفیسرز تھے ۔ جنہوں نے مشرقی پاکستان میں مارشل لا ڈیوٹی کی ۔ شرپسند عناصر کے خلاف کارروائیاں کیں ۔ میں کچھ سینئیر فوجی افسران سے بھی ملی ۔ خوش قسمتی سے میں نے جنرل نیازی کی موت سے پہلے ان سے بھی ملاقات کی ۔ میں نے صاحبزادہ یعقوب خان سے بھی ملاقات کی تھی ۔ لیکن زیادہ تر میں نے ان لوگوں کو ڈھونڈنے کی کوشش کی ، جو اس وقت پاکستانی فوج میں کیپٹن، لیفٹننٹ یا میجر کے طور پر تعینات تھے ۔ یا کچھ رجمنٹس میں کمانڈنگ آفیسرز تھے ، اور اب تک حیات تھے ۔۔مجموعی طور پر میں نے تین درجن سے زائد پاکستانی آرمی آفیسرز سے بات کی اور بنگلہ دیش میں جن لوگوں سے میری بات ہوئی ، ان کی تعداد کی گنتی کرنا بھی مشکل ہے ۔ کیونکہ جب دیہی علاقوں میں آپ لوگوں کے انٹرویو کر رہے ہوتے ہیں ، تو اکثر سینکڑوں لوگ یونہی جمع ہو جاتے ہیں ۔ اور ایک سے بات کرو تو کئی اور لوگ بھی گفتگو میں حصہ لینے لگتے ہیں ،اپنے تجربات بتاتے ہیں ۔ اس لئے میں ٹھیک سے نہیں بتا سکتی کہ بنگلہ دیش میں میری دراصل کتنے لوگوں سے بات ہوئی۔

سوال : وہ کیا چیز تھی ، جس نے آپ کو تاریخ کے ایک ایسے واقعے کی تحقیق پر اکسایا، جو چالیس سال پہلے ہوا تھا ،جب آج کی نسل کے بیشتر افراد پیدا بھی نہیں ہوئے تھے ۔کیوں آپ کو یہ خیال آیا کہ بنگلہ دیش کی کہانی کے مضمرات کو گہرائی میں جا کر دیکھنا ضروری ہے ۔۔؟

شرمیلا بوس : 1971 کی جنگ میرے ساتھ تب سے ہے ، جب میں ایک بچی تھی اور کلکتہ میں بڑی ہو رہی تھی (شرمیلا بوس 1971 میں بارہ سال کی تھیں )میری اپنی یادداشت میں اب تک وہ تکلیف دہ اور پیچیدہ واقعات موجود ہیں ، جو ہمارے بالکل نزدیکی شہر میں پیش آئے ۔ میرے خاندان کے کئی افراد مشرقی پاکستان سے آنے والے مہاجرین کے لئے امدادی سرگرمیوں میں شامل رہے تھے ۔ تو یہ واقعات میرے ساتھ ساتھ اس وقت سے تھے، جب سے میں نے بین الاقوامی سیاست میں دلچسپی لینی شروع کی ۔ مجھے ہمیشہ لگتا تھا کہ مجھے اس بارے میں کچھ لکھنا چاہئے ۔یہ اور بات کہ مجھے اس کا موقعہ اس واقعے کے تیس، پینتیس سال بعد جا کر ملا ۔

سوال :آپ کے خیال میں آج کے بنگلہ دیش اور پاکستان میں آپ کی کتاب کے مندرجات کا وزن کیسا تولا جائے گا؟ 

شرمیلا بوس : کتاب کے مندرجات بہت متوازن ہیں ،مگر بنگلہ دیش اور پاکستان دونوں میں ایسے لوگ ہونگے، جنہیں اس کتاب پر یقین کرنے،اور انہیں سمجھنے میں دشواری پیش آئے گی ۔ایسا اس لئے ہے کہ 40برسوں کے دوران دونوں ملکوں اور بھارت میں بھی اپنے طور پر ایک قوم پرستی پر مبنی دیو مالا تشکیل پا چکی ہے ۔ اس جنگ کے بارے میں کوئی غیر جذباتی ، غیر جا نبدار اور منظم ریسرچ نہیں ہوئی ۔چونکہ ہم میں سے بیشتر لوگ ایسی کہانیاں سنتے ہوئے بڑے ہوئے ہیں ، میں خود بھی اس کہانی کا وہی بیانیہ سن کر بڑی ہوئی، جس پر بھارت اور بنگلہ دیش کی چھاپ تھی ۔توجب میں نے یہ ریسرچ شروع کی، اس وقت میں خود بھی نہیں جانتی تھی کہ کیا نتائج سامنے آئیں گے ۔میرا خیال تھا کہ چونکہ71 کے واقعات مکمل طریقے تحریری شکل میں نہیں لائے گئے ، اس لئے میں ایسی تفصیلات معلوم کروں گی ، جو کہیں درج نہیں ہوئیں ۔یعنی اس واقعے کے دستاویزی حقائق کا بھی خود جائزہ لوں گی ۔لیکن جب میں نے تحقیق کے لئے لوگوں سے بات کرنی شروع کی ، تو جو حقائق میرے سامنے آئے وہ ان کہانیوں سے مختلف تھے ، جنہیں سن کر میں بڑی ہوئی تھی ۔ مجھے خود بھی ان پر یقین کرنے میں دشواری پیش آئی ۔ میں سمجھ سکتی ہوں کہ بنگلہ دیش ا ور پاکستان میں بھی لوگوں کو اس کتاب کو سمجھنے میں دشواری پیش آئے گی جو اپنے اپنے وطن کی قوم پرستی پر مبنی کہانیاں سن کر بڑے ہوئے ہیں ۔ایسا ہر جنگی تنازعے کے بعد ہوتا ہے ۔لیکن ہاں ،یہ ریسرچ پہلے سامنے آنی چاہئے تھی۔۔پھر بھی مجھے خوشی ہے کہ یہ کام مکمل ہوا 
سوال :پاکستان کے مشرقی اور مغربی حصے کی علیحدگی میں آپ پاکستانی فوج کا کیا کردار دیکھتی ہیں اور بھارت کے کردار کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے ؟

