ارفع کریم: حیرتوں کا جہاں
ابا گھر میں کمپیوٹر کیا لائے ....سب پر اس عجیب شے کو دیکھ کر حیرتوں کے پہاڑ سے ٹوٹ پڑے، خصوصا ًننھی ارفع نے جب کمپیوٹر میں تصویریں اِدھر سے اُدھر پھدکتی دیکھی تو دانتوں تلے اُنگلی داب لی ....کچھ دنوں میں مانوس ہو گئی تو کہنے لگی:” یہ خوب جادو ہے، بٹن دباﺅ تو ڈبے کے اوپر جا دو کی سی چیز نمایاں ہو جاتی ہے۔“
کمپیوٹر تھی ہی ایسی چیز .... کہ ہر شخص اُس میں دلچسپی لیتا نظر آتا تھا۔ کچھ عرصے میں ننھی ارفع نے بھی کمپیوٹر کی شدبد حاصل کرلی ....ابا نے جب ارفع کی دلچسپی کو دیکھا تو اُسے فیصل آباد کے ایک کمپیوٹر سینٹر میں داخلہ دلانے لے گئے۔ ارفع کے والد ”کرنل امجد کریم رندھاوا“ نے کمپیوٹر سینٹر کے ہیڈ منسٹر یٹر سے کہا:” میری بیٹی کو کمپیوٹر کا بہت شوق ہے۔ اسے سنٹر میں داخلہ دے دیجیے!“ عینک کے پیچھے سے جھانکتی آنکھوں نے سپاٹ لہجے میں جواب دیا تھا۔” ہم بچوں کو داخل نہیں کرتے۔“ لیکن ....! امجد کریم پیچھے ہٹنے والوں میں سے نہیں تھے۔ انہوں نے اصرار جاری رکھتے ہوئے کہا:” آپ اس سے مل لیں .... کچھ کمپیوٹر کے حوالے سے پوچھ لیں ....اگر سمجھ آجائے تو ٹھیک ورنہ ہم واپس چلے جائیں گے۔“ ٹیچر سہیل نے جب بچی کا امتحان لیا تو انگشت بدنداں رہ گئے۔ ذہانت کا مادہ جیسے اس بچی میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔8 سالہ ارفع اب با قاعدگی کے ساتھ سینٹر جانے لگی تھی۔ ارفع نے دوسرے ہم عمر بچوں کی طرح کمپیوٹر کو صرف کھیلنے والی مشین نہیں سمجھا بلکہ آہستہ آہستہ کمپیوٹر سے ہی اپنے ذہن میں پیدا ہونے والے سوالوں کے جوابات حاصل کرنا شروع کر دیے۔ جس عمر میں دوسرے بچوں کو انفارمیشن ٹیکنالوجی کے مختلف شعبہ جات کے بارے میں علم نہیں ہوتا، اس عمر میں ارفع کریم نے آئی ٹی کے بارے میں وہ کچھ جان لیاجو ایک کمپیوٹر ماہر کئی سالوں کی انتھک محنت کے بعد سیکھتا ہے۔ پھر جب کچھ دنوں بعد اس نے ”مائیکرو سافٹ سر ٹیفائیڈایپلی کیشن ڈویلپر“ کا سرٹیفکیٹ حاصل کیا تو اس کے والدین سمیت اس کے ٹیچر حیرت ذدہ رہ گئے۔ انہیں یقین نہیں آرہا تھاکہ ارفع نے اس امتحان میں اعلیٰ درجے کے نمبر حاصل کیے ہیں۔
یہاں تک کہ جب امجد کریم رندھاوا نے یہ خبر مائیکرو سافٹ کے بانی ”بل گیٹس“ تک پہنچائی تو اس نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ مگر شروع میں تو کوئی ماننے کو تیار ہی نہیں تھا۔
”ہم کیسے مان لیں کہ ایک 9 سال کی بچی نے مائیکروسافٹ کا ٹیسٹ پاس کر لیا ہے۔“ ابھی ایک نے یہ بات ختم نہیں کی تھی کہ دوسرا مائیکروسافٹ کمپنی کا افسر بول پڑا۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ کوئی بچی ایسا کارنامہ سرانجام دے اور وہ بھی پاکستانی ....!ہونہہ .... ناممکن ....!“
