طالبان نے ذمہ داری قبول کر لی !
کالم نگار | طیبہ ضیاءچیمہ
========================== ========
جہاں قاتل نامعلوم رکھنا مقصود ہو وہاں واقعہ کی ذمہ داری طالبان قبول کر لیتے ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کی ذمہ داری بھی طالبان نے قبول کر لی تھی وگرنہ رحمان ملک قاتلوں کو بے نقاب کر کے انہیں کیفر کردار تک پہنچا کر دم لیتے۔ مینگورہ کی چودہ سالہ معصوم ذہین بہادر بچی ملالہ پر قاتلانہ حملے کی ذمہ داری بھی طالبان نے قبول کر لی ورنہ رحمان ملک قاتلوں کی دہلیز تک پہنچ چکے تھے۔ طالبان سنگین جرائم کی ذمہ داری قبول کرنے میں ایک لمحہ نہیں لگاتے مگر سوال یہ پید اہوتا ہے کہ اس جدید دور میں صرف طالبان کی کال ہی ٹریس کیوں نہیں کی جا سکتی؟ پاکستان کا میڈیا بھی مادر پدر آزاد ہے پھر طالبان ہمیشہ فرنگی میڈیا بی بی سی کو ہی فون کر کے کیوں ذمہ داری قبول کرتے ہیں؟ اور دنیا کا شاطر میڈیا کیسے یقین کر لیتا ہے کہ کال طالبان کی طرف سے آئی ہے؟ رحمان ملک جادو کی چھڑی کے زور سے آنکھ جھپکتے ہی قاتلوں تک پہنچ جاتے ہیں، ملالہ کے معاملہ میں کہتے ہیں کہ وہ طالبان کی جانب سے ملالہ یوسف زئی پر حملے کی تصدیق نہیں کر سکتے۔ ان کے بقول حکیم اللہ محسود کی طاقت ختم ہو چکی ہے لہٰذا وہ طالبان کے دعوے کی تصدیق نہیں کر سکتے۔ طالبان نامی مخلوق ٹھہری واجب القتل مگر جس حکومت کی چھتری کے نیچے یہ شرمناک واقعات پیش آتے ہیں انہیں صرف یہ سمجھ کر نظر انداز کر دیا جائے کہ ان میں طالبان شامل نہیں؟ پاکستان میں جہاںکوئی واقعہ پیش آ ئے پاکستان کی حکومت ذمہ دار ہے۔عوام کے جان و مال کی حفاظت کی ذمہ داری عوام سے ووٹ لینے والوں پر عائد ہوتی ہے جبکہ صورتحال یہ ہے کہ پاکستان میں بلی کا بچہ بھی گاڑی نیچے کچل دیا جائے، اس کی ذمہ داری بھی طالبان قبول کر لیتے ہیں۔ ملالہ پر قاتلانہ حملہ واحد واقعہ نہیں، اس طرح کے کئی واقعات ہیں جن کی جانب توجہ دی جائے تو عقدہ کھل جائے گا کہ یا تو طالبان حکومت کے وفادار ہیں یا حکمران طالبان کے محافظ ہیں اور عوام کو بے وقوف بنایا جا رہا ہے۔ سوات میں اپریشن کا فیصلہ واشنگٹن میں طے پا گیا تھا مگر پاک فوج کو اپنے عوام کی سپورٹ درکار تھی۔ وزیرستان میں فوجی کارروائیوں کی وجہ سے عوام فوج سے بدظن ہو رہے تھے۔ خارجہ پالیسی کے تحت بین الاقوامی میڈیا میں پروپیگنڈا شروع کر دیا گیا کہ سوات کے طالبان اسلام آباد سے صرف ساٹھ کلو میٹر دور ہیں اورکسی بھی وقت اسلام آباد پر قابض ہو سکتے ہیں۔ پاکستانی قوم چونکہ انتہا پسندی سے شدید خوفزدہ ہے لہٰذا طالبانائزیشن کا نام سُنتے ہی اس قوم کے ہاتھ پاﺅں پھول گئے اور سوات اپریشن پر نہ صرف آمادہ ہو گئے بلکہ فوجی بھایﺅں کے لئے ترانے گونجنے لگے۔ سوات اپریشن میں پاک فوج کوعوام کی بھر پور حمایت حاصل رہی۔ سوات اپریشن فوج کی کامیاب کارروائی قرار دیا جانے لگا لیکن ملالہ پر قاتلانہ حملہ قوم کو ایک اور اپریشن کی جانب لے جانے کی تیاری معلوم ہو رہا ہے۔ فی الحال تو ملالہ کا اپریشن کامیاب بتایا جا رہا ہے مگر اس کے بعد کس کا اپریشن ہونے جا رہا ہے، اس کی اطلاعات بھی ملنا شروع ہو جائیں گی۔ جہاں تک پاک فوج کا تعلق ہے، ہزاروں جوان اور افسران شہید کرانے کے باوجود ملک کو دہشت گردوں سے نجات دلانے میں ناکام ہے۔ واشنگٹن پوسٹ کہتا ہے کہ ملالہ یوسفزئی پر قاتلانہ حملے سے ثابت ہو گیاہے کہ طالبان میں اب بھی یہ صلاحیت ہے کہ سوات کی وادی میںجسے ایک فوجی کارروائی کے بعد طالبان سے پاک کرنے کا دعویٰ کیا گیا تھا، وہ اب بھی چوری چھپے گھُس کر وارداتیں کر سکتے ہیں۔ دو ماہ قبل مسلح طالبان نے مینگورہ میں سوات ہوٹل ایسوسی ایشن کے صدر کو گولی مار کر شدید زخمی کر دیا تھا اور قسم کھائی تھی کہ حکومت کی حمایت کرنے والے ہر شخص کو نشانہ بنائیں گے۔ امریکی اخبار لکھتا ہے کہ اب تک پاکستانی فوج کے ہزاروں افسر اور جوان طالبان کے خلاف جنگ میں شہید ہو چکے ہیں۔ طالبان کے حملوں میں اب پہلے سے زیادہ شدت آگئی ہے۔ ایک طرف پورے پاکستان میں ملالہ کی صحت یابی کے لئے دعائیں ہو رہی ہیں، حملے کی مذمت کی جا رہی ہے اور دوسری طرف مذہبی جماعتوں نے چُپ سادھ رکھی ہے۔ نیویارک ٹائمز ملالہ یوسفزئی کی ہمت کو خراج تحسین پیش کرنے کے بعد لکھتا ہے کہ ملالہ پر شدت پسندوں کا یہ حملہ ملک کی طاقتور فوج کے لئے ایک دھچکے سے کم نہیں کیوں کہ وہ سوات میں اپنی فوجی کارروائی کو بغاوت کچلنے کی ایک کامیاب مثال کے طور پر پیش کرتی آئی ہے اور سوات ابھی تک فوج کے زیر کنٹرول ہے لیکن منگورہ میں پیش آنے والا یہ واقعہ ثابت کرتا ہے کہ طالبان دوبارہ وہاں پہنچ رہے ہیں۔ امریکی اخبار وال سٹریٹ جنرل بھی سوات پر طالبان کے دو سالہ اقتدار کی یاد تازہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ طالبان نے اس علاقے میں 200 سکول تباہ کر دئیے تھے اور لڑکیوں کی تعلیم کے سخت خلاف تھے۔ پاکستانی فوج نے اپریشن کے دوران طالبان کا زور توڑ ڈالا جبکہ اس کی قیادت فرار ہونے میں کامیاب ہو گئی ۔۔۔ امریکی میڈیا کو طالبان کی سوات واپسی پر تشویش لاحق ہے حالانکہ طالبان وہاں سے گئے ہی نہیں تھے۔ جامعہ حفصہ کی بچیوں کے خوبصورت چہروں کو راکھ بنانا، اگر مشرف کی دہشت گردی کے خلاف جنگ ہے تو ملالہ پر چلنے والی گولی پر بھی ”جواز“ رقم ہے۔طالبان نامی مخلوق دنیاکے خواہ کسی گوشے میں چلی جائے، مغربی میڈیا کے ساتھ رابطہ میں رہتی ہے۔ — with Ayat Ellah.
No comments:
Post a Comment