امریکی جاسوس غدار ڈاکٹر شکیل آفریدی سے پاکستانی اداروں نے کیا سلوک کیا ؟ غدار امریکی جاسوس کا جیل سے فاکس نیوز کو انٹرویو
آئی ایس آئی امریکہ کو اپنا بدترین دشمن تصور کرتا ہے اور آئی ایس آئی امریکہ کو بھارت سے بھی بڑا دشمن سمجھتے ہیں ... پاکستانی قید میں مطلوب افراد کی تفتیش کیلئے آنے والے امریکی اہلکاروں کو مختلف بہانوں سے ٹرخایا جاتا هے ، غدار ڈاکٹر شکیل آفریدی
سی آئی اے کے مخبر غدار پاکستان
ڈاکٹر شکیل آفریدی کا ایک انٹرویو حال ہی میں امریکی ٹی وی چینل فاکس نیوز نے نشر کیا ہے غدار پاکستانی ڈاکٹر شکیل آفریدی جو کہ پشاور جیل میں قید ہے، اس تک ایک امریکی ٹی وی نے رسائی حاصل کی اور اس کا انٹرویو بھی کر کے نشر کردیا ہے پاکستان میں امریکی جاسوسوں کی رسائی کہاں تک ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے ۔
امریکی جاسوس غدار ڈاکٹر شکیل آفریدی کا کہنا تھا کہ آئی ایس آئی امریکہ کو اپنا سب سے بٖڑا دشمن سمجھتی ہے اور جب اس نے کہا کہ امریکہ تو دوست ملک ہے اور اسی لئے اس نےا س کی مدد کی تھی تو آئی ایس آئی کے افسران نے اسے بتایا کہ امریکہ پاکستان کا سب سے بڑا دشمن ہے اور اس نے اس کی مدد کر کے غداری کی ہے لہذا اسے اب ایک کتے کی طرح زندگی گزارنی ہوگی کیونکہ وہ غداری کے بعد انسان نہیں رہا ہے۔ میرے ہاتھ پشت سے باندھ کر مجھے کہا جاتا کہ صرف منہ کی مدد سے کھانا کھاؤ تاکہ میں کتے کی طرح لگوں کیونکہ ملک سے غداری کرنے والا انسان نہیں رہتا
غدار پاکستانی ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ پاکستانی خفیہ ادارہ آئی ایس آئی امریکہ کو اپنا بدترین دشمن تصور کرتا ہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کی مدد محض دھوکہ ہے تاکہ امریکی حملے اور دشمنی سے بچا جا سکے ۔
ڈاکٹر آفریدی نے بتایا کہ آئی ایس آئی نے انہیں آبپارہ راولپنڈی میں اپنے ہیڈکوراٹر کے تحہ خانے میں میں رکھا اور بدترین تشدد کا نشانہ بنایا۔ ان کے مطابق انہوں نے تفتیش کاروں کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ انہوں نے تو صرف ایک دوست ملک کی مدد کی ہے، لیکن جواب میں انہیں کہا گیا کہ وہ امریکہ کو بھارت سے بھی بڑا دشمن سمجھتے ہیں اور تم نے ہمارے دشمن کی مدد کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ انہیں تفتیش کے دوران انہیں سلگتے سگریٹوں سے جلایا جاتا اور بجلی کے جھٹکے لگائے جاتے۔ آفریدی کے مطابق آئی ایس آئی کے سینٹر میں اور بھی کئی افراد محبوس تھے، جنہیں اسی طرح تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ ان افراد میں سے بعض مغربی ممالک کے نو مسلم شہری بھی ہوتے تھے جو ’جہاد‘ میں حصہ لینے کے لیے پاکستان کے راستے افغانستان جاتے ہوئے پکڑے جاتے ہیں۔آئی ایس آئی کے افسر اپنے امریکی ہم منصبوں کو اچھا نہیں سمجھتے تھے اور ان کی مدد کرنے سے انکار کرتے تھے۔