مائیکرو سافٹ کمپنی کے ”ہندو لابی“ کے اس رو یئے نے انہیںمایوس کیا، مگر انہوں نے اُمید کا دامن نہیں چھوڑا اور بولے۔” آپ ایک بار بچی سے مل لیں ....اگر وہ آپ کے اندازے کے مطابق کا رنامہ انجام نہیں دے سکتی تو میرا اصرار نہیں رہے گا، لیکن آپ بہر حال ایک بار مل لیں۔ مائیکروسافٹ کمپنی نے ان کی یہ بات مان لی، سنگاپور اور کراچی آفس سے دو لوگ 9سالہ ارفع کا انٹر ویو لینے پاکستان آئے۔ انہوں نے ناصرف انٹر ویو لیا بلکہ اسے مزید جانچنے کے لیے دوبارہ ٹیسٹ لیا....ٹیسٹ لینے کے بعد ان کا دل کہہ رہا تھا کہ اس حیرت انگیز بچی کی اس شاندار کارکر دگی پر جتنا زیادہ حیرت کا اظہار کیا جائے، وہ کم ہے۔
بل گیٹس سے ملنا پھر بھی کوئی آسان کام نہیں تھا۔ ارفع کے والد ”کانگو“ میں تھے اور ان کی پھوپھی انجم النساءجو ارفع کو ”برفی“ کہا کرتی تھیں۔ اس کے ساتھ اسلام آباد کے امریکی سفارت خانے گئی۔ پھوپھو خود ایک کالج میں لیکچرار تھیں مگر امریکی ویزہ دینے سے پہلے بہت سوال کرتے ہیں اور وہ سوچ رہی تھی کہ وہ انہیں کیسے قائل کرے گی، مگر پھوپھو کے ساتھ ”حیرتوں کی پٹاری“ ارفع کے ہوتے ہوئے بھلا کیا مشکل پیش آسکتی تھی۔
سفار ت خانے میں ویزے کے لیے کافی لمبی لائنیں لگی ہوئی تھیں۔ جب ان کا نمبر آیا تو ارفع اپنی پھوپھو سے آگے کھڑی ہوئی اور ٹھیٹھ امریکی لہجے میں بولی:
''Mr This Is My Ticket And This Is Schedule Of Meeting With Bill Gates.My Father Has To Come From Kango To Join Us There.This Is The Situation And Now You Have To Work Out The Solution.''
اتنا با اعتماد لہجہ .... وہ پریشان دیکھتا رہ گیا۔ سفارت خانے کے اس افسر کو اس کا بااعتماد لہجہ اچھا لگا اور اس نے اسی لمحے فیصلہ کر لیا کہ وہ اسے ویزہ دے گا....مگر اس کے اعتماد کو مزید جانچنے کے لیے کہنے لگا۔ ”ویزہ ملنا اتنا آسان نہیں ہوتا....یہ تو مشکل ہے ہمارے کچھ اصول ہیں.... کچھ حدود ہیں۔“
”مشکل ہے تو آپ کے پاس آئے ہیں۔ آپ اس کا حل نکالیے ....کام تو ہوگا ....اور آپ کے ہی ہاتھوں ہوگا۔“ اس آدمی نے اپنے باقی ساتھیوں کو بلا کر کہا :”دیکھو تو سہی اتنی سی بچی ہے اور باتیں کیسے بااعتماد کرتی ہے۔“ ٹھیک 15 منٹ میں ارفع کو ویزہ مل چکا تھا۔ امریکا میں نرم گفتار، بل گیٹس سے ملاقات میں اس نے بل گیٹس پہ لکھی ایک نظم بھی اسے سنائی۔ قیاس تھا کہ ملاقات 15 منٹ کی ہوگی، مگر بل گیٹس کو شایدوقت کے گزرنے کا احسا س ہی نہیں ہوا۔
بل گیٹس نے جب مسلم خواتین کے نقاب لینے اور ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے کا تذکرہ کیا تو ارفع نے با اعتماد لہجے میں جواب دیا:”مسلم معاشرے کے حوالے سے بہت سی باتیں بنائی گئی ہیں۔ خواتین اپنی مرضی سے نقاب لیتی ہیں اور شہروں میں بھی عورتیں نقاب لیتی ہیں اور اپنی پڑھائی بھی کرتی ہیں۔ اسلام میں پڑھائی جتنی مردوں کے لیے ضروری قرار دیا ہے، اتنی ہی عورتوں کے لیے بھی اہم بتایا گیا ہے، کیا آپ کے مذہب میں تعلیم کی اتنی اہمیت ہے؟“ بل گیٹس نا صرف لاجواب ہوا بلکہ اس نے اپنے آفس کے باہر اس کے ساتھ تصاویر بھی کھنچوائیں۔ بل گیٹس سے اس ملاقات کے بعد ارفع نے پھر تو راتوں رات وہ شہرت حاصل کی کہ شاید ہی دنیا میں کوئی بچی اتنی مشہور ہوئی ہو ....!
