پشاور سے بگرام لے جاکر ملا عبدالسلام ضعیف کو بغیر کپڑوں کے برف پر پھینک دیا گیا اور امریکہ کی فوجی خواتین ایک بے لباس مسلمان کے سامنے کھڑے ہو کر تین گھنٹے تک گانے گاتی رہیں۔ بگرام میں کئی دن کی مار پیٹ کے بعد ضعیف کو قندھار بھجوایا گیا۔ قندھار میں ایک دفعہ پھرضعیف اور دیگر قیدیوں کو ننگا کرکے سب کی تصاویر لی گئیں۔ایک دن قندھار جیل میں ضعیف نماز فجر کی امامت کروا رہے تھے جیسے ہی وہ سجدے میں گئے تو ایک امریکی فوجی ان کے سر پر بیٹھ گیا۔ یہ نماز ضعیف کو دوبارہ پڑھنی پڑی۔ اپنی کتاب میں ملا عبدالسلام ضعیف لکھتے ہیں کہ امریکیوں کو جلد ہی معلوم ہوگیا کہ ہم ہر قسم کا تشدد برداشت کرلیتے ہیں لیکن قرآن مجید کی توہین برداشت نہیں کرتے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ قندھار جیل میں امریکی فوجی (نعوذباللہ) قرآن مجید پر پیشاب کرکے اسے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیتے تھے اور قیدی یہ منظر دیکھ کر روتے تھے۔ آخر کار قیدیوں نے اپنے تمام قرآن اکٹھے کرکے ہلال احمر کو دے دیئے تاکہ ان کی توہین نہ ہو۔ عبدالسلام ضعیف نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے کہ قندھار جیل سے انہیں گوانتا ناموبے جیل منتقل کیا گیا اور بد قسمتی سے یہاں بھی قرآن مجید کی توہین کا سلسلہ جاری رہا۔ اس امریکی جیل میں ساڑھے تین سالہ قید کے دوران کم از کم دس مرتبہ قرآن مجید کی توہین ہوئی۔ ضعیف کے بقول ”امریکی قرآن کی بے حرمتی کرکے مسلمانوں کو یہ پیغام دیتے تھے کہ تم ہمارے غلام اور تمہارا دین و قرآن ہمارے لئے قابل احترام نہیں۔“
گوانتا ناموبے جیل میں امریکی فوجیوں کے ظلم و زیادتی کے خلاف ملا عبدالسلام ضعیف نے کئی مرتبہ بھوک ہڑتالیں کیں۔ ایک سے زائد مرتبہ کرزئی حکومت کے نمائندے انہیں ملنے جیل آئے اور مشروط رہائی کی پیشکش کی، ضعیف انکار کرتے رہے۔
No comments:
Post a Comment