ایسا ہی ایک واقعہ سناتے ہوئے ڈاکٹر آفریدی نے بتایا کہ عقوبت خانے میں ان کے ساتھ ایک انتہائی مطلوب شدت پسند عبدالکریم آغا بھی تھا۔ ایک دفعہ ایک امریکی اہلکار نے اس سے تفتیش کے لیے آنا تھا لیکن آئی ایس آئی کے اہلکاروں نے کریم آغا کو کہا کہ جب امریکی اس سے تفتیش کرنے لگے تو وہ بیماری کا بہانہ بنا کر بات کرنے سے انکار کردے۔ آغا نے یہی کیا جبکہ امریکی اہلکار احتجاج کرتا رہ گیا کہ وہ صرف ایک ہفتے کے لیے آیا ہے۔ آئی ایس آئی کا کہنا تھا کہ بیماری کے سبب کریم آغا کی تفتیش اب تین ہفتے کے لیے مؤخر کر دی گئی ہے۔ ’کئی دوسرے مطلوب افراد کی تفتیش کے لیے آئے امریکی اہلکاروں کو اسی طرح ٹال دیا جاتا تھا۔‘
آبپارہ سے پشاور منتقل ہونے سے پہلے اس کی ملاقات وزیر قبیلے کے سربراہ کے بھتیجے عبدالقیوم سے ہوئی تھی جسے معلوم نہیں آئی ایس آئی نے کس الزام کے تحت حراست میں لیا ہوا تھا۔ قیوم نے ڈاکٹر آفریدی کو بتایا کہ تین سال قبل آئی ایس آئی نے اس کے چچا کو ہدایت کی تھی کہ وہ اپنے قبیلے سے (جلال الدین ) حقانی اور اس کے نیٹ ورک کی مدد کے لئے کہے کیونکہ یہ پاکستان کا دوست ہے اور پاکستان کو نقصان نہیں پہنچاتا
آفریدی نے یہ تفصیلات تو نہیں بتائیں کہ انہوں نے سی آئی اے کے لیے کام کرنا کیسے شروع کیا لیکن ان کا کہنا تھا کہ انہیں یہ ہرگز علم نہیں تھا کہ امریکی القاعدہ کے رہنماء کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اسامہ بن لادن ابیٹ آباد کے جس گھر میں رہائش پذیر تھا وہ ’وزیرستان ہاؤس‘ کے نام سے جانا جاتا تھا ۔ ’ مجھے یہ تو اندازہ تھا کہ یہاں کچھ دہشتگرد رہتے ہیں لیکن یہ نہیں پتہ تھا کہ وہ اسامہ ہے۔ (آپریشن کے بعد) مجھے دھچکا لگا اور مجھے یقین نہیں آرہا تھا کے میں اس میں ملوث ہوں۔ ڈر کی وجہ سے مجھے نیند نہیں آرہی تھی کیونکہ مجھے پتہ تھا کہ اب القاعدہ مجھے قبر سے بھی ڈھونڈ نکالے گی اور سزا دے کررہے گی۔‘
سی آئی اے میں ان کے ہینڈلر نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ اپنی فیملی سمیت افغانستان فرار ہو جائیں جہاں ان کو سنبھال لیا جائے گا۔ لیکن انہوں نے پاکستان میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا کیونکہ اس سے قبل انہیں پاک افغان سرحد کے پشتون علاقے میں اغواء کر لیا گیا تھا اور انہیں ڈر تھا کہ پھر ایسا ہی نہ ہو جائے کیونکہ وہاں ہر طرف طالبان کا راج تھا اور وہ میری گردن کاٹ ڈالتے .... میں چاہتا تھا کہ امریکی مجھے جہاز کے ذریعے پاکستان سے نکالیں مگر وہ مجھے افغانستان جانے کا کہہ رہے تھے ۔
آفریدی کا دعویٰ تھا کہ انہوں نے سی آئی اے کی مدد صرف امریکہ سے محبت کے نتیجے میں کی اور قسم کھا کر کہا کہ انہیں موقع ملا تو پھر امریکہ کی مدد کرینگے۔’میرے دل میں امریکیوں کے لیے بہت احترام ہے اور مجھے سی آئی اے کے لیے کام کرنے پر فخر ہے۔‘
No comments:
Post a Comment