مقبوضہ کشمیر : 50 دیہات میں ظلم کی 500 داستانیں‘ قدم قدم پر چوکیاں‘ ٹارچر سیل
مقبوضہ کشمیر میں شہریوں کی انجمن برائے انصاف نے شمالی کشمیر کے کپواڑہ اور بارہ مولہ کے پچاس دیہات کا سروے کرنے کے بعد بتایا ہے کہ ان دیہات میں پچھلے بائیس سال کے دوران ہلاکتوں اور جبری گمشدگیوں کے پانچ سو سے زائد معاملے قلم بند کیے گئے۔ مسلح تصادم کے دوران جائیداد کو پہنچے نقصان کا تخمینہ سو کروڑ سے زائد بتایا گیا ہے جبکہ دو ہزار اڑتالیس افراد کے بارے میں کہا گیا ہے کہ مختلف فورسز نے حراست کے دوران ان پر جسمانی تشدد کیا۔ فوج یا دوسری فورسز کے ذریعے جبری مزدوری کا شکار افراد کی تعداد چھ ہزار آٹھ سو اٹھاسی بتائی گئی ہے۔ معروف بھارتی صحافی اور انسانی حقوق کے کارکن گوتم نولکھا نے کشمیری رضا کاروں کے ہمراہ جمعرات کو یہ رپورٹ سرینگر میں جاری کی۔ ان کا کہنا ہے تھا کہ انسانی حقوق کے سرکاری کمشن کو پہلے ہی یہ رپورٹ بھیج دی گئی تھی۔ پریس کانفرنس کے دوران گوتم نولکھا نے بتایا کہ مارے گئے یا لاپتہ پانچ سو دو افراد میں سے چار سو ننانوے مسلمان ہیں، دو کشمیری بولنے والے ہندو (پنڈت) ہیں جبکہ ایک سکھ ہے۔ رپورٹ کے مطابق لائن آف کنٹرول کے قریب واقع بارہ مولہ اور کپواڑہ اضلاع میں پچھلے بائیس سال کے دوران سولہ خواتین سمیت چار سو سینتیس افراد مارے گئے جبکہ پینسٹھ افراد لاپتہ ہو گئے۔ کل ہلاکتوں میں سے تین سو بیس کے لئے سرکاری ایجنسیوں کو ذمہ دار بتایا گیا ہے جبکہ کچھ نامعلوم افراد کے سر ہیں۔ شہریوں کی انجمن برائے انصاف یا سٹیزنز کونسل فار جسٹس (سی سی جے) کی اس رپورٹ میں بارہ مولہ اور کپواڑہ کے پچاس دیہات کا تفصیلی خاکہ بھی پیش کیا گیا ہے۔ اس کے مطابق صرف ایک لاکھ اکسٹھ ہزار نفوس پر مشتمل پچاس گاو¿ں کی آبادی میں فوج اور نیم فوجی عملہ کی ایک سو پینتالیس تنصیبات ہیں۔ ان میں وسیع رقبے پر پھیلے فوج کے کیمپ بھی ہیں۔ بائیس سرکاری اور غیر سرکاری عمارات بھی فوج یا نیم فوجی عملے کے زیرِ تصرف ہیں۔ رپورٹ میں لکھا ہے کہ یہ فوجی تنصیبات دو ہزار سینتالیس کنال رقبہ زمین پر قابض ہیں اور اس کے علاوہ ستاون ایسے مقامات ہیں جہاں مشتبہ افراد پر جسمانی تشدد کیا گیا۔ سی سی جے کا دعویٰ ہے کہ ان دیہات میں ستاون ٹارچر مراکز قائم ہیں۔ رپورٹ کے ابتدائیہ میں کہا گیا ہے کہ ان دیہات کا سروے کرنے کے لئے مقامی رضاکاروں نے کام کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ لوگوں نے معلومات فراہم کرنے میں تعاون کیا۔ رپورٹ جاری کرتے وقت گوتم نولکھا نے کہا کہ صرف پچاس دیہات میں ظلم کی پانچ سو داستانیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ رپورٹ جموں و کشمیر کی حکومت اور انسانی حقوق کے سرکاری کمشن کو بھی پیش کی جا رہی ہے۔ رپورٹ میں متاثرین کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ ان پر ہوئی زیادتیوں کا معقول معاوضہ اور مکمل انصاف چاہتے ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ پچھلے چند ماہ سے گوتم نولکھا کو کشمیر آنے کی اجازت نہیں دی گئی اور انہیں کئی بار ایئرپورٹ سے ہی واپس دلی بھیج دیا گیا۔
No comments:
Post a Comment