پھر اسے مختلف کانفرنسوں میں بلایا جانے لگا۔ اس کے لیے پروگرام طے کر کے اس سے وقت لیا جانے لگا۔ 2005ءمیں انہیں وزیراعظمِ پاکستان نے سائنس و ٹیکنالوجی میں بہترین کارکردگی پر ”فاطمہ جناح گولڈ میڈل“ دیا تھا۔ اسی سال میں صدر نے بھی اسے ”پرائیڈ آف پرفارمنس “ اور ”سلام پاکستان یوتھ ایوارڈز“ سے نوازا تھا۔اس کے علاوہ ارفع کو کئی بین الاقوامی ایوارڈز بھی ملے تھے۔ ارفع نے اتنی شہرت پانے کے باوجود روایتی کاموں سے جی نہیں چرایا۔ اسے کھانا بنانا اچھا لگتا تھا .... اس نے اپنی امی سے خود فرمائش کی کہ وہ کھانا بنا یا کرے گی۔ ارفع کو پڑھنے کا بڑا شوق تھا۔ وہ علامہ اقبال کی شاعری سے لے کر بھلے شاہ تک کو پڑھ چکی تھی۔
ایک نئی تاریخ رقم کرنے والی اس بچی کو 2 دسمبر 2011ءمیں بیماریوں نے آگھیرا .... نہ جانے اس ذہین بچی کو کس کی نظر لگ گئی۔ اسے پہلے مر گی کا دورہ ....پھر دل کا دورہ ....اور پھر برین ہیمبرج نے اس ننھی جان کا سفرآخرت مزید قریب کر دیا۔ 14 جنوری 2012 ءکو اس جہان فانی سے کوچ کر نے والی ننھی ارفع نے نئی نسل کو آگے بڑھنے کا وہ ذوق دیا جسے جتنا سراہا جائے کم ہے۔ اس ننھے پھول نے ایک مثال قائم کی ....تاریخ میں شاید اب ماں باپ اپنے بچوں کو ارفع کریم جیسا بننے کی تلقین کر یں گے۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ارفع کو آخرت میں بھی کامیاب و کامران کرے جیسا وہ اس دنیا میں کامیاب و کامران ٹھہری۔ ارفع نے اپنے ایک انٹرویو میں کہاتھا:”میں پاکستان میں ایک ایسا آئی ٹی شہر آباد کرنا چاہتی ہوں جہاں بچوں کو مفت کمپیوٹر کی تعلیم دی جائے۔اس کے علاوہ ملک کے تمام اسکولوں اور کالجوں میں کمپیوٹر لیب بنائے جائیں اور ہر طالب علم کو کمپیوٹر تک رسائی دی جائے۔“ کیا آپ ارفع کریم کا یہ خواب پورا کریں گے؟
ارفع کریم کی ایک نظم:
دو کہیں تنہا ایک پرندہ انگشت بدنداں
سوچا تھا کہ یہ لوگ کیوں ہیں اتنے ناداں
جانتے ہوئے بھی کہ جانا ہے اس کے پاس
کیوں نہیں آتے یہ برے کاموں سے باز
اے حضرت انسان تو راہ راست پر نہیں ہے
جانا ہے کہیں اور تو اور کہیں ہے
اپنی آنکھیں کھول سوئے منزل چل
کہ آرہا ہے تیرے سامنے ایک نیا کل
No comments:
Post a Comment