شرمیلا بوس : یہ کتاب بھارت کے کردار کے بارے میں نہیں ہے ۔ اگرچہ بھارت کا اس واقعے میں بہت کردار رہا ۔لیکن میری کتاب ان لوگوں کے بارے میں ہے جو اس تنازعے سے براہ راست متاثر ہوئے ۔پاکستانی فوج کا جہاں تک تعلق ہے، وہ اس سال کے دوران ریاست کی پالیسی کے اطلاق کا ذریعہ تھی ۔ گو کہ وہ ریاستی پالیسی کے اطلاق کا ذریعہ مارچ 1971 کے بعد بنی ۔۔جبکہ میری کتاب اس سے کچھ مہینے پہلے سے شروع ہوتی ہے ۔مگر (پاک) فوج نے کیا کیا۔۔یہ ایک پیچیدہ معاملہ رہے گا ۔فوج میں ایسے لوگ تھے ، جو شرپسندوں کے خلاف نہایت ہی مشکل حالات میں ہر ممکن طریقے سےکارروائیاں کر نے کی کوشش کر رہے تھے، اور جنگ کے ضابطہ اخلاق پر عمل کر رہے تھے ۔ ان میں کئی اچھے اور معتبر لوگ تھے ، جو شاید اپنے ملک کی پالیسی سے مکمل اتفاق نہ کرتے ہوں مگر وہ ، وہ کام کرنے کی کوشش کر رہے تھے ، جو انہیں کرنے وہاں بھیجا گیا تھا ۔ لیکن ایسے بھی لوگ تھے جنہوں نے جنگی جرائم کئے ۔تو ا71 کے تنازعے میں کئی nuancesاور پیچیدگیاں موجود ہیں ، اس میں ملوث تمام اداروں ، فریقوں اور کرداروں کی طرف سے ۔میری کتاب کا سب سے بڑا کنٹری بیوشن یہ ہوگا کہ ان تمام پیچیدگیوں کے بارے میں بات چیت اور مکالمہ شروع کیا جائے ۔کیونکہ قوم پرست دیومالا ئی قصوں (nationalistic mythology (میں واقعات اور چیزوں کو ضرورت سے زیادہ سادہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے ، اور اس تنازعے کے دونوں سروں پر کھڑے فریقوں نے ایسا ہی کیا ۔مگر اس سے کسی کی مدد نہیں ہوتی۔

سوال: بنگلہ دیش کی پیدائش کی کہانی میں آپ ولن کے طور پر کس کو دیکھتی ہیں ؟

شرمیلا بوس :مجھے ڈر ہے کہ اس کہانی میں کوئی اچھا کردار نہیں ہے ۔اس تنازعے کے ہر سرے پر برے لوگ موجود تھے اور اچھے لوگ بھی تھے ، مگر مجموعی طور پر اس تنازعے میں کسی فریق کا کردار قابل تعریف نہیں تھا 
مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے واقعات کے بارے میں کچھ مزید تفصیلات اس لنک پر جا کر پڑھی جا سکتی ہیں 
“نہیں ۔۔میں نے کتاب لکھنے کے لئے کسی سے پیسے نہیں لئے ۔”
کمال اطمینان اور خندہ پیشانی سے دیا گیا جواب خود صاحب کتاب خاتون کی طرف سے آیا تھا۔



