پاکستان میں اب انکشاف ہوا ہے کہ انٹر نیٹ پر توہین رسالت یا دیگر مواد روکنے کا کوئی نظام سرے سے موجود ہی نہیں ہے حالانکہ انٹر نیٹ پر اسلام اور پیغمبر اسلام اور قرآن پاک کی توہین جیسے معاملات تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ اطلاعات یہ ہیں کہ حکومت پاکستان نے چند ماہ قبل ایسا نظام بنانے کی کوشش کی تھی مگر پاکستان کی این جی اوز نے اس کےخلاف ایک بہت بڑی مہم چلائی اور عالمی اداروں اور بڑی آئی ٹی کمپنیز کو باقاعدہ
خطوط لکھے کہ اس سلسلے میں پاکستان کی کوئی مدد نہ کی جائے اور اسے انسانی بنیادی حقوق کی خلاف ورزی تصور کیا جائے۔ اس مہم کے بعد حکومت پاکستان بھی ٹھنڈی ہو کر بیٹھ گئی اور اب یہ نیا حادثہ پیش آیا ہے جسے روکنے کی تمام کوششیں ناکام ہوگئی ہیں۔ یو ٹیوبلاک کرنے کے بعد بھی انٹر نیٹ پر ایسی ویڈیوز کئی جگہوںپر موجود ہیں۔گو کہحکام کی جانب سے یہ احساس ہونے پر کہ گوگل کے ساتھ حکومت پاکستان کا معاہدہ نہیں ہے لہٰذا ایسی صورت میں یوٹیوب کی ویب سائٹ کو مکمل طور پر بلاک کردیا گیا۔ پاکستان ٹیلی کام اتھارٹی اور دیگر اداروں کی جانب سے وزیراعظم اور سپریم کورٹ کو بھیجی جانے والی تجویز کے بعد وزیراعظم پاکستان نے ملک میں یوٹیوب کو چند روز کیلئے بلاک کرنے کا حکم دیا تاکہ حالیہ اسلام مخالف فلم کے پاکستان میں پھیلاؤ کو روکا جا سکے۔ بھارت اور انڈونیشیا جیسے ممالک نے گوگل اور یوٹیوب انتظامیہ کے ساتھ مل کر پہلے ہی اس طرح کا توہین آمیز مواد پھیلانے والی ویب سائٹس کو بلاک کرنے کا معاہدہ کردیا ہے لیکن اس معاملے میں پاکستان اپنے آئی ٹی حکام کی نااہلی کی وجہ سے بے بس نظر آ رہا ہے کیونکہ گوگل کے ساتھ کوئی معاہدہ کیا گیا ہے اور نہ ہی توہین آمیز اور فحش مواد روکنے کیلئے فلٹریشن سسٹم نصب ہے۔ واضح رہے کہ دنیا کےتقریبا تمام مما لک نے ایسے انٹر نیٹ فلٹریشن نظام اپنا رکھے ہیں جو متنازعہ یا غیر متعلقہ مواد پر اس ملک میں انٹر نیٹ پر نہیں آنے دیتے۔ اس سلسلے میں پاکستان نے رواں برس مارچ میں کوششیں شروع کی تھیں تاکہ ایسا مستحکم انٹر نیٹ فلٹریشن نظام اپنایا جا سکے اور اس سلسلے میں عالمی اور قومی اخبارات میں ٹینڈر بھی طلب کئے گئے تھے۔ اس کےبعد کئی این جی اوز نے بڑی مہم شروع کردی۔ اس سلسلے میں منسٹری آف انفارمیشن ٹیکنالوجی نے اشتہار دیا تھا اور ٹینڈر کی مالیت 10 میلین ڈالر رکھی تھی۔ اس نظام کے تحت خود کار طور پر ایسی تمام ویب سائٹس بلاک ہوجاتیں جہاں توہین آمیز مواد موجود ہوتا۔ موجودہ طریقہ کار کے مطابق ایک ایک ویب سائٹ کو خود ہی ڈھونڈ کر بلاک کرنا پڑتا ہےاور یہ ناممکن ہے کہ اس طرح ایسی تمام ویب سائٹس کو بلاک کردیا جائے کیونکہ ہر وقت ایسا مواد نئی ویب سائٹس پر آتا رہتا ہے ۔ درجنوں اسلامی ممالک اور امریکہ سمیت تمام ترقی یافتہ ممالک ایسے نظام استعمال کررہے ہیں۔ تاہم پاکستان میں این جی اوز کیجانب سے شدید مخالفت اور عالمی مہم چلائے جانے کے بعد یہ پروجیکٹ وہیں پر رک گیا۔
