Thursday, October 11, 2012

فدائی[استشهادی]حملہ شریعت کی روشنی میں





فدائی[استشهادی]حملہ شریعت کی روشنی میں

سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کے بھائی عامر بن اکوع رضی اللہ عنہ کو دوران جہاد اپنی ہی تلوار لگی جس سے وہ شہید ہوگئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ یہ ایسا شخص ہے جو اللہ کی اطاعت اور جہاد کرتے ہوئے شہید ہوا ہے۔ (مسلم) اس سے معلوم ہوا کہ دوران جنگ اگر کوئی اپنی تلوار یا بم سے قتل ہو، وہ شہید ہے اور جو اللہ کی اطاعت اور جہاد کرتے ہوئے فدائی حملے
کرتے ہیں اور مارے جاتے ہیں، وہ انشاء اللہ شہید ہیں۔ اسی طرح ایک مجاہد بنی جہینہ پر یلغار کرتے ہوئے چوک گیا اور خود اس کی اپنی ہی تلوار اسے لگ گئی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ شہید ہے (ابوداؤد)

عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ ایک مجاہد نے اپنے آپ کو لڑائی میں جھونک دیا اور وہ قتل کردیا گیا تو لوگ کہتے ہیں کہ اس نے اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالا اور خودکشی کی۔ آپ کی کیا رائے ہے؟ فرمایا: لوگوں نے جھوٹ کہا۔ اس نے تو دنیا کے بدلے آخرت کو خریدا ہے۔ (فتح الباری)

آج کل رائج طریقہ جنگ میں چونکہ بارود، بم، گولی، زہریلی گیس، جنگی جہاز، بحری جہاز اور میزائل و راکٹ استعمال ہوتے ہیں لہذا موجودہ دور کے فدائی حملے اور سابقہ ادوار میں صحابہ کرام کے فدائی حملوں میں کوئی فرق نہیں۔ اس لئے یہود و نصاری کے خلاف جو حملے ہورہے ہیں ان کا مقصد بھی یہی ہے کہ چاہے خود شہید ہوجائیں لیکن قرآن و سنت پر عمل کرنے میں کوئی رکاوٹ نہ رہے۔ اس لئے اگر دشمن جدید چالوں اور ہتھیاروں سے آپ پر حملہ آور ہو تو مسلمانوں کو بھی اس کے مقابلے کے لئے نت نئی دفاعی تدابیر اور انداز اختیار کرنے چاہئیں۔ ہر دور میں پرانے انداز سے لڑنے پر لڑنے پر اصرار کرنا جنگی تدابیر سے ناواقفیت کی دلیل ہے حالانکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنگ کو چالبازی کا نام دیا ہے۔ (مشکوۃ، مسلم)

فدائی حملہ اور فقہائے کرام:

امام غزالی فرماتے ہیں کہ اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ اکیلا مجاہد لشکر کفار پر تن تنہا حملہ آور ہو تو اس کے لئے جائز ہے اگرچہ اس کو قتل ہوجانے کا یقین ہو۔ اس کے جرات مندانہ اقدام کے نتیجے میں کفار پر شدید رعب ڈال سکتا ہے اور مسلمانوں کے عزائم سے ان پر خوف طاری ہوسکتا ہے۔ (احیاء العلوم)
امام محمد بن حسن نے فرمایا: اگر ایک اکیلا مسلمان ایک ہزار مشرکین کے لشکر پر حملہ آور ہوجائے تو اس میں کوئی حرج نہیں جبکہ وہ اپنی کامیابی اور دشمن کی پسپائی کا امیدوار ہو۔ تاہم اگر وہ اس اقدام سے مسلمانوں کو کفار پر حملہ آور ہونے کے لئے ابھارنا چاہتا ہو یا اپنی قوت کے مظاہرے سے دشمن کو خوفزدہ کرنا چاہتا ہوتو ان صورتوں میں بھی اس کے دلیرانہ اقدام شرعی طور پر جائز اور درست ہیں۔ (جامع الاحکام للقرطبی)



No comments:

Post a Comment