شرمیلا بوس۔ مصنفہ






واشنگٹن کے ووڈرو ولسن انٹرنیشنل سینٹر فار سکالرز میں ہونے والی یہ تقریب ڈیڑھ سال پہلے مارچ 2011 میں بھارتی صحافی اور یونیورسٹی آف آکسفورڈ کے شعبہ سیاسیات اور بین االاقوامی تعلقات کی سینئیر ریسرچ ایسوسی ایٹ شرمیلا بوس کی کتاب کا تنقیدی تعارف پیش کرنے کے لئے منعقد کی گئی تھی ۔
کتاب کا نام تھا
Dead Reckoning
The memories of the1971 Bangladesh War
کتاب کے مندرجات کو بنگلہ دیش ہی نہیں ، امریکہ اورخود پاکستان میں بھی صحافیوں ،تاریخ دانوں اور قوم پرست جذبات کی کڑی آزمائش اور مشکل سوالوں کا سامنا ہے ۔ پاکستان میں جہاں اس کتاب کا اردو ترجمہ کیا جا رہا ہے ،اکثرلوگ اس کے مندرجات کو حق کی جیت قرار دے رہے ہیں ۔ لیکن ایسے لوگ بھی موجودہیں ، جنہیں کتاب کے مندرجات سے اتفاق نہیں ۔بنگلہ دیشی اخبارات میں گزشتہ ایک سال کے دوران تواتر سے شرمیلا بوس پر پاکستان سے مبینہ ہمدردی رکھنے کے الزامات عائد کئے گئے ہیں۔
بھارتی بنگال کے سب سے بڑے شہر کلکتہ سے تعلق رکھنے والی شرمیلا بوس ہندوستان کی تحریک آزادی کے راہنما سبھاش چندر بوس کی پوتی ہیں ۔ ان کی کتاب 1971 میں مشرقی اور مغربی پاکستان کی علیحدگی کے ان واقعات کی تحقیق پر مبنی ہے ۔ جس میں پاکستانی فوج کوجنگی جرائم اور بنگالی خواتین کی بے حرمتی کے ان گنت واقعات کے لئے مورد الزام ٹہرایا گیا تھا ۔کتاب میں سن 71 کے مشرقی پاکستان اور آج کے بنگلہ دیش میں پیش آنے والے واقعات کے بیانئے اور جنگ کے انسانی پہلوؤں کا جائزہ لیا گیا ہے۔
شرمیلا بو س کہتی ہیں کہ ان کی ریسرچ کا بڑا حصہ ، جس میں پاکستان اور بنگلہ دیش میں کیا جانے والا فیلڈ ورک شامل ہے جو2003 سے 2007 کے دوران انجام پایا ۔جبکہ کتاب کا کچھ کام برطانیہ اور امریکہ میں بھی کیا گیا۔
ذیل میں شرمیلا بوس سے کئے گئے ٹی وی انٹرویو کی تفصیلات درج کی جا رہی ہیں ۔جو انہوں نے وائس آف امریکہ اردو کی تابندہ نعیم کو دیا تھا۔
شرمیلا بوس کا وڈیو انٹرویو دیکھنے کے لئے اس لنک پر کلک کیجئے ۔
سوال:اس کتاب پر ریسرچ کے لئے آپ نے کتنے لوگوں سے بات کی اور وہ کون لوگ تھے ؟
شرمیلا بوس : بنگلہ دیش میں میں نے ایسے بہت سے افراد سے بات کی، جو 1971 کے واقعات میں کسی نہ کسی طرح شامل تھے ، یا ان کے عینی شاہد تھے،جن کے بارے میں میں تحقیق کر رہی تھی۔یہ انٹرویوز،جن کا ذکر میری کتاب میں ہے،بنگلہ دیش کے دیہاتوں ، شہروں اور کئی اضلاع میں جا کر کئے گئے۔جن واقعات کا میں نے جائزہ لیا، وہ دسمبر 1970 ، جنوری 1971 سے مارچ 1972 تک کے ہیں ۔اس لئے وہ سب لوگ جو وہاں خود موجود تھے ، یا ان کے عینی گواہ تھے ، ان سے میں نے بنگلہ دیش میں بات کی ۔ تو آپ خود سوچ سکتی ہیں کہ وہ لوگوں کی کتنی بڑی تعداد ہو گی ۔ پاکستان میں میں نے کوشش کی کہ میں ایسے افراد سے بات کروں ، جو1971میں مشرقی پاکستان میں تعینات مغربی پاکستان کے حاضر سروس جونئیر آرمی آفیسرز تھے ۔ جنہوں نے مشرقی پاکستان میں مارشل لا ڈیوٹی کی ۔ شرپسند عناصر کے خلاف کارروائیاں کیں ۔ میں کچھ سینئیر فوجی افسران سے بھی ملی ۔ خوش قسمتی سے میں نے جنرل نیازی کی موت سے پہلے ان سے بھی ملاقات کی ۔ میں نے صاحبزادہ یعقوب خان سے بھی ملاقات کی تھی ۔ لیکن زیادہ تر میں نے ان لوگوں کو ڈھونڈنے کی کوشش کی ، جو اس وقت پاکستانی فوج میں کیپٹن، لیفٹننٹ یا میجر کے طور پر تعینات تھے ۔ یا کچھ رجمنٹس میں کمانڈنگ آفیسرز تھے ، اور اب تک حیات تھے ۔۔مجموعی طور پر میں نے تین درجن سے زائد پاکستانی آرمی آفیسرز سے بات کی اور بنگلہ دیش میں جن لوگوں سے میری بات ہوئی ، ان کی تعداد کی گنتی کرنا بھی مشکل ہے ۔ کیونکہ جب دیہی علاقوں میں آپ لوگوں کے انٹرویو کر رہے ہوتے ہیں ، تو اکثر سینکڑوں لوگ یونہی جمع ہو جاتے ہیں ۔ اور ایک سے بات کرو تو کئی اور لوگ بھی گفتگو میں حصہ لینے لگتے ہیں ،اپنے تجربات بتاتے ہیں ۔ اس لئے میں ٹھیک سے نہیں بتا سکتی کہ بنگلہ دیش میں میری دراصل کتنے لوگوں سے بات ہوئی۔
سوال : وہ کیا چیز تھی ، جس نے آپ کو تاریخ کے ایک ایسے واقعے کی تحقیق پر اکسایا، جو چالیس سال پہلے ہوا تھا ،جب آج کی نسل کے بیشتر افراد پیدا بھی نہیں ہوئے تھے ۔کیوں آپ کو یہ خیال آیا کہ بنگلہ دیش کی کہانی کے مضمرات کو گہرائی میں جا کر دیکھنا ضروری ہے ۔۔؟