خطوط لکھے کہ اس سلسلے میں پاکستان کی کوئی مدد نہ کی جائے اور اسے انسانی بنیادی حقوق کی خلاف ورزی تصور کیا جائے۔ اس مہم کے بعد حکومت پاکستان بھی ٹھنڈی ہو کر بیٹھ گئی اور اب یہ نیا حادثہ پیش آیا ہے جسے روکنے کی تمام کوششیں ناکام ہوگئی ہیں۔ یو ٹیوبلاک کرنے کے بعد بھی انٹر نیٹ پر ایسی ویڈیوز کئی جگہوںپر موجود ہیں۔گو کہحکام کی جانب سے یہ احساس ہونے پر کہ گوگل کے ساتھ حکومت پاکستان کا معاہدہ نہیں ہے لہٰذا ایسی صورت میں یوٹیوب کی ویب سائٹ کو مکمل طور پر بلاک کردیا گیا۔ پاکستان ٹیلی کام اتھارٹی اور دیگر اداروں کی جانب سے وزیراعظم اور سپریم کورٹ کو بھیجی جانے والی تجویز کے بعد وزیراعظم پاکستان نے ملک میں یوٹیوب کو چند روز کیلئے بلاک کرنے کا حکم دیا تاکہ حالیہ اسلام مخالف فلم کے پاکستان میں پھیلاؤ کو روکا جا سکے۔ بھارت اور انڈونیشیا جیسے ممالک نے گوگل اور یوٹیوب انتظامیہ کے ساتھ مل کر پہلے ہی اس طرح کا توہین آمیز مواد پھیلانے والی ویب سائٹس کو بلاک کرنے کا معاہدہ کردیا ہے لیکن اس معاملے میں پاکستان اپنے آئی ٹی حکام کی نااہلی کی وجہ سے بے بس نظر آ رہا ہے کیونکہ گوگل کے ساتھ کوئی معاہدہ کیا گیا ہے اور نہ ہی توہین آمیز اور فحش مواد روکنے کیلئے فلٹریشن سسٹم نصب ہے۔ واضح رہے کہ دنیا کےتقریبا تمام مما لک نے ایسے انٹر نیٹ فلٹریشن نظام اپنا رکھے ہیں جو متنازعہ یا غیر متعلقہ مواد پر اس ملک میں انٹر نیٹ پر نہیں آنے دیتے۔ اس سلسلے میں پاکستان نے رواں برس مارچ میں کوششیں شروع کی تھیں تاکہ ایسا مستحکم انٹر نیٹ فلٹریشن نظام اپنایا جا سکے اور اس سلسلے میں عالمی اور قومی اخبارات میں ٹینڈر بھی طلب کئے گئے تھے۔ اس کےبعد کئی این جی اوز نے بڑی مہم شروع کردی۔ اس سلسلے میں منسٹری آف انفارمیشن ٹیکنالوجی نے اشتہار دیا تھا اور ٹینڈر کی مالیت 10 میلین ڈالر رکھی تھی۔ اس نظام کے تحت خود کار طور پر ایسی تمام ویب سائٹس بلاک ہوجاتیں جہاں توہین آمیز مواد موجود ہوتا۔ موجودہ طریقہ کار کے مطابق ایک ایک ویب سائٹ کو خود ہی ڈھونڈ کر بلاک کرنا پڑتا ہےاور یہ ناممکن ہے کہ اس طرح ایسی تمام ویب سائٹس کو بلاک کردیا جائے کیونکہ ہر وقت ایسا مواد نئی ویب سائٹس پر آتا رہتا ہے ۔ درجنوں اسلامی ممالک اور امریکہ سمیت تمام ترقی یافتہ ممالک ایسے نظام استعمال کررہے ہیں۔ تاہم پاکستان میں این جی اوز کیجانب سے شدید مخالفت اور عالمی مہم چلائے جانے کے بعد یہ پروجیکٹ وہیں پر رک گیا۔
No comments:
Post a Comment