شرمیلا بوس : 1971 کی جنگ میرے ساتھ تب سے ہے ، جب میں ایک بچی تھی اور کلکتہ میں بڑی ہو رہی تھی (شرمیلا بوس 1971 میں بارہ سال کی تھیں )میری اپنی یادداشت میں اب تک وہ تکلیف دہ اور پیچیدہ واقعات موجود ہیں ، جو ہمارے بالکل نزدیکی شہر میں پیش آئے ۔ میرے خاندان کے کئی افراد مشرقی پاکستان سے آنے والے مہاجرین کے لئے امدادی سرگرمیوں میں شامل رہے تھے ۔ تو یہ واقعات میرے ساتھ ساتھ اس وقت سے تھے، جب سے میں نے بین الاقوامی سیاست میں دلچسپی لینی شروع کی ۔ مجھے ہمیشہ لگتا تھا کہ مجھے اس بارے میں کچھ لکھنا چاہئے ۔یہ اور بات کہ مجھے اس کا موقعہ اس واقعے کے تیس، پینتیس سال بعد جا کر ملا ۔
سوال :آپ کے خیال میں آج کے بنگلہ دیش اور پاکستان میں آپ کی کتاب کے مندرجات کا وزن کیسا تولا جائے گا؟
شرمیلا بوس : کتاب کے مندرجات بہت متوازن ہیں ،مگر بنگلہ دیش اور پاکستان دونوں میں ایسے لوگ ہونگے، جنہیں اس کتاب پر یقین کرنے،اور انہیں سمجھنے میں دشواری پیش آئے گی ۔ایسا اس لئے ہے کہ 40برسوں کے دوران دونوں ملکوں اور بھارت میں بھی اپنے طور پر ایک قوم پرستی پر مبنی دیو مالا تشکیل پا چکی ہے ۔ اس جنگ کے بارے میں کوئی غیر جذباتی ، غیر جا نبدار اور منظم ریسرچ نہیں ہوئی ۔چونکہ ہم میں سے بیشتر لوگ ایسی کہانیاں سنتے ہوئے بڑے ہوئے ہیں ، میں خود بھی اس کہانی کا وہی بیانیہ سن کر بڑی ہوئی، جس پر بھارت اور بنگلہ دیش کی چھاپ تھی ۔توجب میں نے یہ ریسرچ شروع کی، اس وقت میں خود بھی نہیں جانتی تھی کہ کیا نتائج سامنے آئیں گے ۔میرا خیال تھا کہ چونکہ71 کے واقعات مکمل طریقے تحریری شکل میں نہیں لائے گئے ، اس لئے میں ایسی تفصیلات معلوم کروں گی ، جو کہیں درج نہیں ہوئیں ۔یعنی اس واقعے کے دستاویزی حقائق کا بھی خود جائزہ لوں گی ۔لیکن جب میں نے تحقیق کے لئے لوگوں سے بات کرنی شروع کی ، تو جو حقائق میرے سامنے آئے وہ ان کہانیوں سے مختلف تھے ، جنہیں سن کر میں بڑی ہوئی تھی ۔ مجھے خود بھی ان پر یقین کرنے میں دشواری پیش آئی ۔ میں سمجھ سکتی ہوں کہ بنگلہ دیش ا ور پاکستان میں بھی لوگوں کو اس کتاب کو سمجھنے میں دشواری پیش آئے گی جو اپنے اپنے وطن کی قوم پرستی پر مبنی کہانیاں سن کر بڑے ہوئے ہیں ۔ایسا ہر جنگی تنازعے کے بعد ہوتا ہے ۔لیکن ہاں ،یہ ریسرچ پہلے سامنے آنی چاہئے تھی۔۔پھر بھی مجھے خوشی ہے کہ یہ کام مکمل ہوا
سوال :پاکستان کے مشرقی اور مغربی حصے کی علیحدگی میں آپ پاکستانی فوج کا کیا کردار دیکھتی ہیں اور بھارت کے کردار کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے ؟
شرمیلا بوس : یہ کتاب بھارت کے کردار کے بارے میں نہیں ہے ۔ اگرچہ بھارت کا اس واقعے میں بہت کردار رہا ۔لیکن میری کتاب ان لوگوں کے بارے میں ہے جو اس تنازعے سے براہ راست متاثر ہوئے ۔پاکستانی فوج کا جہاں تک تعلق ہے، وہ اس سال کے دوران ریاست کی پالیسی کے اطلاق کا ذریعہ تھی ۔ گو کہ وہ ریاستی پالیسی کے اطلاق کا ذریعہ مارچ 1971 کے بعد بنی ۔۔جبکہ میری کتاب اس سے کچھ مہینے پہلے سے شروع ہوتی ہے ۔مگر (پاک) فوج نے کیا کیا۔۔یہ ایک پیچیدہ معاملہ رہے گا ۔فوج میں ایسے لوگ تھے ، جو شرپسندوں کے خلاف نہایت ہی مشکل حالات میں ہر ممکن طریقے سےکارروائیاں کر نے کی کوشش کر رہے تھے، اور جنگ کے ضابطہ اخلاق پر عمل کر رہے تھے ۔ ان میں کئی اچھے اور معتبر لوگ تھے ، جو شاید اپنے ملک کی پالیسی سے مکمل اتفاق نہ کرتے ہوں مگر وہ ، وہ کام کرنے کی کوشش کر رہے تھے ، جو انہیں کرنے وہاں بھیجا گیا تھا ۔ لیکن ایسے بھی لوگ تھے جنہوں نے جنگی جرائم کئے ۔تو ا71 کے تنازعے میں کئی nuancesاور پیچیدگیاں موجود ہیں ، اس میں ملوث تمام اداروں ، فریقوں اور کرداروں کی طرف سے ۔میری کتاب کا سب سے بڑا کنٹری بیوشن یہ ہوگا کہ ان تمام پیچیدگیوں کے بارے میں بات چیت اور مکالمہ شروع کیا جائے ۔کیونکہ قوم پرست دیومالا ئی قصوں (nationalistic mythology (میں واقعات اور چیزوں کو ضرورت سے زیادہ سادہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے ، اور اس تنازعے کے دونوں سروں پر کھڑے فریقوں نے ایسا ہی کیا ۔مگر اس سے کسی کی مدد نہیں ہوتی۔
سوال: بنگلہ دیش کی پیدائش کی کہانی میں آپ ولن کے طور پر کس کو دیکھتی ہیں ؟
شرمیلا بوس :مجھے ڈر ہے کہ اس کہانی میں کوئی اچھا کردار نہیں ہے ۔اس تنازعے کے ہر سرے پر برے لوگ موجود تھے اور اچھے لوگ بھی تھے ، مگر مجموعی طور پر اس تنازعے میں کسی فریق کا کردار قابل تعریف نہیں تھا
مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے واقعات کے بارے میں کچھ مزید تفصیلات اس لنک پر جا کر پڑھی جا سکتی ہیں 

Tuesday, October 23, 2012

پاکستان کا سب سے بڑا قومی پرچم تیار کرنے کا ریکارڈ Pak youth make world's largest human national flag


پاکستان کا سب سے بڑا قومی پرچم تیار کرنے کا ریکارڈ


Pak youth make world's largest human national flag


لاہور میں چوبیس ہزار دو سو ننھے شاہینوں نے دنیا کا سب سے بڑا انسانی جھنڈا بنانے کا ریکارڈ قائم کر دیا۔ گنیز بُک آف ورلڈ ریکارڈ کے منتظمین نے اس کی تصدیق کر دی۔


نیشنل ہاکی اسٹیڈیم میں 24 ہزار دو سو طلباء و طالبات نے دنیا کا سب سے بڑا جھنڈا بنا دیا۔ ننھے شاہینوں نے سبز اور سفید رنگ کے کارڈ بورڈز اٹھائے تو اسٹیڈیم پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھا۔ اسٹیڈیم میں گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کی ٹیم بھی موجود تھی۔ اس سے قبل ہانگ کانگ کی طرف سے دنیا کا سب سے بڑا جھنڈا بنانے کا ریکارڈ تھا۔ جنہوں نے 21 ہزار چار سو بچوں کی مدد سے ریکارڈ بنایا تھا۔ حمزہ شہباز شریف نے گنیز بُک کی انتظامیہ کی جانب سے اعزاز وصول کیا
Pakistani students on Monday made world record in making the biggest human national flag.

About 24,200 students made the human flag and broke the earlier record made by Hong Kong in 2007 with 21,726 participants.
Gareth Daeves, Adjudicator of Guinness World Records (GWR), announced that Pakistan has set the world record by making biggest human flag.
Earlier on Monday, 1,936 Pakistani students broke record of the largest human mosaic.
The human mosaic was of the Shahi Qila (Lahore Fort) and the official announcement of the new record was made by a representative from the Guinness Book of Records.

From Bosnia to Makkah to do Hajj on foot




From Bosnia to Makkah to do Hajj on foot...
A Bosnian Muslim pilgrim who left last December on pilgrimage to Makkah by foot told AFP on Monday that he has arrived after passing through seven countries including war-torn Syria.
“I arrived Saturday in Makkah. I am not tired, these are the best days of my life,” Senad Hadzic, 47, said when reached by phone on a Saudi mobile number.
He said he had covered some 5,700 kilometres (3,540 miles) in 314 days of walking through Bosnia, Serbia, Bulgaria, Turkey, Syria and Jordan to the Muslim holy city in south-western Saudi Arabia, with a backpack weighing 20 kilos (44 pounds).
He charted his progress on his Facebook page, where he posted a picture apparently of an entry/exit card for foreigners issued by the Syrian interior ministry.
“I passed through Syria in April. I walked some 500 kilometres in 11 days. I went through Aleppo and Damascus and passed dozens of check-points held by pro-government and rebel forces alike, but I was never detained,” Hadzic said.
“At a check-point held by (President Bashar) al-Assad’s forces the soldier ordered me to empty my backpack … When I showed them my Quran and explained I was making the pilgrimage on foot, they let me go,” he told AFP.
“I walked in the name of Allah, for Islam, for Bosnia-Hercegovina, for my parents and my sister,” he added.
On his Facebook page he said God had shown him the way in dreams, including to go through Syria instead of Iraq.
During the pilgrimage, Hadzic faced temperatures ranging from minus 35 Celsius in Bulgaria to plus 44 Celsius in Jordan.
He said he had to wait in Istanbul for several weeks to get permission to cross the Bosphorus Bridge on foot and two months at the border between Jordan and Saudi Arabia to obtain an entry visa.
The hajj is one of the five pillars of Islam and must be undertaken at least once in a lifetime by all Muslims who are able to.

Saturday, October 20, 2012

سی آئی اے کے مخبر غدار پاکستان ڈاکٹر شکیل آفریدی




امریکی جاسوس غدار ڈاکٹر شکیل آفریدی سے پاکستانی اداروں نے کیا سلوک کیا ؟ غدار امریکی جاسوس کا جیل سے فاکس نیوز کو انٹرویو

آئی ایس آئی امریکہ کو اپنا بدترین دشمن تصور کرتا ہے اور آئی ایس آئی امریکہ کو بھارت سے بھی بڑا دشمن سمجھتے ہیں ... پاکستانی قید میں مطلوب افراد کی تفتیش کیلئے آنے والے امریکی اہلکاروں کو مختلف بہانوں سے ٹرخایا جاتا هے ، غدار ڈاکٹر شکیل آفریدی

سی آئی اے کے مخبر غدار پاکستان

 ڈاکٹر شکیل آفریدی کا ایک انٹرویو حال ہی میں امریکی ٹی وی چینل فاکس نیوز نے نشر کیا ہے غدار پاکستانی ڈاکٹر شکیل آفریدی جو کہ پشاور جیل میں قید ہے، اس تک ایک امریکی ٹی وی نے رسائی حاصل کی اور اس کا انٹرویو بھی کر کے نشر کردیا ہے پاکستان میں امریکی جاسوسوں کی رسائی کہاں تک ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے ۔

امریکی جاسوس غدار ڈاکٹر شکیل آفریدی کا کہنا تھا کہ آئی ایس آئی امریکہ کو اپنا سب سے بٖڑا دشمن سمجھتی ہے اور جب اس نے کہا کہ امریکہ تو دوست ملک ہے اور اسی لئے اس نےا س کی مدد کی تھی تو آئی ایس آئی کے افسران نے اسے بتایا کہ امریکہ پاکستان کا سب سے بڑا دشمن ہے اور اس نے اس کی مدد کر کے غداری کی ہے لہذا اسے اب ایک کتے کی طرح زندگی گزارنی ہوگی کیونکہ وہ غداری کے بعد انسان نہیں رہا ہے۔ میرے ہاتھ پشت سے باندھ کر مجھے کہا جاتا کہ صرف منہ کی مدد سے کھانا کھاؤ تاکہ میں کتے کی طرح لگوں کیونکہ ملک سے غداری کرنے والا انسان نہیں رہتا

غدار پاکستانی ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ پاکستانی خفیہ ادارہ آئی ایس آئی امریکہ کو اپنا بدترین دشمن تصور کرتا ہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کی مدد محض دھوکہ ہے تاکہ امریکی حملے اور دشمنی سے بچا جا سکے ۔

ڈاکٹر آفریدی نے بتایا کہ آئی ایس آئی نے انہیں آبپارہ راولپنڈی میں اپنے ہیڈکوراٹر کے تحہ خانے میں میں رکھا اور بدترین تشدد کا نشانہ بنایا۔ ان کے مطابق انہوں نے تفتیش کاروں کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ انہوں نے تو صرف ایک دوست ملک کی مدد کی ہے، لیکن جواب میں انہیں کہا گیا کہ وہ امریکہ کو بھارت سے بھی بڑا دشمن سمجھتے ہیں اور تم نے ہمارے دشمن کی مدد کی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ انہیں تفتیش کے دوران انہیں سلگتے سگریٹوں سے جلایا جاتا اور بجلی کے جھٹکے لگائے جاتے۔ آفریدی کے مطابق آئی ایس آئی کے سینٹر میں اور بھی کئی افراد محبوس تھے، جنہیں اسی طرح تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ ان افراد میں سے بعض مغربی ممالک کے نو مسلم شہری بھی ہوتے تھے جو ’جہاد‘ میں حصہ لینے کے لیے پاکستان کے راستے افغانستان جاتے ہوئے پکڑے جاتے ہیں۔آئی ایس آئی کے افسر اپنے امریکی ہم منصبوں کو اچھا نہیں سمجھتے تھے اور ان کی مدد کرنے سے انکار کرتے تھے۔

ایسا ہی ایک واقعہ سناتے ہوئے ڈاکٹر آفریدی نے بتایا کہ عقوبت خانے میں ان کے ساتھ ایک انتہائی مطلوب شدت پسند عبدالکریم آغا بھی تھا۔ ایک دفعہ ایک امریکی اہلکار نے اس سے تفتیش کے لیے آنا تھا لیکن آئی ایس آئی کے اہلکاروں نے کریم آغا کو کہا کہ جب امریکی اس سے تفتیش کرنے لگے تو وہ بیماری کا بہانہ بنا کر بات کرنے سے انکار کردے۔ آغا نے یہی کیا جبکہ امریکی اہلکار احتجاج کرتا رہ گیا کہ وہ صرف ایک ہفتے کے لیے آیا ہے۔ آئی ایس آئی کا کہنا تھا کہ بیماری کے سبب کریم آغا کی تفتیش اب تین ہفتے کے لیے مؤخر کر دی گئی ہے۔ ’کئی دوسرے مطلوب افراد کی تفتیش کے لیے آئے امریکی اہلکاروں کو اسی طرح ٹال دیا جاتا تھا۔‘

آبپارہ سے پشاور منتقل ہونے سے پہلے اس کی ملاقات وزیر قبیلے کے سربراہ کے بھتیجے عبدالقیوم سے ہوئی تھی جسے معلوم نہیں آئی ایس آئی نے کس الزام کے تحت حراست میں لیا ہوا تھا۔ قیوم نے ڈاکٹر آفریدی کو بتایا کہ تین سال قبل آئی ایس آئی نے اس کے چچا کو ہدایت کی تھی کہ وہ اپنے قبیلے سے (جلال الدین ) حقانی اور اس کے نیٹ ورک کی مدد کے لئے کہے کیونکہ یہ پاکستان کا دوست ہے اور پاکستان کو نقصان نہیں پہنچاتا

آفریدی نے یہ تفصیلات تو نہیں بتائیں کہ انہوں نے سی آئی اے کے لیے کام کرنا کیسے شروع کیا لیکن ان کا کہنا تھا کہ انہیں یہ ہرگز علم نہیں تھا کہ امریکی القاعدہ کے رہنماء کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اسامہ بن لادن ابیٹ آباد کے جس گھر میں رہائش پذیر تھا وہ ’وزیرستان ہاؤس‘ کے نام سے جانا جاتا تھا ۔ ’ مجھے یہ تو اندازہ تھا کہ یہاں کچھ دہشتگرد رہتے ہیں لیکن یہ نہیں پتہ تھا کہ وہ اسامہ ہے۔ (آپریشن کے بعد) مجھے دھچکا لگا اور مجھے یقین نہیں آرہا تھا کے میں اس میں ملوث ہوں۔ ڈر کی وجہ سے مجھے نیند نہیں آرہی تھی کیونکہ مجھے پتہ تھا کہ اب القاعدہ مجھے قبر سے بھی ڈھونڈ نکالے گی اور سزا دے کررہے گی۔‘

سی آئی اے میں ان کے ہینڈلر نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ اپنی فیملی سمیت افغانستان فرار ہو جائیں جہاں ان کو سنبھال لیا جائے گا۔ لیکن انہوں نے پاکستان میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا کیونکہ اس سے قبل انہیں پاک افغان سرحد کے پشتون علاقے میں اغواء کر لیا گیا تھا اور انہیں ڈر تھا کہ پھر ایسا ہی نہ ہو جائے کیونکہ وہاں ہر طرف طالبان کا راج تھا اور وہ میری گردن کاٹ ڈالتے .... میں چاہتا تھا کہ امریکی مجھے جہاز کے ذریعے پاکستان سے نکالیں مگر وہ مجھے افغانستان جانے کا کہہ رہے تھے ۔

آفریدی کا دعویٰ تھا کہ انہوں نے سی آئی اے کی مدد صرف امریکہ سے محبت کے نتیجے میں کی اور قسم کھا کر کہا کہ انہیں موقع ملا تو پھر امریکہ کی مدد کرینگے۔’میرے دل میں امریکیوں کے لیے بہت احترام ہے اور مجھے سی آئی اے کے لیے کام کرنے پر فخر ہے۔‘


جزبہ حب الوطنی




جزبہ حب الوطنی سے سر شار، وطن سےمحبت  کا اظھار اس بزرگ سے سیکھے اتنی غربت کے باوجود ُٰاج کا دن ١٤ اگست  اپنے پاکستان کے نام. 
جس نے ١٤ اگست کے دن
 خوشی میں
 ٢٠٠ جوتے مفت مرمت کیے
. سلام باباجی تیری عظمت کو سلام

Pakistan today conducted a successful test fire of the indigenously developed multi tube Cruise Missile Hatf-VII (Babur), having a range of 700 kilometers.




:تمام اھل وطن کو مبارکباد: 



Pakistan today conducted a successful test fire of the indigenously developed multi tube Cruise Missile Hatf-VII (Babur), having a range of 700 kilometers.
According to a statement by the Pakistan Army, Babur Crusie Missile is a low flying, terrain hugging missile, which can strike targets both at Land and Sea with p
in point accuracy. It carries stealth features. Equipped with modern cruise missile technology of Terrain Contour Matching (TERCOM) and Digital Scene Matching and Area Co-relation (DSMAC), it can carry both nuclear and conventional warheads. The missile was launched from a state of the art Multi Tube Missile Launch Vehicle (MLV), which significantly enhances the targeting and deployment options of Babur Weapon system.
The test was witnessed by Director General Strategic Plans Division Lieutunent General (R) Khalid Ahmed Kidwai, Chairman National Engineering and Scientific Commission (NESCOM) Mr. Muhammad Irfan Burney, senior officers from the armed forces and strategic organizations. In today’s test National Command Authority’s fully automated Strategic Command and Control Support System (SCCSS) was once again employed.
It enables robust Command and Control capability of all strategic assets with round the clock situational awareness in a digitized network centric environment to decision makers at National Command Centre (NCC). The system has the added capability of real time remote monitoring of missile flight path. The test consolidates and strengthens Pakistan’s deterrence capability and National security.
The successful test has also been warmly appreciated by the President, Prime Minister of Pakistan and Chairman Joint Chiefs of Staff Committee, who have congratulated the scientists and engineers on their outstanding success.


پاکستان میں اب انکشاف ہوا ہے کہ انٹر نیٹ پر توہین رسالت یا دیگر مواد روکنے کا کوئی نظام سرے سے موجود ہی نہیں



پاکستان میں اب انکشاف ہوا ہے کہ انٹر نیٹ پر توہین رسالت یا دیگر مواد روکنے کا کوئی نظام سرے سے موجود ہی نہیں ہے حالانکہ انٹر نیٹ پر اسلام اور پیغمبر اسلام اور قرآن پاک کی توہین جیسے معاملات تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ اطلاعات یہ ہیں کہ حکومت پاکستان نے چند ماہ قبل ایسا نظام بنانے کی کوشش کی تھی مگر پاکستان کی این جی اوز نے اس کےخلاف ایک بہت بڑی مہم چلائی اور عالمی اداروں اور بڑی آئی ٹی کمپنیز کو باقاعدہ
خطوط لکھے کہ اس سلسلے میں پاکستان کی کوئی مدد نہ کی جائے اور اسے انسانی بنیادی حقوق کی خلاف ورزی تصور کیا جائے۔ اس مہم کے بعد حکومت پاکستان بھی ٹھنڈی ہو کر بیٹھ گئی اور اب یہ نیا حادثہ پیش آیا ہے جسے روکنے کی تمام کوششیں ناکام ہوگئی ہیں۔ یو ٹیوبلاک کرنے کے بعد بھی انٹر نیٹ پر ایسی ویڈیوز کئی جگہوںپر موجود ہیں۔گو کہحکام کی جانب سے یہ احساس ہونے پر کہ گوگل کے ساتھ حکومت پاکستان کا معاہدہ نہیں ہے لہٰذا ایسی صورت میں یوٹیوب کی ویب سائٹ کو مکمل طور پر بلاک کردیا گیا۔ پاکستان ٹیلی کام اتھارٹی اور دیگر اداروں کی جانب سے وزیراعظم اور سپریم کورٹ کو بھیجی جانے والی تجویز کے بعد وزیراعظم پاکستان نے ملک میں یوٹیوب کو چند روز کیلئے بلاک کرنے کا حکم دیا تاکہ حالیہ اسلام مخالف فلم کے پاکستان میں پھیلاؤ کو روکا جا سکے۔ بھارت اور انڈونیشیا جیسے ممالک نے گوگل اور یوٹیوب انتظامیہ کے ساتھ مل کر پہلے ہی اس طرح کا توہین آمیز مواد پھیلانے والی ویب سائٹس کو بلاک کرنے کا معاہدہ کردیا ہے لیکن اس معاملے میں پاکستان اپنے آئی ٹی حکام کی نااہلی کی وجہ سے بے بس نظر آ رہا ہے کیونکہ گوگل کے ساتھ کوئی معاہدہ کیا گیا ہے اور نہ ہی توہین آمیز اور فحش مواد روکنے کیلئے فلٹریشن سسٹم نصب ہے۔ واضح رہے کہ دنیا کےتقریبا تمام مما لک نے ایسے انٹر نیٹ فلٹریشن نظام اپنا رکھے ہیں جو متنازعہ یا غیر متعلقہ مواد پر اس ملک میں انٹر نیٹ پر نہیں آنے دیتے۔ اس سلسلے میں پاکستان نے رواں برس مارچ میں کوششیں شروع کی تھیں تاکہ ایسا مستحکم انٹر نیٹ فلٹریشن نظام اپنایا جا سکے اور اس سلسلے میں عالمی اور قومی اخبارات میں ٹینڈر بھی طلب کئے گئے تھے۔ اس کےبعد کئی این جی اوز نے بڑی مہم شروع کردی۔ اس سلسلے میں منسٹری آف انفارمیشن ٹیکنالوجی نے اشتہار دیا تھا اور ٹینڈر کی مالیت 10 میلین ڈالر رکھی تھی۔ اس نظام کے تحت خود کار طور پر ایسی تمام ویب سائٹس بلاک ہوجاتیں جہاں توہین آمیز مواد موجود ہوتا۔ موجودہ طریقہ کار کے مطابق ایک ایک ویب سائٹ کو خود ہی ڈھونڈ کر بلاک کرنا پڑتا ہےاور یہ ناممکن ہے کہ اس طرح ایسی تمام ویب سائٹس کو بلاک کردیا جائے کیونکہ ہر وقت ایسا مواد نئی ویب سائٹس پر آتا رہتا ہے ۔ درجنوں اسلامی ممالک اور امریکہ سمیت تمام ترقی یافتہ ممالک ایسے نظام استعمال کررہے ہیں۔ تاہم پاکستان میں این جی اوز کیجانب سے شدید مخالفت اور عالمی مہم چلائے جانے کے بعد یہ پروجیکٹ وہیں پر رک گیا۔